غزل: اُس پریشاں زلف سے جب سامنا ہوجائے گا (منہاجؔ علی)

فاخر رضا

محفلین
نوازنا تو کم نہیں کیا فاخر بھائی ۔ بس ان دنوں وقت کم ہوتا ہے تو دوستوں کا لکھا پڑھنے اور ان پر تبصرے لکھنے کو ترجیح دیتا ہوں ۔ نئی غزلیں اور نظمیں تو کئی جمع ہوگئی ہیں جب بھی مہلت ملی تو پیشِ خدمت کروں گا ۔
چشم
 
اُس پریشاں زلف سے جب سامنا ہو جائے گا
پیچِ بادِ صبح اک دم میں ہَوا ہوجائے گا

اُس گلی میں منتشر کردے ہماری خاک کو
کچھ تو عرضِ مدّعا بادِ صبا ہوجائے گا

پھر جگر کو لطفِ یک تیرِ مژہ درکار ہے
’کارِ غمخواری، نگاہِ آشنا ہوجائے گا‘ (مصرعۂ مدنیؔ)

وصل میں بندِ قبا کو منّتِ انگشت کیا
گرمیٔ انفاس کی اک رَو سے وا ہوجائے گا

ہے لبِ لعلیں دمِ گفتار ابھی گُل کی طرح
دیکھنا خاموش ہو تو غنچہ سا ہوجائے گا

منہاجؔ علی (کراچی)
منہاج صاحب ، سلام عرض ہے !

آپ کی غزل نظر نواز ہوئی اور پسند آئی . آپ نے عمدہ بندشیں استعمال کی ہیں . میری دلی داد قبول فرمائیے .

میں بند قبا والے شعر پر ذرا چونک گیا تھا . پِھر احباب كے خطوط سے معلوم ہوا کہ یہ ردّ عمل صرف میرا نہیں تھا . آپ نے فاخر صاحب کو اپنے جوابات میں اِس شعر كے دفاع میں کچھ حوالے اور دلائل عنایت فرمائے ہیں . اگر آپ یہ کہتے کہ بطور شاعر آپ کا حق ہے کہ جس مضمون پر چاہیں شعر کہیں تو بات یہیں ختم ہو جاتی . لیکن آپ نے اوروں کی مثالیں دے کر بحث کا دروازہ بند قبا کی طرح وا کر دیا ہے .:) میں آپ کے ارشادات پر کچھ عرض کرنا چاہونگا . اِس کم عمری میں آپ کا وسیع مطالعہ اور زبان پر قدرت قابل تعریف ہے . مجھے یقین ہے کہ میری گزارشات آپ كے شعری سفر میں مفید ثابت ہونگی .

آپ كے شعر کا مفہوم سامنے کا ہے اور میرے خیال میں آپ نے کوئی گہری بات کہنے کی کوشش نہیں کی ہے . فاخر صاحب کو آپ كے جواب سے اِس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے . یہاں سب سے پہلے تو یہ عرض ہے کہ حُسْن اور عشق كے معاملے میں شعر میں خوبصورتی کنائے اور اشارے سے پیدا ہوتی ہے . اگر سب کچھ صاف صاف کہہ دیا جائے تو دلکشی ختم ہو جاتی ہے . آپ نے غالب اور میر كے اشعار بطور مثال عنایت فرمائے ہیں . غور کیجیے کہ دونوں اشعار میں کسی وصل کا ذکر نہیں ہے اور عاشق محبوب كے حُسْن کا تصور کر رہا ہے . غرض یہ کہ یہاں ایک فاصلہ ہے جس کا اہتمام آپ كے شعر میں نہیں کیا گیا . میرے خیال میں ہمارا معاشرہ ابھی وصل كے علانیہ ذکر كے لیے تیار نہیں ہے . شاید اسی وجہ سے کچھ قارئین پر یہ شعر گراں گزرا .

آپ کا یہ قول بجا ہے کہ میر كے یہاں گرافک اشعار کی کئی مثالیں ہیں . لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ اشعار میر كے نمائندہ اشعار تسلیم نہیں کیے جاتے . میر کو خدائے سخن کا لقب ان اشعار کی وجہ سے نہیں ملا . میر کی جب مثال دی جاتی ہے تو ان شعروں کا ذکر نہیں ہوتا . غرض یہ کہ اگر آپ کو یادگار اور مثالی شعر تخلیق کرنے کی آرزو ہے تو ایسے مضامین سے شاید یہ ممکن نہیں ہو گا .

آپ نے فرمایا ہے کہ اچھے شعر کا پیمانہ خیال نہیں، زبان و بیان ہے . میری ناچیز رائے میں آپ کو اِس دعوے پر دوبارہ غور کرنا چاہیے . خیال کا شعر كے حُسْن میں اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا زبان و بیان کا . اس ضمن میں مرزا یاس یگانہ کا یہ قول ملاحظہ فرمائیے جو انہوں نے اپنی کتاب ’چراغِ سخن‘ میں رقم کیا ہے: ’شعر كے لیے مقتضائے معنی سب سے پہلی اور ضروری شرط ہے . اِس بنا پر كلام مخیّل و موزوں کا نام شعر ہے .‘

ویسے اِس شعر میں زبان كے علاوہ آپ کو گرمئ انفاس سے بند قبا وا کرنے کی ترکیب پر داد دیتا ہوں . تصور کی یہ پرواز اگر کسی نسبتاََ کم خطرناک مضمون میں نظر آئے تو شاید اثر کچھ اور ہو گا .:)

مجھے علم ہے کہ ہلال نقوی صاحب نے آپ كے اِس شعر کو پسند فرمایا ہے . میں ان کی رائے کا اِحْتِرام کرتا ہوں ، لیکن میری گزارش ہے کہ آپ میری رائے کو صرف اِس کی مناسبت کی روشنی میں دیکھیں ، کسی اور کی پسند كے تناظر میں نہیں .

نیازمند،
عرفان عابدؔ
 

فاخر رضا

محفلین
منہاج صاحب ، سلام عرض ہے !

آپ کی غزل نظر نواز ہوئی اور پسند آئی . آپ نے عمدہ بندشیں استعمال کی ہیں . میری دلی داد قبول فرمائیے .

میں بند قبا والے شعر پر ذرا چونک گیا تھا . پِھر احباب كے خطوط سے معلوم ہوا کہ یہ ردّ عمل صرف میرا نہیں تھا . آپ نے فاخر صاحب کو اپنے جوابات میں اِس شعر كے دفاع میں کچھ حوالے اور دلائل عنایت فرمائے ہیں . اگر آپ یہ کہتے کہ بطور شاعر آپ کا حق ہے کہ جس مضمون پر چاہیں شعر کہیں تو بات یہیں ختم ہو جاتی . لیکن آپ نے اوروں کی مثالیں دے کر بحث کا دروازہ بند قبا کی طرح وا کر دیا ہے .:) میں آپ کے ارشادات پر کچھ عرض کرنا چاہونگا . اِس کم عمری میں آپ کا وسیع مطالعہ اور زبان پر قدرت قابل تعریف ہے . مجھے یقین ہے کہ میری گزارشات آپ كے شعری سفر میں مفید ثابت ہونگی .

آپ كے شعر کا مفہوم سامنے کا ہے اور میرے خیال میں آپ نے کوئی گہری بات کہنے کی کوشش نہیں کی ہے . فاخر صاحب کو آپ كے جواب سے اِس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے . یہاں سب سے پہلے تو یہ عرض ہے کہ حُسْن اور عشق كے معاملے میں شعر میں خوبصورتی کنائے اور اشارے سے پیدا ہوتی ہے . اگر سب کچھ صاف صاف کہہ دیا جائے تو دلکشی ختم ہو جاتی ہے . آپ نے غالب اور میر كے اشعار بطور مثال عنایت فرمائے ہیں . غور کیجیے کہ دونوں اشعار میں کسی وصل کا ذکر نہیں ہے اور عاشق محبوب كے حُسْن کا تصور کر رہا ہے . غرض یہ کہ یہاں ایک فاصلہ ہے جس کا اہتمام آپ كے شعر میں نہیں کیا گیا . میرے خیال میں ہمارا معاشرہ ابھی وصل كے علانیہ ذکر كے لیے تیار نہیں ہے . شاید اسی وجہ سے کچھ قارئین پر یہ شعر گراں گزرا .

آپ کا یہ قول بجا ہے کہ میر كے یہاں گرافک اشعار کی کئی مثالیں ہیں . لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ اشعار میر كے نمائندہ اشعار تسلیم نہیں کیے جاتے . میر کو خدائے سخن کا لقب ان اشعار کی وجہ سے نہیں ملا . میر کی جب مثال دی جاتی ہے تو ان شعروں کا ذکر نہیں ہوتا . غرض یہ کہ اگر آپ کو یادگار اور مثالی شعر تخلیق کرنے کی آرزو ہے تو ایسے مضامین سے شاید یہ ممکن نہیں ہو گا .

آپ نے فرمایا ہے کہ اچھے شعر کا پیمانہ خیال نہیں، زبان و بیان ہے . میری ناچیز رائے میں آپ کو اِس دعوے پر دوبارہ غور کرنا چاہیے . خیال کا شعر كے حُسْن میں اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا زبان و بیان کا . اس ضمن میں مرزا یاس یگانہ کا یہ قول ملاحظہ فرمائیے جو انہوں نے اپنی کتاب ’چراغِ سخن‘ میں رقم کیا ہے: ’شعر كے لیے مقتضائے معنی سب سے پہلی اور ضروری شرط ہے . اِس بنا پر كلام مخیّل و موزوں کا نام شعر ہے .‘

ویسے اِس شعر میں زبان كے علاوہ آپ کو گرمئ انفاس سے بند قبا وا کرنے کی ترکیب پر داد دیتا ہوں . تصور کی یہ پرواز اگر کسی نسبتاََ کم خطرناک مضمون میں نظر آئے تو شاید اثر کچھ اور ہو گا .:)

مجھے علم ہے کہ ہلال نقوی صاحب نے آپ كے اِس شعر کو پسند فرمایا ہے . میں ان کی رائے کا اِحْتِرام کرتا ہوں ، لیکن میری گزارش ہے کہ آپ میری رائے کو صرف اِس کی مناسبت کی روشنی میں دیکھیں ، کسی اور کی پسند كے تناظر میں نہیں .

نیازمند،
عرفان عابدؔ
یار تسی گریٹ ہو، تحفہ قبول کرو
سر آپ نے جس معتدل انداز میں اس شعر کی بخیے ادھیڑے ہیں اور ہماری زبان میں پوسٹ مارٹم کیا ہے اس سے دل باغ باغ ہوگیا.
خدا آپ کو سلامت رکھے اور آپ کو لمبی عمر عطا فرمائے آمین
 

منہاج علی

محفلین
میں آپ سب حضرات کا شکر گزار ہوں۔ میں نے محفل پر پہلی بار اپنا کلام پوسٹ کِیا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ تین چار حضرات اس پر تبصرہ کرلیں گے لیکن امید سے بڑھ کر آپ لوگوں کی محبتیں مِلِیں۔ شکریہ۔ ❤️
 

منہاج علی

محفلین
منہاج صاحب ، سلام عرض ہے !

آپ کی غزل نظر نواز ہوئی اور پسند آئی . آپ نے عمدہ بندشیں استعمال کی ہیں . میری دلی داد قبول فرمائیے .

میں بند قبا والے شعر پر ذرا چونک گیا تھا . پِھر احباب كے خطوط سے معلوم ہوا کہ یہ ردّ عمل صرف میرا نہیں تھا . آپ نے فاخر صاحب کو اپنے جوابات میں اِس شعر كے دفاع میں کچھ حوالے اور دلائل عنایت فرمائے ہیں . اگر آپ یہ کہتے کہ بطور شاعر آپ کا حق ہے کہ جس مضمون پر چاہیں شعر کہیں تو بات یہیں ختم ہو جاتی . لیکن آپ نے اوروں کی مثالیں دے کر بحث کا دروازہ بند قبا کی طرح وا کر دیا ہے .:) میں آپ کے ارشادات پر کچھ عرض کرنا چاہونگا . اِس کم عمری میں آپ کا وسیع مطالعہ اور زبان پر قدرت قابل تعریف ہے . مجھے یقین ہے کہ میری گزارشات آپ كے شعری سفر میں مفید ثابت ہونگی .

آپ كے شعر کا مفہوم سامنے کا ہے اور میرے خیال میں آپ نے کوئی گہری بات کہنے کی کوشش نہیں کی ہے . فاخر صاحب کو آپ كے جواب سے اِس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے . یہاں سب سے پہلے تو یہ عرض ہے کہ حُسْن اور عشق كے معاملے میں شعر میں خوبصورتی کنائے اور اشارے سے پیدا ہوتی ہے . اگر سب کچھ صاف صاف کہہ دیا جائے تو دلکشی ختم ہو جاتی ہے . آپ نے غالب اور میر كے اشعار بطور مثال عنایت فرمائے ہیں . غور کیجیے کہ دونوں اشعار میں کسی وصل کا ذکر نہیں ہے اور عاشق محبوب كے حُسْن کا تصور کر رہا ہے . غرض یہ کہ یہاں ایک فاصلہ ہے جس کا اہتمام آپ كے شعر میں نہیں کیا گیا . میرے خیال میں ہمارا معاشرہ ابھی وصل كے علانیہ ذکر كے لیے تیار نہیں ہے . شاید اسی وجہ سے کچھ قارئین پر یہ شعر گراں گزرا .

آپ کا یہ قول بجا ہے کہ میر كے یہاں گرافک اشعار کی کئی مثالیں ہیں . لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ اشعار میر كے نمائندہ اشعار تسلیم نہیں کیے جاتے . میر کو خدائے سخن کا لقب ان اشعار کی وجہ سے نہیں ملا . میر کی جب مثال دی جاتی ہے تو ان شعروں کا ذکر نہیں ہوتا . غرض یہ کہ اگر آپ کو یادگار اور مثالی شعر تخلیق کرنے کی آرزو ہے تو ایسے مضامین سے شاید یہ ممکن نہیں ہو گا .

آپ نے فرمایا ہے کہ اچھے شعر کا پیمانہ خیال نہیں، زبان و بیان ہے . میری ناچیز رائے میں آپ کو اِس دعوے پر دوبارہ غور کرنا چاہیے . خیال کا شعر كے حُسْن میں اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا زبان و بیان کا . اس ضمن میں مرزا یاس یگانہ کا یہ قول ملاحظہ فرمائیے جو انہوں نے اپنی کتاب ’چراغِ سخن‘ میں رقم کیا ہے: ’شعر كے لیے مقتضائے معنی سب سے پہلی اور ضروری شرط ہے . اِس بنا پر كلام مخیّل و موزوں کا نام شعر ہے .‘

ویسے اِس شعر میں زبان كے علاوہ آپ کو گرمئ انفاس سے بند قبا وا کرنے کی ترکیب پر داد دیتا ہوں . تصور کی یہ پرواز اگر کسی نسبتاََ کم خطرناک مضمون میں نظر آئے تو شاید اثر کچھ اور ہو گا .:)

مجھے علم ہے کہ ہلال نقوی صاحب نے آپ كے اِس شعر کو پسند فرمایا ہے . میں ان کی رائے کا اِحْتِرام کرتا ہوں ، لیکن میری گزارش ہے کہ آپ میری رائے کو صرف اِس کی مناسبت کی روشنی میں دیکھیں ، کسی اور کی پسند كے تناظر میں نہیں .

نیازمند،
عرفان عابدؔ

کیا بات ہے جناب۔ بہت خوب تبصرہ ہے۔ شکر گزار ہوں۔
 
Top