مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کی طبیعت ناساز، تمام سیاسی سرگرمیاں منسوخ

جاسم محمد

محفلین
مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کی طبیعت ناساز، تمام سیاسی سرگرمیاں منسوخ
ویب ڈیسک اتوار 28 مارچ 2021
2159854-fazlu-1616927281-933-640x480.jpg

مریم نواز کو تیز بخار اور گلے میں شدید درد ہے، ترجمان (ن) لیگ۔ فوٹو : فائل

لاہور: سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان اور نائب صدر (ن) لیگ مریم نواز نے طبیعت ناساز ہونے کے باعث تمام سیاسی سرگرمیاں منسوخ کردی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی طبیعت ناساز ہے جس کے باعث انہوں نے آئندہ 4 روز کے لیے سیاسی سرگرمیاں منسوخ کردی ہیں، مریم نواز کو تیز بخار اور گلے میں شدید درد ہے جب کہ ان کا کورونا کا ٹیسٹ بھی کرایا گیا جو منفی آیا ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ ڈاکٹرز نے مریم نواز کو آرام کا مشورہ دیا ہے جب کہ گزشتہ روز مریم نواز طبیعت کی ناسازی کے باوجود لاہور ہائی کورٹ گئی تھیں۔

دوسری جانب ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی علیل ہوگئے ہیں جس کے بعد انہوں نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں معطل کردی ہیں، خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے کورونا ٹیسٹ کرایا ہے جو منفی آیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کی طبیعت ناساز، تمام سیاسی سرگرمیاں منسوخ
ویب ڈیسک اتوار 28 مارچ 2021
2159854-fazlu-1616927281-933-640x480.jpg

مریم نواز کو تیز بخار اور گلے میں شدید درد ہے، ترجمان (ن) لیگ۔ فوٹو : فائل

لاہور: سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان اور نائب صدر (ن) لیگ مریم نواز نے طبیعت ناساز ہونے کے باعث تمام سیاسی سرگرمیاں منسوخ کردی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی طبیعت ناساز ہے جس کے باعث انہوں نے آئندہ 4 روز کے لیے سیاسی سرگرمیاں منسوخ کردی ہیں، مریم نواز کو تیز بخار اور گلے میں شدید درد ہے جب کہ ان کا کورونا کا ٹیسٹ بھی کرایا گیا جو منفی آیا ہے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ ڈاکٹرز نے مریم نواز کو آرام کا مشورہ دیا ہے جب کہ گزشتہ روز مریم نواز طبیعت کی ناسازی کے باوجود لاہور ہائی کورٹ گئی تھیں۔

دوسری جانب ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی علیل ہوگئے ہیں جس کے بعد انہوں نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں معطل کردی ہیں، خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے کورونا ٹیسٹ کرایا ہے جو منفی آیا۔
اللہ تعالیٰ دونوں رہنماؤں کو پی ڈی ایم ٹوٹنے کا صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
165785732_4200912929931025_2314088340403737675_o.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
مگر افسوس، مگر افسوس!


پاکستانی لیڈر عجیب لوگ ہیں۔ گردو پیش سے بے خبر، حقائق سے بے نیاز، عوامی امنگوں سے بے نیاز۔سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن ہو یا حکومت، سیاسی قیادت نے عوام کو احمق سمجھ رکھا ہے۔ زخم لگا کر نمک چھڑکتے ہیں اور اس پر داد کے طالب بھی۔ نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی میں کیونکر اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں خبر یہ ہے کہ مولانا طارق جمیل سمیت 184شخصیات کو سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس سے زیادہ نمایاں ایک اطلاع اور بھی ہے۔ وزیرِ اعظم نے اعلان کیا کہ طاقتوراب قانون کے تابع ہیں اور ملک ایک نئے دور میں داخل ہو چکا۔ اسی ہنگام حکومتِ پاکستان نے ایک عظیم صدمے سے قوم کو دوچار کیا ہے۔ مولانا طارق جمیل کو تمغہ عطا کرنے کی بات تو قابلِ فہم ہے۔ یہ اخبار نویس تو ان کا قائل نہیں اور بہت سے دوسرے لو گ بھی۔ پچھلے برس جن کے حامیوں کی طرف سے جنہیں عتاب کا سامنا ہوا۔ البتہ یہ کہ اپنے فدائین کو انہوں نے روکا اور اخبار نویسوں سے معذرت کی۔ ان کے سب اقدامات کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ بالخصوص بارسوخ طبقات پہ ان کی خصوصی عنایات؛با ایں ہمہ تنقید کو انہوں نے گوارا کیا اور اس پر وہ تحسین کے مستحق ہیں۔ رہی اعزاز کی بات تو یہ ایک مذاق ہے۔ ٹیلی ویژن کی ایک ایسی شخصیت کو ان سے بہتر اور برتر تمغہ دیا گیا، جن کے چینل پر مبتذل ڈرامے نشر ہوتے ہیں۔ وہ کہانیاں، جو معاشرے کے سماجی پیرہن ( Social fabric) کو تباہ کرنے کا مستقل ذریعہ ہیں۔ رشتوں کی تقدیس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ان محترمہ کو نشانِ امتیاز بخشا گیا، جب کہ مولانا طارق جمیل کو تمغہ ء حسنِ کارکردگی، جو نسبتاً کمتر ہے۔ کہاں طارق جمیل او ر کہاں یہ محترمہ۔ مولانا کے طرزِ احساس سے کتنا ہی اختلاف ہو، پیہم اور مسلسل وہ سماجی خرابیوں کے سد باب میں لگے رہے۔ کتنوں تک، ان کے طفیل رحمتہ اللعالمینؐ کے اقوالِ مبارک پہنچے اور پروردگار کے ارشادات۔ وہ خاتون ان سے زیادہ محترم کیسے ہو گئیں؟ ایسا ہی ایک سانحہ پچھلے برس ہوا تھا۔ جب ایک مبتدی اداکارہ کو ایسا ہی اعلیٰ ایوارڈ دیا گیا۔ قوم دنگ رہ گئی۔ ایک وفاقی وزیر نے اس پر خم ٹھونک کر کہا: میں نے ان کی سفارش کی ہے، میں نے۔ ایک وزیر کو یہ حق کیسے حاصل ہو گیا اور اس پر فخر کرنے کا مطلب کیا۔ ادبی انعامات کے لیے جو کمیٹی بنی، اس میں ایک وفاقی سیکرٹری شامل تھے۔ خیر سے کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ادراک کا عالم مگر یہ ہے کہ متعلقہ منعقدہ اجلاس میں ڈاکٹر جمیل جالبی کو وہ متواتر ڈاکٹر جلیبی کہتے رہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی محض ایک عظیم سکالر نہ تھے بلکہ حسنِ اخلاق کا ایک نادر نمونہ۔ ان کے ایک سابق ڈرائیور نے بتایا: جتنا عرصہ میں ان کے ساتھ رہا، ایک باپ کی سی شفقت میرے حصے میں آئی۔ ساری زندگی طلبِ علم کے لیے وقف کردی تھی۔ تفصیلات کا محل نہیں، کہا جاسکتا ہے کہ تنِ تنہا اتنا کام کر دکھایا کہ شاید کوئی ادارہ بھی کر نہ سکتا۔ دن رات کام میں جتے رہتے۔ قانون اور آداب و ضوابط سے بے نیاز اس معاشرے میں، جہاں کہیں تصادم کا کوئی واقعہ ہوتا، سلیقہ مندی سے گرہ کھولتے۔ جہاں بھی گئے، ان کے احترام میں اضافہ ہوا۔ قومی اعزازعطا کرنے کا قرینہ اور نظام کیا ہے؟ کیا ڈھنگ کی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ کیا کوئی تحقیق و جستجو بھی ہوتی ہے۔ ہمارے بلند پایہ کالم نگار عامر خاکوانی نے تفصیل سے اس موضوع پر لکھا تھا۔ وہ اعتدال کو ہاتھوں سے کبھی جانے نہیں دیتے۔ تحقیق کے تقاضے نبھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ خیال تھا کہ ان کے تجزیے کو ملحوظ رکھا جائے گا مگر افسوس، مگر افسوس! وزیرِ اعظم کے اس دعوے پر کیا کہیے کہ طاقتوراب قانون کے تابع ہیں اور ملک نئے دور میں داخل ہو چکا۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ پٹوار اور پولیس اب تک ویسی ہی خونخوار ہے۔ عام آدمی آج بھی پولیس کی وردی سے خوفزدہ رہتاہے۔ اصلاحات کے لیے ایک قدم تک اٹھایا نہیں گیا۔ کچہریوں میں لوگ آج بھی خستہ وہ خوار ہیں۔ پچھلے برس ایک پولیس افسر نے حیرت زدہ کر دیا۔ اس نے کہا کہ خود ہمیں بھی مقدمات درج کرانے کے لیے عدالتی عملے کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ یہ روپیہ کہاں سے آتا ہے۔ یہی کیا، پولیس سٹیشنوں میں سٹیشنری اور گشت کے لیے مطلوبہ ڈیزل کی رقم بھی پوری مہیا نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ بوجھ شہری اٹھاتے ہیں۔ عدلیہ میں اصلاحات کا کبھی سوچا تک نہیں گیا۔ جہاں مجسٹریٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک ججوں کی تعداد کم ہے، ایک ہزار کم۔مہنگائی کے عفریت نے چہرے مرجھا دیے اور چولہے بجھ گئے ہیں۔ آٹے کی ملوں کو حکومت چودہ سو روپے فی من کے حساب سے گندم فراہم کرتی ہے مارکیٹ میں گیہوں کی قیمت 2200روپے فی من تک جا پہنچی۔ فلور ملوں میں ایسی ہیں، جو گندم پیستی ہی نہیں، براہِ راست بازار میں بیچ دیتی ہیں۔ چینی کی قیمت ایک سور وپے فی کلو سے اوپر جا پہنچی۔دواؤں کا حال اور بھی پتلا ہے۔ ایک سے دس گنا تک نرخ پاتی ہیں۔ بعض دوائیں نایاب رہتی ہیں۔ خاص طور پر جان بچانے والی ادویات۔ ڈریپ کا حال اس قدر پتلا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے وزیرِ پہ حرف آیا اور ایک کے بعد دوسرے وزیر کو برطرف کرنا پڑا۔اس پہ وزیرِ اعظم کا اظہارِ فخر۔میرؔ صاحب یاد آئے: سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا مستند ہے میرا فرمایا ہوا خدا خدا کر کے کرونا ویکسین کی قیمت کا تعین ہوا ہے۔ میڈیا کو اس کے لیے پیہم چیخنا پڑا۔ چند گھنٹوں سے زیادہ درکار نہ تھے لیکن دنوں پر دن گزرتے گئے؛تب کابینہ کو رحم آیا۔ سب جانتے ہیں مگر وزیرِ اعظم ہی نہیں۔ اس کے سوا کیا عرض کیجیے، پتہ پتہ، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے انسان کو خطا و نسیان سے بنایا گیا۔ آد می سے غلطی سرزد ہوتی ہے۔ قرینہ یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف اور اصلاح کی کوشش کرے۔ یہ کیا کہ سامنے کی سچائی کو ماننے سے انکار کر دے۔دوسروں کا حال اور بھی بدتر ہے۔جوتیوں میں دال بٹنے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے فرمایا ہے: رمضان المبارک کے بعد تازہ دم ہو کر پی ڈی ایم حکومت پر یلغار کرے گی۔ خاک یلغار کرے گی کہ ایک دوسرے کے گریبانوں سے فرصت نہیں۔ پارٹی کارکنوں کو بلاول بھٹو نے اب تلقین کی ہے کہ نون لیگ کے جواب میں تلخ نوائی نہ کریں۔ تلخ نوائی کے مرتکب تو وہ خود ہوئے اور ان سے پہلے محترمہ مریم نواز۔ اپوزیشن اور حکومت کی جوتم پیزار اور میڈیا سیلوں کی گالم گلوچ اس کے سوا۔ پاکستانی لیڈر عجیب لوگ ہیں۔ گردو پیش سے بے خبر، حقائق سے بے نیاز، عوامی امنگوں سے بے نیاز۔سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن ہو یا حکومت، سیاسی قیادت نے عوام کو احمق سمجھ رکھا ہے۔ زخم لگا کر نمک چھڑکتے ہیں اور اس پر داد کے طالب بھی۔

Daily 92 Roznama ePaper - مگر افسوس، مگر افسوس!
 

شمشاد

لائبریرین
ان کو عوام کا اتنا ہی درد ہے جتنا یہ "انڈے کتنے روپے کلو ہیں" اور "آلو کتنے روپے کے درجن ہیں" کے متعلق جانتے ہیں۔
 
چلیے آپ لوگوں کو احساس تو ہوا کہ سیلیکٹڈ اور اس کی درآمد شدہ ٹیم بھی اسی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، جنھیں ٹماٹر سترہ روپے کلو نظر آتا ہے، انڈے اور مرغی پال کر اکانومی کو سہارا دینا چاہتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
چلیے آپ لوگوں کو احساس تو ہوا کہ سیلیکٹڈ اور اس کی درآمد شدہ ٹیم بھی اسی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، جنھیں ٹماٹر سترہ روپے کلو نظر آتا ہے، انڈے اور مرغی پال کر اکانومی کو سہارا دینا چاہتے ہیں۔
آپ کی مرضی ہے جناب۔ ملکی معیشت کو جگاڑ پر چلا لیں جیسا کہ پچھلے تیس چالیس سال سے ہو رہا ہے۔ یا پھر اس کا معاشی ڈھانچہ مضبوط کریں تاکہ ملک معاشی ترقی کرتے وقت ریکارڈ قرضوں اور خساروں کا بوجھ عوام پر نہ لادھ سکے۔


کیا اسٹیٹ بنک کی آزادی ضروری تھی؟
28/03/2021 ذیشان ہاشم

ایک ملک کی معیشت کا درست اندازہ لگانا ہوا تو سب سے پہلے گروتھ ریٹ دیکھتے ہیں، اور اگر یہ دیکھنا ہو گا کہ اس ملک کی معیشت کتنی مستحکم ہے تو دو اہم انڈیکیٹر دیکھے جاتے ہیں۔ اس ملک کی مونیٹری پالیسی اور فسکل پالیسی میں پوزیشن مستحکم ہے یا نہیں خاص طور پر یہ کہ یہ دونوں پالیسیز اکانومی پر کتنا اثرانداز ہوتے ہیں۔ فسکل پالیسی حکومت بناتی ہے اور مونیٹری پالیسی ایک ملک کا سنٹرل بنک جسے پاکستان میں اسٹیٹ بنک کہتے ہیں۔

ایک ملک کی معیشت میں جہاں حکومت کا کردار اہم ہے وہاں ریگولیٹرز حکومت سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر ریگولیٹرز موجود رہتے ہیں۔ حکومتیں ووٹرز کو مطمئن کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں بغیر کسی بڑی کاسٹ کے، وہ بعض اوقات ایسے فیصلے کر جاتی ہیں جن کے فوائد وقتی مگر نقصان طویل مدت کے لئے ہوتے ہیں۔ ریگولیٹرز مارکیٹ میں شفافیت کو یقینی بناتے ہیں، انہیں ووٹرز کو مطمئن نہیں کرنا ہوتا بلکہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوتا ہے یوں وہ مستحکم پالیسیز بناتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک ایک ریگولیٹر ادارہ ہے۔

پاکستان کا اکنامک ماڈل اپنی بنیاد میں ہی خراب ہے۔ پاکستانی حکومت کی آمدن کم ہے اور اخراجات بہت ہی زیادہ۔ ہونا یہ چاہئے کہ حکومت ایسی اصلاحات کرے کہ جس سے ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھیں، معاشی ترقی ہو اور نتیجے میں حکومت کی آمدن بھی بڑھے۔ مگر اصلاحات کا یہ عمل قدرے مشکل ہے پاکستان کی پولیٹیکل اکانومی کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو۔ اب حکومت کیا کرتی ہے ؟ اس نے عارضی طریقے ڈھونڈھے ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

ایک : باہر سے قرض لے کر گزارہ کرنا خاص طور پر کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لئے۔ اگر حکومت قرض نہ لے تو دیوالیہ ہو جائے۔

دوم : نوٹ چھاپ لینا جب ضرورت پڑے۔ اس سے ظلم یہ ہوتا ہے کہ ملک میں جب پیسے کی سپلائی (منی سپلائی) بڑھتی ہے تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر آپ پاکستان میں مہنگائی کے اسباب کا جائزہ لیں تو آپ کو دو بڑے اسباب ملیں گے

1) حکومت کا زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کرنا .

2) امپورٹ پر پابندیاں۔ آپ ان تمام چیزوں کی لسٹ بنا لیں جن کی امپورٹ پر پابندی نہیں اور ان اشیاء کی بھی لسٹ بنا لیں جن کی امپورٹ کے لئے آپ کو حکومت کی اجازت لینی پڑتی ہے۔ آپ یہ دیکھیں گے کہ جن اشیاء کی امپورٹ پر پابندی نہیں ان کی اکثریت کی قیمتوں میں استحکام ہے اور جن اشیاء کی امپورٹ پر حکومتی اجازت نامہ مطلوب ہے ان میں سے اکثریت کی قیمتوں میں عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ حکومت امپورٹ پر ٹیرف بھی اس لئے لگاتی ہے کہ امپورٹ ٹیکس کی مد میں پیسے کمائے جائیں۔

سوم : پاکستان میں کچھ سیکٹرز ایسے ہیں جن کی لابنگ بہت اچھی ہے اور وہ حکومت سے مراعات لیتے رہتے ہیں جن میں ایک سستا قرض بھی ہے۔ حکومتیں اپنی اچھی شہرت حاصل کرنے کے لئے بھی کچھ سیکٹرز کے لئے سستے قرضوں کا اعلان کرتی ہے۔ یہ سستے قرض اسٹیٹ بنک دیتا ہے اگر وہ پوری طرح حکومت کے زیر انتظام ہو۔ اس سے ملک میں معاشی طور پر عدم مساوات کی پولیٹیکل اکانومی کو فروغ ملتا ہے اور ہر سیکٹر اپنی لابنگ سے زیادہ سے زیادہ مراعات لینے کی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور یہی پاکستان میں ہو رہا ہے۔

اوپر دیئے گئے دوم اور سوم امور پاکستانی حکومت سنٹرل بنک کے ذریعے سے کرتی ہے جس کے لئے سنٹرل بنک بنا ہی نہیں۔ سنٹرل بنک کے بنیادی طور پر دو اہم کام ہیں۔

ایک : مہنگائی کو کنٹرول کرنا

دوم : اکنامک گروتھ ریٹ کو بہتر شرح سود سے اس طرح boost (بڑھاوا) دینا کہ روزگار میں اضافہ ہو …

پاکستان میں سنٹرل بنک دونوں کام نہیں کر رہا۔ مہنگائی بذات خود جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کا بڑا سبب حکومت کا بہت زیادہ بغیر کسی جواب دہی کے نوٹ چھاپنا اور امپورٹ ٹیکسز کے لئے امپورٹ پر پابندیاں ہیں، جب مہنگائی بہت زیادہ ہوتی ہے تو شرح سود کو کم رکھنا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ اس سے ایک طرف مونیٹری ڈسپلن ختم ہو جاتا ہے تو دوسری طرف بینک کھاتے داروں کو مہنگائی کی شرح سے کم سود دے کر اس کے پیسے کی ویلیو (Time value of money ) پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور یہ وعدہ فریب ثابت ہوتا ہے “حامل هذا کو مطالبہ پر ادا کیا جائے گا “۔ اگر شرح سود بہت زیادہ ہو گا تو اس سے معاشی سرگرمیوں میں کمی ہو گی۔

اسٹیٹ بنک کا اپنے اصل کام چھوڑ کر ان کاموں میں پڑ جانا جن کا حکومتیں اس سے تقاضا کرتی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اسٹیٹ بنک کی صلاحیت انتہائی محدود رہ گئی ہے کہ وہ واقعی میں مہنگائی کو اپنی قابل اعتماد (credible ) پالیسی سے کنٹرول کر سکے اور اسی طرح وہ شرح سود میں کمی یا اضافہ سے گروتھ ریٹ اور روزگار کے عمل میں اضافہ لانے کا بھی زیادہ اہل نہیں رہا۔ جسے ہم ٹیکنیکل الفاظ میں ایسے کہیں گے کہ capacity نہیں build کر سکا۔

اس ساری صورتحال میں اسٹیٹ بنک کو حکومتی مداخلت سے آزاد کرنا مالیاتی نظام میں ایسا ہی ہے جیسا آپ نظام انصاف میں عدالتوں کی آزادی کے حامی ہیں۔ مگر یہاں یہ سوال ہنوز موجود ہے کہ کیا واقعی اسٹیٹ بنک کو آزاد رکھا جا سکے گا؟ اور یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کرتا جاؤں کہ بہتر طریقہ کار یہی تھا کہ اسٹیٹ بنک کی آزادی سے متعلق پارلیمان میں مباحثہ ہوتا اور تب ہی یہ قانون متعارف کروایا جاتا نہ کہ اس سلسلے میں آرڈیننس سے کام چلایا جائے۔ حکومت کو پولیٹیکل ڈائیلاگ کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا وگرنہ معاشی پالیسیز بھی دیرپا نہیں رہتیں۔

باقی وہ تمام ممالک جہاں سنٹرل بنکس آزاد ہیں ان میں اکثریت ترقی یافتہ ممالک ہیں، وہاں سنٹرل بنکس ان حکومتوں کو نوٹ چھاپ کر قرض بھی دیتی ہے اور ان سے پیسے واپس بھی لیتی ہے مگر اس شرط پر کہ پیسوں کی چھپائی سے مہنگائی پر منفی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ شرط پاکستان میں بھی موجود رہے گی۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ اب کے بعد اسٹیٹ بنک نوٹ نہیں چھاپے گا۔

باقی کچھ لوگ سنٹرل بنک کی آزادی کی اس لئے بھی حمایت نہیں کر رہے کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت کا کام ہے اس لئے اسے اس کا کریڈٹ کیوں دیا جائے۔ اور کچھ لوگ اس لئے بھی اس کی حمایت نہیں کر رہے کیونکہ انہیں اس کی سمجھ ہی نہیں کہ اصل میں ریگولیٹرز اور حکومت میں فرق کیا ہوتا ہے اور کیوں مارکیٹ میں ریگولیٹری ادارے حکومتی مداخلت سے آزاد ہونا چاہئیں۔ میری رائے یہی ہے کہ اسٹیٹ بنک کی آزادی معاشی اصلاحات کی طرف ایک مثبت قدم ہے اور حکومت کے لئے یہ ترغیب پیدا کرے گا کہ وہ معاشی عمل کو بہتر بنا کر اپنی آمدن میں اضافہ کرے نہ کہ “جگاڑ” لگا کر۔
 

Ali Baba

محفلین
چلیے آپ لوگوں کو احساس تو ہوا کہ سیلیکٹڈ اور اس کی درآمد شدہ ٹیم بھی اسی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، جنھیں ٹماٹر سترہ روپے کلو نظر آتا ہے، انڈے اور مرغی پال کر اکانومی کو سہارا دینا چاہتے ہیں۔
لیکن آپ کو کب احساس ہوگا کہ آپ کا "امیر المومنین" عرف "بھگوڑا مجرم" اسی تھیلی کا سب سے بڑا بٹا ہے!
 
لیکن آپ کو کب احساس ہوگا کہ آپ کا "امیر المومنین" عرف "بھگوڑا مجرم" اسی تھیلی کا سب سے بڑا بٹا ہے!
بھائی جان! ہم تو مانتے ہیں کہ "ابنِ صفی کے احمق" سمیت شریفوں سمیت سبھی اس تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ اب ھائیبرڈ کھیل ختم ہو اور جمہوریت کو اس بدقسمت ملک میں پنپنے دیا جائے تاکہ اس کی قسمت بدل سکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھائی جان! ہم تو مانتے ہیں کہ "ابنِ صفی کے احمق" سمیت شریفوں سمیت سبھی اس تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ اب ھائیبرڈ کھیل ختم ہو اور جمہوریت کو اس بدقسمت ملک میں پنپنے دیا جائے تاکہ اس کی قسمت بدل سکے۔
اس کیلئے خلائی مخلوق کو اپنی طاقت آئین و قانون کے سامنے سرنڈر کرنی پڑے گی۔ اگر یہ اتنے شریف ہوتے تو بار بار مارشل لاز نہ لگاتے۔
 
Top