اسکین دستیاب شاہد رعنا

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 3
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شاہد رعنا
دہلی کی ایک مسلمان نائب طوائف کی خودنوشت سوانحعمری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکپن
مجھے اپنے بچپن کی باتیں بہت کم یاد ہیں۔کوئی سات آٹھ برس کی عمر تک بالکل الل بچھیری کی طرح پڑی پھرتی تھی ؎
پاؤں پھیلا کے سر شام سے میں سوتی تھی
مجھے معلوم نہ تھا صبح کدہر ہوتی تھی
میری بڑی بہن جو ایک لالہ کی نوکر تھیں مجھ سے چھ سات برس بڑی تھیں اور میری اماں جو چالیس برس کے پیٹے میں ہوں گی ناچ محفل میں ان کے ساتھ جایا کرتی تھیں مگر انھوں نے خود ناچ گانا چھوڑ دیا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ایک دفعہ ان کی آنکھیں دُکھنے آ گئی تھیں، علاج کی ایسی بے ترتیبی ہوئی اُنکی ایک آنکھ بیٹھ گئی۔ ایک سرمہ والے نے بتایا تھا کہ بہت سا سرمہ باندھو۔ یہ سب باتیں میرے ہوش کی ہیں۔ ۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ 4
تو مجھے پہلے ہی شروع کرا دیا تھا مگر جب کا حال یہ لکھ رہی ہوںمجھ سے گانے پر خوب محنت کرائی جاتی تھی۔ ہمارے استاد جی بڑی محبت سے بتاتے تھے۔ آپا کو بھی انہوں نے ہی بتایا تھا۔ اور اماں ان کی بڑی خاطر کرتی تھیں۔ نو ساڑھے نو برس کی ہوئی ہونگی کہ میری تعلیم دو وقت پابندی سے ہونے لگی اور مجھے اچھے اچھے کپڑے پہننے لو ملنے لگے۔ بڑی آپا کو ملنے واے جو آتے تھے اکثر انھیں پان بنا کر میں ہی دیا کرتی تھی اور ہنسی مذاق کی باتوں میں بھی رفتہ رفتہ مجھے مزہ آنے لگا۔ اب تک میں اماں کے پاس سویا کرتی تھی۔ مگر مجھے خوب یاد ہے کہ اپا کی مسہری کی خوشبو اور سجا ہوا کمرہ دیکھ کر میرے دل میں بڑے ارمان پیدا ہوتے تھے۔ میلے تماشوں میں اب میں برابر ان کے ساتھ جانے لگی اور چھوٹے چھوٹے مجروں میں بھی انکی رعایت سے لوگ مجھے بلانے لگے۔ بڑی عمر کے لوگ تو مجھے زہر معلوم ہوتے تھے مگر جوان یا میرے ہم سِن ناچ میں مجھ سے ہنسی مذاق کرتے تھے تو اندر سے میرا دل خوش ہوتا تھا لیکن اپنی خوشی کو میں بہت کم ظاہر کرتی تھی۔یہ باتیں اچھی طرح اماں اور استاد جی نے مجھے سمجھا دی تھیں۔ نہ میں کسی خاص آدمی کو ناچ میں غور سے دیکھتی تھی اور نہ کسی سے دل ملا کر بات کرتی تھی۔مگر ہاں برتاؤ ظاہر داری کا ایسا کرتی تھی جس سے سب یہی سمجھتے تھے کہ ہمیں سے خصوصیت سے کہتی ہے۔ ناچتے وقت جان جان کر دوپٹہ سرکا دینا مجھے بتایا گیا تھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کام میں حد سے زیادہ مشّاق ہو گئی تھی۔ میری اس حرکت پر بعضے آدمی لوٹ لوٹ جاتے تھے، بھویں چڑہانا، نتھنے پھڑکانا ذرا دشوار تھا مگر میں سب کچھ کر لیتی تھی۔ دس بیس ہی ناچ مجروں میں گئی ہوں گی کہ لوگ میرے اشتیاق میں مکان پر انے لگے۔ اب گھر میں ایک کمرہ میرے واسطے بھی ٹیپ ٹاپ کے آراستہ کر دیا گیا اور میں اس میں الگ بیٹھنے لگی۔ اماں یا استاد جی اکثر میرے
ریختہ صفحہ 5
پاس ہوتے تھے۔ میرا پاندان بھی الگ ہو گیا۔ اب میری عمر کوئی گیارہ برس کی ہوئی ہو گی۔ گانے کا شوق مجھے حد سے زیادہ تھا اکیلی ہوتی تھی تو آپ ہی آپ گن گناتی تھی اور تھرکا کرتی تھی، خدا کی قدرت انہیں دنوں دہلی میں ہیضہ کی وبا پھیلی اور میری بہن ایک دن رات میں چٹ پٹ ہو گئیں۔ اس کا صدمہ جیسا کچھ ہم سب پر ہوا ہو گا ظاہر ہے گھر بالکل اجڑ گیا، اماں دیوانی سی ہو گئیں اور کئی مہینے تک بیمار رہیں میرا گانا بجانا سب خاک میں مل گیا۔ جس مکان میں آپا مری تھیں اسے منحوس سمجھ کر چاوڑی بازار میں کوٹھا لیا۔ اور جب ہم سب کے دل ذرا ٹھکانے ہوئے تو میری تعلیم اور اٹھنے بیٹھنے کا سلسلہ از سرِ نو شروع ہوا اب مجھے لکھنے پڑہنے پر بھی رغبت دلائی گئی اور اس میں میرا جی بھی خوب لگنے لگا۔
ہمیں اس کوٹھے پر رہتے ہوئے کوئی پندرہ بیس روز ہوئے ہوںگے اور شام کو تعلیم لیتے ہوئے غالباً کوئی آٹھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ ایک دوپہر کو ایک بڈھا آدمی جو صورت سے کسی امیر کا نوکر معلوم ہوتا تھا کوٹھے پر پوچھتا ہوا آیا کہ ننی جان کا مکان یہی ہے۔ میں اپنی مسہری پر اندر کچھ متفکر پڑی تھی کہ میرے کان میں آواز گئی۔ میں کمرے میں آنے بھی نہ پائی تھی کہ اماں نے اسے منگوا لیا اور آنے کا سبب پوچھا۔ اس نے بتایا کہ میاں نے دریافت کرایا تھا کہ آپ کے ہاں تخلیہ کا وقت کون سا ہے۔ اماں نے کہا کہ میری طرف سے عرض کر دینا کہ حضور کے لئے ہر وقت تخلیہ ہے۔ بڈحا رخصت ہوا تو اماں نے اندر سے آپا کے زیور کا صندوقچہ نکالا میرا پنڈا دہلوا کر بہت اچھے کپڑے پہنائے اور خوب زیور سے آراستہ کر کے مجھے بٹھا دیا۔ عطر الائچی پان سب جھٹ پٹ مہّیا کیا اور مجھ سے کہا کہ لے بیٹی اب ہماری گردش کے دن ختم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نواب حیدر زمان مرحوم کے لڑکے نے پُچھوایا تھا میں نے نوکر کو ایسا قابو میں کر لیا ہے کہ کسی اور
ریختہ صفحہ6
طرف کا رُخ کرنے ہی نہ دیگا۔نواب صاحب کا دو ڈھائی مہینے ہوئے انتقال ہو گیا اور یہ لڑکا اب بالکل مطلق العنان ہے۔ یہ آتے جاڑوں کا ذکر ہے اور میرے بدن پر سوائے مخملی سازدار صدری کے اور سب کپڑے گرمی کے تھے، اتنے میں میں نے کپڑے بدل کر اچھی طرح بناؤ سنگھار کیا۔ اتنے میں اماں نے کمرے کی چاندی بدلوائی طاقوں کو صاف کر کے پھولدان قرینے سے لگائے اور تھوڑی ہی دیر میں مکان کی صورت بدل دی۔ اایک بھاری دوپٹہ بکس سے نکالکر بے پروائی سے کھونٹی پر ڈالدیا اور آپا کی سب سے بڑہیا پشواز اور کئی اور کپڑے باہر صحن میں دہوپ میں چارپائیوں پر سوکھنے کے لئے ڈالدئیے ہمارے مکان کا پورا نقشہ اوتارنا ذرا مشکل ہے ایک زینہ میں دو مکان تھے ایک میں ہم رہتے تھے ایک میں نقال۔
بائیں ہاتھ کو ہمارا دروازہ تھا صحن کسی قدر چھوٹا تھا۔ صحن کے ایک طرف بازار کے رُخ صرف ایک کمرہ تھا اور اس کے پہلو میں ایک کوٹھڑی۔ اسمیں میری مسہری لگی ہوئی تھی۔ کمرے کے مقابلہ میں صحن کے اس طرف باورچیخانہ وغیرہ تھا اور اس طرف ایک ایسی کولکی سی بھی تھی جہاں وقت بے وقت کوئی پڑ رہے۔ استاد جی اور اماں اس میں اپنا ٹھکانہ کرنے کی تدبیر میں تھے۔ میرے کمرے میں کوٹہری سے ملا ہوا ایک عمدہ قالین بچھا ہوا تھا۔ شیشہ الات بڑی سجاوٹ سے لگے ہوئے تھے اور کمرے کے دونوں دروازوں پر جو بازار کے رُخ پر تھے نہایت عمدہ گلشن کے پردے پڑے ہوئے تھے کوٹھڑی کے کواڑوں پر کاغذ کی خوشنما بیل لگی ہوئی تھی۔ اور کواڑوں پر اندر پردہ اس طرح لگا ہوا تھا کہ ذرا ہٹا دینے سے مسہری بالکل دکھائی دینے لگتی تھی۔
میں قالین کے ایک کونے پر کوٹہڑی سے ملی ہوئی بیٹھی تھی اور صدر کے گاؤ تکیے اور بیچ کے طاق کے مکّلف سامان کو بڑے اشتیاق اور امیدواری سے
ریختہ صفحہ7
دیکھ رہی تھی کہ زینہ میں پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی۔ اماں تاڑ گئیں اور جب دروازہ کے قریب ذرا جھلک دیکھ لی تو فوراً آواز دی تشریف لائیے۔ میں نے نظر اٹھائی تو خدا کی قدرت لا عجب تماشا دیکھا۔
سولہ سترہ برس کی عمر نہایت قبول صورت جامہ زیب بڑے اچھے ہاتھ پاؤں کا ایک لڑکا اور ان کے پیچھے پیچھے وہ بڈھا میرے کمرے میں داخل ہوئے میں اٹھ کھڑی ہوئی اور اماں نے انھیں بڑے تپاک سے صدر میں بٹھایا میں نیچی نظر کئے ہوئے اپنے دوپٹے کو سنبھالتی اور نتھنی کو ٹھیک کرتی جاتی تھی، اماں نے نواب صاحب کا مزاج پوچھا اور کہا آپ نے بڑای عنایت کی جو قدم رنجہ فرمایا۔پھر باورچی خانہ میں سے استاد جی کو آواز دی کہ حقّہ بھیجو۔ نواب صاحب نے معذوری ظاہر کی تو فوراً سگریٹ منگوائےمجھ سے پان بنانے کو کہا پھر ایک طعن کی آواز سے یہ کہکر اٹھیں کہ"ہم لوگوں کا بیٹھنا بھلا ہر وقت کب اچھا معلوم ہوتا ہے " اور نواب صاحب کے نوکر سے کہا آؤ تمہیں حقہ پلائیں اور یہ دونوں کمرے سے مجھے اور نواب صاحب کو اکیلا چھوڑ کر باورچی خانہ میں چلے گئے۔ کمرہ کے اس دروازہ پر جدہر سے باورچی خانہ صاف دکھائی دیتا تھا چک پڑی ہوئی تھی اس سبب سے اب میں اور نواب گویا بالکل تنہا اور باہر والوں کی نظر سے محفوظ ہو گئے۔
اماں کے اٹھ جانے کے بعد نواب اور میری طرف سرک آئے اور کہا ننی جان اگر تمہاری شرم کی یہی حالت ہے تو ہماری زندگی ہو چکی۔ تم نے مجھے پہچانا
میں: (اسی طرح نظریں نیچی کئے ہوئے) میں نے کئی مہینے ہوئے آپ کو کہیں مجرے میں دیکھا تھا۔
نواب صاحب: اور اسی دن میرے جگر پہ تیر مارا تھا یہ بھی تو کہا ننی جان۔ اسی دن سے میں تمہارا شیدا ہوں مگر والد کے انتقال کی وجہ سے ایسے جھگڑوں میں پھنسا
ریختہ صفحہ 8
رہا کہ تم تک نہ پہنچ سکا۔ پھر سنا کہ تم نے مکان بدل لیا ہے۔ کئی دن کی تلاش کے بعد آج تمہارا پتہ لگا ہے۔
میں: (نظر نیچی کر کے) میں آپ کی تابعدار ہوں۔ میرے ایسے نصیب کہاں کہ آپ میرے غریب خانہ پر تشریف لائیں۔
نواب صاحب: ( بے خیالی سے میرے دوپٹہ کا سرا ہاتھ میں لے کر) تابعداری کی خدا نہ کرے تمہیں کیا ضرورت ہے۔ حاکم کو اللہ محکوم نہ کرے۔ ہائے ننی جان تمہیں نہیں معلوم کہ تم نے کس قدر میرے دل پر تسلط کر لیا ہے۔خبر نہیں مجھ کو یہ باتیں تم سے کرنی چاہئیں بھی یا نہیں۔ معاف کرنا۔ خدا جانے تمہیں کس کا خیال ہو گا اور میری باتوں سے ضرور دل الجھتا ہو گا۔ میں نے دیکھا نواب کی باتوں کا اثر مجھ پہ ہونے لگا اور سچ مچ جی چاہنے لگا کہ یہ اسی قسم کی باتیں کئے جائیں۔ بلکہ اور میری طرف سے بھی کوئی ان کے دل میں ڈالدے کہ اسے بھی تمہارا خیال ہے مگر کوئی اور کہاں سے آتا۔ آخر میں نے نیچی نظر کر کے دبی ہوئی زبان سے کہا کہ نوابصاحب مجھ سے زیادہ اور کون خوش نصیب ہو گا کہ آپ جیسے شخص عنایت فرمائیں۔میں سچ کہتی ہوں کہ مجھے کسی کا خیال نہیں ہے۔اور آپ کی باتوں میں جی لگتا ہے۔ اگر اپ اسی طرح عنایت فرمائیں گے تو ان شاء اللہ تعالٰی آپکو مجھ سے شکایت نہ پیدا ہو گی۔
نوابصاحب: ننی جان تمہارا اس طرح بھچے ہوئے بیٹھنا مجھے بیچین کئے دیتا ہے اگر درحقیقت تم مجھ سے گھبراتی نہیں تو للہ ذرا تکلف اٹھاؤ۔ عنایت تمہیں کرنی پڑے گیہاں میں ہمیشہ صدقِ دل سے کوشش کروں گا کہ کوئی بات تمہارے خلافِ مزاج نہ سرزد ہو۔ (پھر میرے دوپٹہ کا سرا ہاتھ پر رکھکر)مجھے یہ رنگ بہت پسند ہے دیکھو کنارہ کسقدر خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ ماشااللہ تمہاری ملاحت نے اس میں جان ڈال دی ہے۔ننی جان تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے رنگ میں کیا
ریختہ صفحہ 9
بات ہے۔
میں (ذرا دل میں خوش ہو کر کیونکہ مجھے اپنی تعریف بہت اچھی معلعم ہوتی تھی) آپ مجھے چھیڑتے ہیں بناتے ہیں ماشا اللہ رنگ تو آپ کا ہے میدہ اور شہاب۔ مجھے تو اپنے کالے کلوٹے پن سے ایسی نفرت ہے کہ کبھی آئینہ تک نہیں بھی نہیں دیکھتی۔
نواب صاحب: (ہنسکر) اوہو میرا رنگ بھی قابلِ تعریف ہے مگر یہ تو بتاؤ تمہارا سا تناسب اعضاء چھریرا بدن لم چھوئی آنکھیں اور خوبصورت پیشانی کوئی کہاں سے لائے۔
میری تعریف نواب صاحب نے کچھ ایسے سچے دل سے کی کہ میرا جی بیچین ہو گیا اور سمجھ میں آنے لگا کہ ایسے شخص سے محبت کرنی کیسی نعمت کی بات ہے۔
تھوڑی دیر کے بعد نواب صاحب نے پان لیتے وقت میری پتلی انگلیوں اور مہندی سلیقہ سے لگی ہونے کی تعریف کی اور اس پیارے پن سے کی کہ میرا دل نواب سے بالکل بے تکلف ہو گیا۔ مگر میں خاموش رہی۔ فقط کہیں کہیں ان کی تعریف کا حاشیہ لگا دیتی تھی۔نواب صاحب نے میری کم سخنی کے متعلق کئی اچھے فقرے کہے جن میں سب سے زیادہ مجھے یہ پسند آیا کہ تمہیں ہونٹوں کی نزاکت کا بڑا خیال ہے جو ان سے کام نہیں لیتیں۔
ایک گھنٹہ کے قریب وہ میرے پاس بیٹھے رہے اور جب سے آپا مری تھیں کبھی دن بھر میں بھی مَیں اس قدر خوش نہیں ہوئی جس قدر اس گھنٹہ بھر میں۔نواب صاحب نے بڑے پیارے الفاظ میں رخصت چاہی، میں نے اماں کو آواز دی وہ سب آ گئے اور ادہر اُدہر کی باتوں کے بعد نواب اُٹھے ۔ اماں نے پھر تشریف لانے کو کہا۔ انہوں نے ایسے ہی وقت پر کل یا پرسوں آنے کا وعدہ کیا، اور میری
ریختہ صفحہ10
طرف ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر رخصت ہوئے۔
نواب کے جاتے وقت مجھے اماں اور لواور دنیا کی باتوں سے ناقاگوں کا آ جانا بہت ناگوار معلوم ہوا۔ میرا دل یہ چاہتا تھا کہ جی بھر کے ایک دفعہ اور دیکھ لوں مگر کچھ نہ ہو سکا۔
نواب کے چلے جانے کے بعد میں بیٹھ تو گئی مگر دل کچھ اکھڑا اکھڑا رہا۔ ان کی خوبصورت وسیع پیشانی ، کسرتی بدن، جامہ زیبی محبت کی باتیں مجھے یکے بعد دیگرے اس طرح یاد آ رہی تھیں جس طرح باجا بجنے میں ایک گیت ختم ہونے کے بعد دوسری شروع ہوتی ہے۔ اور دل کو نہایت سرور حاصل ہوتا ہے۔
پانچ بجے کے قریب اماں نے فٹن منگوائی اور مجھ سے کہا کہ جاؤ استاد جی کے ساتھ سیر کر آؤ۔ میری طبیعت آج سیر کے لائق نہ تھی اور قریب تھا کہ کچھ عذر کروں کہ یکایک دل میں خیال آیا کہ شاید نواب پھر کہیں مل جائیں ۔ اس سے ایسی خوشی ہوئی کہ میں فوراً تیار ہو گئی اور پان کھا کر اور استاد جی کو لے کر سیر کیواسطے تیار ہو گئی۔ استاد جی نے راستہ میں مھ سے کہا کہ نواب صاحب کا نوکر ان کے مزاج کی بہت تعریف کرتا تھا اور یہ بھی کہتا تھا کہ دل کے ایسے سخی ہیں کہ اگر آپ لوگوں کے ہاں آمد ورفت کا سلسلہ قائم ہو گیا تو نہال کر دیں گے۔ اب ننی جان ان کے دل کو ہاتھ میں لینا تمہارا کام ہے۔ بڑی سرکار ابھی کہہ رہی تھیں کہ تمہاری ننی بھولی ہے اور دنیا کی باتوں سے نا واقف ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نوابصاحب کےدل کے موافق برتاؤ نہ کرے۔ وہ مجھ سے کہتی تھیں کہ دو چار باتیں ایسی ضرور بتا دینی چاہئیں سو ننی جانا گر تم بڑوں کی نصیحت کا برا نہ مانو تو میں تم سے کچھ کہوں۔
میرا جی کسی طرح نہ چاہتا تھا کہ استاد جی کی باتوں کو غور سے سنوں کیونکہ اس سے میری سیر میں فرق آتا تھا، میری آنکھیں بازار میں نواب کی صورت کو
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ11
ڈھونڈتی تھیں۔ اور مجھے استاد جی کی رفاقت نہیں معلوم کیوں زہر معلوم ہوتی تھی۔ جب انہوں نے کہا کہ میں بھولی ہوں اور دنیا کی باتوں سے ناواقف ہوں۔ تو میں دل میں ہنسی اور میں نے جی میں کہا کہ میں جس دل سے نواب صاحب سے ملنا چاہتی ہوں اس میں بھولا پن یا ناتجربہ کاری شاید اور مدد دےمگر استاد جی کی طرف توجہ کرنی ضرور تھی۔ ناچار سنبھل کر بیٹھی۔اور کہا کہ آپ میرے باپ کے برابر ہیں آپ ہی نصیحت نہ کریں گے تو کون کریگا۔ میری بہتری کی جو باتیں آپ کو معلوم ہیں کہئے میں ضرور ان پر عمل کروں گی۔
استاد جی: شاباش بیٹا اللہ تجھے خوش رکھے۔ تیرے دم سے اب گھر کی رونق ہے۔بیٹا رئیسوں کے لڑکے عجیب مزاج کے ہوتے ہیں ان کا ہر وقت تاؤ بھاؤ دیکھنا پڑتا ہے جب انھیں کسی معشوق کی (اصطلاح میں رنڈی اور معشوق مترادف المعنی ہیں) کوئی بات پسن آ جاتی ہے تو روپیہ کا زور دکھا کر یہ چاہتے ہیں کہ یہ بالکل ہماری مطیع ہو جائے۔ اول اول اس سے نہایت محبت اور عاشقی کی باتیں کرتے ہیں مگر جب دیکھ لیتے ہیں کہ کوئی بھولی الڑ عورت ان کے جال میں پھنس گئی اور اسے محبت ہو گئی تو ایسا ناچ نچاتے ہیں کہ الٰہی توبہ، یہ باتیں ہزاروں دفعہ کی آزمائی ہوئی ہیں اس لئے ہم لوگ ایسا کرتے ہیں کہ ظاہرداری کا برتاؤ بہت اُجلا کرتے ہیں ۔ خاطرداری میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے مگر دل پر اثر بالکل نہیں ہونے دیتے۔ زبان سے اور حرکات و سکنات سے بیشک یہ ظاہر کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں بھی خوب محبت ہے مگر دل میں کچھ اثر نہیں ہونے دیتے۔ اگر ایسا نہ کریں تو کبھی ہمارا کام نہ چلے۔تن کو کپڑا نہ پیٹ کو روٹی۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔کنبہ برادری سب چُھٹ جائے۔ تماشبین لوگ ہمیں تباہ کر دیں۔
ریختہ صفحہ 12
ننی جان ابھی تم نے دنیا میں کچھ نہیں دیکھا۔اس پیشہ میں طرح طرح کے آدمیوں سے سابقہ پڑے گا۔ ایسے ایسے لوگ ملیں گے کہ پہلے پہلے دل نکال کر رکھ دیںگے مگر چند ہی دنوں میں ان کا رنگ بالکل پلٹ جائے گا۔ دنیا میں اللہ نے ایک سے ایک اعلٰی معشوق پیدا کیا ہے۔ ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ جہاں کوئی دوسرا معشوق نظر چڑھ گیا۔ بس پہلے کو ایسا ستاتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ سو بیٹا سب سے پہلی بات تو تمہیں یہ کرنا ہو گی کہ نواب کو دل میں اپنا دشمن سمجھو۔ کسی وقت اس بات کی توقع نہ رکھنا کہ وہ دل سے محبت کریں گے۔ظاہر میں تم ان پر بیشک یہی جتانا کہ مجھے آپ سے محبت ہے۔ مگر دل بالکل الگ رکھنا۔دوسرے اس بات کا خیال ضرور رکھنا کہ جب تک وہ اپنی محبت ظاہر کریں تو کوئی موقع فرمائش کا ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ آج تمہاری اماں جان نے جان بوجھ کر تمہیں فلاں زیور نہیں پہنایا تھا۔ اگر اب کی دفعہ نواب صاحب کی نظر پڑے اور وہ کسی چیز کی تعریف کریں تو معنوں معنوں میں کہنا کہ اماں کہہ رہی تھیں کہ تجھے یہ چیز اور بنا دیں گے۔ بڑی خوبصورت معلوم ہو گی۔اگر نواب صاحب کو تم سے سچ لگاؤ ہے تو وہ ضرور بنوا دیں گے۔ استاد جی کی باتوں پر میں بہت اچھا بہت اچھا کرتی گئی۔ مگر کبھی کبھی دل میں خیال آتا تھا کہ اگر نواب کو فی الحقیقت مجھ سے محبت ہو گئی ہے تو مبرا دو دلا پن ان کے حق میں کس قدر ظلم ہو گا۔ کبھی کہتی تھی کہ خدا وہ دن تو کرے کہ وہ مجھ سے دلی محبت سے ملیں ُپھر میں آپ دیکھ لوں گی کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہئیے۔
استاد جی نے جب یہ کہا کہ لوگ پہلے پہلے محبت جتاتے ہیں اور جب کام نکل جاتا ہے تو ستاتے ہیں تو میرے دل میں گھونسا سا لگا کہ اگر خدا نخواستہ نواب کی آج کی باتیں بھی اسی طرح کی ہیں تو میرا کیا حال ہو گا۔ مجھے ان سے ابھی
ریختہ صفحہ 13
سے محبت ہو چلی ہے۔ استاد جی کی یہ بات میرے دل کو نہ لگی کہ ایک کے ہوتے ہوئے دوسرا معشوق نظر چڑھ جاتا ہے۔ میرے دل نے مجھ سے کہا کہ ایسا برتاؤ ہی کیوں کرے کہ دوسرے کا دل اکھڑ جائے۔
استاد جی کی باتوں کا اثر میرے دل پر عجب قسم کا ہوتا تھا۔ کبھی محبت کرنے اور محبوب بننے کا شوق ہوتا تھا ۔ کبھی ڈرتی تھی ۔ جھجکتی تھی مگر یہ بات بالکل سمجھ میں نہ آئی کہ نواب کو اپنا دشمن سمجھوں۔وہی نواب جو مجھ سے ایسے مزے مزے کی باتیں کرتے تھے۔ وہی نواب جن کو سارے بازار میں میری آنکھیں ڈھونڈتی تھیں۔ فرمائش کرنے کی ترکیب جو استاد جی نے بتائی وہ مجھے بھی پسند آئی اور میرے دل میں ذرا امنگ پیدا ہوئی۔
ہماری گاڑی قاضی کے حوض ہوتے ہوئے پنڈت کے کوچہ کے آگے سے نکلی اور یہاں تک استاد جی کی باتیں بھی ختم ہو چکی تھیں دروازہ پر دو شخص نہایت خوشنما لباس پہنے ہوئے کھڑے تھے ان کی عمر بائیس بائیس تئیس تئیس سال کی ہو گی ایک کا رنگ گورا تھا بدن چہریرا ہاتھ پاؤں نہایت موزوں امیرانہ لباس اونچی باڑ کی نہایت موزوں اودی مخمل کی لیس دار ٹوپی سر پر، اچھے سے رنگ کی حیدر آبادی اچکن زیبِ بدن ، سفید اجلا کالر لگائے ہوئے پتلون نما پاجامہ پہنے ہوئے لُک کا بڑھیا بوٹ پاؤں میں ، خوبصور لکڑی ہاتھ میں ان کے ساتھی گندمی رنگ کے تھے لباس میں گو سادگی تھی مگر بہت ہی بھلی معلوم ہوتی تھی جونہی میری نظر ان لوگوں پر پڑی ایک نے دوسرے سے کہا دیکھا ملاحت اسے کہتے ہیں ۔ دوسرے صاحب نے (اب مجھے یاد آیا یہ سانولے رنگ کے تھے) فوراً جواب دیا "سبحان اللہ کیا قدرت ہے" میں یہ فقرہ سنتی ہوئی گاڑی میں آگے بڑھ گئی۔ مگر میرا جی چاہتا تھا کہ کہیں ان لوگوں سے ملنا ہو اور ان کی باتیں سنوں۔
ریختہ صفحہ 14
یہ بات مجھے بہت نئی معلوم ہوئی کہ میری صورت دیکھ کر ان لوگوں کو اللہ کی قدرت یاد آئی اور میرے جی میں آیا کہ اگر یہ کہیں ملیں اور اس بات کے پوچھنے میں حرج نہ ہو تو میں ضرور ان سے دریافت کروں کہ انہیں مجھ میں اللہ کی کیا قدرت نظر آئی ۔ لال کنویں، بڑیوں کے کٹڑئے اور فتحپوری ہوتی ہوئی میری گاڑی چاندنی چوک پہونچ گئی۔ اس وقت کی سردی میرے دل و دماغ کو عجیب تراوت دیتی تھی۔ شام بالکل قریب آ گئی تھی۔ اور آسمان پر عجیب بہار تھی۔ گھنٹہ گھر کے قریب جب ہم پہونچے تو میں نے استاد جی سے کہا کہ ایک چکر باغ کا بھی کر لیں۔ دونوں وقت ملنے سے پہلے پہلے چلے آئیں گے۔گاڑی اندر مڑی تو سامنے کے کُھلے ہوئے گھانس کے تختے کی بہار اور نیلگوں آسمان کی دلکش کیفیت میرے دل پر کچھ عجب اثر ڈالنے لگی۔ جہاں باجا بجتا ہے وہاں پہنچتے پہنچتے میری یہ حالت ہو گئی کہ میں نے خود کوچبان سے کہہ کر گاڑی ٹہروائی۔ اور اترے کا ارادہ کیا استاد جی نے روکنا چاہا۔ مگر میں کب سنتی تھی اتر کر میں برج کی طرف سے ہو کر اس روش پر نکل گئی جدہر سے چھوٹا گھانس کا تختہ اور سامنے کی غیر آباد سڑک دکھائی دیتی تھی۔ استاد جی میرے ساتھ ساتھ تھے۔ مگر مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میں بالکل اکیلی ہوں۔ میرے جھانجھنوں کی آواز میرے کانوں میں ایک خاص قسم کا اثر پیدا کرتی تھی اور یہاں مجھے دفعتاً خیال آیا کہ نواب نہ ملے۔ میرا جی گھبرانے لگا۔ ادہر شام بالکل ہو چلی تھی۔ میں نے گاڑی کی طرف واپس ہونا چاہا اور چلی آتی مگر ہاس کے درخت کے نیچے میں نے ایک خوبصورت جوان آدمی کو دیکھا کہ تنے سے لگا ہوا بے پرواہی سے پاؤں زمین پر پھیلائے کپڑے میلے ہونے یا کسی آنے جانے کی خیال سے بالکل بے فکر اکیلا گُن گنا رہا ہے میں نے درخت کے نیچے سے ہو کر گزری تو سُنا کہ وہ اللہ کا نیک بندہ عجب درد کی آواز سے جس میں رونا
ریختہ صفحہ 15
بھی ملا ہوا تھا یہ شعر گا رہا ہے ؎
وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں
میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ استاد جی یہ کون شخص ہے۔ انہوں نے بڑی بے پروائی سے جس نے میرے دل کو ایک صدمہ سا دیا کہا کوئی ہونگے ایسے نکمّے فضول آدمی سینکڑوں دیکھے ہیں۔ ہمارے پاؤں کی آہٹ سے وہ بیچارہ پریشان ہو کر اٹھ کھڑا ہوا مگر میں نے دیکھا کہ آنسوؤں کے نشان ان کے رخساروں پر صاف معلوم ہوتے تھے۔ آنا اسے بھی ادہر ہی تھا جدہر سے ہم جا رہے تھے۔ دو ہی قدم میں مٹ بھیڑ ہو گئی۔ قریب تھا کہ میں ان کا مزہ کرکرا ہونے کی معافی مانگوں کہ وہ ہمارے قریب آ کر ٹہر گئے اور خود اس طرح گویا ہوئے اس وقت ایسی سنسان اور تنہا جگہ میں آتے ہوئے آپ کو ڈر نہیں لگتا۔
جہاں آپ تشریف رکھتے ہوں اسے سنسان کون کہہ سکتا ہے۔ معاف فرمائیے میں نے آپ کا بڑا حرج کیا ، یہ آپ کیا گا رہے تھے۔
میری کسی بات کا انہوں نے جواب نہ دیا اور یہ شعر پڑہتے ہوئے آگے بڑھ گئے ؎
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
میں ٹھٹکی تو کہا آپ میرا خیال نہ کیجئیے۔ آپ کے استاد جی سچ کہتے ہیں کہ ایسے فضول آدمی سینکڑوں دیکھے ہیں۔ اس پر استاد جی بہت حفیٖ ہوئے اور ان کی طرزِ گفتگو سے متاثر ہو کر فوراً آگے بڑھے اور کہا کہ حضور میرا قصور معاف فرمائیے۔ بے خیالی میں میرے منہ سے یہ نا معقول بات نکل گئی تھی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 16
اب ہم اور وہ ساتھ ساتھ سڑک کی طرف بڑہے میں نے استاد جی سے اشارہ کیا۔ انہوں نے پان کی ڈبیا میں سے پان نکال کر پیش کیا۔ وہ انکار کرنے لگے۔ مگر میں نے پان ہاتھ میں لے کر خود اصرار کیا تو انھوں نے قبول کر لیا۔ بہت پیارے الفاظ میں شکریہ ادا کیا۔ اور پوچھا کہ آپ کہاں رہتی ہیں یہ بھی فرمایا کہ ما شا اللہ اس عمر میں ایسی خلیق ہو اللہ اس میں ترقّی دے،میں نے مکان کا پتہ بتایا اور تشریف لانے کی التجا بڑے عجز سے کی۔
انہوں نے فرمایا کہ میں آزاد منش ہوں دن اور وقت کا تو وعدہ نہیں کر سکتا مگر استاد جی کو اگر ناگوار نہ معلوم ہو گا تو کسی دن ضرور حاضر رہوںگا۔ میں سوار ہو گئی۔غروب کا وقت بالکل ہو گیا تھاادہر ہمارے کوچبان نے گھوڑوں کو آگے بڑہایا ادہر انہوں نے اپنی اچکن اتار کر ایک کونے میں گھانس پر بچھائی اور نیت باندھ لی۔
اس کیفیت کو دیکھکر جس سے میرے دل میں کچھ حیرت اور کچھ ہمدردی پیدا ہوئی۔ مجھے نواب کا خیال جاتا رہا اور ہم جلدی جلدی ۔۔۔۔۔ ہوتے ہوئے جامع مسجد کے سامنے سے ہو کر گھر پہنچے۔
میرا جی چاہتا تھا کہ میں اپنی کوٹہڑی میں جا کر اکیلی پڑ رہوں اور آج جو گذرا ہے اسے دل میں خوب مزے لے لے کر دہراؤں مگر کوٹھے پر قدم رکھتے ہی دیکھا کہ کمرہ آدمیوں سے بھرا ہوا ہے اور طرح طرح کی آوازیں آ رہی ہیں۔ صدر میں گاؤ تکیہ سے لگے ہوئے باخود گاؤ تکیہ بنے ہوئے ایک لالہ صاحب تشریف فرما تھے اور بازار سے جو اماں نے ان کے لئے پان منگا کر دئیے تھے وہ ایک پتے میں کھلے ہوئے ان کے سامنے رکھے تھے۔ ان کے آس پاس ان کے اور ساتھی بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی لالہ صاحب نے فرمایا صاحب تم نے بڑی دیر لگائی میں نے سلام کیا دوسرے صاحب نے کہا بس جی دیدارو خاصی ہے
ریختہ صفحہ 17
تیسرے بولے نا جی ہم تو بے گانا سنے سائی (ساعی) نہ دیں گے۔ میں یہ سب کچھ سنتی ہوئی آ کر بیٹھ گئی۔ اماں نے استاد جی کو ساز منگانے کو کہا اور میں عین اس وقت جبکہ میرادل تنہا ہونے اور دل سے باتیں کرنے کو چاہتا تھا اس ناگہانی آفت میں ا گئی۔ تھوڑی دیر میں استاد جی اور ان کے اہالی موالی تیار ہو گئے۔ ساز ملا لیا گیا اور میں لالہ صاحب کی طرف مُڑ کر بیٹھ گئی، پوریا، ایمن، کلیان اور کھماج کی کئی چیزیں استاد جی نے بڑی محنت سے گوائیں۔ مگر ان لوگوں کو ایک بھی پسند نہ آئی۔ اس سے میرا جی الجھنے لگا استاد جی تاڑ گئے فوراً دادرے پر اتر آئے اور جونہی میں نے ؔ"راجہ تورا پانی ہم سے نہ بھرا جائے رے" شروع کیا لالہ کی گردن ہلنے لگی میں نے بھی خوب بتا بتا کر گایا سب خوش ہو گئےاور معاملہ کی بات ہونے چیت ہونے لگی۔ بہت دیر رد و کد کے بعد جس میں بالکل دکانداری کی سی باتیں ہوتی تھیں ڈیڑھ سو روپیہ کا رقعہ لالہ صاحب نے لکھدیا اور اپنے ساتھیوں سمیت دہوتی سنبھالتے ہوئے اٹھے، اماں سے چلتے چلتے کہا کہ بس سوموار کو سدوسی ہی ہمارا آدمی تمہارے پاس پہنچ جائے گا تم دیر نہ کرنا۔ اماں نے کہا بہت اچھا ایسا ہی ہو گا۔ یہ لوگ روانہ ہوئے تو میں نے اپنے کمرے میں جا کر ذرا دم لیا۔ زائد زیور بڑہایا۔ اور دوسرا دوپٹہ اوڑہا۔ اتنے میں اماں نے دسترخوان بچھوایا۔ زینے کے کواڑ بند کرائے اور مجھے کھانا کھانے کے لئے آواز دی۔ لالہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کے چلے جانے کا غبار جب میرے دل پر سے ہٹا تھا تو مجھے وہی شخص یاد آنا شروع ہوئے جن سے باغ میں ملاقات ہوئی تھی۔ ان کا کسی کی یاد میں رو رو کر وہ شعر پڑہنا گاڑی تک میرے ساتھ آنا نماز کا اس قدر پابند ہونا سب باتیں میرے دل میں گھر کر رہی تھیں اور گویا میں دل سے دعا مانگتی تھی کہ خدا کرے آج ہی ان کے دل میں موج آئے اور وہ میرے مکان پر آ جائیں میں
ریختہ صفحہ 18
دل سے یہ باتیں کر ہی رہی تھی کہ اماں نے پھر کھانے کے لئے آواز دی میں چونک سی پڑی اور جی اچھا کہہ کر چار و ناچار دالان میں آئی۔ ہمارے ہاں سیدہا سادہا کھانا پکا تھا۔ مگر سالن میں مرچیں جو زیادہ ہو گئی تھیں تو مجھ سے کھایا نہ جاتا تھا۔ اماں ، ماما کی فضیتیاں (فضیحتیں) کرنے لگیں استاد جی کہنے لگے لاؤ میں ننی کے لئے بازار سے کچھ لا دوں کہ کسی نے زینے کے کواڑ دہڑا دہڑ دہڑانے شروع کئے۔ اماں نے غصہ میں کہا کہ کون ہے۔ جواب آیا میں تہا امامی، نوابصاحب نے یہ بھیجا تھا، اماں کی آواز بدل گئی۔ استاد جی نے فوراً اٹھ کر کنڈی کھولدی۔ میں شوق سے دروازے کی طرف دیکھنے لگی کہ امامی صحن میں داخل ہوا اور اس کے پیچھے دو مزدور خوان لئے ہوئے۔
اماں نے اٹھ کر امامی کو دالان میں بلایا۔ اس نے کہا کہ آپ کے ہاں سے جانے کے بعد نواب صاحب کے ایک دوست علیگڑھ سے آ گئے اور ایسی جلدی میں آئے کہ صبح ہی چلے جائینگے۔ دعوت کا سامان تو نہ ہو سکا مگر جلدی میں یونہی ایک آدھ چیز بڑہتی پکوا لی ہے۔ مجھ سے کہا کہ ننی جان کے ہاں بھی تھوڑا سا دے آؤ۔ ان کی پسند تو کاہے کو آئے گا مگر خیر میرا جی یونہی چاہتا ہے۔
اماں نے کہا نواب صاحب نے بڑی تکلیف کی واقعی انھیں ننھی جان کا خیال ہے پھر خوان پوش ہٹا کر رکابیاں اور طشتریاں نکالیں۔ ماما سے برتن منگوا کر انھیں خالی کیا اور بہت سے شکرئیے کے لفظ نواب صاحب کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے کہے۔ پھر امامی کو اماں نے زردہ بنا کر دیا اور مزدوروں کو کچھ پیسے دئیے اور وہ تینوں رخصت ہوئے۔
ہم لوگ اس من و سلوے کے آنے سے بہت خوش ہوئے ۔ دو رکابیوں میں نہایت نفیس بریانی تھی اور دو طشتریوں میں اعلیٰ درجے کا متنجن شامی کباب
ریختہ صفحہ 19
جلدی میں ذرا جل گئے تھے۔ مگر خستگی اچھی تھی۔ قورمہ بہت عمدہ تھا ۔ فیرینی بہت سلیقہ سے جمائی ہوئی تھی اور ورق پستے تو بہت ہی اچھے معلوم ہوتے تھے۔ سادہ سالن معمولی تھا۔ ایک بڑی رکابی میں دو تین طرح کی تازہ مٹائیاں تھیں اور ایک طشتری میں غفور کی دکان کا تہوڑا سا حلوہ سوہن دو تین اور چھوٹی طشتریوں میں کئی طرح کے مربے تھے۔ اور پسندوں کے کباب، باقر خانیاں، شیر مالیں اور خمیری روٹیاں بازار کی تھیں۔ ہم نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اللہ کا شکر کیا۔ کھانا کھاتے کھاتے دس بج گئے اور مجھے نیند آنے لگی۔ اماں اور استاد جی بھی حقہ پیتے پیتے اونگھنے لگے اور ہم سب نے سونے کا انتظام کیا۔ دوسرے دن صبح کو میں تعلیم لے کر بیٹھی تھی کہ وہی دونوں شخص جو شام کو پنڈت کے کوچہ پر ملے تھے دبے پاؤں کچھ رُکے رُکے صحن میں داخل ہوئے اماں نے سامنے باورچی خانہ میں سے کہا تشریف لائیے۔ استاد جی وغیرہ ساز باندھ چکے تھے ہی تھے، علیٰحدہ ہو گئے اور دونوں صاحب دالان میں تشریف لے ائے میں نے اپنی جگہ سے ذرا اٹھ کر استقبال کیا صدر میں بٹھایا اور مزاج پُرسی کی۔
لیس دار ٹوپی والے: اس وقت آپ کے مکان کا مل جانا بالکل کرامت ہو گئی۔ میں اور مرزا صاحب کپڑا دیکھنے گھنٹہ گھر تک آئے تھےکہ چاوڑی کا ایک کام یاد آ گیا۔ یہاں آ کر خیال آیا کہ کل والی صاحبہ کا کوٹھا معلوم ہوتا تو ہوتے ہی چلتے مرزا صاحب کے منہ سے نکلا کہ ہو نہ ہو یہی کوٹھا ہو۔ بسم اللہ کہہ کر قدم رکھدیا خدا کی قدرت آپ ہی کا مکان نکلا۔ ہمارے مرزا صاحب ولی ہیں۔
میں: اس میں کیا شک ہے۔ انہیں خدا کی قدرت بھی تو بعضے بعضے آدمیوں میں دکھائی دیتی ہے۔
پھر مرزا صاحب سے مخاطب ہو کر ، "کیوں جناب کل شام کو آپ نے کیا
ریختہ صفحہ 20
فرمایا تھا "
مرزا صاحب: میرے ان اشاروں کی باتوں سے بہت خوش ہوئے فرمایا ڈپٹی صاحب کی عنایت ہے ۔ آپ مجھ سے کیوں ناراض ہیں۔ انہوں نے آپ کی ملاحت کی تعریف کی میں بھی بول اٹھا کہ کیا خدا کی قدرت ہے آپ ہی فرمائیے کہ اس میں کیا جھوٹ ہے؟
میں: آپ دونوں صاحبوں کی عنایت ہے جو چاہے سو فرمائیے۔ رہی خوبصورت بد صورتی کی ۔ سو میں اپنی شکل کو خوب جانتی ہوں۔ خیر خدا کا شکر ہے اس ذریعہ سے آپ کا تشریف لانا تو ہوا۔ آپ نے مجھ پر بہت احسان کیا۔
ڈپٹی صاحب: احسان تو آپکا ہے کہ اس تکلیف کو گوارا فرما رہی ہیں
مرزا صاحب: آپ کا اسم شریف؟
میں: جیسی میری صورت ویسا ہی میرا نام بھی ہے ۔ مجھے ننہی کہتے ہیں۔ میرے زہے نصیب کہ آپ نے قدمرنجہ فرمایا۔
مرزا صاحب: آپ غضب کرتی ہیں کہ کسر نفسی کے مارے خدا پر اعتراض کئے دیتی ہیں۔اول تو ما شا اللہ آپ میں ہر چیز کانٹے کی ہے اور اگر خدانخواستہ آپ کے اندازہ کے موافق کوئی برائی بھی ہوتی تو صورت اللہ کی بنائی ہوئی ہے۔ انسان اس میں مین میخ نکالنے والا کون۔ ننھی جان توبہ کرو۔
مرزا صاحب کی اس بات کا میرے اوپر اثر ہوا ۔ اور مجھے ڈر لگنے لگا کہ خاصی چنگی بھلی شکل کو جو میں خواہی نخواہی بُرا کہتی ہوں تو کہیں اللہ کا غضب نہ نازل ہو۔ اسے بگاڑتے کیا دیر لگتی ہے۔ یہ خیال جو آیا تو فوراً میرے منہ سے نکلا " نہیں مرزا صاحب توبہ توبہ میں کچھ اللہ پر اعتراض نہیں کرتی ۔ جیسی شکل اس نے بنائی ہے، اچھی ہے۔ اس کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 21
ڈپٹی صاحب نے مرزا صاحب کی باتوں کی بہت داد دی اور تعریف میں فرمایا کہ علاوہ چودہ طبق روشن ہونے کے آپ کو دل پھیر دینے میں بھی کمال ہے۔ ابھی ننھی جان کا کوٹھا بتا دیا تھا۔ پھر باتوں باتوں میں ان خیال بدل دیا ، پھر ان سے کہا کہ حضرت ہم تو جب جانیں کہ ننھی جان کا دل ہماری طرف رجوع کراؤ۔ تم تو فقیر آدمی ہو۔ تمہیں تو کسی سے کچھ کام نہیں۔ مگر بھئی میرا کل شام سے برا حال ہے۔
مرزا صاحب نے ڈپٹی صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ جس سے یہ منشا تھا کہ ایسی کُھلی کُھلی باتیں نہ کرنی چاہئیں۔ پھر کہا آپ مجھے بنائیں نہیں۔ کوٹھے کا معلوم ہو جانا اتفاقی امر ہے اور یہ بات جو میں نے ننھی جان سے کہی تھی۔ بالکل حق بات تھی ۔ یہ ما شااللہ سمجہدار اور حق پسند تھیں مان گئیں۔
میں نے پان بنائے اور بڑے تکلّف سے پیش کئے، مرزا صاحب نے عذر کیا جس پر ڈپٹی صاحب نے طعناً کہا کہ صورت تو دیکھ لیتے ہیں مکان پر بھی چلے آتے ہیں مگر رنڈی کے ہاں کا پان نہیں کھاتے۔ میں نے بہت اصرار کیا۔ مگر انہوں نے نہایت عجز سے معذوری ظاہر کی۔ ڈپٹی صاحب نے پان لے لیا اور پانچروپے تھالی میں چپکے سے رکھ دئیے۔ میں نے کہا اس تکلیف کی کیا ضرورت ہے آپ ناحق مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ ڈپٹی صاحب نے فرمایا تکلیف کی کیا بات ہے اس کا ذکر کر کے آپ مجھے شرمندہ کرتی ہیں۔اس پر میں نے تھالی پاندان میں رکھ لی اور باتیں ہونے لگیں۔تہوڑی دیر میں اماں نے آواز دی کہ صاحبو ہم بھی آئیں کسی کا کچھ حرج تو نہ ہو گا۔ ہم سب ہنس پڑے اور ڈپٹی صاحب نے فرمایا۔ ضرور تشریف لائیے۔ آپ سے تو کام نکلے گا۔ہرج کی بھی ایک کہی۔ اس سے میں شرما گئی اور مرزا صاحب نے پھر ڈپٹی صاحب کو قہر کی نگاہ سے دیکھا اماں نے
ریختہ صفحہ 22
بیٹھتے ہی دونوں صاحبوں کا مزاج پوچھا اور تعارف چاہا، مرزا صاحب نے پیشقدمی کی اور ڈپٹی صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ آپ ہمارے محلہ کے ایک بڑے معزز رُکن ہیں۔ ڈپٹی صاحب کے منجھلے صاحبزادے ہیں اور خودعنقریب تحصیلدار ہو کر جانے والے ہیں۔ صادق علی صاحب آپ کا نام ہے اور اسم بامسمٰی ہیں۔ جھوٹ نہیں بولتے۔ ڈپٹی صاحب بیچ میں بولتے ہی تھے کہ "آپ کا حسنِ ظن ہے" کہ اماں نے انہیں ہنس کر روکا اور کہا صاحب اس کی سند نہیں۔ جب آپ کا نمبر آئے گا تو آپ بولئیے گا۔ پھر مرزا صاحب سے کہا کہ ماشااللہ آپ کا طرزِ بیان ایسا دلکش ہے کہ آپ کی تعریف کو بھی آپ ہی سے پوچھنے کو چاہتا ہے۔
مرزا صاحب: کیا میں اور کیا میری تعریف۔ ڈپٹی صاحب مجھ پر حد سے زیادہ عنایت کرتے ہیں۔ ساتھ کے کھیلے ہوئے ہیں۔
اماں: یہ تو ڈپٹی صاحب کی تعریف ہوئی۔
ڈپٹی صاحب: مجھ سے سنئیے، ہمارے مرزا صاحب طرفہ معجون ہیں۔ ان کے والد رہتک میں سر رشتہدار مال ہیں۔ انہیں انگریزی کی لیاقت ماشااللہ بہت اچھی ہے۔ مگر کچھ عرصہ سے فقیروں کی صحبت میں رہنے لگے ہیں۔ انگریزی سے نفرت ہو گئی ہے۔ اور نوکری کے نام سے چڑ ہے۔ دن رات وظیفہ وظائف سے شوق ہے۔مجھ پر ایسی ہی عنایت کرتے ہیں جو یہاں چلے آئے ورنہ کہاں یہ اور کہاں یہ باتیں۔
اماں: (مرزا صاحب سے مخاطب ہو کر) آپ ضرور کسی کے مرید بھی ہوںگے۔
مرزا صاحب : (گردن جھکا کر) جی ہاں مرید کیا بدنام کنندہ ء نکو نامے چند ہوں ایک بزرگ کا ہاتھ تو پکڑ لیا ہے۔
اماں: (بہت شوق سے، کیونکہ اماں کو بھی فقیروں سے بہت رغبت تھی) کون صاحب
ریختہ صفحہ 23
ہیں اور کس خاندان میں بیعت کرتے ہیں۔
مرزا ساحب: حضرت سیدن شاہ صاحب ان کا نام ہے۔ قاضی رحمت اللہ صاحب کے باغ میں رہتک میں مقیم ہیں۔ پچیس برس سے ایک ہی جگہ ہیں۔ یوں تو سب خاندانوں میں اجازت ہے مگر زیادہ تر چشتیہ نظامیہ میں بیعت کرتے ہیں۔
اماں : تو آپ قوالی سنتے ہوں گے،
مرزا صاحب: کچھ انکار بھی نہیں ہے۔
اماں نے غایت شوق میں استاد جی کی طرف دیکھ کر کہا کہ تعلیم تو آپ دے ہی چکے ہیں۔ ضرور تھک چکے ہونگے مگر میری خاطر سے ایک دو چیزیں قوالی کی گوا لیجئیے۔ صرف سارنگی کافی ہے۔
مرزا صاحب دو زانو ہو کر بیٹھ گئے اور میں نے یہ غزل شروع کی
ساقیا برخیز و دردہ جام را
خاک بر سر کن غم ایّام را
مرزا صاحب پر سکوت کی عجیب کیفیت تھی اور مجھے دیکھ دیکھ کر کچھ ہیبت سی اتی تھی۔ جب میں اس شعر پر پہنچی
؎گرچہ بدنامیست نزدِ عاقلاں
مانمی خواہیم ننگ و نام را
تو مرزا صاحب کی حالت متغیر ہونے لگی۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میری طرف نظر اٹھا کر "جزاک اللہ" کہا میں اس شعر کو بار بار پڑہتی جاتی تھی اور مرزا صاحب حالتِ وجد میں بے حال ہوئے جاتے تھے۔
ایک دفعہ میں نے ذرا کڑک کر دوسرا مصرعہ پڑھا تو اس پر مرزا صاحب کا یہ حال ہو گیا کہ میرے پاؤں پر سر رکھدیا۔ اور روتے روتے بے ہوش ہو گئے۔
ریختہ صفحہ 24
قریب تھا کہ میں ڈر کر گانا بند کر دوں مگر اماں نے ڈانٹا اور میں آہستہ آہستہ وہی شعر کہے گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد مرزا صاحب سنبھلے اور پاکٹ میں سے اپنی جیبی گھڑی نکال کر معہ زنجیر نہایت عجز سے میرے سامنے پیش کی۔ اماں اور ہم سب لوگ انکار کرنے لگے۔ مگر انہوں نے آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے بڑی منت سے کہا کہ اگر آپ اسے قبول نہ کریں گی تو میرا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔ میں نے گھڑی لی اور اماں کے اشارے سے کھڑے ہو کر سلام کیا۔ مرزا صاحب بیتابانہ کھڑے ہو گئے ۔ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔ ڈپٹی صاحب نے کہا کہ بھئی اب مجھے جانے دو۔ مجھ سے نہ بیٹھا جائے گا" اس پر ڈپٹی صاحب بھی اٹھے اور اماں کی التجا پر آنے کا وعدہ کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔
ان صاحبوں کے جانے کے بعد اماں اور استاد جی میں باتیں ہونے لگیں۔ استاد جی بولےکہ دیکھو سرکار مرزا صاحب کا دل کیسا نرم ہے۔ روتے روتے کیا حال ہو گیا تھا۔
اماں: استاد جی سب فقیروں کی جوتیوں کا سدقہ ہے۔ اگر ان یہی ذوق و شوق رہا تو اللہ نے چاہا ایک دن اپنی مراد کو پہنچ جائیں گے۔
میں: (بیچ میں بول کر) کس مراد کو پہونچ جائیں گے۔ اچھی اماں یہ اتنے روتے کیوں ہیں؟
اماں: بیٹی تو ابھی نادان ہے ان باتوں کو کیا جانے۔ یہ لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لئے ہی روتے ہیں۔
میں: اور مرید بھی اسی لئے ہوتے ہیں۔
اماں: بیٹی دنیا کا کوئی کام بھی ایسا ہے جو بے سیکھے آ جاتا ہے۔ اب گانے ہی کو دیکھ لو۔ استاد جی تم پر کتنی محنت کرتے ہیں، اسی طرح پیر خدا کا راستہ بتاتا ہے
ریختہ صفحہ 25
میں: تو ہم بھی کسی کے مرید ہوں گے۔ دیکھیں تو خدا کے رستہ میں کیا مزہ اتا ہے۔
استاد جی اماں کی طرف مخاطب ہو کر) دیکھا سرکار ہماری ننھی بھی کیسی باتیں کرتی ہے۔
(پھر مجھ سے) بیٹا ابھی تو گانے بجانے کا راستہ سیکھو اور ہاں ننھی جان دیکھیں یہ گھڑی کیسی ہے۔ استاد جی نے بڑی دیر تک گھڑی کو دیکھا اور زنجیر سمیت کوئی پچیس روپے کی آنکی۔ پھر بالکل خاطر جمع کرنے کے لئے نیچے جا گھڑی ساز کو دکھایا۔ اس نے دو تین روپے کم بتائے۔
جب استاد جی نے گھڑی اماں کو دی تو میں نے کہا بے چارے ذرا سی دیر میں اپنا اتنا نقصان کر گئے۔ اس سے تو دو چار روپے دیجاتے میرا ان کے لئے بڑا دل کڑہتا ہے۔ اس پر اماں نے کہا کڑہنے کی کیا بات ہے۔ اللہ انہیں اور دے گا۔ تم اسے اپنے پاس تبرک کے طور پر رکھو۔ پھر استاد جی سے کہا کہ ذرا ان ڈپٹی صاحب کا پتہ تو لگانا۔ ادمی اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ مرزا صاحب کے سبب سے دبے دبے رہے ورنہ ہیں بہت شوقین۔
استاد جی: سرکار میں نے انہیں ایک دن دُرگیا پاتر کے ہاں دیکھا تھا مگر کسی مسلمانی کے مکان پر آج تک نہیں دیکھا۔
اماں: استاد جی یہ پاتریں تو مسلمانوں کو منہ لگاتی نہیں۔ یونہی جا بیٹھتے ہوں گے۔ تمہارا بھتیجا اس کے ہاں ہے ذرا ٹوہ لگانا۔ ڈپٹی صاحب آدمی کام کے معلوم ہوتے ہیں۔
تھوڑی دیر کے بعد ہم لوگوں نے کھانا کھایا اور میں اندر جا کر اپنی مسہری پر لیٹ گئی۔ اماں اور استاد جی بھی باورچیخانہ کی طرف چلے گئے اول تو میں یکساں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 26
بیٹھے بیٹھے تھک گئی تھی۔ دوسرے یوں بھی دوپہر کو کسل ہو جاتا ہے۔ لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔ تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی کہ اماں کی اس آواز نے مجھے چونکا دیا " آئیے صاحب اندر کیوں نہیں آتے۔ یہ کسبی کامکان ہے اتنی تانک جھانک کی کیا ضرورت ہے۔" میں گھبرا کر آنکھیں ملتی ہوئی اٹھی کہ دیکھئیے اب کے کون صاحب ہیں۔ کہیں لالہ کا کوئی آدمی نہ ہو۔ مگر پھر خیال کیا کہ پیر کے تو ابھی کئی دن ہیں، دوپٹہ سنبھالتی ہوئی اور بالوں کو پرے کرتی ہوئی میں نے کوٹھری سے باہر قدم نکالا ہی تھا کہ میری نظر انھیں صاحب پر پڑی جنہیں شام کو باغ میں دیکھا تھا میرا دل باغ باغ ہو گیا اور بیساختہ زبان سے نکلا اوہو آپ تھے تشریف لائیے وہ بولے افسوس میں نے آپ کے آرام میں فرق ڈالا۔ میں بڑی دیر سے زینہ میں کھڑا ہوا تھا کہ کوئی ادہر سے آئے تو دریافت کروں۔
ہم دونوں دالان میں بیٹھ گئے۔ اماں نے باورچی خانہ میں سے اواز دی کہ ننھی جان کون صاحب ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو جانتی ہوں آپ مجھ سے کل باغ میں ملے تھے، رات کو ذکر کر تو رہی تھی۔
میں: آپ نے بڑی تکلیف فرمائی۔ آپ کا اسمِ شریف۔
وہ: خاکسار کو سید علی کہتے ہیں۔
میں: آپ میر صاحب ہیں؟ شام کو کس درد سے آپ وہ شعر پڑھ رہے تھے میں تو بھول بھی گئی۔ تکلیف نہ ہو تو ایک بار اسی طرح پڑھ دیجئیے۔
وہ : اسی طرح پڑہنے کی بھی ایک ہی کہی۔ وہ وقت کیا تھا۔ اصل میں وہ شعر مجھے پسند ہی بہت ہے۔ اکثر پڑھا کرتا ہوں
؎ وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں
ریختہ صفحہ 27
میں: کیسا مشکل شعر ہے کسی طرح مطلب سمجھ میں آتا ہی نہیں۔
میر صاحب:اس سے زیادہ آسان اور کیا ہو سکتا ہے۔ کون سا لفظ سمجھ میں نہیں آتا۔
میں: مسکرا کر۔۔۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون نہیں بھولتا۔
میر صاحب ہنس پڑے اور بولے آپ بھی غضب کی آدمی ہیں ۔ اتنی سی عمر میں ماشااللہ یہ ظرافت ہے۔
میں : میر صاحب ان باتوں سے تو کام نہ چلے گا، میرے حال پر اتنی مہربانی کی ہے تو یہ پردہ بھی اٹھا دیجئیے۔مکھے کل شام سے کئی دفعہ آپ کا اور اپ کی باتوں کا خیال آ چکا ہے۔ اس پر میر صاحب نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور یہ شعر پڑھا
؎
سرگزشت بلا کشاں نہ سنو
نہ سنو میری داستاں نہ سنو
پھر فرمایا کہ ننھی جان ابھی تمہاری عمر ان جھگڑوں کو سننے کے لائق نہیں ہے تمہیں ناحق رنج ہو گا۔ مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو۔
میں نے دیکھا کہ میر صاحب پر وحشت کا غلبہ ہونے لگا اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔اس لئے میں خاموش ہو گئی۔ پھر یکایک یہ خیال آیا کہ یہ ٹہرے وحشت زدہ، پھر نہ آئے تو یہ موقع بھی ہاتھ سے گیا۔ ذرا سی دیر میں میں نے کہا میر صاحب جو آپ نے فرمایا بجا اور درست ہے۔ واقعی مجھے ابھی ایسی باتیں سمجھنے کی تمیز نہیں ہے مگر رنج کرنے کی جو آپ کہتے ہیں تو مجھے اس سے رنج ہو گا کہ مجھے آپ نے ٹال دیا اور کچھ نہ بتایا۔ میں تو اس لئے پوچھتی تھی کہ اگر مجھ سے آپ کی کوئی خدمت ایسی ہو سکے جس سے آپ کے دل کا رنج دور ہو جائے تو میں دل و جان سے کوشش کروں۔
ریختہ صفحہ 28
میر صاحب نے میری باتوں کو بہت غور سے سنا بہت تعریف کی اور فرمایا ننھی جان خدا تمہیں خوش رکھے۔ عرصہ کے بعد آج تم ایسی ملی ہو کہ اتنی دل سے ہمدردی کی باتیں کرتی ہو ورنہ اپنے اور بیگانے سب مجھے ہی برا کہتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے آسیب ہو گیا کوئی کہتا ہے دل اُلٹ گیا۔ غرض جو جس کے منہ میں آتا ہے کہتا ہے۔ ایک میں ہوں اور سب کے طعن و تشن ۔ ہائے
؎
وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں
میر صاحب نے انکھوں پر رومال رکھ لیا اور ہچکی بندھ گئی وہ تو غنیمت یہ ہوا کہ اماں کی آنکھ لگ گئی تھی اور استاد جی بھی کہیں چلے گئے تھے، ورنہ ناحق میر صاحب کا تماشا بنتا ۔ مجھ سے نہ رہا گیا، میر صاحب کے بالکل پاس آ بیٹھی اور عرض کیا
میں: ماشا اللہ اتنے بڑے ہو کر آپ ایسی بے کسی سے روتے ہیں۔ پھر جھٹ سے اٹھ کر پانی لائی۔ میر صاحب نے ایک آدھ گھونٹ پیا۔ میں نے پان دیا اس سے ذرا طبیعت سنبھلی تو خود ہی فرمایاننھی جان دو تین برس سے میرا یہی حال ہے۔ جیسے کل شام کو تم اتفاق سے باغ میں مل گئی تھیں اسی طرح بسنت میں ایک تمہاری ہی عمر کی غضب کی نستعلیق تصویر نظر پڑ گئی تھی۔ میں ان دنوں میں پڑھتا اور انٹرینس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا پتہ لگا کر مکان پہنچا بڑیوں کے کٹڑے کے نکڑ پر رہتی تھیں۔ بڑی مہربانی سے پیش آئیں۔ان کی ماں یا بہن کوئی تھی نہین ایک بڈھے استاد جی تھے وہ بیچارے بھی بڑی محبت سے پیش آتے تھے اس وقت تک ان کی ناک میں بھی تمہاری طرح ناتجربہ کاری کی نشانی تھی، دو تین ہی دفعہ کے ملنے کے بعد ہم دونوں میں ایسی
ریختہ صفحہ 29
محبت ہو گئی کہ ادہر میرا پڑہنا چھوٹ گیا ۔ ادہر انہیں بھی گانے بجانے کا خیال نہ رہا۔ گھنٹوں ہم دونوں اکیلے بیٹھے ہوئے باتیں کیا کرتے تھے۔
خورشید کو (اوہو میں نے نام بھی لے دیا۔ توبہ) لکھنے پڑہنے کا بھی شوق تھا۔ میری وجہ سے اس میں ترقی ہوئی۔کوئی دو تین مہینہ میں اچھی طرح پڑہنے لگی اور خط بھی سنور گیا۔ استاد جی نے ہماری اس قدر محبت دیکھ کر اُلٹی سیدھی فرمائشیں کرنی شروع کر دیں۔ جب تک ہم سے ہو سکا پوری کیں۔ پھر روپوشی کی فکر کی۔خورشید کو اس کا سخت ملال ہوا۔ دو ایک دفعہ استاد جی سے لڑی بھی۔ مگر وہ کب مانتے تھے۔دو تین مہینےمیں ایک مہاجنن کے لڑکے کو سانٹھ کر اور فکر کی۔اور ہم سے کہا کہ اگر آپ کا ارادہ یہ ہو تو فیہا ورنہ ہم سے پھر شکایت نہ ہو۔ ننھی جان ہماری وہی کیفیت تھی۔
؎
نے تاب وصل دارم نے طاقت جدائی
نہ اس قابل کہ اس رسم کے کل اخراجات اٹھائیں بلکہ اصل میں یہ شوق بھی نہ تھا ہم تو کچھ اور ہی ڈھونڈہتے تھے اور نہ یہ دیکھا گیا کہ کسی اور کی بغل ہو اور خورشید سی پری۔ کئی دن اسی ادہیڑ بن میں رہا۔ کھانا پینا کم ہو گیا۔ گھر میں سب شبہ کرنے لگے۔ آخر ہمیں یہ بن پڑی کہ بمبئی بھاگ گئے۔کہ نہ یہاں ہوں گے نہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
میں: خبر نہیں کہ خورشید کا آپ کے جانے کے بعد کیا حال ہوا ہو گا۔ آپ فرماتے ہیں دونوں کو محبت تھی۔کہیں یہ وہی خورشید تو نہیں ہےجو اب سیتا رام کے بازار میں حلوائی کے اوپر والے کوٹھے پر رہتی ہے۔
میر صاحب: ہائے ننھی جان یہ وہی خورشید ہے۔ اللہ کی قدرت اب ہماری صورت سے بیزار ہے۔ان کے پیچھے ہمارا پڑہنا ستیا ناس ہوا۔ والد والدہ
ریختہ صفحہ 30
اور سب عزیز و اقارب ناراض ہوئے۔خبر نہیں کیا کیا بے عزتی ہوئی۔ اور اب وہی خورشید ہیں کہ کوئی ذکر کر دیتا ہے تو بیسیوں بُری بھلی باتیں کہتی ہیں۔ مگر ننھی جان میرے دل میں اس ظالم کی اب تک قدر ہے۔ پہلی سی بات تو نہیں مگر تیسرے چوتھے روز جب جی گھبراتا ہے تو باغ چلا جاتا ہوں۔اور رو دھو کر دل ہلکا کر لیتا ہوں۔ خبر نہیں تم کل کیوں مل گئی تھیں، میرا دل کہتا ہے کہ تم سے ضرور کچھ راحت ملے گی۔ ننھی جان تم تو ایسا ظلم نہیں کرتیں۔
میں: میر صاحب مجھے آُ کی سرگزشت سن کر بڑا افسوس ہوا۔ میں جانتی ہوں خورشید جی کے استاد بڑے بنے ہوئے ہیں۔ ساری انھیں کی شرارت معلوم ہوتی ہے۔آپ بلا تکلف غریب خانہ پر جب جی چاہے تشریف لے آیا کیجئے، ان شا اللہ میں کوئی بات آپ کے خلافِ مزاج نہ کروں گی۔بلکہ اگر آپ فرمائیں گے تو کسی نہ کسی طرح آپ کا اور خورشید کا ملاپ کرا دوں گی۔
میر صاحب: (گھبرا کر) خدا کے لئے کہیں ایسا نہ کیجئے گا جب تک وہ مردود زندہ ہے میں آپ کوسوں بھاگتا ہوں۔
میں: میر صاحب آپ مچنے خاں سے اتنا نہ ڈرئیے۔ میں خورشید کو اس طرح سمجھا دوں گی کہ سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے۔ کبھی کبھی آپ مل لیا کریں گے اور استاد جی بھی کچھ نہ کہہ سکیں گے۔
میر صاحب میری ہمدردی سے بہت خوش ہوئے اور بولے اگر تم خورشید کا دل میری طرف سے صاف کر دو اور ایسا ہو جائے کہ بلا استاد جی کی اطلاع اور روک ٹوک کے میں کبھی دسویں پندرھویں دن ان سے مل لیا کروں تو تمام عمر تمہارا احسان نہ بھولوں گا۔
یہ بھی فرمایا کہ ننھی جان تم ابھی کم عمر ہو۔ محبت کے راستے میں جو تکلیفیں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 31
ہوتی ہیں انہیں نہیں جانتیں۔ صرف اپنی نیک نیتی کے سبب مجھ سے اس قدر ہمدردی کرتی ہو۔ اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ مجھ پر کیا مصیبت گزری اور گزرتی ہے تو خبر نہیں تمہارے دل کا کیا حال ہو۔
میں: میر صاحب مجھے واقعی آپ سے ہمدردی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں۔ مگر خواہی نہ خواہی دل چاہتا ہے کہ آپ کا حال ا چھی طرح سنوں۔ اگر آپ کا حرج نہ ہو تو مفصل طور سے فرمائیے میری خوش نصیبی سے اس وقت یہاں اور کوئی نہیں ہے ورنہ اماں یا ستاد جی کوئی نہ کوئی ضرور میرے پاس ہوتا ہے۔
میر صاحب: تو بھلا میں تم سے اپنا حال کیونکر چھپا سکتا ہوں ۔ مگر ایک شرط ہے کہ قسم کھاؤ کہ کبھی کسی حال میں کسی سے اس کا ذکر نہ کروں گی۔
میں نے میر صاحب کو ہر طرح کا اطمینان دلایا تو اس طرح گویا ہوئے
جس دن میں نے پہلے پہل خورشید کو بھولو شاہ کے بسنت میں دیکھا تھا اس دن اس پر عجب بہار تھی۔ نہر کے پُل سے ملا ہوا اس کا تانگہ کھڑا تھا۔آگے پیچھے اور سب بڑھیا ہی بڑھیا طوائفوں کی سواریاں تھیں۔ خورشید کا میدا اور شہاب رنگ رسیلی آنکھیں۔ سیاہ بال ۔ سرخ نازک ہونٹ۔ بسنتی دوپٹہ اور سب سے غضب کمر پر ہاتھ رکھ کر ناز سے پاؤں پر پاؤں دہرے ہوئے بیٹھنا میرے دل میں کھب گیا۔خورشید کی پیاری نتھنی، کانوں کی بالیاں، خوبصورت جھومر، پھولوں کا کنٹھا اور دوپٹے میں سے دور کی جھلک مجھ سے نہ دیکھی گئی۔ ہلکے گلابی رنگ کا تنگ پاجامہ جس میں بھری ہوئی پنڈلیاں اپنی آن بان دکھا رہی تھیں۔ مہین چوڑیاں، سیاہ مخملی سلمے کی سلیم شاہی جوتی، دوپٹہ کا آنچل تانگہ سے لٹکتا ہوا۔ یہ سب چیزیں میرے دل پر تیر چلانے لگیں۔ میں لاہوری دروازے
ریختہ صفحہ 32
کی سڑک سے آیا تھا اور اتفاق سے اکیلا تھا۔ جونہی پل پر پہنچا اللہ کی قدرت نظر پڑی قریب تھا کہ کلیجہ تھام کر بیٹھ جاؤں یا چیخ مار کر بیہوش ہو جاؤں کہ خورشید کی نظر مجھ پر پڑی۔ ہائے ان پیاری آنکھوں سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ڈانٹ کر کہتی ہیں کہ سنبھلو ابھی تو ابتدا ہےآگے آگے خبر نہیں اور کیا کیا دیکھنا ہے۔ میں تانگے کے ایک طرف ہو کر چلا تو گیا مگر دل کا عجیب حال تھا کس کی بسنت اور کس کی سیر۔ایک درخت کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا۔ اور دل کے آنسوؤں سے رونے لگا۔ جی چاہتا تھا کہ خورشید کے تانگے کے بیسوں چکر کروں مگر یہ ڈر تھا کہ کوئی دیکھ لے گا تو کیا کہے گا۔ پھر بھی ایسی جگہ کھڑا ہوا کہ خورشید کا چاند سا چہرہ صاف دکھائی دیتا تھا۔ سورچ رہا تھا کہ یا اللہ یہ کون پری پیکر ہے کیا نام ہے کہاں رہتی ہےاس سے کیونکر ملنا ہو کیا کرنا چاہئیے کہ میلا اکھڑنے لگا اور بھیڑ میں تلاطم شروع ہوا۔
میں نے کہا جو کچھ ہو سو ہو ایک دفعہ اور پاس سے دیکھ لوں تانگے کے قریب بڑھا۔ خورشید کے آگے جو بی صاحبہ فٹن میں تھیں انہوں نے مڑ کر کہا خورشید چلتی نہیں، شام ہو گئی۔ میں نے اللہ کا شکر کیا کہ نام تو معلوم ہو گیا۔ خورشید نے جواب تو دیدیا کہ اچھا چلو۔ مگر ادہر اُدہر دیکھتی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی آنکھیں کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں۔
میں: ( بیچ میں بولکر) اوہو اس پر بھی اتنا اثر ہو گیا تھا۔
میر صاحب: ہاں اثر کہہ لیجئے خواہ خدا کا فضل کہئیے مگر جونہی میں سامنے سے آتا نظر پڑا ۔ خورشید کا توحش جاتا رہا اور نظر نیچی کر لی۔اتنے میں بالکل پاس پہنچ گیا۔ جو کیفیت میں نے اس وقت دیکھی میرا ہی جی جانتا ہے۔ جو لچکے اس کے لطیف سینہ نے ٹھنڈے سانس بھرنے میں کھائےاس سے میرے دل میں یہ
ریختہ صفحہ 33
بات نقش ہو گئی کہ ضرور اس کے دل میں بھی میرا خیال ہے۔ ہم اس تماشے میں محو تھے کہ گاڑی آگے مُڑی اورخورشید کے رتھ بان نے پوچھا سرکار سیدھی گھر ہی چلیں گی نا؟ استاد جی جو اب خورشید کے ایک طرف آن بیٹھے تھے بولے ہاں سیدھے چاوڑی۔ اس نئی معلومات سے تو گویا ہمیں جاگیر مل گئی۔ نام معلوم ہو گیا، پتہ معلوم ہو گیا۔ اور کیا چاہئیے، ہم ٹھٹھک گئے۔ گاڑی کے پیچھے پیچھے تانگہ بھی چلا۔ مگر میں نے دیکھا کہ کئی دفعہ خورشید نے مُڑ مُڑ کر دیکھا اس سے مجھے بڑی ہمت بندھی اور میں نے دل میں کہا ضرور اس کے مکان پر چلنا چاہئیے۔
میر صاحب صرف اسی قدر کہنے پائے تھے اور میں خوب دل لگا کر سن رہی تھی کہ استاد جی آ دھمکے۔ ہمارا مزہ بالکل کرکرا ہو گیا۔ میر صاحب کھسیانے ہونے لگے مگر میں کیا کر سکتی تھی۔
استاد جی: اللہ کی امان! آہا حضور ہیں؟
میر صاحب: خان صاحب مزاج اچھی طرح؟
استاد جی: خدا کا شکرہے اچھا ہوں۔
استاد جی: کل وہ شعر حضور خوب سُر تال سے گا رہے تھے، ضرور کسی استاد سے آپ نے حاصل کیا ہے۔
میر صاحب:واہ استاد جی حاصل کرنا بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔ مجھے تو اب تک اس کا ارمان ہے کہ کوئی شخص کچھ بتا دے۔ کئی برس ہوئے بنوخاں سے کچھ شروع کیا تھا مگر پھر میں ایسے جھگڑوں میں پڑ گیا کہ کچھ بھی نہ ہو سکا۔
استاد جی: حضور گانا بجانا لوہے کے چنے ہیں۔ بڑا پتّہ چاہئیے، مگر ماشا اللہ حضور کو تو اچھی واقفیت معلوم ہوتی ہے۔ گلا بھی اچھاہے اور کیا چاہئیے۔
میر صاحب:خانصاحب یہ آپ کی عنایت ہے جو اس طرح فرماتے ہیں
ریختہ صفحہ34
مجھے زیادہ تر اپنے گلے سے ہی نفرت ہے اور اسی سبب سے کچھ سیکھنے کو جی نہیں چاہتا اس کا کچھ بندوبست ہو جائے تو میں ضرور پھر محنت کروں۔
جب میر صاحب نے یہ فرمایا تو دفعتاً مجھے خیال آیا کہ ادہر یہ گانا سیکھنے کے شائق معلوم ہوتے ہیں اور ادہر میرا پڑھنا لکھنا ادھورا رہ گیا ہے کیا اچھا ہو جو میر صاحب اس بات پر راضی ہو جائیں کہ استاد جی انہیں بتا دیا کریں اور وہ مجھے تھوڑی دیر پڑھا دیا کریں اور اصلاح دیدیا کریں۔ میں فوراً بولی۔
میں: ہمارے استاد جی اس وقت لاجواب آدمی ہیں۔ اور اکثر شریفوں کو بتایا ہے۔ اگر آپ انہیں راضی کر لیں گے تو انشا اللہ مہینے دو مہینے میں کہیں سے کہیں پہنچا دیں گے۔
میر صاحب: تو آپ ہی سفارش کر دیجئیے نا؟
میں: اورآپ سے میری سفارش کون کرے؟
میر صاحب: (تعجب سے) آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟
میں: (منت سے) جو مجھے نہیں آتا اور آپ کو آتا ہے، میر صاحب میرا خط بہت کچا ہے اور صاف صاف پڑھ بھی نہیں سکتی اگر آپ اتنی مہربانی فرمائیں کہ ایک آدھ گھنٹے مجھے پڑھا دیا کریں اور اصلاح دیدیا کریں تو تمام عمر آپ کا احسان نہ بھولوں گی۔
استاد جی: ننھی جان تم بڑی چوکھی رہیں۔ تمہیں پڑہنے لکھنے کا فائدہ ہو گا مگر ہم کس امید پر محنت کریں۔
میں: استاد جی!میرا اور آپ کا فائدہ ایک ہے۔ آپ نے اچھا خیال کیا، اگر یہ کافی نہیں ہے تو میر صاحب شریف آدمی ہیں ضرور قدردانی کریں گے
ریختہ صفحہ 35
میر صاحب: خانصاحب انشا اللہ آپ کو مجھ سے شکایت نہ ہو گی۔ فرمائیے کب سے شروع کرائیے گا۔
میں: (بیچ میں بول کر) جب سے آپ مجھے پڑھانا شروع کیجئے گا۔
میر صاحب ہنس دئیے اور تھوڑے پس و پیش کے بعد صبح کا وقت مقرر کر دیا۔ادہر استاد جی انہیں تیسرے پہر بتانے پر راضی ہو گئے۔میڑ صاحب کے مکان کا پتہ پوچھ لیااور دعوے سے کہا کہ اللہ کو منظور ہے تو ایک مہینہ بھر میں میں آپ خود مزہ لینے لگیں گے۔ مگر حضور آپ کو قاعدے کے مطابق شاگرد ہونا پڑے گا۔
میر صاحب:بھلا خاں صاحب مجھے کیا عذر ہوسکتا ہے۔ بغیر استادی شاگردی کے کوئی کام بھی آتا ہے۔
خان صاحب: اللہ حضور کو سلامت رکھے سمجھداروں کو دور بلا، اچھا حضور میں کل تیسرے پہر کو آؤں گا۔ آپ کے پاس ستار ہے؟
میر صاحب: ہاں ہے تو اور ایک چھوٹا سا طنبورا بھی ہے۔ کبھی اس پر آ آ کر لیتا ہوں۔
خانصاحب : بس پھر تو کام بنا بنایا ہے۔ اچھا حضور اب میں رخصت ہوتا ہوں۔ (اُٹھ کر) آداب عرض
اُستاد جی کے چلے جانے پر میں نے دل میں خدا کا شکر ادا کیا ، اور میر صاحب سے کہا کہ دیکھئے ہماری باتوں میں کیاخلل آیا ہےوہ بیچارے بھی افسوس کرنے لگے مگر اس بات سے خوش معلوم ہوتے تھے کہ ان کا گانا سیکھنے کا انتظام ہو گیا۔ میں نے پھر چھیڑا کہ ہاں میر صاحب پھر کیا ہوا۔ مگر وہ ٹال گئے اور فرمانے لگے کہ اب ظہر کا وقت ہو گیا ہے میں جاتا ہوں۔ پھر انشا اللہ کبھی ذکر کروں گا۔
میر صاحب اٹھنے لگے تو میں نے پوچھا کہ مجھے پڑھانا کب شروع کیجئے گا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 36
حساب کیا تو وہ دن ہفتہ کا تھا ۔ دوسرے دن اتوار کو انھیں کچھ کام تھا اور پیر سے چار پانچ روز کے واسطے مجھے برات میں جانا تھا۔ میر صاحب نے فرمایا اگلے ہفتہ کو انشا اللہ آٹھ نو بجے صبح حاضر ہوں گا۔ تم اپنی تختی ٹھیک کر رکھنا ۔ اس کے بعد میر صاحب رخصت ہوئے۔
میر صاحب کے تشریف لے جانے کے بعد میں پھر اندر جانے کو لیٹ گئی۔اور خیال کرنا شروع کیا کہ ان بیچاروں نے خورشید کے سبب کیسی تکلیف اٹھائی اور خورشید کو خیال بھی نہیں۔ ان کے شریف ہونے میں کلام نہیں صورت شکل کے بھی خاصے ہیں۔ لینا دینا بھی ضرور اپنی بساط کے مطابق خاصا کیا ہو گا، پھر کیوں خورشید نے ان کے ساتھ ایسی بے التفاتی کی۔ یہ باتیں میرے دل میں پھر رہی تھیں کی یکایک مجھے خیال آیا کہ اگر خورشید نے دیدہ و دانستہ انھیں ستایا ہے تو کیا اس پر خدا کا غضب نازل نہیں ہو گا۔ میں ڈر گئی اور دل میں خدا سے عہد کیا کہ میں کسی کو تکلیف نہ دونگی۔ خصوصاً نواب صاحب کو کبھی شکایت کا موقعہ نہ دونگی، خواہ اس میں اماں اور استاد جی کتنا ہی برا مانیں۔ ان کا کیا جائے گا ، وہ تو اپنے فائدے کے لئے مجھے سب کچھ بتائیں گے۔ مگر خدا کا قہر تو میری جان پر پڑے گا۔ اس ارادے کو دل میں جگہ دینے سے مجھے ایسا معلوم ہونے لگا کہ مجھ میں اتنی قوت ہے کہ اگر اماں اور استاد جی مجھے نواب کے ستانے پر مجبور کرنا چاہیں بھی تو ان کا مجھ پر کچھ بس نہ چلے گا۔ میں مسہری پر سے اٹھی، پان کھایا اور نواب صاحب کے آنے کی منتظر ہو کر دالان میں بیٹھ گئی۔ اس وقت تین بجے تھے اور ایسے ہی وقت کل بھی وہ آئے تھے، اس سے مجھے یقین تھا کہ آج بھی ضرور آئیں گے۔ اماں اور استاد باورچی خانہ کی طرف تھےاور کچھ کانا پھوسی ہو رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں اماں جان نے دالان میں آ کر کہا کہ کیسی سر جھاڑ منہ پہاڑ بیٹھی ہے۔نواب صاحب آتے
ریختہ صفحہ 37
ہونگے، کپڑے بدل لے۔میں اٹھی منہ ہاتھ دھویا، کنگھی چوٹی کی، سردئی جوڑا جو اماں نے نکال دیا تھا پہنا اور زیور میں بھی زیادتی کی۔ اماں کے اشارے سے استاد جی اُٹھ کر باہر چلے گئے اور میں اور اماں دالان میں اکیلی رہ گئیں۔
اماں: ننھی اج نواب سے کہیو کہ آپ نے جو کھانا بھیجا تھا وہ ہر چند بہت لذیذ تھا۔ مگر یہ جی چاہتا ہے کہ آپ بھی ساتھ کھاتے ہوتے۔ خیر کل تو یہ نہ ہو سکا ۔ اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو آج شب کو جو یہیں دال دلیہ ہمیں میسّر ہو نوش فرمائیے گا۔دوسری بات مجھے یہ کہنی ہے کہ میں نے استاد جی کو سمجھا دیا ہے وہ نواب صاحب کے آنے کے بعد رحمت علی کو بھیج دیں گے۔ چھ سات طرح کا عطر دو دو تین تین تولہ پسند کر لیجیو، اور نواب صاحب کو دکھاتی جائیو جس سے وہ یہ سمجھیں کہ جو عطر میں پسند کرتا ہوں وہی یہ بھی کرتی ہے۔ جب یہ ہو جائے تو نواب صاحب سے کہیو کہ میں تو جب عطر لیتی ہوں، جب آپ بھی اتنا ہی اور اتنی قسم کا عطر اپنے پاس رکھیں، بلکہ یوں کیجیو کہ رحمت سے کہیئو کہ میں پھر لے لونگی آج تم یہ عطر نواب صاحب کے مکان پر پہنچا دو۔ میں جاتی ہوں اور سر میں درد کا بہانہ کر کے باورچی خانہ میں لیٹتی ہوں۔آج میں دالان میں بالکل نہ آؤں گی۔ اماں کا اٹھ کر جانا اور نواب صاحب کا آنا، میں اماں کی باتوں پر غور کرنے بھی نہ پائی تھی کہ نواب صاحب دالان میں موجود تھے۔ آج نوکر بھی ساتھ نہ تھا۔ بے تکلف چلے آئے میں اُٹھ کھڑی ہوئی، انہیں صدر میں بٹھایا، اور سر سے پاؤں تک ان کی زیبائش کو دیکھا۔ نواب صاحب اپنے تئیں خوب چھیل چھال کر آئے تھے اور لباس میں کل سے زیادہ تکلف تھا۔
مزاج پرسی وغیرہ کے بعد پوچھا آج تمہاری اماں کہاں ہیں، میں کہا ان کا جی ماندہ ہے لیٹی ہیں، اور استاد جی بھی کہیں گئے ہوئے ہیں۔
ریختہ صفحہ 38
نواب صاحب: اس کا تو افسوس ہے کہ ان کی طبیعت خراب ہے، مگر اس کی خوشی ہے کہ آپ سے تھوڑی دیر تخلیہ رہے گا۔
میں: کل شام کو ہوا خوری کے لئے گئی تھی مگر آپ کہیں نہیں ملے۔
نواب صاحب: کل میرے ایک دوست آ گئے تھے۔
میں: اے لو میں کھانے کا شکریہ عرض کرنا تو بھول ہی گئی، نواب صاحب کس کس چیز کی تعریف کروں، آپ نے بڑی تکلیف کی۔
نواب صاحب: ( خوش ہو کر) ننھی جان مجھے کیوں شرمندہ کرتی ہو، تمہارے قابل وہ کھانا کہاں تھا۔
میں: (نیچی نظر کر کے) اور تو سب باتیں اچھی تھیں مگر ایک کسر تھی
نواب صاحب: (چونک کر) خدا کے واسطے بتاؤ۔
میں: ( اور شرما کر) یہ جی چاہتا تھا کہ آپ بھی دسترخوان پر ساتھ ہوتے۔
نواب صاحب: (حد سے زیادہ خوش ہو کر)ننھی جان یہ کون بڑی بات ہے، ہائے تمہارا اس قدر شرما کر کہنا مجھے مارے ڈالتا ہے۔ پیاری ( میرے ماتھے کو ہاتھ لگا کر) ذرا منہ اونچا کرو تمہارا شیدا نواب ایک نظر دیکھ تو لے۔
میں: اچھا آج شب کو یہیں کھانا کھائیے گا۔ میرا جی تو جب خوش ہو گا۔
نواب صاحب: (منت سے) ننھی جان مجھے بالکل عذر نہ تھا مگر میں تو آج اور سامان لے کر آیا ہوں۔ میری نیت تو آج تمہیں تکلیف دینے کی ہے۔ ننھی جان آج میرے ہاں تمہارا مجرا ہے اگر تمہیں کہیں جانا نہ ہو تو شام سے ہی آ جاؤ۔ کھانا بھی وہیں کھا لینا۔
میں: واہ میں تو چاہتی تھی کہ آپ میرے ہاں کھانا کھائیں، مجرے کے لئے آپ استاد جی سے کہئیے گا وہ آتے ہونگے۔ مجھے کہیں نہیں جانا ہے اور ہوتا
ریختہ صفحہ39
بھی تو آپ کا فرمانا ایسا ہے کہ ٹال دیا جائے۔
نواب صاحب: (ذرا میری طرف سرک کر) ننھی جان ! پھر کوئی آ جائے گا تو میں منہ دیکھتا رہ جاؤں گا۔ اس وقت کو غنیمت سمجھنا چاہئیے۔ مجھے تم سے ایک بات پوچھنی ہے۔ اگر ایمان ایمان سے بتا دو ، چاہے یوں کرو کہ پہلے میں اپنے دل کا حال کہدوں پھر تم سچ مچ اپنی کیفیت بتا دینا۔
میں: نواب صاحب میں دل سے سنوں گی۔ آپ فرمائیے۔
نواب صاحب: یہاں تک تو صاف ہی ہے کہ مجھے تمہارا خیال نہ ہوتا تو آتا کیوں۔ کل تمہاری بھولی بھالی صورت، لباس کی سادگی، حسن خداداد اور سب سے زیادہ تمہاری جادو نگاہ آنکھوں نے مجھ پر اپنا اثر کر دیا، وہ تو گھر پہنچتے ہی مہمان صاحب کی خاطرداری میں خیال کسی قدر بٹ گیا۔ ورنہ قطعی ساری رات روتے کٹتی۔ دس بجے کی گاڑی میں وہ گئے ہیں تو اسی وقت آتا مگر تمہارے آرام کا خیال تھا۔
میں: آپ نے میرا بھلا خیال کیا۔ میری قسمت میں آرام کہاں لکھا ہے۔
نواب صاحب کے اس فقرے کے ساتھ ٹھنڈا سانس مجھ سے روکے بھی نہ رُکا۔ نواب متحیّر ہو گئے اور بے تاب ہو کر بولے، ہیں ننھی جان کیا کہتی ہو تمہیں ابھی کیا فکر ہے خدانخواستہ۔
میں: (ذرا سنبھلکر) نہیں کچھ نہیں، خبر نہیں میں کیا کہتی تھی۔
نواب صاحب: میں تو نہ مانوں گا۔ ننھی جان، میری پیاری ننھی خدا کے واسطے اپنے دل کا حال بیان کرو، کیوں مجھ پر اتنا ظلم کرتی ہو، کیا میں کسی سے کہہ دونگا۔
نواب کی منّت سماجت سے میرا دل بے تکلف ہو گیا، استاد جی کی نصیحت بالکل بھول گئی اور نظر نیچی کر کے کہا
میں: نواب صاحب ! تم کل مجھ پر جادو کر گئے۔ شام کو اسی لئے سوار ہوئی تھی کہ
ریختہ صفحہ 40
کہیں تم مل جاؤ۔ رات کو تم نے اور ستم کیا کہ کھانا بھیجدیا۔اب بھی اس وقت آئے ہو تو کہتے ہو تیرے آرام کا خیال تھا جو دوپہر کو نہیں آیا۔
یہ الفاظ میں نے بڑے رک رک کر بڑی مشکل سے ادا کئے کیونکہ اس سے پہلے مجھے کسی سے محبت کا اظہار کرنے کی نوبت نہ آئی تھی۔ میرے ہاتھ پاؤں بالکل بے قابو ہونے لگے ہیں، اور جی چاہنے لگا کہ نواب جھک کر مجھے گلے لگا لیں اور میں ان سے مل کر رونے لگوں۔
نواب صاحب کو خبر نہیں میرے دل کا حال کیونکر معلوم ہو گیا، نہایت نرمی سے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر پیار کیا اور کہا ننھی جان مجھے اس سے زیادہ خوشی اور کیا ہو سکتی ہے کہ تمہیں بھی مجھ سے محبت ہے۔ ننھی جان للہ اتنی دور نہ بیٹھو۔ اب مجھ سے یہ جدائی نہ برداشت ہو گی۔پھر مجھے گلے لگا کر" یا اللہ تمہارے بالوں کی خوشبو کیسی اچھی معلوم ہوتی ہے، مجھے تو نشہ ہوا جاتا ہے۔ میں جھکی تو میرا ماتھا ان کے سینے سے جا لگا، ان کے دل کا دھڑ دھڑ کرنا، جیب گھڑی کی کھٹ کھٹ، حنائی عنبری میں بسی ہوئی صدری کی مہک میرے دل پر غضب ڈھانے لگی۔ دنیا اور مافیہا کو بھول گئی۔ نواب نے جھک کر میرے ایک طرف کے رخسار کا بوسہ ہلکے سے لیا۔اس نے مجھے بالکل بے چین کر دیا۔ اور میں نے بھی شرم سےپسینہ پسینہ ہو کر اتنی زیادتی کی کہ نواب کے ہونٹوں کا پیار بڑی گھبراہٹ میں اچٹتا ہوا لے لیا۔ ہم دونوں پر وجد کی سی حالت طاری تھی۔ اور بالکل محو تھے کہ زینہ میں پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی۔ میں جھٹ علیٰحدہ ہو کر بیٹھ گئی۔ نواب بھی تکیہ سے لگ کر ہو بیٹھے۔
اماں نے باورچی خانہ میں سے آواز دی ، کون؟ جواب ملا میں تھا رحمت۔ ننھی جان کے لئے دو چار عطر لایا ہوں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 41
اماں: اے یہ بھی کوئی آنے کا وقت ہے۔ میری ابھی آنکھ لگی تھی۔ اچھا جاؤ دالان چلے جاؤ۔ مجھ سے نہیں اٹھا جاتا۔
رحمت علی نے دالان میں آ کر نواب صاحب کو جھک کر سلام کیا، بیٹھ کر صندوقچہ کھولا اور عطر نکالنا شروع کیا، اماں کا کہنا مجھے سب کچھ یاد تھا مگر نواب صاحب سے گلے ملنے کا سرور کچھ ایسا چھا گیا تھا کہ مجھے معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ رحمت عطر دکھا رہا ہے۔ جب بے پرواہی سے دو تین طرح کا عطر دیکھ چکی اور نواب بھی میری ہی طرح سونگھ سونگھ کر رکھنے لگے تو رحمت کو تعجب آنے لگا۔ اس نے مان نہ مان میں تیرا مہمان حنائے عنبری بڑی شد و مد سے نواب کو دکھائی۔اور کہا کہ حضور اس کو ضرور پسند کریں گے۔ نواب نے اپنی محبت بھری آنکھوں سے جن کا نشہ ابھی جوں کا توں تھا، میری طرف دیکھا، میرا دل ان کی طرف کھینچنے لگا اور قریب تھا کہ میں رحمت کا دالان میں ہونا بھول کر پھر نواب کی آغوش میں جا رہوں کہ استاد جی کے بے تمیزی سے آ جانے ، اور زور سے سلام کا گراب مارنے نے میرا نشہ ہرن کر دیا۔
استاد جی: اوہو میاں رحمت علی بیٹھے ہیں۔ پھر نواب کی طرف مخاطب ہو کر حضور میر صاحب میں لاکھ روپے کی بات یہ ہے کہ جب تازہ مال آتا ہے تو پہلے ننھی جان کو دکھا لیتے ہیں۔ پھر کہیں اور دکھاتے ہیں۔ پھر میر صاحب نے نواب صاحب کو بھی دکھایا۔ حنائے عنبری اچھی ہے۔
میں: سب تازے ہیں۔ مگر دل یہ کہتا تھا کہ سارا بھانڈا پھوڑ دوں اور نواب صاحب سے رتی رتی حال کہدوں۔
استاد جی: ننھی جان تم نے کون کون سے عطر پسند کئے۔
ریختہ صفحہ 42
میں: آج اپنی پسند سے نہ لوں گی آج تو۔۔۔۔۔
استاد جی: (میرے منہ سے بات چھین کر) نواب صاحب کی پسند کے عطر لو گی۔ میں نے بہتیرا چاہا کہ جس طرح اماں نے مجھے پڑھایا تھا اُسی طرح کاروائی کروں مگر دل کے آگے ایک نہ چلی۔ گھبرا کر بولی کہ نواب صاحب کو کاہے کو پسند آنے لگے۔ آپ تو لکھنئو سے منگاتے ہونگے۔نواب صاحب بیساختہ بولےکہ ننھی جان اگر تم بتا دو کہ تمہیں کون کون سے عطر پسند ہیں تو میں کل ہی اصغر علی کو لکھ دوں۔ پھر میر صاحب کی طرف مخاطب ہو کر۔
میر صاحب بُرا نہ مانئیے گا۔، میں ذرا خر دماغ ہوں مجھے تو آپ کے عطر کچھ جچے نہیں۔
اس پر میں نے یہ غضب کیا کہ بیساختہ بول اٹھی کہ نواب صاحب آپ فرماتے تو ٹھیک ہیں۔ پھر جو خیال آیا کہ اماں اور استاد جی خفا ہونگے تو بات بنائی کہ شاید میر صاحب بے خیالی میں بدل گئے ہیں۔ کل اچھے والے عطر لائیں گے۔ مگر بات کہیں بنتی تھی۔
استاد جی میری طرف قہر کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ رحمت علی نے چیں بچیں ہو کر صندوقچہ باندھنا شروع کیا ۔ میں نے خفت سے سر نیچا کر لیا اور نواب حیرت میں رہ گئے۔ ادہر رحمت علی سلام کر کے اٹھا ۔ ادہر استاد جی نے اماں کو آواز دی کہ سرکار آج تم یونہی سر منہ لپیٹےپڑی رہو گی۔ دیکھو تو نواب صاحب تشریف رکھتے ہیں۔ اماں نے بے دلی سے جواب دیا۔ کیونکہ وہ سب کچھ سن رہی تھیں۔ کہ آج میرا جی ماندہ ہے مجھے تو معاف ہی رکھو۔
استاد جی: واہ ادہر آؤ، تم نے بھی حد کی، سر میں درد نہ ہوا کہ آفت آ گئی۔
اماں منہ بنائے ہوئے اور نظروں ہی نظروں میں مجھے کھاتی ہوئی دالان میں آئیں
ریختہ صفحہ 43
نواب صاحب نے بڑے تپاک سے مزاج پوچھا۔ مگر اماں نے کچھ اچھی طرح جواب نہ دیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ بُری طرح جواب دے رہی ہیں۔ میری عجب کیفیت تھی۔ اماں کی خفگی کا خیال ایسا غالب آ گیا تھا کہ میرے منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔ استاد جی الگ موت کا فرشتہ نظر آتے تھے۔ اور میں ڈر کے مارے سہمی جاتی تھی۔مگر نواب کا بیٹھا رہنا مجھے غنیمت تھا اور دل کہتا تھا کہ جب تک یہ بیٹھے ہیں جب ہی تک خیر ہے۔ تھوڑی دیر بعد نواب صاحب کو مجرے کی بات یاد آئی اور استاد کی طرف مخاطب ہو کر مدعا بیان کیا ۔ ساتھ ہی اس کے یہ بھی فرمایا کہ میرا جی یہ چاہتا ہے کہ ننھی جان کھانا بھی وہیں کھائیں۔ آپ لوگ شام ہی سےآ جائیں۔ امامی لے آئے گا۔
مجرے کے نام سے ذرا اماں کا جی ہرا ہوا۔ دعوت بھی منظور کر لی اور دو چار باتیں نواب کے خوش کرنے کی اماں اور استاد دونوں نے کیں۔ نواب اٹھے اور چلتے چلتے سویرے ہی تیار ہونے کا منّت سے تقاضا کیا۔ میری نظر ان کے ساتھ ساتھ تھی اور گویا ان سے کہتی تھی کہ اب مجھ پر قیامت ٹوٹے گی تم ٹہر جاؤ اور مجھے بچاؤ۔
نواب کے چلے جانے کے بعد اماں نے استاد جی سے کہا دیکھا خانصاحب اس مردار کواتنا پڑھا سکھا دیا تھا مگر جب بولی الٹی ہی بولی۔ جی چاہتا ہے کہ ایسا ماروں کہ یاد رکھے۔ میں تھر تھر کانپنے لگی اور میرے آنسو جاری ہو گئے۔ اس پر اماں نے گالیاں دینی شروع کیں اور کہا کہ بڑی نواب کی رفیق نکلی ہے۔خاں صاحب یہ قطامہ یوں نہیں مانے گی اور یہ کہہ کر میری طرف ہاتھ بڑھایا میں ہاتھ جوڑنے لگی کہ میری توبہ ہے اب کبھی ایسا نہ کروں گی۔ استاد جی بھی سفارش کرنے لگے کہ سرکار جانے دو ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے اب جس طرح تم کہا کرو گی ویسا ہی کرے گی۔ اماں نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور غصہ سے کہا کہ جا مردار میرے سامنے سے دور ہو، غارت
ریختہ صفحہ 44
بھی تو نہیں ہو جاتی، میں کانپتی ہوئی اٹھی اور اندر جا کر مسہری کے پاس پڑ رہی، اماں استاد جی کو اٹھا کر باورچی خانہ میں لے گئیں اور بڑی دیر تک مجھے برا بھلا کہتی رہیں۔ ایک دفعہ یہ بھی کہا کہ اگر شام کو بھی اس نے کوئی ایسا ہی شگوفہ کھلایا تو مزہ چکھا دوں گی، میں وہیں پڑی ہوئی بڑی دیر تک روتی رہی۔ اور اماں کی گالیاں سنتی رہی۔ پھر مجھ پر غفلت سی طاری ہو گئی۔ جس میں کیا دیکھتی ہوں کہ نواب صاحب میرے پاس آئے ہیں اور میرا بازو ہلا کر بڑی ہمدردی سے پوچھتے ہیں ننھی جان میری پیاری ننھی جان تمہارا کیا حال ہے کیوں رو رہی ہو۔ میں نے اسی خواب کی حالت میں رو رو کر سارا قصّہ بیان کیا۔اور کہا کہ جو کچھ ہے آپ کی محبت کی سزا ہے۔ انہوں نے مجھے تسلی دی، اٹھا کر بٹھایا اور غایت محبت میں پیار کرنے ہی کو تھے ایک خوبصورت چندے آفتاب چندے ماہتاب نہایت غسہ کی حالت میں کمرہ میں داخل ہوئی، نواب کو پکڑ کر گھسیٹ لیا اور مجھے بُرا بھلا کہہ کر پیچھے کو دھکا دیدیا۔ اس وحشت ناک خواب سے میری آنکھ کھل گئی۔ دل دھڑکنے لگا اور بڑی دیر تک ڈری ڈری رہی، ذرا سی دیر بعد اماں نے آواز دی کہ بس بہت ٹسوے بہا چکی باہر نکل، میں نے باہرآ کر منہ ہاتھ دھویا، وقت دیکھا تو پانچ بج چکے تھے۔ ہوا خوری کے لئے نہ کسی نے مجھ سے کہا نہ خود میرا جی چاہتا تھا۔ دوسرے شام ہی سے مجرے کی تیاری کرنی تھی۔ میں دالان میں آ کر بیٹھی ہی تھی کہ میلے کپڑے پہنے ہوئے ایک چودہ پندرہ برس کا لڑکا کاغذ ہاتھ میں لئے ہوئے زینہ کے کواڑ کھول کر صحن میں آیا اور کہا پنڈت کے کوچہ میں جو ڈپٹی صاحب رہتے ہیں انہوں نے یہ خط دیا ہے۔ اماں نے کہا آگے آ، کون ڈپٹی صاحب؟ وہ بولا کہ وہ جو صبح کو یہاں آئے تھے۔ اس نے اماں کو پرچہ دیدیا انہوں نے مجھے بلایا اور کہا دیکھ تو اس میں کیا لکھا ہے۔ آج ہی تو آئے تھےآج ہی سے پرچے بھی چلنے لگے۔
ریختہ صفحہ 45
میں نے کھولا تو یہ عبارت بہت صاف خط میں لکھی ہوئی پائی،
کرم فرمائے دوستاں، تسلیم۔ ابھی ابھی میرے پاس نواب اختر زماں کا رقعہ آیا ہے کہ آج شام کو ان کے مکان پر تمہارا مجرا ہے وہاں جانا ضرور ہے ورنہ وہ ناراض ہو جائیں گے۔ میں ان سے کئی دن سے نہیں ملا اور نہ آپ سے ملنے کاذکر کیا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی آپ کی ملاقات پہلے سے ہے یا یونہی معمولی قسم کا مجرا ہے۔بہر حال میں یہ چاہتا ہوں کہ ان کو یہ ظاہر نہ ہو کہ میری آپ کی شناسائی ہے۔ میرے ساتھ میرے دوست مرزا اصغر بھی ہونگے جو آج صبح میرے ہمراہ آپ کے مکان پر آئے تھے، میں انھیں سمجھا دوں گا، براہِ نوازش اپنے استاد جی وغیرہ سے بھی کہہ دیجئیے گا۔
اماں نے سنکر ناک بھوں چڑھائی اور بے پروائی سے لڑکے سے کہا اچھا سلام کہیو اور کہیو کہ جس طرح آپ نے لکھا ہے ویسا ہی کیا جائے گا۔ پھر مجھ سے کہا کہ جیسا ڈپٹی صاحب نے لکھا ہے بالکل اسی مواقف کیجو۔ ہمارا اس سے بڑا کام نکلے گا۔تیری سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ مگر جس طرح میں کہتی ہوں اسی طرح کیجو، جب گانے کوبیٹھے تو ڈپٹی صاحب کی طرف زیادہ بتائیو، اتنا زیادہ کہ نواب کو شبہ ہو جائے، بات چیت ڈپٹی صاحب سے بالکل نہ کریو۔ اور نہ مرزا صاحب سے۔ میں بہت اچھا کہہ کر دالان میں چلی آئی۔ لیکن مجھے رقعہ کی باتوں کا اچھی طرح خیال بھی نہ تھا کیونکہ اختر زمان کا نام مجھے ایسا اچھا معلوم ہوا کہ میں اسی وقت سے اپنے دل میں اسے دہرا دہرا کر مزے لے رہی تھی۔
چراغ جلتے ہی امامی آ گیا اور اماں نے مجھے جلدی جلدی تیار کر کے سوار کرایا۔ ہمارا دوسرا سارنگیا آج کچھ ماندہ ہو گیا تھا، اس لئے استاد جی نے اپنے بھتیجے نتھن خان کو جو دُرگیا پاتر کے ہاں تھا، بلا لیا۔ ساڑھے سات بجے کے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 46
قریب ہم سب نواب صاحب کے دیوان خانہ میں جو چپلی قبر کے آگے بائیں ہاتھ کی گلی میں ہے پہنچ گئے۔ جس کمرے میں ہمیں انہوں نے بٹھایا خوب آراستہ تھا۔ جب میں پہنچی تو نواب اکیلے ہی تھے۔ نوکر چاکر نیچے چبوترے پر لمپ ومپ صاف کرنے اور روشنی کا اور سامان درست کرنے میں مصروف تھے، نواب نے بہت شوق کے ساتھ میرا استقبال کیا۔مجھے کمرہ میں آنے کو اور میراسیوں وغیرہ کو چبوترے کے نیچے والے کمرے میں بیٹھنے کو کہا میں اس وقت تک اس خیال میں تھی کہ اس کمرے میں نواب صاحب کے ساتھ مجھے اکیلا چھوڑ کر شاید استاد جی بھی اور میراسیوں کے ساتھ چلے جائیں گے مگر میری توقع کے خلاف وہ بھی میرے ساتھ اندر چلے آئے۔نواب کو دو چار باتیں انتظام کے متعلق نوکروں سے کرنی تھیں جب تک وہ اس میں لگےرہے کبھی اندر آتے تھےکبھی باہر چلے جاتے تھے مگر جب ان باتوں سے فارغ ہوئے تو میرے پاس آ کر بیٹھے اور کہا کہ ننھی جان اب کھانا کھا لینا چاہئیے۔ نو بجے میں نے اپنے دوستوں کو بلایا ہے۔ ٹھیک ساڑھے نو بجے گانا شروع ہو جانا چاہئیے۔
استاد جی: حضور اکیلی یہی ہے یا کسی اور کو بھی حضور نے بلایا ہے؟
نواب صاحب: مجھے خیال نہ رہا ہاں آکر یہ کب تک گائیں گی، دو ہوں تو اچھا ہے
میں:( یکلخت خورشید کا خیال آ جانے سے چونک کر)سیتا رام کے بازار والی خورشید کو بلا لیجئیے اچھا گاتی ہے۔
استاد جی: اور صورت شکل میں کیا بُری ہے۔
نواب صاحب: تو خاں صاحب آپ ہی اس کا بندوبست کیجئیے۔ ٹھیک نو بجے پہونچ جائے۔
استاد جی نے اسی وقت نتھن کو بلا کر کہا جاؤ چنے خاں کو میرا سلام کہنا
ریختہ صفحہ47
اور کہنا کہ ننھی بھی ہے خورشید کو بھی مجرے کے لئے بھیج دیں۔ وہ خود تو واڑہ کے درد کے مارے کیا آ سکیں گے، عذر کریں تو کہنا ہم کام چلا لیں گے مگر خورشید نو بجے یہاں پہونچ جائے۔یہ ہو گیا تو نواب تھوڑی دیر کے لئے مجھ سے معافی مانگ کر چلے گئے۔ کوئی پندرہ منٹ میں آئے اور کہا چلئیے کھانا کھا لیجئیے۔ استاد جی نے اب بھی میرا ہیچھا نہ چھوڑا اور یہ بات مجھے اور خاں صاحب دونوں کو ناگوار معلوم ہوئی۔چبوترے کے نیچے آمنے سامنے دو کمرے تھے ایک میں میراسیوں کو بٹھایا تھا تو اس کے سامنے والے کمرہ میں نواب صاحب ہمیں لے گئے، چِک اٹھا کر اندر گئے تو دماغ کھانوں کی خوشبو سے معطر ہو گیا ۔ صاف ستھرے دسترخوان پر ہر قسم کا کھانا نہایت سلیقے سے چنا ہوا تھا ، دو نوعمر نوکر اُجلے کپڑے پہنے ہوئے پانی پلانےوغیرہ کو موجود تھےاس کمرے میں ایک طرف ایک میز لگی ہوئی تھی اور اس پر کتابیں اور لکھنے پڑھنے کا سامان بھی رکھا ہوا تھا۔ سامنے دیوار میں نواب کے لڑکپن کی ایک تصویر لگی ہوئی تھی، میں تصویر کو دیکھ کر کھانا وانا سب بھول گئی اور اس کاذکر کرنے اور نواب کی صورت کی تعریف کرنے کو بہت جی چاہتا تھا مگر استاد جی کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکی، نواب صاحب خود بولے یہ میرا لڑکپن کا کمرہ ہے ابا جیتے تھے تو میں اسی میں بیٹھتا تھا۔
میں: اور یہ تصویر بھی آپ کے لڑکپن کی ہے کیسی ا چھی کھینچی ہے۔
استاد جی: ہمارے نواب صاحب کو ما شا اللہ ہر بات کا شوق ہےدیکھو ننھی چھت گیری کیسی اچھی ہے۔ تم اپنی چھت گیری بھی اسی وضع کی بنواؤ۔
نواب صاحب:
ہاں استاد جی مجھے بھی آپ کے ہاں کی پرانی وضع کی چھتگیری نا پسند ہے۔صبح کو میں امامی کے ساتھ اپنے درزی کو بھیجوں گا، دو تین دن میں بنا دے گا۔
استاد جی: اللہ حضور کو سلامت رکھے سرکار ،(ننھی جان کی اماں) بہت خوش
ریختہ صفحہ 48
ہوں گی۔
نواب صاحب نے دسترخوان پر بیٹھ کر ایک نوکر سے کہا کہ دیکھو استاد جی کے ساتھ وہاں جتنے بھی آدمی ہیں ان سب کو اچھی طرح کھانا کھلا دو۔ میں خوش ہوئی کہ اب ہم دونوں اکیلے ہونگے، مگر استاد جی ایسے سریش کی طرح چپکے تھے کہ ٹلنا ہی نہیں جانتے تھے، فوراً بولے۔
حضور میں تو آپ کی جوتیوں میں اچھا ہوں، وہاں چار آدمی ہیں، نتھن، کیمو، علیا اور غٖوری، نتھن آ جائے تو چار آدمیوں کا کھانا وہاں بھجوا دیجئیے۔ نواب صاحب کو استاد جی کا ہمارے ساتھ کھانا ناگوار تو ضرور گزرا ہو گا مگر بیچارے کیا کر سکتے تھے، فرمانے لگے کہ استاد جی میں یہ کب کہتا ہوں کہ آپ بھی ان کے ساتھ کھانا کھائیے۔ الغرض ہم تینوں دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ اور بسم اللہ کی۔ ہم لوگوں نے دو چار ہی نوالے کھائے ہونگے کہ استاد جی میری طرف مخاطب ہو کر بولے کہ آج تمہاری اماں کو اکیلی ہی کھانا پڑے گا۔ اس فقرہ پر نواب نے چونک کر اپنے نوکر سے کہا کہ دیکھو امامی ان کا گھر جانتے ہو ابھی دو تین آدمیوں کا کھانا وہاں پہنچا دو۔ پھر استاد جی سے کہا کہ نہ آپ یہ بات کہتے نہ مجھے خیال آتا۔ توبہ کیسی چوک ہوئی۔ استاد جی نے ایک آدھ دعا دی۔ اور پھر ہم تینوں نے کھانا شروع کیا آج کے کھانے میں نواب نے بہت تکلف کیا تھا۔ رنگترا پلاؤ، مزعفر، انگریزی مٹھائیاں، یہ وہ غرض معمولی دعوتوں کے سامان سے بہت زیادہ چیزیں تھیں۔ مجھے شام کی اماں کی دھتکار اور اس وقت کی استاد جی کی جکڑ بندش نے ایسا اداس کر رکھا تھا کہ بالکل بھوک نہ تھی۔ نواب بار بار مجھ سے اصرار کرتے تھے مگر میں بے بھوک کہاں تک کھاتی۔ اور عذر تو وہ کب سننے والے تھےمگر میں نے استاد جی کو بالائے طاق رکھ کر آخر اتنا کہا ہی کہ آپ کے ساتھ کھانے کی خوشی
ریختہ صفحہ 49
سے میری بھوک بھاگ گئی۔ نواب صاحب ہنس پڑے اور سموسوں کی طشتری آگے سرکا کر کہا ان میں سے دو تین آپ کو ضرور کھانے ہونگے، ورنہ میں خود کھلاؤں گا، میرا سچ مچ دل چاہتا تھا کہ نواب کوئی چیز مجھے اپنے ہاتھ سے کھلائیں، بلکہ میں انھیں کھلاؤں۔ مگر استاد جی نے کہا کہ حضور اب ہمیں اجازت دیجئیے اپنے دالان میں جا کر بیٹھیں خورشید بھی آتی ہو نگی۔ ننھی جان حضور کے لئے وہیں سے پان بنا کر بھیجیں گی۔ نواب صاحب نے چار و ناچار اجازت دی مگر کہا کہ پان تو یہیں موجود ہیں، کھاتے جائیے۔ اتنے میں چاندی کے خاصدان میں نوکر پان لایا، پان۔۔۔۔۔ الائچیاں، سب پر چاندی کے ورق لپٹے ہوئے تھے ہم نے پان کھا کر اپنے دالان کا راستہ لیا اور نواب پژمردہ دلی سے اوپر کمرے میں چلے گئے۔ اس دالان میں پہنچ کر میں نے خیال دوڑانا شروع کیا کہ آج خلافِ عادت استاد جی اس قدر میری چوکسی کیوں کر رہے ہیں۔ سوچتے سوچتے سمجھ میں آیا کہ ہو نہ ہو اماں نے تیسرے پہر کو میرا اور نواب کا گلے ملنا دیکھ لیا ہے۔ اور استاد جی کو سمجھا دیا ہے کہ اب انہیں ایسا موقعہ ہی نہ دینا کہ ملیں، میرا جی اس سے اور بھی بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں اورط لوگ بھی کھانا کھا چکے۔ خورشید بھی آ گئی اور ان کے کمرے میں بھی لوگوں کی آمد ورفت شروع ہوئی۔ کوئی آدھ گھنٹے میں نوکر پیغام لایا کہ پہلے ننھی جان ہی گائیں گی۔اور ہم سے تیار ہونے کو کہا، پھر خورشید سے کہا کہ نواب صاحب فرماتے ہیں کہ تکلیف نہ ہو تو آپ بھی وہیں آن بیٹھئے۔
میں اور میرے میراسی تو لیس ہو کر پہنچے مگر خورشید یونہی اپنے سادہ لباس میں آ کر بیٹھ گئی۔ کمرہ میں مَیں نے نظر ڈالکر دیکھا تو ڈپٹی صاحب اور مرزا صاحب کو تو پہچانا مگر چار پانچ اور جو تھے، انہیں میں نہیں جانتی تھی۔ میرے پہنچتے ہی نواب
ریختہ صفحہ50
صاحب نے ڈپٹی صاحب کی طرف اشارہ کر کے چپکے سے کہا کہ "آپ ہی ہیں" انہوں نے ویسے ہی دبی آواز میں جواب دیا "مبارک" مگر میری طرف اچھی طرح نہ دیکھا۔ نتھن ڈپٹی صاحب کو پہچانتا تھا ۔ اس نے جھک کر سلام کیا اور کہا حضور کئی دن سے کہاں ہیں۔ بائی جی بہت یاد کرتی ہیں۔ ڈپٹی صاحب بالکل کھوئے گئے۔ اور مجھے اس وقت وہ بات یاد آئی کہ استاد جی نے اماں سے کہا تھا کہ یہ درگیا پاتر کے ہاں جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جو مجھے ان کے شام کے رقعہ کا خیال آیا تو میرے دل نے کہا کہ ضرور یہ پیچدار آدمی ہیں ادہر چپکے چپکے درگیا کے ہاں جاتے ہیں ادہر نواب کی چوری سے مجھ سے ملت رکھنی چاہتے ہیں۔ مجھے ان کی صورت سے نفرت ہونے معلوم ہونے لگی اور جی چاہتا تھا کہ گانے میں ان کی طرف خیال بھی نہ کروں۔ مگر اماں کا خوف غالب تھا اتنے جھگڑوں قصوں کے بعد کیونکر ان کے خلاف کر سکتی تھی، مرزا صاحب بیچارے سرنگوں بیٹھے رہے، اور مجھے انہیں دیکھ دیکھ کر ان کا دن کا رونا اور گھڑی دینا یاد آتا تھا۔

گانا شروع ہوا اور " کملا باری نیناں ادے" کا ٹپہ میں نے خوب سنبھال کر کہا، پھر ایک ٹھمری خوب ڈپٹی صاحب کو بتا کر گائی۔ وہ بچارے بچھے جاتے تھے۔ اور نواب صاحب حیرت میں تھے کہ ننھی کو ہو کیا گیا ہے۔ آخر بولے کہ صاحب ہم لوگوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ہماری طرف بالکل توجہ نہیں کرتیں۔ پھر مرزا صاحب سے کہاکہ کیوں پیر و مرشد آپ نے کوئی افسوں تو نہیں کر دیا۔۔ میں شرما گئی ، اور نواب کی طرف متوجہ ہو کر ثاقبؔ کی یہ غزل شروع کی ؎
منہ اس نے اس ادا سے چھپایا نقاب میں
بوسہ حیا نے لے لیا بڑھ کر حجاب میں
اس شعر کا ایک ایک لفظ میں نے خوب بتا بتا کر گایا اور نواب بہت محظوظ ہوئے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 51
مرزا صاحب ابھی اسی حالتِ سکوت میں تھے کہ اس شعر نے انھیں ابھارا؎
افراطِ مے کشی نے کیا مجھ کو جزو مے
ساقی نے میری روح کو کھینچا شراب میں
انہوں نے ایک جھرجھری لی ، میری طرف نظر اٹھا کر داد دی اور پھر کہنے کو کہا، میں نے کئی دفعہ یہ شعر گایا، اور مرزا صاحب بہت ہی مسرور ہوئے۔ تیسرا شعر سوائے ایک ادھیڑ آدمی کے جو ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے، کسی نے دل سے نہ سُنا ، وہ شعر یہ تھا
شمشیر و سر کی لاگ فقط میرے دم سے ہے
سارا ہوا کا کھیل ہے موج و حباب میں
اس کے بعد استاد جی نے وہ غزل گوائی
محبت بُری ہے نہ چاہت بری ہے
برا ہے وہی جس کی نیت بری ہے
اس پر خوب مذاق ہوتا رہا۔ ایک صاحب نے جو بعد میں معلوم ہوا کہ کہیں کے تھانہ دار ہیں۔مجھے ذرا کھلا مذاق بھی کیا ، وہ فرمانے لگے تؐ ابھی کیا جانو کہ بُری نیت کسے کہتے ہیں۔ نواب صاحب بیساختہ بولے کہ " آپ جیسے بزرگوں کی عنایت چاہئیے سب کچھ سمجھنے لگیں گی" تھانہ دار صاحب کسی قدر خفیف ہوئے اور آئیں بائیں شائیں دو چار باتیں اور کہیں مگر کسی کو مزہ نہ آیا، دو ایک داوروں کے بعد ہماری رہائی ہوئی اور خورشید گانے بیٹھیں۔ بھلا اب نواب صاحب کیوں نچلے بیٹھتے تھے، مجھے اشارے سے کہا کہ یہاں آ جاؤ۔ میں نے سوچا کہ استاد جی سے پوچھا اور کام بگڑا۔ اسی طرح اٹھ کر نواب صاحب کے پاس جا بیٹھی۔ وہ پہلے ہی ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے، میں بھی وہیں جا کر بیٹھ گئی۔ اور استاد جی گُھرّیاں گھونٹتے رہ گئے۔

ریختہ صفحہ 52
بیٹھتے ہی نواب نے کہا کہ آج یہ استاد جی کو کیا پٹی پڑھا لائی ہو کہ دم بھر کو تم سے جدا نہیں ہوتے۔ میں نے تو بڑی بڑی امیدوں کو دل میں مہمان کر رکھا تھا، میں نے صرف اتنا جواب دیا کہ " مجھے خود اس قدر قید بری معلوم ہوتی ہے۔ خبر نہیں یہ لوگ کس قسم کے ہیں۔ کیا میں کہیں بھاگ جاؤں گی۔ " اس پر نوابصاحب نے کہا تو ضرور اس سے ان کا مطلب یہ ہے کہ بغیر ہماری مرضی کے کچھ نہ ہونے پائے۔ مجھے بھلا اس سے کیا عذر ہے۔" میں خاموش ہو گئی اور نواب صاحب بھی کچھ ایسے غوطہ میں گئے کہ آخر وقت تک سوائے معمولی باتوں کے اور کچھ نہ کہا۔ اس پر میں بھی رکی رکی رہی۔ نواب صاحب نے خورشید کو اتنی دیر گوایا کہ وہ تھک گئی۔ پھر مجھےہٹایا اور اب کے خورشید بھی تھانہ دار صاحب کے پاس جا کر بیٹھیں۔اس دفعہ چاروں طرف سے مجھ پر فرمائشوں کا پُل ٹوٹ پڑا۔ میرا اچھی طرح بتانا میرے حق میں زہر ہو گیا۔ خورشید بھی اچھا خاصا گائی تھی مگر شاید تھانہ دار صاحب کی وجہ سے دل کھول کر کسی اور طرف بتا نہ سکی ہو۔ غرض اب کی دفعہ مجھ سے خوب کسر نکالی اور میں بالکل تھک گئی۔ خورشید آئی تو میں اٹھنے لگی۔ مگر استاد جی نے میری کمر میں زور سے گز ٹہوکا اور میں وہیں کی وہیں بیٹھی رہ گئی۔
خورشید کے داوروں اور کہردے پر جلسہ ختم ہوا اور نواب صاحب نے ہم سب کو رخصت کیا۔ چلتے وقت استاد جی نے نواب صاحب سے بہت خوشامد کی باتیں کیں اور مکان پر آنے کو کہا، مگر اس طرح کہ اور لوگوں نے نہ سُنا۔ بیچارہ بھولا نواب پھر ذرا ہرا ہو گیا اور ہم لوگ رفوچکر ہوئے۔
میری اور خورشید کی ڈولی آگے آگے چلی۔اور میراسی لوگ پیچھے۔ ڈولیاں ذرا ان لوگوں سے آگے نکلیں تو میں نے خورشید سے کہا کہ مجھے تم سے کچھ کہنا تھا اور اسی لئے تمہیں کہہ کر بلوایا تھا مگر یہاں تو موقعہ نہ ملا۔اگر کسی بہانہ سے کل دوپہر

ریختہ صفحہ 53
کو ہو جاؤ تو بڑا احسان ہو۔
خورشید: تمہارا بڑا احسان ہوا۔ ننھی آخر ایسی کیا ضروری بات ہے۔ کچھ اتا پتا تو بتاؤ۔
میں: میر صاحب کا کچھ حال کہنا ہے۔
خورشید: کون میر صاحب؟
میں: (طعن سے) ہائے کیا چندرا کے پوچھتی ہو۔ وہی میر صاحب جن پر یہ کچھ ظلم کیا ہے۔ جن سے لکھنا پڑھنا سیکھا ہے۔
خورشید: ننھی تو بڑی فتنی ہے، تجھے کیا خبر؟
میں: خبر نہ ہوتی تو کہتی کیونکر۔ اب خبر چاہتی ہو تو کل مجھ سے مل جاؤ۔
خورشید: نہیں تو تم کیا کرو گی۔
میں: میر صاحب سے آشنائی۔
خورشید: شوق سے۔ اللہ تمہیں مبارک کرے۔ مگر خیر میں کل ضرور آؤں گی۔ اتنے میں میرا کوٹھا آ گیا۔ اور خورشید سے جدا ہونا پڑا۔
دوسرے روز آدھا دن تو سوتے ہی کٹا۔ گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ہونگے کہ اماں دالان میں زردہ کھانے آئیں۔استاد جی بھی آ نکلے۔مجھے نیند میں غافل سمجھ کر انھوں نے چپکے چپکے یہ باتیں شروع کیں۔ میں بھی دم سادھ گئی اور کان لگا کر سنتی رہی۔
استاد جی: بات چیت کی تو قسم نہیں کھا سکتا مگر اتنا موقع نہیں دیا کہ دونوں اچھی طرح ملتے۔
اماں: خان صاحب یہ لونڈیا باؤلی سی ہے۔ ایک ہی دن میں نواب سے اتنی گھل مل گئی کہ میں نے اپنی آنکھوں سے گلے ملتے دیکھا۔

ریختہ صفحہ 54
استاد جی: سرکار ابھی عمر ہی کیا ہے سب سیکھ جائے گی۔ سرکار چھت گیری تو میں بات کو ٹھونک آیا۔ اس اس طرح معاملہ ہوا۔
اماں: بس خانصاحب اسی ڈھنگ سے چلے چلو۔ اللہ نے چاہا وارے نیارے ہیں۔ اور ہاں خاں صاحب نتھن سے ڈپٹی صاحب کا حال نہ پوچھا۔
استاد جی: وہ کہتا تھا کہ درگیا کے ہاں چوری چھپے کی آمدورفت ہے، مگر وہ منہ نہیں لگاتی، ابھی کوئی دو ڈھائی مہینہ سے ہی جانا شروع کیا ہے ۔ اور سو سوا سو روپے بھی کھلا چکے ہیں۔مگر وہاں کب دال گلتی ہے۔ درگیا ایک بنی ہوئی ہے۔
اماں: رات کو ننھی نے ڈپٹی صاحب کی طرف اچھی طرح بتایا بھی یا نہیں۔ میں نے تو کہہ دیا تھا۔
استاد جی: وہ تو اور زیادہ بتاتی مگر نواب لعن طعن کرنے لگے۔
اماں: بس میں بھی یہی چاہتی تھی۔ اب ننھی ذرا بارات سے ہو آئے پھر تمہیں ایک تماشہ دکھاؤں گی۔
امامی کے درزی کے ساتھ آنے نے دونو ں کی باتوں میں خلل ڈالا ۔ جب چھت گیری بننے لگی تو میں بھی کلمہ پڑھ کر پلنگ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ چلتے وقت امامی نے کہا کہ نواب صاحب نے کہا تھا کہ اول تو مجھے خود کسل ہے دوسرے میری والدہ کی طبیعت ناساز ہو گئی ہے شاید میں آج نہ آ سکوں۔ اس پر اماں نے بڑے اصرار سے کہا کہ واہ آج تو انھیں ضرور تشریف لانا پڑے گا۔ امامی میری طرف سے نواب صاحب کی خدمت میں عرض کر دیجو کہ آج تو جس طرح ہو ذرا سی دیر کو ہو جائیں۔ کل تین چار دن کے لئے ننھی برات میں سونی پت جائے گی۔ بھلا ان سے بے ملے کیونکر جا سکتی ہے۔ اسی طرح کہہ دیجو۔

ریختہ صفحہ 55
میں نے ان باتوں کا دل میں مقابلہ کیا تو میری عقل حیران تھی کہ رات کو تو مجھے بات بھی نہ کرنے دی اور اب اس قدر اصرار سے بلایا جاتا ہے میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ تیسرے پہر کو زینہ میں جھانجنوں اور چوڑیوں کی دھمال نے مجھے بتایا کہ خورشید آ گئی۔ میں فوراً پہنچی اور اندر لائی۔ خورشید نے اماں کو سلام کیا اماں نے دعا دی اور کہا خورشید تیری ماں تو بڑی محبت کی آدمی تھیں۔ مگر تُو تو ایسی بے مروّت ہے کہ کبھی آتی ہی نہیں۔
خورشید: اب میں آیا کروں گی۔ رات سے میں نے ننھی سے بہناپا کر لیا ہے۔
بیٹھتے ہی میں نے خورشید کی کیل کی تعریف کی۔کہ ماشااللہ اس سرخ و سفید رنگ پر یہ جڑاؤ کیل کیسی اچھی معلوم ہوتی ہے۔اس نے فوراً پلٹ کر جواب دیا کہ " بوا گھبراتی کیوں ہو بہت جلدی خدا وہ دن کرے گا کہ تم بھی جیسی چاہو، کیل پہننا۔ ماشا اللہ تمہارے نواب صاحب ہیں تو بہت اچھی رقم۔" میں شرما گئی۔ مگر اس خیال سے خوشی ہوئی کہ نواب صاحب اس کی ناپسند نہیں ہیں اور ضرور خدا کو ایسا ہی منظور ہے جو یہ بھی سمجھتی ہے کہ انہیں کے سر سہرہ رہے گا۔
میں: تم اس دو تین مہینے میں ماشا اللہ بہت تیز ہو گئی ہو۔ بھلا اتنی سی بات میں کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔
خورشید: چلو باتیں نہ بناؤ جی تو یہ چاہتا ہو گا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس مجھ سے نہ کھلواؤ۔ ہاں میر صاحب کا معاملہ کیا تھا۔
میں: خورشید تم میرے سر کی قسم کھاؤ کہ برا نہ مانو گی اور صاف صاف جو معاملہ ہے کہہ دو گی۔
خورشید: بُرا میں ہر گز نہ مانوں گی۔ چاہے جیسی قسم لے لو۔ مگر میر صاحب کا بھید تمہیں کیونکر دیدوں گی، تم نے بھی کوئی بات مجھ سے کہی ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 56
میں: دیکھو خورشید تم ابھی کہہ چکی ہو کہ ہمارا بہناپا ہو گیا ہے، پھر چھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ مجھ سے بھی جو کچھ پوچھو گی اللہ قسم بتا دونگی۔
خورشید: اچھا پہلے تم تو سچ سچ بتاؤ کہ تمہارا میر صاحب سے کیا واسطہ ہے۔
میں: اے میر صاحب میرے استاد ہیں۔ میں ان سے لکھنا پڑھنا شروع کروں گی۔
پھر میں نے میر صاحب کے باغ میں ملنے اور مکان پر آنے کا حال کہا اور جو کچھ میر صاحب نے اپنے رنج و غم کا ذکر کیا تھا، وہ بھی حرف حرف سنا دیا۔ خورشید نے ایک سرد آہ بھری اور یہ شعر پڑھا؎
ہم کو تو جان ہو گئی دوپہر فراق میں
کیا جانے لوگ جیتے ہیں کیونکر فراق میں
پھر بڑی درد کی آواز سے کہا کہ ننھی تجھ سے اب کیا چھپانا ہے اصل بات یہ ہے کہ مجھے میر صاحب سے دلی محبت ہے مگر خدا ان خاں صاحب کا بھلا کرے کہ جن کے پنجے میں پھنسی ہوئی ہوں کسی طرح ملنے ہی نہیں دیتے۔ میر صاحب سے زیادہ محبت کرنے والا اور اپنے تا بمقدور رہنے والا مجھے تو عمر بھر نہ ملے گا۔ میں تو خدا کی قسم ان کے گھر بیٹھ جاتی، مگر ان استاد جی کا خدا ستیا ناس کرے انہیں اس بیچارے سے ناحق ضد ہو گئی ہے۔
میں: اور میر صاحب کا کچھ قصور نہیں ہے۔
خورشید: خدا کی قسم ذرا بھی نہیں۔ ہائے ننھی جس جنجال میں مَیں پھنس گئی ہوں میرا ہی جی جانتا ہے۔ " اپنی ٹانگ کھوے، آپ ہی لاجوں مرے" میری وہی مثل ہو رہی ہے۔ خورشید یہ کہہ کر رونکھی ہو گئی۔ اور مجھے اس کے ساتھ ایک ہمدردی پیدا ہو گئی۔ میں نے منت سے کہا کہ خورشید خدا کے لئے اپنا حال کہہ۔ میرا دل پھٹا جاتا ہے۔ خورشید یوں آگے چلی۔

ریختہ صفحہ 57
یہی تمہارے استاد جی کے بھتیجے نتھن جو رات کو تمہارے ساتھ سارنگی بجا رہے تھے چنا خان کے بھی دور پرے کے رشتہ میں لگتے ہیں، اگلے برس یہ بھی میرے ہاں تھے، بس اب تو سمجھ جا مجھ پر اور میر صاحب پر جو کچھ ہوا ہے وہ اسی شیطان نتھن کی بدولت ہوا ہے۔ مجھے تو ایک دفعہ یہ لوگ زہر دئیے دیتے تھے۔ نتھن خوب جانتا تھا کہ کسی شریف کی آمد ورفت خورشید کے ہاں رہے گی تو میں کیونکر گلچھرے اڑا سکوں گا۔ چنے خاں اس کی پشت پر تھے جو انہوں نے چاہا مجھے کرنا پڑا۔غارت ہوں یہ استاد جی مجھے بیٹی کہتے ہیں اور نتھن کو بیٹا۔ اور پھر مجھ پر یہ ظلم ہوا، ان لوگوں پر آسمان نہیں ٹوٹ پڑتا۔ اب تھوڑے دنوں سے مجھے ان تھانہ دار صاحب کے حوالہ کر رکھا ہے۔ غضب میں جان ہے۔ وہ دن رات حوالات ہی کی ڈانٹ دیتے رہتے ہیں۔ اس سے تو ننھی خدا میری جان لے لے۔ اور یہ کہہ کر خورشید زار و قطار رونے لگی۔ میں بھی حیرت میں چپ تھی کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔ اللہ کسی کو ایسا بے بس نہ کر ے۔بڑی مشکل سے خورشید کو تسلی و تشفی کی باتوں سےسنبھالا اور پوچھا کہ بھلا میر صاحب سے ملنا اب بھی ممکن ہے۔ اس نے جوابدیا کہ اب میر صاحب مجھ سے کُھلم کھلا خود نہ ملیں گے۔ استاد جی نے ان بے چاروں پر اسی زمانہ میں ایسی بڑی تہمت لگائی تھی کہ وہ تو اپنی جان دئیے دیتے تھے۔ان لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ میرا اور میر صاحب کا تعلق کسی طرح کم نہیں ہوتا تو میر صاحب پر تہمت لگا دی کہ وہ میری پہونچیاں صندوقچہ میں سے نکال کر لے گئے۔ اور جب سے یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے کہ لوگوں کے سامنے ان کی ہر طرح کی جھوٹ طوفان برائی کرتے ہیں۔ اور ایک دفعہ تو مجھے بھی اپنی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور کیا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میر صاحب بھی مجھ سے بدظن ہو گئے ہیں۔ سو ننھی اور تو جو میری قسمت میں لکھا ہے بھگتوں گی، مگر میر صاحب کا دل میری

ریختہ صفحہ 58
طرف سے صاف کر دے تو عمر بھر احسان نہ بھولوں گی۔
میں: خورشید۔ میر صاحب تو بالکل تمہاری طرف سے صاف ہیں۔ ایک دفعہ ملنے کی دیر ہے۔ میں کل بارات میں جاؤں گی اور چار پانچ دن میں آؤں گی۔ اللہ نے چاہا تو آ کر ضرور تم دونوں کے ملنے کا بندوبست کر دوں گی۔
خورشید نے میرا شکریہ ادا کیا اور خوش ہو کر دعا دی کہ اللہ تجھے ہمیش ہمیش کو خوش رکھے۔ پھر اٹھی اور اٹھتے اٹھتے کہا ننھی اتنا کہا میرا مانیو کہ کسی سے محبت نہ کیجو۔ اس کمبخت چاہت کی بڑی سزا ملتی ہے۔ خورشید ابھی کھڑی ہی تھی کہ نواب صاحب آ گئے۔
نواب : ( خورشید سے مخاطب ہو کر) اوہو آپ بھی یہیں موجود ہیں۔ مجھے آپ سے رات کی عدم توجہی کی معافی مانگنی ہے۔خورشید: جی بجا ہے ، مگر اس میں آپ کا کیا قصور ہے۔ ان بی صاحبہ(میری طرف اشارہ کر کے) نے منع کر دیا ہو گا۔
میں: خورشید میں بھلا تمہارے سامنے کیا بول سکتی ہوں اور جو کچھ جی میں آئے ، کہہ لو۔ خورشید جانے لگی، نواب ٹہرانے لگے مگر وہ اپنی چھب دکھا کر کمر کو سینکڑوں بل دیتی ہوئی آناً فاناً میں یہ جا اور وہ جا۔ نواب صاحب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ میں کھٹکی اور شاید میرا اداس پن نواب صاحب پا لیتے کہ اماں آ دھمکیں اور اس طرح باتیں شروع ہوئیں،
نواب صاحب میری ننھی آپ کی عنایت کی بہت احسانمند ہے آپ نے کل اس کے ساتھ بڑی مہربانی فرمائی، آپ ماشااللہ بڑے لائق ہیں، ہمیں تک نہ بھولے، کھانا واقعی بہت مزیدار تھا۔
نواب: آپ مجھے کیوں شرمندہ کرتی ہیں۔ کاش مجھے آپ کو خوش کرنیکا موقع ملے

ریختہ صفحہ 59
اماں: ہم لوگ آپ سے ہر وقت خوش ہیں۔ اور آپ کے تابعدار ہیں۔ ننھی تو آپ کے پیچھے بھی آپ ہی کا ذکر کرتی رہتی ہے۔
ںواب: یہ ان کی عنایت ہے اور میری خوش نصیبی۔
اماں: توبہ میرا حافظہ بھی کیسا خراب ہے، یہ تو پوچھنا ہی بھول گئی کہ آپ کی والدہ کس طرح ہیں۔
نواب: اچھی طرح ہیں۔ کوئی خاص شکایت نہیں۔ مگر ان کی وجہ سے میرا لاہور جانا رک گیا۔ مجھے پندرہ بیس روز کے لئے وہاں جاان تھا۔ کئی انگریزوں سے ملنا ہے۔
اماں: جب تک ننھی برات میں سے آئے تب تک تو آپ نہیں جاتے۔
نواب: کب جائیں گی اور کہاں؟
اماں: کل سونی پت جائے گی۔ کل پیر ہے نا جمعہ کو آ جائے گی۔
نواب: میں تو جمعرات سے زیادہ ہر گز نہیں ٹہر سکتا۔
اماں: خیر کچھ بات نہیں ہے۔ اللہ آپ کو خیر صلّا سے لائے۔ ننھی کے لئے تو آپ کچھ لائیں یا نہ لائیں ، یہ جانےاور آپ، مگر میرے لئے دو۔۔۔۔۔ ضرور لائیے گا۔
نواب: سر آنکھوں سے، پھر مجھ سے کہا کہ آپ بھی کچھ فرمائیے، میرے ایسے کہاں نصیب کہ آپ کچھ منگائیں ، بڑی خوشی سے آپکے حکم کی تعمیل کرونگا۔
میں نے نظر نیچی کر لی، دوسرے مجھے کیا معلوم تھا کہ لاہور میں میرے کام کی کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں کہ اماں نے بیساختہ کہا میرا تو پنجابی وضع کے کرن پھولوں کے لئے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ اب نواب صاحب پوچھتے ہیں تو چُپ ہے۔" میں اس صریح جھوٹ پر ششدر رہ گئی۔ مگر سوائے ہاں کے اور

ریختہ صفحہ60
کیا چارہ تھا۔ دل میں کہتی تھی کہ بیچارے نواب پر کم سے کم ساٹھ ستر کی مفت ٹھکی، نواب صاحب نے بہت خندہ پیشانی سے اقرار کیا، پھر گھڑی دیکھکر اُٹھے کہ مجھے اب ڈاکٹر ہیم چندر کے ہاں جانا ہے، ساڑھے تین بج گئے ہیں۔ یہ سنتے ہی اماں طعن سے یہ کہہ کر اٹھیں کہ نواب صاحب صاف نہیں کہتے کہ تم "چلی جاؤ" وہ نہیں نہیں کہتے رہ گئے ، مگر اماں چلی گئیں۔ نواب نے خدا کا شکر کیا کہ منٹ دو منٹ کو سہی تخلیہ تو ہوا۔
نواب: دیکھئیے یہ پندرہ بیس دن اللہ کیسے گزرواتا ہے۔کہیں ایسا نہ کرنا کہ مجھے بھول جاؤ۔افسوس اس وقت تخلیہ ہے تو میں منٹ بھر بھی اور نہیں بیٹھ سکتا۔ میں نے نواب کے بالکل پاس آ کر ان کا دامن پکڑلیا اور آہستہ سے کہا کہ ذرا سی دیر اور ٹہر جاؤ۔ انہوں نے ایک دفعہ تو کہا کہ ہائے اس وقت تمہاری تصویر کھینچ لے اور پھر مجھے گلے لگا کر پیشانی کا بوسہ لیا، میں نے بھی جو مجھ سے ہو سکا، کیا۔ اور نواب اسی نشہ کی حالت میں مجھے لڑکھڑاتا ہوا چھوڑ کر اور میرے دل سے اپنے لئے لاکھوں دعائیں لے کر رخصت ہوئے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 61
شباب
برات میں مجھے صرف دو باتیں ایسی پیش آئیں جنھیں میں لکھنے کے قابل سمجھتی ہوں، ایک تو یہ کہ پہلی رات کو جب میں کوئی گیارہ بجے کے قریب ناچنے کھڑی ہوئی تا دولہا کا باپ جو عجیب بھانک وضع کاآدمی تھا محفل میں میرے برابر آن کھڑا ہوا۔ ایک تو میرا دل پہلے ہی سے اچاٹ تھا کیونکہ گھڑی گھڑی دس دس بیس بیس آدمی جمینے کے لئے جاتے تھےا ور آتے تھے اور اس سبب سے محفل بالکل جمنے نہ پاتی تھی۔ دوسر والد کے مسخرے پن نے مجھے ازحد پریشان کر دیا۔ان کا حلیہ پورا پورا بیان کرنا مشکل ہے مگر حد سے زیادہ موٹا اور بے ڈول ہونا تو ان کے لئے کوئی ہتک کی بات ہی نہیں ہے سونے میں سہاگہ آپ نے یہ کیا کہ چہرے کے تیلیا کا کریزی رنگ کی زیبائش کی خاطر پان کو اس بری طرح حلال کیا تھا کہ نیچے کے ہونٹ تک سرخی کا لیپ معلوم ہوتا تھا۔ ایک دھوتی کا تو شاید اتنا گھیر نہ ہوتا ہو مگر آڑے پاجامے میں جو اتنا سارا اسباب
بد تمیزی سے بندھا ہوا تھا اس سے میں یہ سمجھتی ہوں کہ شاید بیٹے کی شادی کی خوشی میں اوپر تلے دودو دھوتیاں باندھ لی ہونگی اور پھر ان پر یہ پاجامے کا غلاف چڑھایا گیا ہو گا۔ انگرکھے کے نیچے کرتا ندارد تھا۔ اور اس کی چولی اتنی اونچی تھی کہ دگدگی سے کچھ ہی نیچے بند بندھے ہوں گے۔ توند کی تعریف ہیبت کے مارے مجھ سے ہو ہی نہیں سکتی۔ لالہ صاحب خود تو میانہ قد کے آدمی تھے مگر نہیں معلوم توند اس قدر لمبی چوڑی اور گھیردار کہاں سے آ گئی تھی۔ یہ تو کوئی چیز بھی نہیں جو آدمی کہیں سے مانگ لائے۔ خدا مجھے پھر ایسا موقع نہ دکھائے۔ جونہی لالہ صاحب میرے پاس آن کر کھڑے ہوئے اور ہوا سے آگے کا دامن پیٹ پر

ریختہ صفحہ 62
سے ہٹا تو ناف کی بدحواسی نے توند کو بھی گرد کر دیا۔ میں ڈر کے مارے پیچھے ہٹنے لگی، مگر وہ پاجامہ کو اوپر کرتے ہوئے بڑی محبت سے میری طرف بڑھے اور میرا ہاتھ پکڑ کر منت سے کہنے لگے ۔ بائی جی بائی جی کوئی بھیرویں، کوئی بھیرویں گاؤ۔ جس وحشت اور بے اوسانی سے وہ بیسیوں دفعہ ان لفظوں کو کہتے تھے۔ مجھے عمر بھر نہ بھولے گا۔ میں ہک دھک رہ گئی۔ اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔ میں نے بڑے مزے کی بھاگ کی کوئی ٹھمری شروع کر رکھی تھی۔ لالہ صاحب کی بھیرویں کی فرمائش کرنے، اب بھیرویں گاتی ہوں تو اس قدر بے وقت کی چیز کیا خاک گائی جا سکتی ہے۔ نہ گاؤں تو لالہ صاحب ناراض ہو جائیں گے۔ وہ ٹہرے دولہا کے باپ۔ انعام و اکرام کی امید پھر کس سے رکھوں۔ میں اس شش و پنج میں تھی کہ اللہ نے میرے اوپر فضل کیا اور ایک میلا کچیلا آدمی جس کے ہاتھ رائتہ میں بھرے ہوئے تھے لالہ صاحب کو بلا کر لے گیا۔ ان کے چلے جانے سے میں خوش ہوئی اور محفل کا آدھا دور کیا، پورا دور ختم ہو جاتا تو دوسرا طائفہ کھڑا ہوتا، اور میں اس خوشی میں تھی کہ اپنا دور جلد ختم کر لوں گی کہ لالہ صاحب پھر آن موجود ہوئے۔ اور وہی بڑ شروع کی۔" بائی جی بائی جی بھیرویں" مگر استاد جی نے اس وقت بڑی سُرت سے کام لیا اور جھک کر میرے کان میں کہا کہ کہدے لالہ جی بھیرویں ہی گا رہی ہوں۔ میں نے رک رک کر یہی کہہ دیا لالہ صاحب کو اتنی تمیز تو تھی ہی نہیں کہ بھیرویں کون بلا ہوتی ہے۔ اور یہ کیا گا رہی ہے۔ میرے اتنا کہتے ہی کہ " لالہ جی بھیرویں گا رہی ہوں" باچھیں کھل گئیں اور توند پر دست شفقت پھیر کر فرمایا " جب ہی تو سواد آوے ہے۔ جب ہی مجا (مزہ) آوے ہے۔ " اور یہ کہتے ہوئے محفل میں سے تشریف لے گئے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ان کے دوستوں نے انھیں بہت سی بھنگ پلا دی تھی۔ اور یہ سب اسی کا اثر تھا۔

ریختہ صفحہ 63
دوسری بات یہ پیش آئی کہ عربی مدرسہ کے ایک جفادری طالب علم مجھ پر عاشق ہوتے ہوتے بچ گئے۔ اس کا قصہ اس طرح پر ہے کہ جب بارات سونی پت سے واپس آنے لگی تو کسی نے ہمارے استاد جی سے کہا کہ یہاں فلاں مقام پر کسی پیر کا مزار ہے۔ اور جو کسبی یہاں آتی ہے وہ ضرور سلام کر کے جاتی ہے۔ ۔ استاد جی مجھے بھی وہاں کے گئے۔ اور ایک دو چیزیں بھی گوائیں۔ مزار کے پاس ہی ایک مسجد تھی ، کوئی گھڑی دو گھڑی بھر دن باقی ہو گا جب ہم لوگ مزار پر پہنچے تھے، میں نے دیکھا کہ مسجد کی دیوار کے پاس نیلا تہمت (تہ بند) باندھے نہ کرتا نہ ٹوپی ، ایک عجیب الخلقت شخص استنجا سکھا رہے ہیں ۔ ان کا رنگ گندمی تھا، ہاتھ پاؤں صورت شکل سب کچھ خاصی تھی مگر منڈے ہوئے سر نے عجائب گھر کے لائق کر دیا تھا۔ طرہ اس پر یہ کہ تیرہویں داڑھی کن پٹیوں کے برابر سے ایسی بے ہنگم لٹک رہی تھی کہ دیکھ کر بیساختہ ہنسی آتی تھی۔ بے چاروں کے ہونٹ موٹے اور بڑے تھے۔ خیر اس کا تو کیا مضائقہ جیسا خدا نے چاہا بنایا، مگر انھوں نے موچھوں کا وہ دل کھول کر ستیا ناس کیا تھا کہ دس پانچ گز ہی سے سوائے ایک سرمہ کی سی تحریر کے اور کچھ نہ دکھائی دیتا تھا، میں نے انہیں دیکھا اور انہوں نے مجھے۔ مگر مجھے بڑا تعجب ا س بات کا ہوا کہ ان کو اپناا س طرح کھڑےہوئے استنجا سکھانا بالکل بے موقعہ نہ معلوم ہوا۔ جب میں گانے لگی تو وہ مسجد میں چلے گئے۔ مگر بڑی دیر تک وضو کرتے رہے اور کھنکھارتے رہے۔ یہ سب کچھ مجھے دکھائی دیتا تھا۔ کیونکہ مسجد بالکل سامنے ہی تھی۔ اور مزار کی طرف کی دیوار ٹوٹی ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ حضرت مسواک کو جھٹکتے ہوئے نالی پر سے اٹھے اور( اکھری پچگوشیہ )۔۔۔۔۔۔۔سفید ٹوپی کو سر مبارک پر منڈھ کر مغرب کی اذان دینے میں مشغول ہوئے۔ اذان کی آواز سے ہم نے گانا بجانا موقوف کر دیا۔ اور اپنے ٹھکانے پر چلے آئے۔ رات کو نو بجے

ریختہ صفحہ 64
کے بعد وہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ چھپ کر آیا ہوں خدا کے واسطے تم بھی کسی سے ذکر نہ کرنا۔ ہمیں کیا غرض پڑی تھی کہ کسی سے کہتے۔ ان کو اطمینان دلایا ۔ پھر اس طرح باتیں شروع ہوئیں۔
وہ: میں گوڑ گانوہ کا رہنے والا ہوں۔میرے ماں باپ ذرا سا چھوڑ کر انتقال کر گئے تھے۔ کوئی آٹھ دس برس دہلی میں رہا، کھجور والی مسجد میں رہتا تھا اور فلاں جگہ رہتا تھا۔
استاد جی: ہم گنہگاروں پر عنایت کرنے کا خیال حضور کو کیونکر ہوا۔
وہ لاحول ولا قوۃ (ح کو خوب قرات کے ساتھ) ہم کون سے بے گناہ ہیں۔ اور لو فرضنا ہم معصیت میں مبتلا نہ بھی ہوں تو بنی نوع انسان کو حقارت کی نظر سے دیکھنا شریعت حقہ میں کب درست ہے۔ میں تو دہلی میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔ کے ہاں جایا کرتا تھا۔ بیچاری نے کئی دفعہ دعوت کی۔
میں: استاد جی تمہیں ان باتوں کی کیا پڑی، یہی کیا کم ہے کہ انہوں نے ہمارے حال پر عنایت کی۔
وہ: (مجھ سے مخاطب ہو کر) عنایت تو آپ کی ہے میرا کیا ہے میں تو خدا بخش لہار کے ہاں دعوت میں گیا تھا، وہاں سے لوٹتے ہوئے خیال آیا کہ اس پری جمال کو بھی دیکھتے چلو، جس نے نماز میں خلل ڈال دیا تھا۔؎
مے ترسم از خرابی ایماں کہ مے برد
محراب ابروئے تو حضورِ نمازِ من
پھر مجھ سے پوچھا کی اس شعر کا مطلب سمجھیں میں نے جوابدیا کہ ہاں یہ سمجھی کہ اس غصہ میں کہ یہ گنہگار مسجد کے پاس کیوں آ گئی تھی، آپ کی نماز اچھی طرح نہیں ہوئی۔ اس پر مولوی صاحب ایسے ہنسے کہ ریش مبارک گیلی ہو گئی اور کہنے لگے کہ صاحب

ریختہ صفحہ 65
تم بڑی شوخ ہو، اللہ تمہیں عمر طبعی عطا کرے۔
میں : مولوی صاحب آپ مجھے نماز روزے سے آگاہ کردیں تو بڑا ثواب ہو۔
مولویصاحب: پہلے تم ہمارا ایمان درست کر دو، پھر ہم تمہیں سب کچھ بتا دیں گے۔
ؐیں: مین اس کا مطلب نہیں سمجھی۔
مولوی صاحب: دیکھو صاحب شریعت میں نکاح کو آدھا ایمان لکھا ہے ہم نے جب سے تمہیں شام کو دیکھا ہے جی بے چین ہے بلکہ تمہارے خیال میں دعوت بھی اچھے سے نہیں کھائی، میٹھے چاول یوں کے یونہی چھوڑ آیا۔ اگر تم ہم سے نکاح کر لو تو ہمارا ایمان درست ہو جائے اور تم بھی گناہ سے بچ جاؤ۔
استاد جی: (بیچ میں بولکر) جاؤ مولوی صاحب اپنا کام کرو۔ یہ شرع تورا کنجڑے قصائیوں میں بگھارنا۔ ابھی ننھی جان کی اماں یہ باتیں سنیں تو تمہارے لتّے لے ڈالیں۔
مولوی صاحب: ( غصّہ سے) میاں خاں صاحب تم کیوں اتنا تیز ہوتے ہو استغفر اللہ میں کیا انہیں بھگائے لئے جاتا ہوں۔
استاد جی: تمہارا منہ ہے یا ۔۔۔۔۔ پہلے تو نکاح ہی تھا، اب بھگانےکی بھی صلاح ہے۔ جاؤ مولوی صاحب یہاں سے لمبے بنو نہیں تو۔۔۔۔۔۔
مجھ سے رہا نہ گیا، پورا اندیشہ ہوا کہ کہیں بات نہ بڑھ جائے، جھٹ بولی
میں: استاد جی خدا کے واسطےمعاف کرو۔ بیچارے جو کچھ کہیں سن لو، قصور تو میرا ہے کہ میں نے روزہ نماز کو ان کو پوچھا۔
استاد جی: ننھی تو سارے زمانے سے نرالی باتیں کرتی ہے، ہم تو اب جا کر سرکار سے کہہ دیں گے کہ یہ ہمارے بس کی نہیں ہے۔
میں استاد جی کی منت کرنے لگی اور بڑی مشکل سے بات رفع دفع ہوئی۔ مولوی صاحب عربی میں برا بھلا کہتے ہوئے تشریف لے گئے۔ قصّہ مختصر میں برات
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 66
میں یہ تماشہ دیکھکر ساتھ خیرصلاح خیر و عافیت کے گھر آئی۔
راستہ میں مَیں نے بڑی منت سماجت سے استاد جی کو راضی کیا کہ تم اماں سے نہ کہنا۔ پھر میں ایسے آدمیوں سے بات نہ کیا کروں گی۔ استاد جی اول اول تو بہت بگڑتے رہے پھر مان گئے۔ انہوں نے اسی ذکر میں یہ تماشہ کی بات سنائی،
استاد جی: تیرے ہوش کی بات نہیں ہے۔ ایک ایسے ہی دل جلے آدمی کو جیسے یہ تھے، بندا جان نے ایسا بنایا تھا کہ ساری عمر نہ بھولیں گے۔
میں: وہ بھی نکاح ہی کرنا چاہتے تھے۔
استاد جی: اپنا نکاح نہیں۔ یہ چاہتے تھے کی ساری رنڈیاں نکاح کر لیں، گانا بجانا چھوڑ دیں۔ پردے میں بیٹھیں۔ چرخا کاتیں۔ چکی پیسیں۔ بچے پالیں اور گھر والیوں کے سارے دھندے کریں۔
میں: (چونک کر) واہ واہ، وہ کون تھا، اس کا دل تو نہیں الٹ گیا تھا۔
استاد جی: شکار پور کے رہنے والے ایک حافظ جی ان دنوں دہلی میں آئے ہوئے تھے۔ خیر سے ان کا ایک طرف کا بازار پٹ تھا، یہ چاہتے تھے کہ درس کہہ کر دہلی میں پیٹ پالوں، پڑھے لکھے کچھ تھے نہیں ۔ دو تین دن تک شام کو گھنٹہ گھر کے تلے کھڑے ہوئے مگر وہاں لونڈوں نے تالیاں پیٹ دیں۔ پھر یہ سوجھی کہ پچکوئیوں کی طرف صبح کو چلے جاتے تھے اور جو مرد عورت ادہر سے آتا تھا اس کے سامنے بتوں کی برائیاں کرتے تھے۔ بھالا ایسی باتیں کون سن سکتا تھا۔دوسرے ہی دن وہاں مرمت کی گئی۔ ایک دن چرخے والوں کی گلی میں پہنچے اور لالٹین کے نیچے کھڑے ہو کر ان پجاریوں کو برا بھلا کہنا شروع کیا، وہاں ایسی گالیاں پڑیں کہ نوکِ دُم بھاگے۔ تین دن بچارے چُپ رہے پھر یہ سوجھی کہ ڈیرہ دار کسبیوں کے مکان جا کر ان کو درس سناؤں اور اپنا پیشہ چھوڑنے کی ترغیب دوں۔ گرمیوں کے دن تھے

ریختہ صفحہ 67
اور چاندنی رات بُندا کے کوٹھے پر باہر صحن میں دو بھلے مانس بیٹھے تھے۔ میں بھی کسی کام سے جا نکلا۔ استاد جی مدار خان کا بھانجا آیا ہوا تھا۔ وہ ستار بجا رہا تھا اور ایک سناٹا کر رکھا تھا۔ اس گھرانے کے ستار میں ایک کمال یہ ہے کہ ایک سُر دوسرے سُر کا مشتاق رہتا ہے۔ فضلا بایاں بجا رہا تھا اور سب لوگ مست ہو رہے تھے کی عین اس لطف میں زینہ میں پاؤں کی آہٹ اور لکڑی کا کھٹکا معلوم ہوا اور وہیں سے ایک اجنبی آدمی کی موٹی سی آواز آئے ، السلام علیک، کیوں صاحبو، ہم بھی آئیں، کوئی آدمی پورا جواب بھی نہ دینے پایا تھا کہ سبز چغہ پہنے ہوئے میلا سا عمامہ باندھے ہوئے بانس کی لمبی لکڑی ہاتھ میں برکا پاجامہ ٹوٹی ہوئی جوتی ایک پنڈلی میں دھجی بندھی ہوئی ، چیچک رو ایک صاحب تشریف لائے لوگ سمجھے کچھ مانگتے ہوں گے۔ اس لئے کسی نے بیٹھنے کو نہ کہا مگر وہ دروازے سے ذرا آگے کھڑے ہو گئے اور بولے کہ صاحبو تمہارے شہر پر اللہ کا عذاب نازل ہونے والا ہے۔ دیکھو ہم آٹھ دس روز سے وعظ کہتے پھرتے ہیں۔ مگر کوئی نہیں سنتا۔ کل تو ایک بھلے آدمی نے ہمیں کُتے سے کٹوا دیا۔ اب ہم نے سُنا ہے کہ بندا جان بڑی خاندانی آدمی ہیں۔ ان کے پاس آئےہیں کہ ان سے دودو باتیں کریں۔ بندا نے اٹھ کر بڑے تپاک سے انھیں اپنے پاس بٹھایا ۔ آدمی سے کہا کہ مولوی صاحب کے قریب آ کر پنکھا جھل۔ پھر مزاج پرسی وغیرہ کی جس پر مولوی صاحب یوں فرمانے لگے
مولوی صاحب: بندا جان ہم تم سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم نکاح کر لو۔ اس فسق و فجور اور گانے بجانے کو چھوڑ دو۔ یہ سب باتیں خدا کی نا فرمانی کی ہیں۔
ایک صاحب: (بیچ میں بول کر) مولوی صاحب آپ کا کہاں سے آنا ہوا۔
مولوی صاحب: آپ کو اس سے کیا غرض۔ آپ کی بھی جھپٹ کی نیت ہوگی۔ ہمارا وطن مولوفہ شکار پور ہے۔

ریختہ صفحہ 68
دوسرے صاحب: تو جو جی چاہے فرمائیے
بندا: مولوی صاحب آپ ان باتوں کا خیال نہ فرمائیے اپنی بات کہئیے۔
مولوی صاحب: بس اتنی ہی بات کہنی تھی جتنی کہہ دی۔
بندا: مولوی صاحب! خدا آپ کا دین دنیا دونوں میں بھلا کرے۔ ہم لوگ خود ان باتوں سے تنگ ہیں، آپ یوں کیجئیے کہ کل میں یہاں دس بیس اور کسبیاں جمع کر رکھوں گی، آپ آن کر وعظ فرمائیں۔ مگر مہربانی فرما کر اس بات کا بندوبست بھی کر دیجئیے کہ اگر وہ نکاح کرنے پر راضی ہو گئیں تو ان کے لئے مرد آپ کو ڈھونڈنے پڑیں گے۔ مولوی صاحب نے دونوں باتیں منظور کر لیں۔ دن بھر شہر کے شریوفوں میں ڈھنڈورا پیٹتے پھرے ، شام کو بندا کے ہاں آئے، یہاں ایک سے ایک طرحدار عورت موجود تھی۔ ادہر مولوی صاحب کا تماشا دیکھنے دس پانچ دل لگی باز بھی آ گئے تھے۔ مولوی صاحب نے نکاح کا وعظ فرمانا اور رنڈیوں نے انھیں چھیڑنا شروع کیا۔ اور تماش بینوں نے تالیاں بجانی شروع کیں۔ مولوی صاحب کا ناک میں دم آ گیا۔ لاکھوں گالیاں دیتے ہوئے بھاگے۔ دوسرے دن سے سارے شہر میں نام نکل گیا کہ میاں وہ جا رہا ہے "رنڈیوں کا نکاح" بازار کے لونڈے ان کے پیچھے رنڈیوں کا نکاح رنڈیوں کا نکاح کہہ کر تالیاں پیٹتے تھے۔ دو چار دن رہنا بھی دشوار ہو گیا۔ آخر اپنا یہاں سے منہ کالا کر لیا۔
برات میں سے میں بہت نا وقت کوئی گیارہ بجے رات کو گھر پہنچی، صبح اٹھی تو ہفتہ تھا۔ یعنی میڑ صاحب کے آنے کا دن تھا۔ منہ ہاتھ دھو کر فارغ ہوئی ہی تھی کہ وہ آ غئے۔ اور مشق نستعلیق اور اردو کی کئی چھوٹی چھوٹی کتابیں ساتھ لائے ۔ میرا خود جی چاہتا تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے میر صاحب سے مل کر خورشید کی ان باتوں کا ذکر کروں، اور ان کو اطمینان دلا دوں ، بارے وہ خود آ گئے۔ اتفاق سے

ریختہ صفحہ 69
اس دالان میں کوئی نہ تھا۔ بیٹھتے ہی انھوں نے کہا کہ آپ تو بارات میں مزے اڑاتی رہیں اور یہاں ہم تھے اور خورشید کا تصور۔ دیکھئے آپ ہمارا کام کب کر کے دیتی ہیں، یاد بھی ہے یا بھول گئیں، میں نے کہا میر صاحب میں بھولنے والی آدمی نہیں ہوں۔ مگر آپ کا کام بہت مشکل ہے، دوسرے آپ نے منہ میٹھا کرنے کا وعدہ بھی تو نہیں کیا۔
میر صاحب: منہ میٹھا کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ میں تو جو کچھ کہو، کرنے کو حاضر ہوں۔
میں: اگر میر صاحب آپ کا کام ابھی کر دوں تو۔۔۔
میر صاحب: ( بیچ میں بول کر) عمر بھر احسان مانوں گا۔
میں: میر صاحب میں نے آپ کا کام برات پر جانے سے پہلے کر دیا تھا۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اتوار کو آپ سے ملنا ہی نہ ہوا۔
اس کے بعد میں نے نواب ساحب کے ہاں مجرے میں جانے اور خورشید کو بلوانے اور دوسرے دن خورشید کے آنے کا سارا حال حرف بحرف سنایا، میر صاحب پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ بے تاب ہو کر میرے پاؤں کو ہاتھ لگانے لگے، اور ہزاروں دعائیں دینے لگے۔ میں پرے سرک گئی۔ اور ان کا رنگ ہلکا کرنے کے لئے پوچھا کہ میر صاحب اب بتاؤ کہ خورشید سے کہاں ملنا چاہتے ہو۔
میر صاحب: جہاں تم کہو، کیا یہاں ممکن ہے؟
میں: ممکن تو سب کچھ ہے، مگر میں اماں سے پوچھ لوں۔
میر صاحب: بہت اچھا لیکن آج ہی اس بات کو طے کر لینا۔ بس آج تمہارا پڑھنا ہو چکا۔ مجھ سے آج کچھ نہ ہو سکے گا۔ اب میں جاتا ہوں، ان شا اللہ کل پھر

ریختہ صفحہ 70
آؤں گا، مگر خدا کے واسطے جہاں اتنا احسان کیا ہے، وہاں یہ آنکھوں کی سوئیاں بھی نکال دو۔ صرف ایک دفعہ مل لوں۔
میر صاحب کے جانے کے بعد اماں میرے پاس آئیں اور استاد جی جو باورچی خانہ میں تھے۔ یہ کہہ کر جاؤ وہ کام کر آؤ۔ مجھ سے یوں کہنے لگیں۔
اماں: ننھی تیرے پیچھے ڈپٹی صاحب روز میرے پاس آتے رہے ہیں، بڑی محبت کے آدمی ہیں۔ کل یہ تیس چالیس روپے کا کپڑا بھی تیرے لئے دے گئے ہیں۔
یہ کہہ کر اٹھیں اور صندوق میں سےنکال کر جاکٹ اور کوٹ کی سبز اور اودی مخمل، خوبصورت کنارہ کیتون، دولائی کی اونی چھینٹ، گورنٹ بانکڑے کی پیمک، کرتوں کی فلالین، پاجامہ کی بانات، ایک جوڑی انگریزی کنگنوں کی، دو بکس عمدہ صابون کے اور چار پانچ طرح کا سوہن حلوہ میرے سامنے رکھ دیا، میں خوش ہو گئی اور ایک ایک چیز کو بڑے شوق سے دیکھا۔
اماں: ڈپٹی صاحب نے مجھ سے قسم کھائی ہے کہ سوائے یہاں کے اور کہیں نہ جاؤں گا اور میں نے بھی انھیں زبان دے دی ہے۔ آج انھوں نے خود ہی خرچ دینے کو کہا ہے، سو میں نے تیرے آ جانے کی خبر اس وقت استاد جی کے ہاتھ کہلا بھیجی ہے۔ ، دوپہر تک وہ ضرور آئیں گے۔تو ان سے ہر طرح کی محبت کی باتیں کیجیو۔ یہ آدمی نواب سے بہت زیادہ دل والا معلوم ہوتا ہے۔ اتنے نواب آئیں، اتنے ان کا رویہ اچھی طرح دیکھنا چاہئیے۔ سمجھ گئی، دیکھ خبردار کوئی ایسی بات نہ کیجیو کہ مجھے پھر سمجھانا پڑے۔
میں: نہیں اماں جان اللہ نے چاہا تو میں جس طرح آپ نے کہا ہے ویسا ہی کروں گی۔
اماں: اور ہاں میں نے ڈپٹی صاحب سے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ نواب صاحب
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 71
چھچھورے مزاج کے آدمی ہیں۔ اس لئے میں ان سے خوش نہیں ہوں۔ اس پر ڈپٹی ساحب نے اقرار کر لیا ہے کہ تیرے ملنے کا حال کسی سے نہ کہوں گا۔ کل یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ اپنے دوست مرزا صاحب کو بھی پوری پوری رسید نہ دوں گا۔ کبھی کبھی ساتھ تو لائیں گے مگر ان کے سامنے کوئی بات بے تکلفی کی نہ کریں گے۔ دیکھ ننھی تو بھی اس بات کا پورا پورا خیال رکھیو۔
میں: آپ خاطر جمع رکھیں ، میں ایسا ہی کروں گی۔
اماں: اور دیکھ ننھی یہ میر صاحب تو مجھے کچھ اول جلول سے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا زیادہ آنا اچھا نہیں ہے۔
میں: مگر میں نے تو ان سے پڑھنے لکھنے کا ڈھنگ دالا ہے، اور انھوں نے استاد جی سے کچھ سیکھنے کا۔
اماں: خیر تیری مرضی مگر آدمی نکمے معلوم ہوتے ہیں۔
میں: ( میر صاحب اور خورشید کا معاملہ یاد آنے سے) اماں ان بیچاروں پر ایک ایسی مصیبت پڑی ہے کہ آج تک اس سے نہیں پنپے۔
اماں: کیا مصیبت۔ تجھ سے کچھ کہتے تھے۔
میں: مجھ سے ایک خطا ہو گئی ہے تم معاف کر دو تو کہوں۔
اماں: کہتی کیوں نہیں۔
میں: یہ میر صاحب خورشید پر مرتے تھے، چنا خاں اور نتھن خان ان سے جلنے لگے، بیچاروں پر تہمت لگا دی کہ پہنچیاں لے گئے۔ جب سے آنا جانا بھی بند ہے۔ مجھ سے انھوں نے کہا تھا کہ خورشید سے ایک دفعہ ملا دو۔ خورشید کا دل ان سے صاف ہے۔ اب اگر تم اجازت دو تو کل اسے یہاں بلا کر ان سے ذرا سی دیر کو ملوا دوں۔

ریختہ صفحہ 72
اماں نے بہت غور سے میری بات کو سنا ، بڑی دیر خاموش رہیں اور میں ڈرنے لگی کہ اب انھوں نے مارا۔ خیر یہ تو نہ ہوا مگر اماں نے بڑی بیدلی سے کہا خیر یہ بات ہے تو بہت پیچ دار مگر میر صاحب ہمارا کہنا کرنے کی قسم کھائیں تو ہو جائے گی۔ کل میر صاحب آئیں تو پہلے ان سے قسم لے لیجیو۔ پھر خورشید کا بلائیو۔ وہ پوچھیں تو کہہ دیجیو کہ نواب صاحب کے آنے پر ہم تمہیں ان سے ملا دیں گے۔ ان کے رتی رتی حال کی خبر ہمیں دیتے رہنا۔ میں بہت اچھا کہہ کر چپکی ہو رہی۔ اور اماں اٹھ کر باورچی خانہ میں چلی گئیں۔ اب جو اکیلے میں مَیں نے ان کی باتوں کو غور کیا تو سب سے مشکل کام تو یہی معلوم ہوا کہ ڈپٹٹی صاحب سے اس طرح محبت کی باتیں کروں کہ انھیں سچ معلوم ہونے لگیں۔ میرا دل بلکہ رونگٹا رونگٹا نوب کو ڈھونڈتا تھا۔ ادھر یہاں یہ خدا دے اور بندہ لے سر پس پڑی کہ ڈپٹی صاحب سے چاہت کی باتیں کروں۔ کہتی تھی کہ یا اللہ یہ کیونکر ممکن ہے۔ ایک دل کہتا تھا کہ ڈپٹی صاحب سے جو آ کر بیٹھیں تو بیہٹھتے ہی کہہ دوں کہ جناب مجھے تو اختر زمان سے محبت ہے۔ اماں نے جو کچھ آپ سے کہا وہ جانیں اور آپ۔ مگر مجھ سے محبت کی امید نہ رکھئیے گا۔ ساتھ ہی اس کے جب یہ خیال آتا تھا کہ جب وہ بیچارے اتنی ساری چیزیں میرے لئے دے گئے ہیں ، کچھ نہ کچھ تو انھیں مجھ سے محبت ہے ہی جو اتنا خرچ کیا۔ تو جی میں آتا تھا کہ ضرور ان سے اچھی اچھی باتیں کروں۔ اور اس شش و پنج میں تھی کہ دل میں خود بخود یہ امنگ پیدا ہوئی کہ کرنا تو وہی پڑے گا جو اماں کہہ گئی ہیں، پھر اسے ایسی خوبصورتی سے نہ کرو کہ ڈپٹی صاحب کا دل مان جائے۔ اس خیال کے دل میں آنے سے ذرا خوشی معلوم ہونے لگی اور جی چاہنے لگا کہ اللہ کرے ڈپٹی صاحب جلدی سے آئیں ، دیکھیں تو اس بات میں کیسا مزہ آتا ہے۔ اب لگی منصوبے باندھنے کہ یوں بن کے بیٹھوں گی، یہ کہوں گی وہ کہوں گی۔ مگر معاً یہ معلوم ہونے لگا کہ اس وقت نواب صاحب دیکھ رہے

ریختہ صفحہ 73
ہوں گے۔ اس سے میں سرد پڑ گئی۔ دل میں ڈرنے لگی، بارے میری پریشانی اس بات سے رفع ہوئی کہ ننھی یہیں آ بیٹھ، گرم گرم پکتی جائے گی کھاتی جائیو۔ میرے کھانا کھاتے ہی میں استاد جی آ گئے اور آتے ہی کہنے لگے کہ جا ننھی جلدی جا، ڈپٹی صاحب آنے ہی والے ہیں۔ میں جھٹ پٹ اٹھی اور دالان میں اپنی جگہ پر قرینہ سے ہو کر آ بیٹھی۔ اور پان وان کھا کر میر صاحب کی لائین ہوئی کتابوں کو بے پروائی سے دیکھنے لگی۔ اتنے میں زینہ کے کواڑوں کے آہستہ سے کھلنے نے مجھے بتا دیا کہ ڈپٹی صاحب تشریف لے آئے۔ میں اسی طرح کتابوں کو دیکھتی رہی اور یہ ظاہر نہ کیا کہ میں نے انھیں دیکھ لیا ہے، دالان کا رُخ کرنے سے پہلے انھوں نے اماں کو بڑے ادب سے سلام کیا ، اور انھوں نے دعا دے کر دالان میض جانے کو کہا اب تو میں بھی سرو قد کھڑی ہو گئی۔ اور ان کی طرف نظر اٹھا کر اشارہ سے دالان میں آنے اور میرے پاس گاؤ تکیے کے برابر بیٹھنے کو کہا۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر دبی زبان سے کہا، " اللہ تیرا شکر ہے، میں تو صورت کو ترس گیا تھا۔ " میں نے ہنس کر کہا بیٹھئے تو سہی، پھر شکر بھی ادا کر لیجئے گا۔ کس جگہ بیٹھیں، کس جگہ نہ بیٹھیں، اس پر ذرا اصرار ہوا۔ آخر ڈپٹی صاحب میری منت سماجت پر گاؤ تکیہ سے لگ کر بیٹھ گئے۔ اور مجھے دیوار سے لگا ہوا اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔مزاج پرسی اور عطر و پان کے بعد ڈپٹی صاحب نے ذرا اپنی بے قراری کا ذکر کرنا شروع کیا ہی تھا کہ میں مڑک کر بولی کہ بس رہنے دیجئیے اس روز پرزہ بھیج کر کہ خبردار تو مجھ سے وہاں نہ بولیو آپ نے میرا دل بجھا دیا۔ بھلا ڈپٹی صاحب آپ کو وہاں کس کا ڈر تھا اور اگر آپ ایسے ہی سارے جہان سے ڈرتے ہیں تو کوئی کس توقع پر آپ سے محبت کرے۔ میرے آخری فقرے پر ڈپٹی صاحب لٹو ہو گئے۔ اور منت سے کہنے لگے کہ اگر مجھے خبر ہوتی کہ آپ کو میری وہ بات اس قدر بری معلوم ہو گی تو میں کبھی ایسا نہ کرتا

ریختہ صفحہ 74
میں: آپ نواب صاحب سے ڈرتے تھے مگر مجھے تو کسی کا خوف نہ تھا، میں نے تو پھر بھی کوئی کسر نہ رکھی۔
ڈپٹی صاحب: ننھی جان تم نے غضب کیا، ساری محفل کی آنکھیں میری طرف ہی تھیں۔
میں: اور کیوں جناب بائی جی کیسی ہیں، ( پھر ذرا ان کے پاس سے ادہر سرک کر) توبہ میں ناحق گھسی جاتی ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو چھوت لگ جائے۔ آپ تو بائی جی کے پاس بیٹھنے والے ہیں۔
ڈپٹی صاحب ریشہ حتمی ہو گئے اور کہا کہ میں پہلے ہی تمہاری والدہ سے قول و اقرار کر چکا ہوں ، اب للہ اس کا ذکر نہ نکالو۔ مجھے رنج ہوتا ہے۔ بھلا ننھی جان تمہیں دیکھنے کے بعد بائی جی تو درکنار کسی حور کا بھی خیال باقی رہ سکتا ہے ( مجھے اور پاس کر کے) تمہارے سر کی قسم اب مجھے بائی جی وائی جی کسی کا خیال نہیں۔
میں: ڈپٹی صاحب معاف فرمائیے گا میں تو یونہی چھیڑتی تھی، بھلا آپ کو میرا اتنا خیال نہ ہوتا تو یہ کپڑے وپڑے کی تکلیف کیوں اٹھاتے۔ ماشا اللہ سب چیزیں اچھی ہیں۔
ڈپٹی صاحب: الحمد للہ تم نے انھیں پسند کیا۔ اب جلدی سے سلوا لو کہ میں تمہیں انھیں پہنے ہوئے دیکھوں۔
میں: اور میں آپ کو کیا پہنے ہوئے دیکھوں، ڈپٹی صاحب یہ موٹے موٹے انگریزی کپڑے جیسے آپ پہنے ہیں، مجھے تو پسند نہیں۔
ڈپٹی صاحب نے اقرار کیا کہ جس قسم کا کپڑا تم کہو گی، پہنا کروں گا۔ پھر فرمایا کہ شاید اسی وجہ سے تم مجھ سے اتنی دور دور رہتی ہو کاش اس وقت میں یہ اچکن اور پتلون پہن کر نہ آتا۔ آج کا دن تو برباد نہ جاتا۔ اب کل زندہ رہے تو دیکھی جائے گی۔

ریختہ صفحہ 75
اس کے بعد ڈپٹی صاحب نے میری طرف جھک کر بائیں طرف کی لٹ میں سے دس پانچ بال نکال کر میرے رخسار پر پریشان کر دیے، اور ٹھنڈا سانس بھر کر کہا، "ہائے بلائیں لے لے" میں نیچی نظریں کئے ہوئے تو تھی ہی، شرما کر جھک گئی اور جھکی کہاں ان کے زانو کی طرف۔ پھر تو ڈپٹی صاحب نے مجھے کولی میں لے کیا اور خوب دل کھول کر پیار کیا، میں وہیں سے بولی کہ یہ عجیب دھینگا مشتی اور ظلم ہے ، بھلا کوئی اور اپنے دل کا کیا خاک ارمان نکال سکتا ہے، ڈپٹی صاحب تو اس فقرے پر بے تاب ہو گئے اور میرے کلیجہ میں اسی وقت نواب کی یاد دل میں آجانے سے ایک گھونسا سا لگا۔ انھوں نے مجھے اور میں نے اپنی بیشرمی کو اسی وقت چھوڑ دیا اور یہ بہت ہی اچھا ہوا کیونکہ اماں دالان کی طرف آ رہی تھیں۔ ڈپٹی صاحب نے گھبرائے گھبرائے اماں سے کہا آپ اتنی دیر سے کیا کر رہی تھیں۔ انھوں نے ہنس کر یونہی کچھ جواب دیا اور پھر آ کر بیٹھ گئیں۔ ادھر ادھر کی دو چار باتوں کے بعد اماں نے جھوٹ طوفان ڈپٹی صاحب سے کہنا شروع کیا ، ننھی بارات میں جاتے وقت تک آپ کو یاد کر رہی تھی، جب سے آئی ہے بیسیوں دفعہ پوچھ چکی ہے۔ آپ کی لائی ہوئی چیزوں کو کل یہ میری نظر بچا کر آنکھوں سے لگا رہی تھی۔ توبہ آج کل کی لڑکیاں کیسی ۔۔۔۔۔۔۔ ہیں یہ نہیں کہ دل میں رکھیں۔
ڈپٹی صاحب بہت ہی خوش ہوئے ، پھر ایک نظر میری طرف ڈال کر اماں سے بولے
ڈپٹی صاحب: یہ میری خوش نصیبی ہے کہ انھیں بھی میرا خیال ہے سب آپ بزرگوں کی تربیت کا نتیجہ ہے۔
اماں: ڈپٹی صاحب میری ننھی ذرا کم سخن ہے اوروں کی طرح تڑاق پڑاق
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 76
تو جانتی نہیں اور یہ مجھے پسند بھی نہیں ، مگر اتنا کہہ سکتی ہوں کہ جتنی بات منہ سے کہتی ہے اس سے دس گنا زیادہ خیال دل میں ہوتا ہے۔ ڈپٹی صاحب نے فرمایا کہ میں خود ایسے آدمی کو دل سے پسند کرتا ہوں جو زیادہ چرب زبان نہ ہو۔ اور پھر مجھ سے فرمایا کہ اس حساب سے ہم دونوں ایک مزاج کے معلوم ہوتے ہیں۔ میں شرما گئی۔ اماں اٹھنے لگیں مگر ڈپٹی صاحب نے انھیں یہ کہہ کر روکا کہ مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا، اور پھر یہ دونوں مجھ سے ذرا دور جا کے چپکے چپکے کچھ باتیں کرنے لگے۔ پہلے پہلے تو میں نے کچھ خیال نہ کیا۔ کیونکہ میں اس سوچ میں تھی کہ آج یہ کیا ہوا اور اس کا انجام کیا ہو گا۔ پھر جو نظر اٹھائی تو ڈپٹی صاحب کو اماں کے ہاتھ میں نوٹ دیتے ہوئے دیکھا۔ان باتوں میں صرف یہ بات اماں کے منہ سے سنی کہ ابھی ایسی جلدی کیا ہے ، دیرا ہے درستا ہے ( دیر آید درست آید) اس نے مجھے اور فکر میں ڈال دیا ، یہ دونوں خوش خوش جدا ہوئے، اماں باہر چلی گئیں اور ڈپٹی صاحب پھر میرے پاس آن بیٹھے، بیٹھتے ہی ڈپٹی صاحب نے پھر مجھ سے اختلاط کی باتیں شروع کیں، ہاتھ میں ہاتھ لے کر مہندی اور انگوٹی چھلّوں کی تعریف کی۔ اور میرے کرتے کے کف کھول کر کلائی کو آنکھوں سے لگایا ۔ اس وقت مجھے استاد جی کی وہ ترکیب جو انھوں نے مجھے نواب کے لئے بتائی تھی ، یاد آئی اور میں نے کہا، بھلا آپ بھی ایسے کالے کلوٹے ہاتھ کو پیار کرتے ہیں جس میں نہ ۔۔۔۔۔۔ نہ کڑے، ان پہونچیوں اور بیڑیوں کو کوئی کہاں تک اوڑھے بچھائے۔ اماں کہہ تو رہی تھیں کہ تجھے اور کچھ بنوا دوں گی اور یہ کہہ کر میں نے آہستہ سے ہاتھ چھڑا لیا۔ ڈپٹی صاحب پہلے تو رکے مگر پھر بڑے شوق اور امنگ سے بولے کہ ننھی جان اللہ نے چاہا تو سب کچھ ہو جائے گا۔ تمہاری اماں نے منظور تو کر لیا ہے۔ میں نے کچھ سچ مچ جل کے اور کچھ طعن سے کہا کہ " لوگوں کو

ریختہ صفحہ 77
اپنی پڑی رہتی ہے" اور انگڑائی لے کر گاؤ تکیہ پر سر رکھ لیا، ڈپٹی صاحب نے غرور کے ساتھ یہ شعر پڑھا؎
کروں گا میں بھی ترا ایک ہی لہو پانی
جو دم میں دم مرے اے تیغ یار باقی ہے
اور پھر میری طرف بڑھنے لگے۔ اس وقت میں اپنے خیال میں کہیں اور پہنچ چکی تھی۔ مجھے اماں اور اماں کی باتوں پر غصہ آ رہا تھا اور ڈپٹی صاحب کی صورت سے بیزار تھی۔ میں نے آہستہ سے ڈپٹی صاحب کا ہاتھ پرے کر دیا اور خود چٹخ کر پرے ہو گئی اس پر ڈپٹی صاحب بولے، " اوہو نواب صاحب یاد آ رہے ہیں
میں : ڈپٹی صاحب آپ کسی کا نام لینے والے کون ہیں؟ آپ نے مجھے کیا مقرر کیا ہے ذرا سیدھے بیٹھئیے۔
ڈپٹی صاحب حیرت میں رہ گئی اور کہنے لگے کہ ہیں اپ تو سچ مچ بگڑنے لگیں۔ جی میں تو آئی کہ دو چار ایسی کوری کوری سناؤں کہ سب کچھ بھول جائیں۔ مگر پھر جو خیال آیا کہ یہ اماں سے کہہ دیں گے تو وہ قیامت توڑیں گی۔ تو جھٹ پلٹ گئی اور کہا کہ نہیں میں تو یہ کہتی تھی کہ آپ نواب صاحب کا نام نہ لیں، اماں سنیں گی تو خفا ہوں گی، وہ ان سے ناراض ہیں، رہی مجھے ہاتھ لگانے کی ، سو وہ یہ ہے کہ اب تک جو ہوا سو ہوا۔ آیندہ جب تک اپ مجھ سے درگیا کا سارا قصہ اور نواب صاحب کے سامنے اس قدر دبے دبے رہنے کی پوری پوری وجہ نہ بتا دیں گے تب تک میری آپ کی دور ہی کی علیک سلیک اچھی ہے۔
ڈپٹی صاحب ہنس پڑے اور میرے سر کی قسم کھا کر کہ سچ سچ کہتا ہوںاس طرح فرمانا شروع کیا
ننھی جان اصل میں دُرگیا کے ہاں جانے کی وجہ یہی میرے دوست مرزا

ریختہ صفحہ 78
صاحب ہوئے تھے، جو اس روز میرے ساتھ آئے تھے، بعد میں کچھ ایسی افتاد پڑی کہ انھوں نے جانا چھوڑ دیا ، وہ ٹہرے صوفی آدمی، دُرگیا ان سے کچھ اور چاہنے لگی۔ حضرت خود تو الگے ہو گئے اور مجھے آگے رکھوا دیا۔ دس بیس دفعہ میں وہاں گیا اور وہ بھی زیادہ تر مرزا صاحب کی خاطر جمع کے لئے اس کی خیر صلاح پوچھنے، اس سے زیادہ کچھ ہوا ہو تو چاہے جیسی قسم لے لو ، کل میں نے ایک آدمی سے یہ بھی سنا ہے کہ اس نے مرزا صاحب کو اوپر ہی اوپر بلوایا تھا، میری ان سے کئی دن سے ملاقات بھی نہیں ہوئی ورنہ پوچھتا۔
میں: اور نواب صاحب سے اس قدر چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔
ڈپٹی صاحب: ننھی اسے تم ناحق پوچھتی ہو۔ وہ میرے لڑکپن کے یار ہیں۔ میں ان کا پردہ فاش کرنا اچھا نہیں سمجھتا۔
میں: واہ اب تو میں پوچھ کے رہوں گی، تریا ہٹ آپ نے سنی نہیں؟
ڈپٹی صاحب: مگر خدا کی قسم ان سے کہنا نہیں۔
میں: اب کہتے بھی ہو۔
ڈپٹی صاحب: اصل یہ ہے کہ اختر زمان بہت دنوں سے تمہاری تعریف کیا کرتا تھا، جس دن سے تمہارے ہاں سے ہو کر گیا ہے ، اس دن تو تمہاری تعریفوں کے مارے ہمارا ناک میں دم کر دیا، شام کو اتفاق سے ہم نے تمہیں پنڈت کے کوچے کے آگے دیکھا، رات کو نواب کے ہاں دعوت تھی، وہاں جو گئے تو ہم نے اتا پتا دیا، تحقیق ہوا کہ آپ ہی ہیں۔ دوسرے روز صبح کو ہم ارادتاً آئے، تیسرے پہر کو نواب یہاں سے ہو کر سیدھا ہمارے ہاں پہونچا اور آپ کی عنایت اور اپنی خوش نصیبی پر جھومتا تھا، ہم نے سوچا اگر کہہ دیتے ہیں کہ ہم بھی ہو آئے ہیں تو اس کا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔ خاموش ہو رہے، پھر آپ کو وہ خط لکھا، نواب

ریختہ صفحہ 79
کی عادت ہے کہ مہینے دو مہینے کے لئے تو بالکل مجنوں بن جاتا ہے مگر بعد میں کچھ بھی نہیں۔ اس کی وہی مثل ہے؎
آندھی کی طرح آئی طبیعت جدہر آئی
ننھی جان میں تم سے بھی کہوں گا کہ ذرا اس سے چوکنّی رہنا۔ آدمی ہے خوبصورت کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر وار کر جائے۔
جس طرح یہ باتیں میں نے سنیں میرا ہی دل جانتا ہے۔ اتے پتے سارے ڈپٹی صاحب نے ٹھیک دئیے۔ بھلا پھر اس سے ان کی آخری بات کا یقین کیونکر نہ کرتی۔ ساتھ ہی اس کے دل کب مانتا تھا کہ نواب کو لا ابالی سمجھوں، اس شش و پنج میں ڈپٹی صاحب کو جواب دیا کہ " خیر بے چارے نواب میرا کیا کریں گے۔ مجھے ان سے ایسا کیا واسطہ ہے۔ ، واقعی ڈپٹی صاحب اب میرا شبہ رفع ہو گیا۔ آپ نے بڑا ہی احسان کیا جو یہ باتیں بتائیں۔"
میں ابھی بات ختم بھی نہ کر پائی تھی کہ وہی لڑکا جو اس دن ڈپٹی صاحب کا رقعہ میرے پاس لایا تھا، دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ حضور آپ کے ماموں جان آپ کی نوکری کی خبر لائے ہیں۔ آور آپ کی ڈھونڈیا پڑ رہی ہے۔ میں یہاں بھاگا ہوا چلا آیا۔ ڈپٹی صاحب فوراً اٹھے، اماں بھی مبارکباد دیتی ہوئی باورچی خانہ سے چلی ائیں۔ میں نے بھی مبارکباد دی اور ڈپٹی صاحب رخصت ہوئے۔
کئی دن تک ڈپٹی صاحب نہ آئے ، اماں کو کہاں چین آتا تھا ، پھیرے پر پھیرے استاد جی کو کروائے۔ آخر کو معلوم ہوا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب دورے پر ہیں۔ان سے ملنے گئے ہیں اور وہاں سے پنجاب میں تحصیلدار ہو جائیں گے۔ ڈپٹی صاحب کے پیچھے ایک بڑا کام یہ ہو گیا کہ میر صاحب اور خورشید کا ملنا ہو گیا۔ اور ان دونوں کا دل صاف ہو گیا۔ اور یہ بات طے ہو گئی کہ وہ آٹھویں دسویں ایسے

ریختہ صفحہ 80
وقت پر جو میر صاحب کا مجھے پڑھانے کا ہو، آ جایا کرے گی ۔ میر صاحب مجھے خوشی خوشی پڑھانے لگے۔ اور استاد جی بھی تیسرے پہر انھیں گانا سکھانے جانے لگے۔ یہ تین چار دن میں خاصی فرصت میں رہی کیونکہ سوائےمیر صاحب کے اور کوئی آنے جانے والا نہ تھا اور وہ بھی ذرا سی دیر کو صبح کو آتے تھے۔ ڈپٹی صاحب کے لائے ہوئے کپڑے سینے کو دے دئیے اور بہت تاکید سے جلدی جلدی تیار کئے گئے، اب میں ان باتوں کو چپ دیکھ رہی ہوں۔ اور ہر وقت اس سوچ میں ہوں کہ یا اللہ ہو گا کیا۔ اماں اور ڈپٹی صاحب کی باتوں کا جوں جوں الٹ پھیر دل میں کرتی تھی، ووں ووں نواب کا خیال دل میں بڑھتا تھا۔ رفتہ رفتہ مجھے معلوم ہونے لگا کہ میں تو نواب کی امانت ہوں۔ اور اس خیال سے دہشت آنے لگی کہ اگر اس امانت میں خیانت ہونے لگی تو میں عمر بھر نواب کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی۔
ایک دن تیسرے پہر کو اس پریشانی میں بیٹھی تھی کہ زینہ میں سے آواز آئی۔ "ابے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( بہن کی گالی دے کر) یہی کوٹھا ہے، میں سمجھی کہ ہمارے پڑوس میں جو نقال رہتے ہیں ان کے ہاں کوئی آیا ہو گا۔ مگر یہ خیال غلط نکلا ۔ کیونکہ ایک لمحہ بھر میں ایک کے پیچھے ایک تین آدمی کارخانہ والوں کی سی وضع کے مکان میں داخل ہوئے ، تینوں آدمی جوان تھے۔ ایک صاحب کا حلیہ یہ تھا کہ سبز نیم زری کی لیس دار ٹوپی سر پر، سفید انگرکھے پر سیاہ ساز دار صدری پہنے ہوئے ٹخنوں سے اونچا بٹنوں دار پاجامہ ، سپاٹ جوتی، شنگرفی چادر بغل میں،دوسر صاحب میلا سا تہ بند باندھے ہوئے اور معمولی چھینٹ کی دولائی اوڑھے ہوئے , ان کی ٹوپی میلی تھی، ہاتھ پاؤں کہے دیتے تھے کہ لڑنت کرتے ہیں۔ تیسرے صاحب کی سب سے زیادہ انوکھی بات یہ تھی کہ اُن
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 81
کے سے کے بال پیچھے کی طرف ایسے لٹکے ہوئے تھے جیسے مُحال لٹکی ہوتی ہے۔ ، جب یہ لوگ صحن میں داخل ہوئے تو اتفاق سے اس وقت گھر میں مَیں ہی تھی، اماں استاد جی کو لے کر اُسی وقت سنار کے ہاں گئی تھیں۔ میں پہلے تو ذرا رُکی پھر اپنی عادت کے موافق کھڑے ہو کر کہا آئیے اندر آئیے۔ کیونکر تشریف لانا ہوا۔
پہلوان نما صاحب: ننھی جان تمہارا ہی نام ہے؟ ہمارے کارخانہ دار ( لیس کی ٹوپی والے صاحب کی طرف اشارہ کر کے) مجرے کی سائی(ساعی) دینے آئے ہیں۔
پریشان بالوں والے: ابے بھائی بیٹھ تو سہی۔ بڑا بے وَیَدت ہے، یہیں سے مجرے کے لئے کہہ ریا ہے ( کہہ رہا ہے)۔
پہلوان : دیکھ بے گپّو تو یہاں بھی نہیں چوکتا۔ اللہ یانے (اللہ جانے) ناک میں دم کر دوں گا۔
میں: صاحب اندر آئیے یہیں آ کر مذاق کر لیجئے گا۔
بارے وہ تینوں صاحب آ کر دالان میں بیٹھ گئے، اور کارخانہ دار نے بہت سنبھل سنبھل کر فرمایا،
کارخانہ دار: وہ پنڈک کے کونچے میں (پنڈت کے کوچے میں) جو ڈپٹی صاحب رہتے ہیں بھلا ہی سا نام ہے ، ہمارے ہاں جمعہ کے جمعے گلدموں کی سیل (سیر) دیکھنے آیا کرتے تھے، وہ تمہاری بہت تعریف کرتے تھے۔ ہم نے کہا چلو ان کا مجرا ہی سن ڈالو، بات ہی کون سی ہے۔
میں: ان کی عنایت ہے میں کس قابل ہوں۔ آپ نے بڑی مہربانی فرمائی۔ میری اماں اور استاد جی ابھی آتے ہوں گے، ان سے فرمائیے گا۔ اتنے میں آپ پان کھائیے

ریختہ صفحہ 82
اور یہ کہہ کر میں نے پاندان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ مگر پہلوان صاحب بیہساختہ بولے
پہلوان: بس جی پان وان کو تو رہنے دو، ہمیں تو ایک سلفہ پلوا دو۔
گپّو: ابے تو بھی ایمخ ہی ہے۔ اب یہ تیرے لئے خود جائیں۔ کوئی آ جائے تو تیرے منہ کو آگ لگوا دیں گی۔
میں : نہیں جناب مجھے کیا عذر ہے۔ مگر مجھے معلوم نہیں کہ تنباکو کہاں رکھا ہے۔ اصل میں مَیں تو حقہ پیتی نہیں۔ نہ اس وقت ماما ہے نہ کوئی اور۔
پہلوان: (تہ بند کی البیٹ میں سے پتہ میں لپٹا ہوا نکال کر) صاحب تماخو ( تنباکو) تو یہ موجود ہے۔ تم ہمیں حقہ اور آگ بتا دو، ہم خود بھر لیں گے۔پھر گپّو کی طرف دیکھ کر اور گالی دے کر۔۔۔۔۔۔۔۔ تجھے نہیں پلانے کا کبھی اس خوشی میں ہو۔!
کارخانہ دار نے انھیں ڈانٹا پھر مجھ سے کہا کہ معاف کرنا ، ہمارے پہلوان اللہ میاں کے سانڈ ہیں۔ میں ہنس پڑی اور پہلوان سے کہا کہ ذرا ٹہرئیے ، ابھی حقہ آ جائے گا۔ مگر بھلا وہ کب مانتے تھے۔ باورچی خانہ میں جا کر حقہ ڈھونڈ لیا اور سلفہ بھر کر دالان کے باہر ہی اکڑوں بیٹھ کر چلم کو جوتی سے تھپک تھپک کر پینے لگے ، میں بالوں والے صاحب سے مخاطب ہوئی اور کہا کہ ماشااللہ آپ کے بال تو بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کو ان پر بڑی محنت کرنی پڑتی ہو گی۔
گپّو: اجی خبصورت (خوبصورت) تو کیا ہیں مگر آرام بہت دیتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ میری کئی آدمیوں سے گھنٹے کی بدی ہوئی ہے، ان سے ذرا گدّی بچی رہتی ہے، ایک دن ایک لمڈے (لونڈے) نے ایسے زور سے ایک لپڑّ (تھپّڑ) مارا تھا کہ تارے دکھائی دینے لگے، جب سے میں نے یہ بال رکھ لئے ہیں۔

ریختہ صفحہ 83
یوں فرمائیے۔
یہ ہو ہی رہا تھا کہ اماں اور استاد جی آ گئے۔ اور ان لوگوں کو دیکھ کر سیدھے دالان ہی میں آئے۔ میں نے استاد جی سے ان کے آنے کی وجہ بیان کی۔ استاد جی نے ان سے عذر کیا کہ ایک دو دن انھیں معاف کرو، پھر جب آپ انھیں بلائیں گے، آ جائیں گی۔مجھے اس پر تعجّب ہوا اور وہ لوگ بد دل ہو کر اٹھ گئے۔ بعد ازاں استاد جی تو اماں سے کچھ اشارہ کر کے بازار چلے گئے اور اماں نے باورچی خانہ میں خود آ کر پانی گرم کیا اور مجھے بلایا کہ سر دھو لے۔ مجھے اس پر تعجب ہوا کیونکہ اس وقت کوئی چار بجے کا عمل ہو گا اور خاصی ٹھنڈک ہو گئی تھی۔مگر ناچار اٹھی ۔ سر ملنے میں انھوں نے مکھ سے ایسی ایسی باتیں کیں کہ میرے کانوں نے کبھی نہ سنی تھیں۔ میں حیرت میں تھی کہ یہ اماں ہو کر کیا کہہ رہی ہیں۔ اب مجھے اس اہتمام کی وجہ معلوم ہوئی، کلیجہ دھڑکنے لگا اور طبیعت پریشان ہونے لگی۔ بڑی وجہ یہ تھی کہ جب میرا دل نواب پر مائل ہوئی تھی تو میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ڈپٹی صاحب یوں وار کر جائیں گے اور میں اماں کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس طرح دیکھتی کی دیکھتی رہ جاؤں گی۔
ماما بھی جلدی جلدی پکا کر چلی گئی اور سازندوں سے بھی استاد جی نے کہلا بھیجا کہ آج ان کا جی اچھا نہیں ہے، تعلیم نہ لیں گی۔ سویرے سویرے سب کھانا کھا کر فارغ ہو گئے، مجھے خبر نہیں کس جرم میں آج پیٹ بھر کر کھانا بھی نہ ملا۔ اول تو میں اسی وقت سے اداس تھی جب اماں نے سر دھلوایا تھا۔ دوسرے شام سے یہ سناٹا دیکھا اور بھی چُپ چُپ ہو گئی اور اپنی مسہری پر جا کر لیٹ گئی۔ وہاں سرہانے کی الماری میں مَیں نے عطر، پان، پھول اور مٹھائیوں کا نیا سامان دیکھا اور اب مجھے یہ خیال آیا کہ ضرور یہ سب کاروائی استاد جی کی کی ہوئی ہے مسہری پر

ریختہ صفحہ 84
لیٹ کر میں نے دل میں نواب سے باتیں کرنی شروع کیں۔ اور گویا اپنی بے بسی اور مجبوری پر ان کے آگے منتیں کرنے لگی کہ خدا کے واسطے تم مجھ سے بدگمان نہ ہونا، اس میں میرا قصور نہیں ہے۔ ان لوگوں نے مجھے اس جنجال میں پھنسا دیا ہے۔ اس وقت بھی تم آ جاؤ تو میری جان عذاب سے بچ جائے۔ یا اللہ میں کس آفت میں آ گئی۔ اس کے بعد میں سچ مچ چپکے چپکے رونے لگی اور اسی میں میری آنکھ لگ گئی۔ خبر نہیں میں کتنی دیر اس غشی کی حالت میں پڑی رہی، مگر غالباً دس بجے ہوں گے جب دالان میں پردے چھوڑنے کی آواز نے مجھے ہوشیار کیا، گھبرا کر باہر آئی تو دیکھا کہ یہ سب کام ڈپٹی صاحب خود کر رہے ہیں۔ میں ڈر کر پھر اندر چلی گئی۔ اور ڈپٹی صاحب بھی اپنے لباس کی بھڑک دکھاتے ہوئے اور کنٹھے کی خوشبو کا جھونکا دیتے ہوئے میرے ساتھ داخل ہوئے۔ بڑے شوق اور بے تکلفی سے کنٹھا میرے گلے میں ڈال دیا، پھر ٹھنڈا سانس بھر کر کہا کہ" ہمارے ہی حسبِ حال کسی نے یہ شعر کہا ہے
اے شمع تیری عمر طبعی ہے ایک رات
رو کو گزار یا اسے ہنس کر گزار دے
ننھی جان کل دس بجے کی گاڑی میں ہمارا امرتسر کو کوچ ہے۔دیکھئے پھر کب ملنا ہوتا ہے۔ آج ہمیں خوش کرنا یا رنج دینا دونوں تمہارے ہاتھ میں ہیں۔ " کلیجہ تو میرا پہلے ہی دھڑک رہا تھا ، اب منہ بھی خشک ہونے لگا۔ بڑی مشکل سے رُک رُک کر کہا اس سے بڑھ کر اور خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ آپ کو نوکری مل گئی، جب چاہے آپ چھٹی لے کر آ سکتے ہیں۔
ڈپٹی صاحب: ننھی جان چھٹی ملنی کیا میرے اختیار میں ہے، دیکھئے تو کب ملنا ہو۔

ریختہ صفحہ 85
میں: آپ کا آنا نہ ہو تو مجھے ہی وہاں بلوا لیجئیے گا۔ اور یہ فقرہ میرے منہ سے بے ساختہ شاید اس وجہ سے نکلا کہ میرا دل اندر ہی اندر چاہتا تھا کہ کسی طرح ڈپٹی صاحب آج کے دن کو اس قدر ضروری اور اٹل قرار نہ دیں۔ مگر جو دل چاہا کرتا ہے وہ ہمیشہ کب ہوتا ہے۔ یہ بات نہ ہونی تھی نہ ہوئی۔ اور صبح اٹھ کر مجھ کو دل کے آنسوؤں سے رو کر یہ شعر پڑھنا پڑا؎
اسیر پنجہ ء عہدِ شباب کر کے مجھے
کہاں گیا میرا بچپن خراب کر کے مجھے
آج میں کوئی گیارہ بجے کمرے میں سے نکلی اور جب منہ ہاتھ دھو کر دالان میں پان کھانے کے لئے بیٹھی تو چوڑیوں کے ٹکڑوں پر نظر جا پڑنے سے ( جو ماما نے کمرے کی صفائی کرنے میں بد احتیاطی سے میری مسہری پر سے اٹھا کر طاق میں ڈال دئیے تھے) میرے کلیجہ پر نواب کی یاد میں سانپ سا لوٹنے لگا مگر میں کیا کر سکتی تھی۔ سب لوگ آج مجھ سے الگ الگ ہی رہے یا یوں کہئیے کہ میں دن بھر کچھ چور سی رہی اور خود کسی سے چار آنکھیں کر کے بات نہ کر سکی۔ کئی دن اسی طرح گزرے۔ بیچارے میر صاحب صبح کو پڑھانے آ جاتے تھے اور تھوڑی ہی دیر اپنا اور خورشید کا ذکر کرتے اور چلے جاتے تھے۔ اس دن بھی آئے ، مگر کسی نے کہہ دیا کہ ان کا جی ماندہ ہے ۔ بیچارے روز خیر صلاح پوچھ کر میرے سینہ پر نیا داغ دے جاتے تھے، مگر اس میں ان کا کیا قصور تھا ۔ کارخانہ دار صاحب ایک دن پھر آئے اور استاد جی نے مجرے کی ساعی لے لی۔ میری انھوں نے اپنے مکان پر بڑی خاطر تواضع کی اور ان کے جلسہ کے لوگوں میں یہ بات ٹہر گئی کہ آٹھویں دن میرا مجرا ہوا کرے گا۔ مجھے ان کے ہاں مجرے میں جانا ایسا بھاگوان ہوا کہ روز کہیں نہ کہیں سے پیغام آ جاتا تھا، یہ حالت دیکھ کر اماں نے میر صاحب سے کہہ کر کہیں سے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 86
محفل کا تعویذ منگا دیا، اور وہ میں بڑی احتیاط سے چوٹی میں رکھتی تھی۔ اللہ کے نام میں بڑی تاثیر ہے، تعویذ کا پہننا ایک پر ایک ہو گیا۔ آتھ دس ہی دن میں سارے شہر میں میرے بتانے ، گانے اور ناچنے کی تعریف مشہور ہو گئی۔ جس دن شام کو تعلیم لیتی تھی ، اس دن بیسوں آدمی جمع ہو جاتے تھے اور دس بیس آدمی کوٹھے کے نیچے کھڑے ہو جاتے تھے۔
اب میں ہر وقت گھر ہی رہنے لگی۔ اور اس میں نواب کے آنے کی انتظاری مجھے ویسی بیقراری سے نہ رہی جیسی پہلے تھی۔ اب میرے دل میں ہر وقت یہ الٹ پھیر رہنے لگی کہ اس شعر کو یوں بتاؤں گی ، اسے یوں گاؤں گی اس طرح کھڑی ہوں گی اس طرح بیٹھوں گی ۔گھر پر لوگ آئیں گے تو ایسی ایسی باتیں کروں گی، الغرض عاشقی معشوقی سب بھول کر اس ریوڑی کے پھیر میں آ گئی۔ میرے منہ کی چیزیں لڑکے بازار میں گاتے پھرنے لگے خصوصاً یہ شعر تو بہت ہی لوگوں کی زبان پر تھا؎
بنا دیا میری قسمت نے پھول کو کانٹا
کھٹکتے ہیں میری نظروں میں وہ سمائے ہوئے
نواب کے لاہور سے آنے میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ کی دیر لگ گئی۔ مگر نہ مجھے نہ گھر میں کسی کو اس کا زیادہ خیال ہوا کیونکہ ناچ مجروں میں جانے سے اول تو ہر وقت کی مصروفیت تھی ، دوسرے فائدہ بھی خاطر خواہ ہوتا تھا۔ میرا ہواؤ دن بدن کھلتا گیا اور ذومعنی فقروں اور ہنسی مذاق کی باتوں میں خوب دل لگنے لگا۔
ایک نئی بات مجھے خود بخود یہ آ گئی کہ بات پیچھے کرتی تھی اور گردن پہلے مٹکا لیتی تھی۔ نئی نئی تعریف کرنے والوں کی ملاقات، ناچ مجروں میں طرح طرح کی خاطر مدارت، دلچسپ مذاق کی باتیں، اچھے سے اچھا پہننا، عمدہ سے عمدہ

ریختہ صفحہ 87
کھانا، شام کو بن ٹھن کر ہوا خوری کو نکلنا، غرض دن عید رات شب برات گزرنے لگی۔مکان کی ٹیپ ٹاپ میں بھی اماں نے کچھ اضافہ کیا۔ دو تین چیزوں (زیور) کا بھی اضافہ ہو گیا۔ اور چاوڑی بازار میں مَیں ہی مَیں پکاری جانے لگی۔
نواب صاحب کا لاہور سے آنا
نواب آئے تو فرمائشوں سے بھرے ہوئے، اماں نے بڑی آؤ بھگت کی، تیل ماش اور کونڈا بھیجنے کی تجویز کی مگر جب انھوں نے اپنے گھر پر بھیجنے سے منع کیا تو ہمارے ہی مکان پر یہ سب کچھ کر دیا گیا۔ نواب مجھ سے ملے تو خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے تھے ۔ اس دو ڈیڑھ مہینے کے پنجاب میں رہنے سے ما شا ء اللہ ذرا تیار بھی ہو گئے تھے۔ اور جن کاموں کے لئے گئے تھے وہ بھی حسبِ دلخواہ انجام پا گئے۔ اس سبب سے نہایت مطمئن تھے ، خود انھوں نے پہلے ہی دن فرمایا کہ اب مجھے فکر نہیں ہے۔ سب جائداد میرے نام ہو گئی ہے۔ اور گاؤں ملک کا جھگڑا بھی طے ہو گیا ہے۔ دس پانچ دن ٹہر کر ذرا دیوان خانہ میں ترمیم کراؤں گا اور پھر خوب عیش سے زندگی بسر ہوا کرے گی۔ لاہور سے آ کر نواب برابر تیسرے پہر کو آتے تھے اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھ کر چلے جاتے تھے، میں بھی پھر خاصی ہل گئی اور لگی آٹھ پہر انھی کا تصور کرنے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی چیز کھانے کو وہ بھیج دیتے تھے۔ انگور کی پٹاریاں، میوے سنترے وغیرہ میرے ہاں پھکے پھرنے لگے۔ حلوہ سوہن سے جی اکتا گیا، ڈپٹی صاحب کے لائے ہوئے کپڑے جھنیں آماں نے یوں ظاہر کیا تھا کہ آپ کے آنے کی خوشی میں مَیں نے اسےبنا کر دئیے ہیں نواب نے بد زیب قرار دے کر نئی وضع کی دو جیکٹیں ایک

ریختہ صفحہ 88
بسنتی چادر جوڑا، سیاہ مخمل کی سلمے کی جوتی، یہ وہ غرض بہت سی چیزیں مہیا کر دیں۔ خود بھی پہلے سے زیادہ بنے ٹھنے رہنے لگے۔ دس پانچ ہی روز میں پرانی ٹم ٹم علیٰحدہ کر کے نئی خریدی، ایک گھوڑا اور لیا ، دو نوکر اور بڑھائے اور خوب کروفر سے رہنے لگے۔ دوسرے تیسرے روز میرا مجرا بھی ضرور ہوتا تھا۔
نئے نئے دوست آتے تھے اور خوب ہنسی مذاق رہتا تھا۔ ایک دن معمول کے موافق نواب تیسرے پہر کو آئے۔ میں دالان میں تھی اور اماں صحن میں چارپائی پر دھوپ میں بیٹھی تھیں۔ میں اٹھی مگر وہ اماں کے پاس کھری چارپائی پر جا بیٹھے اور کانا پھوسی شروع کی۔ میں راہ دیکھ رہی ہوں کہ اب آتے ہیں مگر ابن دونوں نے وہیں شام کر دی۔ میرا جی جل گیا اور پھر وہ جو چلتے وقت کھڑے کھڑے دالان میں میرے پاس آئے تو میں نے رُخ سے بات تک بھی نہ کی، وہ بھی شرمائے شرمائے چلے گئے۔ آج شام کو تعلیم لینے کے بعد اماں نے استاد جی سے کھلم کھلا نواب کے اور میرے تعلق کی نسبت میرے سامنے ذکر کرنا شروع کر دیا۔ اور جوڑے وغیرہ کی بات چیت کی۔ برادری کے لوگوں کو اکٹھا کرنے اور کھانا دینے کا حساب کیا۔ اس سارے ذکر سے جو میرے دل کی حالت ہوئی بیان سے باہر ہے۔ یہ سب باتیں میری انتہائی خوشی کی تھیں۔ دل باغ باغ ہوا جاتا تھا مگر ایک کانٹا دل میں ضرور کھٹک جاتا تھا یعنی وہ ڈپٹی صاحب کا معاملہ۔ اب میں نواب سے اور نواب مجھ سے بہت بے حجاب ہو کر ملنے لگے۔ اماں استاد جی نے بھی پہرہ چوکی موقوف کر دیا۔ اور دو ہی چار دن میں خورشید اور سب برابر والیوں کو خبر ہو گئی، ایک نہ ایک روز میرے پاس آتی تھی، خورشید جس دن تیسرے پہر کو آتی، اور نواب بیٹھے ہوئے ہوتے تو خوب خوب چھیڑتی۔ میں دل ہی دل میں خوش ہوتی، یہی دن میری

ریختہ صفحہ 89
زندگی میں کچھ عجب لطف اور بہار کے تھے۔ قصہ کوتاہ آٹھ دس دن میں جوڑا تیار ہو گیا، کوئی اچھا سا دن تجویز کر کے گھر والوں نے سب سامان لیس کیا ، کڑہائی چڑھائی ، سب لوگ بلائے گئے ، اس بڈ ذات خورشید نے میٹھی میٹھی چٹکیاں لے کر میری چوڑی مہندی کی، سب ہمجولیوں نے دالان میں رات بھر گانے بجانے کا اودھم رکا، شام سے نواب آ گئے تھے، انھیں طرح طرح سے دق کیا ، اسی شورِ محشر میں مجھے اور نواب کو لطف سمجھو خواہ بے لطفی صبح کرنی پڑی۔ میں تو اب تک اسی زعم میں تھی کہ مجھے ہی محبت ہے مگر نواب کے آج کے برتاؤ نے مجھے پورا پورا یقین دلایا کہ وہ بھی دل و جان سے مجھ پر عاشق ہیں۔ ڈپٹی صاحب کا کہنا کہ ان کی عادت یہ ہے کہ چند روز بعد چھوڑ دیتے ہیں مجھے کھٹکتا تو تھا مگر نواب صاحب کی منت سماجت، خوشامد درآمد اور پیار محبت کے ریلے کے آگے سب شک و شبہ بہہ گئے اور مجھے ان کی آغوشِ شوق دونوں جہان کی نعمت سے بڑھ کر معلوم ہونے لگی۔ نواب مجھ سے پہلے کمرہ میں بھیج دئیے گئے تھے ، اتنے خورشید نے میرا بناؤ سنگھار کیا اتنے وہ بیچارے اندر ہی رہے جب مجھے اندر دھکا دیا، میں اس خیال میں تھی کہ وہ تنہائی سے ملول ہوں گے اور ضرور مجھ کو برا بھلا کہیں گے۔ مگر اندر قدم رکھتے ہی کیا دیکھتی ہوں کہ مسہری کے برابر فرش پر بے پرواہی سے بیٹھے ہوئے مڑ مڑ کر میرے گل تکیوں کو پیار کر رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر ایسے مست و مخمور اٹھے کہ مجھے شبہہ ہوا مگر دراصل وہ صرف محبت اور دلی شوق کا نشہ تھا ، اللہ اکبر کیا وقت اور کیا سماں تھا۔ ان کا دونوں ہاتھ پھیلا کر مجھے لے لینا یا یوں کہو کہ میرا خود اپنے ارمان بھرے دل کے جبر سے ٹوٹ کر ان پر جا گرنا ، دونوں کے منہ سے ایک حرف نہ نکلنا ، عطرِ سہاگ کی مست خوشبو، پھولوں کی بہار اور لیمپ کی

ریختہ صفحہ 90
تیز روشنی ہمارے دست و بغل ہونے پر آنکھیں بچھاتی ہوئی ، نواب لڑکھڑاتے ہوئے میں شرماتی ہوئی غرض کس کس چیز کا ذکر کروں، ہائے ساری عمر اسی طرح کٹ سکتی تو کیسا اچھا ہوتا۔ قصّہ مختصر ہم دونوں مسہری پر اسی حال میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ نواب کا ہاتھ میری کمر میں تھا اور میرا ان کی کمر میں۔ اب نواب نے میری ایک ایک چیز کی تعریف کرنی شروع کی، اور تعریف کے ساتھ پیار کرنا، وہ ابھی میرے گلے اور بانہوں کی چیزوں کی پرستش ہی میں تھے کہ میں بھی کھوئی گئی۔ ان کے شانے پر جھک کر ان کے پیارے رخساروں کا بوسہ لینے لگی، اس نے انھیں بالکل دو آتشہ کر دیا۔ اور دیکھتے دیکھتے وہ ایسے بدحواس ہو گئے کہ مجھے اپنی پڑ گئی۔ ایک دفعہ اپنی دانست میں بڑا کمال کر کے اور خوب زور لگا کر ان کی آغوش میں سے نکلی مگر نکل کر گئی تو کہاں عین مسہری پر۔ ان کے تو گھی کے جل گئے۔ مگر میں نے جھٹ پائنتیوں سے گھسیٹ کر چادر جوڑا اوڑھ لیا اور گیند بن کر ایک پٹی سے لپٹ گئی۔ اب نواب ہیں کہ لاکھوں قسمیں دے رہے ہیں اور منتوں پر منتیں کر رہے ہیں۔ اور وہ صرف اس لئے کہ میں منہ کھول کر ان کی طرف کروٹ لے لوں۔ مجھے ان باتوں پر ترس بھی آتا تھا اور خوشی بھی ہوتی تھی۔ خوشی اس کی کہ خدا نے ہمیں اس لائق کیا۔ آخر جب میرا دم گھٹنے لگا تو میں نے کروٹ بدل کر منہ کھول دیا۔ نواب نے فوراً میری عرق آلود پیشانی کا بوسہ لیا۔ اور لاکھوں دعائیں دے کر پھر اپنے پھندے میں پھانس لیا۔ اب میں کیا کر سکتی تھی۔ بس آگے وہی بات۔ صبح کو اماں اور استاد جی پر مبارک بادیوں کا پُل ٹوٹ پڑا۔ ایک آتا تھا اور ایک جاتا تھا۔ کمیوں کا حق دینے اور حصہ بانٹنے میں اماں کو دوپہر ہو گئی ۔ بیچاری خورشید میری سر براہی میں رہی اور جب میں تیار ہو گئی تو نیاز دلوا کر برادری کے سامنے مجھے کیل پہنائی گئی، ٓمبارکبادیاں گائیں ، اور سب ہنسی خوشی رخصت ہوئ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 91
یاں کی یاں اب رہنے دو
آگے باقی کہنے دو
علوہ دو سو روپے ماہوار کے نواب ہماری بیسیوں فرمائشیں پوری کرتے تھے۔ عید بقر عید اور میلے تماشوں میں سب خرچ دیتے تھے، اور طرح طرح کی خاطر داری کرتے تھے۔ پانچ چھ ہی مہینے میں ہمارے گھر کی بالکل کایا پلٹ گئی۔ شیشہ آلات اور ہر قسم کے ساز وسامان میں ہمارا کوٹھا چاوڑی بھر میں اول سمجھا جانے لگا، زیور اور کپڑے کی مجھے کمی نہ رہی۔ عیش کے دن عیش کے سامانوں اور نواب کے ہر وقت آنکھوں پر رکھنے نے مجھے اتنے ہی عرصے میں ایسا کر دیا کہ جس شخص نے مجھے ڈیڑھ دو برس پہلے دیکھا ہو وہ دور سے اچھی طرح بمشکل پہچان سکتا تھا۔ نواب میری یہ بے تحاشہ اٹھتی ہوئی جوانی دیکھ کر اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے اور مجھے بھی بہت ہی اچھا معلوم ہوتا تھا؎
ہر ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
اف! تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
اس سال جس ٹھاٹھ سے ہم پھول والوں کی سیر میں گئے، دیکھنے کے قابل تھا۔ قطب میں جو کوٹھا ہم نے سجایا تھا، اور بیسیوں سیلانیوں کے منہ سے یہ بات میں نے خود سنی کہ نواب والی ننھی کے کوٹھے نے سب کو مات کر دیا۔ یہ لقب سارے شہر میں مل گیا اور بہت ہی جلد مشہور ہو گیا۔ نواب خود اس سے خوش ہوتے تھے، قطب میں جو دوپٹے ہم نے نفیری والوں کو دئیے وہ سب سے اچھے تھے۔ دو چار ایسی ہی باتوں سے ہم سب لوگوں میں نیک نام ہو گئے اور ہمارا ڈیرہ قائم ہو گیا۔
اب میر صاحب کی سنئیے، میرا لکھنا پڑھنا تو ان نئی نئی باتوں میں صرف برائے نام رہ گیا تھا مگر وہ بیچارے پھر بھی ایک پھیرا دن میں اول وقت ضرور کر جاتے تھے۔ تیسرے چوتھے دن خورشید بھی آ جاتی تھی۔ اور گھنٹہ آدھ گھنٹہ

ریختہ صفحہ 92
تخلیہ میں ان سے مل جاتی تھی۔ وہ اسی میں نہال نہال تھے۔ اور ہمارے گھر کے بیسوں کام کاج کر دیتے تھے۔ میرے اور نواب کے تعلق کے تھوڑے ہی دن بعد اماں نے کچھ ایسے ہتھکنڈے چلے کہ میر صاحب نواب کی ناک کے بال ہو گئے۔ اول اول تو استاد جی ان کے گھر جایا کرتے تھے مگر پھر ایسی افتاد پڑی کہ نواب صاحب بھی کچھ سیکھنے لگے، اور میر صاحب بھی وہیں موجود ہو جاتے تھے۔اماں نے میر صاحب کے ذریعہ سے اندر ہی اندر نواب کی ساری جائداد اور مال متاع ذرہ ذرہ حال معلوم کر لیا۔ اور رفتہ رفتہ ایسا ڈھنگ ڈالا کہ نواب نے خوشی خوشی دو ہزار کا ایک مکان جو بلی ماروں میں تھا میرے نام کر دیا۔
اس کا قصّہ اس طرح پر ہے کہ ایک دن نواب کے آنے کے وقت سے ذرا پہلے اماں نے یہ کہہ کر مجھے اندر کے کمرے میں بھیج دیا کہ جا جر سر منہ لپیٹ کر رونکھی ہو کر پڑ رہ۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ استاد جی دالان میں بے تمیزی سے لیٹ کر لڑکے سے پاؤں دبوانے لگے، اور اماں باورچی خانہ میں منہ بنا کر بیٹھ گئیں۔ چار بجے کے قریب جو نواب آئے تو نہ میں بنی ٹھنی ان کے استقبال کے لئے دالان میں ہوں ، نہ استاد جی کا فرشی سلام ہے اور نہ اماں کی دعائیں۔ وہ بیچارے حیرت میں رہ گئے۔ اور پوچھا خیر تو ہے۔ آج یہ سناٹا کیوں ہے۔ اس کا جواب سوائے اماں کے اور کون دیتا۔ بڑبڑاتی اور مجھے بیسوں باتیں سناتی ہوئی اٹھیں اور دالان میں جا کر استاد جی کو بھی اٹھایا۔ اور مجھے بھی آواز دی۔
نواب : اے صاحب کچھ فرمائیے تو سہی آج یہ معاملہ کیا ہے۔( پھر استاد جی سے جو آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے تھے) کہا خیر تو ہے آپ کیوں ایسے بھنگیائے ہوئے ہیں۔

ریختہ صفحہ 93
استاد جی: نہیں حضور یونہی لیٹ گیا تھا۔
اماں: نواب صاحب اللہ حضور کے دم کو رکھے، ننھی کا مزاج آپ نے بالکل بگاڑ دیا ہے۔ یہ ہم میں رہنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ پھر مجھے آواز دے کر " آ، باہر نکل ، کب تک وہاں پڑی ہوئی ٹسوے بہائے جائےگی
نواب بے چارہ گھبرا کر اندر گئے۔ میں بڑی بناوٹ سے ٹھنڈا سانس بھر کر اٹھی اور ان پر جھکی ہوئی باہر ا کر بیٹھی۔
ںواب: تو یہ معمہ کسی طرح کھلے گا بھی۔
اماں: حجور سو کی ایک تو یہ ہے کہ حضور ہی نے ان کا مزاج بگاڑا ہے۔ حضور ہی اب ان کو رکھیں۔
ںواب: کچھ کہئی گا بھی یا یونہی باتیں سناتے جائیے گا۔
اماں: حضور سے نہ کہوں گی تو کیا دیوار پاکھوں سے کہوں گی۔ بات یہ ہے کہ آج استاد جی نے خواہ مخواہ آ کر جنگے چھوڑ دی کہ بسم اللہ جان نے بڑیوں کے کٹرے میں مکان لیا ہے۔ اور اس کے قبالہ پر گواہی کرنے میں گیا تھا۔ اس وقت سے ننھی ضد کر رہی ہے کہ میں بھی اب کوٹھے پر نہ رہوں گی۔ کہتی ہے کہ امیر جان نے مکان لے لیا ہے ۔۔۔۔ گھر ہی میں رہتی ہے، گلاب دہی کا بھی اپنا مکان ہے اور تو اور میرے آگے کی لونڈیا بسم اللہ بھی مکان لے لے، اور میں اس کوٹھے پر لٹکوں۔ حضور کو خدا رہتی دنیا رکھے ، حضور ہی اسے سمجھائیں ، اس ضد کا کچھ ٹھکانا ہے۔
نواب: بسم اللہ کس سے ملتی ہے۔
استاد جی: ایک پنجابی سوداگر ہے۔ بھلا سا نام ہے۔
اماں : حضور اسی پر تو ننھی کو شعلہ لگا کہ جو سوئی پیچکوں والوں سے ملیں

ریختہ صفحہ 94
ان کو تو مکان نصیب ہو جائے اور میں جو ہر وقت حضور ہی کا دم بھرتی ہوں، یوں کی یوں ہی رہ جاؤں۔
میں: تو میں یہ کب کہتی ہوں کہ ابھی خرید دو۔ مگر اس بات کی میں نے قسم کھائی ہے اب اس کوٹھے پر نہ رہوں گی۔ مکان ہو چاہے کرایہ ہی کا ہو۔
خان صاحب: لو صاحب اب اس کے لئے کرایہ کا مکان ڈھونڈتے پھرو، لوگ کہیں گے کہ خدا نخواستہ کچھ نواب سے ان بن ہو گئی ہے۔ بی صاحب ہیں مفلس کوٹھے کا کرایہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس لئے گھر ڈھونڈتی ہیں۔ (پھر مجھ سے مخاطب ہو کر) ننھی نواب صاحب کی بدشگونی کرتے ہوئے تیرا دل نہیں دُکھتا۔
اماں: استاد جی یہ مردار ایسی ہی ہے جو منہ میں آتا ہے کہہ بیٹھتی ہے۔
ںواب صاحب: توبہ آپ لوگوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا کون سی بڑی بات ہے۔ بلی ماروں میں میرا ایک مختصر سا مکان ہے ، اگر ننھی جان کو پسند ہو ، تو کل ہی خالی کرا دوں۔
استاد جی: حضور اس گلی میں جہاں ٹبئی کا کارخانہ ہے۔
نواب: تم نے کب دیکھا
استاد جی: وہاں ۔۔۔۔ لگ رہی ہے نا۔ حضور اس دن کھڑے نہیں تھی ( پھر میری طرف منہ کر کے) ننھی اللہ کی قسم ایسے اچھے موقعہ پر ہے کہ خوش ہو جائے گی۔
اماں : (مجھ سے) لے اب تو خوش ہوئی ، سلام کر ( پھر نواب سے) حضور کو خدا سلامت رکھے، گھر بھر کر باہر بھرے۔ نہ حضور اتنی عنایت کرتے نہ اس کی ضد پوری ہوتی۔
سات آٹھ دن میں مکان خالی ہو گیا۔ اور ایک مبارک دن تجویز کر کے ہم لوگ وہاں اٹھ گئے، نواب صاحب نے اس کا قبالہ بھی میرے نام بنوا دیا۔

ریختہ صفحہ 95
اس کے ٹھیک ٹھاک کرنے اور فرش فروش میں بھی ، جو کچھ اور خرچ ہوا وہ بھی انھیں کے ذمہ پڑا۔
میر صاحب اس مکان میں بھی برابر آتے رہے، مگر اداس اداس رہتے تھے، اس کا سبب یہ تھا کہ خورشید کا گھر دور پڑ گیا تھا اور اب وہ بہت کم آتی جاتی تھی۔دوسرے ایک دو دفعہ ایسا بھی ہوا کہ وہ آئی تو یہ نہ ملے ، یا یہ ہوئے تو وہ نہ آئی۔ میر صاحب کا ہمیشہ قاعدہ تھا کہ جب میرے پاس بیٹھتے تو اکثر خورشید کا ذکر کیا کرتے تھےبلکہ ذکر کیا تعریف۔ یا چنّے خاں کو برا بھلا کہا کرتے تھےمگر ایک دن جو آئے تو اپنی عادت کے خلاف لگے میرے حال پر عنایت کرنے۔ میرا ہاتھ میں ہاتھ لے کر پتلی انگلیوں کی تعریف کی، میرے لباس پر بھی ایک آدھ فقرہ کہا اور ٹھنڈا سانس بھر کر بولے کہ افسوس نواب کے سبب ہم آپ سے ہنس بول بھی نہیں سکتے۔ مجھے بہت برا معلوم ہوا، جی میں آیا کہ ہاتھ جھٹک کر پرے سرک جاؤں۔ مگر پھر جو خیال آیا کہ آج کل اماں ان کی بڑی آؤبھگت کرتی ہیں اور وہ بھی مطلب سر تو اپنے ارادہ سے باز رہی اور بناوٹ کی مسکراہٹ کے ساتھ بولی، کیوں صاحب خیر تو ہے کہیں دشمنوں کا دل تو نہیں چل گیا۔ خورشید میں ایسے کیا کیڑے پڑ گئے کہ کسی اور سے ہنسنے بولنے کی ضرورت پیش آئی۔
میر صاحب: ننھی جان تمہیں تو ہر وقت دل لگی ہی سوجھتی ہے، چاہے کسی پر کچھ ہی گزرے۔مگر تمہیں اپنے مذاق سے کام ہے۔
میں: خورشید کو بلا دوں؟
میر صاحب: پھر وہی دل لگی۔ خدا کے لئے اس کا نام میرے سامنے نہ لو۔ میرے شعلہ لگتاہے۔
میں: (چونک کر) کیوں میر صاحب کیوں۔بتاؤ تو کیا ہوا۔ ابھی تو اسی دن جگہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 96
کیا کیا پیار و محبت کی باتیں ہو رہی تھیں۔ کیا میں نے سامنے دالان میں سے دیکھا نہ تھا۔
میر صاحب: خورشید کا اور ہمارا ملنا اب قیمت ہی میں ہو تو ہو۔
میں: توبہ، کہو گے بھی۔ میر صاحب یہ لیچڑ پنے کی عادت کس سے سیکھی ہے؟
میر صاحب: مجھے شرم آتی ہے، ( پھر نظر نیچی کر کے)کل رات کو مجھے وہ مردود نتھن ملا تھا کہنے لگا کہ ہمیں سب حال معلوم ہو گیا ہے، اب اگر خورشید ننھی کے مکان پر قدم رکھے تو پہلے اپنی جان سے ہاتھ دھو لے۔ اور یہ کہہ کر مجھے دس بیس باتیں سنائیں اور تم لوگوں کو بھی۔ بھلا میں اس پاجی کے کیا منہ لگتا، چپ ہو رہا۔
مجھے میر صاحب سے یہ باتیں سن کر بہت افسوس ہوا ، اور بے اختیار زبان سےنکلا کہ میر صاحب اگر میرے پاس بیٹھنے سے آپ کا غم غلط ہو تو میں سر آںکھوں سے موجود ہوں۔
میر صاحب : آپ میں یہ پخ ہے کہ نواب صاحب بد گمان ہو جائیں گے۔
میں خبر نہیں اس کا کیا جواب دیتی اور میر صاحب اور کیا کیا باتیں کرتے کہ نوکر نے آ کر اطلاع دی کہ مرزا صاحب آئے ہیں اور ڈیوڑھی میں کھڑے ہیں۔ میں خوش ہو کر کھڑی ہو گئی اور خود آواز دی، کہ تشریف لائیے، وہ شرمائے شرمائے آئے۔ مگر میں نے دیکھا کہ ان کے آنے سے میر صاحب کے چہرہ پر ہوائیں اڑنے لگیں، انھوں نے جانا بھی چاہا مرزا صاحب نے یہ کہہ کر روکا کہ اگر میں مخل ہوا ہوں تو میں ہی چلا جاتا ہوں۔ الغرض ہم تینوں بیٹھ گئے اور باتیں شروع ہوئیں۔
میں: مرزا صاحب آپ بڑے دنوں میں تشریف لائے۔کیا کچھ ناراض ہو گئے تھے۔ اس مکان میں تو آپ آئے ہی نہیں۔
مرزا صاحب: توبہ ! میں کیا ناراض ہو سکتا ہوں۔ کچھ اپنے جھگڑوں میں ایسا

ریختہ صفحہ 97
پھنس رہا ہوں کہ آنا نہ ہوا۔
اس کے بعد مرزا صاحب نے مکان کی تعریف کی اور مجھے مبارکباد دے کر فرمایا کہ اصل یہ ہے کہ آپ کا وہ کوٹھا ایسا برسرِراہ تھا کہ آتے ہوئے جی ہچکچاتا تھا۔ یہ مکان بہت موقعہ پر ہے، یہاں ان شا اللہ کبھی کبھی آیا کروں گا۔ میں نے مباکباد کا شکریہ ادا کیا اور ان کے آئیندہ تشریف لانے کے وعدہ پر مسرت کا اظہار کیا۔
میر صاحب بار بار پہلو بدلتے تھے اور جانے جانے کو کہتے تھے، میں جل گئی اور اجازت دے دی۔ مرزا صاحب نے بھی زیادہ اصرار نہ کیا۔ میر صاحب رخصت ہوئے۔ ان کا جانا ایک طرح سے خود بھی اچھا معلوم ہوا کیونکہ مجھے مرزا صاحب سے ڈپٹی صاحب اور درگیا کی باتیں پوچھنا تھیں۔ چنانچہ میں نے ان کے اٹھنے کے بعد گھڑی بھر بھی صبر نہ کیا اور شرمائے شرمائے پوچھا ، آپ کے ڈپٹی صاحب کہاں ہیں، کوئی خط آتا ہے۔
مرزا صاحب: میرے ڈپٹی صاحب یا کسی اور کے، ذرا سوچ کر فرمائیے۔
میں: آپ کی یہی خوشی ہے تو میرے ہی سہی۔ مگر بتائیے تو سہی، اچھی طرح ہیں۔ کب تک آئیں گے؟
مرزا صاحب: اب ان کے آنے کا کیا ٹھیک ہے ان کا ڈیرہ ڈنڈا بھی گیا۔ آپ تو گئے ہی تھے، رسی کو بھی لے گئے۔
میں: (بے چین ہو کر)میں اس کا مطلب نہیں سمجھی، صاف فرمائیے کون گیا، کس کو لے گئے۔
مرزا صاحب (نہایت متانت سے) کیا آپ کو نہیں معلوم ، درگیا پرسوں امرتسر گئی۔
میں: تو کیا جب وہ یہاں تھی تو اس سے تعلق تھا؟

ریختہ صفحہ 98
مرزا صاحب: آج کا تعلق؟ وہ تو عرصہ سے اس سے ملتے تھے مگر چوری چھپے۔ اب بھی وہ گئی ہے تو کسی اور بہانہ سے۔ جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ تحصیلدار صاحب کی وجہ سے گئی ہے۔
میں: (ڈپٹی صاحب پر غصہ آ جانے کی وجہ سے بے قابو ہو کر)بڑے جھوٹے آدمی ہیں، مجھ سے تو یہ کہتے تھے کی نواب صاحب کی وجہ سے ایک دو دفعہ ناس کے مکان پر گیا تھا۔
مرزا صاحب: میری وجہ سے، لاحول ولا قوۃ بڑا عجیب آدمی ہے، جھوٹ بھی بولا تو وہ جس کا سر نہ پیر۔ صرف اتنا قصوروار تو بے شک ہوں کہ جس طرح ایک دو دفعہ ان کے ہمراہ آپ کے مکان پر آیا، اسی طرح بہت سے بہت چار پانچ دفعہ اس کے ہاں بھی گیا ہوں گا۔
میں: ہم دونوں بڑی دیر تک ڈپٹی صاحب کی حرکتوں پر تفریں کرتے رہے۔ مگر مجھے اس سے بڑی تسلی ہوئی کہ ڈپٹی صاحب نے مرزا صاحب سے میرا پردہ فاش نہ کیا تھا۔ مجھے یہ بات یوں معلوم ہوئی کہ مرزا صاحب نے ان بہت ساری پوشیدہ باتیں بیان کیں ، غالباً اس لئے کہ مجھے شک نہ رہے۔ مگر میرا اشارہ تک نہ کیا۔جب یہ مضمون بدلا تو تعجب سے مرزا صاحب نے پوچھا کہ رات آپ کیوں نہ تھیں؟
میں: (چونک کر) کہاں؟
مرزا صاحب: نواب صاحب کے ہاں۔ وہاں تو رات کو خوب گلچھرے اڑے تھے۔ آپ کے میر صاحب راجہ اندر بنے ہوئے تھے۔
میں: ( اندر ہی اندر بےچین ہو کر اور نواب کے رات کو نہ آنے کے خیال سے کھٹک کر) کیا تھا مرزا صاحب؟ جب ہی میر صاحب آپ کو دیکھ کر گھبرائے جاتے تھے۔

ریختہ صفحہ 99
مرزا صاحب: وہی کسبی جو اس دن مجرے میں تھی۔ جس دن میں اور ڈپٹی صاحب بلائے گئے تھے۔ اور آپ کا پہلا مجرا تھا۔ کل رات بھی تھی۔ مجھے نواب نے بلایا تو نہ تھا مگر اتفاق سے میں کسی کام کے لئے اس طرف گیا تھا۔ وہ دیوان خانہ کے باہر کھڑے تھے اور اندر ٹھن ٹھن ہو رہی تھی، زبردستی پکڑ کر لے گئے۔
میں: ( دل میں بالکل سوختہ ہو کر) خورشید؟ اور مجھے خبر تک نہ کی۔ میں نے بہتیرا ضبط کرنا چاہا مگر میرے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ آناً فاناً میں سینکڑوں طرح کے خیالات میرے دل میں آئے۔جن میں سب سے زیادہ گہرا یہ تھا کہ ایسا نہ ہو میرا وہ خواب سچا ہو کہ کسی عورت نے مجھے نواب سے جدا کر دیا۔مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ ہو کر رہے گا۔ اور یہی خورشید ، جس کے ساتھ میں نے یہ سلوک کئے ہیں، میری چھاتی پہ مونگ دلے گی۔ مجھے نواب کی طرف زیادہ بدگمانی نہ ہوئی اور ہر طرح میر صاحب ہی کی سازش معلوم ہوئی۔ مجھے ان خیالات میں محو اور پریشان دیکھ کر مرزا صاحب ڈرے اور افسوس کر کے معافی چاہنے لگے کہ ناحق ذکر کیا، مجھے کیا خبر تھی کہ آپ اس قدر پریشان ہوں گی۔
مرزا صاحب کا کچھ طرزِ کلام ایسا تھا کہ میرے جی میں آنے لگا کہ انھیں اپنا رازدان بنا لوں اور دل کی ساری باتیں کہہ دوں، اتنے میں وہ میرے پاس اور سرک آئے اور بڑی ہمدردی سے کہا، کہ ننھی جان اس قدر پریشان کیوں ہوتی ہو۔ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتاؤ، میں دل و جان سے حاضر ہوں۔
اب میں بالکل کھل گئی اور اپنا اور میر صاحب اور خورشید کا سارا حال بیان کر دیا۔ آج صبح کو میر صاحب نے جو باتیں کی تھیں کہ نتھن یوں کہتا تھا، ان سے مرزا صاحب نے یہ نتیجہ نکالا کہ میری رائے میں خورشید کے استاد جی نے میر صاحب کو ملا لیا ہے اور نواب صاحب کو رجوع کرنے کی فکر کی ہے

ریختہ صفحہ 100
پھر مرزا صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میر صاحب نواب کے مزاج میں بہت دخیل ہیں؟
میں: کیسے کچھ، اور یہ سب کچھ ہماری بدولت ہوا ہے، خدا اماں کا بھلا کرے انھوں نے اپنے لالچ کے مارے نواب کو میرے ہاتھ سے کھویا۔
یہ کہہ کر میں زار وقطار رونے لگی۔بیچارے مرزا صاحب مجھے سمجھانے لگے مگر اس سے کیا ہو سکتا تھا، میری ہچکی بندھ گئی اور اس سے دفعتاً اماں چونک کر ننگے سر ننگے پاؤں اپنے دالان میں سے دوڑ کر میرے پاس آئیں، آتے ہی مجھے گلے لگایا اور بڑی گھبراہٹ میں مرزا صاحب سے سبب پوچھا، وہ بیچارے الگ چور سے ہو گئے۔ کہتے تو کیا کہتے۔ استاد جی، ماما، نوکر غرض سارا گھر اکٹھا ہو گیا، مرزا صاحب نے سب کو حکمت عملی سے علیٰحدہ کیا ، جب صرف اماں اور استاد جی رہ گئے ، اور پانی کے گھونٹ سے میرا دل بھی ذرا قابو میں آیا تو انھوں نے اور میں نے خورشید کے مجرے کا سارا حال بیان کیا۔
اماں: (غصہ میں آگ بگولا ہو کر) اس ۔۔۔۔۔ خورشید کو تیری ایڑی چوٹی پر سے قربان کروں، مردار اپنی اوقات بھول گئی، اللہ اللہ موری کی اینٹ چوبارے چڑھنے لگی۔(پھر مجھ سے) بنّو یہ سب تیرے ہی کرتوت ہیں۔ اور اس کے دہگڑے کو بلا بلا کر اس سے ملواؤ۔
استاد جی: سرکار میں ہمیشہ سے کھٹکتا تھا ، مجھے تو ہو نہ ہو یہ ان میر صاحب کی لاگ معلوم ہوتی ہے۔
اماں: بس خاں صاحب اسے پھر میرے سامنے میر صاحب نہ کہنا۔ خبر ںہیں کس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا زائیدہ ہے۔
میں: جب تک اس کوٹھے پر خورشید آ کر ان سے ملتی رہی تو وہ خوش رہے مگر جب سے ہم یہاں آئے ہیں ان کا ملنا کہاں ہوا۔ شاید اس سبب سے
 
Top