کیا روگ لگا بیٹھے دل کو اک پل بھی چین قرار نہیں


کیا روگ لگا بیٹھے دل کو اک پل بھی چین قرار نہیں
جینے کی تو چھوڑو خاک جیے مرنے کی بھی رہ ہموار نہیں

پیوستِ جگر ہے تیرِ جفا یہ روگ ہے ایسا جس کی دوا
ہر عیسی نفس کے بس میں نہیں ہر عیسی نفس کا کار نہیں

کب دست ستم دل والوں کے دامن سے جدا دیکھا تم نے
کب اہلِ وفا کی قسمت میں زندان نہیں ہے دار نہیں

ہر رقص نہیں ہے رقصِ جنوں یہ بات کہوں تو کس سے کہوں
جب کوئی نہیں ہے مونسِ غم جب کوئی واقفِ کار نہیں

غالبؔ کی طرح کوئی شاہ ظفر کیوں کرتا اسے منظور نظر
ریحانؔ ہے شاعرِ خاک بسر دریوزہ گرِ دربار نہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اصلاح سخن میں تو نہیں ہے پھر بھی ایک دو باتیں
مطلع میں صرف مرنے کہنا کافی ہے، جیے مرنے کی ضرورت نہیں

کار اردو میں ترکیبوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مفرد کے طور پر محض کام استعمال ہوتا ہے، ورنہ کار سے موٹر کار ہی مراد لی جاتی ہے
مقطع میں :کیوں اسے' کو' اسے کیوں ' سے بدلنا بہتر ہو گا ورنہ 'کیوں ' محض ک تقطیع ہوتا ہے
اشعار تو ماشاء اللہ خوب ہیں
 
اصلاح سخن میں تو نہیں ہے پھر بھی ایک دو باتیں
مطلع میں صرف مرنے کہنا کافی ہے، جیے مرنے کی ضرورت نہیں

کار اردو میں ترکیبوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مفرد کے طور پر محض کام استعمال ہوتا ہے، ورنہ کار سے موٹر کار ہی مراد لی جاتی ہے
مقطع میں :کیوں اسے' کو' اسے کیوں ' سے بدلنا بہتر ہو گا ورنہ 'کیوں ' محض ک تقطیع ہوتا ہے
اشعار تو ماشاء اللہ خوب ہیں
سر بہت شکریہ اس ترکیب کا مجھے علم تو تھا لیکن سوچا شاید قابلِ قبول ہو
 
Top