انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺭﺳﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﮭﻨﺪﮮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ .. ﮐﭽﮫ ﻣﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﺭﺳﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﮭﻨﺪﮮ ﺗﮭﮯ' ﮐﭽﮫ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺭﺳﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﮭﻨﺪﮮ ﺗﮭﮯ.. ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﻠﻢ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎ گزر ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ " ..ﺍﺭﮮ ﺍﻭ ﺩﺷﻤﻦ ﺍﻧﺴﺎﮞ ! ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮮ ﮨﻮ.. ؟"
ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺎﻡ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ.. "ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ نہیں ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺎﺑﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﮭﻨﺪﮮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ "..
ﺍﻥ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ.. "ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﮭﻨﺪﮮ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻣﻮﭨﮯ ﮐﭽﮫ ﮨﻠﮑﮯ .. ؟"
ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ.. "ﭘﮭﻨﺪﮮ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ.. ﻟﮩﺬﺍﻣﺨﺘﻠﻒ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﭘﮭﻨﺪﮮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ .. ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺷﻨﻤﺎ' ﮐﭽﮫ ﻣﻮﭨﮯ' ﮐﭽﮫ
ﺑﺎﺭﯾﮏ "..
ﺍﻥ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﺴﺲ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ.. ﭘﻮﭼﮭﺎ .. "ﮐﯿﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﮭﻨﺪﺍ ﮨﮯ.. ؟ "
ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ.. " ﺁﭖ ﻋﻠﻢ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮭﻨﺪﮮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﮍﺗﮯ .. ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﭼﭩﮑﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﯿﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ.. ﻋﻠﻢ ﮐﺎ ﺗﮑﺒﺮ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮭﺎنسنے ﮐﮯ ﻟﯿﮯ "..
ﺍﻥ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ.. " ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻣﻮﭨﮯ ﭘﮭﻨﺪﮮ ﮐﺲ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯿﮟ .. ؟"
ﺷﯿﻄﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ.. "ﻣﻮﭨﮯ ﭘﮭﻨﺪﮮ ﺍﺧﻼﻕ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮑﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﯿﮟ.. ﺍﻥ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﭘﺎﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ..
ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻭﺯﻧﯽ ﭼﯿﺰ ﺍﺧﻼﻕ ﮨﻮﮔﺎ ".. ﺍﻟﻠﻪ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺍﺧﻼﻕ ﻭﺍﻻ ﺑﻨﺎ ﺩﮮ،آمین الہی آمین
 

شمشاد

لائبریرین
ضرورتِ رشتہ✍

نسبتاً، مروَّتاً ،کنايتاً، ضرورتاً، ارادتاً، فطرتاً، قدرتاً، حقيقتاً، حکايتاً، طبيعتاً ،وقتاً فوقتاً، شريعتاً، طاقتاً،اشارتاً ،مصلحتاً، حقارتاً ،وراثتاً، صراحتاً، عقيدتاً، وضاحتاً، شرارتاً ، شرافتا، امانتا،دیانتا،السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک نو عمر سید زادہ،نیک چلن اور سیدھاسادہ، کامل شرافت کا لبادہ، کبھی بائیک پہ کبھی پیادہ، طبعیت کا انتہائی سادہ، پست کم اور لمبازیادہ، کاروبار کرنے کا ارادہ، اپنی ماں کا شہزادہ، حُسن کا دلدادہ، شادی پر آمادہ،
خوبصورت جوان ،اعلی خاندان، اپنا ذاتی مکان ، رہائش فی الحال پاکستان ،ابھی پاس کیا ایم اے کا امتحان ، کبھی نادان کبھی شیطان ، ایک دفعہ ہوا یرقان ، کافی بار کروایا چالان، عرصہ سے پریشان کے لئے ،
ایک حسینہ مثلِ حور،چشم مخمور،چہرہ پُر نور،باتمیز باشعور، سلیقے سے معمور، نزاکت سے بھرپور، پردے میں مستور، خوش اخلاقی میں مشہور۔۔۔۔۔
باہنر سلیقہ مند،صوم و صلوۃ کی پابند، کسی کو نہ پہنچائے گزند، نہ کوئی بھابھی نہ کوئی نند، ستاروں پہ نہ سہی چھت پہ ڈالے کمند، صاف کرے گھر کا گند۔۔۔۔۔
باادب باحیاء، پیکرِ صدق و صفا، اک مثالِ وفا، سب کی لے دعا، نہ ہو کسی سے خفا، نہ کرے کسی کا گلا نرالی ہو جسکی ادا، ہو باصفا۔۔۔
نہ شائق سُرخی وکریم ،اعلی تربیت و تعلیم، سیرت و کردار میں عظیم، نرم خوئی میں شبنم و شمیم، سوچ میں قدیم، علالت میں حکیم۔۔۔
کوئی مہ جبین ،بے حد حسین،پردہ نشین، ذہین و فطین، بہن بھائیوں میں بہترین، پکانے کی شوقین، میٹھا بھی اور نمکین ، ساتھ لائے قالین ، سسرال کی کرے تحسین، شوہر جب ہو غمگین تو کرے حوصلے کی تلقین ، ساس کے سامنے مسکین، لفظ منہ سے نہ نکالے سنگین ، گھر کی کرے آرائش و تزئین، ہر بات پہ کہے آمین،۔۔۔۔۔
یوں رہے جیسے پاکستان کے سامنے انڈیا روس کے سامنے امریکہ سعودی کے سامنے یمن،
بقید حد، دراز قد، مصروف ید، حکم نہ کرے رد، پاک ہو جسکا قد،۔۔۔
آہستہ خرام، شائستہ کلام،پیارا سا نام، مٹھاس جیسے چونسہ آم، رفتار جیسے تیز گام، شوہر کی غلام، زبان پر لگام، بات میں نہ کوئی ابہام، زبان پر نہ کوئی دشنام، امن و آشتی کا پیغام، خاندان میں لائے استحکام، جانتی ہو ہر کام، کبھی نہ ہو زکام،سب کا کرے احترام، ساس سے نہ لے انتقام، شوہر پر ہوں جو آلام، جلد بازی میں نہ کرے اقدام، مچائے نہ کوئی کہرام۔۔۔۔۔۔۔۔
عجوبۂ کائنات، مصائب میں ثبات، عاریٔ جذبات ، ہمہ وقت محوِ خدمات ، نہ کرے سوالات، تمام دے مگر جوابات، اعلی و ارفع صفات، رفیقۂ حیات، صابرِ ممات درکار ہے، لڑکا ہمارا طلبگار ہے، لیکن کچھ بے قرار ہے،رابطے کا آپ کو اختیار ہے، اگر آپ کو اعتبار ہے، جلدجواب پر ہمیں اصرار ہے، ورنہ زندگی بےکار ہے،گرائیے جو رستے میں دیوار ہے، اب تو بس ہاں کا انتظار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ مسہری یا چارپائی، نہ روئی بھری رضائی، نہ قلم کے لیے روشنائی ، نہ شوہر کے لیے ٹائی، نہ زیور طلائی، البتہ نکاح سے پہلے رسمِ حنائی، منگنی پرمٹھائی، نکاح پر فائرنگ ہوائی ، بارات کے لیے دودھ ملائی، تھوڑی سی خود نمائی، تاکہ نہ ہو جگ ہنسائی، بعد میں نہ ہو لڑائی۔۔۔۔۔
شکوک سے پرہیز، بیاہ کے لیے بھاگو تیز،ابھی مٹی ہے زرخیز، کچھ کرسیاں اور میز،بس اس قدر جہیز،ہماری قوم نہ انگریز نہ چنگیز۔۔۔۔
لڑکی آپکی بھی کنواری ہے، شادی نہ ہوئی تو ہماری بھی خواری ہے، بتائیں اگر کوئی دشواری ہے، ہماری تو پوری تیاری ہے، ہاں کرنا آپ کی رواداری ہے۔لڑکا ہمارا اناڑی ہے، مگر کاروباری ہے۔۔۔۔۔۔
ابھی طالب علم ہے اور منہ میں زبان اور کبھی کبھی سگریٹ پیتا ہے۔
مزید بات چیت بالمشافه ،یا بذریعہ لفافہ، بصورت ازیں چڑیا گھر میں دیکھیں زرافہ،
خط و کتابت بوعدہ صیغۂ راز ہے۔دوستو یہ آرزو دل کی آواز ہے۔
مکان/کمرہ نمبر:16
پریشان چوک
شہرِ گلگت نپورہ
(منقول)
 

سیما علی

لائبریرین
من تو شُدم تو من شُدی

خواجہ نظامُ الدین اولیاؒ کی خانقاہ کے پاس ایک تیرہ سالہ لڑکا اپنے باپ کے ساتھ آیا باپ بیٹے کو اندر لے جانا چاہتا تھا لیکن بیٹے نے اندر جانے سے انکار کر دیا اور باپ سے کہا۔ ” آپ اندر تشریف لے جائیں، میں یہیں باہر کھڑا آپ کا انتظار کرتا ہُوں۔ “باپ نے مزید اصرار نہیں کیا بلکہ اندر چلا گیا۔ باپ کے جاتے ہی اُس لڑکے نے فوراً ایک منظوم رقعہ لکھا جس میں فارسی کے دو شعر اسی وقت موزوں کیے تھے۔
-
تو آں شاہی کہ برایوان قصرت کبوترگر نشیند بازباز گردو
غریبے مستمند سے برور آمد بیاید اندروں یا باز گردو
-
ترجمہ : تم بادشاہ ہو کہ اگر تمھارے محل پر کبوتر بیٹھے تو باز بن جائے ، ایک غریب حاجب مند دروازے پر باریابی کا منتظر ہے، وہ اندر آئے یا واپس جائے۔
-
منظوم رقعہ اندر گیا اور اسی وقت حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کا لکھا ہوا منظوم جواب آ گیا۔
-
در آید گر بود مرد حقیقت کہ باما ہم نفس ھم راز گردو
اگر ابلہ بودآں مرد ناداں ازاں راہے کہ آمد باز گردو۔
-
اگر اُمید وار حقیقت شناس ہے تو اندر آ جائے اور ہمارا ہم دم و ہمراز بنے اور اگر ابلہ و ناداں ہے تو جس راہ سے آیا ہے ، اسی سے واپس جائے۔”
-
جواب پاتے ہی یہ لڑکا اندر، خواجہ نظام الدّین اولیا کے پاس چلا گیا اور امیر خسرو ؒ کے نام سے شہرتِ دوام حاصل کی_______ یہ مُرشد سے عشق ہی تھا کہ حضرت خواجه نظام الدین اولیا رحمة اللّٰه علیہ کو حضرت امیر خُسرو رحمة اللّٰه علیہ سے اتنی مُحبّت ہوگئی کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر شریعت میں اِجازت ہوتی تو میں یہ وصیت کرتا کہ امیر خُسرو کو بھی میری ہی قبر میں دفن کیا جائے جبکہ یہ وصیت بھی فرمائی کہ خسرو رحمة اللّٰه علیہ کی قبر میرے پہلو میں ہونی چاہیے_____ حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ نے امیر خسرو رحمة اللّٰه علیہ سے اپنی بے پایاں اُنسیت کے باعث یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ میرے وصال کے بعد خسرو رحمة اللّٰه علیہ میری تُربت کے قریب نہ آنے پائیں وگرنہ میرا جِسم بے تاب ہو کر قبر سے باہر آجائے گا_______
حضرت نظام الدین اولیاء رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ جب روزِ حشر سوال ہوگا کہ نظام الدین دنیا سے کیا لایا ہے تو خُسرو کو پیش کر دوں گا
یہ سُنتے ہی امیر خسروؒ نے ایک چیخ ماری اور وہ مرشد کے گرد طواف کرنے لگے۔ ان پر وجد کا عالم طاری تھا۔
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
(امیر خسرو دہلویؒ)
میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔
اور حضرت نظام الدین اولیا حضرت امیر خسرو کو ترک اللہ کہہ کر پکارتے اور امیر خسرو کی جانب اشارہ کر کے فرمایا کرتے کہ اے باری تعالیٰ اس ترک کے سینے میں جو آگ روشن ہے اس کی بدولت مجھے بخش دے، امیر خسرو پر اپنے پیر و مرشد کی صحبت کا اتنا اثر تھا کہ برسوں صائم الدہر رہے اورعشق الٰہی کی ایسی سوزش تھی کہ سینے پر سے کپڑا ایسا ہو جاتا تھا کہ گویا جل گیا ہے۔
اللہ پاک ہمیں اولیائے اللہ کے نقشِ قدم پر زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے__اور اُس مبارک سوز کے چند قطرے ہمیں بھی عطا فرمائے__________

آمین ثم آمین۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
جمیل الدین عالی اخبار جنگ میں کالم لکھا کرتے تھے:
'نقار خانے میں'

ایک دفعہ ابنِ انشاء کا ایک واقعہ لکھا:
انشاء جی کے آخری ایام میں کینسر کے مرض کے سلسلے میں ان کے ساتھ راولپنڈی کے سی۔ایم۔ایچ گیا تو انہیں وہاں داخل کر لیا گیا اور ٹیسٹوں کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ کینسر پھیل گیا ہے اور تھوڑے دن کی بات ہی رہ گئی ہے کیونکہ علاج کافی وقت سے چل رہا تھا، ہم کئی بار یہاں آ چکے تھے۔
شام کے وقت ہم دونوں ہسپتال کے اپنے کمرے میں باتیں کر رہے تھے کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک بہت خوبصورت تیس سالہ عورت ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے کھڑی مُسکرا رہی تھی۔ میں اُسے کمرے میں لے آیا۔
محترمہ نے گلدستہ انشاء جی کے ہاتھ میں دیا اور رونا شروع کر دیا اور کہا کہ انشاء جی میں آپ کی فین ہوں اور آپ میرے آئیڈیل ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کا کینسر پھیل گیا ہے اور آخری اسٹیج پر ہے۔ میں اللّٰہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ میری زندگی کے پانچ سال آپ کو دے دے، میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں، میں اپنی ساری زندگی آپ کو دے دیتی لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میرے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں جن کو مجھے پالنا ہے میں پھر بھی سچے دل سے پانچ سال آپ کو دے رہی ہوں۔
انشاء جی اُس کی اس بات پر زور سے ہنسے اور کہا ایسی کوئی بات نہیں ہے میں ٹھیک ہوں۔
خاتون تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد انشاء جی رونے لگے اور کہا کہ دیکھو جمیل الدین یہ میری فین ہے اور دو بچوں کی ماں بھی ہے اور مجھے اپنی زندگی کے پانچ سال دینا چاہتی ہے اس کو کیا پتہ کہ ایک دن بھی کتنا قیمتی ہوتا ہے۔ میرا تو وقت آ گیا ہے، اللّٰہ اسے اپنے بچوں میں خوش و خرم رکھے۔ میں اُس رات انشاء کے ساتھ ہسپتال میں رہا اور اگلے روز میں نے دو دن کی اجازت لی کہ اپنے عزیزوں سے مل آؤں جو کہ پنڈی میں رہتے تھے۔
دو روز بعد واپس آیا تو انشاء نے مجھے اپنی تازہ نظم
'اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے'
رو رو کر سنائی جس میں اُس خاتون کے پانچ سالوں کا ذکر بھی کیا تھا۔ اردو ادب میں یہ نظم مجھے بہت پسند ہے۔ بہت کمال اور شاہکار ہے۔ انشاء جی پچاس سال کی عمر میں اللّٰہ کو پیارے ہو گئے تھے۔
*ابن انشاء*
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو ا دھار کی حاجت ہے

ہے کوئی جو ساہو کار بنے؟
ہے کوئی جو دیون ہار بنے؟
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو


ہاں اپنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے

کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں؟
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں؟

جب نام ادھار کا آیا ہے
کیوں سب نے سر کو جھکایا ہے؟

کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں

ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس، دو چار برس

ہاں! سود بیاج بھی دے لیں گے
ہاں! اور خراج بھی دے لیں گے

آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے

تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے؟
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے؟
کیوں اس مجمع میں آئی ہو؟
کچھ مانگتی ہو؟ کچھ لائی ہو؟

یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے

گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو

اب گیت گیا سنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا
اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ رات گریں

یہ اپنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں

ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ! ان سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں

کیا پانچ برس؟
کیا عمر اپنی کے پانچ برس؟
تم جان کی تھیلی لائی ہو؟
کیا پاگل ہو؟ سودائی ہو؟

جب عمر کا آخر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے

جینے کی ہوس نرالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے؟

کیا موت سے پہلے مرنا ہے؟
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا؟
ہاں تم سے ہمارا رشتہ کیا ہے؟

کیا سود بیاج کا لالچ ہے؟
کسی اور خراج کا لالچ ہے؟

تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس

سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہوکار، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے؟ کیا ہے؟ کیسی ہے؟
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں

ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے

جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
"لو ا پنے جی میں ا تار لیا
لو ہم نے تم سے ادھار لیا"
 

شمشاد

لائبریرین
*رسی*

کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور اور معروف محقِّق ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ ”رسی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے“

صدیقی صاحب مرحوم نے فوراً ٹوکا کہ اس کو رسی نہیں 'الگنی' بولتے ہیں۔پھر جالبی صاحب سے مخاطب ہو کر بولے رسی کو بلحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

مثلاً گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کے لئے چھوڑا جاتا ہے تو اس ڈر سے کہ کہیں بھاگ نہ جائے اس کی اگلی ٹانگوں میں رسی باندھ دیتے ہیں اسے 'دھنگنا' کہتے ہیں۔

گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ 'اگاڑی' 'پچھاڑی' کہلاتی ہیں۔

گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار جو رسی پکڑتا ہے وہ 'لگام' کہلاتی ہے

اور گھوڑا یا گھوڑے تانگے اور بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسی 'راس' کہلاتی ہے۔

اس لئے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کے لئے جو رسید لکھی جاتی تھی اس پہ یہ الفاظ لکھے جاتے تھے کہ 'یک راس گھوڑے کی قیمت' اور ہاتھی کے لیے 'یک زنجیر ہاتھی' استعمال ہوتا تھا۔

گھوڑے کو جب سدھانے کے لئے سائیس پھراتا ہے اَسے 'کاوا پھرانا' بولتے ہیں۔ اُس رسی کو جو سائیس اس وقت پکڑتا ہے اسے 'باگ ڈور' کہتے ہیں۔

پھر مرحوم نے کہا کہ بیل کے ناک کے نتھنوں میں جو رسی ڈالتے ہیں اس کو 'ناتھ' بولتے ہیں (اسی لئے ایسے بیل کو 'نتھا ہوا بیل' بولتے ہیں۔ اس کے بعد ہی بیل کوہلو یا ہل وغیرہ میں جوتنے کے کام آتا ہے)۔

اونٹ کی ناک میں 'نکیل' ہوتی ہے اور کنویں سے بڑے ڈول کو یا رہٹ کو بیل کھینچتے ہیں اس میں جو موٹا رسا استعمال ہوتا ہے اسے 'برت' یا 'برتھ' بولتے ہیں۔

چارپائی جس رسی سے بُنی جاتی ہے اسے 'بان' اور چارپائی کی پائنتی میں استعمال ہونے والی رسی کو 'ادوائن' کہتے ہیں۔ پھانسی کے لئے استعمال ہونے والی رسی 'پھندہ' کہلاتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
کہتا ہوں سچ ……….
احمد شفیق
عذاب کیسے نہ آے ہم پر۔۔۔۔۔
ہم نے بھی تو مظلوموں کا درد محسوس کرنا چھوڑ دیا
ان مظلوموں کے زخم دیکھ کر دل کو خون کے آنسو رو دینا چاہیے تھا مگر نہیں۔۔
ہم لوگوں اپنے ضمیر پتہ نہیں کہاں دفن کر بیٹھے ہیں۔

ضروری نہیں کہ گھر سے نکل کے وہاں چلے جائیں جنگ کے لئے۔۔۔۔
جو بس میں ہے وہ تو کر سکتے ہیں۔
یاد رکھنا بروز محشر تمام مظلوم لوگ آپ کا بھی گریبان پکڑیں گے ۔
ہر انسان اپنا کردار بخوبی ادا کرلے تو معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔۔
مگر نہیں ہر کوئی یہی سوچتا ہے کہ میرے ایک کرنے سے کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کوئی دودھ کا دھلا نہیں
میں خود بھی کبھی کبھی یہی سوچتا ہوں کہ میرے ایک اکیلے کرنے سے کیا ہوگا دنیا کون سی بدل جائے گی۔

مگر پھر مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ⁦
2764
️⁩
کہ وہ قول میرا ضمیر جنجھوڑ دیتا ہے
کہ ہم دہاڑی کہ مزدور ہیں۔
ہمیں یہ غرض نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بلڈنگ آج سے پچاس سال بعد بنے گی یا دس سال بعد ۔
ہمیں اس بلڈنگ کے لئے ایک دن کی محنت کرنی ہے اور اپنے اللہ سے اس کا اجر لینا ہے۔
اس بلڈنگ سے مراد(( دنیا ))ہے ۔
آج مسلمان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اللہ پر اپنا ایمان کھو بیٹھا ہے۔
آج وہ جو کرتا ہے سمجھتا ہے کہ میں اپنے بل بوتے پر خود کر رہا ہو!!!!!!!
مگر وہ یہ بھول بیٹھا ہے کہ پتھر کے اندر بسنے والے کیڑے کو بھی میرا اللہ رزق پہنچاتا ہے ۔
فلسطینی اس بچے کا ایک جملہ میرا دل آج بھی ہلا دیتا ہے

کہ میں اپنے رب سے شکایت کروں گا!!!!

جس طرح کی ہماری حرکتیں ہیں اور جس طریقے کا ہمارا رویہ ہے
اس سے آگے تو کرونا جیسے عذاب کچھ نہیں ہم پر تو اس سے بڑے بڑے عذاب آنے چاہیں..
ہم وہ لوگ ہیں جو نہ خود کچھ کرتے ہیں اور نہ ان لوگوں کو کچھ کرنے دیتے ہیں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں…
کم سے کم اگر آپ خود کچھ نہیں کر سکتے تو ان لوگوں کا ساتھ دیجیے جو بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں….
بلکہ ہمیں چاہیے کہ ان کا بازو بنا جائیں
جس طریقے سے ہم مدد کر سکتے ہیں ہمیں کرنی چاہیے اپنا فرض بخوبی ادا کرنا چاہیے….
ہم تو بہت خوش نصیب ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں جن کی امت میں آنے کے لیے انبیاء کرام نے خود دعائیں مانگی….
نبی صلی اللہ علیہ وسلم
اپنے رب سے رو رو کے دعا کی تھی کہ میری امت پر رحم کرنا.
کیوں کہ پہلے کی قوموں پر چھوٹے موٹے عذاب نہیں پوری قوم تباہ و برباد ہو جاتی تھی.
اور ہاں
نہ ہی ہمارے اتنے اچھے اعمال ، نہ ہی اتنی اچھی دعائیں اور نہ ہی اتنی اچھی عبادت ہیں…
آج بھی وقت ہے کچھ نہیں بگڑا میرا رب ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے
وہ ایک سچے دل کے آنسو سے پوری زندگی کے گناہ مٹا دے گا۔
سچے دل سے توبہ کرے اور اپنے رب کی رضا حاصل کرلیں اور دی گئی نعمتوں کا شکر ادا کریں۔
جس نے آپ کو دیکھنے کے لئے آنکھیں سننے کے لیے کان ۔
اور سب سے بڑھ کے پیار ، محبت کرنے کے لئے دل دیا۔
اور آپ کو اشرف المخلوقات بنایا۔
ورنہ جانور بھی کھانے کی تلاش میں روز نکلتے ہیں اور خالی پیٹ وہ بھی نہیں سوتے۔۔۔۔۔
لکھنے کی صلاحیت ہے تو مظلوموں کے لئے قلم بن جائیں
بولنے کی صلاحیت ہے تو مظلوموں کی آواز بن جائے
اللہ نے جس صلاحیت سے آپ کو بخشا ہے اس کا صرف اپنی ذات کے لیے استعمال نہیں کریں بلکہ اللہ اور اس کے بندوں کے لئے بھی استعمال کریں۔
اور اس بات پر غور و فکر کریں کہ اللہ نے آپ کو صلاحیت صرف اس لیے نہیں بخشی کہ دنیاوی ، دولت ، شہرت حاصل کریں۔
عمر چھوٹی ہے ارادے بڑے ہیں ۔ جو ٹھیک سمجھا وہ لکھ دیا
امید کرتا ہوں کہ میری اتنی باتوں میں سے ایک بات سے تو آپ کی زندگی میں کچھ فرق پڑے گا…
کیوں کہ جمعہ کے خطبے میں مولوی بہت سی چیزیں بتاتے ہیں.
مگر ہم یاد ایک سے دو رکھتے ہیں.
 

سیما علی

لائبریرین
الھم بلغنا رمضان

امِ ربیعہ
عروسہ کے کاموں میں تیزی آ گئی تھی وہ اپنے کام جلد ازجلد مکمل کر لینا چاہتی تھی آج بھی اپنے شوہر اظہار کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہی تھی سنئے آپ اپنے اور بچوں کے کپڑے سلنے کے لئے دےآئیں اظہار نے ہوں کہا اور عشاء کی نماز پڑھنے نکل گئے۔

اظہار اورعروسہ کی شادی کو دس سال ہوچکے تھے اور ان کے تین بچے تھے دو بیٹے اور ایک بیٹی اظہار کے والد کا انتقال ہوچکا تھا والدہ حیات تھیں اور ان کے ساتھ ہی رہتیں تھیں۔

اظہار اور بچے نماز کے لئے نکلے تو عروسہ نے اپنی ساس جو اس کی چچی بھی تھیں پوچھا چچی جان آپ بھی بتادیجئے جو کپڑے آپ نے سلوانے ہیں میں اپنے کپڑے سلنے دینے جارہی ہوں۔ سلمی بیگم نے کہا ہاں بیٹا میرے بھی سوٹ لے جاؤ اور درزن سے کہنا میرے بازو کھلے رکھے جی چچی جان عروسہ درزن کی طرف نکل گئی جب واپس آئی تو بچے اور شوہر نماز پڑھ کرآچکے تھے۔ عروسہ نے جلدی سے کچن کارخ کیا رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگی ساتھ ساتھ وہ راشن کی لسٹ کا بھی سوچ رہی تھی کہ وہ جلدی سے مکمل کر کے اظہار کے حوالے کرے تاکہ یہ کام بھی مکمل ہو۔

دوسرے دن سارے گھر کے پردے اتار کردھولئے کل کادن گھر کی صفائی کا رکھا۔صفائی کرکے وہ بہت تھک چکی تھی لیکن ابھی بہت سارے کام باقی تھے کچھ گفٹ خریدنے تھے کچھ پیکٹ بنانے تھے اور دعوتیں بھی دینی تھی اگلا پورا ہفتہ یہ سارے کام نپٹاتے گزر گیا۔ عروسہ کے کاموں میں تیزی آ چکی تھی آج اسے بازار جانا تھا اپنی باقی کی خریداری مکمل کرنے کے لئے بازار سے لوٹنے کے بعد کچھ دیر آرام کیا پھر کچن کارخ کیا۔

آج عروسہ کافی مطمئن تھی وہ صاف ستھرے گھر اورخوشگوار موڈ کے ساتھ آنے والی خواتین کا استقبال کررہی تھی آج اسکے گھر استقبال رمضان کا پروگرام تھا پروگرام کے اختتام پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اس کے دل سے الفاظ نکل رہے تھے اے اللہ میری ساری دوڑ دھوپ تیری رضا کے لئے ہے چند آنسو اسکی آنکھ سے نکل کر اسکے ہاتھوں میں جذب ہوگئے اور زبان الھم بلغنا رمضان کاورد کرنے لگی۔

 

شمشاد

لائبریرین
امام احمد بن حنبل نہر پر وضو فرما رھے تھے
کہ ان کا شاگرد بھی وضوکرنے آن پہنچا،
لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔
پوچھنے پر کہا
کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ہے۔
مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے۔

اپنے سگے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا
کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟
(عمر پوچھنا مقصود تھا)
کہا یارسول اللہﷺ بڑے تو آپ ہی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ہے۔

مجدد الف ثانی رات کو سوتےہوئے ی احتیاط بھی کرتے کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ہوں اور بیت الخلا جاتے ہوئے یہ احتیاط کرتے
کہ جس قلم سے لکھ رہا ہوں اس کی کوئی سیاھی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔

ادب کا یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ہے اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ہی خاص نہ تھا بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ہوئی جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اہمیت حاصل تھی
کیوں کہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یاد تھا کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔

ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا، ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے اور اُن کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔
اس کے صدقے اللہﷻ انہیں نوازتا بھی تھا۔

اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی کہ جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے رزق میں اضافہ کرے، وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔ اور جو یہ چاہتا ہے کہ اللہﷻ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔

ایک دوست کہتے ہیں کہ میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ہے، یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔ حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔
اس (دوست) کا کہنا ہے کہ عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ہے مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ہے :

اچھا ھے دل کے ساتھ رھے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے،

چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔
کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ہوے اور انہی کی دعا کا صدقہ ہے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلاٹس ہیں جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ہے۔

والدین کی طرح استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی اور اس کا تسلسل بھی صحابہؓ کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔

حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ
کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہتے۔
اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے
اور جب وہ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ خود ہی کسی کام سے باہر نکلتے تو ان سے حدیث پوچھتے۔ اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا، لو چلتی رہتی اور یہ برداشت کرتے رہتے۔ وہ صحابی شرمندہ ہوتے اور کہتے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا، تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ہوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں اور اپنے کا م کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔

کتنی ہی مدت ہمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا (بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ہے) کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ہوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے جب کہ اب شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ہے۔

مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ہی محدود نہ تھا بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ہی احتیاط کی جاتی تھی۔ وہاں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔ چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ہی رہتا تھا۔

ابن عمررضی اللہ تعالی عنہ جا رہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔ کسی نے کہا کہ یہ بدو ہے تھوڑے پہ بھی راضی ہو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔ فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا، تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔

اسلامی تہذیب کمزور ہوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اہمیت کھو بیٹھی۔ اب برابر ی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ہوگئے اور شاگرد استاد کے برابر۔

اللّٰہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں والدین اور اساتذہ کرام کی عزت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ جس گھر میں پیدا ہوتے ہیں اسی گھر کے خواب ساری عمر دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ چاہے تین مرلے کا ہو اور بعد میں آپ دس کنال کی جگہ مل کر بیٹھ جائیں، خواب میں آپ پھر بھی تین مرلے والے غریب رہتے ہیں۔ آپ کے خوابوں کو پیلی دیوار، کالے کائی زدہ پرنالے، کئی بار پینٹ ہوئے لکڑی کے دروازے، اینٹوں کے صحن، خالی سیمنٹ کے پلستر والے برآمدے اور کمروں میں پڑی جھلنگا چارپائیوں سے عشق ہوتا ہے۔ ڈبل بیڈ پر اچھلتے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے آپ کو یاد آتا ہے کہ چارپائیوں کی کان سیدھی کرنے کے لیے کیسے جینوئنلی چھلانگیں مارنا پڑتی تھیں، پائنتی پہ بیٹھنا کیسا آرٹ ہوتا تھا اور موٹے بان کی رگڑ کتنی سکون بخش ہوتی تھی۔ آپ گھی والے پراٹھے اور رات کے سالن کی جگہ صبح سویرے ایک سوکھا ڈبل روٹی کا سلائس اور ابلا ہوا انڈہ کھا تو سکتے ہیں لیکن معدے سے زیادہ آپ کی انگلیاں ان پراٹھوں کو توڑنے کے لیے بے چین ہوتی ہیں، یہ بھی کبھی کبھی خواب ہی بتلاتا ہے۔ دھوپ میں بیٹھے بیٹھے جتنی دیر آپ ہرے چنے کھاتے تھے یا ابلے ہوئے مٹروں کے نمکین اور نرم چھلکے، اتنی دیر میں آپ کی فلائیٹ ایک ملک سے دوسرے پہنچا دیتی ہے، لیکن وہ نمکین مٹر؟ وہ ہرے چنے؟ پوری دنیا میں سولنگ ہوا کرتی تھی، اینٹوں کی بنی ہوئی گلیاں، محلے، تارکول کی سڑک بنتے دیکھنا ایک تماشا ہوا کرتا تھا، اب گھروں کے فرش تارکول کے بننا رہ گئے ہیں پھر گھروں کے اندر بھی گرمیوں میں فرش سے بھاپیں اٹھا کریں گی چاہے انڈہ فرائی کر لو۔ یاد ہے اینٹوں والی گلی میں آپ جون جولائی بھی ننگے پاؤں چل سکتے تھے، اس سڑک پہ چلیں ہاں ذرا۔۔۔ سارے گھر میں ایک آئینہ ہوتا تھا، کسی جہیز کی سنگھار میز میں ٹنگا، سائیڈوں سے روغن اترا ہوا، بے رنگ، بے جان، کبھی صاف نہ ہو سکنے والا، مگر چہرے سب کے لشکیں مارتے تھے۔ ابھی اپنی شکل دیکھے بغیر لاڈلوں کی حاجت قضا نہیں ہوتی ہے لیکن چہرے، ہائے ہائے، سو بار بھی دھو لیں تو وہ معصومیت کدھر سے لائیں! یہ جاگتی آنکھوں کے خواب ہوتے ہیں جنہیں پورا کرتے کرتے آپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے، بند آنکھوں کے خواب تو ہمیشہ وہیں رہتے ہیں جہاں بارش کی ایک بوند پڑتے ہی مٹی خوشبوئیں لٹانا شروع ہو جاتی تھی۔ جاگتی آنکھوں کے خوابوں پیچھے ٹیڑھے میڑھے ناموں والے پھیکے چینی کھانے نگلنے پڑتے ہیں، منہ سے بڑا برگر ایک مہذب چک مار کے چبانا پڑتا ہے، سوتی آنکھوں میں وہی پانچ روپے کے پکوڑے اور پتلی پانی جیسی دہی کی چٹنی اچھل رہی ہوتی ہے۔ بچوں کے ساتھ ہزاروں روپے کی آئس کریم کھاتے ہوئے بابے اس وقت ہنس پڑتے ہیں جب تیلے والا برف کا گولا اپنے ٹپکتے ہوئے رس کے ساتھ یاد آتا ہے، وہ ان گولوں کو اتنا رو چکے ہوتے ہیں کہ اب بس وہ ہنس ہی دیتے ہیں۔ جاگتی آنکھوں کو آنے والے کل کی فکر ہوتی ہے، سوتی آنکھیں رہتی ہی گزرے ہوئے کل میں ہیں۔ سوتی آنکھیں خواب دیکھتی ہی کب ہیں، خواب تو جاگتی آنکھیں دیکھتی ہیں! مہنگے خواب، لالچی خواب، گھناؤنے خواب، بے درد خواب، سفاک خواب، تمہارے خواب، ہمارے خواب اور شاید سارے خواب۔
 

شمشاد

لائبریرین
چَس۔۔//۔۔
چس پنجابی کا لفظ ہے اور پنجابی کی ذیلی زبانوں,پوٹھواری,ہندکو اور سراہیکی وغیرہ میں بھی بولا جاتا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ کوئی بہت پرانا لفظ نہیں ہے اور "رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے" کے بعد یہ لفظ زیادہ مقبول ہوگیا ہے۔اردو میں اسکا متبادل اور ہم پلہ لفظ سرشاری ہے۔

چَس ایک کیفیت کانام ہے اور یہ کیفیت کسی بھی شخص,ڈنگر یا پخیرو(پرندے) پر کسی بھی وقت طاری ہوسکتی ہے,مثلا" اگر آپ کا تعلق کسی گاؤں سے اور ایک گاں یا منجھ(گائے یا بھینس) تپتی دوپہر میں دھوپ سے بولائی ہوئی آئے اور آپ کے ساتھ کسی گھنے سایہ دار رُکھ کے نیچے آپکی موجودگی کو درخو اعتناء نہ سمجھتے ہوئے اس سائے میں شریک ہو کر بیٹھ جائے اور کچھ دیر ہانپ کر جب اسکا جسم ٹھنڈا ہوجائے اور بیٹھے بیٹھے اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں اور وہ ایک خواب ناک کیفیت میں گولًی(جگالی) کرنے لگے تو سمجھ لیں کہ اسے چس آگئی ہے۔

سخت سردی کا موسم ہو اور ایک انسان باہر سے تھکا ماندہ گرد میں اٹا ہوا آئے, اور آتے ہی بوٹ جرابیں اتار کرگرم پانی کا شاور لے یا مگے بالٹی سے اپنے اوپر گرم پانی ڈال خود کو تازہ دم کرکے,منجی کے اوپر پاؤں پسارکے کڑک دودھ پتی کا گرم وڈا مگا دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر گود میں رکھ لے اور ٹی وی پر اپنا پسندیدہ ڈرامہ,کھیل,یا نیشنل جیوگرافک کا چینل لگا کر دودھ پتی کے مگے کی حدت کو دونوں ہاتھوں کی ہتھیلوں میں محسوس کرتے ہوئے آسکا ہاسا نکل جائے تو سمجھ لیں کہ وہ بندہ بھی چس کی کیفیت میں ہفت اکلیم کی سیر کررہا ہے۔

تو صاحبو یہ چس ایسی کیفیت ہے جو چوبیس گھنٹوں میں کم از کم ایک بار آپ پر ضرور طاری ہونی چاہیے,اب یہ کیفیت کسی منظر کو دیکھ کر,کسی نغمے یا شعر کو سن کر,کسی سنگی بیلی سے مل کر,کسی بچے کی کلکاری کو سن,کسی کھانے کا نوالہ منہ میں ڈال کر جس کا سواد آپکی روح تک اتر جائے,غرض یہ کیفیت کہیں بھی کسی بھی وقت طاری ہوسکتی ہے تو جب یہ چس والی کیفیت آپ پر طاری ہوتو ٹھہر جایا کریں اور اس چس کا پورا لطف کشید کیا کریں,شاید یہی لمحات حاصل زندگی ہوتے ہیں۔۔
 

سید عمران

محفلین
ہمیں چھوٹے گاؤں قصبوں کی سادہ زندگی کی سادگی بہت پسند ہے۔۔۔
خدا نے چاہا تو کہیں فارم ہاؤس بناکر وہیں زندگی گزاریں گے!!!
 

سیما علی

لائبریرین
جس کا سواد آپکی روح تک اتر جائے,غرض یہ کیفیت کہیں بھی کسی بھی وقت طاری ہوسکتی ہے تو جب یہ چس والی کیفیت آپ پر طاری ہوتو ٹھہر جایا کریں اور اس چس کا پورا لطف کشید کیا کریں,شاید یہی لمحات حاصل زندگی ہوتے ہیں۔۔
بالکل درست یہ سواد روح تک اُتر جاتا ہے اور اس کیفیت کا سرُور تا دیر قائم رہتا ہے اور یہی حاصلِ زندگی ہیں !!!!!!!
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
یہ میرا لکھا نہیں کسی کا لکھا ہے، آپ شاید لڑی کا عنوان بھول رہی ہیں :)
تو؟؟؟؟
آخر ہم نے غلطی کی کہاں؟؟؟؟
کیا خوب لکھا ہے۔۔۔۔ یہ جملہ لکھنے والے کے لئے تھا
خوش رہیں ہمیشہ ۔۔۔۔۔ یہ دعائیں آپ کے لئے تھیں۔
جو اچھی تحریر پہنچانے کا وسیلہ بنے، کیا اس کے لئے دعا نہیں کرنی چاہئیے؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین

سید عمران

محفلین
آپ ان پر دعائیں ڈائیورٹ کرانے والا غلط مشورہ دینے پر ٹھانہ اردو محفل میں مقدمہ کیجئے، ہم جب سے یہاں کے تھانے کی کاروائی دیکھنے کے انتظار میں ہیں۔
اور یہ لیں، ہم دونوں آپ پر دو معصوم شہریوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے اور ورغلانے کا مقدمہ دائر کرنے چلے!!!
 
Top