میرے پسندیدہ اشعار

شمشاد

لائبریرین
تجھ کو برباد تو ہونا تھا بہرحال خمارؔ
ناز کر ناز کہ اس نے تجھے برباد کیا
خمار بارہ بنکوی)
 

شمشاد

لائبریرین
آپ کی غزل تو کسی نے دیکھی ہی نہیں۔

میری رائے میں تو اچھی غزل ہے لیکن اس پر رائے تو اساتذہ کرام کی ہی صائب ہو گی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بعد مُدت اُسے دیکھا، لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا، لوگو
خُوش نہ تھا مُجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
اُس کے چہرے پہ لکھا تھا،لوگو

پروین شاکر
 

شمشاد

لائبریرین
ہم نہ چھوڑیں گے محبت تری اے زلف سیاہ
سر چڑھایا ہے تو کیا دل سے گرائیں تجھ کو

چھوڑ کر ہم کو ملا شمع رخوں سے جا کر
اسی قابل ہے تو اے دل کہ جلائیں تجھ کو

درد دل کہتے ہوئے بزم میں آتا ہے حجاب
تخلیہ ہو تو کچھ احوال سنائیں تجھ کو

اپنے معشوق کی سنتا ہے برائی کوئی
کیوں نہ ہم بگڑیں جو اغیار بنائیں تجھ کو

روٹھتا ہوں جو کبھی میں تو یہ کہتا ہے وہ شوخ
کیا غرض ہم کو پڑی ہے جو منائیں تجھ کو

تو نے اغیار سے آئینہ منگا کر دیکھا
دل میں آتا ہے کہ اب منہ نہ دکھائیں تجھ کو
(لالہ مادھو رام جوہر)
 

سیما علی

لائبریرین
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ

سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ

کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے
شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ

ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ

رزق، ملبوس ، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ

دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ

محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانیئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے؟
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر

اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہونگے
وہ جھوٹ نہ بولے گا میرے سامنے آ کر

اب دستکیں دے گا تو کہاں اے غمِ احباب
میں نے تو کہا تھا کہ مرے دل میں رہا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر

محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ھر رستہ سنسان ھوا
اپنا کیا ھے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ھوایہ دل یہ

آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رھا ھوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ھواصحرا

کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ھوئیں
مفت میں ھم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ھوااتنی

دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ھوایوں بھی کم

یوں بھی کم آمیز تھا محسنؔ وہ اس شہر کےلوگوں میں
لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ھوا
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جگنوؤں سے سیکھیں گے، ہم بھی روشنی کرنا
اختیار ظلمت میں کچھ نہ کچھ کمی کرنا
دل صداقتیں مانگے خیر و شر کی دنیا میں
وہم ہے محبت کا سب سے دوستی کرنا

آفتاب اقبال شمیم
 

سیما علی

لائبریرین
تمہیں جب کبھی ملیں ' فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتاردو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو

مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال وخد
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو، مرے سارے زنگ اتار دو
اعتبار ساجد
 

شمشاد

لائبریرین
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھرگیا ہوں سمیٹ لو میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
(اعتبار ساجد)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
جون ایلیا
 

شمشاد

لائبریرین
رکھتے تھے تصویروں سے دیوار و در آباد
ایسے بھی کچھ شہر ہوئے ہیں مٹ مٹ کر آباد

سر آباد خیالوں سے خوابوں سے نگر آباد
ایک جہاں ہے باہر اپنے اک اندر آباد

عشق تھا اپنی جگہ اٹل سمجھوتہ اپنی جا
ایک سے دل آباد رہا اور ایک سے گھر آباد

ساگر ساگر رونے والے رو کر پھر مسکائے
رات رہے جو بستی ویراں کرے سحر آباد

آؤ پھر سے جینا سیکھیں بسنا بسانا سیکھیں
جیسے پرند شجر سے ہیں اور ان سے شجر آباد

آج تو لگتا ہے ہر منظر ناچ رہا ہے شاکرؔ
اندر سکھ کی دھوم مچی سو باہر ہے آباد
(عدیل شاکر)
 
Top