فارسی شاعری رمز آشناى معنى هر خيره سر نباشد

رمز آشناى معنى هر خيره سر نباشد
طبع سليم فضل است ارث پدر نباشد

ہر خیرہ سر ضدی ،ہٹ دھرم شخص کے حصہ میں رمز آشنائ نہیں آتی . طبع سلیم ہونا بھی ایک فضل ہے میراث پدر نہیں

غفلت بهانه مشتاق خوابت فسانه مايل
بر ديده سخت ظلم است گر گوش کر نباشد

(تیری )غفلت بہانے تلاش کرتی ہے اور تیری نیند کہانیاں ، آنکھوں پہ بہت ظلم ہے اگر کان بہرےنہ ہوں

افشاى راز الفت بر شرم واگذاريد
نگشايد اين گره را دستى که تر نباشد

یہ رازِالفت ہے افشا ہو کے رہتا ہے...شرم و حیا سے
اس گرہ کو ہاتھوں سے نہیں کھول سکتے جب تک کہ اس کو تر نہ کرو

بر آسمان رسيديم راز درون نديديم
اين حلقه شبهه دارد بيرون در نباشد

ہم نے آسمان تک رسائ پا لی مگر اپنے درون کے راز نہ پا سکے .انسان نے اپنے اندر جھانک کے نہ دیکھا
یہ مشبہ حلقہ باہر سے نہیں کھلتا،،(دل کی آنکھ اندر کی روشنی سے ہی کھلتی ہے.. باہر سے اس کو کوئ نہیں کھول سکتا)

خلق و هزار سودا ....ماو جنون و دشتى
کانجا ز بى کسى ها خاکى بسر نباشد

مخلوق کے پاس ہزار کام ہیں .ایک ہم ہیں۔مجنون اور دشت و صحرا . کیسی ہے کسی کہ خاک پہ بھی گزارا نہیں

چين کدورتى هست بر جبهه ى نگين ها
تحصيل نامدارى،،،،،، بى دردسر نباشد

یہ زر نگار جبہ (فرغل )اور ناموری کی تمنا ایک طرح سے سر درد کے علاوہ کچھ بھی نہیں. نام کمانابھی بہت کسی مشقت کے بغیرنہیں

امروز قدر هر کس ،مقدار مال و جاه است
آدم نميتوان گفت آنرا که خر نباشد

اس دور میں ہر کسی کی قدر اس کے مال و زر سے ہی ہے ،انسان کسی کو کہہ نہیں سکتا کہ کوئ گدھا ہو گا. وہی حالات آج کل والے . کہ ہم کسی کو اس کے منہ پر نہیں کہہ سکتے..خاص طور پہ جن کے پاس دولت ہو

در ياد دامن او مائيم و دل تپيدن
مشت غبار ما را شغل دگر نباشد

اس کے دامان کی یاد ہے . میں ہوں اور دل کی تڑپ ہے،میں تو ایک مشتِ خاک ہوں میرا (اس کے علاوہ) اور کوئ شغل نہیں ہے

نقد حيات تا کى در کيسه ى توهّم
آهى که ما نداريم گو در جگر نباشد

کب تک ،یہ ھستی کی نقدی توہم کی پوٹلی میں رہے گی ،کون سی آہ و فریاد ہے جو ہمارے جگر میں نہیں

آن به که برق غيرت بنياد ما بسوزد
آئينه ايم و ما را تاب نظر نباشد

برقِ تجلی نے ہمیں راکھ کر دیا،جلا ڈالا(گویا کہ)ہم مانند آئینہ ہمیں تابِ نظارہ بھی نہیں .

پيداست از ندامت عذر ضعيفى ما
شبنم چه وا نمايد گر چشم تر نباشد

ہماری ندامت ہی ہماری کم ہمتی کا اظہار ہے..اگر آنکھ نم نہ ہو تو یہ قطرہ ندامت یعنی آنسو کیسے ظاہر ہو ں

گردانده گير (بيدل) اوراق نسخه ى وهم
فرصت بهار رنگست رنگ اينقدر نباشد

خیال کی کتاب کے اوراق پلٹ کر یکھو
بہار کی فراغت ہیں اس کی رنگینی ہے وگرنہ اس قدر بھی رنگین نہیں

ابو المعانی مرزاعبدالقادر_بیدلؒ
ترجمہ طاہرہ الطاف
Facebook Groups
 
ترجمے میں بہت سی جگہوں پر غلطیاں نظر آ رہی ہیں۔ بہتر ہے کہ کسی بیدل‌پژوه کی جانب رجوع کیا جائے کیونکہ بیدل کے اشعار کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے۔
 
Top