آج کی حدیث

سیما علی

لائبریرین
hsALVEy.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
عِلم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد (و عورت) پر فرض ہے۔

3872
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ

طَلَبُ العِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ

عِلم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد (و عورت)پرفرض ہے۔

(سنن ابن ماجہ)
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایاجو آدمی جمعہ کے دن غسل کرے اور جہاں تک صفائی کرسکتا ہے صفائی کرے اور اپنے تیل میں سے تیل لگائے اور اپنے گھر(والوں) کی خوشبو میں سے لگائے پھر (نمازکے لئے) نکلے (مسجد میں آئے) تو دو کے بیچ میں نہ گھسے پھر جتنی نماز اس کی تقدیر میں ہے وہ پڑھے (یعنی سنت ، نفل) اور جب امام خطبہ پڑھتا ہو اس وقت خاموش رہے تو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے گناہ اس کے بخش دےئے جائیں گے۔

(بخاری، جلد اوّل، کتاب الجمعہ، حدیث نمبر 838 )
 

سیما علی

لائبریرین
جیسا کہ نبی

کا فرمان ہے کہ من دل على خير؛ فله مثل أجر فاعله)
’’جو شخص کسی خیر کی طرف رہنمائی کرے گا، ما اس کو بھی اس پر
عمل کرنے والے کے مثل ثواب حاصل ہو گا۔‘‘
[اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔]
اور امید ہے کہ اس کے مرتب و ناشر کو ہدایت کی طرف بلانے والے کا ثواب ملے، جیسا کہ نبی

کا فرمان
ہے :
مَنْ دَعَا إِلَى هُدىً كانَ لهُ مِنَ الأجْر مِثلُ أُجورِ منْ تَبِعهُ لاَ ينْقُصُ ذلكَ مِنْ أُجُورِهِم شَيْئًا
)’’جو
شخص ہدایت کی طرف بلائے گا ما اس کے لیے ان لوگوں جیسا اجر ہوگا جو اس کی اتباع کریں گے اور ان کے اجر
میں سے کچھ بھی کم نہیں کیا
جائے گا۔
‘‘
[مسلم] اسی طرح امید ہے کہ مذکورہ تمام لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے
والے کا اجر حاصل ہو، جیسا کہ نبی

کا فرمان ہے إنَّ اللهَ وملائكَته وأهلَ السماواتِ والأرضِ
 

سیما علی

لائبریرین
سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ۔ )) قِیْلَ: مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَ: ((مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَھُمَا أَوْ کِلَیْھِمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب: رغم من ادرک ابویہ او احدھما عند الکبر، فلم یدخل الجنۃ، رقم: ۶۵۱۱۔

’’ اس انسان کی ناک خاک آلود ہو، اس انسان کی ناک خاک آلود ہو، اس انسان کی ناک خاک آلود ہو۔ سوال ہوا؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہیں ہوسکا۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطبہ دیا، اس میں فرمایا: “اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت والا، بڑا بابرکت مہینہ آرہا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض کیا ہے، اور اس کے قیام (تراویح) کو نفل (یعنی سنتِ موٴکدہ) بنایا ہے، جو شخص اس میں کسی بھلائی کے (نفلی) کام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرّب حاصل کرے، وہ ایسا ہے کہ کسی نے غیررمضان میں فرض ادا کیا، اور جس نے اس میں فرض ادا کیا، وہ ایسا ہے کہ کسی نے غیررمضان میں ستر۷۰ فرض ادا کئے، یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا ثواب جنت ہے، اور یہ ہمدردی و غمخواری کا مہینہ ہے، اس میں موٴمن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے، اور جس نے اس میں کسی روزہ دار کا روزہ اِفطار کرایا تو وہ اس کے لئے اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے اس کی گلوخلاصی کا ذریعہ ہے، اور اس کو بھی روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا، مگر روزہ دار کے ثواب میں ذرا بھی کمی نہ ہوگی۔” ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص کو تو وہ چیز میسر نہیں جس سے روزہ اِفطار کرائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرمائیں گے جس نے پانی ملے دُودھ کے گھونٹ سے، یا ایک کھجور سے، یا پانی کے گھونٹ سے روزہ اِفطار کرادیا، اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلایا پلایا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (کوثر) سے پلائیں گے جس کے بعد وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا، یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے (اور جنت میں بھوک پیاس کا سوال ہی نہیں)، یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ رحمت، درمیان حصہ بخشش اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی (کا) ہے۔ اور جس نے اس مہینے میں اپنے غلام (اور نوکر) کا کام ہلکا کیا، اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرمائیں گے، اور اسے دوزخ سے آزاد کردیں گے۔” (بیہقی شعب الایمان، مشکوٰة)
 

سیما علی

لائبریرین
حدیث نمبر: 2675

حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا المسعودي، عن عبد الملك بن عمير، عن ابن جرير بن عبد الله، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سن سنة خير فاتبع عليها فله اجره ومثل اجور من اتبعه غير منقوص من اجورهم شيئا، ومن سن سنة شر فاتبع عليها كان عليه وزره ومثل اوزار من اتبعه، غير منقوص من اوزارهم شيئا " ، وفي الباب عن حذيفة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن جرير بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، وقد روي هذا الحديث عن المنذر بن جرير بن عبد الله، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، وقد روي عن عبيد الله بن جرير، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم ايضا۔

جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہو گا اور (دوسرے) جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہو گا، بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو“ ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی سندوں سے جریر بن عبداللہ سے آئی ہے، اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے،
۳- یہ حدیث منذر بن جریر بن عبداللہ سے بھی آئی ہے، جسے وہ اپنے والد جریر بن عبداللہ سے اور جریر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،
۴- یہ حدیث عبیداللہ بن جریر سے بھی آئی ہے، اور عبیداللہ اپنے والد جریر سے اور جریر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۵- اس باب میں حذیفہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

34884 - 2675

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 20 (1017)، والعلم 6 (1017/15)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 14 (203) (تحفة الأشراف: 13976) و مسند احمد (4/357، 358، 361، 362)، وسنن الدارمی/المقدمة 44 (51صحیح)»


وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدایت یعنی ایمان، توحید اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پھیلانے کا اجر و ثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا، اسی طرح شر و فساد اور قتل و غارت گری اور بدعات و خرافات کے ایجاد کرنے والوں کو اپنے اس کرتوت کا گناہ تو ملے گا ہی ساتھ ہی اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ کا وبال بھی اس پر ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (203)
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ابن آدم کہتا ہے میرا مال ، میرا مال ۔ " فرمایا " آدم علیہ السلام کے بیٹے! تیرے مال میں سے تیرے لیے صرف وہی ہے جو تم نے کھا کرفنا کردیا ، یا پہن کر پُرانا کردیا ، یا صدقہ کرکے آگے بھیج دیا ۔
مسلم، کتاب الزہد،۷۴۲۰
 

سیما علی

لائبریرین
عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب هل یقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأی کله واسعا، 2/672، الرقم: 1800، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل شهر رمضان، 2/758، الرقم: 1079، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب فضل شهر رمضان، 4/126، الرقم: 2097.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے چند ایک رطب (تازہ کھجور) پر افطار کیا کرتے تھے اور اگر رطب نہ ملتیں تو پھر چند کھجوریں کھا کر اور اگر کھجوریں بھی نہ ملتیں تو پھر چند گھونٹ پانی پی کر افطاری کر لیا کرتے تھے )

سنن ترمذی کتاب الصوم حدیث نمبر 632
 

سیما علی

لائبریرین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور نیک لکھنے والے ( فرشتوں ) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔
بخاری

4937'"
 

سیما علی

لائبریرین
-دنوں میں بہترین دن: حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: ”جس دن میں سورج طلوع ہوتا ہے اس میں سب سے بہترین جمعہ کا دن ہے،اسی دن میں حضرت آدم ؑپیدا ہوئے، اسی دن جنت میں داخل کیے گئے، اور اسی دن اس سے نکالے گئے اور قیامت قائم نہیں ہوگی مگر جمعہ کے دن“ [مسلم].
 

سیما علی

لائبریرین
´ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوسہل نافع بن مالک نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔(صحیح بخاری۔ باب نمبر30۔حدیث نمبر189
 

سیما علی

لائبریرین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے نا پسندیدہ و مبغوض ترین عمل جھوٹ تھا، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جھوٹ سے زیادہ مبغوض کوئی خصلت نہ تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ سے نفرت کی وجہ سے جھوٹے سے اس وقت تک اعراض فرماتے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے۔



"حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا كَانَ خُلُقٌ أَبْغَضَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْكَذِبِ، وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُحَدِّثُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِالْكِذْبَةِ فَمَا يَزَالُ فِي نَفْسِهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ مِنْهَا تَوْبَةً."قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ".

( ٢٦- بَابُ مَا جَاءَ فِي الصِّدْقِ وَالكَذِبِ، ۳ / ٤١٦ ، رقم: ۱۹۷۳)

فيض القدير للمناويمیں ہے:

"6585 - (كان إذا اطلع على أحد من أهل بيته) أي من عياله وخدمه (كذب كذبة) واحدة بفتح الكاف وكسرها والذال ساكنة فيهما (لم يزل معرضًا عنه) إظهارا لكراهته الكذب وتأديبًا له وزجرًا عن العود لمثلها (حتى يحدث توبة) من تلك الكذبة التي كذبها وفي رواية البزار: ما كان خلق أبغض إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من الكذب، و لقد كان الرجل يكذب عنده الكذبة فما يزال في نفسه حتى يعلم أنه أحدث منها توبة".

( باب كان وهي الشمائل الشريفة، ٥ / ١٠٦، رقم: ٦٥٨٥ )

الزواجر عن اقتراف الكبائر للهيتميمیمیں ہے:

"وَأَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ: «مَا كَانَ مِنْ خُلُقٍ أَبْغَضَ إلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ الْكَذِبِ مَا اطَّلَعَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ فَيَخْرُجُ مِنْ قَلْبِهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ تَوْبَةً» . وَابْنُ حِبَّانَ فِي صَحِيحِهِ عَنْهَا قَالَتْ: «مَا كَانَ مِنْ خُلُقٍ أَبْغَضَ إلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ الْكَذِبِ، وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يَكْذِبُ عَنْهُ الْكَذْبَةَ فَمَا يَزَالُ فِي نَفْسِهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ فِيهَا تَوْبَةً». وَالْحَاكِمُ وَصَحَّحَهُ عَنْهَا قَالَتْ: «مَا كَانَ شَيْءٌ أَبْغَضَ إلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ الْكَذِبِ وَمَا جَرَّبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحَدٍ وَإِنْ قَلَّ فَيَخْرُجُ لَهُ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى يُجَدِّدَ لَهُ تَوْبَةً»."

( كتاب الشهادات، الْكَبِيرَةُ الْأَرْبَعُونَ بَعْدَ الْأَرْبَعِمِائَةِ: الْكَذِبُ الَّذِي فِيهِ حَدٌّ أَوْ ضَرَرٌ ،۲ / ۳۲٤)
 

سیما علی

لائبریرین
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں` مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھ پر سورۃ نساء پڑھو“ میں نے عرض کیا: کیا میں آپ کو پڑھ کے سناؤں؟ جب کہ وہ آپ پر اتاری گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ میں اوروں سے سنوں“ پھر میں نے آپ کو «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد» ”اس وقت کیا ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے“ (سورة النساء: ۴۱) تک پڑھ کر سنایا، اور اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہے۔
 
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائ :
((1)) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا چاہے تجھے قتل کر دیا جاے یا جلا دیا جاے
((2)) اور اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرنا اگرچہ وہ تجھے اہل عیال اور مال سے نکال دیں
((3)) اور جان بوجھ کر فرض نماز نہ چھوڑنا کیونکہ جو فرض نماز چھوڑتا ہے وہ اللہ تعالی کے ذمہ کرم سے نکل جاتا ہے
((4)) اور کبھی بھی شراب نہ پینا کیونکہ یہ تمام برائیوں کی سردار ہے
((5)) اور کبھی اللہ کی نافرمانی نہ کرنا کیونکہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اس پر اللہ کا غضب حلال ہو جاتا ہے
((6)) اور میدان جنگ سے نہ بھاگنا گرچہ لوگ قتل ہورہے ہوں
((7)) اور کسی اہل علاقہ کو جان لیوا مرض آ لے اور تو وہاں ہو تو وہیں ثابت قدم رہنا
((٭) اور اپنے اہل و عیال پر کھلے دل سے خرچ کرنا
((9)) اور اپنی اولاد کو سمجھانے کے لیے اپنا ڈنڈا مت ٹوٹنے دینا ( یعنی ڈنڈے سے بھی سمجھانا پڑے تو سمجھاو )
((10)) اور اپنی اولاد کے دل میں خدا کا خوف پیدا کرنا
مسند احمد ' حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ' جلد : 12 ' صفحہ :407 ' رقم الحدیث : 21974 دارالحدیث قاہرہ مصر
 
Top