نظر لکھنوی نعت: منال و مال، نہ سیم و زر و گہر کے لیے

منال و مال، نہ سیم و زر و گہر کے لیے
ہے آرزو تو مدینہ کے بام و در کے لیے

درِ حضورؐ کی خاطر، خدا کے گھر کے لیے
میں انتظار میں کب سے ہوں اس سفر کے لیے

سر آسماں کا جھکا ہے ازل سے تعظیماً
بچھی ہے کاہکشاں ان کی رہ گزر کے لیے

کسے نہیں ہے تمنا وہاں کے ذروں کی
چلے صبا بھی تری خاکِ رہ گزر کے لیے

میں ان کے اوجِ مقدر پہ رشک کرتا ہوں
زمینِ طیبہ کے ٹکڑے جنھوں نے مر کے لیے

پہنچ سکوں تو وہیں پر لُٹا کے سب آؤں
میں ایک اشک بھی چھوڑوں نہ چشمِ تر کے لیے

جو کچھ ہوا ہے تمھارے لیے شبِ اسرا
وہ اہتمام ہوا کب کسی بشر کے لیے

انھیں کے پاؤں کے نیچے کی خاک لے آؤ
جو چاہو چارہ گرو! تم شفا نظرؔ کے لیے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
منال و مال، نہ سیم و زر و گہر کے لیے
ہے آرزو تو مدینہ کے بام و در کے لیے

درِ حضورؐ کی خاطر، خدا کے گھر کے لیے
میں انتظار میں کب سے ہوں اس سفر کے لیے

سر آسماں کا جھکا ہے ازل سے تعظیماً
بچھی ہے کاہکشاں ان کی رہ گزر کے لیے

کسے نہیں ہے تمنا وہاں کے ذروں کی
چلے صبا بھی تری خاکِ رہ گزر کے لیے

میں ان کے اوجِ مقدر پہ رشک کرتا ہوں
زمینِ طیبہ کے ٹکڑے جنھوں نے مر کے لیے

پہنچ سکوں تو وہیں پر لُٹا کے سب آؤں
میں ایک اشک بھی چھوڑوں نہ چشمِ تر کے لیے

جو کچھ ہوا ہے تمھارے لیے شبِ اسرا
وہ اہتمام ہوا کب کسی بشر کے لیے

انھیں کے پاؤں کے نیچے کی خاک لے آؤ
جو چاہو چارہ گرو! تم شفا نظرؔ کے لیے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
سبحان اللہ سبحان اللہ!!!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
منال و مال، نہ سیم و زر و گہر کے لیے
ہے آرزو تو مدینہ کے بام و در کے لیے

درِ حضورؐ کی خاطر، خدا کے گھر کے لیے
میں انتظار میں کب سے ہوں اس سفر کے لیے

سر آسماں کا جھکا ہے ازل سے تعظیماً
بچھی ہے کاہکشاں ان کی رہ گزر کے لیے

کسے نہیں ہے تمنا وہاں کے ذروں کی
چلے صبا بھی تری خاکِ رہ گزر کے لیے

میں ان کے اوجِ مقدر پہ رشک کرتا ہوں
زمینِ طیبہ کے ٹکڑے جنھوں نے مر کے لیے

پہنچ سکوں تو وہیں پر لُٹا کے سب آؤں
میں ایک اشک بھی چھوڑوں نہ چشمِ تر کے لیے

جو کچھ ہوا ہے تمھارے لیے شبِ اسرا
وہ اہتمام ہوا کب کسی بشر کے لیے

انھیں کے پاؤں کے نیچے کی خاک لے آؤ
جو چاہو چارہ گرو! تم شفا نظرؔ کے لیے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
بہت خوبصورت کلام، ماشاءاللہ
پہنچ سکوں تو وہیں پر لُٹا کے سب آؤں
میں ایک اشک بھی چھوڑوں نہ چشمِ تر کے لیے
بے ساختہ آنکھ بھر آئی
 

زوجہ اظہر

محفلین
درِ حضورؐ کی خاطر، خدا کے گھر کے لیے
میں انتظار میں کب سے ہوں اس سفر کے لیے

پہنچ سکوں تو وہیں پر لُٹا کے سب آؤں
میں ایک اشک بھی چھوڑوں نہ چشمِ تر کے لیے

سبحان اللہ بے شک
صل اللہ علیہ وسلم
خوب صورت اشعار
 

عاطف ملک

محفلین
منال و مال، نہ سیم و زر و گہر کے لیے
ہے آرزو تو مدینہ کے بام و در کے لیے

درِ حضورؐ کی خاطر، خدا کے گھر کے لیے
میں انتظار میں کب سے ہوں اس سفر کے لیے

سر آسماں کا جھکا ہے ازل سے تعظیماً
بچھی ہے کاہکشاں ان کی رہ گزر کے لیے

کسے نہیں ہے تمنا وہاں کے ذروں کی
چلے صبا بھی تری خاکِ رہ گزر کے لیے

میں ان کے اوجِ مقدر پہ رشک کرتا ہوں
زمینِ طیبہ کے ٹکڑے جنھوں نے مر کے لیے

پہنچ سکوں تو وہیں پر لُٹا کے سب آؤں
میں ایک اشک بھی چھوڑوں نہ چشمِ تر کے لیے

جو کچھ ہوا ہے تمھارے لیے شبِ اسرا
وہ اہتمام ہوا کب کسی بشر کے لیے

انھیں کے پاؤں کے نیچے کی خاک لے آؤ
جو چاہو چارہ گرو! تم شفا نظرؔ کے لیے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
ماشااللہ۔۔۔۔۔بہترین کلام
تمام اشعار ہی خوبصورت ہیں۔بلکہ خوب سے خوب تر والا معاملہ ہے۔سبحان اللہ
اللہ قبول فرمائے،آمین
 
Top