اگر اس جہاں میں وفا عام ہو گی-------برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اس جہاں میں وفا عام ہو گی
محبّت کبھی پھر نہ بدنام ہو گی
------------
جو لالچ میں آکر کرو گے محبّت
یہ چاہت تمہاری تو اک دام ہو گی
---------
اگر نیّتوں میں خرابی رہے گی
یہ جھوٹی محبّت تو ناکام ہو گی
---------
مسافر ہوں کل کا تجھے کیا بتاؤں
کہاں صبح میری کہاں شام ہو گی
--------------
دلوں میں وفائیں اگر گھر کریں گیں
محبّت تو جیسے کہ انعام ہو گی
----------------
رہو گے شرافت سے دنیا میں ارشد
تو یہ بات دنیا کو پیغام ہو گی
-------------
 

الف عین

لائبریرین
اگر اس جہاں میں وفا عام ہو گی
محبّت کبھی پھر نہ بدنام ہو گی
------------ تکنیکی طور پر درست، لیکن کہنا کیا چاہتے ہیں؟

جو لالچ میں آکر کرو گے محبّت
یہ چاہت تمہاری تو اک دام ہو گی
--------- کس لالچ میں، یہ بھی مفہوم کے اعتبار سے عجیب ہے

اگر نیّتوں میں خرابی رہے گی
یہ جھوٹی محبّت تو ناکام ہو گی
--------- یہ بھی ایضاً....

مسافر ہوں کل کا تجھے کیا بتاؤں
کہاں صبح میری کہاں شام ہو گی
-------------- کل کا؟ اس کی بجائے کچھ اور الفاظ بدل کر کہیں

دلوں میں وفائیں اگر گھر کریں گیں
محبّت تو جیسے کہ انعام ہو گی
---------------- یہ بھی واضح نہیں، 'گیں' کوئی لفظ نہیں، جمع میں بھی 'گی' ہی درست ہے، جس سے تقابل ردیفین کا سقم پیدا ہو جاتا ہے

رہو گے شرافت سے دنیا میں ارشد
تو یہ بات دنیا کو پیغام ہو گی
------------- واضح تو یہ شعر بھی نہیں
 
Top