کمبھ میلے میں شریک زائرین انڈیا میں کورونا کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کا سبب کیسے بنے

انتہا

محفلین
کووڈ 19: کمبھ میلے میں شریک زائرین انڈیا میں کورونا کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کا سبب کیسے بنے
10 مئ 2021
_118442518_7054f83f-4d92-4c68-b058-756f57261b63.jpg

،تصویر کا ذریعہANADOLU AGENCY

گذشتہ ماہ انڈیا کے ہمالیائی شہر ہریدوار میں منعقدہ کمبھ میلے میں جب لاکھوں ہندو عقیدت مند جمع ہوئے تو انڈیا کے مختلف حصے کووڈ کی دوسری تباہ کُن لہر کا سامنا کر رہے تھے۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ یہ تہوار کہیں ’سپر سپریڈر‘ ثابت نہ ہو۔

ایسا لگتا ہے کہ آج یہ خدشات سچ ثابت ہو رہے ہیں اور کمبھ میلے سے واپس آنے والے زائرین میں کورونا انفیکشن کے بڑھتے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں اور ممکنہ طور پر یہاں جانے والے زائرین کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہ پھیل رہا ہے۔

کمبھ میں شاہی غسل کے دوران بڑی بھیڑ امڈ آئی تھی اور تمام تر احتیاطی تدابیر کے بعد بھی کئی اکھاڑوں کے بہت سے سنت سادھو کووڈ کی گرفت میں آ گئے لیکن مختلف اکھاڑوں کے سادھو اموات کے باوجود اب بھی اس کے منکر ہیں۔

بی بی سی کی نمائندہ گیتا پانڈے کے مطابق 80 سالہ مہنت شنکر داس کو ہریدوار پہنچنے کے چار دن بعد ہی کووڈ ہو گیا تھا۔ انھیں آئیسولیشن میں رہنے کے لیے کہا گیا لیکن وہ وہاں سے ایک ہزار کلومیٹر دور بنارس آ گئے جہاں ان کے بیٹے ناگیندر پاٹھک نے ان کا ریلوے سٹیشن پر استقبال کیا اور وہ ایک ٹیکسی سے 20 کلومیٹر دور مرزا پور ضلعے میں واقعے اپنے گاؤں پہنچے۔

مہنت داس نے فون پر بتایا کہ اب وہ صحت مند ہیں اور انھوں نے خود کو گھر پر قرنطینہ میں رکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سے کسی کو کورنا نہیں پھیلا لیکن چند دن بعد ہی ان بیٹے کے ساتھ گاؤں کے کئی دوسرے افراد میں کووڈ کی علامات نمایاں ہونے لگیں۔ پاٹھک اب صحت مند ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ دو ہفتے میں ان کے گاؤں میں کھانسی بخار سے 13 افراد کی موت ہوئی ہے۔‘

اگرچہ مہنت داس کی وجہ سے گاؤں میں کورنا نہ پہنچا ہو لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا رویہ غیر ذمہ دارانہ تھا۔

_118442520_0811564e-70af-4022-8c0d-3c899b5f02b9.jpg

،تصویر کا ذریعہEPA/IDREES MOHAMMED

دوسری جانب صحافی سمیر آتماج بتات بتاتے ہیں کہ ہریدوار میں صورتحال اس قدر سنگین ہو گئی کہ کچھ اکھاڑوں نے آخری شاہی غسل سے دو ہفتے قبل ہی اپنی جانب سے کمبھ کے اختتام کا اعلان کر دیا اور وہ اپنے اپنے علاقوں کو واپس لوٹنے لگے۔

لیکن کووڈ کے پھیلاؤ کے اثرات بعد میں نمایاں ہوئے اور بہت سے سادھو کووڈ کی گرفت میں آئے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کی موت بھی ہو گئی۔

اس سب کے باوجود سنتوں اور سادھوں کو اس بات کا افسوس نہیں کہ کنبھ میلہ کووڈ انفیکشن میں اضافے کا سبب بنا یا پھر اگر کمبھ نہ ہوتا تو اس کی رفتار اس قدر تیز نہیں ہوتی۔

ہریدوار کے کمبھ سے واپس آنے والے جونا اکھاڑے کے سنت سوامی پرگیانند گیری کا دو روز قبل انتقال ہو گیا ہے۔

سوامی پرگیانند گیری ہریدوار سے آنے کے بعد ورنداون میں تھے اور کورونا انفیکشن کے بعد پریاگراج کے سوروپ رانی نہرو ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ اس سے قبل مختلف اکھاڑوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک درجن سادھوؤں کی بھی کورونا انفیکشن کی وجہ سے موت ہو چکی ہے اور یہ تمام سادھو ہریدوار کے کمبھ میلے میں شریک تھے۔

_118442521_282afbcd-c9b5-4d80-ac00-e53fcf6a2970.jpg

،تصویر کا ذریعہREUTERS

کمبھ میلے کے اہم ترین شنان (غسل) کے دوران ہی 13 اپریل کو نروانی اکھاڑے کے مہامنڈلیشور کپل دیو کی کورونا انفیکشن سے موت ہو گئی تھی جس کے بعد مختلف اکھاڑوں میں کورونا کی جانچ کے بعد سادھوں کی بڑی تعداد میں انفیکشن پایا گیا۔

کچھ لوگوں کو اکھاڑے میں ہی آئیسولیٹ کرکے علاج کیا گیا جہاں کچھ افراد کی موت بھی ہو گئی۔

کمبھ میلے کے دوران ہی نرنجنی اکھاڑے کے مہنت اور آل انڈیا اکھاڑا پریشد کے صدر نریندر گیری بھی کورونا پازیٹو ہوئے اور حالت تشویشناک ہونے کے بعد انھیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔

مہنت نریندر گیری صحتیاب ہو چکے ہیں لیکن اس وقت انفیکشن کی وجہ سے وہ شاہی غسل میں بھی شامل نہیں ہو سکے تھے۔

بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں سوامی نریندر گیری کا کہنا ہے ’اگر کورونا کی بیماری پھیلی ہے تو وہ سب کو ہو رہی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کنبھ میلہ چل رہا ہے یا الیکشن ہو رہا ہے۔ جہاں یہ دونوں چیزیں نہیں ہو رہی تھیں کیا وہاں یہ بیماری نہیں پھیلی؟ اور جب یہ سب کو ہو رہی ہے تو پھر سادھو بھی اس کی زد میں آ گئے۔ لیکن حکومت نے اچھے نتظامات کیے تھے اور سب کا علاج ہوا۔ اب ہمارے ہمارے یہاں اکھاڑے میں تو ڈاکٹر نہیں ہوتے ہیں۔‘

_118442522_ed069098-2a8c-49ff-a43b-15161c761af4.jpg

،تصویر کا ذریعہREUTERS

نریندر گیری کا کہنا ہے کہ اگر کمبھ میلہ ملتوی بھی کر دیا جاتا تو بھی انفیکشن کی رفتار میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی مدت کم نہیں کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے کہا: ’مجھ سمیت مجموعی طور پر چھ افراد کو ہمارے اکھاڑے میں انفیکشن ہوا۔ پانچ سادھووں کی موت ہو گئی۔ دوسرے اکھاڑوں کے بھی بہت سے سادھوؤں کو انفیکشن ہوا جس میں تقریباً دس سادھو فوت ہو گئے، باقی سارے بحفاظت لوٹ آئے۔‘

مہانروانی اکھاڑے کے بہت سے سادھو بھی کورونا سے متاثر ہوئے تھے لیکن اس اکھاڑہ کے سربراہ رام سیوک گیری اسے ’خدا کی مرضی‘ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ تو اس آفت سے بچا جا سکتا ہے اور نہ ہی کمبھ کے انعقاد کو ٹالا جا سکتا تھا۔

مہنت رام سیوک گیری نے کہا: ’غور کرنے کی بات ہے کہ سادھو بھی اسی سرزمین میں ہیں، وہ وہاں سے باہر تو نہیں ہیں۔ لہذا جو آفت آئی ہے وہ سادھوؤں کے لیے بھی آئی ہے۔ یہ سنتوں اور سادھوؤں کو نہیں چھوڑے گی۔ یہ خدا کی مرضی ہے اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اس پر سوچنا بیکار ہے۔‘

رام سیوک گیری کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر لوگ گنگا کے اصل پانی میں نہاتے تو کسی کو بھی انفکشن نہ ہوتا۔

بہت ناراضگی سے انھون نے کہا: ’جہاں جذبہ ہے وہاں خدا ہے۔ گنگا تو ختم ہو چکی ہے۔ گنگا کہاں ہے؟ وہاں تو آپ نے ڈیم بنا کر دھارا کو ہی روک دیا اور آپ اس میں نجات پانا چاہتے ہیں؟ دریائے گنگا کے مقدس پانی میں نہاتے تو تمام بیماریاں اور گناہ دور ہو جاتے اور ہم نجات بھی حاصل کرتے۔ اب ہمیں صرف رسم نبھانی ہے، روایت کو برقرار رکھنا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟'

_118442523_733096fe-f559-4b48-b18b-77c0c46efd64.jpg

،تصویر کا ذریعہEPA

سب سے بڑے اکھاڑے جونا ایرینا میں بھی بہت سے سادھو کووڈ 19 سے متاثر ہوئے جن مین تین سادھوؤں کی موت ہو گئی۔ اکھاڑے کے مہنت ہری گری جی مہاراج کا کہنا ہے کہ اگر کوئی آفت آتی ہے تو اس کا اثر سب پر ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ اس کا سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم اس پر زیادہ بات کریں گے تو مذا‍ق اڑایا جائے گا لیکن لوگ اپنے اپنے انداز میں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حکومت کی تنقید ہو۔‘

’کورونا کی وجہ سے ہی امریکہ میں صدر چلے گئے۔ یہاں بھی اثر ہو گا، دیکھتے رہیں۔ تباہی تو بہرحال آنی ہی تھی لیکن کمبھ اور انتخابات کے نام پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان سب کا سیاسی اثر ہو گا۔ نہ صرف 2022 کے انتخابات میں بلکہ اس کے بعد بھی۔‘

مہنت ہری گری کہتے ہیں: ’اکھاڑے کے سنت عام لوگوں سے دور رہتے ہیں لیکن ہوا میں اڑنے والا وائرس کسی کے روکے رک نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے اکھاڑوں کے کچھ لوگ اس میں پھنس گئے۔ لیکن ان کے معمول اور طرز زندگی سے انھیں زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔‘

اسی دوران بعض اکھاڑوں کے مہنتوں کا کہنا ہے کہ کمبھ کی وجہ سے کوئی انفیکشن نہیں پھیلا اور نہ ہی سادھو سنتوں پر اس کا کوئی خاص اثر ہوا۔ دگمبر اکھاڑے کے مہنت کشن داس کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک ہریدوار میں ہیں اور ان کے اکھاڑے میں ایک بھی انفیکشن نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا: ’کمبھ میں کوئی بیماری نہیں تھی۔ کورونا کا کوئی قہر نہیں تھا۔ باہر سے آنے والے کچھ لوگوں کو ہوا ہو گا۔ ان کے زیر اثر کچھ سنت سادھو بھی آئے ہوں گے۔ ہمارے اکھاڑے میں کوئی بیمار نہیں ہوا، کوئی انفیکشن نہیں ہوا۔ تمام سادھو اب بھی یہاں موجود ہیں۔‘

_118442525_690139e3-7fea-455f-8fef-d93d366c5479.jpg

،تصویر کا ذریعہREUTERS

نرموہی اکھاڑہ کے سربراہ راجیندر داس نے بھی اس سے انکار کیا کہ کسی سادھو کو انفیکشن ہوا تھا۔ وہ انتہائی لاپروائی سے کہتے ہیں: ’سب خوش و خرم ہیں۔ اکھاڑے کے سارے سادھو ابھی بھی ہریدوار میں ہمارے ساتھ ہیں۔ میرے پاس ہیں۔ میرے اکھاڑے میں کسی کو کچھ نہیں ہوا۔‘

تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہریدوار میں کورونا انفیکشن کے کل دو ہزار 642 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں بہت سے مذہبی رہنما اور سنت شامل ہیں۔

یہاں سے واپس جانے کے بعد بہت سارے لوگ کورونا پازیٹو پائے گئے جن میں اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو، نیپال کے سابق بادشاہ گیانیندر شاہ اور ملکہ کومل شاہ بھی شامل ہیں۔

کمبھ سے واپسی کے بعد بالی وڈ کے مشہور موسیقار شرون راٹھور کی ممبئی کے ایک ہسپتال میں موت ہو گئی۔ شرون راٹھور موسیقار 'ندیم شرون' جوڑی کے شرون ہیں۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

ہریدوار میں کمبھ میلے کے دوران ریاستی حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار جو ڈیوٹی پر تھے انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اکھاڑوں کی بات تو چھوڑیے، عقیدت مندوں کی تو ٹھیک سے جانچ تک نہیں ہوئی اور جب لوگ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو وہ اپنے ساتھ انفیکشن لے جائيں گے۔

انھوں نے کہا: ’اکھاڑوں نے تو اپنے سادھووں کے کووڈ ٹیسٹ کی اجازت ہی بہت مشکل سے دی۔ سادھو جانچ کے لیے راضی نہیں تھے۔ جب مہامندلیشور کی موت ہو گئی تھی اور اکھاڑے کے سربراہ بھی متاثر ہو گئے تو کہیں تھوڑی بہت جانچ کی اجازت ملی۔‘

میلے کے دوران واضح ہدایات تھی کہ باہر سے آنے والے عقیدت مند دو دن قبل کی کووڈ منفی رپورٹ لائیں لیکن اس سختی کے باوجود کمبھ میں انفیکشن کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد اتراکھنڈ میں بھی انفیکشن کی شرح تیزی سے بڑھنے لگی۔
کمبھ میلے میں شریک سادھو انڈیا میں کورونا کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کا سبب کیسے بنے - BBC News اردو
 

جاسم محمد

محفلین
کووڈ 19: کمبھ میلے میں شریک زائرین انڈیا میں کورونا کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کا سبب کیسے بنے
10 مئ 2021
_118442518_7054f83f-4d92-4c68-b058-756f57261b63.jpg

،تصویر کا ذریعہANADOLU AGENCY

گذشتہ ماہ انڈیا کے ہمالیائی شہر ہریدوار میں منعقدہ کمبھ میلے میں جب لاکھوں ہندو عقیدت مند جمع ہوئے تو انڈیا کے مختلف حصے کووڈ کی دوسری تباہ کُن لہر کا سامنا کر رہے تھے۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ یہ تہوار کہیں ’سپر سپریڈر‘ ثابت نہ ہو۔

ایسا لگتا ہے کہ آج یہ خدشات سچ ثابت ہو رہے ہیں اور کمبھ میلے سے واپس آنے والے زائرین میں کورونا انفیکشن کے بڑھتے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں اور ممکنہ طور پر یہاں جانے والے زائرین کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہ پھیل رہا ہے۔

کمبھ میں شاہی غسل کے دوران بڑی بھیڑ امڈ آئی تھی اور تمام تر احتیاطی تدابیر کے بعد بھی کئی اکھاڑوں کے بہت سے سنت سادھو کووڈ کی گرفت میں آ گئے لیکن مختلف اکھاڑوں کے سادھو اموات کے باوجود اب بھی اس کے منکر ہیں۔

بی بی سی کی نمائندہ گیتا پانڈے کے مطابق 80 سالہ مہنت شنکر داس کو ہریدوار پہنچنے کے چار دن بعد ہی کووڈ ہو گیا تھا۔ انھیں آئیسولیشن میں رہنے کے لیے کہا گیا لیکن وہ وہاں سے ایک ہزار کلومیٹر دور بنارس آ گئے جہاں ان کے بیٹے ناگیندر پاٹھک نے ان کا ریلوے سٹیشن پر استقبال کیا اور وہ ایک ٹیکسی سے 20 کلومیٹر دور مرزا پور ضلعے میں واقعے اپنے گاؤں پہنچے۔

مہنت داس نے فون پر بتایا کہ اب وہ صحت مند ہیں اور انھوں نے خود کو گھر پر قرنطینہ میں رکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سے کسی کو کورنا نہیں پھیلا لیکن چند دن بعد ہی ان بیٹے کے ساتھ گاؤں کے کئی دوسرے افراد میں کووڈ کی علامات نمایاں ہونے لگیں۔ پاٹھک اب صحت مند ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ دو ہفتے میں ان کے گاؤں میں کھانسی بخار سے 13 افراد کی موت ہوئی ہے۔‘

اگرچہ مہنت داس کی وجہ سے گاؤں میں کورنا نہ پہنچا ہو لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا رویہ غیر ذمہ دارانہ تھا۔

_118442520_0811564e-70af-4022-8c0d-3c899b5f02b9.jpg

،تصویر کا ذریعہEPA/IDREES MOHAMMED

دوسری جانب صحافی سمیر آتماج بتات بتاتے ہیں کہ ہریدوار میں صورتحال اس قدر سنگین ہو گئی کہ کچھ اکھاڑوں نے آخری شاہی غسل سے دو ہفتے قبل ہی اپنی جانب سے کمبھ کے اختتام کا اعلان کر دیا اور وہ اپنے اپنے علاقوں کو واپس لوٹنے لگے۔

لیکن کووڈ کے پھیلاؤ کے اثرات بعد میں نمایاں ہوئے اور بہت سے سادھو کووڈ کی گرفت میں آئے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کی موت بھی ہو گئی۔

اس سب کے باوجود سنتوں اور سادھوں کو اس بات کا افسوس نہیں کہ کنبھ میلہ کووڈ انفیکشن میں اضافے کا سبب بنا یا پھر اگر کمبھ نہ ہوتا تو اس کی رفتار اس قدر تیز نہیں ہوتی۔

ہریدوار کے کمبھ سے واپس آنے والے جونا اکھاڑے کے سنت سوامی پرگیانند گیری کا دو روز قبل انتقال ہو گیا ہے۔

سوامی پرگیانند گیری ہریدوار سے آنے کے بعد ورنداون میں تھے اور کورونا انفیکشن کے بعد پریاگراج کے سوروپ رانی نہرو ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ اس سے قبل مختلف اکھاڑوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک درجن سادھوؤں کی بھی کورونا انفیکشن کی وجہ سے موت ہو چکی ہے اور یہ تمام سادھو ہریدوار کے کمبھ میلے میں شریک تھے۔

_118442521_282afbcd-c9b5-4d80-ac00-e53fcf6a2970.jpg

،تصویر کا ذریعہREUTERS

کمبھ میلے کے اہم ترین شنان (غسل) کے دوران ہی 13 اپریل کو نروانی اکھاڑے کے مہامنڈلیشور کپل دیو کی کورونا انفیکشن سے موت ہو گئی تھی جس کے بعد مختلف اکھاڑوں میں کورونا کی جانچ کے بعد سادھوں کی بڑی تعداد میں انفیکشن پایا گیا۔

کچھ لوگوں کو اکھاڑے میں ہی آئیسولیٹ کرکے علاج کیا گیا جہاں کچھ افراد کی موت بھی ہو گئی۔

کمبھ میلے کے دوران ہی نرنجنی اکھاڑے کے مہنت اور آل انڈیا اکھاڑا پریشد کے صدر نریندر گیری بھی کورونا پازیٹو ہوئے اور حالت تشویشناک ہونے کے بعد انھیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔

مہنت نریندر گیری صحتیاب ہو چکے ہیں لیکن اس وقت انفیکشن کی وجہ سے وہ شاہی غسل میں بھی شامل نہیں ہو سکے تھے۔

بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں سوامی نریندر گیری کا کہنا ہے ’اگر کورونا کی بیماری پھیلی ہے تو وہ سب کو ہو رہی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کنبھ میلہ چل رہا ہے یا الیکشن ہو رہا ہے۔ جہاں یہ دونوں چیزیں نہیں ہو رہی تھیں کیا وہاں یہ بیماری نہیں پھیلی؟ اور جب یہ سب کو ہو رہی ہے تو پھر سادھو بھی اس کی زد میں آ گئے۔ لیکن حکومت نے اچھے نتظامات کیے تھے اور سب کا علاج ہوا۔ اب ہمارے ہمارے یہاں اکھاڑے میں تو ڈاکٹر نہیں ہوتے ہیں۔‘

_118442522_ed069098-2a8c-49ff-a43b-15161c761af4.jpg

،تصویر کا ذریعہREUTERS

نریندر گیری کا کہنا ہے کہ اگر کمبھ میلہ ملتوی بھی کر دیا جاتا تو بھی انفیکشن کی رفتار میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی مدت کم نہیں کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے کہا: ’مجھ سمیت مجموعی طور پر چھ افراد کو ہمارے اکھاڑے میں انفیکشن ہوا۔ پانچ سادھووں کی موت ہو گئی۔ دوسرے اکھاڑوں کے بھی بہت سے سادھوؤں کو انفیکشن ہوا جس میں تقریباً دس سادھو فوت ہو گئے، باقی سارے بحفاظت لوٹ آئے۔‘

مہانروانی اکھاڑے کے بہت سے سادھو بھی کورونا سے متاثر ہوئے تھے لیکن اس اکھاڑہ کے سربراہ رام سیوک گیری اسے ’خدا کی مرضی‘ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ تو اس آفت سے بچا جا سکتا ہے اور نہ ہی کمبھ کے انعقاد کو ٹالا جا سکتا تھا۔

مہنت رام سیوک گیری نے کہا: ’غور کرنے کی بات ہے کہ سادھو بھی اسی سرزمین میں ہیں، وہ وہاں سے باہر تو نہیں ہیں۔ لہذا جو آفت آئی ہے وہ سادھوؤں کے لیے بھی آئی ہے۔ یہ سنتوں اور سادھوؤں کو نہیں چھوڑے گی۔ یہ خدا کی مرضی ہے اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اس پر سوچنا بیکار ہے۔‘

رام سیوک گیری کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر لوگ گنگا کے اصل پانی میں نہاتے تو کسی کو بھی انفکشن نہ ہوتا۔

بہت ناراضگی سے انھون نے کہا: ’جہاں جذبہ ہے وہاں خدا ہے۔ گنگا تو ختم ہو چکی ہے۔ گنگا کہاں ہے؟ وہاں تو آپ نے ڈیم بنا کر دھارا کو ہی روک دیا اور آپ اس میں نجات پانا چاہتے ہیں؟ دریائے گنگا کے مقدس پانی میں نہاتے تو تمام بیماریاں اور گناہ دور ہو جاتے اور ہم نجات بھی حاصل کرتے۔ اب ہمیں صرف رسم نبھانی ہے، روایت کو برقرار رکھنا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟'

_118442523_733096fe-f559-4b48-b18b-77c0c46efd64.jpg

،تصویر کا ذریعہEPA

سب سے بڑے اکھاڑے جونا ایرینا میں بھی بہت سے سادھو کووڈ 19 سے متاثر ہوئے جن مین تین سادھوؤں کی موت ہو گئی۔ اکھاڑے کے مہنت ہری گری جی مہاراج کا کہنا ہے کہ اگر کوئی آفت آتی ہے تو اس کا اثر سب پر ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ اس کا سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم اس پر زیادہ بات کریں گے تو مذا‍ق اڑایا جائے گا لیکن لوگ اپنے اپنے انداز میں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حکومت کی تنقید ہو۔‘

’کورونا کی وجہ سے ہی امریکہ میں صدر چلے گئے۔ یہاں بھی اثر ہو گا، دیکھتے رہیں۔ تباہی تو بہرحال آنی ہی تھی لیکن کمبھ اور انتخابات کے نام پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان سب کا سیاسی اثر ہو گا۔ نہ صرف 2022 کے انتخابات میں بلکہ اس کے بعد بھی۔‘

مہنت ہری گری کہتے ہیں: ’اکھاڑے کے سنت عام لوگوں سے دور رہتے ہیں لیکن ہوا میں اڑنے والا وائرس کسی کے روکے رک نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے اکھاڑوں کے کچھ لوگ اس میں پھنس گئے۔ لیکن ان کے معمول اور طرز زندگی سے انھیں زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔‘

اسی دوران بعض اکھاڑوں کے مہنتوں کا کہنا ہے کہ کمبھ کی وجہ سے کوئی انفیکشن نہیں پھیلا اور نہ ہی سادھو سنتوں پر اس کا کوئی خاص اثر ہوا۔ دگمبر اکھاڑے کے مہنت کشن داس کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک ہریدوار میں ہیں اور ان کے اکھاڑے میں ایک بھی انفیکشن نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا: ’کمبھ میں کوئی بیماری نہیں تھی۔ کورونا کا کوئی قہر نہیں تھا۔ باہر سے آنے والے کچھ لوگوں کو ہوا ہو گا۔ ان کے زیر اثر کچھ سنت سادھو بھی آئے ہوں گے۔ ہمارے اکھاڑے میں کوئی بیمار نہیں ہوا، کوئی انفیکشن نہیں ہوا۔ تمام سادھو اب بھی یہاں موجود ہیں۔‘

_118442525_690139e3-7fea-455f-8fef-d93d366c5479.jpg

،تصویر کا ذریعہREUTERS

نرموہی اکھاڑہ کے سربراہ راجیندر داس نے بھی اس سے انکار کیا کہ کسی سادھو کو انفیکشن ہوا تھا۔ وہ انتہائی لاپروائی سے کہتے ہیں: ’سب خوش و خرم ہیں۔ اکھاڑے کے سارے سادھو ابھی بھی ہریدوار میں ہمارے ساتھ ہیں۔ میرے پاس ہیں۔ میرے اکھاڑے میں کسی کو کچھ نہیں ہوا۔‘

تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہریدوار میں کورونا انفیکشن کے کل دو ہزار 642 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں بہت سے مذہبی رہنما اور سنت شامل ہیں۔

یہاں سے واپس جانے کے بعد بہت سارے لوگ کورونا پازیٹو پائے گئے جن میں اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو، نیپال کے سابق بادشاہ گیانیندر شاہ اور ملکہ کومل شاہ بھی شامل ہیں۔

کمبھ سے واپسی کے بعد بالی وڈ کے مشہور موسیقار شرون راٹھور کی ممبئی کے ایک ہسپتال میں موت ہو گئی۔ شرون راٹھور موسیقار 'ندیم شرون' جوڑی کے شرون ہیں۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

ہریدوار میں کمبھ میلے کے دوران ریاستی حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار جو ڈیوٹی پر تھے انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اکھاڑوں کی بات تو چھوڑیے، عقیدت مندوں کی تو ٹھیک سے جانچ تک نہیں ہوئی اور جب لوگ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو وہ اپنے ساتھ انفیکشن لے جائيں گے۔

انھوں نے کہا: ’اکھاڑوں نے تو اپنے سادھووں کے کووڈ ٹیسٹ کی اجازت ہی بہت مشکل سے دی۔ سادھو جانچ کے لیے راضی نہیں تھے۔ جب مہامندلیشور کی موت ہو گئی تھی اور اکھاڑے کے سربراہ بھی متاثر ہو گئے تو کہیں تھوڑی بہت جانچ کی اجازت ملی۔‘

میلے کے دوران واضح ہدایات تھی کہ باہر سے آنے والے عقیدت مند دو دن قبل کی کووڈ منفی رپورٹ لائیں لیکن اس سختی کے باوجود کمبھ میں انفیکشن کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد اتراکھنڈ میں بھی انفیکشن کی شرح تیزی سے بڑھنے لگی۔
کمبھ میلے میں شریک سادھو انڈیا میں کورونا کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کا سبب کیسے بنے - BBC News اردو
اور آج بھارتی کورونا وائرس کو پوری دنیا کیلئے خطرہ قرار دے دیا گیا ہے
WHO classifies triple-mutant Covid variant from India as global health risk
 

سیما علی

لائبریرین
میلے کے دوران واضح ہدایات تھی کہ باہر سے آنے والے عقیدت مند دو دن قبل کی کووڈ منفی رپورٹ لائیں لیکن اس سختی کے باوجود کمبھ میں انفیکشن کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد اتراکھنڈ میں بھی انفیکشن کی شرح تیزی سے بڑھنے لگی۔
وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: کوویڈیا بالم پدھارو مارے دیس
  • وسعت اللہ خان
  • تجزیہ کار
25 اپريل 2021
_118101601_aa1f15a3-0001-4cf0-be93-553eacc5bc65.jpg

خرابی کہہ لیں کہ خوبی کورونا وائرس کی اپنی دنیا، اپنے روپ، اپنی چالیں، اپنے بھیس اور اپنے اوقات ہیں۔ یہ کہاں سے نمودار ہوا ؟ کیوں ہوا ؟ پہلے کہاں تھا ؟ اب کہاں جا رہا ہے اور ہمیں بھی لے کر جا رہا ہے ؟ اس کے ہم زاد ، ممیرے، چچیرے کون ہیں، کتنے ہیں، ان کی شکلیں، واردات کے طریقے اور اگلے منصوبے کیا کیا ہیں؟

ہم سب فی الحال اندھیرے میں آنکڑوں کی لاٹھی ہی گھما سکتے ہیں۔ کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے ۔سوائے یہ کہ کوویڈ کا وجود ایک حقیقت ہے اور ایک مدت تک یہ حقیقت کولہے سے کولہا ٹکا کر رہنے آئی ہے۔

کوویڈ کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ دیگر وائرسوں کے برعکس یہ سرحدی لکیروں، کالے گورے پیلے، عربی عجمی، برہمن و شودر ، ظالم و مظلوم، امیر غریب ، جمہوری، آمری، فسطائی، مارکسی ، ملحد، مسلم، بت پرست، سکھ عیسائی کی تمیز، سائنسی و روحانی تقسیم، عورت، مرد ، ہم جنس ، نامرد میں فرق، وزیرِ اعظم، نائب قاصد، جنرل، اردلی، جج اور پیش کار کی شکل یاد نہیں رکھ سکتا۔ گویا نپٹ جاہل و بے مروت وائرس ہے ۔ پر کیا کریں؟ ہے تو مہمان ۔۔۔

چنانچہ کوویڈ اگر واپس اپنی دنیا میں لوٹنا بھی چاہے تو ہم ہرگز ہرگز اتنی جلدی اور آسانی سے لوٹنے نہیں دیں گے۔ ہماری تہذیبی روایت ہے کہ مہمان ہو کہ مرض آتا اپنی مرضی سے ہے اور جاتا ہماری رضا سے۔
پولیو وائرس کو ہی لے لیں۔ یہ کب کا کرہِ ارض چھوڑنے کو سامان باندھے بیٹھا ہے۔ سب قوموں نے اسے ہنسی ِخوشی رخصت بھی کر دیا۔ مگر کچھ افغان اور پاکستانی اسے خدا حافظ کہنے پر ہرگز تیار نہیں۔

میں نے جب بھی کہیں جانے کی اجازت چاہی
اس نے بڑھ کر میرا سامانِ سفر کھول دیا ( شاہدہ حسن )

یہی رویہ ہم دیسیوں کا کوویڈ کے ساتھ بھی ہے۔اتیتی یعنی مہمان خدا کی رحمت ہے لہذا گھر آئے مہمان کا دل رکھنے اور جیتنے کے لیے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ شروع شروع میں ہم میں سے بہت سوں نے کوویڈ کو وائرس سمجھنے سے ہی انکار کر دیا اور اسے ایک افسانہ، عالمی سازش اور دوا ساز کمپنیوں کا ایک اور جیب تراش ہتھکنڈہ قرار دے دیا۔

پھر ہم نے کوویڈ کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ یہ پرہیز گار اور صاف ستھرے لوگوں کو متاثر نہیں کرتا لہذا شریف آدمی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ جب کچھ کچھ یقین آنے لگا کہ شاید یہ کوئی خطرناک وائرس ہے تو ہم نے فوراً کام آدھا آدھا بانٹ لیا۔

یعنی مشرق چونکہ دنیا کا روحانی امام ہے اس لیے وہ آسمان کی طرف ہاتھ جوڑ کر یا پھیلا کر مناجات و دعا کرے گا۔ مغرب چونکہ ملحد و مادیت پرست ہے لہذا وہ اپنی سائنس لڑا کر دوا کرے گا۔

سو ہم نے دعا کی اور انھوں نے دوا۔

_118195010_39a8660f-7880-4b02-ba08-9276f2f5fce0.jpg

،تصویر کا ذریعہREUTERS

یوں امید ہو چلی کہ کوویڈ اب خود ہی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رخصت مانگ لے گا۔ کئی ممالک سے کوویڈ کا مرحلہ وار انخلا شروع ہو بھی گیا۔ مگر ہم دیسی چونکہ فطری اور متشدد طبع مہمان نواز ہیں لہذا کوویڈ کا جو جو بھی ہم شکل جس جس ملک سے نکلا ہم نے اسے یوں گلے لگایا گویا وائرس نہ ہو فارمولا ون ریسنگ کار کا نیا ماڈل ہو اور مفت میں مل رہا ہو۔

اس قدر دانی اور عزت افزائی کے ہوتے بھلے کوویڈ کا نیا برازیلین ماڈل ہو کہ انگلش ماڈل کہ جنوبی افریقی ماڈل یا پھر اب سری لنکن ماڈل۔ سب کے سب سیدھے بھارت اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں لینڈ کر گئے۔

اور اب ہم تشکر گزیدہ سوچ رہے ہیں کہ اگر سب نےخدا نخواستہ ماسک لگا لیا، چھ فٹ کا فاصلہ رکھ لیا، سینی ٹائزر کا مسلسل استعمال جاری رکھا، ویکسینیشن پروگرام کے لیے ترجیحاتی بجٹ اور مہماتی توانائی مختص کر دی، آکسیجن کی پیداوار دوگنی کرنے اور ملک کے اندر ہی ویکیسن سازی میں سرمایہ کاری کے بارے میں کوئی طویل المیعاد منصوبہ بنا لیا تو مہمان کہیں ناراض ہو کر چلا ہی نہ جائے۔

لہذا ہم اس کی خوشنودی و دل جوئی کے لیے ہر وہ کام کر رہے ہیں جو ایسے موقعوں پر ہمیشہ ہماری روایت رہی ہے۔ مروت میں جان چلی جائے پر مہمان نہ جائے۔

ہر موڑ پے وا ہیں میری آنکھوں کے دریچے
کوویڈیا بالم پدھارو مارے دیس - BBC News اردو
 
Top