قاتل کون ہے

مصنف ( مترجم ) : مہاشیہ نارائن ( 1920ء )
تمہید
جیل خانے کی ایک کوٹھری میں ہم دونوں چپ چاپ بیٹھے تھے ۔ کسی کی زبان سے کوئی بات نہیں نکلتی تھی ۔ رات بہت گزر گئی تھی ۔ تمام دنیا ہماری طرح خاموش تھی ۔ اس تنہائی اور خاموشی میں صرف ہماری سانسوں کی آمدورفت کی آواز ہر لمحہ نہایت صفائی کے ساتھ سنائی دیتی تھی ۔ کچھ دیر کے بعد میں نے اپنی جیب سے اپنی گھڑی باہر نکال کر دیکھا اور کہا ۔ " اوہ ! ایک بج گیا ۔ "
میری زبان سے یہ سن کر کہ " رات کا ایک بج گیا " یوگیش بابو نے میری طرف دیکھ کر ایک سرد آہ بھری ۔ اور اٹھ کر کسی نہایت پریشانی اور تردد میں پھنسے ہوئے انسان کی مانند اسی کوٹھری میں ادھر ادھر گھومنے لگا ۔ اس طرح چند منٹ گزار کر وہ یکایک پھر میرے پاس آکر بیٹھ گئے ۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کر نہایت بےقراری اور بےچینی سے کہنے لگے ۔ " آپ کے اس شریفانہ اور محبت آمیز برتاؤ کا میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ آپ جیسا نیک مزاج اور فیاض طبع شخص میں نے اور کوئی نہیں دیکھا ۔ آپ نے میرے معاملہ کے متعلق پہلے بھی مجھ سے بار بار دریافت کیا ۔ لیکن میں آپ کے سوالات کا جواب نہیں دے سکا ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر آپ میری موجودہ حالت پر غور کریں گے ۔ ۔ ۔
 
تو آپ کو یہ بآسانی معلوم ہوجائے گا ۔ کہ میں اس جرم کا مجرم نہیں جس کا مجھ کو قصور وار سمجھا جارہا ہے ۔ آپ میرے متعلق جو حالات جاننے کے لئے آج اس تنہائی میں میرے پاس تشریف لائے ہیں ۔ آج میں بلا کم و کاست ان کو آپ کے روبرو بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ ورنہ اس راز کا بار عظیم میری چھاتی پر رہے گا ۔ اور مرنے کے بعد بھی مجھے چین نہ پانے دے گا ۔ یہ واقع کس طرح پر وقوع پزیر ہوا ۔ یہ امر نہایت پراسرار ہے ۔ اول سے آخر تک اس کی داستاں سنے بغیر آپ پر یہ راز کسی طرح نہیں کھل سکتا ۔ اگر آپ براہ مہربانی کچھ دیر اور میرے پاس ٹھہرنے کی تکلیف گوارا کریں تو میں یہ سب حالات آپ سے عرض کروں ۔ اس واقعہ میں کوئی اخلاقی سبق نہیں ۔ یہ محض اکشے بابو کی تیز فہمی اور باریک بینی کی ایک ایسی داستان ہے جس کا ثانی تلاش کرنے پر بھی مشکل ہی سے مل سکے گا ۔ اکشے بابو ایک نہایت نکتہ رس اور تیز فہم ڈیٹکٹیو ( جاسوس ) ہیں ۔ اگر کبھی کوئی مشکل میں گرفتار ہو اور وہ ان اکشے بابو سے مدد کی درخواست کرے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کے لئے بلا رد رعایت انصاف حاصل کرنے میں کسی طرح کا فروگذاشت نہ کریں گے ۔ یہ ہی ان کا سب سے بڑا وصف ہے ۔ "
میں نے یوگیش بابو کی اس بات پر زبان سے تو کچھ نہیں کہا ۔ لیکن اپنی نگاہوں اور سر کے ہلانے سے ان پر یہ ظاہر کردیا کہ میں صرف ان کی رام کہانی سننے کے لئے تیار ہی نہیں بلکہ دل سے شایق ہوں ۔ اس لئے میں ذرا سنبھل کر بیٹھ گیا اور یوگیش چندر نے اپنی رام کہانی اس طرح بیان کرنی شروع کی ۔
 
حصہ اول
یوگیش چندر کی رام کہانی
پہلا باب
ہائے لیلا

میں نہیں کہہ سکتا میں نے اکشے بابو کو اس وقت کیا دل میں سوچ کر اپنے کام پر لگایا تھا ۔ حیرت یا خوف ۔ حیرت یا غصہ اور حیرت یا پچھتاوے ان میں سے کسی ایک کے باعث میں کچھ دیوانہ سا ہوگیا تھا ۔ اگر آپ نے بھی کبھی کسی سے محبت کی ہوگی ۔ وہ محبت جس کو کہ عشق صادق کہتے ہیں ۔ تو آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ اس وقت میں کیسی سینہ فگار کرنے والی تکلیفات میں مبتلا تھا ۔ تعجب ہے کہ میں ان اذیتوں اور مصیبتوں کو برداشت کرتا ہوا اب تک زندہ ہوں ۔
میں بچپن ہی سے لیلا کا عاشق زار تھا ۔ لیلا بھی مجھے دل و جان سے چاہتی تھی ۔ ہماری محبت اور الفت کی نظیر ڈھونڈے سے بمشکل مل سکے گی ۔ ہائے ! کیا میں مر کر بھی کبھی لیلا کو بھول سکوں گا ۔
بچپن سے میں یہ سنتا تھا کہ میری شادی لیلا کے ساتھ ہوگی ۔ اس وقت اگرچہ مجھے یہ معلوم بھی نہ تھا ۔ کہ شادی کس چڑیا کا نام ہے ۔ لیکن پھر بھی یہ بات سن کر میرے دل میں ایک طرح کی خوشی اور امنگ پیدا ہوتی تھی ۔ اس کے بعد جوان ہونے پر بھی وہی خیال جوں کا توں قائم رہا ۔
 
مصنف ( مترجم ) : مہاشیہ نارائن ( 1920ء )
تمہید
جیل خانے کی ایک کوٹھری میں ہم دونوں چپ چاپ بیٹھے تھے ۔ کسی کی زبان سے کوئی بات نہیں نکلتی تھی ۔ رات بہت گزر گئی تھی ۔ تمام دنیا ہماری طرح خاموش تھی ۔ اس تنہائی اور خاموشی میں صرف ہماری سانسوں کی آمدورفت کی آواز ہر لمحہ نہایت صفائی کے ساتھ سنائی دیتی تھی ۔ کچھ دیر کے بعد میں نے اپنی جیب سے اپنی گھڑی باہر نکال کر دیکھا اور کہا ۔ " اوہ ! ایک بج گیا ۔ "
میری زبان سے یہ سن کر کہ " رات کا ایک بج گیا " یوگیش بابو نے میری طرف دیکھ کر ایک سرد آہ بھری ۔ اور اٹھ کر کسی نہایت پریشانی اور تردد میں پھنسے ہوئے انسان کی مانند اسی کوٹھری میں ادھر ادھر گھومنے لگا ۔ اس طرح چند منٹ گزار کر وہ یکایک پھر میرے پاس آکر بیٹھ گئے ۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کر نہایت بےقراری اور بےچینی سے کہنے لگے ۔ " آپ کے اس شریفانہ اور محبت آمیز برتاؤ کا میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ آپ جیسا نیک مزاج اور فیاض طبع شخص میں نے اور کوئی نہیں دیکھا ۔ آپ نے میرے معاملہ کے متعلق پہلے بھی مجھ سے بار بار دریافت کیا ۔ لیکن میں آپ کے سوالات کا جواب نہیں دے سکا ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر آپ میری موجودہ حالت پر غور کریں گے ۔ ۔ ۔
تو آپ کو یہ بآسانی معلوم ہوجائے گا ۔ کہ میں اس جرم کا مجرم نہیں جس کا مجھ کو قصور وار سمجھا جارہا ہے ۔ آپ میرے متعلق جو حالات جاننے کے لئے آج اس تنہائی میں میرے پاس تشریف لائے ہیں ۔ آج میں بلا کم و کاست ان کو آپ کے روبرو بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ ورنہ اس راز کا بار عظیم میری چھاتی پر رہے گا ۔ اور مرنے کے بعد بھی مجھے چین نہ پانے دے گا ۔ یہ واقع کس طرح پر وقوع پزیر ہوا ۔ یہ امر نہایت پراسرار ہے ۔ اول سے آخر تک اس کی داستاں سنے بغیر آپ پر یہ راز کسی طرح نہیں کھل سکتا ۔ اگر آپ براہ مہربانی کچھ دیر اور میرے پاس ٹھہرنے کی تکلیف گوارا کریں تو میں یہ سب حالات آپ سے عرض کروں ۔ اس واقعہ میں کوئی اخلاقی سبق نہیں ۔ یہ محض اکشے بابو کی تیز فہمی اور باریک بینی کی ایک ایسی داستان ہے جس کا ثانی تلاش کرنے پر بھی مشکل ہی سے مل سکے گا ۔ اکشے بابو ایک نہایت نکتہ رس اور تیز فہم ڈیٹکٹیو ( جاسوس ) ہیں ۔ اگر کبھی کوئی مشکل میں گرفتار ہو اور وہ ان اکشے بابو سے مدد کی درخواست کرے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کے لئے بلا رد رعایت انصاف حاصل کرنے میں کسی طرح کا فروگذاشت نہ کریں گے ۔ یہ ہی ان کا سب سے بڑا وصف ہے ۔ "
حصہ اول
یوگیش چندر کی رام کہانی
پہلا باب
ہائے لیلا

میں نہیں کہہ سکتا میں نے اکشے بابو کو اس وقت کیا دل میں سوچ کر اپنے کام پر لگایا تھا ۔ حیرت یا خوف ۔ حیرت یا غصہ اور حیرت یا پچھتاوے ان میں سے کسی ایک کے باعث میں کچھ دیوانہ سا ہوگیا تھا ۔ اگر آپ نے بھی کبھی کسی سے محبت کی ہوگی ۔ وہ محبت جس کو کہ عشق صادق کہتے ہیں ۔ تو آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ اس وقت میں کیسی سینہ فگار کرنے والی تکلیفات میں مبتلا تھا ۔ تعجب ہے کہ میں ان اذیتوں اور مصیبتوں کو برداشت کرتا ہوا اب تک زندہ ہوں ۔
میں بچپن ہی سے لیلا کا عاشق زار تھا ۔ لیلا بھی مجھے دل و جان سے چاہتی تھی ۔ ہماری محبت اور الفت کی نظیر ڈھونڈے سے بمشکل مل سکے گی ۔ ہائے ! کیا میں مر کر بھی کبھی لیلا کو بھول سکوں گا ۔
بچپن سے میں یہ سنتا تھا کہ میری شادی لیلا کے ساتھ ہوگی ۔ اس وقت اگرچہ مجھے یہ معلوم بھی نہ تھا ۔ کہ شادی کس چڑیا کا نام ہے ۔ لیکن پھر بھی یہ بات سن کر میرے دل میں ایک طرح کی خوشی اور امنگ پیدا ہوتی تھی ۔ اس کے بعد جوان ہونے پر بھی وہی خیال جوں کا توں قائم رہا ۔
حصہ اول
یوگیش چندر کی رام کہانی
پہلا باب
ہائے لیلا

میں نہیں کہہ سکتا میں نے اکشے بابو کو اس وقت کیا دل میں سوچ کر اپنے کام پر لگایا تھا ۔ حیرت یا خوف ۔ حیرت یا غصہ اور حیرت یا پچھتاوے ان میں سے کسی ایک کے باعث میں کچھ دیوانہ سا ہوگیا تھا ۔ اگر آپ نے بھی کبھی کسی سے محبت کی ہوگی ۔ وہ محبت جس کو کہ عشق صادق کہتے ہیں ۔ تو آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ اس وقت میں کیسی سینہ فگار کرنے والی تکلیفات میں مبتلا تھا ۔ تعجب ہے کہ میں ان اذیتوں اور مصیبتوں کو برداشت کرتا ہوا اب تک زندہ ہوں ۔
میں بچپن ہی سے لیلا کا عاشق زار تھا ۔ لیلا بھی مجھے دل و جان سے چاہتی تھی ۔ ہماری محبت اور الفت کی نظیر ڈھونڈے سے بمشکل مل سکے گی ۔ ہائے ! کیا میں مر کر بھی کبھی لیلا کو بھول سکوں گا ۔
بچپن سے میں یہ سنتا تھا کہ میری شادی لیلا کے ساتھ ہوگی ۔ اس وقت اگرچہ مجھے یہ معلوم بھی نہ تھا ۔ کہ شادی کس چڑیا کا نام ہے ۔ لیکن پھر بھی یہ بات سن کر میرے دل میں ایک طرح کی خوشی اور امنگ پیدا ہوتی تھی ۔ اس کے بعد جوان ہونے پر بھی وہی خیال جوں کا توں قائم رہا ۔

میں نے یوگیش بابو کی اس بات پر زبان سے تو کچھ نہیں کہا ۔ لیکن اپنی نگاہوں اور سر کے ہلانے سے ان پر یہ ظاہر کردیا کہ میں صرف ان کی رام کہانی سننے کے لئے تیار ہی نہیں بلکہ دل سے شایق ہوں ۔ اس لئے میں ذرا سنبھل کر بیٹھ گیا اور یوگیش چندر نے اپنی رام کہانی اس طرح بیان کرنی شروع کی ۔
اچھا دھاگا ہے ۔۔۔۔ جاری رکھیے ۔:):)
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اکیلے کافی مواد ٹائپ کر رہے ہیں۔
اس کتاب کی تفصیل بھی دے دو کہ کب چھپی، کہاں چھپی؟
 
اس میں شک نہیں کہ ہمیں دولت و ثروت میں اپنا ہمسر اور ہم پلہ نہ پا کر لیلا کے پتا میرے ساتھ اس کی شادی کرنے پر کچھ رضامند نہ تھے ۔ لیکن پھر بھی لیلا کی ماں اور اس کا بڑا بھائی نریندر ناتھ لیلا کی شادی میرے ساتھ کرنے کے لئے بضد تھے ۔
نریندر ناتھ میرا ہم جماعت اور لنگوٹیا یار تھا ۔ اور ہم دونوں میں خوب گہری گھٹتی تھی ۔ غرضیکہ ان کے سخت اصرار پر آخر لیلا کے پتا جی کو بھی ہماری شادی کے لئے رضامندی ظاہر کرنی پڑی ۔ اور اس بات کا یقینی طور پر فیصلہ ہوگیا کہ لیلا ایک دن میری ہوگی ۔ اور میں اسی خیال میں محو ہوکر لیلا کے نشہ محبت سے ہمیشہ سرشار رہنے لگا ۔
بدقسمتی سے میری ماں بیمار ہوگئی ۔ ڈاکٹر نے تبدیل آب و ہوا کرانے کا مشورہ دیا ۔ لاچار مجھے اسے لے کر اور لیلا کی فرقت کا سنگ گراں اپنی چھاتی پر رکھ کر وئید ناتھ جانا پڑا ۔ لیکن اس آب و ہوا کی تبدیلی سے بھی کچھ نہ ہوا ۔ صحت تو درکنار مریضہ کی حالت دن بدن بگڑنے لگی ۔ اور آخر اس نے وہیں پردیس میں جان دے دی ۔
ماں کے سوا اس وقت اس دنیا میں میرا اور کوئی نہ تھا ۔ اس کی موجودگی سے ہی دنیا کے ساتھ میرا واسطہ تھا ۔ اس لئے اس کے نہ رہنے پر دنیا کے تمام ساز و سامان سے میرا تعلق ٹوٹ گیا ۔ آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا ۔ ہر طرف ہو کا عالم نظر آنے لگا ۔ اس تاریکی اور ویرانی میں اس بےکسی اور بےبسی میں اس بےیاری اور بےغمسگاری میں صرف ایک لیلا ہی تھی ۔ جس کا خیال میرے دل میں جہاں ناامیدی اور مایوسی ہر طرف چھائی ہوئی تھی ایک پرنور آفتاب کے مانند امیدوں اور آرزوؤں کی کرنیں پھیلا رہا تھا ۔ اور میرے مستقبل کو روشن بنا رہا تھا ۔
مجھے اس غربت اور بےوطنی میں ایک سال گزرگیا ۔ اس مصیبت اور اذیت سے رہائی پاکر رنج و غم کے بھاری بوجھ سے دبا ہوا جب میں آرام اور اطمینان حاصل کرنے کی امید اپنے پہلو میں لیے وطن میں واپس آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ لیلا میری نہیں رہی ۔ اس کی شادی ہوگئی اور اب وہ غیر کی ہے ۔
 
میرے لئے اب اس کا خیال تک بھی اپنے دل میں لانا سخت گناہ ہے ۔ یہ سنتے ہی میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔ پیروں تلے سے دھرتی نکل گئی ۔ چہرے کا رنگ فک ہوگیا ۔ چھاتی دھڑکنے لگی ۔ دل بےقرار پہلو میں مچلنے لگا ۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے سر چکرا گیا ۔ جسم تھر تھر کانپنے لگا ۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا ۔ اور میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر رنج و یاس کے مجسم تصویر بن کر زمین پر بیٹھ گیا ۔ آہ ! کاش کہ یہ خبر سننے سے پہلے ہی میری جان نکل جاتی اور تعجب تو یہ ہے کہ یہ سن کر بھی میں زندہ کیسے رہا ۔
بعد میں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ لیلا کے پتا نے یہ بیاہ زبردستی کردیا اور اپنی گھر والی اور بیٹے کی اس بارے میں کچھ بھی نہ چلنے دی ۔
جس خوش نصیب کے ساتھ لیلا کا بیاہ ہوا تھا ۔ اس کا نام ششی بھوشن بابو ہے ۔ میں اس سے واقف ہوں ۔ ۔ پہلے میرا اس سے میرا خوب یارانہ تھا ۔ خوئبے قسمت سے عین بھری جوانی میں ششی بھوشن کے سر سے سایہ پدری اٹھ گیا ۔ جوانی دیوانی مشہور ہے اور پھر کھلی دولت کا ہاتھ میں آنا ۔ دیوانہ کے ہاتھ میں تلوار ۔ جو بھی کرے سو تھوڑا ۔ ششی بھوشن کی بھلائی برائی میں تمیز کرنے کی طاقت رفوچکر ہوگئی ۔ دن رات شراب ناب کا دور چلنے لگا ۔ اور اس نے عیاشی واد باشی پر خوب کس کر کمر باندھ لی ۔ اس کا یہ بگڑا ہوا رنگ ڈھنگ دیکھ کر میں نے اس سے اپنا رابط ضبط کرلیا ۔ کبھی چلتے پھرتے راستے میں مل گئے تو صاحب سلامت ہوگئی ورنہ خیر ۔ آخر یہ بھی جاتی رہی ۔
ششی بھوشن کی تین چار ہزار روپے سالانہ کی مستقل آمدنی تھی ۔ اسی کے بل بوتے پر وہ کچھ نہ کچھ قرض دام کرتا ہوا گلچھرے اڑا رہا تھا ۔ اسی کے سہارے شراب کا دور چلتا تھا ۔ اور ناچ رنگ کی محفلیں گرم ہوتی تھیں ۔ ہائے ! وہی شرابی کبابی نرالی اور آوارہ مزاج ششی بھوشن لیلا کا شوہر بنا ۔
بعد میں لوگوں سے اور خاص کر لیلا کے بھائی نریندر کی زبانی رفتہ رفتہ میں نے یہ بھی سنا کہ لیلا کا شوہر اس کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک روا رکھتا ہے ۔
 
دن رات نشہ میں سرشار رہتا ہے ۔ اور جس روز اس کے سر پر نشہ کا بھوت زیادہ تیزی کے ساتھ سوار ہوجاتا ہے اس روز وہ بدبخت اس بےچاری پر ہاتھ چلانے سے بھی باز نہیں رہتا ۔
نریندر ناتھ سے جس دن میری ملاقات ہوئی اسی دن اس بےچارے نے میری مصیبت پر زار زار آنسو بہاتے ہوئے اور اپنے باپ کی غیبت اور بدگوئی کا گناہ عظیم سر پر لیتے ہوئے یہ سب دکھ بھری کہانی مجھ سے بیان کی ۔ لیکن اب سوائے کف افسوس ملنے کے اور کیا ہوسکتا تھا ۔
بدقسمت لیلا کا باپ اپنی نازوں پالی لڑکی کی یہ ناگفتہ بہ مصیبت دیکھنے کے لئے اس دنیا میں زندہ نہ تھا ۔ وہ کچھ عرصہ ہوا اپنی اس غلطی پر پچھتاتا اور آٹھ آٹھ آنسو بہاتا ہوا اس دنیا سے کوچ کرگیا تھا ۔ اس لئے اسے اپنی کوتہ اندیشی اور کج فہمی کا ، جوکہ اس نے لیلا کی شادی کرنے میں کی تھی افسوسناک نتیجہ زیادہ عرصے تک دیکھنا نہ پڑا ۔
دوسرا باب
دو سال کے بعد ملاقات

اسی طرح ایک سال گزرگیا ۔ اگرچہ لیلا کے شوہر ششی بھوشن بابو کا مکان لیلا کے میکے سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہ تھا ۔ اور آدمی ایک گھنٹے کے اندر ہی اندر وہاں سے یہاں تک آ جاسکتا تھا ۔ لیکن پھر بھی ششی بھوشن بابو نے لیلا کو اس ایک سال کے عرصہ میں کبھی اپنے میکے نہ آنے دیا ۔
 
نریندر کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ لیلا نے بھی اس بارے میں کبھی کچھ زیادہ اصرار نہیں کیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ والد کی وفات کے موقعہ پر ایک مرتبہ اس نے اپنے میکے جانے کے لئے نہایت اصرار کیا تھا ۔ لیکن سنگدل ششی بھوشن پر اس غریب کی عاجزی ، انکساری ، التجا ، درخواست یا رونے دہونے کا کچھ اثر نہیں ہوا اس روز سے بےچاری لیلا مایوس ہوگئی ۔ اور میکے جانے کا ذکر تک بھی کبھی زبان پر نہ لائی ۔
لیکن اس سال درگا پوجا کے موقعہ پر لیلا ایک مرتبہ اپنے میکے آئی ۔ پوجا کے راگ رنگ یا چہل پہل میں شریک ہونے کی غرض سے نہیں ۔ بلکہ محض اپنی مریضہ ماں کے آخری درشن کرنے کے لئے ۔ کیونکہ اپنی ماں کا حکم پاکر اور اس غریب کی زیست کی کوئی امید نہ دیکھ کر اس مرتبہ نریندر ناتھ ششی بھوشن کے گھر سے اپنی بہن کو رخصت کرانے کے لئے خود گیا ۔ اور نہ جانے اس سنگدل ششی بھوشن کو راہ راست پر لانے اور لیلا کو میکے جانے کی اجازت دلانے کے لئے نریندر ناتھ کو ششی بھوشن کی کتنی کتنی منت سماجت ، خوشامد اور چاپلوسی کرنی پڑی ۔ اور اسے کیسے کیسے اتار چڑھاؤ دکھا کر قابو میں لانا پڑا ۔ ششی بھوشن نے بھی نہ معلوم کیا آتی جاتی دنیا دیکھی جو اجازت دے دی ۔ اور اس طرح بےچاری قسمت کی ماری لیلا کو اپنی ماں کے آخری درشن نصیب ہوگئے ۔
میں نریندر کی مریضہ ماں کو دیکھنے اور اس کا حال دریافت کرنے کے لئے ہر روز بلاناغہ ان کے گھر جایا کرتا تھا ۔ وہ گھر میرا اپنا سا ہی تھا ۔ وہاں میں جب چاہتا تھا بلا روک ٹوک آ جاسکتا تھا ۔ اس لئے اس روز بھی سیدھا منہ اٹھائے اندر چلا گیا اور مجھے کسی نے نہ روکا ۔
شام ہوگئی تھی اشٹمی کا چندر ماں اپنی ہلکی ہلکی پر نور کرنوں سے ہر چہار طرف روشنی اور مسرت برسا رہا تھا ۔
 
صاف شفاف نیلگوں آسمان میں ہیروں کی طرح جگمگ جگمگ کرتے ہوئے ستاروں کے چراغ روشن تھے ۔ پاس بہتی ہوئی ندی میں اٹھکیلیاں کرنے والی لہروں کا دلپسند نغمہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر نہایت مستانہ انداز سے آرہا تھا ۔ سامنے چلتی ہوئی سڑک پر کوئی راہگیر لڑکا مزے میں آکر نہایت شیریں آواز میں یہ گیت گا رہا تھا ۔
تیری بانکی ادا نے مارا مجھے
تیری بانکی ادا نے مارا مجھے ۔ ۔ ۔ تیری شیریں ادا نے مارا مجھے
ہجر میں تیرے جان جہاں اب ۔ ۔ ۔ جینا نہیں ہے گوارا مجھے
تیری بانکی ادا نے مارا مجھے
آجا آجا ، لگ جا گلے سے ۔ ۔ ۔ موت سے ہو چھٹکارا مجھے
تیری بانکی ادا نے مارا مجھے
ورنہ مروں گا تڑپ تڑپ کر ۔ ۔ ۔ زیست کا اب نہیں یارا مجھے
تیری بانکی ادا نے مارا مجھے
آجا آجا ، درس دکھا جا ۔ ۔ ۔ جلا نہ یوں مہ پارہ مجھے
تیری بانکی ادا نے مارا مجھے
وہ اپنے راگ میں مست تھا ۔ اہاہا ! اس گانے والے لڑکے کے دل میں اس وقت خوشی اور سرور کا سمندر کیسا لہریں مار رہا تھا ۔ اس کے لفظ لفظ سے بشاشت ٹپک رہی تھی ۔ آہ ! میں غمزدہ مردہ بشکل زندہ انسان اس کے دل کی پرلطف حالت کو کیا جان سکتا ہوں ۔ میرے دل میں جو قدرتی آگ دھک رہی تھی مجھے تا عمر اس کی تپش برداشت کرنا ہوگی ۔ میں جس طرف نظر ڈالتا تھا اسی طرف مجھے شادمانی اور فرحت پھیلی نظر آتی تھی ۔ چندر ماں خوشی کے مارے پھولا نہ سماتا تھا ۔ تارے مسکرا مسکرا کر آنکھیں مٹکا رہے تھے ۔
 
ہوا دلی مسرت سے اٹھکھیلیاں کرتی ادھر ادھر پھر رہی تھی ۔ آم کے درختوں پر کھلے ہوئے پھول نہایت شادمانی سے چاروں طرف اپنی خوشبو پھیلا رہے تھے ۔ کوئل اور پیپہے آنند میں مگن ہوکر اپنے کوکو اور پی پی کے راگ گا رہے تھے ۔ غرضیکہ قدرت خوشی اور مسرت کے سمندر میں غوطہ لگا کر نکلی ہوئی ایک لاثانی حسین مہ جبین کی مانند ہر طرف اپنے بےنظیر حسن و جمال کا پورا پورا نظارہ پیش کر رہی تھی ۔ ہائے میں ، صرف میں بدقسمت بحر غم میں غوطہ زن تھا ۔ میرے دل کو نہ اطمینان نصیب تھا ۔ نہ امید مجھے اپنا نہ کچھ قرض دیتا تھا نہ مقصد ۔ میں ایک ایسے بےیارو غمگسار مسافر کی مانند تھا جس کی منزل مقصود کا کچھ پتہ نہ ہو اور جس کو کہیں بھی دم بھر ٹھہر کر سانس لینے کی اجازت بھی نہ ہو ۔
مکان کے بیرونی دروازے پر نریندر کے ساتھ میری ملاقات ہوئی وہ چونکہ اس وقت ڈاکٹر کو بلانے جارہا تھا اس لئے اس سے بھی اس رواداری میں کچھ زیادہ بات چیت نہ ہوئی ۔ میں مکان میں داخل ہوکر سیدھا اس کمرے کی طرف چلا جہاں نریندر کی ماں پڑی رہتی تھی ۔ اور جاکر دروازے پر کھڑا ہوگیا ۔ میں نے دیکھا کہ نریندر کی ماں حسب دستور بستر علالت پر پڑی ہے ۔ اور پاس ہی ایک عورت بیٹھی ہوئی آہستہ آہستہ اس کا سر دبا رہی ہے ۔
وہ عورت کسی اندھیرے گھر کا چراغ اور کسی کنگال گھر کی دولت دکھائی دیتی ہے ۔ چراغ سے دھیمی دھیمی روشنی کی کرنیں آ آ کر اس بےچاری کے زرد رو رخساروں پر پڑ رہی ہیں ۔ جن میں خون کی ایک بوند بھی نہیں جھلکتی تھی ۔ اس کے چہرے پر مرونی سی چھائی ہوئی ہے ۔ ہونٹوں تک سے صحت اور تندرستی کی گلابی رنگت اڑ چکی ہے ۔ پہلے تو میں اسے نہ پہچان سکا ۔ لیکن پھر میں سمجھ گیا ۔ کہ ہو نہ ہو وہ لیلا ہی ہے ورنہ ایسی دلسوزی سے بڑھیا کی اور کون خدمت کرسکتا تھا ۔ آج میں نے دو سال کے بعد پہلی مرتبہ لیلا کو دیکھا تھا ۔ لیکن ہائے ! اس دیکھنے سے نہ دیکھنا ہی اچھا ہوتا ۔
 
ہائے ! وہ لیلا جو موسم سرما کے صاف شفاف آسمان میں ٹپکتے ہوئی پورنماشی کے چاند کی مانند ساکن اور بےحرکت نیلگوں پانی میں کھلے ہوئے خوبصورت کمل کے پھول کی طرح اپنے چاروں طرف نور اور سرور پھیلایا کرتی تھی ۔ آج اس ناگفتہ حالت کو پہنچ گئی تھی ۔ آہ آج وہی خوبصورت نزاکت اور ملاحت بھرا نازک بدن موسم خزاں میں کملائی اور مرجھائی ہوئی خوبصورت بیل کی مانند دکھائی دیتا تھا ۔ آہ ! وہ اس کی خوبصورتی سے شرمانے والی مست آنکھیں جن میں مسرت اور شامانی کا سمندر لہریں مارا کرتا تھا آج دھندلائی ہوئی سی دکھائی دیتی تھیں ۔ میں اپنے بارالم سے دبے ہوئے بےقرار دل کو دونوں ہاتھوں سے سنبھال کر لیلا کی طرف دیکھنے لگا ۔ اور آن کی آن میں سر سے پاؤں تک پسینہ میں نہا گیا ۔ آہ ! آہ ! تعجب ہے ، حیرت ہے ۔ کیا دو سال میں ہی ایک انسان میں ایسی تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے ۔
میں نے اپنے دل ہی دل میں پرارتھنا کی ۔ ہے کرونا بھئے ! ہے اناتھ کے اناتھ ! بےسہاروں کے سہارے ! بےیاروں کے یار ! بےغمگساروں کے غمگسار جس کو حاصل کرنے کی امید میں نے چھوڑ دی ہے ۔ جس کے خیال تک کو بھی اپنے دل میں جگہ دینے کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔ اس کی ایسی غمزدہ اور آفت رسیدہ تصویر ، ہے پربھو ! آپ نے مجھے کیوں دکھا لی !
بھگوان ! میرا دل ناقابل برداشت رنج و الم کے بار عظیم سے چور چور ہورہا ہے کبھی ٹھنڈی نہ ہونے والی یہ آتش غم مجھ کو خاک سیاہ کئے ڈالتی ہے ۔ لیکن مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں ۔ پربھو ! لیلا کو خوش رکھو ۔ اس کے چہرے کو جو اس وقت رنج و غم کے تاریک بادلوں سے گھرا ہوا ہے ۔ خوشی اور مسرت کے پرنور آفتاب کی کرنوں سے منور کرو ۔ بس یہی میری آرزو ہے ۔ اس کے سوا میں اور کچھ نہیں چاہتا ۔
 
تیسرا باب
لیلا کا لال

مجھے دیکھتے ہی لیلا نے اپنے سر پر کپڑا ٹھیک کرلیا ۔ وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اور شرم سے گردن جھکائے کمرے سے باہر جانے لگی اس عجلت میں کھلے ہوئے دروازے سے اس کے سر میں چوٹ بھی لگ گئی ۔ اور وہ ٹھٹک کر کھڑی ہوگئی ۔ میں نے کسی قدر مضطربانہ لہجہ میں کہا ۔ لیلا ! ٹھہرو۔ بیٹھو ۔ کیا تم نے مجھے نہیں پہچانا ؟
میرا خیال ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ لیلا کو پہچانتے ہی میرے دل میں خیالات پریشاں نے جیسی گھوڑ دوڑ مچائی تھی ۔ ویسی ہی لیلا کے دل میں بھی مچائی ہوگی ۔ میں نے اپنے دل میں خیال کیا تھا کہ یہ لیلا اس پہلی لیلا جیسی نہیں ہے ۔
خیر اسی وقت پاس کے دوسرے کمرے میں سے ایک شیر خوار بچہ کے رونے کی آواز آئی ۔ جسے سن کر لیلا شرماتی ہوئی " آتی ہوں ، آتی ہوں " کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی ۔
میں اپنے خیال کے بےپایاں سمندر میں ڈوبا ہوا آگے بڑھا اور مریضہ کے پلنگ کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا ۔ مریضہ اس وقت سو رہی تھی ۔ اس کا منہ دوسری طرف کو تھا ۔ اس لئے میں اس کی حالت نہ دیکھ سکا ۔ اور میں نے پوچھا کہ " اب کیا حال ہے ؟ "
میری آواز سن کر مریضہ چونک پڑی ۔ اس کی آنکھ کھل گئی مجھے دیکھ کر اس نے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ میں اس کے پلنگ پر ہی ایک طرف بیٹھ گیا ۔
 
اس کے بعد وہ بولی " بیٹا ! کچھ اچھا حال نہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں اس مرتبہ نہ بچوں گی ۔ تم نوران اور لیلا پر کرپا درشٹی رکھنا ۔ میں تمہیں اب تک اپنا بڑا بیٹا سمجھتی رہی ہوں ۔ تم بھی آئندہ انہیں اپنے چھوٹے بھائی بہن کی طرح سمجھنا ۔ اب سوائے تمہارے اس دنیا میں ان کا کوئی نہیں ۔ ان کے بڑے بھائی ، باپ ، ولی اور سرپرست جو کچھ بھی ہو تم ہی ہو ۔ "
یہ سن کر میں نے تسلی آمیز لہجہ میں کہا " ماتا جی ! کیوں گھبراتی ہو ۔ تم تو ابھی چند روز میں اچھی ہوجاؤ گی ۔ رہی میری بات سو مجھ سے کچھ زیادہ کہنے سننے کی ضرورت نہیں ۔ یہ بات مجھ سے پوشیدہ نہیں کہ نورن اور لیلا مجھے اپنے بڑے بھائی کی مانند سمجھتے ہیں اور آپ بھی اس امر سے اچھی طرح واقف ہیں کہ میں بھی انہیں اپنے چھوٹے بھائی بہن سمجھتا ہوں ۔ میں اب تک ہمیشہ ان کی بہتری اور بہبودی کا خواں رہا ہوں اور آئندہ بھی عمر بھر ایسا ہی رہوں گا ۔ پرماتما نے چاہا تو آپ بھی جلد تندرست ہوکر ان دونوں کا پورا پورا سکھ دیکھیں گی ۔ "
نریندر کی ماتا نے کہا " نہ بیٹا نہ ، اب میں جینا بھی نہیں چاہتی ۔ نریندر کا تو مجھے کچھ فکر نہیں ہے ۔ وہ تو بیٹے کی ذات ہے ۔ لکھا دیا ، پڑھا دیا ، کھانے کمانے لائق بنا دیا ۔ بڑے گھر میں اس کی شادی بھی کردی ۔ آج نہیں تو کل جیسے کیسے سنبھل جائے گا اور اپنے قدموں پر آپ کھڑے ہونے کے قابل ہوجائے گا ۔ مجھے صرف دکھیاری لیلا کا فکر ہے ۔ اسی کا غم کھائے جاتا ہے ۔ اسی کا پتی شرابی کبابی ہے ، بدچلن ہے ۔ ہائے کمبخت نے میری سونے کی لیلا کی کیسی حالت کردی ، دیکھتے ہی آنکھوں میں آنسو امڈے چلے آتے ہیں ۔ لیلا کی طرف سے مر کر بھی مجھے سکھ نہ ملے گا ۔ آج لیلا یہیں ہے ۔ بڑی مشکل سے اسے بلایا ہے ۔ "
 
Top