علم النحو ایک مبتدی کی نظر سے (۲)

قوا عدِ عربی، ایک مبتدی کی نظر سے﴿۲﴾
علم النحو
محمد خلیل الر حمٰن۔طالب علم دراساتِ دینیہ جامعہ فاروقیہ کراچی۔


﴿بسم اللہ الر حمٰن الر حیم﴾ الحمد لللہ وکفیٰ والصلوٰۃ السلام علیٰ عبادہِ الذین اصطفیٰ والذی انزل فی کتابہ ﴿ ام یقولون افترٰہ ، قل فاتوا بسورۃ مثلہ وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین﴾۔اما بعد

مندرجہ بالا آیات سے ایک بات واضح ہے کہ ان آیات میں مسلمانوں اور متقین سے خطاب نہیں ہے بلکہ دراصل خطاب مشرکین اور کفار سے ہے اور انھیں ان کے اس مغالطے کی وجہ سے کہ قرآن پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کی لکھی ہوئی کتاب ہے ، ایک کھلا چیلنج دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام مددگاروں سے مدد لے کر بھی اس قرآن جیسی کوئی سورۃ نہیں بنا سکتے۔جیسا کہ سورۃ میں ارشاد باری، تعالیٰ ہے۔
﴿قل لئن اجتمعت الانس والجن علیٰ ان یاتوا بمثل ھٰذا القرآن لا یا تون بمثلہ، ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا﴾

یہ چیلنج جو شروع میں ایک پورا قرآن بنانے سے متعلق تھا بتدریج آسان کیاگیا تاکہ مشرکین پر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے کہ قرآن اللہ رب العزت کی کتاب ہے اور وہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

۔﴿ام یقولون افترٰہ ، قل فاتوا بعشر سور مثلہمفتریٰت وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین﴾
اسی طرح ارشاد ہوتا ہے۔
﴿و ان کنتم فی ریب مما نزلناعلیٰ عبدنا فاتو ابسورۃ من مثلہ ۔ وادعوا شھدآئ کممن دون اللہ ان کنتم صٰدقین﴾

گویا یہ چیلنج جو ایک قرآن بنانے سے شروع ہوا اور رفتہ رفتہ دس سورتوں اور پھر ایک سورت تک مختصر اور سہل کردیا گیا پھر بھی کفار آج چودہ سو سال بعد بھی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس چیلنج کا سامنا نہیں کرسکے۔

بعثتِ نبوی کے وقت اہلِ عرب کی اپنی زبان عربی تھی جس پر وہ جتنا بھی ناز کرتے کم تھا۔ اس زبان کی فصاحت و بلاغت ،لطافت، حلاوت، جازبیت ،وسعت، معنی خیزی، خوبصورتی، ان کی نظر میں بجا طور پر دنیا کی دیگر زبانوں سے زیادہ تھی۔ وہ اپنے آپ کو اس زبان کے مالک ہونے کے ناطے عرب اور دوسروں کو عجم یعنی گونگا کہتے تھے۔اللہ نے اپنے آخری نبی کے لیے اس علاقے اور اس زبان کو چنا اور اسی زبان میں قرآنِ معجز بیان کو اپنے نبی ﷺ پر نازل فرمایا۔اللہ کی اس کتاب ھدایت کے دو پہلو ہیں، ایک تو اس کا اندازِ بیان اور دوسرا اس کا ابدی پیغام۔اندازِ بیان اس کا، کافروں اور یقین نہ کرنے والوں کے لیے معجز کردینے والا اور متقین کے لیے اللہ رب العزت کا ایک کھلا معجزہ جو رہتی دنیا کے لیے ایک بے مثال کارنامے کے طور پر مسلمانوں کی ہدایت کا ذریعہ ہے۔
t
جہاں تک اس کے ابدی پیغام کا تعلق ہے، یہ ان بار بار دہرائی جانے والی سات آیات یعنی سورۃ فاتحہ کے جواب میں مسلمانوں کو عطا کیا گیا۔ سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دعا کا قرینہ سکھایا۔

زیر نظر مضمون میں ہم قرآن معجز بیان کی بیان کردہ پہلی صفت یعنی انداز بیان سے بحث کریں گے۔اور اس کی ندرت ، لطافت اور دل پذیری اور فصاحت و بلاغت کا ذکر کریں گے۔

اللہ رب العزت نے اپنے بندے محمد ﷺ پر پہلی وحی نازل فرمائی اور آپ کو نبوت عطا فرمائی تو اس سے پہلے دنیا والوں پر اس حقیقیت کو واضح کردیا کہ یہ بندہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا، امی ہے۔ پہلی وحی نازل ہوئی تو فرشتے نے آپ ﷺ کو جکڑ لیا اور آپ سے کہا ، ’’ اقرائ‘‘﴿پڑھئے﴾۔

آپ نے جواب دیا، ’’ ما انا بقارٍ‘‘ یعنی میں پڑھنا نہیں جانتا۔یہ گو یا اس حقیقت کا اظہار تھا کہ ایک امی کی زبانی ایسا کلام دنیا والوں کو دیا گیا جسے سن کر لوگ مبہوت رہ جاتے تھے ، دوسروں کو اس کلام کے سننے سے منع کرتے تھے لیکن زبان دانی کی چاشنی ایسی تھی کہ خود چھپ چھپ کر اس کلام کو سننے کے لیے آ جاتے ۔ وہ جو فصاحت و بلاغت کا دعویٰ کرتے تھے ، اس کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے اور یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے کہ یہ تو جادو ہے۔

لبید بن ربیعہ عامری، جن کے کلام کا شمار ان شہہ پاروں میں سے ہوتا تھا جنھیں خانہ کعبہ میں لٹکایا جاتا تھا، جب اللہ نے توفیق بخشی اور اسلام لے آئے تو شاعری چھوڑدی۔ بعد میں ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) نے ان سے کچھ نیا کلام سننے کی فرمائش کی تو کہنے لگے کہ جب سے مجھے اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرۃ اور سورۃ آلِ عمران کی تعلیم دی ، میں نے شاعری چھوڑ دی۔

حضرت عمر (رض) گھر سے کسی اور ارادے سے نکلے تھے لیکن چھپ چھپ کرکلامِ اللہ سنتے رھتے تھے اس لیے دل نرم ہوچکا تھا۔ اس دن جب اللہ کا کلام سنا اور پڑھا تو دل کی اور ہی حالت ہو گئی۔ ایسی کایا پلٹ ہوئی کہ فوراً خدمت نبویﷺ میں پہنچے اور ایمان لے آئے۔

نجاشی کے دربار میں جب مشرکین ِ عرب نے جھوٹی شکایت کی کہ یہ لوگ تو آپ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کچھ غلط قسم کےاعتقادات رکھتے ہیں ، اور پھر نجاشی کی فرمائش پر حضرت جعفر طیار(رض) نے سورۃ مریم کی آیات تلاوت کیں تو نجاشی جھوم گئے کہ جو کچھ پڑھا گیا، حضرت عیسیٰ (ع)اس سے ایک ذرہ برابر بھی کم یا زیادہ نہیں تھے۔

خلفائے راشدہ کے دور میں جب اسلام تیزی سے پھیلنا شروع ہوا یہانتک کہ جزیرہ نمائے عرب سے باہر نکل کر ایران عراق روم و افریقہ اس کے زیر نگیں آگئے اور عجمیوں نے جوق در جوق اسلام قبول کرنا شروع کردیا تو صحابہ کرام و تابعین و تبع تابعین کی ایک بڑی تعداد نے قرآن و سنت کی ترویج و پھیلائو میں ایک بہت بڑا کردار ادا کیا۔ تمام اسلامی علوم جو صحابہ (رض)کے پاس اللہ کے رسول ﷺ کی امانت کے طور پر تھے اور اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں حکم دیا تھا کہ وہ انھیں ان لوگوں تک پہنچادیں جو موجود نہیں، لہٰذا ان ہستیوں نے اس فرض کو نبھانے کا کام بحسن و خوبی انجام دیا اور اسلام پھیلایا۔ اس سلسلے میں چونکہ عربی ایک بنیادی عنصر تھی ، اور جب تک اسلام جزیرہ نمائے عرب میں رہا قرآن و سنت کی ترویج میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوئی اس لیے کہ تمام لوگوں کی مادری زبان عربی تھی اور انھیں اس کو سمجھنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی تھی، لیکن جب عجمیوں نے قرآن پڑھنا شروع کیا اور اس کو سمجھنے کی کوشش کی تو عربی زبان کی ترویج و ترقی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ کئی علوم صرف عربی زبان کو غیر عربیوں تک پہنچانے کے لیے ایجاد کیے گئے، جن میں علم الصرف، علم النحو، علم عروض و علم کلام وغیرہ شامل ہیں۔

خود قرآن نے عربی زبان پر کتنا گہرا اثر ڈالا ہے اس کا اندازہ ایک طرف تو اس بات سے ہوتا ہے کہ قرآن کے اعجاز کی وجہ سے خود عربی زبان زندہ جاوید ہوگئی۔ جہاں تین ساڑھے تین سو سال بعد زبان بدل جاتی ہے وہیں آج چودہ پندرہ سو سال بعد بھی عربی زبان اسی طرح موجود ہے اور رہے گی۔ دوسری طرف ذراعربی کے ان محاوروں اور ضرب الامثال اور بول چال کے طریقوں کا اندازہ کیجیے جو قرآن کے مرہونِ منت ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اپنی کتاب محاضراتِ قرآنی میں امثال القرآن کے موضوع پر لکھتے ہوئے علامہ سیوتی کے حوالے سے بطور مثال کئی ایسے قرآنی جملے تحریر کیے ہیں جو عربی زبان میں ضرب المثل کے طور پر عام ہوگئے ہیں، مثلاً:

۔ولا یحیق المکر السیی الا باھلہ
۔کل یعمل علی شاکلتہ
۔ما علی الرسول الا البلاغ
۔کل حزب بما لدیھم فرحون
۔ھل جزائ الاحسان الا الا حسان
۔ولا ینبئک مثل خبیر
۔وقلیل ماھم

اسی طرح نقطوں اور اعراب کے بارے میں ڈاکٹر غازی آگے لکھتے ہیں۔

’’ جب نئے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے ، جن میں اکثریت غیر عربوں کی تھی تو ضرورت پیش آئی کہ قرآن مجید پڑھانے سے پہلے ان کو یہ بھی سکھایا جائے کہ وہ عربی زبان کا تلفظ کس طرح کریں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت علی (رض) کے حکم سے ان کے شاگرد ابولاسود ویلی نے قرآن مجید پر پہلی بار نقطے لگائے۔ لیکن قرآنِ مجید میں نقطے لگانے کو سرکاری طور پر لازمی قرار دینے کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے آدمی کو دی جو اسلام کی تاریخ میں زیادہ نیک نام نہیں ہے۔ یعنی حجاج بن یوسف۔ اس نے بطور پالیسی کے یہ حکم دیا کہ آئندہ قرآن مجید کا کوئی نسخہ نقطوں کے بغیر نہ تو قبول کیا جائے گا اور نہ اس کی اجازت دی جائے گی۔ چنانچہ اس کے زمانے سے قرآن پر نقطے لگانے کاباقاعدہ رواج شروع ہوا۔

اعراب کا بھی ابھی تک رواج نہیں تھا۔ اس لیے کہ عربی جاننے والازیر زبر کا محتاج نہیں ہوتاتھا۔ جو نیا شخص اسلام میں داخل ہوتا تھاوہ جلد ہی عربی سیکھ لیا کرتا تھا۔ آج بھی عام طور پر عربی کتابوں میں زیر زبر نہیں ہوتے ،یہ کام دوسری صدی کے اواخریا تیسری صدی ہجری کے اوائل میں ہوا۔ بنو عباس کے زمانے میں ، اسلامی تاریخ کی ایک بہت اہم اور غیر معمولی شخصیت گزری ہے، جس کے بارے میں میں سمجھتا ہوں کہ انسانی تاریخ میں جتنے اعلیٰ ترین دماغ گزرے ہیں ، ان میں وہ ایک تھایعنی خلیل بن احمد الفراہیدی۔ وہ کئی علوم و فنون کا موجد ہے۔ اعراب بھی اس نے ایجاد کئے۔ اعراب کا تصور نہ صرف سب سے پہلے اسی نے دیا ، بلکہ اس نے قرآن مجید پربھی اعراب لگائے۔‘‘
﴿محاضراتِ قرآنی از ڈاکٹر محمود احمد غازی۔ ﴾
کہتے ہیں کہ علم نحوحضرت علی (رض)کی ایجاد ہے ، بعض کے نزدیک ابوالاسود وائلی اسکے موجد ہیں۔ بہرحال یہ دونوں بزرگ اور سیبویہ، خلیل نحوی اور جاحظ وغیرہ اس فن کے بڑے نام ہیں۔ مشہور ولندیزی مستشرق دوبوئر نے اپنی تصنیف’’تاریخ فلسفہ اسلام‘‘ میں لکھا ہے کہ

’’ اہل عرب مثل اور بہت سے علوم کے، علم لسان کا بانی حضرت علی (رض) کو قرار دیتے ہیںبلکہ کلام کی تقسیم تین اجزائ میں جو ارسطو کی ایجاد ہے انھیں کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اصل میں علم لسان کی بنائ کوفے اور بصرے میں پڑی تھی۔ ابتدائی نشوئ نمائ پردہ اخفائ میں ہے کیونکہ پہلی چیز جو ہمیں نظر آتی ہے وہ سیبویہ کی مکمل صرف و نحو ہے۔ یہ ایک جید کتاب ہے جسے آگے چل کر متاخرین نے ابنِ سینا کے قانون کی طرح متعدد فضلائ کی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا۔‘‘

کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے جب حضرت علی (رض) کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت کو غلط طور پر پڑھاتو ۔۔۔

مولانا مشتاق چرتھاولی علم نحو کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں۔
’’ عربی کا علم نحو وہ علم ہے کہ جس میں اسم و فعل و حرف کو جوڑکر جملہ بنانے کی ترکیب اور ہر کلمہ کے آخری حرف کی حالت معلوم ہو۔‘‘

جاننا چاہیے کہ ان اعراب کے عوامل کون کون سے ہیں۔ذیل میں ملاحظہ ہو ان عوامل کا ایک اجمالی جائزہ۔

عواملِ اعراب کی دو قسمیں ہیں ۔ لفظی و معنوی۔

لفظی عامل وہ ہے جو بظاہر لفظوں میں موجود ہو، اسکی تین قسمیں ہوتی ہیں، حروف، اسمائ اور افعال۔

ان میں پہلی قسم کے حروف اسم پر عمل کرتے ہیں اور ان کی سات قسمیں ہیں۔
۱۔ حروفِ جر ۲۔ حروفِ مشبہہ بالفعل ۳۔ ما و لا ۴۔ لائے نفی جنس
۵۔ حروفِ ندائ ۶۔ واو ۷۔ اِلا

دوسری قسم کے حروف فعل مضارع پر عمل کرتے ہیں اور ان کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔ حروفِ ناصبہ ۲۔ حروفِ جازمہ
اسمائے عاملہ کی گیارہ قسمیں ہوتی ہیں۔
۱۔ اسمائے شرطیہ ۲۔ اسمائے افعال ۳۔ اسمِ فاعل
۴۔ اسمِ مفعول ۵۔ صفتِ مشبہ ۶۔ اسمِ تفضیل
۷۔ مصدر ۸۔ اسمِ مضاف ۹۔ اسمِ تام
۱۰۔ اسمائے کنایہ ۱۱۔

اسی طرح حروفِ غیرِ عاملہ کی سولہ قسمیں ہوتی ہیں۔

ادھر عوامل معنوی وہ ہوتے ہیں جو ظاہری لفظوں میں موجود نہیں ہوتے، ان کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔

یہ کل لفظی و معنوی عوامل جو اعراب کی وجہِ عمل ہوتے ہیں تعداد میں سو ہیں، جن کی تفصیل الشیخ الامام عبدلقاہر جرجانی نے اپنے کتابچے شرح ماتہ عامل میں بیان کی ہے۔ان عوامل کے مطالعے کی روشنی میں قرآن ِ مجید کا مطالعہ کیا جائے تو لطف دوبالا ہوجاتا ہے اورہم عجمیوں پر بھی اسرارِ لطیف کا ظہور ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر’ الیٰ‘ ایک حرفِ جارہ ہے ۔یہ جب انتہائے غایت کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ کبھی اس کا مابعد اسکے ماقبل میں داخل ہوتا ہے ، جبکہ اس کا ماقبل اور ما بعد ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہوں، اور کبھی اس کا مابعد اسکے ما قبل میں داخل نہیں ہوتا، جبکہ دونوں کا تعلق ایک جنس سے نہ ہو۔قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

﴿فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الیٰ المرافق﴾۔ یعنی اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولیا کرو۔ اس میں چونکہ ہاتھ اور کہنیاں ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا ہاتھوں کو دھوتے وقت کہنیوں کو شامل کرنا چاہیے۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے۔

﴿ثم اتموا الصیام الیٰ اللیل﴾۔ترجمہ ۔ پھر رات تک روزہ پورا کرو۔ مندرجہ آیہ مبارکہ میں حرفِ جر ’الیٰ‘ استعمال ہوا ہے مگر اس حال میں کہ اس کا ما قبل چونکہ اس کے مابعد کی جنس سے نہیں ہے ، یعنی الصیام اور اللیل دو مختلف جنس سے ہیں لہٰذا ما بعد یعنی اللیل ﴿ رات ﴾ ما قبل یعنی الصیام﴿ روزہ﴾ میں شامل نہیں

ایک اور آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿قل للمئو منین یغضو من ابصارِھم و یحفضو فروجھم﴾۔ ترجمہ: مسلمان مردوں کہوکہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں۔ اس آیہ مبارکہ میں دو حکم ہیں پہلے حکم میں حرفِ جر ’من‘ استعمال ہوا ہے جو تبعیض کے لیے ہے یعنی اپنی نظروں کو نیچی رکھیں اور غیر محرم کو نہ دیکھیںجبکہ دوسرا حکم قطعی نوعیت کا ہے کہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں جس میں کوئی گنجائش نہیں۔ ظاہر ہے کہ نگاہیں مکمل نیچی رکھ کر چلنا ناممکن ہے اور انسان کے بس سے باہر ہے، لہٰذا غیر محرم پرنادانستہ پہلی نظر پڑجانے کی معافی ہے، جس کے بعد دوسری مرتبہ دانستہ نہ دیکھیں۔

اسی طرح ایک دوسری آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿یغفر لکم من ذنوبکم﴾ یعنی تمہیں تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اس آیت مبارکہ میں من زائدہ استعمال ہوا ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ے۔
(رح)﴿لا حول و لا قوۃ الا باللہ﴾۔ اس آیہ مبارکہ میں جو’ لا‘ استعمال ہوا ہے وہ ’لائے نفی جنس‘ ﴿یعنی جنس کی نفی کرنے کے لیے﴾کہلاتا ہے اور اپنے بعد کے اسم کو نصب یعنی زبر دیتا ہے۔ گویا اب اس آیت کاترجمہ یوں ہوا کہ’’ کوئی طاقت نہیں اور کوئی قوت نہیں مگر اللہ کے ذریعے۔‘‘
ظاہر ہے کہ اس لائے نفی جنس کی جگہ اگر ’ ما و لا ‘ والا نہیں استعمال ہوتا جو ساد۱ نفی کے معنی دیتا ہے، تو اس میں وہ قطعیت نہ آتی جو اس آیہ مبارکہ کے متن میں موجود ہے۔

امید ہے کہ میں قاری کے دل میں وہ آتشِ شوق بھڑکانے میں کامیاب ہوپایا ہوں، جو میرے اس مضمون کا مقصد و مدعا تھا۔ عربی زبان اس لیے تو محترم ہے ہی کہ یہ قرآن و سنت کی زبان ہے، بلکہ یہ اس لیے بھی قابلِ ستائش اور سیکھنے کے لائق ہے کہ یہ دنیا کی بہترین زبان ہے۔ حدیث نبوی ﷺ ہے ’ خیرکم من تعلم القرآن و علمہ‘ تم میں سے بہتر وہ ہیں جنھوں نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ قرآن کے سیکھنے اور سکھانے کے لیے عربی ضروری تو ہے ہی، پھر اگراسے اسکے محاسن و خوبیوں کو پرکھتے ہوئے ، شوق سے سیکھا جائے تو سونے پر سہاگہ ہے۔
تمت بالخیر
 
بہت خوب جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
یہ فقیر آپ کو (آپ کے علم کی بناء پر) سلام پیش کرتا ہے۔ اور بجا طور پر تسلیم کرتا ہے کہ اپنی حیثیت یہاں تھوتھے چنے سے زیادہ نہیں۔ اللہ کریم آپ کے علم میں مزید ترقی عطا فرمائے اور اس فقیر کو بھی اس سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

خلیل بن احمد؟ یہ وہی ہیں عروض والے؟ اعراب بھی اُن کی ایجاد ہیں۔ یہ بات میرے علم میں آپ کے اس مقالے سے آئی ہے۔ واللہ وہ اتنا بڑا کام کر گئے اللہ کے فضل و کرم سے رہتی دنیا تک امتِ مسلمہ ان کی قدر کرے گی۔ اللہ خلیل بن احمد پر اپنی لازوال رحمتوں کی بارش نازل فرمائے۔ آمین!
 

سیما علی

لائبریرین
ماشاء اللّہ بہت خوب بھیا جیتے رہیے ڈھیر ساری دعائیں آپکی بہترین تحریر پر ۔
پروردگار اجرِ عظیم عطا فرمائے آمین ۔آپکی تحاریر ہمارے علم میں اضافہ کا سبب ہیں اللّہ آپکی کاوش کو قبول فرمائے،شاد و آباد رہیے ۔۔۔۔
 
Top