کتاب التوحید ( نور توحید )

کتاب التوحید
تالیف ۔ محمد بن عبد الوہاب
( ولادت 1703ء - وفات 1792ء )
۔
۔
۔ ۔ ۔
( 1 ) ۔ ۔ ۔ کتاب التوحید
( 2 ) ۔ ۔ ۔ توحید کی فضیلت کا بیان
( 3 ) ۔ ۔ ۔ جس نے حقیقی توحید اختیار کی
( 4 ) ۔ ۔ ۔ شرک سے ڈرنا ضروری ہے
( 5 ) ۔ ۔ ۔ شہادت " لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ " کی تبلیغ و دعوت کا بیان
( 6 ) ۔ ۔ ۔ توحید کی تفسیر
( 7 ) ۔ ۔ ۔ بلا ٹالنے کے لئے کڑا یا کنڈا وغیرہ پہنا
( 8 ) ۔ ۔ ۔ منتر اور تعویذ گنڈوں کے بارے میں
( 9 ) ۔ ۔ ۔ درخت یا پتھر سے برکت حاصل کرنا
( 10 ) ۔ ۔ ۔ غیر اللہ کے نام پر قربانی دینے کے بارے میں احکام
( 11 ) ۔ ۔ ۔ جس مقام پر غیر اللہ کے نام پر قربانی دی جاتی ہو
( 12 ) ۔ ۔ ۔ غیر اللہ کے نام پر نذر ماننا
( 13 ) ۔ ۔ ۔ غیر اللہ کی پناہ مانگنا
( 14 ) ۔ ۔ ۔ غیر اللہ سے مدد طلب کرنا
( 15 ) ۔ ۔ ۔ ارشاد باری تعالی " اَيُشْرِكُ۔وْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا ۔ ۔ ۔ " کا بیان
( 16 ) ۔ ۔ ۔ ارشاد باری تعالی " حَتّ۔۔ٰٓى اِذَا فُزِّعَ ۔ ۔ ۔ " کا بیان
( 17 ) ۔ ۔ ۔ شفاعت کا بیان
( 18 ) ۔ ۔ ۔ آیت کریمہ " اِنَّكَ لَا تَهْدِىْ مَنْ اَحْبَبْتَ ۔ ۔ ۔ " کا بیان
( 19 ) ۔ ۔ ۔ بنی آدم کے شرک میں مبتلا ہونے کا سبب
( 20 ) ۔ ۔ ۔ کسی بزرگ کی قبر کے قریب اللہ کی عبادت کرنا
( 21 ) ۔ ۔ ۔ بزرگوں کی قبروں کا حد سے زیادہ احترام
( 22 ) ۔ ۔ ۔ محمد ( ص ) کا توحید کے تمام پہلوؤں کی حفاظت کرنا
( 23 ) ۔ ۔ ۔ اس امت کے کچھ لوگ بت پرستی میں مبتلا ہوجائیں گے
( 24 ) ۔ ۔ ۔ جادو کے بارے میں احکام
( 25 ) ۔ ۔ ۔ جادو کی قسموں کا بیان
( 26 ) ۔ ۔ ۔ کہانت اور غیب دانی کے بارے میں احکام
( 27 ) ۔ ۔ ۔ جادو ، جن وغیرہ اتارنے کے بارے میں احکام
( 28 ) ۔ ۔ ۔ بدشگونی اور فال بد لینے کے بارے میں احکام
( 29 ) ۔ ۔ ۔ علم نجوم کے بارے میں شرعی احکام
( 30 ) ۔ ۔ ۔ بارش کے سلسلے میں ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا
( 31 ) ۔ ۔ ۔ چند آیات کی تفسیر و توضیح
( 32 ) ۔ ۔ ۔ خشیتہ اللہ کا بیان
( 33 ) ۔ ۔ ۔ توکل علی اللہ کا بیان
 
( 34 ) ۔ ۔ ۔ خوف خدا سے بےنیازی اور اللہ کی رحمت سے مایوسی کا بیان
( 35 ) ۔ ۔ ۔ مقدر پر صبر کرنا بھی ایمان باللہ کا حصہ ہے
( 36 ) ۔ ۔ ۔ ریاء کے بیان میں
( 37 ) ۔ ۔ ۔ اعمال صالحہ کو دنیاوی اغراض حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا
( 38 ) ۔ ۔ ۔ احکام الہی کے خلاف علماء و امراء کے احکام کی اطاعت کرنا
( 39 ) ۔ ۔ ۔ چند آیات کریمہ کی تفسیر
( 40 ) ۔ ۔ ۔ اسماء و صفات باری تعالی کا انکار کرنے والے کے بارے میں احکام
( 41 ) ۔ ۔ ۔ آیت کریمہ " يَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّ۔ٰهِ ۔ ۔ ۔ " کی تفسیر
( 42 ) ۔ ۔ ۔ آیت کریمہ " ۔ ۔ ۔ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّ۔ٰهِ اَنْدَادًا ۔ ۔ ۔ " کی تفسیر
( 43 ) ۔ ۔ ۔ اللہ کے نام کی قسم پر قناعت نہ کرنے والے شخص کے بارے میں احکام
( 44 ) ۔ ۔ ۔ ماشاءاللہ وشئت کہنے کی ممانعت
( 45 ) ۔ ۔ ۔ زمانے کو گالی دینے کی ممانعت
( 46 ) ۔ ۔ ۔ قاضی القضاۃ وغیرہ القاب اختیار کرنے کی ممانعت
( 47 ) ۔ ۔ ۔ اسماء باری تعالی کا احترام
( 48 ) ۔ ۔ ۔ اللہ ، رسول ( ص ) اور قرآن کے ساتھ استہزاء پر وعید
( 49 ) ۔ ۔ ۔ آیتہ کریمہ " وَلَئِنْ اَذَقْنَاهُ رَحْ۔مَةً مِّنَّا ۔ ۔ ۔ " کی تفسیر
( 50 ) ۔ ۔ ۔ آیتہ کریمہ " فَلَمَّآ اٰتَاهُمَا صَالِحًا ۔ ۔ ۔ " کی تفسیر
( 51 ) ۔ ۔ ۔ آیتہ کریمہ " وَلِلّ۔ٰهِ الْاَسْ۔مَآءُ الْحُسْنٰى ۔ ۔ ۔ " کی تفسیر
( 52 ) ۔ ۔ ۔ السلام علی اللہ کہنے کی ممانعت
( 53 ) ۔ ۔ ۔ اللھم اغفرلی ان شئت کہنے کی ممانعت
( 54 ) ۔ ۔ ۔ اپنے ملازم یا غلام کو عبدی کہنے کے بارے میں احکام
( 55 ) ۔ ۔ ۔ اللہ کے نام پر سوال کرنے والے کو خالی نہ لوٹانا چاہیے
( 56 ) ۔ ۔ ۔ اللہ کے نام پر صرف جنت کا سوال کرنا چاہیے
( 57 ) ۔ ۔ ۔ کلمہ " لَوْ " کے استعمال کرنے کے بارے میں احکام
( 58 ) ۔ ۔ ۔ ہوا یا آندھی کو برا بھلا کہنے کی ممانعت
( 59 ) ۔ ۔ ۔ آیتہ کریمہ " ۔ ۔ ۔ يَظُنُّوْنَ بِاللّ۔ٰهِ غَيْ۔رَ الْحَقِّ ۔ ۔ ۔ " کی تفسیر
( 60 ) ۔ ۔ ۔ تقدیر کا انکار کرنے والے کے بارے میں احکام
( 61 ) ۔ ۔ ۔ مصوروں کے بارے میں احکام
( 62 ) ۔ ۔ ۔ بکثرت قسمیں کھانے کے بارے میں احکام
( 63 ) ۔ ۔ ۔ اللہ اور رسول ( ص ) کے عہد و پیمان کے بارے میں احکام
( 64 ) ۔ ۔ ۔ " بخدا اللہ یہ کام ضرور کرے گا یا نہیں کرے گا " کہنے کی ممانعت
( 65 ) ۔ ۔ ۔ مخلوق کے آگے اللہ کو سفارشی بنانے کی ممانعت
( 66 ) ۔ ۔ ۔ محمد ( ص ) کا توحید کی سرحدوں کی حفاظت فرمانا
( 67 ) ۔ ۔ ۔ آیتہ کریمہ " وَمَا قَدَرُوا اللّ۔ٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ۔ ۔ ۔ " کی تفسیر
 
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہر قسم کی تعریف و تحسین اللہ کے لئے اور درود و سلام جناب محمد رسول اللہ ( ص ) پر اور آپ کی آل اولاد پر
باب ( 1 ) ۔ ۔ ۔ کتاب التوحید
{ عبادت کی بنیاد توحید }
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ( سورۃ الذاريات ، 56 )
" میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں "
وَلَ۔قَدْ بَعَثْنَا فِىْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَۚ ۔ ۔ ۔ ( سورۃ النحل ، 36 )
" ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا ، اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو "
وَقَضٰى رَبُّكَ اَ لَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۔ ۔ ۔ ( سورۃ الإسراء ، 23 )
" تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو ، مگر صرف اس کی والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو "
وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْ۔۔ًٔ۔ا ۔ ۔ ۔ ( سورۃ النساء ، 36 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث میں آتا ہے
عبداللہ بن مسعود ( رض ) فرماتے ہیں : " جو شخص محمد ( ص ) کی سربمہر وصیت ملاحظہ کرنا چاہتا ہو وہ اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھ لے : ( سورۃ الأنعام ، 151 تا 153 )
" اے محمد ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے ، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو - اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو ، یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو ، ہم ہر شخص پر ذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے ، اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو ، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو - نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے ، شاید کہ تم کج روی سے بچو " ( جامع ترمذی ، 3070 )
معاذ بن جبل ( رض ) بیان کرتے ہیں : ایک دفعہ میں رسول اللہ ( ص ) کے پیچھے آپ ( ص ) کے گدھے پرسوارتھا ۔ آپ ( ص ) نے مجھ سے فرمایا : اے معاذ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا حق اللہ تعالی پرکیا ہے ؟ میں نے عرض کی کہ اللہ تعالی اور اس کا رسول بہترجانتے ہیں ۔ رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " بندوں پر اللہ تعالی کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں ۔ بندوں کا حق اللہ تعالی پر یہ ہے کہ اگرجو مشرک نہ ہوں ان کو عذاب جہنم سے بچالے ۔ " معاذ ( رض ) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ( ص ) ! میں لوگوں کو اس کی خوشخبری سنادوں ؟ آپ ( ص ) نے فرمایا : " ایسا نہ کرنا ۔ کیونکہ پھر وہ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ رہیں گے ۔ " ( صحيح مسلم ، 144 )
 
اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
1 ۔ جن وانس کی تخلیق میں اللہ تعالی کی حکمت کار فرما ہے ۔
2 ۔ دراصل عبادت سے مراد توحید ہے کیونکہ تمام انبیاء اور ان کی امتوں کے درمیان یہی بات متنازعہ تھی ۔
3 ۔ جو شخص تو حید پر کار بند نہیں اس نے اللہ تعالی کی عبادت کی ہی نہیں ۔ " اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں " ( سورۃ الکافروں ۔ 3 ) کا مطلب بھی یہی ہے ۔
4 ۔ بعثت انبیاء کی حکمت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔
5 ۔ ۔ اللہ تعالی کی طرف سے ہر امت کی ہدایت کے لیے رسول بھیجے گئے ۔
6 ۔ تمام انبیاء کا دین یعنی ان کی دعوت کا محور اور مرکزی نقطہ صرف توحید تھا ۔
7 ۔ اس سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ طاغوت کا کفر اور اس کا انکار کیے بغیر اللہ تعالی کی عبادت ممکن ہی نہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : " اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا ، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا ( سورۃ البقرہ ، 256 )
8 ۔ طاغوت عام ہے ہر اس چیز کوطاغوت کہتے ہیں جس کی اللہ تعالی کے سوا عبادت کی جائے
9 ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سلف صالحین کے نزدیک سورۃ الانعام کی مذکورہ تین محکم آیات کی کس قدر اہمیت اور عظمت تھی ۔ ان میں اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو دس احکام اور ہدایات دی گئی ہیں ۔ ان میں سب سے اولین ہدایت شرک کی ممانعت ہے ۔
10 ۔ سورہ الاسراء کی محکم آیات میں اٹھارہ مسائل بیان ہوئے ہیں ان کا آغاز توحید سے ہوا ہے اور سب سے آخر میں شرک کرنے والوں کو جہنم سے ڈرایا گیا ہے ۔
11 ۔ سورۃ النساء کی وہ آیت جو حقوق عشرہ والی آیت کہلاتی ہے ، اس میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے یہی مسئلہ بیان فرمایا کہ شرک سے بچو اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرو ۔
12 ۔ اس میں رسول اللہ ( ص ) کی اس وصیت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جو آپ نے وفات کے وقت فرمائی تھی
13 ۔ بندوں کے ذمہ اللہ تعالی کا کیا حق ہے ؟ اس کی معرفت حاصل ہوئی ۔
14 ۔ جب بندے اللہ تعالی کا حق ادا کریں تو اللہ تعالیٰ پر ان کا کیا حق ہے ؟ اس کی معرفت حاصل ہوئی ۔
15 ۔ معاذ ( رض ) کی حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ اس مذکور مسئلہ کا بہت سے صحابہ کو علم نہ تھا ۔
16 ۔ کسی مصلحت کے پیش نظر علم کو مخفی رکھنا جائز ہے ۔
17 ۔ کسی مسلمان کو خوش خبری دینا مستحب ہے ۔
18 ۔ بلاعمل ، صرف اللہ تعالی کی وسیع رحمت پر بھروسہ کرنے سے انسان کو ڈرنا اور بچنا چاہیے ۔
19 ۔ جس سے کوئی بات پوچھی جائے اور وہ نہ جانتا ہو تو یوں کہہ دینا چاہئے اللہ اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔
20 ۔ کسی کو علم سکھانا اور کسی کو محروم رکھنا جائز ہے ۔
21 ۔ آپ ( ص ) ازحد متواضع تھے کہ آپ جلیل القدر ہونے کے باوجود گدھے پر نہ صرف سوار ہوئے بلکہ دوسرے آدمی کو بھی اپنے ہمراہ سوار کر لیا ۔
22 ۔ سواری پر اپنے پیچھے دوسرے کو سوار کر لینا جائز ہے ۔
23 ۔ حضرت معاذ بن جبل ( رض ) کی فضیلت بھی عیاں ہوتی ہے ۔
24 ۔ مسئلہ توحید کی اہمیت اور عظمت پر بھی خوب روشنی پڑتی ہے ۔
 
باب کا خلاصہ و تشریح
علامہ ابن قیم ( رح ) فرماتے ہیں : اللہ تعالی یہاں پر خبر دے رہے ہیں کہ انہوں نے مخلوق کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی عبادت بجا لائیں ، عبادت بجا لانا اللہ تعالی سے کمال محبت کی دلیل ہے ۔ اور اللہ تعالی کو جیسے یہ بات پسند ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ایسے ہی اسے یہ بات بھی پسند ہے کہ اس کی حمد و ثناء بیان کی جائے ۔ رسول اللہ ( ص ) سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : " تعریف و مدح سرائی کو پسند کرنے والا اللہ تعالی سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے خود اپنی ثناء بیان کی ہے " ۔ اور مسند میں حضرت اسود بن سریع سے روایت ہے کہ آپ نے پوچھا : یارسول اللہ ! بیشک میں کئی اچھے اچھے کلمات سے اللہ تعالی کی حمد بیان کرتا ہوں ۔ تو آپ ( ص ) نے ارشاد فرمایا : " بیشک اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف بیان کی جائے ۔ پس اللہ تعالی کو اپنی ذات سے محبت ہے اسی لیے وہ اپنی ذات کی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں اور ان لوگوں سے بھی محبت کرتے ہیں جو اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں ۔ " ( طریق الہجرتین ص 239 ) ]نیز آپ یہ بھی فرماتے ہیں : " بیشک اللہ تعالی یہ بتا رہے ہیں کہ اس نے مخلوق اس لیے نہیں پیدا کی کہ اسے ان کی کوئی ضرورت تھی ۔ اور نہ ہی ان سے کوئی فائدہ حاصل کرنا مقصود تھا ۔ بلکہ اس نے مخلوق پر اپنا فضل کرم کرتے ہوئے انہیں اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں ۔ اور یوں وہ ہر قسم کا فائدہ حاصل کرسکیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : " دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی " ( سورۃ الإسراء ، 7 ) اور اللہ تعالی کا فرمان ہے : " اور جن لوگوں نے نیک عمل کیا ہے وہ اپنے ہی لیے فلاح کا راستہ صاف کر رہے ہیں " ( سورۃ الروم ، 44 )
ابن قیم ( رح ) نے ( اعلام الموقعین میں 1 - 49 ) پر طاغوت کی ایک ایسی تعریف کی ہے جو بڑی جامع و مانع ہے ، وہ فرماتے ہیں : طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان حد سے تجاوز کر جائے، خواہ عبادت میں ہو ، یا تابعداری میں ، یا اطاعت میں ۔ ہر قوم کا طاغوت وہی ہے جس کی طرف وہ اللہ تعالی اور رسول اللہ ( ص ) کے بجائے فیصلہ کے لئے رجوع کرتے ہیں ، یا اللہ کے سوا اس کی پرستش کرتے ہیں ، یا بلا دلیل بلا بصیرت اس کی اتباع کرتے ہیں ، یا اس کی اطاعت بغیر اس علم کے کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی اطاعت ہے ۔ اگر آپ دنیا بھر کے لوگوں کا ان کے ساتھ برتاؤ غور سے دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر لوگ اللہ تعالی کی عبادت چھوڑ کر طاغوت کی عبادت پر لگ چکے ہیں ۔ پس وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ( ص ) کے فیصلہ کو چھوڑ کرطاغوت کے پاس اپنا فیصلہ لے جاتے ہیں ۔ اور اللہ تعالی اور اس کے رسول ( ص ) کی اطاعت و اتباع کو ترک کر کے طاغوت کی اتباع و اطاعت پر راضی ہیں ۔ یہ ان لوگوں کی راہ پرنہیں چل رہے جو اس امت میں سے کامیاب لوگ ہیں ۔ اوریہ کامیاب لوگ صحابہ کرام ( رض ) اور ان کے سچے پیروکار ہیں ۔ اور ان کا مقصد بھی وہ چیز نہیں ہے جو ان کا مقصد تھا ۔ بلکہ مقصد اور راہ دونوں میں ان کے خلاف چل رہے ہیں ۔
جامع ترمذی ، 3070 کی حدیث روایت کرنے میں امام ترمذی منفرد ہیں ۔ اور اسے حسن غریب کہا ہے ۔ جب کہ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے ۔
( واللہ اعلم )
کتاب توحید اس باب کا عنوان شروع سے آخر تک اس کتاب کے نام سے مطابقت رکھتا ہے ۔ یہ کتاب اللہ تعالی کی توحید بیان کرتی ہے ۔ اور اس میں عبادت کے اصول اور تفاصیل اورکن چیزوں سے ایمان بڑھتا اور مضبوط ہوتا ہے اور کن سے ایمان کم اور کمزور ہوتا ہے اور کن امور سے ایمان پورا اور مکمل ہوتا ہے ۔
توحید کی تین اقسام :
پہلی قسم : توحید اسماء و صفات : یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ اپنی تمام صفات کمال و جمال اور جلال میں ہر لحاظ سے اکیلے اور یکتا ہیں ۔ ہر قسم کی عظمت اور جلال ان کے لیے ہے جن میں کسی بھی طرح کوئی دوسرا ان کا شریک ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ دوسری قسم : توحید ربوبیت : انسان کو اس بات کا عقیدہ رکھنا چاہیے کہ بیشک اللہ تعالی مخلوق کو پیدا کرنے میں انہیں رزق دینے میں اور ان کے امور کی تدبیر میں اکیلے وحدہ لاشریک ہیں ۔ وہ ہی تمام مخلوقات کی پرورش اپنی نعمتوں سے کرتے ہیں ۔
تیسری قسم : توحید الوہیت : اسے توحید عبادت بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ اس بات کا علم اور اعتراف ہے کہ اللہ تعالی کو اپنی تمام تر مخلوقات پر الوہیت اور عبودیت کا حق حاصل ہے ۔ اور وہ ہر قسم کی عبادت میں اکیلا وحدہ لاشریک ہے ۔ اور یہ کہ خالص عبادت صرف اللہ تعالی کے لیے بجا لائی جائے
انبیاء کی دعوت سے مقصود اول سے آخر تک اسی توحید کی دعوت ہوا کرتی تھی ۔ پس مصنف محمد بن عبد الوہاب نے اس عنوان کے تحت وہ نصوص ذکر کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوقات کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ مخلص ہو کر صرف اور صرف اس کی عبادت کریں ۔ اور بندوں پر یہ اللہ تعالی فرض کردہ واجب حق ہے ۔ پس تمام آسمانی کتابوں اور تمام رسولوں کی دعوت اسی توحید کی طرف تھی ۔ اوروہ اس کے ساتھ ہی اس کے مخالف امور یعنی کسی کو شریک ٹھہرانے اور ہم پلہ بنانے سے منع کرتے رہے ۔ بالخصوص محمد ( ص ) اور یہ آخری کتاب قرآن مجید ۔ بیشک اس میں توحید کا حکم دیا گیا ہے اور اسے فرض قرار دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ نجات اورکامیابی اور سعادت کا حصول توحید کے بغیر ممکن نہیں ۔ پس توحید بجالانا بندوں پر اللہ تعالی کا واجب حق ہے ۔ اور یہ دینی احکام میں سے سب سے بڑا حکم ہے اور تمام اصولوں کا بنیادی اصول اور ہر نیک عمل کی اساس ہے ۔
 
( 2 ) ۔ ۔ ۔ توحید کی فضیلت کا بیان
{ توحید کی فضیلت اور توحید کا تمام گناہوں کو مٹا دینا }
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۤٮِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ ( سورۃ الأنعام ، 82 )
" حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث میں آتا ہے
حضرت عبادہ بن صامت ( رض ) سے روایت ہے ، رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " جو شخص شہادت دے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اوربیشک محمد ( ص ) اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اوربیشک عیسی ( ع ) اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اوراللہ تعالی کا کلمہ ہیں جس کا القاء سیدہ مریم ( ع ) کی طرف کیا گیا ۔ اور اسی کی طرف سے روح ہے ۔ اور بیشک جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے ۔ ایسے شخص کو اللہ تعالی بہرحال جنت میں داخل کردے گا اگرچہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں " ( صحیح بخاری ، 3435 )
عتبان ( رض ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " جو شخص اللہ تعالی کی رضا کے لیے " لآ اِلہٰ اِلّا اللّٰہ " کا اقرار کرتا ہے اللہ تعالی اسے دوزخ پر حرام کردیتا ہے ۔ ( صحیح بخاری ، 6423 )
ابوسعید خدری ( رض ) رسول اللہ ( ص ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ( ص ) نے فرمایا : " حضرت موسی ( ع ) نے عرض کیا : اے میرے رب ! مجھے ایسی چیز بتا جس سے تیری یاد کروں اور تجھ سے دعا کیا کروں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا اے موسی ! لا اِلٰہ اِلَّا اللہ پڑھا کر ۔ موسی ( ع ) نے عرض کی : اے میرے رب : اسے تو تیرے سب بندے پڑھتے ہیں ۔ فرمایا : اے موسی ! سوائے میرے اگر ساتوں آسمان اور ان کے باشندے اور ساتوں زمینیں ، ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں اور دوسرے پلڑے میں صرف لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ رکھ دیا جائے تو لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ والا پلڑا بھاری ہو گا ۔ " ( مستدرک الحاکم ، 1393 )
انس ( رض ) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ( ص ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ : " اے ابن آدم ! اگر تو میرے پاس گناہوں سے پوری زمین بھر کر لے آئے پھر اس میں شرک نہ ہو تو میں اسی مقدار میں بخشش کی بارش کروں گا ۔ " ( جامع ترمذی ، 3540 )
 
اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
1 ۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کا فضل بہت وسیع ہے ۔
2 ۔ اللہ تعالی کے ہاں توحید کا ثواب بہت زیادہ ہے ۔
3 ۔ توحید کا عقیدہ ثواب کے ساتھ ساتھ گناہوں کا کفارہ بھی ہے ۔
4 ۔ سورۃ الأنعام کی آیت 82 کی تفسیر بھی واضح ہوئی کہ اس میں ظلم سے مراد شرک ہے ۔
5 ۔ حدیث عبادہ میں جو پانچ امور مذکور ہیں ان پر غور کیا جائے کہ ان میں سرفہرست شرک نہ کرنا ہے ۔
6 ۔ حدیث عبادہ ، حدیث عتبان اور اس کے بعد والی مذکورہ احادیث کو جمع کیا جائے تو کلمہ توحید ( لا ِلہ ِلا اللہ ) کا مفہوم مزید نکھر کر سامنے آتا ہے ۔ اور جو لوگ اس دھوکے میں مبتلا ہیں کہ محض زبان سے کلمہ توحید کا اقرار نجات کے لیے کافی ہے ، ان کی غلطی بھی واضح ہوتی ہے ۔
7 ۔ حدیث عتبان میں مذکورہ شرط بھی قابل توجہ ہے کہ کلمہ گو نے اللہ تعالی کی رضا کے لیے کلمہ پڑھا ہو ۔
8 ۔ انبیاء بھی اس کلمہ کی اہمیت و فضیلت کو جاننے کے محتاج تھے ۔
9 ۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگرچہ لا اِلہ اِلا اللہ تمام آسمانوں اور زمینوں سے وزنی ہے اس کے باوجود بہت سے کلمہ گو لوگوں کے پلڑے ہلکے ہوں گے ۔
10 ۔ یہ بھی صراحت ہے کہ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں ۔
11 ۔ آسمانوں اور زمینوں میں اللہ تعالی کی مخلوق آباد ہے ۔
12 ۔ اللہ تعالی کی بہت سی صفات ہیں جبکہ فرقہ اشاعرہ اللہ تعالی کی بعض صفات کا انکار کرتے ہیں ۔
13 ۔ حدیث انس پر غور کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ حدیث عتبان جو شخص محض رضائے الہی کی خاطر کلمہ لا اِلہ اِلا اللہ کا اقرار کرے تو اللہ تعالی اس پر جہنم حرام کردیتا ہے سے مراد شرک کو کلی چھوڑ دینا ہے ۔ محض زبان سے کلمہ پڑھ لینا نجات کے لیے کافی نہیں ۔
14 ۔ محمد ( ص ) اور عیسی ( ع ) دونوں اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں ۔
15 ۔ یہاں خصوصی طور پر عیسی ( ع ) کو اللہ تعالی کا کلمہ کہا گیا ہے ۔
16 ۔ عیسی ( ع ) کو خصوصی طور پر اللہ کی روح کہا گیا ہے ۔
17 ۔ ان احادیث سے جنت اور جہنم پر ایمان لانے کی اہمیت اور فضیلت بھی معلوم ہوئی ۔
18 ۔ اس تفصیل سے حدیث عبادہ میں " خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں " کا مفہوم بھی متعین ہو جاتا ہے کہ جنت میں جانے کے لیے صاحب توحید یعنی موحد ہونا شرط ہے ۔
19 ۔ روز قیامت اعمال کا وزن کرنے کے لیے جو ترازو رکھی جائے گی اس کے بھی دو پلڑے ہوں گے ۔
20 ۔ اللہ تعالی کے لیے " وجه " یعنی چہرہ کا اثبات یعنی اللہ تعالی کی اس صفت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ۔ ( صحیح بخاری ، 6423 کا عربی متن )
 
باب کا خلاصہ و تشریح
عبداللہ بن مسعود ( رض ) فرماتے ہیں : جب یہ آیت ( سورۃ الأنعام ، 82 ) نازل ہوئی : تو یہ صحابہ پر بہت گراں گزرا ۔ انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ( ص ) : ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے کبھی ظلم نہ کیا ہو ؟ آپ ( ص ) نے فرمایا : اس کا مطلب جو تم نے سمجھا ہے وہ صحیح نہیں ۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے کیا تم نہیں سنتے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کی تھی : بیٹے ! اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بلا شبہ شرک کرنا سب سے بڑا ظلم ہے ۔ ( صحیح بخاری ، 3429 )
مستدرک الحاکم ، 1393 حدیث کو جامع الکلم سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ یہ حدیث عقائد کے اہم مسائل کو محیط ہے ۔ رسول اکرم ( ص ) نے اس میں اختصار کے ساتھ وہ تمام پہلو بیان فرما دیئے ہیں جن سے ایک انسان کفر کے مذاہب سے کٹ کر اسلام کے حصار میں آجاتا ہے ۔
امام ابن تیمیہ ( رح ) الہ کا مطلب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں : " الہ " اس معبود کو کہتے ہیں جس کی عبادت و اطاعت کی جائے ، کیونکہ الہ وہ ہے جس کی عبادت کی طرف دل از خود مائل ہو جائے ، حقیقت میں یہی ذات عبادت کے قابل ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی صفات کاملہ موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ محبوب خلائق ہو جاتا ہے اور مخضوع وہ ہے جس کے سامنے انتہائی خضوع کے ساتھ جھکا جائے ۔ وہ ایسا محبوب اور معبود الہ ہے جس کی طرف قلوب پوری محبت سے کھنچ جاتے ہیں ۔ اسی کے سامنے دل جھکتے ہیں ، اسی کے سامنے عجز و انکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اسی سے ڈرتے ہیں اور اسی سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں ، مصائب و آلام اور مشکلات کے وقت اسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ، مشکل اوقات میں اسی سے فریاد کرتے ہیں ، اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے اسی سے فریاد کرتے ہیں ، اسی کے ذکر سے دل اطمینان حاصل کرتے ہیں ، اسی کی محبت میں سکون پاتے ہیں ۔ ان تمام صفات کی مالک صرف اللہ تعالی کی ذات ہے یہی وجہ ہے کہ تمام کلاموں میں سچا کلام لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے حزب اللہ ہیں ۔ اس کے منکر اور اس سے سرکشی کرنے والے اللہ تعالی کے دشمن اور اس کے غضب و قہر کا شکار ہیں ۔ جب یہ کلمہ صحیح ہو گیا تو اس کے ساتھ ہی تمام مسائل از خود حل ہو جائیں گے اور جس شخص کا یہ کلمہ ہی صحیح نہ ہوا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے علم اور عمل میں فساد پیدا ہو جائے گا ۔
محمد ( ص ) کی وضاحت : عبد کے معنی ہیں ایسا غلام جو عابد ہو ۔ معنی یہ ہوں گے کہ جناب محمد ( ص ) اللہ تعالی کے غلام ہیں جن کا خاصہ اور وصف عبودیت ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : " کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے " ( سورۃ الزمر ، 36 ) بارگاہ الہی میں ایک انسان کا سب سے بلند ترین مقام و مرتبہ یہ ہے کہ وہ رسالت اور عبودیت خاصہ سے متصف ہو ۔ چنانچہ رسول اللہ ( ص ) میں یہ دونوں صفتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔ رہی ربوبیت اور الوہیت تو یہ صرف اللہ تعالی کی صفات کاملہ ہیں اور یہ اسی کا حق ہے ۔ جس میں کسی بھی صورت میں نہ کوئی نبی و رسول شریک ہے اور نہ کوئی مقرب فرشتہ ۔
عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ : رسول کریم ( ص ) کی یہ دو صفتیں ایک ہی جگہ بیان کی گئی ہیں جو افراط و تفریط کو ختم کرتی ہیں ۔ اکثر لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ امت محمدیہ میں داخل ہیں لیکن وہ قول و عمل میں انتہائی افراط کا ثبوت دیتے ہیں اور آپ ( ص ) کی پیروی کو ترک کر کے تفریط سے کام لیتے ہیں اور آپ ( ص ) کے احکام و فرامین پر عمل کے بجائے آپ ( ص ) کی مخالفت کرتے ہیں اور آپ ( ص ) کے فرمودات کی ایسی ایسی غلط تاویلیں کرتے ہیں جن کو حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰهِ کی شہادت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان رسول اللہ ( ص ) پر ایمان لائے ، جو آپ ( ص ) بتائیں اس کی تصدیق کی جائے ، جس کام کا آپ ( ص ) حکم دیں اس کی تعمیل کی جائے ، جس کام سے روک دیں اسے چھوڑ دیا جائے
أن عیسیٰ عبداﷲ و رسولہ کا مفہوم : اس حدیث میں عیسائیوں کی تردید ہے ۔ عیسائیوں کے تین گروہ ہیں : 1 ۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عیسی ( ع ) ہی اللہ ہیں ۔ 2 ۔ دوسرے گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسی ( ع ) اللہ کے بیٹے ہیں ۔ 3 ۔ تیسرے گروہ کا قول یہ ہے کہ عیسی ( ع ) تین میں سے تیسرے ہیں
حدیث میں ان تینوں عقیدوں کی تردید فرمائی ۔ حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دیا ۔ ارشاد فرمایا : " اور نہ کہو کہ " تین " ہیں باز آ جاؤ ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے وہ بالا تر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو " ( سورۃ النساء ، 171 ) اور فرمایا " یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا مسیح ابن مریم ہی خدا ہے " ( سورۃ المائدة ، 17 )
مومن کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ یہودیوں کے اس بہتان کی تردید کرے ۔ عیسی ( ع ) پر ایمان لائے اور یہودیوں کے ان تمام لغو اور باطل عقائد سے عیسی ( ع ) کو بری الذمہ قرار دے ۔ نیز اللہ تعالی کے اس فرمان پر ایمان اور یقین رکھے کہ عیسی ( ع ) اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول تھے ۔
جس جنت کے بارے میں اللہ تعالی نے اپنے کلام پاک میں خبر دی ہے اور جسے اللہ تعالی نے اپنے متقی بندوں کے لئے بنایا ہے وہ برحق اور موجود ہے ۔ اس میں شک نہیں ۔ اور اس بات کا بھی اقرار کرے کہ وہ دوزخ جس کو اللہ تعالی نے کافروں کے لئے تیار کیا ہے اور جس کی خبر قرآن کریم میں دی گئی ہے وہ بھی برحق اور موجود ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔ جنت کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں : " دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے " ( سورۃ الحديد ، 21 ) اور دوزخ کے بارے میں فرمایا : " تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر ، جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے " ( سورۃ البقرة ، 24 )
اس باب میں توحید کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ توحید تمام گناہوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیتی ہے ۔ جب مصنف محمد بن عبد الوہاب نے پہلے باب میں توحید کے واجب ہونے کو بیان کیا اور بتایا کہ بندوں پر عائد فرائض میں سب سے بڑا فریضہ اللہ تعالی کی توحید بجا لانا ہے تو اب یہاں پر توحید کے قابل ستائش نتائج اور اس کے خوبصورت ثمرات کوبیان کیا جارہا ہے ۔
مصنف کا یہ کہنا کہ : توحید گناہوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیتی ہے ۔ اس کا تعلق خاص کے عام پر عطف سے ہے ۔ کیونکہ گناہوں کی بخشش اور مغفرت توحید کے چند ایک فضائل و ثمرات میں سے ایک ہے ۔ جیسا کہ اس باب میں اس پر دلائل بھی ذکر کئے گئے ہیں۔ توحید کے کچھ فضائل :
1 ۔ دنیا اور آخرت کی پریشانیاں ختم ہونے اور دونوں جہاں میں سزا سے بچنے کا بڑا سبب توحید ہے ۔
2 ۔ اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ موحد انسان کے دل میں جب رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہوگا تو وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے گا
3 ۔ اور جب انسان کامل توحید پر کاربند ہو تو وہ بالکل جہنم میں داخل ہی نہیں ہوگا ۔
4 ۔ موحد انسان کو دنیا اور آخرت میں کامل ہدایت اورامن حاصل ہوتے ہیں ۔
5 ۔ توحید اللہ تعالی کی رضامندی اور اس کے ہاں سے ثواب پانے کا ایک واحد سبب ہے ۔ اور قیامت والے دن خوش نصیب انسان وہ ہوگا جس نے خلوص قلب سے لاإلہ إلا اللہ کہا ہو اور اسے محمد ( ص ) کی شفاعت نصیب ہو جائے ۔
6 ۔ تمام تر اعمال کی قبولیت ان پر ثواب کے حصول کا دارو مدار توحید پر مبنی ہوتا ہے ۔ پس جب بھی توحید مضبوط ہوگی اوراللہ تعالی کے لیے اخلاص کامل ہوگا تو یہ تمام امور بھی کامل و مکمل ہوں گے ۔
7 ۔ توحید کی وجہ سے انسان پر نیکی کے کام کرنا اور برائی سے بچنا آسان ہو جاتا ہے ۔
8 ۔ جب کسی انسان کے دل میں توحید کامل ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی اس کے دل میں ایمان کو محبوب اور مزین کردیتے ہیں ۔
9 ۔ توحید کی وجہ سے انسان کے لیے دکھ درد اور تکالیف کا برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔
10 ۔ توحید کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کی وجہ انسان مخلوق کی بندگی سے آزاد ہوکر صرف ایک اللہ کا بندہ بن جاتا ہے ۔ بندوں کا خوف اور ان سے امیدیں ختم ہو جاتی ہیں اور پھر انسان ان کو راضی کرنے کے لیے اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرتا ۔ یہ وہ حقیقی شرف اور عزت ہے جو اس وقت نصیب ہوتی ہے جب انسان صرف ایک اللہ تعالی کی عبادت بجا لاتا ہے ۔
11 ۔ توحید کی وہ فضیلت جس کے برابر کوئی دوسرا شرف و فضل نہیں ہوسکتا وہ یہ کہ : جب انسان کے دل میں توحید کامل ہوجاتی ہے تو اس کا تھوڑا عمل بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے اعمال کو بلا حساب و کتاب بڑھا دیا جاتا ہے ۔
12 ۔ اللہ تعالی نے دنیا میں اہل توحید کی فتح و نصرت اور عزت و شرف اور حصول ہدایت اور ہر قسم کی آسانی کی ذمہ داری اپنے آپ پر لی ہوئی ہے جس سے انسان کے احوال کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کے اقوال و افعال کو درست کردیا جاتا ہے ۔
13 ۔ اللہ تعالی دنیا و آخرت کے شر و فساد سے اہل توحید کی حفاظت فرماتے ہیں اور ان پر اپنا احسان کرتے ہوئے انہیں پاکیزہ اور اطمینان بخش زندگی بخشتے ہیں ۔
 
( 3 ) ۔ ۔ ۔ جس نے حقیقی توحید اختیار کی
{ حقیقی موحد بلا حساب جنت میں جائے گا }
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّ۔لّٰهِ حَنِيْفًاۗ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَۙ ( سورۃ النحل ، 120 )
" واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا ، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو وہ کبھی مشرک نہ تھا "
وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُوْنَۙ ( سورۃ المؤمنون ، 59 )
" جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث میں آتا ہے
حصین بن عبدالرحمن ( رض ) سے روایت ہے فرماتے ہیں : میں ایک دفعہ سعید بن جبیر کے پاس تھا کہ سعید کہنے لگے : آج رات ستارے کو ٹوٹتے ہوئے تم میں سے کس نے دیکھا ہے ؟ حصین نے کہا کہ ہاں میں نے دیکھا ہے ۔ پھر کہنے لگے کہ میں نماز میں مشغول نہ تھا بلکہ مجھے کسی چیز نے کاٹ کھایا تھا جس کی مجھے سخت تکلیف تھی ۔ انہوں نے کہا پھر تم نے کیا کیا ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے جھاڑ پھونک سے کام لیا ۔ انہوں نے کہا یہ کیوں کیا ؟ میں نے کہا شعبی سے مروی ایک حدیث کی بناء پر ۔ انہوں نے پوچھا وہ کیا حدیث ہے جو انہوں نے بیان کی ہے ؟ میں نے کہا : ہم سے بریدہ بن الحصیب نے حدیث بیان کی کہ نظر بد اور کسی زہریلی چیز کے کاٹ کھانے کے سوا اور کہیں جھاڑ پھونک یا دم مفید نہیں ۔ جس شخص نے جو سنا اسی پر اکتفا کیا اور اسی پر عمل پیرا رہا تو اس نے بہت اچھا کیا ۔ سیدنا ابن عباس( رض ) نے رسول اللہ ( ص ) سے بیان کیا : مجھے بہت سی امتیں دکھائی گئیں ۔ میں نے دیکھا کہ کسی نبی کے ساتھ تو بہت بڑی جماعت ہے اور کسی نبی کے ساتھ صرف ایک یا دو ہی آدمی ہیں اور ایسے نبی کو بھی دیکھا جس کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا ۔ اچانک میرے سامنے ایک انبوہ کثیر آیا ، میں نے خیال کیا کہ کہ میری امت ہو گی لیکن مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسی ( ع ) اور ان کی قوم ہے ۔ اس کے بعد میں نے ایک بہت ہی بڑے انبوہ کو دیکھا ، مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور آپ کی امت میں ان کے ساتھ ستر ہزار افراد وہ ہیں جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ یہ واقعات سنا کر رسول اللہ ( ص ) اپنے گھر تشریف لے گئے ۔ پس صحابہ کرام ( رض ) آپس میں ان ستر ہزار افراد کے بارے میں قیاس آرایئاں کرنے لگے ۔ بعض کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو آپ ( ص ) کی صحبت کا شرف حاصل ہے ۔ بعض صحابہ کرام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اسلام میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ، اس کے علاوہ صحابہ کرام ( رض ) نے اور توجیہات بھی کیں ۔ نبی اکرم ( ص ) جب تشریف لائے تو صحابہ کرام ( رض ) نے اپنی مختلف آراء کا اظہار کیا ۔ رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : بلکہ یہ وہ افراد ہوں گے جو دم نہیں کرواتے اور نہ وہ داغ لگواتے ہیں اور نہ فال لیتے ہیں اور وہ اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں ۔ حضرت عکاشہ بن محصن ( رض ) نے کھڑے ہو کر عرض کی : یا رسول اللہ میرے لئے دعا فرمائیے ، اللہ تعالی مجھے ان میں سے کردے ۔ رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " تو ان میں سے ہی ہے ۔ " اس کے بعد ایک دوسرے صحابی نے عرض کیا : میرے لئے بھی دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کردے ۔ تو آپ ( ص ) نے فرمایا : " تم سے عکاشہ بازی لے گیا " ( صحیح مسلم ، 527 )
 
اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
1 ۔ توحید کے بارے میں لوگوں کے درجات و مراتب مختلف ہیں ۔
2 ۔ توحید کے تقاضے پورے کرنے کا مفہوم بھی واضح ہوا ۔
3 ۔ اللہ تعالی نے ابراہیم ( ع ) کی مدح میں فرمایا : وہ مشرکین میں سے نہ تھے ۔
4 ۔ اللہ تعالی نے اس بات پر اولیائے کرام کی بھی مدح فرمائی ہے کہ وہ شرک سے بیزار ہوتے ہیں ۔
5 ۔ دم کرنے اور جسم داغنے کے طریقہ علاج کو ترک کرنا ، توحید کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے ۔
6 ۔ ان تمام اوصاف کا احاطہ کرنا ہی درحقیقت حقیقی توکل ہے ۔
7 ۔ صحابہ کرام ( رض ) کے علم کی گہرائی اور ان کی حقیقت پسندی کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ بلا حساب جنت میں جانے والوں کو یہ بلند مقام اور مرتبہ محض عمل کی بدولت حاصل ہو گا ۔
8 ۔ صحابہ کرام ( رض ) کا خیر اور نیکی کے کاموں پرحریص ہونا ۔
9 ۔ امت محمدیہ درجات کی بلندی اور کثرت تعداد کے لحاظ سے تمام امتوں سے افضل اور برتر ہے ۔
10 ۔ موسی ( ع ) اور ان کی امت کی فضیلت بھی عیاں ہو رہی ہے ۔
11 ۔ نبی کریم ( ص ) کے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں ۔
12 ۔ ہر امت کو اپنے نبی کے ساتھ الگ اٹھایا جائے گا ۔
13 ۔ انبیاء کی دعوت کو بالعموم بہت تھوڑے لوگوں نے قبول کیا ۔
14 ۔ جس نبی پر ایک بھی شخص ایمان نہ لایا وہ قیامت کے دن اکیلا ہی آئے گا ۔
15 ۔ اس علم کا نتیجہ یہ ہے کہ : کثرت تعداد پر مغرور اور قلت تعداد پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ قلت یا کثرت معیار حق نہیں ۔
16 ۔ نظربد اور زہریلی چیز کے ڈسنے سے دم کرنا اور دم کروانا جائز ہے ۔
17 ۔ سعید بن جبیر کے قول " جس شخص نے جو سنا اسی پر اکتفا کیا اور اسی پر عمل پیرا رہا تو اس نے بہت اچھا کیا " سے سلف صالحین کے علم کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلی حدیث دوسری حدیث کے خلاف نہیں ۔
18 ۔ سلف صالحین بے جا تعریف و ستائش سے پر ہیز کیا کرتے تھے ۔
19 ۔ رسول اللہ ( ص ) نے عکاشہ ( رض ) سے فرمایا : " تو ان میں سے ہی ہے ۔ " آپ کا یہ قول آپ کے صدق نبوت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے ۔
20 ۔ عکاشہ ( رض ) کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے ۔
21 ۔ بوقت ضرورت تصریح کی بجائے اشارہ و کنایہ میں گفتگو کرنا جائز ہے ۔
22 ۔ رسول اللہ ( ص ) انتہائی اعلی اور احسن اخلاق کے مالک تھے ۔
 
باب کا خلاصہ و تشریح
معنی یہ ہیں کہ انسان توحید کو اپنے عمل میں سمو لے اور اس کو شرک اور بدعت سے پاک کرے ۔ ایسا کرنا امت محمدیہ کے لئے بہت ضروری ہے ۔ یہ ان اہل ایمان کی خاص علامت ہے جن کو اللہ تعالی اپنی مخلوق میں سے چن لیتا ہے ۔ مخلصین کی تعداد ابتدائے اسلام میں بکثرت تھی لیکن آخر میں بہت کم رہ جائے گی اور وہ بھی مساکین پر مشتمل ہو گی ، البتہ ان کی قدر و منزلت اللہ کریم کے ہاں بہت بلند ہوگی ۔
( صحیح مسلم ، 527 ) کی حدیث کے ان الفاظ سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو کثرت تعداد کو صحت مذہب کی دلیل قرار دیتے ہیں ۔ نجات پانے والے اگرچہ قلیل تعداد میں ہی ہوں ۔ حقیقت میں یہ ہی سواد اعظم ہیں ۔ کیونکہ ان کی قدر و منزلت اللہ تعالی کے ہاں بہت بلند ہے ۔ لہذا لوگوں کی کثرت تعداد پر دھوکہ نہ کھانا چاہئے کیونکہ سابقہ لوگ اسی کثرت کے گھمنڈ میں آکر ہلاک ہوگئے ، حتی کہ بعض اہل علم بھی جاہلوں اور گمراہ افراد کے عقائد میں گرفتار ہوگئے اور کتاب و سنت کو پس پشت ڈال دیا ۔ وہ ستر ہزار افراد جو بلا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے ان کی نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ شرک کی کسی بھی قسم میں مبتلا نہ ہوں گے ۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ ان کا اللہ پر توکل اور بھروسہ تھا ۔ اپنی مشکلات صرف اللہ کے سامنے پیش کرتے تھے اور اللہ کی قضا و قدر کے علاوہ کسی کی طرف بھی ان کی توجہ نہ تھی ۔ وہ صرف اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے ، اس کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے ۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ اللہ کی تقدیر اور اس کی مرضی کے مطابق آتی ہیں لہذا وہ مصائب و مشکلات میں صرف اللہ تعالی ہی کو پکارتے تھے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں یعقوب ( ع ) کا رجوع الی اللہ منقول ہے کہ " اس نے کہا میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا ، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو " ( سورۃ يوسف ، 86 )
یہ باب گزشتہ باب کی تکمیل اور اس کے تابع ہے ۔ جب اقوال و افعال اور ارادہ میں اللہ تعالی کے لیے کمال اخلاص ہو تو اس سے شرک اکبر اور شرک اصغر کے علاوہ قولی اور اعتقادی ، فعلی اور عملی بدعات سے نجات ملتی ہے ۔ اور شرک اکبر سے مکمل سلامتی ملتی ہے جو کہ در حقیقت توحید کی بنیاد کے بالکل متناقض ہے ۔ اور شرک اصغر سے بھی نجات ملتی ہے جو کہ کمال توحید کے منافی ہے ۔ اور ان بدعات سے نجات ملتی ہے جن سے توحید مکدر ہوتی ہے
پس یہ وہ انسان ہے جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوگا اور ان لوگوں میں سے ہوگا جو پہلے پہل جنت میں داخل ہوکر ٹھکانہ پائیں گے ۔
توحید کی تحقیق و حقیقت میں جو چیز بطور خاص داخل ہے وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں کثرت کے ساتھ الحاح اور اللہ تعالی پر انتہائی قوی توکل کہ انسان کا دل کسی بھی معاملہ میں مخلوق کی طرف نہ لگے ۔ صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضامندی اور محمد ( ص ) کی اطاعت ہو ۔ اس عظیم الشان مقام تک رسائی کے لیے لوگوں کے مختلف درجات ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : " ہر شخص کا درجہ اس کے عمل کے لحاظ سے ہے " ( سورۃ الأنعام ، 132 )
توحید کی حقیقت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف تمنائیں رکھی جائیں اورحقائق سے خالی دعوے کئے جائیں ۔اور نہ ہی میٹھی اور جھوٹی امیدیں رکھی جائیں ۔ بیشک یہ اس وقت ہوتا ہے جب دلوں میں عقائد اور ایمان کے حقائق موجود ہوں اور اعلی اخلاقیات سے ان کی تصدیق ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی جلیل القدر اعمال صالحہ بھی بجا لائے جائیں ۔ پس جو کوئی توحید کے حقائق کو ان کی روشنی میں پورا کرتا ہے تو اسے وہ تمام فضائل حاصل ہونگے جن کی طرف اس باب میں اشارہ گزرا ہے
 
( 4 ) ۔ ۔ ۔ شرک سے ڈرنا ضروری ہے
{ شرک سے ڈرنے کا بیان }
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۤءُ ( سورۃ النساء ، 48 )
" اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اِس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں "
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِىْ وَبَنِىَّ اَنْ نَّ۔عْبُدَ الْاَصْنَامَۗ ( سورۃ ابراهيم ، 35 )
" یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم نے دعا کی تھی کہ پروردگار اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث میں آتا ہے
رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا " مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر شرک اصغر کا ہے ۔" پوچھا گیا کہ شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : " دکھلاوا " ( سلسله احاديث صحيحه ، 146 )
عبد اللہ بن مسعود ( رض ) سے روایت ہے ، رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : جو شخص غیر اللہ کو پکارتے پکارتے مر گیا وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔ ( صحیح بخاری ، 4497 )
جابر ( رض ) سے مروی ہے ، رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " جس شخص کو اس حالت اللہ سے ملا کہ اس نے شرک نہیں کیا ، تو وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو اس حال میں اس سے ملا کہ وہ شرک کرتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا ۔ " ( صحیح مسلم ، 270 )
 
اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
1 ۔ انسان کو ہر وقت شرک سے ڈرتے ہوئے اور بچ کر رہنا چاہئے ۔
2 ۔ ریا کاری بھی شرک کی ایک قسم ہے ۔
3 ۔ ریا کاری شرک اصغر ہے ۔
4 ۔ نیک لوگوں پر باقی گناہوں کی نسبت ریا کاری کا اندیشہ زیادہ ہے ۔
5 ۔ جنت اور جہنم قریب ہیں ۔
6 ۔ اس ایک ہی حدیث میں جنت اور جہنم کے قریب ہونے کا اکٹھے ذکر کیا گیا ہے ۔
7 ۔ شرک نہ کرنے والا آدمی جنت میں ضرور جائے گا اور جسے شرک کی حالت میں موت آئی وہ جنت میں نہیں جاسکتا بلکہ وہ جہنم میں جائے گا اگرچہ وہ بہت بڑا عابد اور زاہد ہی کیوں نہ ہو ۔
8 ۔ ابراہیم خلیل اللہ ( ع ) کی اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے بتوں کی عبادت سے محفوظ رہنے کی دعا ۔
9 ۔ ابراہیم ( ع ) کے قول سے پتہ چلتا ہے کہ : آپ نے اکثریت کی حالت سے عبرت حاصل کی اور دعا کی ۔ " پروردگار ، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے " ( سورۃ ابراهيم ، 36 )
10 ۔ ان احادیث سے کلمہ " لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ " کی تفسیر واضح ہوتی ہے جیسے امام بخاری ( رح ) کا بیان ہے ۔
11 ۔ شرک سے محفوظ رہنے والوں کی فضیلت ۔
 
باب کا خلاصہ و تشریح
( سلسله احاديث صحيحه ، 146 ) کی حدیث میں دکھلاوا یعنی ریا کاری ۔ نبی کریم ( ص ) کو سب سے زیادہ خوف اور ڈر ، ریاکاری سے کیوں تھا ؟
اس کے برے اثرات اور نتائج کی بنا پر یہ ناقابل معافی گناہ ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے اکثر لوگ غافل رہتے ہیں ۔ اسی لیے آپ ( ص ) کو اپنی امت کے متعلق اس گناہ کا زیادہ اندیشہ تھا ۔ ریا کی دو اقسام ہیں ۔
( 1 ) ایک تو منافق کی ریاکاری اور دکھلاوا ہے جس کا تعلق اصل دین کے ساتھ ہے یعنی وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اسلام کا اظہار کرتا ہے جبکہ باطن میں کفر چھپائے ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : " محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں " ( سورۃ النساء ، 142 )
( 2 ) دوسری ، مسلمان موحد کی ریا ہے ۔ جیسے کوئی لوگوں کو دکھانے یا شہرت حاصل کرنے کے لیے خوب بنا سنوار کر نماز ادا کرے اور یہ شرک اصغر ہے ۔
توحید الوہیت اور عبادت میں شرک ہر لحاظ سے توحید کے منافی ہے ۔ شرک کی دو اقسام ہیں : شرک جلی اور شرک خفی ۔ شرک جلی کو شرک اکبر اور شرک خفی کو شرک اصغر بھی کہا جاتا ہے ۔
شرک اکبر : اس کا مطلب یہ ہے کہ : اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو ساجھی بنایا جائے اور اسے ایسے ہی پکارا جائے جیسے اللہ تعالی کو پکارا جاتا ہے ۔ اور اس کا خوف دل میں رکھا جائے ۔ اور اس سے امیدیں وابستہ کی جائیں ۔ اور اس سے ایسے محبت کی جائے جیسے اللہ تعالی سے محبت کی جاتی ہے یا پھر عبادت کی جملہ اقسام میں سے کوئی ایک عبادت اس کے لیے بجا لائی جائے ۔ اس شرک کی صورت میں ایسے انسان کے پاس توحید کا کوئی معمولی سا حصہ بھی باقی نہیں رہتا ۔ اورایسا انسان وہ مشرک ہے جس پر اللہ تعالی نے جنت حرام کردی ہے
شرک اصغر : اس میں وہ تمام اقوال و فعال شامل ہوتے ہیں جو شرک اکبر تک پہنچنے کا وسیلہ بنتے ہیں ۔ جیسے مخلوق کی شان میں اتنا غلو جوکہ عبادت کے مرتبہ تک نہ پہنچتا ہو ۔ اور غیر اللہ کی قسم اٹھانا اور معمولی قسم کی ریاکاری کرنا ۔ اور اس طرح کے دیگر امور ۔ شرک توحید کے منافی ہے ۔ پس اگر شرک شرک اکبر ہو تواس کی وجہ سے مشرک جہنم میں داخل ہوگا اورہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا اور اس پر جنت حرام کر دی گئی ہے ۔ اور انسان کو سعادت مندی اور کامیابی اس وقت تک نصیب نہیں ہوسکتی جب تک اس سے کلی طور پر اجتناب نہ کرلے ۔ پس انسان پر یہ حق ہے کہ وہ شرک سے ڈر کر رہے اوردور رہے ۔ اور اس کے اسباب اور وسائل اورذرائع سے بھی بچتا رہے اور اللہ تعالی سے عافیت اور سلامتی کی دعا مانگتا رہے جیسا کہ انبیاء اور اولیاء اللہ کا طریقہ کار رہا ہے ۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے دل میں توحید اور ایمان اور اخلاص کو بڑھانے اور اسے قوت دینے کے لیے اپنی کوششیں بروئے کار لائے ۔ اس کے لیے اللہ تعالی سے کامل تعلق ہونا چاہیے ۔ اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے اور اس کا خوف ہو اور اسی سے امیدیں اور آرزوئیں وابستہ کی جائیں ۔ اور بندہ اپنے ہر ایک قول و فعل میں اور ظاہری اور باطنی طور پر منع کردہ امور کے ترک کرنے میں اس کی رضامندی اور ثواب کا متلاشی رہے ۔
بلاشک و شبہ اللہ کے لیے اخلاص شرک اکبر اور شرک اصغر کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیتا ہے ۔ اور جو کوئی بھی جس قدر بھی شرک میں گرفتار ہوتا ہے یقینا اس کے اخلاص میں اس قدر کمی ہوتی ہے ۔
 
( 5 ) ۔ ۔ ۔ شہادت " لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ " کی تبلیغ و دعوت کا بیان
{ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی گواہی کے لئے لوگوں کو دعوت دینا }
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِىْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ ۗ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَاۡ وَمَنِ اتَّبَعَنِىْ ۗ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَاۤ اَنَاۡ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ( سورۃ یوسف ، 108 )
" تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی ، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث میں آتا ہے
ابن عباس ( رض ) فرماتے ہیں : رسول اللہ ( ص ) نے معاذ بن جبل ( رض ) کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا : " تمہارا جانا اہل کتاب کے پاس ہوگا تمہیں چاہیے کہ سب سے پہلے ان کو کلمہ لَا اِلٰہ اِ لَّا اللہ کے اقرار کی دعوت دو ۔ " ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : " کہ وہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرلیں ۔ " اگر وہ یہ بات مان لیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ تعالی نے ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ اگر اس کا بھی مان لیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکوۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے وصول کرکے ان کے فقراء میں تقسیم کی جائے گی ۔ اگروہ یہ بھی مان لیں تو ان کے عمدہ مال وصول کرنے سے احتراز کرنا اور مظلوم کی آہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ مظلوم کی آہ و پکار اور اللہ تعالی کی ذات کے درمیان کوئی پردہ حا ئل نہیں ہوتا ۔ " ( صحیح بخاری ، 4347 )
سہل بن سعد ( رض ) سے روایت ہے کہ غزوہ خیبر کے دن رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : میں کل ایسے شخص کو پرچم دوں گا جو اللہ تعالی اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالی اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔ اس کے ہا تھ پر اللہ تعالی فتح دے گا ۔ پس رات بھر صحابہ ( رض ) سوچتے رہے کہ یہ پرچم کس کو دیا جائے گا ؟ صبح کے وقت تمام صحابہ کرام ، رسول اللہ ( ص ) کے پاس پہنچ گئے اور ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ پرچم اسے دیا جائے ۔ رسول اللہ ( ص ) نے دریافت فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ صحابہ کرام نے عرض کی : ان کی آنکھ درد کر رہی ہے ۔ صحابہ ( رض ) نے آدمی بھیج کر حضرت علی ( رض ) کو بلالیا ۔ رسول اللہ ( ص ) نے جناب علی ( رض ) کی آنکھ میں لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی آپ ( رض ) اسی وقت اس طرح تندرست ہو گئے جیسے ان کو کوئی درد ہی نہ تھا ۔ رسول اکرم ( ص ) نے جناب علی ( رض ) کو پرچم دیا اور فرمایا : مجاہدین کو لے کر نکل جاؤ اور میدان معرکہ میں جا کر دم لو ۔ اور پھر ان کو اسلام کی دعوت دینا اور انہیں بتانا جو اللہ تعالی کے حقوق ان پر عائد ہوتے ہیں ۔ اللہ کی قسم ! اگراللہ آپ کے ہاتھ پر ایک آدمی کو ہدایت دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے ۔ ( صحیح بخاری ، 3701 )
 
اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
1 ۔ رسول اکرم ( ص ) کے متبعین کا انداز تبلیغ یہ ہے کہ وہ پہلے لوگوں کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں ۔
2 ۔ اخلاص نیت کی بھی ترغیب ہے کیونکہ اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ دعوت الی الحق کے کام میں مخلص نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگوں کو بالعموم اپنی ذات کی طرف بلاتے ہیں ۔
3 ۔ دعوت کے کاموں میں بصیرت سے کام لینا ضروری ہے ۔
4 ۔ توحید کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کو ہر عیب اور نقص سے پاک تسلیم کیا جائے ۔
5 ۔ شرک کی ایک قباحت یہ بھی ہے کہ یہ اللہ تعالی کے بارے میں گالی ہے ۔
6 ۔ اس باب کا ایک اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ مسلمان کو مشرکین سے الگ تھلگ اور دور رہنا چاہئے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شرک نہ کرنے کے باوجود ان کے ساتھ میل جول کی بنا پر ان کا ساتھی بن جائے ۔
7 ۔ واجبات دین میں توحید اولین واجب مسئلہ ہے ۔
8 ۔ نماز اور دیگر احکام دین سے پہلے توحید کی تبلیغ کی جائے ۔
9 ۔ رسول اللہ ( ص ) کے فرمان ان يشهدوا ان لا إله إلا الله کا مطلب یہ ہے کہ لا اِلہ اِلا اللہ کا اقرار کیا جائے ۔ ( صحیح بخاری ، 4347 کا عربی متن )
10 ۔ کچھ لوگ اہل کتاب ہونے کے باوجود عقیدہ توحید سے کماحقہ باخبر نہیں ہوتے یا جاننے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے ۔
11 ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دین کی تعلیم مرحلہ وار دینی چاہئے ۔
12 ۔ تبلیغ کے دوران اہمیت کے مطابق مسائل بیان کئے جائیں ۔
13 ۔ زکوۃ کے مصرف کا بھی بیان ہے ۔
14 ۔ معلم کا فرض ہے کہ وہ متعلم کے شبہات کو بھی دور کرے ۔
15 ۔ زکوۃ وصول کرتے وقت چن کر عمدہ اور قیمتی مال لینا منع ہے ۔
16 ۔ مظلوم کی آہ و بد دعا اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ۔ مظلوم کی بد دعا سے بچنا چاہیے ۔
17 ۔ محمد ( ص ) ، صحابہ اکرام ( رض ) اور اولیا کرام پر مشقتوں ، بھوک اور تکالیف کا گزرنا بھی توحید کی ایک بہت بڑی دلیل ہے ۔
18 ۔ رسول اللہ ( ص ) کا یہ ارشاد کہ " میں کل ایسے شخص کو پرچم دوں گا "علامات نبوت میں سے ہے ۔
19 ۔ نبی کریم ( ص ) کا علی ( رض ) کی آنکھ میں لعاب ڈالنا اور ان کا فورا صحت یاب ہو جانا بھی آپ ( ص ) کا معجزہ ہے ۔
20 ۔ علی ( رض ) کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے ۔
21 ۔ صحابہ کرام ( رض ) کی عظمت اور فضیلت بھی واضح ہے کہ وہ ساری رات یہ سوچتے رہے کہ صبح یہ پرچم کس خوش نصیب کو ملنے والا ہے ۔ اور اس سوچ میں وہ فتح کی بشارت بھول گئے ۔
22 ۔ایمان بالقدر بھی ثابت ہوتا ہے کہ پرچم ایسے آدمی کو ملا جس نے اس کے حصول کی خواہش یا کوشش نہیں کی بلکہ کوشش کرنے والے اور خواہش رکھنے والے اسے حاصل نہ کر سکے ۔
23 ۔ رسول اللہ ( ص ) کا علی ( رض ) سے فرمانا : " عَلَى رِسْلِكَ " اس میں آداب کی تعلیم ہے ۔ ( صحیح بخاری ، 3701 کا عربی متن )
24 ۔ جنگ سے پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دینی چاہئے ۔
25 ۔ لوگوں سے اولین خطاب ہو یا قبل ازیں جنگ ہوچکی ہو یا دعوت دی جاچکی ہو ، ہر صورت میں جنگ سے قبل اسلام کی دعوت دینا مشروع ہے ۔
 
باب کا خلاصہ و تشریح
یہ باب اس بات کو ثابت کرنے کے لیے قائم کیا ہے کہ توحید کی تکمیل اور شرک سے بچنے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ دوسروں کو توحید کی دعوت دی جائے ۔ کیونکہ کسی بات کا دل میں اعتقاد رکھنا ، زبان سے اس کا اقرار کرنا اور اس سے دوسروں کو مطلع کرنا یہ سب امور گواہی میں شامل ہوتے ہیں ۔
ان ابواب میں یہ ترتیب جسے مصنف محمد بن عبد الوہاب نے اختیار کیا ہے انتہائی مناسب اور عمدہ ترتیب ہے ۔ اس سے پہلے ابواب میں آپ نے توحید کے وجوب اوراس کے فضائل کا ذکر کیا تھا ۔ اور توحید اور اس کی تکمیل کی ترغیب دی تھی کہ اسے ظاہری اور باطنی طور پر مکمل کیا جائے اور اس کے مخالف امور سے بچ کر رہا جائے ۔ پھر اس باب میں اس توحید کی تکمیل کا ایک پہلو یہ بھی ذکر کیا کہ دوسروں کو اس کی دعوت دی جائے ۔ جیسا کہ مختلف احادیث میں ہے ۔ یہ درحقیقت تمام انبیاء کا طریقہ اور راستہ ہے ۔ یہ ہستیاں اپنی امتوں کو سب سے پہلے اللہ تعالی وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں ۔ اور یہی طریقہ محمد ( ص ) کا تھا ۔ آپ کا سب سے بڑا کام ہی اس توحید کی دعوت تھی ۔ آپ حکمت کے ساتھ اور عمدہ اور دلنشین وعظ کے ساتھ اوراچھے رد کے ساتھ لوگوں میں یہ دعوت پیش کرتے تھے ۔ آپ نہ ہی کبھی اس دعوت سے علیحدہ ہوئے اور نہ ہی کبھی اس کی تبلیغ میں کمزوری دیکھائی ۔
جیسے انسان خود اللہ کی توحید پر ہوتا ہے ویسے ہی اس پر واجب ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو بھی اچھے طریقے سے اللہ تعالی کی توحید کی طرف دعوت دے اور جو کوئی بھی اس کے ہاتھ پر ہدایت پالے گا تو اس کے لیے ان سب کے برابر اجر ہوگا اور ان میں سے کسی ایک کے اجر میں بھی کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی ۔ جب اللہ تعالی کی طرف دعوت خصوصا توحید یعنی " لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ " کی دعوت ہر ایک پر واجب ہے تو یہ واجب ہر انسان کی استطاعت کے اعتبار سے ہے ۔ پس عالم پر واجب ہوتا ہے کہ دعوت و ارشاد کے ذریعہ اس کو بیان کرے ۔ لوگوں کو توحید کی راہ دکھانا عام انسان کی نسبت سے عالم پر بڑا واجب ہے ۔ اور جس انسان کے جسم اور ہاتھ میں طاقت ہو یا اس کے پاس مال خرچ کرنے کے امکان ہوں یا پھر وہ اپنے مقام و مرتبہ سے اثر انداز ہو سکتا ہو تو اس پر یہ فریضہ اس انسان کی نسبت بڑا فریضہ ہے جس کے پاس یہ امکانات نہیں ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: " لہذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو " ( سورۃ التغابن ، 16 )
اس انسان پر اللہ تعالی رحم فرمائیں جو دین کے معاملہ میں معاون ومددگار ہو ۔
 
Top