اسلام اور ہندومت

مصنف : ڈاکٹر زاکر نائیک
مترجم : سید امتیاز احمد
باب اول
تعارف

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
” کہو ، " اے اہل کتاب ! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں ، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے " اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ، ہم تو مسلم ہیں “ ( سورۃ آل عمران ، 64 )
ہندومت کا تعارف
لفظ ہندو جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے ۔ ابتدا میں یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا جو دریائے سندھو کے پار رہتے تھے ۔ یا ان علاقوں کے رہنے والوں کے لیے جن علاقوں کو دریائے سندھ کا پانی سیراب کرتا تھا ۔
 
بعض مورخین کی رائے ہے کہ یہ لفظ پہلے پہل ان ایرانیوں نے استعمال کیا تھا جو شمال مغربی سمت سے یعنی سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ میں موجود دروں کے راستے ہندوستان وارد ہوئے تھے ۔
Encyclopedia of religions and ethics کے مطابق ، مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے متون اور ادب میں لفظ ہندو کہیں استعمال نہیں ہوا ۔
اپنی کتاب Discovery of India کے صفحہ 74 - 75 پر جواہر لال نہرو لکھتے ہیں کہ ” لفظ ہندو کا قدیم ترین استعمال ہمیں آٹھویں صدی ( CE ) میں ملتا ہے لیکن وہاں بھی یہ لفظ کسی خاص مذہب کے پیروکاروں کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ محض ایک قوم کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ لفظ ہندو کا استعمال مذہبی تناظر میں بہت بعد میں جاکر ہوا ۔ “
مختصرا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لفظ ہندو ایک جغرافیائی اصطلاح ہے جو ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو دریائے سندھ کے پار یا دوسرے لفظوں میں ہندوستان میں رہتے ہیں ۔
ہندومت کی تعریف
ہندومت یا ہندوازم لفظ ہندو سے نکلا ہے ۔ یہ وہ لفظ ہے جو انیسویں صدی میں انگریز دریائے سندھ کی وادی میں رہنے والے لوگوں کے متنوع اور مختلف عقاید اور نظریات کے لیے مجموعی طور پر استعمال کرتے تھے ۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینکا کا بیان ہے کہ انگریز مصنفین نے 1838ء میں یہ لفظ ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگوں کی مذہبی عقاید کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ، سوائے مسلمانوں اور نوعیسائی لوگوں کے ۔
ہندومت کی اصطلاح گمراہ کن ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہندومت کسی ایک نظام عقاید یا منظم نظریے کا نام ہے جب کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے ۔ عام طور پر لفظ مذہب سے جو تصور ذہن میں آتا ہے ہندومت اس سے خاصا مختلف قسم کا مظہر ہے ، لہذا مذہب کی کسی تعریف کی رو سے ہندومت کو ایک مذہب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس کی ابتداء ، تشکیل اور تکمیل کسی ایک تاریخی شخصیت یا پیغمبر سے بھی وابستہ نہیں کی جاسکتی ۔ ہندومت میں کوئی عبادت کا طریقہ ، کوئی عقیدہ یا رسم و رواج ایسا نہیں جو ہندو کہلانے والوں میں یکساں ہو ۔
 
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ ہندومت کے اصول بھی وضع نہیں کرسکتے ۔ کیونکہ اصول وضع کرنے کے لیے کوئی معیار ہی موجود نہیں ہے ۔ مختصرا یہ کہ جو شخص بھی یہ کہے کہ " میں ہندو ہوں " وہی سچا ہندو ہے ۔ قطع نظر اس بات کے کہ وہ کس کی عبادت کرتا ہے ؟ اس کے عقاید کیا ہیں ؟ اور اس کے اعمال کیسے ہیں ؟
ہندو علما کے نزدیک بھی ہندومت بطور مذہب ایک غلط اصطلاح ہے ۔ اس مذہب کو ان کے نزدیک " سناتن دھرم " یعنی ابدی مذہب کہا جانا چاہیے یا " وید دھرم " یعنی وہ مذہب جو ویدوں پر مبنی ہے ۔ سوامی ویویک آنند کے بقول اس مذہب کے ماننے والوں کو ویدانتی کہا جانا چاہیے ۔
اسلام کا تعارف
" اسلام " عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ " سلام " سے نکلا ہے ۔ اس لفظ کا مغوی مطلب امن و سلامتی ہے ۔ اس لفظ کا مطلب فرماں برداری بھی ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی کی اطاعت و فرماں برداری ۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کا مطلب وہ سلامتی ہے جو اپنی مرضی کو اللہ تعالی کی مرضی کے تابع کردینے سے حاصل ہوتی ہے ۔
مسلمان کی تعریف
بہت سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اسلام کوئی نیا مذہب ہے ۔ جو آج سے 1400 سال پہلے وجود میں آیا اور یہ کہ حضرت محمد ( ص ) مذہب اسلام کے بانی ہیں ۔ یہ محض ایک غلط فہمی ہے ۔ درحقیقت اسلام آغاز انسانیت ہی سے موجود ہے ۔ اس وقت سے جب پہلے انسان نے روئے زمین پر قدم رکھا تھا ۔ حضرت محمد ( ص ) اسلام کے بانی نہیں ہیں بلکہ اسلام کے آخری اور حتمی پیغمبر ہیں جن پر نبوت و رسالت کا اختتام ہوگیا ۔
 
باب دوئم
ایمانیات
ہندومت کی ایمانیات
( بنیادی عقاید )
ہندومت کے بنیادی عقاید طے شدہ نہیں ہیں ۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہندومت میں عقاید یا ایمانیات کا کوئی طے شدہ نظام یا باقاعدہ اصول موجود ہی نہیں ہے ۔ نہ ہی ہمیں ہندومت میں کوئی ایسا عقیدہ یا بنیادی اصول ملتا ہے جسے ماننا اور جس پر عمل کرنا ہر ہندو کے لیے لازم ہو ۔
عملا ایک ہندو آزاد ہے ، وہ جو چاہے کرے ، جو چاہے عقیدہ رکھے ۔ اس کے لیے حلال و حرام کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔ یعنی نہ تو کوئی چیز ایسی ہے جس پر عمل کرنا اس کے لیے بہرصورت لازم ہو اور نہ ہی کوئی عمل ایسا ہے جس سے پرہیز کرنا ہندو رہنے کے لیے ضروری ہو ، اور جسے کرنے کے نتیجے میں ہندومت کے دائرے سے باہر نکل جائے ۔
بہرحال چند اصول ایسے ضرور ہیں جنہیں تمام ہندو نہ سہی ۔ ہندؤوں کی اکثریت تسلیم کرتی ہے ۔ خواہ سو فیصد ہندو اس پر متفق نہ بھی ہوں ۔ ان میں سے بعض اصول ہم اسلام کے بنیادی عقاید پر گفتگو کرتے ہوئے زیر بحث لائیں گے ۔
 
ہندومت میں تصور خدا
آریائی مذاہب میں سب سے مقبول مذہب ہندومت ہے ۔ اور اب ہم ہندومت میں تصور خدا کا جائزہ لیں گے ۔
اگر آپ کسی عام ہندو سے پوچھیں گے کہ وہ کتنے خداؤں پر ایمان رکھتا ہے ؟ تو آپ کو مختلف جواب ملیں گے ۔ کوئی کہے گا تین خداؤں پر ، کوئی کہے گا تینتیس خداؤں پر ۔ کسی کا جواب ہوگا ایک ہزار خداؤں پر جب کہ بعض ایسے بھی ہوں گے جو کہیں گے وہ 33 کروڑ خداؤں کا وجود تسلیم کرتے ہیں ۔
لیکن اگر یہی سوال کسی پڑھے لکھے ہندو سے کریں گے ، جو اپنے مذہب کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہے تو اس کا جواب مختلف ہوگا ۔ وہ آپ سے کہے گا کہ درحقیقت ہر ہندو کو صرف اور صرف ایک ہی خدا پر ایمان رکھنا چاہیے ۔
فرق " 's " کا ہے :
انگریزی زبان کے دو جملے ہیں :
( a ) Everything is God
( b ) Everything is God's
ہندؤوں اور مسلمانوں کے تصور خدا میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہندو " ہمہ اوست " کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں ۔ یعنی " Everything is God " گویا کے ہر شے خدا ہے ۔ درخت خدا ہے ، سورج خدا ہے ، سانپ خدا ہے ، بندر خدا ہے اور خود انسان خدا ہے ۔
جبکہ مسلمانوں کے تصور خدا کو اس جملے میں بیان کیا جاسکتا ہے :
Everything is God's
یعنی ہر چیز خدا کی ہے ۔ ہر چیز کا خالق اور مالک اللہ سبحانہ وتعالی ہے ۔ درخت خدا کا ہے ، چاند خدا کا ہے ۔ بندر بھی خدا کی مخلوق ہے اور انسان بھی خدا کی مخلوق ہے ۔
انگریزی کے ان دو جملوں میں فرق صرف ایک حرف کا ہے ۔ جسے " Apostrophe s " کہتے ہیں اور یہی فرق ہندؤوں اور مسلمانوں کے تصور خدا میں ہے ۔
 
ہندو کہتا ہے کہ ہر شے خدا ہے اور مسلمان کہتا ہے کہ ہر شے خدا کی ہے ۔ یہ بنیادی اختلاف ہے ۔ اگر یہ اختلاف ختم ہوجائے تو ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں ۔
قرآن کی دعوت ہے کہ کچھ امور پر یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے ۔ اور ان امور میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ، کسی کو معبود نہ بنائیں ، اس مشترک نقطہ نظر کے حوالے سے ہم ہندؤوں اور مسلمانوں کے متون مقدسہ کا جائزہ لیتے ہیں ۔
بھگود گیتا
ہندومت میں جن متون کو مقدس سمجھا جاتا ہے ، ان میں سب سے زیادہ مقبولیت " بھگود گیتا " کو حاصل ہے اور اس کتاب میں کہا گیا ہے :
" جھوٹے خداؤں کی پرستش وہی لوگ کیا کرتے ہیں جن کی عقل و فہم مادی خواہشات نے چرالی ہے ۔ " ( بھگود گیتا ، ساتواں باب ، اشلوک 20 )
گویا خود بھگود گیتا کے مطابق غیر خدا کی عبادت کرنے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی مادی خواہشات کے ہاتھوں مغلوب ہوچکے ہوتے ہیں ۔
اپنشد
اپنشد بھی ہندومت کے متون مقدسہ میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ چندوگیہ اپنشد کے چھٹے باب میں کہا گیا ہے :
" وہ ایک ہی ہے کسی دوسرے کے بغیر ۔ " ( چندوگیہ اپنشد ، باب 6 ، دوسرا حصہ ، اشلوک 1 )
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
" کہو ، وہ اللہ ہے ، یکتا " ( سورۃ الإخلاص ، 1 )
 
سویتا سوترا اپنشد میں کہا گیا ہے :
" اس کا دنیا میں کوئی حکمران نہیں
کوئی آقا نہیں
نہ ہی وہ کوئی نشان رکھتا ہے
وہ سبب ہے
بادشاہوں کا بادشاہ
نہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہے
اور نہ ہی مالک ۔ "
( The principle Upanishads by S . Radhakrishnan p . 745 )
( The sacred Book of the East V . 15 p . 263 )
جب کہ قرآن مجید کی سورۃ الإخلاص ، 3 میں ہمیں پیغام دیا گیا ہے :
" نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد "
اپنشد میں مزید کہا گیا ہے :
" اس جیسا کوئی بھی نہیں ہے ۔ " ( سویتا سوترا اپنشد ، باب 4 ، اشلوک 19 )
مزید تحریر ہے :
" اس سے مشابہ کوئی نہیں ہے
وہ جس کا نام عظمت والا ہے ۔ "
( The principle Upanishads by S . Radhakrishnan p . 736 - 7 )
( The sacred Book of the East V . 15 p . 253 )
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا :
" اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے " ( سورۃ الإخلاص ، 4 )
" کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے " ( سورۃ الشورى ، 11 )
 
سویتا سوترا اپنشد کے چوتھے ادھیائے کے بیسویں اشلوک میں تحریر ہے :
" اس کی صورت دیکھی نہیں جاسکتی
کوئی بھی اپنی آنکھوں سے
اس کا دیدار نہیں کرسکتا ۔ "
یہی بات دوبارہ بھی کہی گئی ہے :
" اس کی صورت دیکھی نہیں جاسکتی
کوئی بھی اپنی آنکھوں سے
اس کا دیدار نہیں کرسکتا
وہ جو اپنے قلب اور اپنی فکر سے
یہ جان جاتے ہیں
کہ وہ دلوں میں بستا ہے
وہ لافانی ہوجاتے ہیں ۔ "
( The Sacred of The East V . 15 p . 253 )
قرآن مجید کی سورۃ الأنعام میں ارشاد ہوتا ہے :
" نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے ، وہ نہایت باریک بیں اور باخبر ہے "
 
وید
ہندومت کے متون مقدسہ میں وید بھی نہایت اہم گردانے جاتے ہیں ۔ بنیادی طور پر چار وید اہم ترین ہیں ، جوکہ مندرجہ ذیل ہیں :
1 ۔ رگ وید
2 ۔ یجر وید
3 ۔ سام وید
4 ۔ اتھر وید

یجر وید میں کہا گیا ہے :
" اس کا کوئی عکس نہیں ۔ " ( یجر وید ، باب 32 ، مصرعہ 3 )
مزید کہا گیا :
" وہی پیدا نہیں ہوا
وہی ہماری عبادت کا حق دار ہے
وہ روشن اجسام کی طرح خود قائم ہے
میری دعا ہے
کہ مجھے اس سے کوئی نقصان نہ پہنچے
وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا
ہمیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے ۔ " ( یجر وید ، از دیوی چند ، صفحہ 377 )
ایک اور جگہ تحریر ہے :
" وہ جسم سے پاک ہے ، وہ خالص ہے
وہ روشن ہے ۔ ۔ ۔
جسم سے ماورا ہے ۔ ۔ ۔
دوراندیش اور دانا ہے ۔ ۔ ۔
وہ ابد تک باقی رہنے والا ہے ۔ " ( یجر وید ، مرتبہ : رالف گرفتھ ص 538 )
 
یجر وید میں کہا گیا ہے :
" وہ لوگ تیرگی کا شکار ہوجاتے ہیں
جو مظاہر فطرت کی عبادت کرتے ہیں"
( مثلا آگ ، ہوا ، پانی وغیرہ ) ( یجر وید ، باب 40 ، مصرعہ 9 )
یہی نہیں بلکہ مزید کہا گیا :
" وہ لوگ تیرگی کی گہرائیوں میں جا پہنچتے ہیں جو غیر فطری اشیا ( مثلا بت ) کو اپنا معبود بناتے ہیں ۔ "
یہ بات جا بجا دہرائی گئی ہے کہ " سنبھوتی " اور " اسنبھوتی " یعنی قدرتی اشیا اور انسان کی تخلیق کردہ اشیا کی عبادت کرنے والے یکساں طور پر تیرگی اور اندھیرے میں ہیں ۔ ( یجر وید مرتبہ : رالف گرفتھ ، ص 538 )
اب ہم اتھر وید کی طرف آتے ہیں ۔
اتھر وید کی بیسویں کتاب کے باب 58 کے تیسرے مصرعے میں کہا گیا :
" بلاشبہ خدا عظیم ہے ۔ "
" تو عظیم ہے خدایا
تو عظیم ہے سوریا
تو عظیم ہے آدیتیہ ۔ "
قرآن مجید میں فرمایا گیا :
" وہ پوشیدہ اور ظاہر ، ہر چیز کا عالم ہے وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالا تر رہنے والا ہے " ( سورۃ الرعد ، 9 )
 
رگ وید کو ویدوں میں قدیم ترین خیال کیا جاتا ہے اور مقدس ترین بھی مانا جاتا ہے ۔ رگ وید کی پہلی کتاب کے باب 164 میں کہا ہے :
" پجاری ، ایک ہی خدا کو بہت سے ناموں سے پکارتے ہیں ۔ وہ اسے " اندر " بھی کہتے ہیں اور " متر " بھی " ورون " بھی کہتے ہیں اور اگنی بھی ۔ "
رگ وید کی دوسری کتاب کے پہلے ہی باب کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں خدا کے لیے بہت سی صفات گنوائی گئی ہیں ۔ مجموعی طور پر رگ وید میں اللہ تعالی کی 33 صفات بیان کی گئی ہیں ۔ ان صفات یا اسمائے صفاتی میں سے ایک بہت خوبصورت صفت " برہما " ہے ۔ برہما کا مطلب ہوتا ہے تخلیق کرنے والا ، یعنی اگر آپ اس کا عربی میں ترجمہ کریں تو وہ بنے گا " الخالق " ۔
لہذا ہم کو ، یعنی مسلمانوں کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ اللہ تعالی کو خالق کہا جائے یا " برہما " کہہ کر پکارا جائے ۔ لیکن اگر آپ یہ کہیں گے کہ " برہما " خدا ہے جس کے چار سر ہیں اور ہر سر پر تاج ہے اور یہ کہ اس کے چار ہاتھ ہیں تو ہم مسلمانوں کو آپ کے بیان پر شدید اعتراض ہوگا کیوں کہ آپ خدا کی تجسیم کررہے ہیں ۔
بلکہ دراصل خدا کے ساتھ اس قسم کے تصورات وابستہ کرکے آپ خود ویدوں کی تعلیمات کی بھی نفی کررہے ہوتے ہیں جیسا کہ یجر وید کا بیان پہلے بھی نقل کیا گیا :
" وہ جسم سے پاک ہے ، وہ خالص ہے
وہ روشن ہے ۔ ۔ ۔
جسم سے ماورا ہے ۔ ۔ ۔
دوراندیش اور دانا ہے ۔ ۔ ۔
وہ ابد تک باقی رہنے والا ہے ۔ ۔ ۔ " ( یجر وید ، مرتبہ : رالف گرفتھ ص 538 )
سو جس وقت آپ برہما کی تجسیم کرتے ہیں تو گویا آپ یجر وید کے مذکورہ بالا بیان کی تردید کررہے ہوتے ہیں ۔
 
رگ وید میں ایک اور جگہ کہا گیا ہے :
" اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو
وہ جو صاحب الوہیت ہے
اسی کی مدح کرو ۔ " ( رگ وید ، کتاب 8 ، باب 1 )
ایک اور جگہ یہ بھی کہا گیا ہے :
" اے دوستو ! اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو
وہ جو خدا ہے
کوئی بھی دکھ تمہیں پریشان نہ کرے
صرف اسی کی مدح کرو ۔ ۔ ۔
وہ جو نعمتیں برسانے والا ہے
خود شناسی کے مراحل میں تمہیں چاہیے
کہ اس کی شان میں نغمے گاتے رہو ۔ " ( رگ وید ، مرتبہ : ستیہ پرکاش سرسوتی ، ستیہ کام ودھیا ، جلد چہارم ، ص 1 - 2 )
پھر کہا گیا :
" بلاشبہ اس خالق کی شان سب سے بلند ہے ۔ " ( رگ وید ، مرتبہ : ستیہ پرکاش سرسوتی ، ستیہ کام ودھیا ، جلد ششم ، ص 2 - 18 )
اگر آپ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو یہاں بھی اس سے ملتا جلتا ایک پیغام ہمیں اس آیت مبارکہ میں نظر آتا ہے :
" تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے " ( سورۃ الفاتحة ، 2 )
 
رگ وید میں ایک اور جگہ تحریر ہے :
" وہ رحیم عطا کرنے والا ہے ۔ " ( رگ وید ، مرتبہ : رالف گرفتھ ، جلد دوئم ، ص 377 )
جب کہ سورۃ الفاتحة کی تیسری آیت میں فرمایا گیا :
" رحمان اور رحیم ہے " ( سورۃ الفاتحة ، 3 )
یجر وید میں ہمیں یہ بات بھی ملتی ہے :
" اچھی راہ کی طرف ہماری رہنمائی کر اور ان برائیوں کو ہم سے دور کردے جو گمراہی اور پریشانی کی طرف لے جاتی ہے ۔
اچھی راہ کے ذریعے ہمیں فراوانی تک لے جا
اے اگنی !
اے خدا تو ہمارے تمام اعمال اور خیالات کے بارے میں جانتا ہے
ان گناہوں کو ہم سے دور کردے
جو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ "
سورۃ الفاتحة کی ان آیات سے بھی ہمیں اسی قسم کا پیغام ملتا ہے :
" ہمیں سیدھا راستہ دکھا 0 ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا ، جو معتوب نہیں ہوئے ، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں " ( سورۃ الفاتحة ، 6 - 7 )
 
رگ وید میں کہا گیا :
" اسی کی تعریف کرو جو واحد اور بےمثال ہے ۔ " ( رگ وید از رالف گرفتھ ، ص 684 )
ہندو ویدانت کی برہما سوترا میں یہی بات کی گئی :
" بھگوان ایک ہی ہے
دوسرا نہیں ہے ، نہیں ہے
ذرا بھی نہیں ہے ۔ "
لہذا ہندومت کے متون مقدسہ کے مطالعے سے بھی آپ خدا کا صحیح تصور معلوم کرسکتے ہیں ۔
فرشتے
اسلام میں فرشتوں کا تصور

اسلام میں فرشتوں کے بارے میں ہمارا تصور یا عقیدہ یہ ہے کہ :
وہ اللہ تعالی کی ایک مخلوق ہیں
وہ بالعموم نظر نہیں آتے
انہیں نور سے تخلیق کیا گیا ہے
وہ اپنی مرضی اور ارادے کے مالک نہیں ہیں ۔ ( یعنی انہیں انسانوں کی طرح اپنے افعال پر اختیار حاصل نہیں ہے )
وہ ہمیشہ اللہ سبحانہ و تعالی کے احکامات کی بجا آوری میں مصروف رہتے ہیں ۔
اللہ نے مختلف فرشتوں کو مختلف کاموں پر مامور فرمایا ہے ، مثال کے طور پر برگزیدہ ترین فرشتے حضرت جبریل ( ع ) ہیں ، جنہیں انبیائے کرام تک وحی پہنچانے پر مامور فرمایا گیا ہے ۔
ہندومت میں فرشتوں کا تصور
ہندومت کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس مذہب میں فرشتوں یا ملائکہ کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔
 
Top