آج کی آیت

سیما علی

لائبریرین
سورۃ الشرح (مکی — کل آیات
بِسْمِ اللّ۔ٰهِ الرَّحْ۔مٰنِ الرَّحِيْ۔مِ
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (1)
کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا۔

وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ (2)
اور کیا آپ سے آپ کا وہ بوجھ نہیں اتار دیا۔

اَلَّ۔ذِىٓ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ (3)
جس نے آپ کی کمر جھکا دی تھی۔

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْ۔رَكَ (4)
اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا۔

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5)
پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (6)
بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔

فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (7)
پس جب آپ (تبلیغ احکام سے) فارغ ہوں تو ریاضت کیجیے۔

وَاِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ (
اور اپنے رب کی طرف دل لگائیے۔
 

سیما علی

لائبریرین
" بے شک ابراہیم ایک پوری امت تھا اللہ کا فرمانبردار تمام راہوں سے ہٹا ہوا ، اور مشرکوں میں سے نہ تھا ( سورۃ النحل 120 ) "
 

سیما علی

لائبریرین
xBkKsIx.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
سورہ بقرہ کی آیت 185

مفہوم: ’ماہ مبارک رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں موجود ہیں۔ تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے تو وہ روزہ رکھے، ہاں جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیئے۔ اللہ تعالی تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ تم روزوں کی تکمیل کرو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بزرگی بیان کرو، شاید تم شکرگزار ہو جاؤ‘۔
 

سیما علی

لائبریرین
﴿ قُل ما أَس۔َٔلُكُم عَلَيهِ مِن أَجرٍ‌ وَما أَنا۠ مِنَ المُتَكَلِّفينَ ٨٦ ﴾ ... سورة ص)
کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں (86)
 

سیما علی

لائبریرین
وہی اللہ ہے جو پیدا فرمانے والا ہے، عدم سے وجود میں لانے والا (یعنی ایجاد فرمانے والا) ہے، صورت عطا فرمانے والا ہے۔ (الغرض) سب اچھے نام اسی کے ہیں، اس کے لئے وہ (سب) چیزیں تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور وہ بڑی عزت والا ہے بڑی حکمت والا ہےo (الْحَشْر, 59 : 24)
 

سیما علی

لائبریرین
سورۃ الانفطار:82 ویں سورت

یہ مکی سورت ہے۔ 19 آیات اور ایک رکوع ہے یعنی تیسویں پارہ کا ساتواں رکوع۔ نزول کے اعتبار سے نمبر 82 ہے۔نام پہلی ہی آیت کے لفظ ”انفطرت“ سے لیاگیا ہے۔ (”انفطار“ مصدر ہے جس کا معنی پھٹنا ہے) مضمون سورۃ تکویر کے مشابہہ ہے اور دونوں ایک ہی زمانہ میں نازل ہوئیں۔اس کا موضوع بھی آخرت اور قیامت ہے۔

ارشاد ہے کہ ”جب آسمان پھٹ پڑے۔جب تارے جھڑپڑیں۔جب سمندر بہا دیئے جائیں اور جب مردے زندہ ہوں تو ہر شخص جان لے گا جو اس نے اپنے اعمال بھیجے ہیں یا اپنے پیچھے چھوڑے ہیں۔بیشک تمہارے اعمال و اقوال کے نگراں فرشتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں اور جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔بیشک نیک لوگ جنت میں ہونگے اور بدکار لوگ دوزخ میں ہونگے اور قیامت سے کوئی بچ نہ سکے گا۔اس دن کوئی شخص کسی کیلئے کوئی اختیار نہ رکھے گا اور سارا حکم اس دن صرف اللہ کا ہوگا“۔
 

فہد مقصود

محفلین
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 83

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ:
اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آجاتی ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر وہ اس خبر کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا اپنے اختیار والوں کی طرف پہلے پہنچاتے تو ان کے تحقیق کرنے والے ان کا مقصد معلوم کرلیتے ہیں اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو سوائے تھوڑوں کے تم شیطان کے تابع ہوجاتے (ف ٢)

تفسیر تیسیر الرحمٰن:
90۔ اس میں بھی منافقین ہی کا ذکر شر ہے کہ انہیں جب جہادی دستوں کے بارے میں غلبہ یا شکست کی کوئی خبر ملتی ہے، تو لوگوں میں اسے بغیر تحقیق کیے فوراً پھیلانا شروع کردیتے ہیں جس سے مسلم سوسائٹی کو کئی طرح کے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں، اس لیے کہ عام طور پر بغیر تحقیق شدہ خبروں میں بہت سی جھوٹ باتیں ملی ہوتی ہیں، اگر وہ خبریں مسلمانوں کے غلبہ کے بارے میں ہوتیں اور مبالغہ سے کام لیا گیا ہوتا، اور سچی نہ نکلتیں تو بہتوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت میں شبہ ہونے لگتا تھا، اس لیے کہ منافقین ان خبروں کی نسبت آپ ہی کی طرف کر کے بیان کرتے تھے اور اگر وہ خبریں مسلمانوں کی شکست کے بارے میں ہوتی تھیں، تو بہت سے کمزور ایمان کے مسلمان فتنہ میں پڑجاتے تھے، ان خبروں کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا تھا کہ مسلمانوں کی جنگ تیاریوں کی خبر بڑی تیزی کے ساتھ کافروں کو ہوجاتی تھی، اور اگر خبر خوف و ہراس والی ہوتی تو کمزور مسلمان خائف ہوجاتے تھے، انہی خرابیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خبروں کی تشہیر سے منع فرمایا

اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ ان خبروں کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اصحاب بصیرت صحابہ کرام کی رائے کا انتظار کرلیتے تو انہیں حقیقت حال معلوم ہوجاتی، اور یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ کس خبر کو مشہور کرنا چاہئے، اور کسے چھپانا چاہئے، مسلمانوں کی ذہنی تربیت ہی کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ جو کچھ سنے اسے بیان کرے۔ (مسلم)

اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور قرآن کے نزول کے ذریعہ اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا، تو اے مسلمانو ! سوائے چند دیدہ ور صحابہ کرام کے تم سبھی شیطان کے پیروکار بن جاتے، اور ان جھوٹی خبروں کی تصدیق کرنے لگتے

سورة النسآء - آیت 83
 
قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْ۔۔ٴَ۔لَكَ مَا لَیْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌؕ-وَ اِلَّا تَغْفِرْ لِیْ وَ تَرْحَمْنِیْۤ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(۴۷)
عرض کی رب میرے میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر تو مجھے نہ بخشے اور رحم نہ کرے تو میں زیاں کار(نقصان اُٹھانے والا) ہوجاؤں
 
Top