آپ کا بچہ خاندان کا سب سے اہم فرد نہیں ہونا چاہیے

فاخر رضا

محفلین
جذبہ اچھا ہے۔۔۔
لیکن مدارس سے کہیں زیادہ تعداد اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی ہے۔۔۔
شہر صاف کرنا طلباء کا نہیں بلدیہ کا کام ہے۔۔۔
مدارس، اسکول، کالج کا کام تعلیم اور تربیت دونوں دینا ہے۔۔۔
ان اداروں میں تربیت کا تو دور دور تک نام نہیں۔۔۔
اور تعلیم کا جو حال ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔۔۔
ہر شعبہ زوال پذیر ہے!!!
سلام
آپ کے جواب کا شکریہ. میرے لئے آپ کا جواب ذرا بھی حیران کن نہیں ہے. صفائی کی تو صرف مثال دی تھی جسکی ذمے داری بلدیہ پر ہے، بات بچوں کی تربیت ہی کی ہے. آپ نے بالکل صحیح ارشاد فرمایا کہ ان اداروں کا جو تعلیم سے منسلک ہیں، تربیت سے واسطہ نہیں
تعلیم بغیر تربیت ایک مہلک ہتھیار ہے
اس ہتھیار سے جتنے انسان دنیا میں قتل ہوئے اتنے کسی بیماری سے شاید نہ ہوئے ہوں
 

فاخر رضا

محفلین
آپ کا بچہ خاندان کا سب سے اہم فرد نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ بچہ صرف اپنے بارے میں نہ سوچتا رہے۔
بچوں کی نفسیات میں ایک اور مضر چیز self centered ہونا ہے۔ یعنی وہ اپنی ناک سے آگے دیکھ ہی نہ سکے۔ اس طرح وہ تنہا رہ جاتا ہے۔
اسکول میں یہ بات خاص طور پر سکھائی جاتی ہے کہ چیزیں دوسروں سے شیئر کریں۔ مگر دوسری طرف ہمارے ہاں طریقہ امتحان یہ ہے کہ امتحان کے دوران دوسرے بچے کی مدد کرنے پر سزا دی جاتی ہے۔
یہ ایک طرح کا تضاد ہے۔
ہم دنیا میں زیادہ تر ایسے حالات کا شکار ہوتے ہیں جہاں ہم دوسروں سے مدد لے سکتے ہیں۔ ہمارے مسائل ہم تن تنہا کم ہی حل کر پاتے ہیں۔ ایسے میں بچے کا اگر امتحان مقصود ہو تو طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ اگر ممتحن سے، کسی اور بچے سے یا حتیٰ کتاب سے بھی مدد لے کر سوال حل کردے تو اسے پاس کردیا جائے۔ اس طرح اسے اس بات کا بھی احساس ہوگا کہ مسائل کیسے حل کیے جاتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچے کا حافظہ دوسرے بچے سے کتنا تیز ہے۔
ہماری زیادہ تر پریشانیاں اپنی وجہ سے ہوتی ہیں، دوسروں کی وجہ سے نہیں۔ جبکہ دوسروں کے مسائل ہماری پریشانی کی وجہ نہیں ہوتے۔ اب اگر ہم دوسروں کے مسائل حل کریں اور دوسرے ہمارے مسائل حل کریں تو اس طرح ہم مسائل بغیر کسی پریشانی کے حل کرسکتے ہیں۔ یہ فلسفہ شاید پیچیدہ ہو مگر اس طرح ہم اپنی کارکردگی بڑھا سکتے ہیں۔ بچوں کو بھی یہی سکھانا ہے کہ آپ دوسروں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں اس طرح نہ صرف کسی کو پریشانی سے نجات ملے گی بلکہ حل کرنے والے کو قلبی سکون بھی ملے گا۔
دوسروں کی مدد صرف پیسوں سے نہیں کی جاتی بلکہ ہر طرح سے کی جاسکتی ہے۔
لڑکپن سے گزرتے بچوں کے ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ جن بچوں کو اسکول میں دوسرے بچے ستاتے ہیں (عام طور پر عمر میں بڑے) اس کے خلاف دوسرے بچے کچھ نہیں کر پاتے۔ ایسے میں دراصل جو چیز چاہیئے ہوتی ہے وہ صرف ایک ہمدردی کا بول ہے جو کوئی بھی دوسرا ہم جماعت کہ سکتا ہے۔ اس طرح اس بچے کو نفسیاتی مسائل سے بچایا جاسکتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
سب سے چھوٹا بچہ عموماً والدین کا لاڈلا ہوتا ہے۔۔۔
حد سے زیادہ لاڈ پیار اور دوسرے بہن بھائیوں سے امتیازی سلوک اس کی نفسیات اور اس کے اخلاق کو بدسے بدتر کردیتا ہے۔۔۔
اس لیے بے شک اسے لاڈ پیار ضرور کریں لیکن اپنے رویوں کی وجہ سے اسے دوسروں سے الگ یا برتر ہونے کا احساس ہرگز نہ دلائیں!!!
 

فاخر رضا

محفلین
بچوں کے " نا مناسب رویہ" کی 6 وجوہات
ڈاکٹر مریم زیبا

اگر اپ کا بچہ بد تمیزی کر رہا ہے بات نہیں مان رہا۔ برا رویہ اختیار کر رہا ہے تو جان لیجئے اکثر اوقات بچہ اپنے مسائل سے نبٹنے کی اپنہ سی کوشش کر رہا ہوتا ہے اور عموما اس کے رویے کی 6 وجوہات ہوتی ہیں جن کا ذکر اس تحریر میں کیاگیا ہے
والدین سے گزارش ہے اور اپ نیچے بیان کردہ وجوہات کی روشنی میں اپنا رویہ درست کریں۔

ڈاکٹر صاحبہ کی تحریر|
بچے کا جذبات میں ہونا

1⃣وہ خود تکلیف دہ جذبات سے *مغلوب* ھوتے ھیں۔۔جیسے دکھ، خوف، حسد، پریشانی، اداسی۔۔۔
ایسی حالت میں انہیں *دادرسی* کی ضرورت ھے، یعنی کوئ ان کی حالت کا احساس کرے اور انہیں سمجھے۔

بچوں کی بنیادی ضروریات

2⃣وہ کسی بنیادی *ضرورت* کو اپنے طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ھوتے ھیں، جو اب تک انہوں نے سب سے کارگر سمجھا، تجربہ سے جانا۔
اس صورت میں انہیں کسی کی *رہنمائ* کی ضرورت ھے جو انہیں بہتر، تعمیری انداز میں اپنی ضروریات کو پورا کرنا سکھائے۔

بچوں کا کم علم ہونا

3⃣ان کے پاس مناسب *معلومات* نہیں ھوتیں کہ وہ اس روئے کے بجائے کسی اور رویئے کا انتخاب کر سکیں۔
ایسی صورت حال ھو تو ان کو *معلومات بہم پہنچانی* ضروری ھیں۔ ھمارا خود جذبات سے مغلوب ھونا ان کو مزید الجھن میں ڈالے گا۔ اورجو ھم نے ان کو تمیز اور ادب کے بارے میں لمبا چوڑا لیکچر دیا تھا وہ ھمارے قول فعل کے تضاد کی آندھی میں بہہ جائے گا۔

جذباتی ناپختگی

4⃣ان کے اعصاب اور سوچیں ابھی *پختگی اور شعور کے اس درجے* پر نہیں پہنچ سکیں جب وہ خود کو روک سکیں۔۔قیمتی *pause* لے سکیں۔۔۔ھم میں کون ھر تناو کے وقت اس *قیمتی وقفہ* کو لینے میں کامیاب ھوتا ھے؟ دیانت داری سے سوچیں۔۔۔ !
پھر کیا ھم اپنے کمزور اور معصوم بچوں کو بے وجہ سزا نہیں دیتے؟ اسی جرم کی سزا جس کا ارتکاب ھم خود صبح شام کرتے ھیں۔ یہ ھماری authanticity کو مزید مشتبہہ بناتا ھے۔
ایسی صورت حال میں ان کو کوئ ھمدرد، مہربان قریب چاھیئے جو ان کو *بہتر فیصلے* کرنے اور *قوت فیصلہ* کی بڑھوتری میں مدد کرے۔ ناکہ ناپختہ ذھن اور سمجھ کی تباہی پھیر دے۔

ماحول

5⃣شائد *ماحول اور حالات* سازگار نہیں کہ وہ مناسب رویہ کا مظاہرہ کریں۔
ایسی حالت میں ماحول کو درست کرنے اور سازگار بنانے پر محنت کرنی ھوگی۔ ان پر برسنے اور ان کو موردالزام ٹھرانا بلکل مناسب نہیں۔ اگر ھم ایسا کرتے ھیں تو کیا ھم واقعی *عاقل بالغ* ھیں؟

بچے کی عمر کو مدنظر رکھنا

6⃣ ھمارے *توقعات مبنی برحقیقت* نہیں۔ یعنی " مناسب رویہ" کی جو تعریف ھم نے بنائ ھوئ ھے وہ حقیقی نہیں بلکہ افسانوی یا fantasy پر مشتمل ھے۔ کہیں ھم بچے سے بڑوں کی طرح رویہ رکھنے کی امید تو نہیں کر رہے؟ اور خود ایک طوفانی tantrum کا مظاہرہ کر رہے ھیں
ایسی صورت حال میں ھمیں اپنے *توقعات کی جانچ پڑتال* کرنی ضروری ھے۔
 

فاخر رضا

محفلین
بچوں کی تربیت میں یا تنبیہ کرتے ہوئے کبھی انہیں dare یا challenge نہ دیں. یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ dare show کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے
بچے سے جب کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے فلاں کام کیا تو دیکھنا، یہی اس کے لئے dare challenge ہوتا ہے اور وہ اسے کرتا ہے
بچے کو صاف الفاظ میں منع کرنا چاہیے اور اگر سزا دینی ہے تو ان کو وہ بھی بتانا چاہیے مثلاً اگر ہوم ورک نہ کیا تو تین دن ٹی وی نہیں دیکھ سکو گے. زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے ہوم ورک کرنے کا مثبت انداز میں کہا جائے. اس طرح اس پر واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی dare activity نہیں ہے بلکہ اسے غلط کام سے منع کیا جارہا ہے
بچے بین السطور پڑھنے سے قاصر ہوتے ہیں، وہ وہی سمجھتے ہیں جو ظاہری الفاظ واضح کرتے ہیں. ان سے جو مطالبہ ہو وہ بہت اچھے انداز میں واضح طریقے سے کیا جائے
 

فاخر رضا

محفلین
ہمارے بچے کارٹون بہت شوق سے دیکھتے ہیں
آجکل کارٹونز پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس میں جو طاقتیں دکھائی جاتی ہیں اور ان سے جو مطالب نکلوائے جارہے ہوتے ہیں.
اچھے اور بامقصد کارٹون حاصل کرنے کی کوشش کریں اور ہمیں بھی بتائیں
 

فاخر رضا

محفلین
ایک ضروری بات یہ ہے کہ بچوں کو ان کے فرائض کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق بھی بتائے جائیں اور حقوق کے ساتھ فرائض بھی
بچے کو جب معاشرتی طور پر ایک فٹ اور سودمند انسان بنانا ہو تو اسے ایک مرتبہ صحیح اور غلط بتانا پڑتا ہے. جو لوگ بچپن میں یہ نہیں سیکھتے وہ بڑے ہوکر بھی غیر معاشرتی حرکتیں کررہے ہوتے ہیں. سڑکوں کو گندہ کرنا، غلاظت کھلے عام پھینکنا یہ سب غلط ہے یہ بچوں کو بتانا پڑتا ہے. بڑوں اور چھوٹوں سے بات کی تمیز، لائن میں لگ کر کام کرنا، یہ سب بچوں کو سکھانا پڑتا ہے
بچوں کو یہ بھی بتانا ہوتا ہے کہ جب دو لوگ بیٹھتے ہیں تو ان کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے خاص طور پر وہ جو جاننے والا نہ ہو
بچپن میں بچوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی ہوتی ہے اس کے اس کے ذہن پر گہرے نقش بن جاتے ہیں اور وہ اس کی شخصیت پر اثرانداز ہوتے ہیں.
بچوں کے باقاعدہ حقوق ہیں اور بلوغت تک ان کی پاسداری ان کے نگران کی ذمہ داری ہے.
کھیلنا بچوں کا حق ہے اور اسے یہ حق ملنا چاہیے. جو بچے اس حق سے محروم رہتے ہیں ان کی شخصیت مکمل نہیں ہوتی. ان میں آگے بڑھنے اور مقابلے کا جذبہ اس طرح نہیں ہوتا. اس کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ موٹاپے کی بیماری کا شکار کو سکتے ہیں.
 

سیما علی

لائبریرین
بچے کی تربیت میں سب سے اہم عنصر انہیں معاشرے کا ایک ذمہ دار شہری بنانا ہے۔ تربیت کا بنیادی مقصد تمام مضامین میں اے گریڈ لینا ، بہترین کھلاڑی ہونا ، اولمپک کی تیراکی کی ٹیم میں شامل ہونا ، کسی بلند پائے کی یونیورسٹی میں داخلہ لینا یا نیوروسرجن بننا نہیں ہونا چاہیے ۔ تربیت کا بنیادی مقصد معاشرے اور ثقافت کو مضبوط کرنا ہونا چاہیے۔ ہمارا بچہ ہمارے لیے سب سے اہم ہے یہ جملہ آپکے بچے کو بگاڑنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ نہ آپ یہ چاہتے ہیں نہ آپکا بچہ( اپنی لاعلمی میں )یہ چاہتا ہے اور نہ ہی امریکا کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔

موضوع:اولاد کی پرورش و تربیت ایک شرعی نقطہ نظر سے

یہاں ہماری خواہش ہے کہ ان اقوال سے بڑھ کہ کچھ اور نہیں اُمید کرتی ہوں کہ فاخر رضا میاں جو ہمارے بیٹے رضا کے ہم نام ہیں اور ہمارے لئے رضا جیسے ہیں ضرور پسند کریں گے ؀

انسان کی تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں ہے : '' اُطْلِبُوا الْعِلمَ مِن المَھْدِ الٰی اللّحَد‘‘ گود سے گور تک علم حاصل کرو۔

اس کا مطلب ہے کہ ماں کی گود انسان کی سب سے پہلی درسگاہ ہے۔
بے شمار احادیث میں اہل بیت علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ بچے کی دینی پرورش کا آغاز نو ماہ سے ہوتا ہے کہ جب وہ ماں کہ جسم کا حصہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ بہت سے علماء کی زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ دو چیزوں کا ان کی تربیت میں بہت زیادہ اثر تھا: ایک تولد سے قبل ماؤں کا دینی محافل میں شرکت کرنا، قرآن کریم سے انس اور آیات الہی کی باقائدہ تلاوت اور دوسرا تولد کے بعد بچے کو با وضو ہو کر دودھ پلانا۔
اسی طرح رزق حلال نیک اولاد کی پرورش میں نہایت مؤثر ہے۔ اولاد کا نیک ہونے میں والد کے حلال رزق کا بہت اہم کردار ہے.
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک نعمت اولاد ہے، اولاد کے حوالے سے والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ان کی تربیت ہے۔ بچے اس ننھے پودے کی مانند ہوتے ہیں
کیونکہ مولائےِ کائنات امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «إِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كالْأَرْضِ الْخَالِيةِ مَا أُلْقِي فِيهَا مِنْ شَيءٍ قَبِلَتْهُ فَبَادَرْتُك بِالْأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُكَ»]؛ ’’بےشک کم سن (بچے) کا دل اس خالی زمین کی مانند ہوتا ہے کہ جس میں جو بیج بھی ڈالا جائے وہ اسے قبول کر لیتی ہے، لہٰذا قبل اس کے کہ تمہارا دل سخت ہو جائے (اور تمہارا ذہن دوسری باتوں میں لگ جائے) میں نے تمہیں (تعلیم دینے اور) ادب سکھانے میں جلدی کی۔‘‘
[ . نہج البلاغہ، الامام علی علیہ السلام، نامہ نمبر۳۱

آپؑ کے اِس کلام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ بچہ دوسری باتوں کی طرف توجہ دے، ابتداء ہی سے اس کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «أَكثَرُ الخَيرِ فِى النِّساءِ»؛ ’’زیادہ خیر اور برکت عورتوں میں ہے۔‘‘
. من لا یحضرہ الفقیہ، محمد ابن علی ابن بابویہ (معروف بہ شیخ صدوقؒ)، ج۳، ص۳۸۵، حدیث۴۳۵۲

امامؑ کے قول سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عورت کسی بھی معاشرے میں موجود افراد کی تربیت کرنے والی ایک اہم شخصیت ہے، اگر ایک نیک خاتون ایک اچھی اولاد کی تربیت کرتی ہے تو وہی افراد کل معاشرے میں جا کر مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں جس کے ذریعے اس معاشرے کی ترقی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پس کسی بھی معاشرے کی ترقی کا انحصار اِس بات پر ہے کہ معاشرے کی خواتین کس حدّ تک اچھی تربیت کرتی ہیں۔

بچے کی تربیت اسی وقت شروع ہو جاتی ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں پرورش پا رہا ہوتا ہے، ماں کے اچھے کردار، تقویٰ و پرہیزگاری اور دیگر اخلاقی پہلو بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر ماں دورانِ حمل قرآنِ مجید کی تلاوت کرتی ہے یا قرآنِ مجید سنتی ہے تو بہت زیادہ امکان ہے کہ بچہ حافظِ قرآن بن جائے،
جیسے سید محمد حسین طباطبائی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح اگر ماں حرام اور حلال غذا کا خیال رکھتی ہے تو اس کا اثر بھی بچے کے اخلاق اور تربیت پر پڑتا ہے۔
ماں کے کردار کی اہمیت کو جب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنی سعادت و خوش قسمتی کی ایک وجہ، اولاد کی تربیت کرنے میں ماں کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’میرے خاندان کی سعادت ایسی ماؤں کی آغوش میں تربیت پانے کی وجہ سے ہے جو حضرت خدیجہ ؑ اور فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا جیسی پاک و پارسا خواتین تھیں۔‘‘

امام خمینی (رح) کی نظر میں عورت انسان کی ہر خوشبختی کا نقطہ آغاز ہے اور عورت کو انسان اور معاشرے کی تربیت کنندہ قرار دیتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں عورت کی گود سے عظیم انسان جنم لیتے ہیں اور ہر ملک کی خوش بختی اور بدبختی اس میں موجود خواتین پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر خواتین اپنے بچوں کو صحیح اسلامی تربیت کی بنیاد پر پروان چڑھائیں تو اس کے نتیجے میں ان کا ملک آباد ہوسکتا ہے۔
[صحیفہ امام، جلد ۵، صفحہ ۱۸۵]

- ﺍٓﯾﺖ ﺍللہ ﺍﻟﻌﻈﻤﯽٰ سید روح اللہ الموسوی خمینی رحمتہ اللہ علیہ - مزید فرماتے ہیں کہ

” آپ کی آغوش ایک مدرسہ ہے اور اس میں عظیم جوانوں کی آپ کو پرورش کرنی ہے لہذا آپ کمالات حاصل کیجئے تاکہ آپ کے بچے آپ کی آغوش میں صاحب کمال بن سکیں آپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں انہیں اسلامی تربیت دیں ، انہیں انسان بنائیں اور مجاہد بنائیں یہ لوگ اسلام کے فرزند ہیں اور اس کے بعد اسلام اور خود آپ کے ملک کی تقدیر ان کے ہاتھ میں ہوگی یہ جو بات کہی گئی ہے کہ مائیں ایک ہاتھ سے گہوارہ جنبانی کرتی ہیں اور دوسرے ہاتھ سے دنیا کو حرکت دیتی ہیں اگر آپ ایک دیندار بچہ معاشرہ کے حوالے کریں گی تو ممکن ہے ایک وقت میں آپ دیکھیں کہ یہی دیندار و پابند مذہب بچہ ایک پورے معاشرے کی اصلاح کردیتا ہے “

"چونکہ ایک بچہ سب سے زیادہ اپنی ماں سے محبت کرتا ہے اور ماں اور بچے کے درمیان پائے جانے والے تعلق سے زیادہ گہرا کوئی تعلق نہیں۔ لہذا بچے سب سے زیادہ اپنی ماوں سے سیکھتے ہیں۔ بچے جس قدر اپنی ماوں سے اثر لیتے ہیں، اتنا اثر نہ باپ سے لیتے ہیں، نہ اپنے ٹیچر سے لیتے ہیں اور نہ ہی اپنے استاد سے لیتے ہیں۔ لہذا آپ بچوں کی اسلامی اور انسانی اصولوں کے مطابق تربیت کریں، تاکہ جب آپ اسے اسکول یا معاشرے کو تحویل دیں تو وہ ایک صحت مند، بااخلاق اور باادب بچہ ہی بنے گا!!!!!
 

فاخر رضا

محفلین
موضوع:اولاد کی پرورش و تربیت ایک شرعی نقطہ نظر سے

یہاں ہماری خواہش ہے کہ ان اقوال سے بڑھ کہ کچھ اور نہیں اُمید کرتی ہوں کہ فاخر رضا میاں جو ہمارے بیٹے رضا کے ہم نام ہیں اور ہمارے لئے رضا جیسے ہیں ضرور پسند کریں گے ؀

انسان کی تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں ہے : '' اُطْلِبُوا الْعِلمَ مِن المَھْدِ الٰی اللّحَد‘‘ گود سے گور تک علم حاصل کرو۔

اس کا مطلب ہے کہ ماں کی گود انسان کی سب سے پہلی درسگاہ ہے۔
بے شمار احادیث میں اہل بیت علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ بچے کی دینی پرورش کا آغاز نو ماہ سے ہوتا ہے کہ جب وہ ماں کہ جسم کا حصہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ بہت سے علماء کی زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ دو چیزوں کا ان کی تربیت میں بہت زیادہ اثر تھا: ایک تولد سے قبل ماؤں کا دینی محافل میں شرکت کرنا، قرآن کریم سے انس اور آیات الہی کی باقائدہ تلاوت اور دوسرا تولد کے بعد بچے کو با وضو ہو کر دودھ پلانا۔
اسی طرح رزق حلال نیک اولاد کی پرورش میں نہایت مؤثر ہے۔ اولاد کا نیک ہونے میں والد کے حلال رزق کا بہت اہم کردار ہے.
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک نعمت اولاد ہے، اولاد کے حوالے سے والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ان کی تربیت ہے۔ بچے اس ننھے پودے کی مانند ہوتے ہیں
کیونکہ مولائےِ کائنات امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «إِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كالْأَرْضِ الْخَالِيةِ مَا أُلْقِي فِيهَا مِنْ شَيءٍ قَبِلَتْهُ فَبَادَرْتُك بِالْأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُكَ»]؛ ’’بےشک کم سن (بچے) کا دل اس خالی زمین کی مانند ہوتا ہے کہ جس میں جو بیج بھی ڈالا جائے وہ اسے قبول کر لیتی ہے، لہٰذا قبل اس کے کہ تمہارا دل سخت ہو جائے (اور تمہارا ذہن دوسری باتوں میں لگ جائے) میں نے تمہیں (تعلیم دینے اور) ادب سکھانے میں جلدی کی۔‘‘
[ . نہج البلاغہ، الامام علی علیہ السلام، نامہ نمبر۳۱

آپؑ کے اِس کلام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ بچہ دوسری باتوں کی طرف توجہ دے، ابتداء ہی سے اس کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «أَكثَرُ الخَيرِ فِى النِّساءِ»؛ ’’زیادہ خیر اور برکت عورتوں میں ہے۔‘‘
. من لا یحضرہ الفقیہ، محمد ابن علی ابن بابویہ (معروف بہ شیخ صدوقؒ)، ج۳، ص۳۸۵، حدیث۴۳۵۲

امامؑ کے قول سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عورت کسی بھی معاشرے میں موجود افراد کی تربیت کرنے والی ایک اہم شخصیت ہے، اگر ایک نیک خاتون ایک اچھی اولاد کی تربیت کرتی ہے تو وہی افراد کل معاشرے میں جا کر مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں جس کے ذریعے اس معاشرے کی ترقی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پس کسی بھی معاشرے کی ترقی کا انحصار اِس بات پر ہے کہ معاشرے کی خواتین کس حدّ تک اچھی تربیت کرتی ہیں۔

بچے کی تربیت اسی وقت شروع ہو جاتی ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں پرورش پا رہا ہوتا ہے، ماں کے اچھے کردار، تقویٰ و پرہیزگاری اور دیگر اخلاقی پہلو بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر ماں دورانِ حمل قرآنِ مجید کی تلاوت کرتی ہے یا قرآنِ مجید سنتی ہے تو بہت زیادہ امکان ہے کہ بچہ حافظِ قرآن بن جائے،
جیسے سید محمد حسین طباطبائی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح اگر ماں حرام اور حلال غذا کا خیال رکھتی ہے تو اس کا اثر بھی بچے کے اخلاق اور تربیت پر پڑتا ہے۔
ماں کے کردار کی اہمیت کو جب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنی سعادت و خوش قسمتی کی ایک وجہ، اولاد کی تربیت کرنے میں ماں کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’میرے خاندان کی سعادت ایسی ماؤں کی آغوش میں تربیت پانے کی وجہ سے ہے جو حضرت خدیجہ ؑ اور فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا جیسی پاک و پارسا خواتین تھیں۔‘‘

امام خمینی (رح) کی نظر میں عورت انسان کی ہر خوشبختی کا نقطہ آغاز ہے اور عورت کو انسان اور معاشرے کی تربیت کنندہ قرار دیتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں عورت کی گود سے عظیم انسان جنم لیتے ہیں اور ہر ملک کی خوش بختی اور بدبختی اس میں موجود خواتین پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر خواتین اپنے بچوں کو صحیح اسلامی تربیت کی بنیاد پر پروان چڑھائیں تو اس کے نتیجے میں ان کا ملک آباد ہوسکتا ہے۔
[صحیفہ امام، جلد ۵، صفحہ ۱۸۵]

- ﺍٓﯾﺖ ﺍللہ ﺍﻟﻌﻈﻤﯽٰ سید روح اللہ الموسوی خمینی رحمتہ اللہ علیہ - مزید فرماتے ہیں کہ

” آپ کی آغوش ایک مدرسہ ہے اور اس میں عظیم جوانوں کی آپ کو پرورش کرنی ہے لہذا آپ کمالات حاصل کیجئے تاکہ آپ کے بچے آپ کی آغوش میں صاحب کمال بن سکیں آپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں انہیں اسلامی تربیت دیں ، انہیں انسان بنائیں اور مجاہد بنائیں یہ لوگ اسلام کے فرزند ہیں اور اس کے بعد اسلام اور خود آپ کے ملک کی تقدیر ان کے ہاتھ میں ہوگی یہ جو بات کہی گئی ہے کہ مائیں ایک ہاتھ سے گہوارہ جنبانی کرتی ہیں اور دوسرے ہاتھ سے دنیا کو حرکت دیتی ہیں اگر آپ ایک دیندار بچہ معاشرہ کے حوالے کریں گی تو ممکن ہے ایک وقت میں آپ دیکھیں کہ یہی دیندار و پابند مذہب بچہ ایک پورے معاشرے کی اصلاح کردیتا ہے “

"چونکہ ایک بچہ سب سے زیادہ اپنی ماں سے محبت کرتا ہے اور ماں اور بچے کے درمیان پائے جانے والے تعلق سے زیادہ گہرا کوئی تعلق نہیں۔ لہذا بچے سب سے زیادہ اپنی ماوں سے سیکھتے ہیں۔ بچے جس قدر اپنی ماوں سے اثر لیتے ہیں، اتنا اثر نہ باپ سے لیتے ہیں، نہ اپنے ٹیچر سے لیتے ہیں اور نہ ہی اپنے استاد سے لیتے ہیں۔ لہذا آپ بچوں کی اسلامی اور انسانی اصولوں کے مطابق تربیت کریں، تاکہ جب آپ اسے اسکول یا معاشرے کو تحویل دیں تو وہ ایک صحت مند، بااخلاق اور باادب بچہ ہی بنے گا!!!!!
بہت اچھی تحریر ہے جس میں معصومین علیہم السلام کے اقوال کے ساتھ ساتھ عقلی و منطقی دلائل بھی ہیں. یقیناً جو جذباتی لگاؤ ماں کا بچوں کے ساتھ ہوتا ہے اسے بہت مؤثر انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے
آپ کی محبت و التفات پر شکرگزار ہوں
 

سیما علی

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ہے جس میں معصومین علیہم السلام کے اقوال کے ساتھ ساتھ عقلی و منطقی دلائل بھی ہیں. یقیناً جو جذباتی لگاؤ ماں کا بچوں کے ساتھ ہوتا ہے اسے بہت مؤثر انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے
آپ کی محبت و التفات پر شکرگزار ہوں
جیتے رہیے ڈھیر ساری دعائیں ۔پروردگار آپکو اپنی امان میں رکھے ۔۔آمین
 

سیما علی

لائبریرین
بچوں کے باقاعدہ حقوق ہیں اور بلوغت تک ان کی پاسداری ان کے نگران کی ذمہ داری ہے.
کھیلنا بچوں کا حق ہے اور اسے یہ حق ملنا چاہیے. جو بچے اس حق سے محروم رہتے ہیں ان کی شخصیت مکمل نہیں ہوتی. ان میں آگے بڑھنے اور مقابلے کا جذبہ اس طرح نہیں ہوتا. اس کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ موٹاپے کی بیماری کا شکار کو سکتے ہیں.
آج دوبارہ پھر اس لڑی میں آنا ہوا ۔ماں باپ کے لئے بہت ضروری ہے کہ بچوں کی نگرانی کریں ۔انکو دوسروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں خاص طور پر گھر میں کام کرنے والوں پر ۔۔۔کیونکہ انکو کبھی وہ ہمدردی نہیں ہو سکتی جو دادا ،دادی یا نانا ، نانی ۔خالہ ،ماموں ، چچا یا پھوپھی کو ہوگی ۔۔۔
 
Top