انٹر نیٹ سے چنیدہ

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
سقراط کو گذرے ہوئے 2415 برس ہوگئے ان کے شاگرد افلاطون کو گزرے ہوئے 2364 برس بیت گئے۔ ارسطو کو گذرے ہوئے 2338 برس ہوگئے۔ حب کہ حضورﷺ کے زمانے کو گذرے ابھی محض 1429 سال ہوئے ہیں,مگر لبرلز کے ہاتھ کی صفائی تو دیکھیں۔ یہ آپ کو جا بجا سقراط، افلاطون اور ارسطو وغیرہ کے اقوال کوٹ کرتے ہوئے تو نظر آئیں گے مگر ان کے قلم اور زبان سے کبھی قرآن کی کسی آیت یا حضورﷺ کے کسی فرمان کا حوالہ آپ کو نہ ملے گا۔ بلکہ وہ الٹا حقارت سے یہ کہتے ہوئے پائے جائیں گے کہ یہ سب فرسودہ اور پرانے وقتوں کی باتیں ہیں جن کا آج کے دور میں چلنا ممکن نہیں۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ پرانے وقتوں کے فلسفیوں سے منسوب باتوں کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آیا وہ انہوں نے کہی بھی تھیں کہ نہیں جب کہ قرآن کی ایک ایک آیت اور حضورﷺ کے فرامین و سیرت اطہر، کئی کئی راویوں کے ذریعہ اس طرح محفوظ ہوکر ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچے ہیں کہ جیسے ہم خود حضورﷺ اور ان کے اصحاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک شخص ایک حکیم صاحب کے پاس آیا ۔ اس کے پاس ایک ڈبہ تھا ۔ اس نے ڈبہ کھول کر زیور نکالا اور کہا۔

" یہ خالص سونے کا زیور ہے ۔ اس کی قیمت دس ہزار سے کم نہیں ۔ آپ اس کو رکھ کر پانچ ہزار مجھے دے دیجیئے ۔ میں ایک ماہ میں روپے دے کر واپس لے جاؤں گا ۔"

حکیم صاحب نے کہا: " میں اس قسم کا کام نہیں کرتا"۔

مگر آدمی نے اپنی مجبوری کچھ اس انداز سے پیش کی کہ حکیم صاحب کو ترس آگیا اور انھوں نے پیسے دے کر زیور لے لیا۔

اس کے زیور کو لوہے کی الماری میں رکھ دیا ۔ مہینوں گزر گئے لیکن آدمی واپس نہ آیا ۔ حکیم صاحب نے ایک آدمی کو زیور بیچنے بازار بھیجا لیکن سنار نے بتایا کہ زیور پیتل کا ہے۔ حکیم صاحب کو صدمہ ہوا ۔ تاہم روپے کھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے اسکو بھلا دیا صرف یہ کیا کہ زیور کو سونے کے خانے سے نکال کر پیتل کے خانے میں رکھ دیا۔

انسانوں کے معاملات کیلئے یہ طریقہ بہترین ہے ۔ انسانوں کے درمیان تلخی اکثر اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ ایک آدمی سے جو ہم نے امید قائم کر رکھی تھی ، اس پہ وہ پورا نہیں اترتا ۔ ایسے موقعے پر بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو اس خانے سے نکال کو دوسرے خانے میں رکھ دیا جائے۔

منقول
 

سیما علی

لائبریرین
انسانوں کے معاملات کیلئے یہ طریقہ بہترین ہے ۔ انسانوں کے درمیان تلخی اکثر اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ ایک آدمی سے جو ہم نے امید قائم کر رکھی تھی ، اس پہ وہ پورا نہیں اترتا ۔ ایسے موقعے پر بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو اس خانے سے نکال کو دوسرے خانے میں رکھ دیا جائے۔
درست ترین اظہار :):):):):)
 

شمشاد

لائبریرین
با ادب با نصیب

اسٹوڈنٹس نے ٹیچر سے کہا سر آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں 5 گیندوں پر ٹیچر نے 2 رن بنائے چھٹی گیند پر کلین بولڈ ہو گئے اسٹوڈنٹس نے شور مچا کر بھرپور خوشی ظاہر کی۔

کلاس میں ٹیچر نے پوچھا کون کون چاہتا تھا کہ میں اسکی گیند پر آوٹ ہو جاٶں؟

سب باؤلرز نے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔

ٹیچر ہنس دیئے پوچھا میں کرکٹر کیسا ہوں؟ سب نے کہا بہت برے۔

پوچھا میں ٹیچر کیسا ہوں جواب ملا بہت اچھے۔

ٹیچر پھر ہنس دیئے۔

صرف آپ نہیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے ہزارہا اسٹوڈنٹس جن میں کئی میرے نظریاتی مخالف ہیں گواہی دیتے ہیں کہ میں اچھا ٹیچر ہوں راز کی بات بتاؤں میں جتنا اچھا ٹیچر ہوں اتنا اچھا اسٹوڈنٹ نہیں تھا مجھے ہمیشہ سبق یاد کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور بات سمجھنے میں وقت لگا لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں اسکے باوجود مجھے اچھا ٹیچر کیوں مانا جاتا ہے؟

سب نے کہا سر آپ بتائیں کیوں؟

ٹیچر نے کہا ادب، مجھے اچھی طرح یاد ہے اپنے ٹیچر کے ہاں دعوت کی تیاری میں انکی مدد کر رہا تھا فریزر سے برف نکالی جسے توڑنے کیلئے کمرے میں کوئی شے نہیں تھی استاد کام کیلئے کمرے سے نکلے تو میں نے مکا مار کر برف توڑ دی اور استاد کے آنے سے پہلے جلدی سے ٹوٹی ہوئی برف دیوار پر بھی دے ماری۔

استاد کمرے میں آئے تو دیکھا کہ میں نے برف دیوار پر مار کر توڑی ہے انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ تمہیں عقل کب آئیگی یوں برف توڑی جاتی ہے۔ میں نے انکی ڈانٹ خاموشی سے سنی بعد میں انہوں نے اس بیوقوفی کا ذکر کئی جگہ کیا میں ہمیشہ بیوقوفوں کی طرح سر ہلا کر انکی ڈانٹ سنتا انہیں آج بھی نہیں معلوم کہ برف میں نے مکا مار کر توڑی تھی۔

یہ بات میں نے انہیں اسلئے نہیں بتائی کہ وہ ایک ہاتھ سے معذور تھے۔ انکی غیر موجودگی میں میں نے جوانی کے جوش میں مکا مار کر برف توڑ دی لیکن جب انکی معذوری کا خیال آیا تو سوچا کہ میری طاقت کے مظاہرے سے انہیں احساس کمتری نہ ہو اس لیئے میں نے برف دیوار پر مارنے کی احمقانہ حرکت کی اور لمبے عرصے تک انکی ڈانٹ سنتا رہا۔

اور ایک آپ لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر ہدایات دے رہے تھے کہ سر کو یارکر مار کر آوٹ کرو۔

جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا کبھی ہارنے سے زندگی میں جیت کے رستے کھلتے ہیں۔ آپ طاقت میں اپنے ٹیچرز اور والدین سے بے شک بڑھ جاتے ہیں لیکن زندگی میں سب سے جیتنا چاہتے ہیں تو اپنے ٹیچرز اور والدین سے جیتنے کی کوشش نہ کریں۔ آپ کبھی نہیں ہاریں گے۔

اللہ پاک آپکو ہر میدان میں سرخرو کرے گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میں گھر میں داخل ھوا تو دیکھا میری بیگم بیٹھی رو رھی ہیں۔
کیا ھوا؟
میں نے پوچھا
یہ آنکھیں کیوں لال کر رکھیں ہیں
سب خیریت تو ھے نا؟
آج اس کمینے نے ، بیوی کے کہنے پہ اس بڑھیا کو پھر مارا ھے
وہ پھر ہچکیوں سے رونے لگی
تمہیں کیا وہ اس کی ماں ہے ، تمہاری نہیں
اور پھر بڑھیا زبان چلاتی ھو گی
بہو کے معاملات میں دخل دیتی ہوگی
میں نے اس کا غم غلط کرنے کے لیے کہا
زبان چلاتی ہو گی؟
معاملات میں دخل دیتی ہوگی؟
آپ کو کچھ پتا بھی ہے ، وہ اٹھنے بیٹھنے کے لیے سہارے کی محتاج ہے اور بات بھی وہ اٹک اٹک کر پوری کرتی ہے
بیوی نے تلخی سے جواب دیا
پہلے تم نے کبھی بتایا نہیں کہ وہ اس حال میں ہے
میں نے انجان بنتے ھوئے کہا
ھزار دفعہ تو بتایا ھے مگر آپ کو کچھ یاد رہے نا
بیوی بولی
اچھا چھوڑو ہم کر بھی کیا سکتے ھیں ؟
میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی
میرا دل کرتا ہے کہ بڑھیا کو اپنے گھر لے آؤں کچھ دنوں کے لیے
میری بیوی نے کہا.
کیا, کیا کہا؟
پاگل ہو گئی ہو ۔۔ پرائی مصیبت اپنے گلے ڈالو گی ۔۔ مجھے اس کی سوچ پہ غصہ آگیا ۔۔
صرف ہفتے بھر کے لیے ۔۔ اس نے میرے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ۔۔ شاید وہ پہلے سے ہی سب پلان بنا کے بیٹھی تھی ۔۔
نہیں ، نہیں ۔۔ یہ ناممکن ھے ۔۔ اور پھر وہ کیوں دینے لگا اپنی ماں ہم کو ۔۔ میں نے کہا ۔
اس کی بیوی کئی مرتبہ کہہ چکی ہے کہ بڑھیا کہیں دفع تو ہو نہیں سکتی، کتے کی سی جان ھے ، مرتی بھی نہیں ۔۔ بیوی نے کہا
اچھا ، یہ کہتی ہے وہ ۔۔ میں نے بیوی کا دل رکھنے کے لیے کہا ۔۔
بس اب آپ مان جائیں اور اس کو اپنے گھر لے آئیں ۔۔ یہ کہتی ہوئے وہ میرے پہلو میں آ بیٹھی ۔۔ اور یہی اس کا خطرناک حملہ ہوتا ہے ، اپنی بات منوانے کا ۔۔۔
اچھا جی اب اس بڑھیا کو گھر لانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال رہی ہو ۔ اور یہ تو سوچو کہ تم اس کو سنبھال بھی لو گی ؟ ۔۔ میں نے کہا
اپنے بچے تو ہیں نہیں ، میں بھی گھر میں سوائے ٹی وی دیکھنے کے اور کیا کرتی ہوں ۔۔ چلو وہ آ جائے گی تو میرا دل بھی بہلا رہے گا ۔ اس نے اداسی سے کہا
ہماری شادی کو دس سال ہو گئے تھے ۔۔ مگر اولاد سے محروم تھے ۔۔
میں نے سوچا -- چلو بات کر کے دیکھنے میں حرج نہیں ہے ۔
کونسا ، وہ اپنی ماں ، ہمیں دینے پہ راضی ھو جائے گا ۔۔
اگر راضی ہو گیا تو ۔۔؟ میں نے سوچا
پھر بھی ایک ہفتے کی ہی تو بات ھے ۔۔۔
اگر بعد میں اپنے ہی گلے پڑ گئی تو ۔۔ اچانک مجھے خیال آیا ۔۔۔
اگر وہ بڑھیا مستقل گلے پڑ گئی تو ۔۔ میں نے اپنے خدشے کا اظہار ، بیوی سے کیا ۔۔
یہ تو اور اچھی بات ھے ۔۔ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔۔
سچ کہتے ھیں ۔۔ عورت بے وقوف ہوتی ہے ۔۔ میں نے دل میں سوچا ۔۔

اگلے دن شام کو کافی سوچ بچار کے بعد میں ان کے گھر گیا ۔ کچھ بات کرنے کے بہانے ، ڈرائنگ روم میں بیٹھا ۔ اس نے جھوٹے مونہہ بھی چائے کا نہ پوچھا۔ خیر میں نے تو اپنے پلان کے مطابق اس سے کہا کہ میری بیوی ، فالج کا علاج قران پاک سے کرنا جانتی ہے ۔ اور وہ آپکی والدہ کا علاج کرنا چاہتی ہے ۔
یہ سن کر اس نے کسی قسم کا اظہار نہ کیا ۔ تو میں نے بات جاری رکھی ۔۔ کہ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی والدہ کو ہفتہ بھر ہمارے ہی گھر پر رہنا ہو گا ۔۔ آپ فکر نہ کریں ، ہم ان کا اچھے سے خیال رکھیں گے ۔۔ یہ سن کر اس کے چہرے پہ شرمندگی اور خوشی کے ملے جلے اثرات پیدا ہوئے ۔۔
اس نے تھوڑی سی بحث کے بعد اجازت دے دی ۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا کہ علاج میں پندرہ بیس دن بھی لگ سکتے ہیں۔ اس نے اور بھی خوشی محسوس کی ۔
کہنے لگا ۔۔ سلیم صاحب ، میں تو چاہتا ہوں کہ میری ماں ٹھیک ہو جائے ، بھلے مہینہ لگ جائے ۔۔
اور یوں اماں مستقل ہماری ہی ہو کے رہ گئیں۔ اگلے دن وہ بڑھیا ہمارے گھر منتقل ھو گئی۔ بس وہ بڑھیا کیا تھی ۔۔ سفید روئی کا گالہ سی تھی ۔ نور کا اک ڈھیر سا تھا ۔ لاغر سی کمزور سی جیسے زمانے بھر کے غم اس کے نورانی جھریوں بھرے چہرے پہ تحریر تھے آنکھوں کے بجھتے چراغ کپکپاتے ھونٹ ۔
مناسب خوراک اور دیکھ بھال نہ ھونے کی وجہ سے حالت اور زیادہ خراب تھی ۔۔
میری بیوی تو بس اس کی سیوا میں جٹ گئی۔ اس کے لیے ہر چیز نئی خریدی گئی ۔۔ بستر ، کمبل ، چادریں ، کپڑے ۔۔
اچھی خوراک ، اور خدمت سے اماں کے چہرے پہ رونق آنے لگی ۔۔
پتا ہی نہ چلا کہ مہینہ گزر گیا ۔۔ پہلے اس کی بہو ہر دو دن بعد آتی رھی ۔ پھر چار دن کا وقفہ ہوا ، پھر ہفتہ ھونے لگا ۔ اماں کو واپس لے جانے کی بات نہ اس نے کی نہ ہم نے ۔۔
دوسرا مہینے میں وہ ایک ہی دفعہ آئی ۔ گھر کی مصروفیت کا رونا روتی رہی ۔ تیسرے مہینے کے بعد اس نے آنا بند کر دیا ۔۔ میں نے بیوی سے کہہ دیا کہ اب اماں تمہاری ذمہ داری بن گئی ہے اب تم سنبھالو ۔ بیوی نے خوشی کا اظہار کیا ۔
یہ غالباً ساتواں مہینہ تھا اماں کو ہماری طرف آئے کہ اماں کے بیٹے کو اس کی بیوی نے کسی تنازعہ پر قتل کر دیا اور بعدازاں اس کی بیوی کو پولیس پکڑ کے لے گئی
اور یوں اماں صرف ہماری ہی ہو کے رہ گئیں ۔
ادھر جیسے جیسے اماں کی توانائی بحال ہو رہی تھی اور چہرے پہ رونق ، مسکان آنے لگی تھی ۔ ویسے ویسے ، میرا کاروبار ترقی کرنے لگا ۔ ایسے لگتا تھا جیسے مجھ پر دھن برسنے لگا ھو ۔ سال بھر میں میری تین دکانیں ہو چکیں تھیں ۔ تیسرے سال ہم تینوں میں، میری بیوی اور اماں نے حج کی سعادت حاصل کی۔
اماں ہمارے ساتھ سات سال رہیں ، ھر پل ان کا ہمیں دعائیں دیتے گزرتا ۔اور ہم میاں بیوی ، خوشی سے پھولے نہ سماتے ۔
عجیب کرامت یہ ہوئی کہ اماں کی برکت اور دعاؤں سے اللہ رب العزت نے مجھے اولاد سے نوازا ۔۔
آج وہ ہمارے درمیاں نہیں مگر ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ھے۔ جیسے کوئی اپنا کہیں کھو گیا ہو ۔
پچھلے دنوں میری بیوی بہت خوش تھی ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگی ۔ میں نے ایک خواب دیکھا ہے ۔۔
کیسا خواب ۔۔؟
میں نے دیکھا ۔ کہ محشر کا دن ھے ۔ اور سب حیران و پریشان کھڑے ہیں۔ میں بھی وہیں کھڑی ھوں کہ اتنے میں اماں آئیں اور میرا ھاتھ پکڑ کر کہنے لگیں۔ منیرہ ادھر آ، میرے ساتھ چل ، تجھے پل صراط پار کرا دوں ۔ میں ان کے ساتھ چلی ، ہم ایک باغ سے گزرے ، تھوڑی دیر میں باغ ختم ہوا تو ایک بڑا سا میدان آگیا تو اماں کہنے لگیں ، بس ہو گیا پل صراط پار ۔۔ میں حیران ہوئی تو اماں مسکرانے لگیں۔ پھر میری آنکھ کھل گئی ۔۔
مبارک ہو بھئی ۔۔ بہت اچھا خواب ہے مگر تمہیں میرا خیال نہ آیا؟
قسم سے میں اتنی پریشان تھی کہ ۔۔
چلو ۔ خیر ہمیں بھی کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گا جو پل صراط پار کرا دے ۔۔
آمین ۔۔ بیوی نے جیسے دل کی گہرائیوں سے کہا ۔۔
اور پھر اس کو میں نے یہ نہیں بتایا کہ ایسا خواب میں بھی دیکھ چکا ھوں بس فرق یہ تھا کہ اماں نے میرا ہاتھ پکڑتے وقت کہا تھا ، چلو ، تمہیں منیرہ کے پاس لے چلوں وہ پل صراط کے پار تمہارا انتظار کر رہی ہے..!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
فیض صاحب کی بیٹی منیرہ ہاشمی فرماتی ہیں"ایک مرتبہ میرے بیٹے نے مجھ سے پوچها کہ شہرت کا کیا جملہ بناٶں تو میں نے کہا کہ یہ لکھ دو۔۔۔۔۔۔۔ میں ابھی سوچ رہی تھی کہ "میرے نانا کی بہت شہرت ہے" میرے بیٹے نے کہا۔ ہاں واقعی تمہارے نانا کی بہت شہرت ہے-مگر جب میں چھوٹی تھی تو مجھے یہ علم نہ تھا- ایک دفعہ ابّا اِنڈیا گئے تو انہوں نےمجھ سے پوچھا کہ تمہارے لئے وہاں سے کیا لاٶں- اُن دنوں دلیپ کمار کا بہت دور دورہ تھا- میں نے کہا کہ میرے لئے دلیپ کمار سے آٹوگراف لے آٸیں، جب ابّا واپس آٸے تو آٹوگراف کے ضمن میں بالکل چُپ رہے جب میں نے پوچھا کہ ابّا آپ دلیپ کمار کا آٹوگراف لاٸے تو کہنے لگے نہیں، میں نے کہا کیا آپ کو دلیپ کمار نہیں ملا تو بولے ملا تھا میں نے کہا تو پھر آپ دلیپ کمار کا آٹوگراف کیوں نہیں لائے تو کھسیانے سے ہو کر بولے بیٹا دراصل بات یہ ہے کہ وہ تو مجھ سے آٹوگراف مانگ رہا تھا تو جوابی طور پر اس سے آٹوگراف مانگنا مجھے اچھا نہیں لگا- تو میں نے حیران ہو کر کہا " ابّا کیا دلیپ کمار آپ کو جانتا تھا- تو اس وقت میں بھی نہیں جانتی تھی میرے ابّا اتنے مشہور ہیں،
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ایک شخص اپنی جگتوں کی بدولت شہر بھر میں مشہور تھا۔ ایک مرتبہ اپنے مرشد کے پاس بیٹھا کہنے لگا۔
مُڑ سائیں ،تُساں مینوں حج تے گَھل دیو ،تےکیا ہی بات ہو (مرشد آپ مجھے حج پر بھجوا دیں تو کیا ہی بات ہو)
مرشد نے کہا کہ "تُؤ اوتھاں جا کے وی ایہو کُجھ کریساں۔(یعنی جُگتیں ہی لگائے گا کچھ عبادت وغیرہ نہیں کرے گا)۔
اس نے التجا کی مُرشد۔۔۔۔ میں اوس تھاں ایسا کُجھ نہ کرساں ۔۔ (میں وہاں جا کر ایسا کوئی کام نہیں کروں گا)
مرشد نے کہا ۔۔۔ فیر لکھ کے دے۔۔ ( پھر لکھ کے دو)
اس وقت اس شخص سے ایک کاغذ پر حلف نامہ پر سائن کروائے گئے ،کہ وہ وہاں صرف عبادت کرے گا،کوئی فالتو بات نہیں کرے گا،کسی کو جگت نہیں لگائے گا، اپنے کام سے کام رکھے گا، اور حج کرکے واپس آجائے گا۔
اس نے باقی مریدوں کی موجودگی میں حلف نامے پر خوشی خوشی سائن کردیے۔
مرشد نے ایک مرید سے کہا کہ اسے اپنےساتھ حج پہ لے جاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حج ادا کر کے واپسی کی راہ لی۔۔۔
اس زمانے میں سفر خچروں، گھوڑوں یا اونٹوں پر طے کیا جاتا تھا۔۔
واپسی کے سفر پر اب اس کا سر مُنڈا ہوا اور گدھے پر بیٹھا۔۔اللہ کریم سے راز و نیاز میں مصروف ہوگیا۔۔۔کہنے لگا۔۔۔
"۔ ساڈے علاقے وچ جے چور پھڑیا جاوے ،تے اوہدی ٹِنڈ کرا کے کھوتے تے بٹھاندے نہیں ۔۔۔۔۔۔مولا۔۔۔۔ ہُن ٹِنڈ وی کرا لئی اے، کھوتے تے وی بیٹھ گئے آں، جے ہُن وی جان بخشی نہ ہوئی تے فیر گَل تے نہ بنی نا "۔۔۔۔۔۔
(ہمارے علاقے میں اگر چور پکڑا جائے تو سزا کے طور پر اس کا سر مونڈ کر اسے کھوتے پر بٹھایا جاتا ہے۔ مولا میں بھی کسی چور کی طرح تیرے سامنے کھوتے پہ بیٹھا ہوں سر بھی منڈوا لیا ہے اور اگر اب بھی میری معافی نہ ہوئی تو بات تو نہ بنی ناں۔۔۔۔۔۔۔)
 

سیما علی

لائبریرین
آٹوگراف مانگ رہا تھا تو جوابی طور پر اس سے آٹوگراف مانگنا مجھے اچھا نہیں لگا- تو میں نے حیران ہو کر کہا " ابّا کیا دلیپ کمار آپ کو جانتا تھا- تو اس وقت میں بھی نہیں جانتی تھی میرے ابّا اتنے مشہور ہیں،
فیض صاحب کی شخصیت اور مقام سے واقعی اُنکے بچوں کو بلکہ ہر بڑے آدمی کے بچوں اُنکی قدر و منزلت کا اندازہ اُنکے اس دنیا سے جانے کے بعد تو ہوا پر اُنکی زندگی میں اُس درجہ نہ ہوا جیسے دنیا اُنھیں جانتی تھی ۔۔۔مشتاق
یو سفی صاحب کو بھی یہ قلق رہا ۔۔۔۔۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
.....قدیم عربی حکایت کا ترجمہ....
کہتے ہیں کہ کسی جگہ پر بادشاہ نے تین افراد کو سزائے موت دی، بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسے سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا، رسے کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھرا زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا، چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا، ان میں سے
■ایک عالم
■ ایک وکیل
■ اور ایک فلسفی
تھا. سب سے پہلے عالم کو اس تختہ پر عین پتھر گرنے کے مقام پر لٹایا گیا اور اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو عالم کہنے لگا میرا خدا پر پختہ یقین ہے وہی موت دے گا اور زندگی بخشے گا، بس اس کے سوا کچھ نہیں کہنا. اس کے بعد رسے کو جیسے ہی کھولا تو پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور عالم کے سر کے اوپر آکر رک گیا، یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے اور عالم کے پختہ یقین کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی اور رسہ واپس کھینچ لیا گیا.
اس کے بعد وکیل کی باری تھی اس کو بھی تختہ دار پر لٹا کر جب آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا میں حق اور سچ کا وکیل ہوں اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے. یہاں بھی انصاف ہوگا. اس کے بعد رسے کو دوبارہ کھولا گیا پھر پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس بار بھی وکیل کے سر پر پہنچ کر رک گیا، پھانسی دینے والے حیران رہ گئے اور وکیل کی جان بھی بچ گئی.
اس کے بعد فلسفی کی باری تھی اسے جب تختے پر لٹا کر آخری خواہش کا پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا عالم کو تو نہ ہی خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف نے، دراصل میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ گانٹھ ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ کی وجہ بنتی ہے جس سے رسہ پورا کھلتا نہیں اور پتھر پورا نیچے نہیں گرتا، فلسفی کی بات سن کر سب نے رسے کو بغور دیکھا تو وہاں واقعی گانٹھ تھی انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسہ آزاد کیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور فلسفی کا ذہین سر کچل کر رکھ دیا.
حکایت کا نتیجہ..
بعض اوقات بہت کچھ جانتے ہوئے بھی منہ بند رکھنا حکمت میں شمار ہوتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
ماچس کی ڈبیاں اس وقت ایک روپے کی چار آتی تھیں لیکن چولہا جلانے کے لیے دادی گتے کی چھپٹیوں کا استعمال کرتی تھیں۔ چھپٹی کہہ لیجیے کہ جیسے چائے کا ڈبا ہے ، اس کے باریک اور لمبے بہت سے ٹکڑے کاٹ لیں، آئس کریم سٹک کی طرح سے ، تو وہ ایک ٹکڑا ایک چھپٹی کہلاتا ہے۔ اب سین یہ ہوتا تھا کہ صبح جو پہلا چولہا جلتا وہ ماچس سے جلایا جاتا، اس کے بعد دوسرا اور تیسرا چولہا جلانے کے لیے وہی چھپٹی پہلے چولہے سے جلا کر باقی دونوں کو دکھا دیتیں اور یوں ماچس کی دو تیلیوں کی بچت ہو جاتی۔ وہ سب گتے کے باریک ٹکڑے یا چھپٹیاں چولہے کے برابر کسی بھی ڈبے میں رکھی ہوتی تھیں۔ دادی جب تک زندہ تھیں ان کا استعمال ہوتا رہا۔ جب تک نظر ٹھیک تھی تو فارغ وقت میں وہ سوئیٹر وغیرہ بن لیتی تھیں، نظر کمزور ہو گئی تو اسی طرح کے چھوٹے موٹے بہت سے کام انہوں نے خود اپنے ذمے لے لیے ۔ ماچس کی بچت آج کون سوچ سکتا ہے ؟ یعنی ایک تیلی جس کی وقعت آج بھی شاید دو پیسے ہو گی دادی اس کے استعمال میں کفایت کرتی تھیں، فضول خرچی نام کی چڑیا کبھی اڑتی ہی نہیں دیکھی۔
قلفی والا آتا، دور سے ہی گھنٹی بجنے کی آواز آنا شروع ہو جاتی، ابھی لکھتے لکھتے بھی منہ میں پانی آ گیا، کیا ہی قلفی ہوتی تھی! وہ گھنٹی جب بجتی اور بچے دادی سے پیسے مانگتے تو جتنے چاہیے ہوتے اتنے ہی وہ دیتیں لیکن کہتیں، چندا منہ ہی میٹھا کرنا ہے نا، تین روپے والی کھاؤ یا ایک روپے والی، پیٹ کبھی نہیں بھر سکو گے، ایک والی کھاؤ گے تو باقی دو روپوں سے شام میں کچھ کھا لینا۔ لیکن شام کون دیکھے ، اور شام میں کچھ بجوگ پڑ بھی گیا تو دادی کا بنک پھر دوبارہ کام آ جاتا تھا۔ یہ بات بھی اب سمجھ میں آتی ہے ۔ جو بھی کھا لیجیے ، جتنا بھی کھا لیجیے ، بھوک ہر حال میں دوبارہ لگنی ہی لگنی ہے ، تو کیوں نہ حساب سے کھایا جائے اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے جائیں۔
ایک نعمت خانہ ہوتا تھا۔ نعمت خانہ اس زمانے کا فریج تھا۔ چار فٹ لمبائی، تین فٹ چوڑائی اور تین فٹ ہی گہرائی کی ایک الماری جس میں چاروں طرف لکڑی کے فریم کے اندر جالی لگی ہوتی تھی۔ یعنی بس ایک ہوادار سی الماری تھی جو باورچی خانے میں ایک کونا سنبھالے ہوتی تھی۔ دودھ ابالا، اسی میں رکھ دیا، سالن بنایا اس میں رکھ دیا، نچلے خانوں میں مصالحے وغیرہ بھی پڑے رہتے ، چائے کے لوازمات بھی وہیں دھرے ہیں، ماں کے لیے جو ڈرائے فروٹ نانا بھیجتے تھے وہ بھی وہیں سے چرا کر کتنی دفعہ کھایا، تو نعمت خانہ بڑی مزے کی چیز تھا۔ اسے ہرگز یہ دعویٰ نہیں تھا کہ میں پانچویں دن بھی آپ کو تازہ سالن کھلا سکتا ہوں، وہ سکھلاتا تھا کہ بھئی اتنا پکاؤ جتنا رات تک ختم ہو جائے ، کل کی فکر کل ہی کرنا!
ایک کام اور بھی دادی کا بڑا زبردست تھا۔ کبھی کوئی چیز ضائع نہیں کرتی تھیں۔ اپنے کپڑوں کی سلائی میں سے بچی کترنیں، دھاگوں کے چھوٹے بڑے گچھے ، مختلف رنگوں کے بٹن، سر میں لگانے والی سیاہ پن (بوبی پن)، سوئٹروں کی سلائی سے بچی اون، ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانے ، پانچ پیسے کا وہ چوکور سکہ، دس پیسے والے کنگری دار سکے یا چونی اٹھنی جو بھی بچتا وہ سب کا سب پاندان میں ان کے پاس سنبھلا رہتا تھا۔ ضرورت کے وقت نکل بھی آتا تھا۔ ایک فٹ کا پاندان گھر داری کی ضرورتیں بھی پوری کرتا تھا۔
اس وقت ایک انسان کے پاس جیب میں پانچ دس نوٹ ہوتے تھے اور اگر وہ سگریٹ پینے والا ہوتا تو ساتھ ایک ڈبی اور ماچس بھی ہوتی، زندگی یہیں تک تھی اور پھر بھی حسین تھی۔ آج آپ نے گھڑی بھی لازمی باندھنی ہے ، سالم بٹوہ جیب میں ہونا لازم ہے ، موبائل تو امت پر فرض ہو چکا ہے ، اس کی بیٹری کمزور ہے تو پاور بینک بھی ہاتھ میں رکھنا ہے ، سواری کی چابیاں بھی ساتھ ہیں، سگریٹ پیتے ہیں تو وہ، اس کا لائٹر، بندہ دو جیبوں میں کتنا کچھ رکھ سکتا ہے ؟ جیبوں میں ضرورت سے زیادہ سامان بھر لینا اور پھر اس کے پیچھے جیبیں خالی کرتے جانا دورِ جدید کی عطا ہے ۔
اے سی، فریج، ٹیلی فون، رنگین ٹی وی، وی سی آر، شاور، مسلم شاور، ٹائلوں والے باتھ روم، ماربل اور چپس والے فرش، ایلومینیم کی کھڑکیاں، ہر بندے کی اپنی موٹر سائیکل یا گاڑی، یہ سب ابھی بیس پچیس برس پہلے تک نوے فی صد لوگوں کے لیے ایک خواب ہوتا تھا، کون مان سکتا ہے ؟ ماموں گیارہویں سال گرہ پر آئے تو لال رنگ کی ایک سائیکل لائے تھے ، اس سے آج تک نیچے نہیں اترا، خوشی بس یہ ہوتی تھی!
خواب پورے کرنے کے لیے قیمت چکانا پڑتی ہے ۔ بجلی کے بلوں پر چیخنے سے پہلے گھر کے اندر اے سی گن لیجیے ۔ گیس کے بل پر بلبلانے سے پہلے گیزر چیک کیجیے ، کتنے ماہ سے بند نہیں ہوا؟ پیٹرول کے بڑھتے ریٹ پر احتجاج کرنے سے پہلے یاد کیجیے کہ سائیکل سے اترتے ہوئے کندھے ٹانگیں اور کمر کیا احتجاج کرتے تھے ۔ ذرا وہ لال اینٹوں کے صحن اور سیمنٹ والے باتھ روم یاد کیجیے جن میں بالٹی سے ڈونگے بھر بھر کے نہانا ہوتا تھا اور اب شاور کے مزے دیکھ لیجیے کہ جس کے نیچے سے ہٹنے کا دل نہیں چاہتا۔ موبائل کمپنیوں کی دھاندلی کا رونا روتے ہوئے تصور کیجیے کہ ماں بہنوں کو فون سننے چھ گھر پار جانا پڑے تو کیسا لگتا ہو گا۔ انٹرنیٹ ری چارج کرواتے ہوئے سوچیے کہ یہ جو مفت میں گھنٹوں پردیسیوں سے بات ہوتی ہے ، یہ کیا دو منٹ کو بھی ممکن تھی؟ جو بہت زیادہ افورڈ کر سکتے تھے وہ مکمل ویڈیو کیسٹ ریکارڈ کروا کے گھر بھیجتے تھے ، پورا گھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر انہیں دیکھتا تھا اور ماں رو بھی نہیں سکتی تھی کہ باپ کا دل کمزور نہ پڑ جائے ، باپ تو ویسے ہی “مرد” بننے پر مجبور ہوتا تھا۔ ہما شما آڈیو کیسٹ پر آواز سن کر دوپٹے کے کونے بھگو لیتے تھے اور غریب غربوں کا آسرا وہی خط ہوتا تھا جو آج بھی نصف ملاقات سمجھا جاتا ہے لیکن ایس ایم ایس اور ای میل جسے دفن کر چکے ہیں۔
تو یہ قیمت چکاتے چکاتے راستہ وہاں لے جاتا ہے جہاں نئے خواب منتظر ہوتے ہیں۔ سستے موبائل والا مہنگا موبائل لے گا۔ سائیکل والا موٹر سائیکل لے گا، موٹر سائیکل والا چھوٹی گاڑی لے گا، چھوٹی گاڑی کے بعد بڑی کا خواب دیکھا جائے گا، بڑی سے اور بڑی اور پھر اور بڑی۔ یہی معاملہ کچے گھروں سے نکلنے والوں کو دو کنال کے بنگلے میں بھی چین نہیں لینے دیتا اور اسی طرح کا حال ٹیکنالوجی کے مارے ہوؤں کا ہوتا ہے ۔ لیپ ٹاپ، موبائل، ٹیبلٹ، ہر چار سے چھ ماہ بعد ان کے نئے ماڈل دستیاب ہوتے ہیں اور انہیں ساتھ رکھنا سٹیٹس کی نشانی، انسان کتنا اپ ٹو ڈیٹ رہ سکتا ہے ؟ یارو، ایک لاکھ کے موبائل پر چڑھ کے گھر سے بندہ صدر تک تو جا نہیں سکتا، فائدہ کیا ایسی اندھی ریس میں پڑنے کا، بھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان!
 

سید عمران

محفلین
1- ایک مسیحی عورت سلطان صلاح الدین سے کہتی ھے، “میرا شوہر تمہاری قید میں ہے اب مجھے خرچہ تم دو۔” سلطان اس جنگی قید کو آزاد کرکے دونوں کو گھر تک پہنچنے کا خرچہ دے کر رخصت کرتا ھے۔
2- ایک قبطی (غیر مسلم) عمر بن الخطاب کے پاس آکر یہ شکا یت کر تا ھے کہ “آپ کے گورنر(عمرو بن العاص) کے بیٹے نے مجھے تھپڑ مارا ھے۔” حضرت عمر اس کے لیے گورنر اور اس کے بیٹے سے قصا ص لیتے ہیں۔
3- ایک ذمی (غیر مسلم) ایک ڈھال کے لیے امیر المومنین علی کے خلاف عدالت میں کیس کرتا ہے اور جیت جاتا ھے۔
4- القدس کی فتح کے بعد سلطان صلاح الدین اور انکے فوجی کماڈرز فدیہ میں ملنے والی رقم کو دشمن کے قیدی سپاہیوں پر یہ کہہ کر خرچ کرتے ہیں کہ یہی فقراء ہیں۔
5- فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ ان لوگوں سے جنہوں نے ساری عمر آپﷺ کے خلاف جنگ لڑی سے فرماتا ہے”جاوء آج تم سب آزاد ہو”۔
6- عمر بن الخطاب کے زمانے میں سیدنا علی مدینہ منور کے قاضی تھے اور وہ یہ کہہ کر اپنا استعفی پیش کرتے ھیں کہ “اب لوگوں کے مابین کومسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا تو قاضی کی ضرورت نہیں ھے”۔
7- ساری ریاست میں صرف خلیفہ (عمر بن عبد العزیز) کے علاوہ کوئی بھوکا نہیں سوتا۔
8-ساری دنیا نئے کپڑے پہن کر باہر نکلتی ہے سوائے خلیفہ (عمربن عبد العزیز)کی بیٹی کے جو نئے کپڑوں کے لیے روتی ہے تو خلیفہ کہتا ہے بیٹی میرے پاس پیسے نہیں۔
9- کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے سے ایک عورت خلیفہ (معتصم)کو مدد کے لیے پکارتی ہے تو خلیفہ فورا ایک لشکر جرار لے کر اس خاتون کی مدد کے لیے نکلتا ہے اور ظالموں کو سزا دیتا ھے۔
10- تاتاریوں کی طرف سے ساری دنیا کو تہہ وبالا کرنے کے بعد تاتاری ھی اسلام سے متاثر ھو کر اسلام قبول کر لیتے ھیں۔
11- دنیا میں سب سے بڑی قوت ہونے کی وجہ سے خلیفہ (ہارون الرشید) سر ٹھا کر بادلوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے” جہاں چاہو برسو سب اللہ کی مخلوق ھے”۔
12-عمر بن عبد العزیز کے زمانے میں منادی سڑکو ں پر گھومتا ہو ا آواز دیتا ہے”کسی کو پیسوں کی ضرورت ہے؟ ،کھانے،پینے ،لباس حتی کہ شادی کے لیے” کوئی جواب نہیں آتا،سب خوشحال تھے۔
 

سید عمران

محفلین
دنیا بھر کے مؤرخین کو چیلنج ہے میرا !!!!
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﮐﺎ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ 20ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ۔
23 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ،
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ،
ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﺩﯼ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺷﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ،
ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻣﺼﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ،
ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺍٓﯾﺎ،
ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺱ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﻟﮍﯼ،
ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﺯ ﺟﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺎﻟﯿﮧ ﺷﮩﺮ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮐﯿﺎ،
ﻣﮑﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟﭨﺎﺋﯿﻔﺎﺋﯿﮉ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ 323 ﻗﺒﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﻣﯿﮟ 33 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ
ﮐﺮ ﮔﯿﺎ، ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺟﺮﻧﯿﻞ، ﻓﺎﺗﺢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺩﯼ ﮔﺮﯾﭧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎﺩﯾﺎ،
ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﺍﮐﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭﺍﻋﻈﻢ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ؟
ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﺯﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ،
ﺍٓﭖ ﺑﮭﯽ ﺳﻮچئے.
ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ،
ﺍﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮔﮭﮍﺳﻮﺍﺭﯼ ﺳﮑﮭﺎﺋﯽ، ﺍﺳﮯ ﺍﺭﺳﻄﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﺨﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺝ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ 7 ﭘﺸﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ ﺗﮭﺎ،
ﺍٓﭖ ﺑﮭﯿﮍ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺑﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍﻧﺪﺍﺯﯼ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺍﮐﯿﮉﻣﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍٓﺭﮔﻨﺎﺋﺰﮈ ﺍٓﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ 10 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ 17 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ،
ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ 10 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺭﮔﻨﺎﺋﺰﮈ ﺍٓﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ 22 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺳﭙﺮ ﭘﺎﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺍٓﺝ ﮐﮯ ﺳﯿﭩﻼﺋﭧ، ﻣﯿﺰﺍﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺑﺪﻭﺯﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﭩﮫ ﭘﺮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﺍﺋﯽﺗﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻭ ﺍﻧﺼﺮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﭼﻼﯾﺎ ﺗﮭﺎ،
ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﻧﮯ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺟﺮﻧﯿﻞ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺍﺋﮯ، ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺟﺮﻧﯿﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌﺍ،
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺑﻐﺎﻭﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺍٓﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﯾﺎ،
ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺳﺮﺗﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ.
ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺳﭙﮧ ﺳﺎﻻﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻣﻌﺰﻭﻝ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔
ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﮐﻮﻓﮯ ﮐﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﺳﮯ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺎ۔
ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﮐﻌﺐ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ
ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﻟﯽ۔
ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺍﻟﻌﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﺿﺒﻂ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻤﺺ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﻧﮯ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ،
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﻋﺪﻭﻟﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔
ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭﻧﮯ 17 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ،
ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻈﺎﻡ ،
ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺴﭩﻢ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ،
ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﺩﯾﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﯿﮟ،
ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔
ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔
ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ
ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪ ﻭ ﺑﺴﺖ ﮐﺮﺍﯾﺎ.
ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔
ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔
ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔
ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔
ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔
ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔
ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ
ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔
ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ڈاک کا نظام بنایا
فوج میں اصلاحات مرتب کی
نظام تعلیم بنایا
ٹیکس کا نظام قائم کیا
بلدیاتی نظام متعارف کروایا،
ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ ’’ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘
ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
’’ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘۔
25fe.png
ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔
25fe.png
ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
25fe.png
ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ
ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
25fe.png
ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔
25fe.png
ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
25fe.png
ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ،
ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ،
ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ،
ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔
25fe.png
ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.
25fe.png
ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ "ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﻟﯿﺎ۔"
25fe.png
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ "ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘
25fe.png
ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ ’’ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ، *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ
ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ )
ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ۔
ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ’’ ﻟﻮﮔﻮ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘(انا للہ و انا الیہ راجعون)
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ
ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘
ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ ’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ،
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘
ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ،
ﻭﮦ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ
ﻓﺎﺭﻭﻕ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻨﮑﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ 5ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ*،
ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ،
ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ،
ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔
ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ،
ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ،
ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ،
ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ،
ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ،
ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ،
ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
*ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ:
’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ’’ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ،
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ (ﺣﻀﺮﺕ) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ( ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘
جن کے بارے میں مستشرقین اعتراف کرتے ہیں کہ "اسلام میں اگر ایک عمر اور ہوتا تو آج دنیا میں صرف اسلام ہی دین ہوتا."
ﮨﻢ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ، ﺟﻦ
ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ،
’’ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺒﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﮨﻮﺗﮯ-
 

سیما علی

لائبریرین
ماں بہنوں کو فون سننے چھ گھر پار جانا پڑے تو کیسا لگتا ہو گا۔ انٹرنیٹ ری چارج کرواتے ہوئے سوچیے کہ یہ جو مفت میں گھنٹوں پردیسیوں سے بات ہوتی ہے ، یہ کیا دو منٹ کو بھی ممکن تھی؟ جو بہت زیادہ افورڈ کر سکتے تھے وہ مکمل ویڈیو کیسٹ ریکارڈ کروا کے گھر بھیجتے تھے ، پورا گھر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر انہیں دیکھتا تھا اور ماں رو بھی نہیں سکتی تھی کہ باپ کا دل کمزور نہ پڑ جائے ، باپ تو ویسے ہی “مرد” بننے پر مجبور ہوتا تھا۔ ہما شما آڈیو کیسٹ پر آواز سن کر دوپٹے کے کونے بھگو لیتے تھے اور غریب غربوں کا آسرا وہی خط ہوتا تھا جو آج بھی نصف ملاقات سمجھا جاتا ہے لیکن ایس ایم ایس اور ای میل جسے دفن کر چکے ہیں۔
تو یہ قیمت چکاتے چکاتے راستہ وہاں لے جاتا ہے جہاں نئے خواب منتظر ہوتے ہیں۔ سستے موبائل والا مہنگا موبائل لے گا۔ سائیکل والا موٹر سائیکل لے گا، موٹر سائیکل والا چھوٹی گاڑی لے گا، چھوٹی گاڑی کے بعد بڑی کا خواب دیکھا جائے گا، بڑی سے اور بڑی اور پھر اور بڑی۔ یہی معاملہ کچے گھروں سے نکلنے والوں کو دو کنال کے بنگلے میں بھی چین نہیں لینے دیتا اور اسی طرح کا حال ٹیکنالوجی کے مارے ہوؤں کا ہوتا ہے ۔ لیپ ٹاپ، موبائل، ٹیبلٹ، ہر چار سے چھ ماہ بعد ان کے نئے ماڈل دستیاب ہوتے ہیں اور انہیں ساتھ رکھنا سٹیٹس کی نشانی، انسان کتنا اپ ٹو ڈیٹ رہ سکتا ہے ؟ یارو، ایک لاکھ کے موبائل پر چڑھ کے گھر سے بندہ صدر تک تو جا نہیں سکتا، فائدہ کیا ایسی اندھی ریس میں پڑنے کا، بھٹ پڑ
بہت اعلیٰ ۔۔۔۔
کڑوے سچ جن میں ہم ڈوب چکےُ ہیں اور ہر دم ان تلخ حقیقتوں سے نظریں چُراتے ہیں ۔۔
 

سید عمران

محفلین
ایک جگہ تھوڑا سا پانی گرائیں اس پانی کے ایک طرف ٹشوپیپر کا ایک کونا رکھ دیں، اس کونے کے علاوہ باقی سارا ٹشوپیپر پانی سے باہر ہوگا، تھوڑی دیر بعد دیکھیے گا کہ ٹشوپیپر کا ایک بڑا حصہ گیلا ہوچکا ہے۔
خاموشی کے ساتھ پانی ٹشوپیپر میں سرایت کرتا جائے گا اور یہ عمل بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے، سرایت کرنے کا عمل نہایت خاموشی اور سرعت کے ساتھ نظر آئے گا۔
اس عمل کو سائنسی اصطلاح میں Capillary Action کہا جاتا ہے۔
*یہی حال نیک صحبت یا بری صحبت کا ہے۔*
آپ تھوڑا وقت گزاریں یا زیادہ وقت، صحبت کے اثرات اسی طرز پر آپ کے قلب پر مرتب ہونگے اور شروع میں آپ کو معلوم بھی نہ ہوپائے گا۔
جتنی زیادہ صحبت، اُتنے زیادہ اثرات، صحبت کے اثرات ازخود سرایت کرتے جائیں گے
*اس لیے صحبتِ نیک رکھیے اور بری صحبت سے احتراز کیجیے تاکہ دنیا اور آخرت میں سرخ رو رہیں۔
 

سید رافع

محفلین
عربوں کو اونٹ کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لیے ان کی طبیعت میں نخوت ، غيرت اور سختی کا عنصر بہت پایا جاتا ہے ...
ترکوں کو گھوڑے کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لیے ان میں طاقت ، جراءت اور اکڑ پن کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے....
انگریزوں کو خنزیر کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لیے ان میں فحاشی وغیرہ کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے ....
حبشی افریقی بندر کھاتے ہیں اس لیے ان میں ناچ گانے کی طرف میلان زیادہ پایا جاتا ہے....
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جس کو جس حیوان کے ساتھ انس ہوتا ہے اس کی طبیعت میں اس حیوان کی عادتیں غیر شعوری طور پر شامل ہوجاتی ہیں... اور جب وہ اس حیوان کا گوشت کھانے لگ جائے تو اس حیوان کے ساتھ مشابہت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ....

ہمارے زمانے میں فارمی مرغی کھانے کا رواج بن چکا ہے... چنانچہ ہم بھی مرغیوں کی طرح صبح و شام چوں چوں تو بہت کرتے ہیں لیکن ایک ایک کرکے ہمیں ﺫبح کردیا جاتا ہے ... فارمی مرغی کا گوشت کھانے کی وجہ سے ہم میں سستی کاہلی کی، ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے کی ، سر جھکا کر چلنے کی اور پستی میں رہنے کی عادتیں پیدا ہوچکی ہیں.

اور سبزی خور کے لیے کیا اصول بنا؟
 

سید رافع

محفلین
حال ہی میں بھارت میں شائع ہونے والی کتاب” *کالکی اوتارا* “ نے دنیا بھر ہلچل مچا دی ہے۔ اس کتاب میں يہ بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس *کا کالکی اوتار* کا تذکرہ ہے, وہ *آخری رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* بن عبداﷲ ہیں۔

اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوتا تو وہ اب تک جیل میں ہوتا اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی مگراس کے مصنف پنڈت وید پرکاش برہمن ہندو ہیں,(یہ ساری تحقیقات انہوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لکچرز سننے کے بعد کی جو حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی) پنڈت وید پرکاش الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔
وہ سنسکرت کے معروف محقق اور اسکالر ہیں۔ انہوں نے اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور معروف محققین پنڈتوں کے سامنے پیش کیاہے جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں۔ ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیاہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا نام ” *کالکی اوتار*“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔
ہندووں کی اہم مذہبی کتب میں ايک عظیم رہنما کا ذکر ہے۔ جسے " *کالکی اوتار*“ کا نام دیا گیا ہے, اس سے مراد *حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* ہیں جو مکہ میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ تمام ہندو جہاں کہیں بھی ہوں، ان کو کسی کالکی اوتار کا مزید انتظار نہیں کرنا ہے، بلکہ محض اسلام قبول کرنا ہے، اور آخری *رسول صلی اﷲ علیہ وسلم* کے نقش قدم پر چلنا ہے جو بہت پہلے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئے ہیں۔ اپنے اس دعوے کی دليل میں پنڈت وید پرکاش نے ہندووں کی مقدس مذہبی کتاب” *وید*“ سے مندرجہ ذیل حوالے دلیل کے ساتھ پیش کےے ہیں۔
1۔ ”وید“ کتاب میں لکھا ہے کہ
” *کالکی اوتار*“ بھگوان کا آخری اوتار ہو گا جو پوری دنیا کو راستہ دکھائے گا۔ان کلمات کاحوالہ دينے کے بعد پنڈت ویدپرکاش يہ کہتے ہیں کہ يہ صرف *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* کے معاملے میں درست ہو سکتا ہے۔
2۔”ہندوستان“ کی پیش گوئی کے مطابق” *کالکی اوتار*“ ايک جزیرے میں پیدا ہوں گے اور يہ عرب علاقہ ہے، جیسے جزیرة العرب کہا جاتا ہے۔
3۔ مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ
” *کالکی اوتار*“ کے والد کا نام ’‘ *وشنو بھگت*“ اور والدہ کا نام ” *سومانب*“ ہوگا۔ سنسکرت زبان میں ” *وشنو*“ *ﷲ* کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور” *بھگت*“ کے معنی غلام اور بندے کے ہیں۔ چنانچہ عربی زبان میں
” *وشنو بھگت*“ کا مطلب اﷲ کا بندہ یعنی ” *عبداﷲ*“ ہے۔ سنسکرت میں ” *سومانب*“ کا مطلب امن ہے جو کہ عربی زبان میں ” *آمنہ*“ ہو گا اور آخری رسول ( * *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم*) کے والد کا نام *عبداﷲ* اور والدہ کا نام *آمنہ* ہے۔
4۔وید کتاب میں لکھا ہے کہ ” *کالکی اوتار*“ زیتون اور کھجور استعمال کرے گا۔ يہ دونوں پھل *حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم* کو مرغوب تھے۔ وہ اپنے قول میں سچا اور دیانت دار ہو گا۔ مکہ میں *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* کے لئے *صادق* اور *امین* کے لقب استعمال کيے جاتے تھے۔
5۔ ” *وید* “ کے مطابق” *کالکی اوتار*“ اپنی سر زمین کے معزز خاندان میں سے ہو گا اور يہ بھی *محمد صلی ﷲ علیہ وسلم* کے بارے میں سچ ثابت ہوتا ہے کہ آپ قریش کے معزز قبیلے میں سے تھے، جس کی مکہ میں بے حد عزت تھی۔
6۔ہماری کتاب کہتی ہے کہ بھگوان ” *کالکی اوتار*“ کو اپنے خصوصی قاصد کے ذريعے ايک غار میں پڑھائے گا۔ اس معاملے میں يہ بھی درست ہے کہ *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* مکہ کی وہ واحد شخصیت تھے، جنہیں اﷲ تعالی نے غار حرا میں اپنے خاص فرشتے حضرت جبرائیل کے ذريعے تعلیم دی۔
7۔ ہمارے بنیادی عقیدے کے مطابق بھگوان ” *کالکی اوتار*“ کو ايک تیز ترین گھوڑا عطا فرمائے گا، جس پر سوار ہو کر وہ زمین اور سات آسمانوں کی سیر کر آئے گا۔ *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* کا” *براق* پر معراج کا سفر“ کیا يہ ثابت نہیں کرتا ہے؟
8۔ ہمیں یقین ہے کہ بھگوان *”کالکی اوتار*“ کی بہت مدد کرے گا اور اسے بہت قوت عطا فرمائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ جنگ بدر میں *ﷲ* نے *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* کی فرشتوں سے مدد فرمائی۔
9۔ ہماری ساری مذہبی کتابوں کے مطابق” *کالکی اوتار*“ گھڑ سواری، تیز اندازی اور تلوار زنی میں ماہر ہوگا۔
پنڈت وید پرکاش نے اس پر جو تبصرہ کیا ہے۔ وہ اہم اور قابل غور ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گھوڑوں، تلواروں اور نیزوں کا زمانہ بہت پہلے گزر چکا ہے۔اب ٹینک، توپ اور مزائل جیسے ہتھیار استعمال میں ہیں۔ لہذا يہ عقل مندی نہیں ہے۔ کہ ہم تلواروں، تیروں اور برچھیوں سے مسلح ” *کالکی اوتار*“ کا انتظار کرتے رہیں۔حقیقت يہ ہے کہ مقدس کتابوں میں ” *کالکی اوتار*" کے واضح اشارے *حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* کے بارے میں ہیں جو ان تمام حربی فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ ٹینک توپ اور مزائل کے اس دور میں گھڑ سوار، تیغ زن اور تیرا نداز کالکی اوتار کا انتظار نری حماقت ہے۔

اس کتاب کا لنک مل جائے گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوب، کمال، سبحان اللہ
ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ’’ ﻟﻮﮔﻮ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘(انا للہ و انا الیہ راجعون)
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ
ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘
ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ ’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ،
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔
ماشاءاللہ، ماشاءاللہ
 
Top