اسکین دستیاب داستان غدر

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 74
پیشگاہ حضور پر نور سے امیر فتح علی اور حمید خاں کو حکم ہوا کہ اپنی جمیت لیجاؤ پُل توڑ دو۔ کشتیاں کھینچ لو۔ کہ فوج اُترنے نہ پاوے۔ دروازہ شہر پناہ کے بند کرا دو۔ سواروں کو روانہ کرو کہ بری صاحب کو لے کر جلد حاضر ہوں اور تمام ملا زمانِ شاہی ازکع تامہ کو حکم حضوری دربار پہنچ جائے۔ کوتوال شہر کو حکم پہنچے کہ دروازہ شہر کا پورا پورا بندوبست رکھے۔ کلکتہ دروازہ پر بذاتِ خود حاضر رہے۔ قلعہ دار صاحب کو حکم پہنچا دو کہ دروازہ قلعہ کی پوری پوری حفاظت رکھیں۔ سوار کو رخصت نوکری والے جلد گھوڑے دوڑا کر شہر میں داخل ہو کر دروازہ راج گھاٹ معمور کرا دیں۔
حسب الحکم تفاشیم فوراً تعمیل حکم ہو گئی۔ سوار جا بجا روانہ ہو گئے مگر یہاں سے جو جمعیت شکست پُل کے واسطے روانہ ہوئی تھی اُس کو حصولِ مطلب میں ناکامی حاصل ہوئی اور بے نیل مرام واپس آنا پڑا۔ ہنوز یہ سلیم گڑھ کے نیچے تھے کہ سامنے ملک الموت کی طرح سوار آتے دکھائی دئیے۔ یہ پُل تک نہ پہنچنے پائے اور وہ پُل کے ادھر اُتر آئے وہاں سے بہزار خرابی اُفتاں و خیزاں گریزاں سوارانِ باغیہ کے آتے آتے انہوں نے جھروکہ کی ڈیوڑھی کا دروازہ لیا۔ چھتہ میں داخل ہو کر دروازہ ڈیوڑھی معمور کر دیا اور دیوانِ خاص اور تسبیخانہ میں حاضر ہو گئے۔ مگر حضرت قدر قدرت ظلّ اللہ بادشاہ رعیّت پناہ کمال جُرات و تہور کو فرما کے نہایت اوسان اور استقلال سے بجائے خود جس طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 71) مارچ 1857ء میں انگریزوں کو بھی شبہ ہوا کہ اہل قلعہ کا تعلق شاہ فارس سے ہے۔ انہیں ایّام میں جامع مسجد دہلی کے دروازے پر ایک اشتہار چسپاں کیا گیا۔ جس میں شاہِ فارس کے حملہ کی اطلاع دی گئی تھی۔ اشتہارہ ہندہ کا نام محمد صادق لکھا تھا اخبارات میں اس اشتہار کا بہت چرچا ہوا۔ آخر مئی 1857ء میں میرٹھ چھاؤنی میں بہت جوش پھیل گیا۔ (نظؔیر)
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 75

بیٹھے تھے بیٹھے رہے۔ ہر گز جنبش نہ کی۔ اور محل کی مستورات اور سرا چاتِ عصمت میں ایک تہلکہ عظیم برپا ہو گیا۔ مگر حضر ت بہ نفسِ نفیس سب کو کلماتِ صبر و تسکین فرما کے تشفی دیتے رہے۔
اِدھر سوارانِ باغیہ کشتیوں کے پُل پر سے اُتر کر سلیم گڑھ کے نیچے ہوتے ہوئے زیر جھروکہ پہنچے اور مردمانِ آئندہ و دوندہ گریزاں ہو کر کلکتہ دروازہ میں داخل ہوئے دروازہ والوں کو اطلاع دی کہ دروازہ معمور کر دو۔
اِدھر مگنہ مود دروازہ پر خبر ہو گئی۔ نہانے دھونے والے گرتے پڑتے بھاگ کر شہر میں داخل ہوئے۔ وہ دروازہ بھی معمور ہو گیا۔ اسی اثنا میں محبوب علی خاں خواجہ سرا مختارِ بادشاہی اور حکیم احسن اللہ خاں آ کر حاضر ہوئے۔ حضور انور نے محل میں یاد فرمایا کہ یکایک سوارانِ نمک حرام بلائے آسمانی کی طرح نازل ہوئے اور زیر جھروکہ آ کر پرا جما کر استادہ ہو گئے۔ اور حسب قاعدہ سلامی ادا کی۔ حضور لامع النور نے حکیم احسن اللہ خاں کو حکم دیا کہ ان لوگوں سے دریافت کرو کہ تم کون لوگ ہو اور کہاں سے آتے ہو۔ اور کس کے نوکر ہو۔ اور یہاں کیوں آئے ہو۔
حکیم احسن اللہ خاں نے بموجبِ حکم تسبیح خانہ میں آ کر سوارانِ باغیہ سے استفسار حال کر نا شروع کیا۔ چند افسر سواران گھوڑوں پر سے اُتر کر پٹری پر آ کر کھڑے ہو گئے اور زیرِ جھروکہ سے ہاتھ جوڑ کر عرض کرنا شروع کیا۔
باغی سواروں کا بیان
حضور ِ جہاں پناہ سلامت آپ دین و دنیا کے بادشاہ ہیں۔ حق تعالٰے نے آپ کو بائیس صوبہ کا
1؎ یہ سوار 11 مئی 1857ء کو دہلی پہنچے تھے۔ (نظیر)
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 311

امراء کی تمکنت:
طبقہ اول و دوم کے امرائے حیدر آباد نازک دماغ تمکنت دوست عیش پسند شہانہ مزاج میں غربا کے حال پر متوجہ بہت کم ہوتے ہیں۔ بلکہ غربا و شکستہ بال کی بازیابی بھی دربار تک خواب و خیال ہے۔

سگ و دربان چویافتند غریب
ایں گریباں گرفت و آں دامن

ایسے نازک مزاج امراء کو شعر و سُخن کا دماغ کہاں کہ وہ اپنے وقتِ عزیز عیش و آرام کو اس کارِ بیکار میں صرف فرمادیں۔

اے عندلیبِ ناداں دم در گلو فروبند
نازک مزاجِ شاہاں تابِ سُخن ندارد

یہاں شعر و سُخن کی کیا وقعت اور شاعر کی کیا قدر و منزلت کِسی فن کا اہلِ کمال صاحبِ جوہر ہو۔ کوئی پُرسانِ حال نہیں۔

ہاں کسی قدر ہے تو البتہ مرثیہ خوانوں کی عشرہ محرم میں قدر ہوجاتی ہے مگر اُنہیں لوگوں کی جو پشتینی شہرت یافتہ ہیں اور اُن کے آباؤ اجداد کا نام چلا آتا ہے اُسی اعتبار سے وہ پوچھے جاتے ہیں۔ خواہ وہ اُس رتبہ کے ہوں یا نہ ہوں۔ باعتبار شہرت اُن کی قدردانی فرمائی جاتی ہے۔ حیثیت ہنر و فنون سے کچھ بحث نہیں اپنی ناموری و شہرت سے مطلب ہے۔ کہ فلاں امیر نے فلاں مرثیہ خواں کو بُلایا ہے۔ اب اُن حضرات کے مقابل میں کوئی عرش کے تارے بھی توڑ لائے تو کوئی پُرسانِ نہیں ہوتا۔ سوائے مرثیہ خوانی کے ظاہرا کوئی نذر و نیاز وغیرہ معلوم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اور شہروں میں امیر غریب علی قدرِ مقدرت طعام داری کرتے ہیں۔ اور غربا و مساکین کو عشرہ محرم میں کھانے کھلواتے ہیں۔ ہزاروں روپے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 312

نذر و نیاز میں صرف کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کسی فن کے اہلِ کمال کو کسی سرکار میں نوکر ہوتے نہ سُنا۔ کسی سُخنور کو دو پیسہ صلہ ملتے نہ دیکھے۔ بخلاف اس کے ہندوستان کے امرا کو ہر اقسام کے شوق ہوتے ہیں۔ کِسی کو لہو و لعب کی جانب توجہ ہوتی ہے۔ مثل پتنگ بازی۔ کبوتر بازی یا اور کسی قسم کی بازی یا شکار وغیرہ بعضوں کو گھوڑے کی ہواری کا شوق ہوتا ہے۔ تو اچھے اچھے ہر ملک اور ہر قوم کے نایاب خاصے گھوڑے علیٰ قدرِ حیثیت طویلے میں موجود ہوتے ہیں۔ اُس فن کے آدمی نوکر ہوتے ہیں۔ کسی امیر کو پرندوں کا شوق ہوتا ہے تو ہزار ہا روپیہ اسی پر صرف ہوتا ہے۔ اُس کے سامان فراہم ہوتے ہیں۔ غرضیکہ امیر کو جس فن کا ذوق ہوتا ہے اُس فن کے آدمی بکثرت جمع ہوتے ہیں اور اُن کی قدردانی کی جاتی ہے اور نہال اور مالا مال ہوتے ہیں۔ امرایانِ حیدر آباد حیدر آباد یورپین تعلیم یافتہ ہیں۔ انگریزوں کے قدم بقدم چلتے ہیں کس درجہ مہذب و محتاط ہیں کہ ایک پیسہ کسی بازی میں بیجا صرف نہیں فرماتے ہیں۔ کیا مجال کہ کسی فن کا آدمہ اپنا اظہارِ جوہر کرکے ازراہ شعبدہ بازی ایک حبہ ٹھگ کرلی جائے۔ یہ ان حضرات کی دانشمندی اور متقضائے لوازم احتیاطِ خودداری ہے پیشتر اسی انسداد اس امر کا رہتا ہے کہ کوئی شخص مسافر دروازے پر نہ آنے پائے۔

اس کے علاوہ اور سب طرح کا فیضِ عام بادادو دہش و شہرہ سخاوت جوشیوہ امارت ہے راقم الحروف کے گوشگذار نہیں ہوا۔

اپنے طرزِ کلام کی وضاحت:
وراقصائے عالم بگشتم بسے
بسر بروم ایام ہر کسے

تمتع زہر گوشہ یافتم
زہر خومنے خوشہ یافتم
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 76
مالک کیا ہے۔ تمام ہندوستان آپ کا محکوم و فرمانبردار ہے۔ ہندوستان کی رعیّت آپ کی رعیّت شمار ہوتی ہے۔ آج تک ہندوستان میں جو منادی پھرتی ہے تو یہی بیان کیا جاتا ہے۔ خلقت خدا کی ملک بادشاہ کا حکم کمپنی کا۔ انگریز لوگ آپ کی طرف سے مالک و مختار ہیں۔ ہم لوگ آپ کے پاس فریادی آئے ہیں۔ امیدوار انصاف ہیں۔ ہم لوگ ملازم انگریزی ہیں۔ ہمیں لوگوں نے اپنی جانیں بیچ کر اور سر کٹوا کر کلکتہ سے لگا کر کابل کے ڈیرے تک فتح کر کے چودہ سو کوس میں عملداری انگریزی قائم کرا دی۔ اور ہمیں لوگوں کی استعانت و امداد سے تمام ہندوستان پر تسلط ہو گیا۔ یہ ولایت سے کوئی فوج ہمراہ لے کر نہیں آئے تھے۔ سب ہندوستانی فوج کی کارگزاری ہے۔ شہادت کے واسطے ہمارے پاس تمغے موجود ہیں۔ اب چونکہ تمام ہندوستان پر قبضہ اور تسلط انگریزوں کا ہو گیا اور کوئی سرکش باقی نہ رہا۔ اب سرکار کی نیت میں فتور واقع ہوا اور ہمارے دین و مذہب کے درپے تخریب ہوئے اور چاہا کہ تمام ہندوستان کو عیسائی کر لیں ۔ اور ابتدا اس کی فرقہ فوج سے ہونی چاہئے۔ چنانچہ باہم صلاح کر کے یہ تجویز قرار پائی کہ ایک قسم کی بندوق ایسی ایجاد کی گئی کہ جس میں ٹوٹا یعنی کارتوس دانتوں سے کاٹ کر بندوق کے منہ میں دینا پڑے اور اس ٹوٹے کو جانوروں کی جھلّی سے منڈھوایا گیا۔ اب نہ معلوم وہ جھلّی دراصل کس کس جانور کی ہے۔ وہ بندوقیں ہم لوگوں کو دی گئیں کہ تم کارتوسوں کو دانتوں سے کاٹ کر بندوقوں میں ڈالو ہم لوگوں نے بالااتفاق ہندو اور فرقہ مسلمان نے تعمیل حکم سے انکار کیا کہ ہم ہرگز ہرگز ایسا نہ کریں گے خواہ سرکار نوکر رکھے یا نہ رکھے۔ فرقہ ہندو کو تو گائے کی جھلّی کا اشتباہ واقع ہوا اور اہل اسلام کو سور کی جھلّی کا۔ درائے ازیں ہندو نے یہ غدر کیا کہ ہم لوگوں میں اکثر برہمن چھتری وغیرہ اعلٰی قوم کے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 77
لوگ ہیں وہ کسی جانور کے گوشت کو منہ نہیں لگاتے۔مسلمانوں نے بھی یہ عذر پیش کیا ہم سوائے حلال جانور کے مُردار کو منہ نہیں لگاتے۔ خدا جانے یہ حلال جانوروں کا پوست ہے یا مُردار ہمارے مذہب میں ہرگز جائز نہیں۔ ہم ہرگز تعمیل حکم سرکار نہیں کریں گے۔ اس پر سرکار کو یہ خیال ہوا کہ فوج نے عدولِ حکمی کی اگر ان پر تشدد نہ کیا جائے گاتو ضعفِ حکومت سرکار متصور ہے۔ سطوتِ شاہی میں فرق آتا ہے۔ اور ہم لوگوں کو خیال دین و آئین دامنگیر ہوا۔ نزاع بڑھ گئ۔ مقدمہ طول کھینچ گیا۔ چار مہینہ سے یہ تنازعہ درپیش ہے۔ حکام میں کمیٹیاں ہو رہی ہیں اور ہم لوگوں میں بھی سوار پیادوں کی چھاؤنیوں میں جابجا چٹھیاں دوڑ گئی ہیں کہ یک قلم کُل فوج انکار کر جائے اور نوکری چھوڑ دے اور زیادہ تشدد ہو تو ایک دن ایک تاریخ بالاتفاق تمام ہندوستان میں غدر مچا دو پھر دیکھو یہ کیا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ مفسدہ کا ظہور آ کر ہوا۔ اور تمام فوج یک قلم جادہ اطاعت سے منحرف ہو گئی۔ اور بنا اس بغاوت کی اس طور پر واقع ہوئی کہ حکام کی کمیٹیوں میں یہ بات قرار پائی کہ پہلے بسم اللہ میرٹھ سے ہونی چاہئے کہ یہ مقام صدر ہے اور بہت بڑا بھاری کمپو یہاں مقیم ہے اور پرانے بھروسہ کی فوج کی اسی جا پر چھاؤنی ہے۔ جب یہ کمپو ٹوٹا کاٹ لے گا تو کسی اور فوج کو مجال سرتابی کی نہ ہو گی۔ چنانچہ حسب صلاح بالا ایک روز اور ایک تاریخ مقرر کر کے پریٹ پر فوج گورے کی جمائی گئی اور سولجروں کا توپ خانہ اور رسالہ کھڑا کیا گیا۔ اور تیسرے رسالہ خاص ہندوستانی کو بلوا کر پریٹ پر استادہ کیا گیا اور افسرانِ رسالہ کو بندوقیں اور کارتوس دے کر حکم سنایا گیا کہ تم اس ٹوٹے کو کاٹو۔ افسران نے معذرت کی کہ سرکار معاف فرمائیے۔ ہم دین سے بے دین کبھی نہ ہوں گے۔ خواہ سرکار ہم کو توپ سے اڑا دے۔ جب افسروں نے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 78

انکار کیا تو پھر دوبارہ ان کو حکم سنا دیا گیا کہ تم کو ٹوٹا کاٹنا پڑے گا۔ پھر بالاتفاق سب نے اُسی طرح انکار کیا۔ انجام کو سہ بارہ یہی حکم صادر ہوا۔ اس جانب سے وہی جواب صاف ملا۔ اس وقت حکم ہوا کہ ہتیار دے دو۔ ہم لوگوں نے ہتیار ڈال دئیے۔ پھر حکم ہوا کہ گھوڑوں سے اُتر پڑو۔ ہم گھوڑوں سے اُتر پڑے۔ پھر حکم ہوا کہ افسر لوگ فوج سے علیٰحدہ ہو جائیں۔ ہم چوراسی افسر چھٹ کر رسالہ سے الگ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ پھر حکم ہوا کہ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دو۔ جب بھی عدولِ حکمی نہ کی۔ خوشی خوشی ہتھکڑیاں پہہن لیں۔ کچھ عذر نہ کیا پھر حکم ہوا تم لوگوں کو عدول حکمی کی سزا دی جاتی ہے۔ تم جیل خانے جاؤ۔ ہم سلام کر کے جیل خانے چلے گئے 1؎
تدبیر سے تقدیر مٹائی نہیں جاتی
بگڑی ہوئی قسمت کی بنائی نہیں جاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1؎ 1857ء کے غدر کی بڑی وجوہ یہ تھیں کہ لارڈ ڈلہوزی نے جو 1848ء سے 1856ء تک ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقبوضات کے گورنر جنرل رہے۔ بہت سی اصلاحات کیں وہ تمام دیسی ریاستوں اور دہلی کی مغل شہنشاہی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ کمپنی نے ان کی اس تجویز کو نہیں مانا۔ تاہم ڈلہوزی کی الحاق کی پالیسی سے تمام والیانِ ریاست ناراض ہو گئے تھے۔ انہیں یہ فکر ہو گیا تھا کہ ان کی ریاستیں جاتی رہیں گی۔ فیصلہ کیا گیا کہ موجودہ مغل بادشاہ کی وفات کے بعد شاہی خاندان کو قلعہ سے نکال کر قطب میں آباد کیا جائے۔ جھانسی کی رانی کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس نے کسی کو متبنٰی بنانے کی اجازت مانگی جو نہیں دی گئی۔ باجی راؤ کے متبنےنانا صاحب کو پنشن دینے سے انکار کر دیا گیا۔ یہ ایسی باتیں تھیں جن میں والیانِ ریاست کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا۔ اسی زمانے میں ایک فوجی قانون منظور کیا گیا جس کی وجہ سے فوج کو دنیا کے ہر حصے میں لڑائی کے لیے روانہ کیا جا سکتا تھا۔
(باقی اگلے صفحے پر)
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحۃ 79
میرٹھ چھاؤنی کا حال
بیک گردش چرخِ نیلوفری نہ نادر بجا ماندو نے نادری جب ہم داخلِ جیل خانہ ہوئے تو کمپ میرٹھ میں تہلکہ عظیم برپا ہو گیا اور گھر گھر کھچڑی پکنے لگی اور باہم صلاح و مشورہ ہونے لگے۔ خصوصاً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 76) ہندوؤں کے مذہب میں سمندر پار جانا گناہ تھا۔ اس لیے ہندو اس قانون کو مذہب میں مداخلت سمجھتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ہندوستانیوں کو بڑے عہدے نہیں دئیے جاتے تھے۔ حکومت میں اُن کا کوئی حصّہ نہیں تھا۔ اس وجہ سے ملک میں انگریزوں کے خلاف عام نفرت پھیل رہی تھی اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ انگریز رعایا کو زبردستی اپنا غلام اور عیسائی بنا رہے ہیں چونکہ مغلوں کے عہد میں ہندوستانیوں کو اعلٰی ترین عہدے دئیے جاتے تھے۔ لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل تھی۔ ملک کی دولت ملک میں ہی میں رہتی تھی۔ سمندر پار نہیں جاتی تھی۔ مغل اس ملک کو اپنا ملک سمجھتے تھے۔ اس لیے انگریزی حکومت کے مقابلے میں لوگوں نے مٹی ہوئی مغل سلطنت کو زندہ کرنیکا ارادہ کر لیا۔ غدر کی ابتدا مئی 1857ء میں میرٹھ میں ہوئی۔ جیسا کہ باغیوں نے اوپر بیان کیا ہے بعد ازاں بغاوت کی آگ دوسری چھاؤنیوں میں بھی پھیل گئی۔ اور جہاں جہاں موقع ملا باغیوں نے انگریز افسروں کو قتل کر دیا۔ کانپور اور لکھنو باغیوں کے مرکز تھے۔ لکھنؤ میں نواب واجد علی شاہ کے خاندان کے ایک شاہزادے کو باغیوں نے بادشاہ بنا دیا۔ ایک سال پیشتر انگریزوں نے نواب واجد علی شاہ سے اودھ کی حکومت لے کر انہیں مٹیا برج (کلکتہ) میں نظر بند کر دیا تھا) باجی راؤ سابق پیشوا کا منبنٰے نانا صاحب انگریزوں کا جانی دشمن تھا۔ اس نے باغیوں کی قیادت اختیار کی۔ اس کے مقابلہ کے لیے جنرل ہولک کو بھیجا گیا جس نے نانا صاحب کو شکست دی اور وہ روپوش ہو گیا۔
لکھنؤ میں سرکالن کمپل نے باغیوں کو شکست دی۔ باغیوں کا اصل مرکز دہلی تھا۔ انگریزوں نے دہلی کا محاصرہ کرنے کے لئے کلکتہ بمبئی مدراس اور پنجاب سے فوجیں منگائیں۔ جنرل نکلسن نے دہلی میں
(باقی آگے)
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 80
فرقہ مستورات میں ہمیشہ سے ناقص العقل کو تہ اندیش ہوتے آئے ہیں۔ ان کو ہرگز اپنے انجام پر نظر نہیں ہوتی۔ اُن میں اکژ عورتیں تھیں کہ جن کے ورثا محبوس ہوئے تھے۔ انہوں نے زبانِ طعن و تشنیع سے پنکھا جھل جھل کر نائرہ فتنہ و فساد کو بھڑکانا شروع کیا اور اُن کی چرب زبانی آتش فساد پر روغن کا کام کر گئی۔ اس محل پر دیوانہ را ہوئے بس است کا مضمون صادق آیا۔ ان عورات نے مردوں کو طعنے دینے شروع کئے کہ تم لوگ مرد ہو اور سپاہ گری کا دعوٰی کرتے ہو۔ مگر نہایت بزدلے اور بے عزت اور بیشرم ہو تم سے تو ہم عورتیں اچھیں۔ تم کو شرم نہیں آتی کہ تمہارے سامنے تمہارے افسروں کے ہتکڑیاں بیڑیاں پڑ گئیں۔ اور تم کھڑے کھڑے دیکھا کئے اور تم سے کچھ نہ ہو سکا۔ تو یہ چوڑیاں تو تم پہن لو اور ہتیار ہم کو دو ہم افسران کو چھوڑا کر لاتی ہیں ۔ اِن کلمات فتنہ انگیز نے اور اشتعالِ طبع پیدا کیا اور تمام فوج کے دلوں میں جوش و خروشِ مردی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 77) باغیوں کو شکست دی تاہم وہ خود اس لڑائی میں کام آیا۔ رانی جھانسی اور تانتیا توپی نے بڑی بہادری سے انگریزی فوج کا مقابلہ کیا۔ رانی تو میدان جنگ میں لڑتی ہوئی ماری گئی۔ تانتیا توپی کو گرفتار کر کے 1859ء میں پھانسی دے دی گئی۔
بمبئی اور مدراس کی فوجوں کا مقابلہ سیندھیا اور ہلکر کی مرہٹہ فوجوں سے ہوا۔ جسمیں مرہٹوں کو شکست ہوئی۔ اور انگریزوں نے کئی قلعے فتح کر لئے مگر سیندھیا اور ہلکر نے انگریزوں سے صلح کر لی۔
غدر کے ایام میں پنجاب میں امن رہا بلکہ پنجاب کی سکھ فوج کی امداد سے جنرل نکلسن نے دہلی کو فتح کیا۔ اور ہزاروں بے گناہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا خون بہایا
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 313

میں نے اپنی مدت العمر پر جو غور و نگاہ ڈال کر حساب کیا تو کس طرح پر تقسیم ہوتی ہے۔ ایک حصہ تو زمانہ طفولیت اور نادانی اور لہو واجب کا غفرانِ شباب اور جوانی تک حصہ حصہ دوم سرگردانی و خانہ بدوشی و بیابان نوروی و تلاش وجہ معاش و نوکرہ و صرفِ اوقات روزگاریگی میں تصور کیا جاتا ہے۔

مابقےٰ ان دو حصص کے ایک ثلث زمانہ کسبِ فج سُخن و سُخنوری و مشق سُخن و سُخنگوئی و صحبت کاملین فنِ سخن و حصول استفادہ فن تصور کرنا چاہیے۔ سن میرا ستر سے تجاوز کرگیا ہے اول زمانہ طفولیت میں مجھے شعر و سُخن کا شوق ہوا اور میں شیخ محمد ابراہیم ذوق خاقانی ہند کا شاگرد ہوا تو وہ زمانہ جاہلیت کا تھا۔ مجھے عیب و صوابِ سُخن کا کچھ امتیاز نہ تھا۔ ہر چند کہ اصلاحِ سُخن بہت کم ہوئی لیکن فیضانِ صحبتِ بابرکات سے استفادہ بہت کچھ حاصل ہوا۔ اور بعد انتقال ان بزرگوار کے یارانِ ہم فن کی صحبت سے بہت امتیاز حاصل ہوا۔ بعد زمانہ غدر کے پانچ چار سال کے بعد جب دہلی واپس آیا ہوں اور چرچا شعر و سُخن رہنے لگا تو مفتی صدر الدین خاں صاحب آزردہ و نواب مصطفےٰ خاں صاحب شیفتہ اور حافظ غلام رسول صاحب ویران کی صحبت کا پیشتر اتفاق رہا۔ اور گاہ گاہ مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب کی خدمت میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا مگر اصلاحِ سُخن کسی سے نہیں لی۔ لیکن ان بزرگواروں و دیگر کاملین کے کلام کو دیکھ کر بنظرِ غور استفاضہ حاصل کیا۔ اور اپنی طبیعت کے زور سے ان تینوں اُستادانِ وقت ذوق، مومن، غالب کے کلام کا لب لباب اخذ کرکے اپنی طرز جداگانہ اختیار کی۔ شیخ صاحب مرحوم کی تو زبان اور محاورات کی پیروی اختیار کی۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 314

مومن صاحب کے مضامین اور نازک خیالی و سوز و گداز کا اتباع کیا۔

مرزا غالب صاحب کی بندش و ترکیبات کی تقلید اختیار کی۔

اس کے علاوہ جو کلمات کہ میرے فہم ناقص میں مذموم اور غیر فصیح، ناجائز مفہوم ہونے سے اُن سے اختراز کیا اور اُن کو متروکات میں داخل کیا۔ خذما صفا و دع ماکدر۔ نان برشیر مال باروغن تلخ گندہ الایجاد بندہ۔ میرا مقصود یہ نہیں ہے کہ مجددِ وقت ہوں اور حضرات بھی میری تقلید اختیار کریں۔ میں نے کوئی متروکہ لفظ اپنے کلام میں شامل نہیں کیا اور احباب کو اپنے کلام کا اختیار ہے۔ جائز رکھیں یا نہ رکھیں۔

بیس سال کامل مجھے ریاست جے پور میں اتفاق روزگار سرشتہ کا ہوا اس اثنا میں مطلق فرصت طبع آزمائی کی نہ ہوئی۔ شائد اس عرصہ میں بیس پچیس غزل اور ایک دو قصیدہ نگاری کا اتفاق حسب تقاضائے احباب ہوا ہو تو ہو مگر بعد جب اُس روزگار سے مستعفی ہوکر خانہ نشین ہوا ہوں اور نواب احمد علی خاں صاحب رونق کی رفاقت اختیار کی ہے۔ جب اس جانب توجہ کی گئی ہے اور میرے کلام کی شہرت ہوئی ہے اور خلائق کی رجوع ہوئی ہے اور اطراف و جوانب سے لوگ میرے شاگرد ہونے شروع ہوئے اور مشقِ سُخن روز بروز ترقی پذیر ہوتی چلی گئی ہے۔ تااینکہ عنایتِ ایزدی سے دیوان اول گلاستان سُخن اختتام کو پہنچ گیا۔ پہلے دیوان کی اشاعت زمانہ ملازمت ٹونک میں خداوند مسبب الاسباب نے اُس کے انطباع کے سامان بھی فراہم کرادیے۔ راجہ بھگوان بہائے بہادر اور خواجہ عبدالرحیم خاں صاحب کی کفالت سے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 315

وہ چھپ کر تیار ہوا اور تمام اطراف و اکنافِ ہندوستان میں اشاعت پاگیا اور تازبانِ انطباع دیوانِ دوم بھی ترتیب پاگیا۔ مگر بعد جب قدر استطاعت نہ ہوئی کہ وہ بھی چھپوایا جاتا۔ اب عنایتِ ایزدی سے تین دیوان کا ذخیرہ میرے پاس موجود ہے اور ایک جلد کے قریب مرثیے، سلام، رباعیات وغیرہ فراہم ہو گئے ہیں۔ خداوند تعالیٰ اپنے خزانہ غیب سے کوئی سامان مہیا کردے گا تو وہ بھی طبع ہوجائیں گے۔ ظاہراً تو کوئی سامان نظر نہیں آتا۔

مدت العمر میری خدمت سلاطینِ عظام و رؤسائے ذوی الاحترام میں صَرف ہوئی اور جہاں رہا اعزاز و احترام سے رہا۔ رؤسائے اولوالعزم نے میرے کلام کو نظرِ وقعت سے ملاحظہ کیا اور جن اُمرائے عالی ہمت، والا نظر، نکتہ سنج، سخن شناس کو خداوندِ عالم نے نگاہِ باریک بین و جوہر قابلیت و استعدادِ سخن شناسی عطا فرمایا ہے اور اُنہوں نے علی قدر مقدرت عطایائے صلہ جات و خلعت و انعامات وغیرہ سے میری قدر افزائی فرمائی۔ حتی کہ نوشعر کی غزل کے صلہ میں مجھے ہزار روپے ایک امیر نے عنایت فرمائے ہیں اور جب نئی غزل لکھ کر لے گیا ہوں، اشرفیاں ملی ہیں۔

نواب احمد علی خاں صاحب رونق تین ہزار روپے ماہوار کی معاش کے آدمی تھے۔ مگر جب میرے کسی بچے کی شادی درپیش ہوتی تھی تو اُس تقریب میں مجھے دو سو روپیہ علاوہ تنخواہِ معینہ کے عطا فرماتے تھے اور قصائد کا صلہ علاوہ عطا ہوتا رہتا تھا۔ علیٰ ہذالقیاس شاگردانِ دیگر، راجہ بھگوان سہائے بہادر گرم و خوانہ عبدالرحیم خاں صاحب اثیم بھی ہمیشہ دستگیری فرماتے رہے۔ اسی طرح مدت العمر بسر ہوگئی۔ اب چند روز کی زندگی باقی ہے۔ آفتابِ لب بام و شمع سحر کا عالم ہے۔ ہر کمالے راز والے اب زمانہ انحطاط و تنزلی کا ہے۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 316

معراجِ کمال تو حاصل ہوچکی ہے۔ تمام ہندوستان میں ڈیرہ غازی خاں سے لے کے ڈھاکے بنگالے تک اور کوہ شملہ سے لے کے مدارس تک میرے شاگرد موجود ہیں۔ جابجا میرا کلام پہنچ گیا ہے۔ لوگ کلام کے مشتاق رہتے ہیں۔ ایک ایک مصرعہ کی قدر و منزلت کرتے ہیں۔ اصلاحات کو آنکھوں سے لگاتے ہیں۔ کوئی ایسا سخنور نہیں جو مجھے جانتا نہ ہو۔ جو گلدستہ نیا جاری ہوتا ہے، پہلے درخواست میرے پاس آتی ہے۔ اب اس سے زیادہ کیا آسمان پر پہنچتا ہے۔ عنایات ایزدی سے میرے شاگردوں کا کلام حدِ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ خود اُستاد ہیں۔ ایک ایک کے سَو سَو دو دو سَو شاگرد موجود ہیں۔ میری اصلاح کے محتاج نہیں، یہ اُن کا حُسنِ عقیدت ہے کہ مجھے دکھاتے اور سُناتے ہیں، ورنہ شعرائے ہمعصر سے اُن کا کلام رُتبہ میں کم نہیں، بلکہ خدا چاہے تو بالا ہی ہوگا۔ اور قصائد نگاری میں تو اپنا جواب آپ ہیں۔ مولوی نادر علی برتر، منشی نجم الدین احمد ثاقب بدایوانی، صاحبزادہ احمد سعید خاں عاشق ٹونکی درجہ اول میں یہ صاحب ہیں۔ درجہ دوم میں جو منشی رمضان علی خاں اختر اجمیری، منشی ابراہیم دبیر روڈ کوٹی، نین میاں اُنس سکنہ باڑہ اودھ و منشی سلطان احمد ناشاد سکنہ کلکتہ و نواب خواجہ عبدالرحیم خاں صاحب اثیم نواب ڈھاکہ و حکیم اسد علی خاں صاحب دہلوی متخلص بہ مضطر و سید حسن، سید بھوپالی و محمود خاں محمود حیدر آبادی اور درجہ سیوم کا کچھ حساب نہیں۔ اُن کا شمار قیدِ تحریر میں لانا غیر ممکن ہے۔ اُن کے نام کہاں تک یاد کئے جائیں۔ ان کو بہ نظرِ طوالتِ فر و گذاشت کیا گیا۔

اب سنِ میراستر سے تجاوز کرگیا۔ دل و دماغ میں طاقت نہ رہی، قوی مضمحل ہوگئے۔ ہوش و حواس مختلی، سہور نسیان کی یہ کثرت ہے کہ بات کہتے ہی بھول
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 317

جاتا ہوں۔ اولاد کے صدموں سے دل پاش پاش ہوگیا۔ افکار اہل و عیال نے آدمیت سے کھودیا۔ کُوچ ہر وقت گردن پر سوار ہے۔ کانوں سے بہرا، آنکھوں سے اندھا، جو شخص ان مصائب میں گرفتار ہو اُس کو شعر و سخن سے کیا تعلق۔ باوجود اس تشتتِ خاطر کے خون جگر پی کر اور جان کو ہلاک کرکے کچھ کچھ کہا گیا تو انجام اس کا سوائے رشک و حسد و حرف گیری کے کچھ نہ دیکھا گیا۔ ناقدری زمانہ کا یہ حال ہے کہ ناقص و کامل ایک نظر دیکھے جاتے ہیں۔ کوئی قدردانِ کمال نہیں۔ ان وجوہات کے باعث طبیعت اس فن کی طرف سے بیزار ہوگئی۔ لامحالہ شعر و سخن کی جانب سے دست بردار ہونا پڑا اور شعر و شاعری کو سلام کرکے مہرِ خموشی دہن پر لگا کر گوشہ نشینی اختیار کی۔

آنا نکہ بکنجِ عافیت بنشتند
دندانِ سگ و دہانِ مردم بستند

کاغذ بد ریدند و قلم بشکستند
از دست و زبانِ حرفگیراں رستند

شعر و سخن
میں جب وادِ حیدر آباد ہوا تو تمام حیدر آباد میں شہرت ہوگئی۔ جوق جق و خَیل خَیل اصحاب ملاقات کو آتے تھے۔ صبح سے رات کے گیارہ بجے تک میرے مکان پر مجمع رہتا تھا۔ کلام کی فرمائش ہوتی تھی۔ تعمیلِ حکم کرنی پڑتی تھی۔ اسی اثنا میں میرے شفیقِ قدیم نواب عبداللہ خاں ضیغم نے ایک مشاعرہ قرار دیا۔ اور سب احباب کو میرے آنے کی اطلاع دے دی اُس جلسہ میں بکثرت اجماع خلائق ہوا اور میرے پہنچنے سے قبل مشاعرہ شروع ہوگیا تھا۔ غرضیکہ جب میں پہنچا ہوں تو سب صاحبوں نے براہِ عنایت تعظیم دی
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 318

اور مشاعرہ تو ہوہی رہا تھا۔ مگر میں نے یہ کیفیت عجب دیکھی کہ ہنوز ایک غزل تمام نہ ہوئی تھی کہ دوسرے صاحب آگے بڑھ گئے اور شمع اپنے آگے رکھ کر پڑھے لگے۔ ہنوز اُن کی غزل ختم نہ ہوئی کہ ایک شخص اُن کے پہلو میں سے اور نکل آئے اور جھٹ غزل شروع کردی۔ کوئی داد دے یا نہ دے، پڑھے چلے جاتے ہیں۔ دو دو سو ڈیڑھ ڈیڑھ سو شعر بے لطف و بے مزہ پڑھے جاتے ہیں۔ کسی طرح خاموش نہیں ہوتے۔ ایک پر ایک گرا پڑتا ہے۔ خلاف تہذیب اپنی اپنی چائے سے اُٹھ کر غزل پڑھنے والے کے پیچھے جا بیٹھتے ہیں۔ ایک جا سے شمع کو جنبش نہیں ہوتی اور لطف یہ کہ جو صاحب پڑھ چکتے ہیں وہ اُٹھے اور گھر کو روانہ ہوئے۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ یہ کیسے بے تہذیب لوگ ہیں کہ ان کو ذرا خیالِ اداب محفل نہیں۔ اپنے دل میں نہایت پشیمان ہوا کہ تو اُس محفل میں کیوں آیا۔ غرضیکہ تمام شب بسر ہوئی۔ صبح کے قریب میری غزل کی نوبت آئی تو گنتی کے آٹھ دس آدمی تھے۔ باقی سب چل دیے معلوم ہوا کہ یہ لوگ اپنا کلام سنانے کو آئے تھے میے کلام کے شائق نہ تھے خیر جب میری غزل پڑھی گئی ہے تو خدا کی عنایت سے جو ہمیشہ سے میرے کلام کا رنگ ہے اور جو کیفیت مشاعروں میں اور جا ہوتی ہے وہی یہاں ظہور میں آئی۔ ہر چند کہ اُس وقت بہت ہی تھوڑے سے آدمی تھے مگر تمام حیدر آباد میں شہرت ہوگئی۔ پھر اور بڑے بڑے معرکے رہے، جو حضرات کو یہاں اُستادوں میں شمار ہوتے ہیں اور اُن کے صد ہا شاگرد بھی ہیں اور واقعی کلام میں اُن کا پایہ اُستادی کو پہنچا ہوا ہے وہ حضرات سب مشاعروں میں شریک ہوتے تھے۔ خدا جانے اُن کے سامنے آبرو رکھ لی۔ کوئی غزل کسی صاحب کی غزل سے اُنیس نہیں رہی اور قصائد کا حالِ تمام حیدر آباد پر روشن ہے میرا لکھنا
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 319

فضول ہے۔ ان حضرات میں اکثر شعرائے نامور اہل لکھنئو سے ہیں۔ دلی والوں میں فقط ہم دو آدمی تھے یا داغ صاحب یا فقیر ظہیر، سو داغ صاحب بذاتِ خاص مشاعرہ میں آتے نہ تھے۔ فقیر البتہ ہر مشاعرہ میں موجود ہوتا تھا۔ انجام اِس کا یہ ہوا کہ اُن بزرگواروں نے مشاعرہ میں آنا ترک فرمادیا۔ مہاراجہ مدرالمہام بہادر کے مواجہ میں بھی اکثر جلسے ہوئے۔ خدا نے وہاں بھی سُرخرو کیا۔ اُن جلسوں کی حقیقت حاضرینِ مشاعرہ کے دل پر منقش ہے مگر افسوس صد افسوس، صلہ اور مُزد ایسی جانفشانی اور عرقریزی و خون جگر پینے کا سائے رشک و حسد و نیش زنی و بیخ کنی کچھ نہ دیکھا۔ اے روشنی طبعِ تو برمن بلاشدی داغ صاحب مرحوم و مغفور کی بھی زندگی بھر یہی کیفیت رہی کہ لوگوں کو رشک و حسد رہا۔ اور ہمیشہ خواہی نخواہی موردِ اعتراضات رہے۔ علی ہذالقیاس میں بھی اسی بلا میں مبتلا ہوں۔

بعذر و توبہ تواں رستن از عذاب خدای
ولیک می نتواں از زبانِ مردم رست

بھلا داغ صاحب سے اگر رشک و حسد تھا تو بجا تھا کہ اُن کو خدا نے صاحبِ جاہ و منصب کیا تھا۔ مجھ بدنصیب کو تو پیٹ بھر روٹی بھی نصیب نہیں۔ مجھ سے ناحق کا بغض للہی ہے۔ حاصلِ کلام جس قدر شہرت قدر دانی حیدر آباد سُنی گئی تھی اُسی درجہ کساد بازاری پائی گئی ہے۔ بے ہنر ارجمند و عاقل خوار اور ذاتِ خدا پر توکل کئے ہوئے بیٹھا ہوں۔ جب تک آب و دانہ ہے بسر کرتا ہوں۔ اپنے خداوندِ نعمت کے حق میں دعائے خیر کرتا ہوں۔

تمت بالخیر
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 320

اکادمی پنجاب کی چند مطبوعات

مسرت کی تلاش:
اُردو کے نوجوان سنجیدہ نگار وزیر آغا کی تصنیفِ لطیف ہے۔ زندگی اور اُس کی گوناگوں کیفیات پر ہماری زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ یہ خیال افروز کتاب ہمارے ادب میں فکر و نظر کے ایک سلسلہ جدید کا آغاز کرتی ہے۔ قیمت دو روپے، اراکین اکادمی سے ایک روپیہ آٹھ آنے۔

دیوانِ شیفتہ:
اُردو کے شگفتہ کلام شاعر نواب مصطفےٰ خاں شیفتہ کا مجموعہ سخن، جو ایک عرصہ سے نایاب تھا، اب خوبی تصیح و تدوین اور حسنِ طباعت سے آراستہ ہوکر ازسرِ نو شائع ہوا ہے۔ آغاز میں ایک جامع مقدمہ بھی موجود ہے۔ قیمت دو روپے آٹھ آنے، اراکینِ آدمی سے دو روپے۔

بامِ رفعت:
اُردو کے منزہ خیال شاعر اثر صہبائی کے منتخب کلام کا ایک دلآویز مجموعہ ساڑھے تین سو صفحات مجلد و مطلےٰ قیمت اڑھائی روپے۔ اراکین اکادمی سے دو روپے۔

نگارِ فطرت:
مرزا عباس بیگ محشر و دورِ حاضر کے واحد فطرت پرست شاعر ہیں اور ان کی نیچر شاعری اپنے آہنگ اور جمال میں ایک فروغِ بے مثال حاصل کررہی ہے۔ مجلد و ندہب قیمت ڈیڑھ روپیہ اراکینِ اکادمی سے سوا روپیہ۔

فغانِ دہلی:
یعنی مصاعرینِ غالب و ذوق کے وہ الم ناک مرثیے جو انہوں نے دہلی کی ویرانی و تباہی پر لکھے، اسی عہد کے ایک شاعر نعت گو میر تفضل حسین خاں کوکب نے مرتب کئے تھے اب اس فراموش شدہ کتاب کو موجودہ ایڈیشن نے حیاتِ تازہ بخشی ہے۔ قیمت دو روپے۔ اراکیں اکادمی سے ڈیڑھ روپیہ۔

ملنے کا پتہ
سنکرٹری۔ اکادمی پنجاب۔ ادبی دنیا منزل لاہور
 

شمشاد

لائبریرین
داستان غدر صفحہ 81

اور مردانگی کی آگ بھڑک اُٹھی اور مرنے مارنے پر تیار ہو گئے۔ اور باہم یہ صلاح قرار پائی کہ شب کو چل کر جیل خانہ توڑ کر افسرانِ فوج کو چھڑا لاؤ۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ وقتِ شب افواج پیادہ و سوار متفق کمربندی ہو گئی اور جیل خانہ پر چڑھ گئے اور جیلخانہ توڑ کر چوراسی افسر جو قید تھے ان کو قید سے نکال لائے اور ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں سب کاٹ لیں اور اُن کے ہمراہ جو اور بدمعاش بدپیشتہ چونٹے اٹھائی گیرے، ڈاکو، خونی، ٹھگ وغیرہ وغیرہ جو جیل خانہ میں قید تھے۔ سب کو رہا کر دیا۔ اور بیڑیاں سب کی کاٹ دیں۔ اب تمام شہر میں غدر مچ گیا۔ اور ہنگامہ جدال و قتال گرم ہوا۔ سرکار کی جانب سے گوروں کی کمربندی ہوئی اور سولجروں کا توپ خانہ لا کر لگا دیا گیا۔ اب دہائیں دہائیں توپ کے فیر ہونے لگے اور ہمارے طرف سے جواب میں بندوقوں کی بار جھڑنے لگی۔ تمام شب گوروں کی اور ہمارے جنگ ہوتی رہی۔ صبح کو ہم لوگ دہلی کو روانہ ہوئے۔ شبانہ روز میں تیس کوس کی مسافت طے کر کے آج اس وقت ہم یہاں پہنچے ہیں۔ بادشاہ سلامت ہمارے سر پر ہاتھ رکھیں۔ اور ہمارا انصاف فرما دیں۔ ہم دین پر بگڑ کر آئے ہیں۔

بادشاہ کا جواب

سنو بھائی مجھے بادشاہ کون کہتا ہے میں تو فقیر ہوں ایک تکیہ بنائے ہوئے اپنی اولاد کو لئے بیٹھا ہوں۔ بادشاہت تو بادشاہوں کے ہمراہ گئی۔ میرے باپ دادا بادشاہ تھے جن کے قبضہ میں ہندوستان تھا۔ سلطنت تو سو برس پہلے میرے گھر سے جا چکی تھی۔ میرے جد و آبا کے نوکر چاکر اپنے خاوندانِ نعمت کی اطاعت سے جُداگانہ رئیس بن بیٹھے۔ میرے باپ دادا کے قبضہ سے ملک نکل گیا۔ قوتِ لایموت کو محتاج ہو گئے۔ خصوصاً میرے جدِ بزرگوار

داستان غدر صفحہ 82

حضرت شاہِ عالم بادشاہِ غازی کو جب غلام قادر نمک حرام نے قید کر کے نابینا کیا ہے تو پہلے مرہٹوں کو طلب کیا گیا تھا اور اُنہوں نے اس نمک حرام کو کیفرِ کردار کو پہنچایا۔ حضرت بادشاہ کو قید سے چھڑایا۔ چند سال مرہٹے بادشاہ کی جانب سے مختار رہے۔ مگر بادشاہ کے صرف مطبخ کا بندوبست بھی نہ کر سکے۔ لاچار ہو کر میرے دادا نے منجانب سلطنتِ برطانیہ رجوع کی اور انگریزوں کو بلوا کر اپنے گھر کا مختار فرمایا۔ اور ملک ہندوستان اُن کے تفویض کیا اور ان لوگوں نے حسبِ دل خواہ اخراجاتِ شاہی کا بند و بست کر دیا اور ملک میں امن و امان کا ڈنکا بجا دیا۔ اُس روز سے آج تک ہم لوگ بہ عیش و عشرتِ تمام بسر کرتے چلے آتے ہیں۔ہمیں کسی طرح کا فکر و اندیشہ دامنگیر نہیں اور کمال خوشحالی و فارغ البالی و عیش و عشرت سے بسر اوقات کرتے ہیں۔ لڑئی جھگڑے سے کچھ کام نہیں۔ اُس کا انسداد اور انتظام انگریز لوگ خود کر لیتے ہیں۔ میں تو ایک گوشہ نشین آدمی ہوں، مجھے ستانے کیوں آئے۔ میرے پاس خزانہ نہیں کہ میں تم کو تنخواہ دوں گا۔ میرے پاس فوج نہیں کہ میں تمہاری امداد کروں گا۔ میرے پاس ملک نہیں کہ تحصیل کر کے تمہیں نوکر رکھوں گا۔میں کچھ نہیں کر سکتا ہوں۔ مجھے سے کسی طرح سے توقع استعانت کی نہ رکھو۔ تم جانو یہ لوگ جانیں۔ ہاں ایک امر میرے اختیار میں ہے البتہ وہ ممکن ہے کہ میں تمہارے درمیان میں ہو کر انگریزوں سے تمہاری صفائی کرا سکتا ہوں۔ تم ابھی یہیں ٹھہرے رہو۔ میں نے صاحب ریذیڈنت کو بلوایا ہے۔ وہ میرے پاس آنے والے ہیں۔ پہلے میں اُن سے دریافت کر لوں۔ اُن کی زبانی مجھے حالِ فتنہ و فساد معلوم ہو جائے گا۔ اور خدا چاہے تو میں اس فساد کو رفع دفع کرا دوں گا۔ غرض کہ یہ گفتگو ہنوز ناتمام تھی کہ فریزا صاحب ریزیڈنٹ ہمراہی قلعدار صاحب داخل

داستان غدر صفحہ 83

دیوان خاص ہو گئے۔ خواجہ سرا جا کر آداب کورنش بجا لایا۔ اندر سے حکم آیا کہ دونوں صاحب محل میں حاضر ہوں۔ اُس وقت صاحب ریذیڈنٹ بہادر قلعدار صاحب اور احسن اللہ خاں اور محبوب علی خاں ہر چہار اشخاص محل شاہی میں داخل ہوئے۔

حضور پُر نور ریزیڈنٹ کی باریابی

کیوں بھئی، یہ کیا فتنہ و فساد برپا ہو گیا۔ یہ مذہب کا جھگڑا کیسا اُٹھ کھڑا ہوا۔ یہ مقدمہ دین ‘آئین کا‘ ہے۔ تعصب مذہبی بہت بُری شے ہے۔ اس میں اکثر سلطنتیں معرض زوال میں آ گئی ہیں۔ لاکھوں آدمیوں کا کُشت و خون ہو گیا ہے۔ اس فتنہ کا جلد انسداد ہونا واجب ہے۔
سرِ چشمہ شاید گرفتن بہ میل
چو پُرشد نشاید گُزشتن بہ پیل

مبادہ فتنۂ و فساد ہندوستان میں عالمگیر ہو جائے اور لاکھوں آدمیوں کا کُشت و خون ظہور میں آئے اور انتظامِ مالی و ملکی میں فرق واقع ہو۔ بنا بنایا کام بگڑ جائے۔ جہاں تک ممکن ہو نرمی اور آشتی سے کام نکالا چاہیے۔ یہ لوگ جاہل ہیں۔ فرقۂ سپاہ جاہل ہوتا ہے۔ ان سے تھپک کر کام نکالنا چاہیے اور ان کو ہدایت کرو کہ یہ لوگ اس فتنۂ و فساد سے باز آئیں۔ جائے تعجب ہے کہ تم کو اس معاملہ کی اب تک خبر نہیں۔

صاحب ریذیڈنت بہادر حضور غلام کے پاس شب کے گیارہ بجے سوار نے چھٹی لا کر دی مجھ کو چونکہ اُس وقت نیند کا غلبہ تھا۔ میں سمجھا کوئی معمولی چھٹی ہے۔ اُس وقت کچھ خیال نہ کیا۔ پاکٹ میں ڈال کر سو رہا۔ صبح کہ جب حضوری سوار میرے پاس پہنچے، اُس وقت میں چھٹی پڑھی تو حال معلوم ہوا۔ حضور کچھ اندیشہ نہ فرمائیں، خاطر جمع رکھیں۔ بلوائی لوگ ہے کیاکر سکتا ہے۔ حضور کے اقبال سے سب رفع رفع

داستان غدر صفحہ 84

ہو جائیں گے۔ غلام باہر جا کر ابھی اُن کو فہمائش کرتا ہے۔ خدا چاہے تو فسا بڑھنے نہ پائے گا۔ یہ عرض کے کر صاحب ریذیڈنٹ بہادر محل سے برآمد ہوئے۔ تسبیح خانہ کے صحن میں کٹہرے کے برابر کھڑے ہوئے حاضرین دربارِ شاہی سب برابر صف باندھے ہوئے کھڑے ہیں۔ دربار کی جانب سبکا رُخ ہے۔ حکیم احسن اللہ خاں بہادر کے لڑکے استادہ قلعہ دار صاحب بھی موجود ہیں۔

ریذیڈنت باغیوں کے سامنے

صاحب ریذیڈنت بہادر : کیوں بابا لوگ یہ کیا فتنۂ و فساد تم نے برپا کر دیا۔ ہم لوگوں نے تم لوگوں کو رومال سے پونچھ کر تیار کیا ہے۔ ہم کو یہ دعوےٰ تھا کہ اگر روس ہندوستان کی طرف پاؤں بڑھائے گا۔ تو ہم سرحد پر اُس کا سر توڑ دیں گے اور اگر ایران پیش قدمی کرنے کا ارادہ کرے گا۔ تو ہم اس کو وہیں پسپا کریں گے۔ اگر کوئی سلطنت ہندوستان کی طرف رُخ کرے گی تو اُس کو دنداں شکن جواب دیں گے۔ یہ خبر نہ تھی کہ ہماری فوج ہمارے ہی مقابلہ کو تیار ہو گی۔ کیوں بابا لوگ شرطِ نمک خواہی یہی تھی کہ آج تم ہمارے مقابلہ کو تیار ہوئے ہو۔ ہم نے تم کو اسی واسطے کروڑہا روپیہ صرف کر کے تیار کیا تھا۔

سوارانِ فوج باغیہ غریب پرور، حضور سچ فرماتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں سرکار نے ہم لوگوں کو اسی طرح پالا اور پرورش کیا ہے۔ سرکا کے حقوق نمک ہم نہیں بھولیں گے۔ مگر ہم لوگوں نے آج تک سرکار کی کوئی نمک حرامی نہیں کی۔ جہاں سرکار نے ہم کو جھونک دیا، ہم آنکھیں بند کر کے آگ میں پانی میں کود پڑے۔ کچھ خوف جوکھوں کا نہ کیا۔ سر کٹوانے میں کہیں دریغ نہیں کیا۔ کابل پر ہمیں لوگ گئے۔ لاہور ہمیں لوگوں نے

داستان غدر صفحہ 85

فتح کیا۔ کلکتہ سے کابل تک ہمیں لڑے بھڑے، سر کٹوائے، جانیں دیں۔ اور حق، نمک ادا کیا۔ اب جبکہ تمام ہندوستان پر سرکار کا قبضہ ہو گیا تو سرکار ہمارے دین آئین کے در پے ہوئی۔ ہمیں کرٹان بنانا چاہا۔ ہم سے ٹوٹا کٹوانے کو کہا تو ہم لوگ اپنے دین آبائی کو چھوڑ کر کس طرح بیدین ہو جائیں۔ ہم کومرنا قبول ہے مگر دین سے بے دین نہ ہوں گے۔ اب سرکار جو چاہے ہمارا کرے۔ ہم سب مرنے پر تیار ہیں اور ہم اپنے کو اُس وقت تک مردہ تصور کر چکے ہیں کہ جس وقت جیل خانہ توڑ کر افسروں کو برآمد کیا۔

صاحب ریذیڈنت بہادر۔ سُنو سُنوبابا لوگ تم اس خیال کو جانے دو اور ہمیں مارے سے باز آؤ۔ اب تم کو کوئی نہیں مارے گا۔ ہم بیچ میں پڑے ہیں اور ضامن ہوتے ہیں اور خدا کو گواہ کرتے ہیں اور خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم تم سے دغا نہ کریں گے اور تمہارے حق میں انصاف کریں گے اور اُن لوگوں کو سزا دلوائیں گے۔ جنہوں نے یہ فتنہ برپا کرایا ہے اور وہ لوگ سزایاب ہوں گے اور سب کے سب ٹھیک کئے جائیں گے۔ اب تم مار کُٹائی ترک کرو اور لُوٹ مار سے باز آؤ۔ اور بادشاہ سلامت کا بھی یہی حکم ہے کہ تم لوگ دین سے پھرے ہو۔ ہم تمہارے دین کا بندوبست کرا دیتے ہیں۔ تم کشت و خون سے باز آؤ اور بادشاہ صاحب خود درمیان میں پڑے ہیں (فوج باغیہ) غریب پرور ہم کو سرکار کے قول کا بھروسہ نہیں معلوم ہوتا۔ سرکار نے اکثر جائے دھوکہ دے کر ملک گیری کی ہے۔ آج تو ہم سرکار کی اطاعت قبول کریں۔ کل سرکار ہم کو پکڑ کر پھانسی پر کھینچ دے۔ ایسی حالت میں ہم کو بھنگی کے ہاتھ سے پھانسی کھانے سے تلوار کے مُنہ سے مرنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔

داستان غدر صفحہ 86

صاحب ریذیڈنٹ بہادر : نہیں، نہیں، تم لوگ ایسا ہرگز خیال نہ کرو۔ ہن انجیل پر ہاتھ دھر کے کہتا ہے کہ ہم تم سے ہرگز ہرگز دغا نہ کریں گےاور بادشاہ صاحب کا بھی فرمانا یہی ہے۔ اس میں اکثر جو سمجھدار تھے۔ انہوں نے کہا ہاں صاحب بہادر سچ تو فرماتے ہیں۔ جس طرح صاحب بہادر فرمائیں قبول کرنا چاہیے۔ مگر بعض جہال نافہم جن کے سر پر مظالم کا بھوت سوار تھا اور موت دامنگیر تھی وہ بولے کہ انگریز لوگوں کے وقول و قسم کا اعتبار نہیں۔ یہ لوگ قول دے کر پھر جاتے ہیں۔ یہ لوگ عیسائی ہیں۔ ان میں باہم تکرار ہونے لگی۔ آدھے تو یہ کہتے تھے میاں صاحب کا کہنا مان لو۔ آخر یہ بھی حاکم وقت ہیں۔ دلی کے مالک ہیں۔ یہ کبھی ہم سے فریب نہ کریں گے اور آدھے اس بات پر اڑے ہوئے تھے کہ ہم ہرگز ہرگز نہیں مانیں گے۔ آخر ایک نالائق سپاہی بولا کہ لو ہم فیصلہ ہی کئے دیتے ہیں۔ جھٹ بندوق چھتیا کر صاحب ریذیڈنٹ بہادر پر فیر کر ہی دیا۔ مگر اُس وقت قضا نہ تھی۔ وہ بندوق کی گولی صاحب بہادر اور حکیم احسن اللہ خاں کے برابر میں سے نکل کر تسبیح خانہ کے ستون پر جا کر لگی اور سنگ مرمر کا ٹکڑا ٹوٹ کر گر پڑا۔ وہ ستون آج تک ٹوٹا ہوا موجود ہے۔ حکیم احسن اللہ خاں نے صاحب بہادر کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے کر لیا اور کہا یہ لوگ ہرگز نہ مانیں گے جو حقِ فہمائش تھا ہو ہو لیا اب اور تجویز کرنی چاہیے۔

صاحب ریزیڈنٹ بہادر نے پھر محل میں جانے کی اجازت طلب کی اور محل میں جا کر بادشاہ سے عرض کی کہ جو حق سمجھانے کا تھا سمجھا لیا گیا۔ مگر یہ لوگ نہیں مانتے ہیں۔ ان لوگوں کے سر پر قضا صوار ہے۔ ابھی جا کر ان کا بندوبست کرتا ہوں۔ ابھی اُن کو اُڑا دیا جائے گا۔ ان کے انفصال کو نجیبان کوتوالی کی پلٹنیں کافی ہیں۔

داستان غدر صفحہ 87

اٹھارہ سو نجیب ہے، بہت ہے۔

بادشاہ سلامت : اچھا جو میرے آدمی موجود ہیں، اپنی حفاظت کو ہمراہ لیجاؤ۔

صاحب رزیڈنٹ بہادر : مسکرا کر۔ دربار کی سوبھا کے آدمی ہیں۔ ڈیوڑھی کی حفاظت کو رہنے دیجیے۔ حضور کا اقبال کافی ہے۔ حضور خاطر جمع رکھیں۔ حضور پراگندہ خاطر نہ ہوں، بندوبست ہوا جاتا ہے۔

ریذیڈنٹ کی واپسی

صاحب ریذیڈنٹ بہادر محل سے برآمد ہوئے۔ قلعدار صاحب اور صاحب بہادر لال پردہ کے دروازہ سے نکل کر بخشی گری کے چوک میں ہوتے ہوئے جالی کے دروازہ میں آئے اور دیوان عام کا چوک طے کر کے نقار خانہ کے باہر آ کر بگھی میں سوار ہوئے۔ قلعدار صاحب ہمراہ میں یہ دونوں صاحب بگھی پر سوار ہیں اور نقار خانہ کے آگے کا چوک طے کر کے قلعہ کے چھتہ سے گزر کر قلعہ کے دروازہ سے باہر ہوئے اور کہو کس میں بگھی کو روک کر دروازہ کی کمپنی کو کمر بندی کا حکم دیا اور کہا کہ تم کہو کس کی دیوار پر بندوقیں بھر کر تیار رہو اور جو باغی لوگ دروازہ پر آئیں۔ اُن کو اُڑا دو اور کارتوس توشدان میں بھرواؤ۔ ہم کلکتہ دروازہ کے بندوبست کو جاتے ہیں۔ خبردار رہو دروازہ کھوکس کا بند رکھو۔ کھڑکی کھلی رہنے دو۔ یہ کہہ کر دونوں صاحب بگھی پر سوار گہوکس کے دروازہ سے باہر آئے، کلکتہ دروازہ پر پہنچے وہاں جا کر دیکھا کہ دروازہ معمور ہے کوتوال شہر اور تھانیدار اور جمعدار و سپاہی سب مستعد ہیں۔ شہر پناہ کے ڈنڈے پر کلکتہ دروازہ سے موت دروازہ تک نجیب لین جمائے کھڑے ہیں، ناکوں پر بھی موجود ہیں تکہ موت دروازہ اور کلکتہ دروازہ کے مابین جو ایک بُرج چھوٹا سا شہر پناہ ہے ہے اُس پر ایک توپ

داستان غدر صفحہ 88

چڑھی ہوئی ہے۔ اور اُس کا رُخ پُل کی طرف کے روزن میں سے پُل کی طرف ہے۔ اب احتمال یہ ہے کہ آخر فوجِ باغیہ جو دریائے جمن سے عبور کر کے آئے گی تو اُسی دروازہ سے آئے گی۔ اس انتظار میں ساری فوج نجیبان کی جمی کھڑی ہے یہاں تو انتظام ہو رہا ہے۔ سب کیل کانٹے سے درست ہیں۔ جنگ کا سامان برگشتگی تقدیر کی کسی کو خبر نہیں ؂

کہن چرخِ مشعبد حُقہ بازاست
پئے آزارِ مردم حیلہ سازاست

پانچ سوار

صاحب ریذیڈنٹ بہادر تو اِدھر رخصت ہو کر آئے چرخِ شعبدہ باز نے اُدھر تازہ بازی آغاز کی۔ سوارانِ باغیہ واپس ہو کر کلکتہ دروازہ کی طرف تو گئے نہیں، اُنہوں نے راج گھاٹ دروازہ کی طرف رُخ کیا اور راجگہاٹ دروازہ پر پہنچے اینجا روایاتِ مختلفہ گوش گزارِ راقم ہوئی ہیں۔بعض کا بیان ہے کہ دروازہ بند تھا اور نجیب دروازہ پر موجود تھے۔ جمنا کے اشنان کرنے والے بہت سے منتظر تھے کہ دروازہ باز ہو تو ہم جا کر اشنان کریں مگر دروازہ بند تھا۔ پانصد کے قریب آمی جمع ہو گئے تھے۔ دروازہ والوں سے بحث کر رہے تھے کہ دروازہ کھول دو تو ہم جا کر اشنان سے فارغ ہوں تو روٹی ٹکڑا کریں۔ دروازہ والے انکار کرتے تھے۔ کہ ہرگز دروازہ بے حکم سرکار نہیں کُھلتا ہے آخر نوبت زد و کوب کی پہنچی اور لوگوں نے بلوا کر پتھروں سے قفل دروازہ توڑ کر دروا کر دروازہ کھول دیا۔ یا یہ کہ دروازہ دراصل پہلے سے کُھلا ہوا تھا مگر یہ بھی قرین قیاس نہیں دروازے شہر کے سب معمور ہو چکے ہیں۔ اور جب کلکتہ دروازہ پر تو اتنا بندوبست ہے تو اور دروازے کیسے کُھلے رہ سکتے ہیں۔

داستان غدر صفحہ 89

غرضیکہ اس روایت کی تحقیق پوری طور پر راقم کو نہیں کہ دروازہ کیونکر کُھلا۔

قصہ مختصر سوارانِ باغیہ راجگھاٹ کے دروازہ سے شہر میں داخل ہوئے اور دروازے کی سڑک جو کھائی چوبکی دریا گنج کی چوڑائی میں سُنہری مسجد کے سامنے جا کر تمام ہوتی ہے۔ وہاں سنہری مسجد کے نیچے چوراہہ ہے ایک سڑک تو لال قلعہ کے نیچے ہوتی ہوئی لال ڈگی کو جاتی ہے اور ایک راستہ خاص بازار کو جاتا ہے اور یہیں سے قلعہ کے نیچے کا میدان شروع ہے اور جنوب کے جانب میں دو سڑکیں برابر دلی دروازہ کو جاتی ہیں۔ نہر مائل سے اور ایک سڑک گوشۂ جنوب اور مشرق میں دریا گنج کو جاتی ہے۔ اُس میں اول ہی سڑک کے سرے پر پادری صاحب کا بنگلہ ہے۔ یہ پادری صاحب اول تو ہنود تھے پھر عیسائی ہو گئے تھے۔ اول انہیں پر چوٹ ہوئی۔ پہلی بسم اللہ کُشت و خون کی یہیں سے شروع ہوئی ہے۔

سوارانِ باغیہ بنگلے کی قطع دیکھ کر بنگلہ کی گردش میں آ کر کھڑے ہوئے۔

سواران باغیہ : تم کون؟

پادری صاحب : پادری۔ سواران باغیہ : مسلمان یا ہندو۔

پادری : عیسائی۔ یہ سنتےہی ایک سوار نے پستول کا گھوڑا دبایا اُدھر طمنچہ کی آواز ہوئی اور ادھر مرغِ روح نے آسمان کو پرواز کی۔ پادری صاحب تو غلام گردش میں دراز ہوئے اور دستِ غارتگری فراز۔ سواران بنگلہ کو آگ لگا کر آگے روانہ ہوئے۔

لال ڈگی کے سرے پر پہنچے اور ہسپتال میں داخل ہو کر ڈاکٹر صاحب کی مزاج پُرسی کی۔ چمن لال ڈاکٹرذات کے کایستھ تھے۔ تھوڑے سے عرصہ سے وہ اور ماسٹر

داستان غدر صفحہ 90

رام چندر دونوں عیسائی ہو گئے تھے۔ اُس وقت شفا خانہ میں سوار جا کر نکیرین کی طرح چھاتی پر سوار ہو گئے اور سوال کیا کیا دین رکھتے ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ عیسیٰ مسیح کا، فرقہ باغیہ نے اُن کو بھی ایک ضرب طپنچہ میں پادری صاحب کے پاس پہنچا دیا۔ شفا خانہ توڑ پھوڑ کر سب برابر کیا۔ ان دونوں شخصوں کے مارے جانے کی خبر تمام شہر میں پھیل گئی اور تمام بد پیشہ بدمعاش چوٹے اٹھائی گیرے کرکی بانڈی بازمال مردم خور جو ایسے مواقعات کے منتظر رہتے تھے، گھروں سے نکل نکل کر آن موجود ہوئے۔ اور ایک جمِ غفیر اور اژدحامِ کثیر فرقۂ باغیہ میں شامل ہو گیا۔ اب ایک سوار ہے بد پیشہ اُس کی اردلی میں دوڑے جاتے ہیں۔ سوار کسی پر دست درازی کرتے ہیں بدمعاش لوٹ کھسوٹ کرنے لگتے اور سامان توڑ پھوڑ کر برابر کر دیتے ہیں۔ جو شے آتی ہے اُسے لے بھاگتے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچی کہ سوارانِ باغیہ قلعہ کے لاہوری دروازہ تک جا پہنچے۔ کوئی ان کا سدِ راہ نہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر فرقۂٔ باغیہ نے دریافت کیا کہ انگریز لوگ کہاں ہیں۔ کسی کے کہہ دیا کہ انگریز لوگ اور تمام تھانہ دار کوتوال کبیباں وغیرہ سب کلکہ دروازہ پر جمع ہیں۔ یہ سُنتے ہی سوارانِ باغیہ میں پان سواروں نے کلکہ دروازہ کی جانب گھوڑوں کی باگیں اٹھا دیں اور سرپٹ گھوڑے بتٹٹ وہاں سے روانہ ہوئے۔ باقی سوار تمام زیر دیوار قلعہ لبِ خندق لال ڈگی کی سڑک پر کھڑے رہے۔ یہ پانچ سوار جو آندھی بگولے کی طرح سے گڑبڑ گڑبڑ کرتے ہوئے بلا تحاشا قریب کلکتہ دروازہ پہنچے اور اُن کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز محافظانِ درواہ جو بالائے دیوار شہر پناہ روزنوں میں بندوقیں نکالے ہوئے سواروں کے انتظار میں کھڑے ہوئے پُل کی طرف دیکھ رہے تھے، اُن کے
 

شمشاد

لائبریرین
داستان غدر صفحہ 126

اب توپ بھی چل رہی ہے اور بندوقوں کی باڑیں جھڑ رہی ہیں۔ دو گھنٹہ کامل یہ صاد آتی رہی۔ بعد توپ اور بندوق بند ہوئی۔ اور فٹ فیر کی آواز متفرق آنے لگی۔ اب مقام حرب قلعہ سے بارہ تیرہ میل کے فاصلہ پر ہو گا۔ اور دن کے تین بج گئے ہیں۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ دو گھنٹے کے عرصہ میں ڈبل کوچ کر کے پہنچ گئے اور لڑائی شروع ہوئی اور تین گھنٹہ میں فیصلہ ہو گیا۔ ابھی فتح شکست کا حال کسی کو معلوم نہیں کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ اس کا انتظار ہے۔ غرضیکہ پانچ بجے کے قریب میں قلعہ سے سوار ہو کر جاتا ہوں۔ جب لاہوری دروازہ کے چھتے میں پہنچا تو مجھے فوج واپس آتی ہوئی ملی۔ آگے آگے توپخانہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک جوان میگزین کی کراچی پر صندوق سے لگا ہوا بیٹھا ہے۔ مگر بیہوش۔ آنکھیں بند ہیں۔ میں سمجھا زخمی ہے۔ گھوڑوں پر جو پیشتر سوار تھے میں نا اُن سے پوچھا کہ اس کے زخم کہاں آیا ہے۔ اُنہوں نے کہا زخم نہیں آیا۔ اس کے ٹھنڈا گولہ لگا ہے۔ اُس کے صدمہ سے بیہوش ہو گیا ہے۔ اُس کے بعد میں نے دیکھا کہ سوار اور پیدل ہنستے کودتے ہیں باجا بجاتے چلے آتے ہیں۔ قلعہ کے دروازہ میں سے میں نے نکل کر ایک سوار سے پوچھا کہ تم اتنی جلدی کیونکر واپس چلے آئے۔ اُس نے بیان کیا کہ ہماری فتح ہو گئی۔ گورے مقابلہ پر سے بھاگ گئے۔ ہم واپس چلے آئے۔ پھر میں نے پوچھا کہ لڑائی کی کیا شکل ہوئی۔ اُس نے بیان کیا کہ بندہی ندی کے اس پار ہم تھے اور وہ اُس پار وہ تھے۔ جانبین سے توپیں چلتی رہیں۔ ہمارے توپخانے نے بڑا کام دیا۔ آدمی آدمی کے پیچھے گولہ لگا دیا۔ دوسرے یہ بات بھی ہوئی کہ گورے دھوپ کی تیزی اور حرارتِ آفتاب کی تاب نہ لا سکے۔ ہم دور سے دیکھتے تھے کہ وہ ندی کے پانی کے اندر کھڑے

داستان غدر صفحہ 127

تھے اور اُن کے گھٹنوں تک پانی تھا۔ جب ہمارے سواروں نے دہاوا کیا تو وہ کلبلا کر بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن اپنی توپیں وغیرہ سب سامان اپنے ساتھ لے گئے۔

دوسری لڑائی

یہ بہت بڑی خونخوار جنگ ہے۔ غازی آباد کے بعد ایک مہینہ بھر تک کچھ لڑائی بھڑائی کا ذکر فکر تک نہیں ہے۔ پوربئیے امن و امان سے بے غل و غش چین اوڑاتے ہیں۔ خوب بھنگیں پیتے ہیں اور لڈو پیڑے کھاتے ہیں۔ رسوئی کرنی چھوڑ دی ہے۔ دونوں وقت پوری کچوری مٹھائی چکھتے ہیں اور پاؤں پسار کر نیند بھر کر سوتے ہیں اور چاروں طرف سے مدد چلی آتی ہے۔ لکھنؤ کا رسالہ آ گیا اور جلندر والی پلٹن کے جوان بھاگ کر چلے آئے۔ اب قریب دس بارہ ہزار کی جمیعت پیدل سوار جنگی کی فراہم ہو گئی ہے۔ اُس کے علاوہ میرٹھ کے جیلخانہ کے بدمعاش جو رہا ہو کر ہمراہ فوج ِ باغیہ آئے ہیں، وہ ساتھ ہیں اور دلی کے جیل خانہ کے چور اُٹھائی گیرے سب فوج کے ہمرا ہیں۔

جہاں کے جتنے تھے اوباش و رند نافرجام
دغا شعر چغلخور بدمعاش تمام

ہوئے شریک سپاہِ سریر و بد انجام
کیا تمام شریفوں کے نام کو بدنام

اٹھائیگیرے اوچکے گھروں سے دھر بھاگے
جو گٹھ کٹے تھے وہ گٹھری لپک کے گھر بھاگے

سولہویں رمضان کی ڈیڑھ ماہ کے بعد ایک دن پانچ بجے دن کے میں گھوڑے پر سوار قلعہ سے گھر آتا ہوں تو قلعہ کی چھتے میں مجھے دو سوار نیلی وردی کے ملے اور ان کی نیلی جھنڈیاں تھیں۔ مجھے بظاہر اُن کی وجاہت اور چال کرچ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شاید کسی رسالے کے افسر ہوں، مسلمان تھے۔ صاحب سلامت ہوئی۔ چونکہ اُس وردی کا کوئی اور سوار میری نظر سے نہیں گذرا تھا۔ مجھے شک ہوا کہ شاید

داستان غدر صفحہ 128

نئے سوار ہیں۔ میں نے پوچھا تم کون سے رسالہ کے سوار ہو۔ اُنہوں نے بیان کیا۔ چوتھے رسالہ کے۔ میں نے کہا چوتھا رسالہ تو یہاں کوئی نہیں۔

سوار : چوتھا رسالہ انگریزوں کی نظر بندی میں ہمراہ آیا ہے۔ میں نے پوچھا انگریزوں کی فوج کہاں ہے۔

سوار : علی پور۔

میں : علی پور سے تم کیونکر چلے آئے۔

جواب : ہن نگاہ بچا کر چلے آئے اور اپنے بھائی بند فوجیوں کو اطلاع دینے آئے ہیں کہ وقت دہاوے کے ہم تم میں آملیں گے ایسا نہ ہو کہ تم ہم کو آتے ہوئے دیکھ کر گوروں کے شبہ میں گراب مار اُڑا دو۔ ذرا اس بات کا خیال رکھنا۔ پھر سواروں نے مجھ سے پوچھا کہ فوج کے افسر کس طرف ہیں۔ میں نے بتایا کہ تم چھتے میں سے نکل کر بائیں ہاتھ کی جانب ترپولیہ سے اور نہر سے اوسہر سیدھے چلے جاؤ۔ اخیر کو قلعہ کا دروازے آئے گا اور پُرانا پُل جمنا کا۔ اُس کے اوپر سے گزر کر سلیم گڑھ کا دروازہ آئے گا۔ اس دروازہ کے اندر چلے جانا وہ سب افسر تم کو موجود پائیں گے۔ غرضیکہ وہ تو ادھر کو گئے اور میں اپنے گھر کو روانہ ہوا۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی بسر شام کے چھ بجے تھے کہ تیاری کا بگل ہوا اور فوج کی کمربندی ہو گئی اور میگزین سے بڑی بڑی چھتس پنی مندیاں کھینچ کر دس دس بارہ بارہ جوڑی بیل لگا کر لے چلے اور میگزین کر کراچیاں جداگانہ، میں سب کو ایک دوست کے کوٹھے پر بیٹھا ہوا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ چاندنی رات تھی کوئی پانچ گھڑی رات گئے یہ سب فوج باہر ہو گئی۔ بڑی توپیں تو انہوں نے پہاڑی پر چڑھا کر مورچے باندھ لئے۔ آٹھ دس توپیں وہاں چھوڑیں۔ اور کوئی دو ہزار کی جمیعت تو وہاں اس مورچے پر رہی، باقی کُل

داستان غدر صفحہ 129

فوج علی پور پہنچ گئی اور پیک سے ذرا آگے بڑھ کر اُنہوں نے مورچہ بندی کر دی۔ ایسا سُنا گیا ہے کہ درمیان ہر دو لشکر ایک میل یا زائد کا فاصلہ ہو گا۔ بہرحال رات تو اُنہیں مورچہ بندیوں میں گذری۔ پوربیوں نے بڑی توپیں اپنے بائیں بازو پر رکھی تھیں، وہ تین توپیں تھیں اور باقی گھوڑ چڑھی توپیں قلبِ لشکر میں تھیں کہ چار گھڑی رات باقی رہے توپ چلنی شروع ہو گئی۔ سُننے میں ایا ہے کہ اُن کی بڑی توپوں نے بڑا کام دیا اور افواجِ انگریزی کا بہت نقصان ہوا۔ اب نماز کے وقت سے پہلے سولجروں کے رسالوں نے اُن بڑی توپوں پر دہاوا مارا اور اُن کے پاس نیلی جھنڈیاں اور نیلی وردیاں تھیں ان کو یہ دھوکا ہوا کہ شاید یہ وہی چوتھا رسالہ ہے جس کے لئے ہم آ کر شام کو کہہ گئے تھے کہ وقتِ جنگ میں ہم تم آ کر شامل ہو جائیں گے۔ انہوں نے اُن پر فیر نہیں کی اور وہاں الحربُ خُدعۃٌ کا مقابلہ تھا۔ یہ دھوکا کھا گئے اور وہ جب فریب معلوم ہو گیا کہ یہ سولجروں کے سوار ہیں تو اُنہوں نے تین توپوں میں گراب ڈالا اور وہ قریب آ گئے تھے۔ جب فیر کئے اُس وقت راوی کا بیان ہے کہ سوار اور گھوڑوں کا یہ حال ہوا کہ جس طرح نداف روئی دُھنتا ہے اور روئی کے ریشے اُڑ کر زمین پر گرے ہیں، سوار اور گھوڑے اُڑ اُڑ کر گرے اور گوروں نے جھرمٹ کھایا۔ مگر واہ ری جرأت و ہمت اُس بہادر افسر کمانیر فوج کی کہ اُس نے اُس وقت اس زور سے بولی بولی کہ تمام صحرا گونج اُٹھا اور نعشوں پر سے گھوڑے کود کر توپوں پر جا پڑے اور باہم جنگ مغلوبہ، بلم اور سنگین کی ہونے لگی۔ غرض یہ کہ کالوں سے توپیں چھین لیں اور وہی توپیں بھر کر جماعتِ باغیہ پر فیر کرنے شروع کئے۔ پیدلوں کی جو پلٹنیں طرفین کی تھیں، اُن میں مقابلہ ہو گیا اور دونوں طرف سے باڑیں

داستان غدر صفحہ 130

چلنے لگیں اُس وقت باڑوں کی مار سے کان پڑی آواز نہ آتی تھی۔ برابر جھراٹا جاری تھا۔

زسُتمِ ستوراں دراں پہن دشت
زمیں شش شد و آسماں گشت ہشت

دودِ بارود اور گردِ سواران سے آسمان و زمین تیرۂ و تار ہو رہا تھا۔ اُس وقت یہ نہ معلوم ہوا کہ اُس معرکۂ رُستخیز محاربۂ قیامت انگیز میں کس قدر ادھر سے مرے اور کس قدر اُدھر سے ضائع ہوئے۔ غرضیکہ کتنی دیر تک یہ ہنگامۂ جدال و قتال گرم رہا۔ کیونکہ بندوقوں کے باڑوں کی صدا متصل دو گھنٹے کے قریب تک آتی رہی اور بعد اُس کے مختلف فٹ فیر کے طور آوازیں آنے لگھیں۔ آتھ بجے کا عمل ہو گیا تھا میں قلعہ میں اپنی نوکری پر جاتا تھا۔ جب جوہری بازار کے پھاٹک سے سڑک پر آیا ہوں تو میں نے دیکھا کہ زخمی بکثرت شہر میں آ رہے ہیں۔ ایک ایک زخمی کے ہمراہ تین تین چار چار پوربیے لپٹے ہوئے اور اُسے لئے چلے آتے ہیں۔ سڑک پر خون گرتا چلا جاتا ہے۔ تمام سڑک گلرنگ ہو رہی ہے اور خون کی افشان ہوتی چلی آتی ہے۔ جیسے ہولی میں زمین پر رنگ گرتا ہے۔ دو سوار میری برابر سے نکلے میں نے دیکھا کہ اُن کے سینوں پر گولیاں لگی ہوئی ہیں۔ اور چھوٹے چھوٹے سوراغ تھے اور پشت پر بہمباقے کھلے ہوئے تھے اور کلیجے اور پھیپھڑی کے ٹکڑے اور خون کے لختے پرچے پڑے تھے۔ دائیں ہاتھوں میں اُن کے طپنچے اور بائیں ہاتھوں میں گھوڑوں کی باگیں تھیں۔ اور کسی طرح کا کرب اور بدحواسی ان کے بُشرے سے ظاہر نہیں تھی۔ اچھی خاصی طرح اُن کے ہوش و حواس قائم تھے اور آپس میں باتیں کرتے چلے آتے تھے۔ مجھے آج تک اس امر کا تعجب ہے کہ اتنی دیر تک وہ زندہ اور سلامت کیونکر رہے اور پانچ کوس تک زندہ

داستان غدر صفحہ 131

کیونکر چلے آئے۔ اُن کے عقت میں تین سوار اور آئے کہ اُن کے ہاتھوں میں نیلی جھنڈیاں تھیں اور گھوڑے بھی اُن کے تیار تھے۔ا ُن سے لوگوں نے پوچھا کہ تمہارے پاس یہ جھنڈیاں کہاں سے آئیں۔ انہوں نے بیان کیا کی سواروں کی جھنڈیاں ہیں اور یہ گھوڑے بھی اُنہیں کے ہیں۔ چنانچہ صداقت اُن کی یہ دی کہ اُن کے گھوڑوں کے سموں پر انگریزی نمبر پڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میں نے جُھک کر بچشم خود دیکھے، نمبر موجود تھے اور بیان اُن کا یہ تھا کہ جو سوار سرکار انگریزی مارے گئے ہیں اُن کے یہ گھوڑے ہیں اور ہمارے لشکر کی فتح ہو گئی۔ مگر دراصل وہ جھوٹے تھے۔ مقدمہ برعکس تھا۔ آگے اُس کا حال بیان ہو گا۔ اُس کے بعد ایک سوار گھوڑے کو بگٹٹ دورائے چلا آتا تھا اور گھوڑے کی پیشانی پر گراب کے کاری زخم تھے اور خون اُس میں سے اس طرح گرتا ہوا آتا تھا جیسے کہ لوٹے کی ٹونٹی سے پانی گرتا ہے اور اُس کا تمام ماتھا اور تھوتنی وغیرہ خون میں سُرخ تھی۔ اُس کے پیچھے ایک زخمی کو دیکھا، کہ اُس کا ہاتھ کہنی پر سے اُڑ گیا تھا اور کٹے ہوئے بازو سے خون گرتا چلا آتا تھا اور اپنے پاؤں سے چلا آتا تھا۔ اور دو ایک پوربیئے اُس سے کہتے ہوئے آتے تھے کہ یہیں ہم تم کو ہاتھوں پر اُٹھا کر ڈیرے پہنچا دیں تو وہ کہتا تھا کہ نہیں میرے پاس نہ آؤ۔ غرضیکہ اسی طرح مجھے قلعہ پہنچتے تک صدہا زخمی سوار پیدل ملے۔ جب میں پہنچا تو حکیم احسن اللہ خاں اور محبوب علی خان خواجہ سرا اور چند آدمی ملازمین شاہی بیٹھے ہوئے تھے۔ لڑائی کا ذکر ہو رہا تھا مگر مفصل کیفیت کسی کو معلوم نہ تھی کہ نتیجہ کیا برآمد ہوا۔ اسی اثناء میں گیارہ بج گئے اور محبوب علی خاں اور احسن اللہ خاں کھانا کھانے کے واسطے اپنی نشستگاہوں میں اُٹھ کر گئے، میں بھی کھانا کھانے کے واسطے گھر کو

داستان غدر صفحہ 132

روانہ ہوا۔ جب میں نقار خانہ کے دروازے پر پہنچا تو دیکھتا کیا ہوں کہ چند پوربیئے ایک شخص کو پکڑے ہوئے لئے آتے ہیں اور ایک افسر توپ خانہ باغیہ میری برابر برابر دیوانِ عام میں سے چلا آتا تھا۔ جب یہ دونوں عین دروازہ میں باہم دو چار ہوئے پوربیوں نے اُس افسر سے کہا کہ یہ قیدی انگریز چوتھے رسالہ کا سوار ہے۔ عہاوے کے وقت ہمارے سواروں میں گھیر گیا تھا۔ ہم اسے پکڑ ہائے ہیں۔ اُس افسر نے شخص گرفتار شدہ سے کچھ پوچھا نہ گچھا اُس کی کمر میں ولایتی اٖصفہانی تلوار تھی کھینچ کر اُس پر پے در پے وار کرنے شروع کیے۔ چونکہ وہ میرے برابر ہی میں تھا میں گھبر کر سپاہیوں کے بیٹھنے کا جو چبوترہ تھا اس پر چڑھ گیا۔ اُس افسر نے تین وار تلوار کے اُس کے منہ پر کئے۔ مگر خدا جانے کیا بات ہوئی کہ اُس مقتول جسم پر خط تک نہ آیا۔ ایک پوربیا بولا کہ اسے بھگاؤ۔ غرضیکہ اُسے چھوڑ دیا اور وہ چھوٹ کر دلی دروازے کی ترپولی کی طرف کو فرار ہوا۔ عقب سے ایک پوربیئے نے اُس کے گولی ماری وہ اوندھے منہ زمین پر گرا۔ میں وہاں سے روانہ ہو کر قلعہ کے دروازہ سے نکل کر اردو بازار ہوتا ہوا خونی دروازہ کے برابر سے کوتوالی کے آگے سے ہوتا ہوا اشرف بیگ کے کمرے کے نیچے پہنچا تو میں نے دیکھا کہ دو سو اڑھائی سو کے قریب سوار بحالِ خراب چہروں پر گرد پڑی ہوئی وردیاں سب گرد میں اٹی ہوئیں گھوڑے پسینے میں نہائے ہوئے اُن پر مٹی جمی ہوئی درختوں کے سایہ میں نہر کے پٹر سے لگے کھڑے ہوئے ہیں۔ جیسے فوج ہزیمت خوردہ کا حال ہوتا ہے۔ وہ حال اُن کا ہے اور اُن کے آگے وہی کلانچاں رسالدار تیسرے رسالہ کا کہ جس سے میری روز اول اُن اسیروں کی رہائی کے بارہ میں گفتگھو ہوئی تھی کھڑا ہے۔ چونکہ مجھ سے اس کی پیشتر شناسائی ہو چکی تھی بعد صاحب سلامت کے

داستان غدر صفحہ 133

میں نے لڑئی کا حال دریافت کیا۔ اُس نے ابتدا سے انتہا تک سب کیفیت بیان کی۔ اور کہا کہ ہم کو کل کے روز دو سوار چوتھے رسالہ کے آ کر دھوکہ دے کر گئے ہم دھوکے میں رہے اور گوروں نے آ کر ہماری توپوں پر قبضہ کر لیا۔ بعد پلٹنیں دونو طرف کی لڑتی رہیں اور ڈیڑھ گھنٹہ بندوق توپ کی لڑائی رہی اور ہمارے فوج پسپا ہونے لگی۔ ہمارے فوج پچھلے قدموں پسپا ہوتی جاتی تھی اور بندوقیں چلاتی آتی تھی اور ہم گھوڑ چڑھے توپوں کے گولے مارے جاتے تھے اور پیچھے ہٹتے آتے تھے کہ اسی اثناء میں لکھنؤ والا رسالہ تازہ دم ہماری مدد کو پہنچا اور کہا تم بیچ میں میدان چھوڑ دو۔ ہمیں ان پر دہاوا کرنے دو جو سوار تم کو دباتے آتے ہیں۔ ہم نے میدان دے دیا اور وہ رسالہ گھوڑے اُٹھا کر سوجروں کے رسالوں پر جا گرا اور باہم دست بدست کی لڑائی ہونے لگی۔ بانبین سے طپنچہ چل رہا تھا۔ ایک نے ایک کے سینہ پر طپنچہ رکھ دیا ایک ایک کے مُنہ پر رکھ دیا۔ برابر فیر ہوتے تھے۔ فرض کہ ایک گھڑی بھر کامل یہ جنگ مغلوبہ رہی بعد کچھ سوار زخمی ہوئے کچھ مارے گئے۔ تھوڑے سے سوار بچ کر آئے ہیں اور گھوڑچری کے توپخانہ یہ کام دیا کہ پیچھے ہٹ کر مخلدارغان کے برابر جو ترپولیہ کے تینوں دروں کے اندر توپیں لگی ہوئی تھیں اور دونوں طرف سے باغیوں نے رستہ روک رکھا ہے۔ اب فوج انگریزی آئے تو کدھر سے آئے۔ آخر انگریزی توپخانے نے آ کر مقابلہ کیا ور باہم نشانہ انداشی ہونے لگی۔ انجام ایک گولہ سرکار انگریزی کی طرف ایسا آیا کہ توپ کے منہ پر لگا اور توپ کے اوپر کا لب ٹوٹ گیا اور توپ بیکار ہو گئی۔ اُس توپ کو شہر کو روانہ کیا۔ دوسری توپ کے پہیہ پر گولہ پڑا

داستان غدر صفحہ 134

اور وہ پہیہ بھی بیکار ہو گیا اور اس پر دوسرا پہیہ چڑھا کر شہر کو روانہ کر دی گئی۔ تیسری توپ کے مُنہ میں جا کر گولہ پھنس گیا۔ تینوں توپیں بیکار ہو کر شہر کو روانہ ہو گئیں۔ اب جب توپ بند ہو گئی تو فوج انگریزی نے تعاقب کیا اور گولہ اندازان اور سوارنِ محافظ توپ خانہ پیچھے ہٹ آئے اور فوج انگریزی اس امر سے بے خبر کہ پلٹنیں گھات میں چھپی ہوئی کھڑی تھیں۔ بیخوف و خطر دو رویہ سلسلے میں بندھی ہوئی چلی آئیں۔ جب باگیوں نے دیکھا فوج انگریزی داخل سڑک دو باغیہ ہو گئی اور بیچ میں آ گئی۔ یکبارگی باغات کی دیوار کے پیچھے سے کھڑے ہو کر دونوں طرف سے باڑیں جھونکدیں۔ اُس وقت فوج کا یہ حال ہوا جیسے کبوتروں میں چھرہ مار دیا۔ بہت آدمی ضائع ہوئے اور باغیوں کا تعاقب چھوڑ کر الٹے پاؤں چھاؤنی کہنہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ ااور فوج باغی یہ سمجھ کر کہ جان بچی لاکوح پائے۔ شہر میں داخل ہوئی اور شہر میں گُھس کر دروازے بند کر لئے اور اسی اثناء میں پہاڑی کے مورچوں والی فوج نے جو چیکھا کہ فوج شہر میں داخل ہو گئی۔ وہ بھی پہاڑی پر ڈنڈا ڈیرا چھوڑ کر شہر میں آ گئی۔ توپیں بھی چھوڑ دی گئیں اور تموئیاں وغیر جو ڈیرہ خیمہ پہاڑی پر تھا سب س سب معہ میگزین وہیں رہ گیا۔ جب فوج انگریزی چھاؤنی میں داخل ہوئی اور اُس نے دیکھا کہ پہاڑی خالی پڑی ہے ایک چڑیا تک تنہیں انہوں نے بنے بنائے مورچوں پر قبضہ جما لیا اور ڈیرے خیموں وغیرہ کو آگ لگا دی اور توپوں کا رُخ دلی کی جانب پھیر دیا۔ مورچوں کا استحکام کر دیا۔ ادھر پوربیوں نے شہر میں داخل ہو کر بڑی بڑی توپیں میگزین سے کھینچ کر شہر کے برجوں پر چڑھا دیں۔

باغی قلعہ بند ہو گئے

اب میدان واری کی لڑائی تو جاتی رہی۔ مورچہ بندی

داستان غدر صفحہ 135

اور قلہعہ بندی کی لڑائی رہ گئی۔ دن رات گولہ چلنے لگا۔ اُدھر پہاڑی پر فریزر صاحب کی کوٹھی سے لگا کر باؤٹے تک انگریزی فوج کے مورچے لگے ہوئے تھے۔ اُدھر کشمیری دروازہ کے برج سے لے کر کابلی دروازہ کے سیاہ برج اور لاہوری دروازہ کے برج سے فراخشحانہ کی کھڑکی کے برج تک توپیں چڑھی ہوئی تھیں اور باہم شبانہ روز گولہ باری ہوتی تھی اور شیل اور بم کے گولے شہر پر برستے تھے۔ بم کا گولہ خدا پناہ میں رکھے، جس وقت پھٹتا تھا اور صدہا ٹکڑے اُس کے اُڑ جاتے تھے اگر سات درجہ کے مکان پر پڑا تو تہ کو اُتر گیا اور سب کا ستیاناس کر دیا۔ اگر زمین پر پڑا تو دس گز زمین پیوست ہو کر پھوٹا اور تمام مکان کو اُڑا دیا۔غرضیکہ ایک قہر خدا تھا۔ دس دس گولہ برابر کاغذ کے پرچوں کی طرح شب کو اڑاتے چلے آتے تھے اور برابر پھٹتے چلے جاتے تھے۔ ادھر صبح ہوئی اور بگل بجنے شروع ہوئے اور فوج باغیہ کمر بندی کر کے لاہوری دروازہ کے باہر جا موجود ہوئی اور باہم گولی چلنے لگی۔ شام تک میدان داری رہی پھر اپنے اپنے ڈیروں پر آ موجود ہوئے۔ اب ہر چہار طرف سے فوج باغیہ کی آمد شروع ہو گئی اور کمپو آنے لگے۔ پہلے نصیر آباد کا کمپو آیا پھر نیمچ کی فوج آئی اور مرا کا کمپو آیا۔ اب ایک سدہاری سنگہ کا کمپو تھا اور ایک جرنیل غوث محمد خاں ٹنڈے کا کمپو تھا جس کے ہاتھ دونوں لڑائی میں گولے سے اُڑ گئے تھے۔ اور بہت سی رجمنٹیں اور توپ خانہ آ کر جمع ہو گئے اور اُن کی ہمراہی میں اطراف و جوانب کے لوگوں کے غول چھاؤنیوں کے نام سے اور جم غفیر دلی میں جمع ہو گئے اور نصیر آباد والی فوج نے آتے ہی سب پر طعن کیا کہ آج تک تم سے ایک پہاڑی فتح نہ ہوئی۔ کل ہم لرنے جائیں گے تم سب دیکھنا کہ ہم کیا کام کرتے ہیں۔ تم سب ادھر لڑتے رہو اور ہم انگریزی لشکر کی پشت پر جا کر دہاوا مارتے ہیں۔
 
Top