مسائل آپ کے مشورہ ہمارا

زبیر مرزا

محفلین
آپ کے مسئلہ پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کی سربراہ نیلم ہیں۔

یعنی کورا جواب جو کام نہ کرنا ہو اس کے لیے کیمٹی بنادیں جو موجیں کرے کھائے پیے اورمسئلہ حل کرنے کو
کسرِشان سمجھے - ہم بھرپائے بھائی جی آپ کی کیمٹیوں سے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

سیما علی

لائبریرین
شمشاد پیارے بھیا

ہمارا معاشرتی مسلۂ انتہائی گھمبیر ہے اور ہم سب سے اُسکا تعلق ہے ۔جسکا تعلق بچیوں کی نمائش سے ۔کہ چار عورتیں آجاتیں ہیں دیکھینے بچیوں کو پھر بھری ٹرالی خالی کرکے جاتے ہوئے کبھی بچی کا رنگ پسند نہیں آتا کبھی قد کبھی بال غرض مختلف قسم کے بیہودہ اعتراضات ۔پروردگار ہدایت دے ایسی تمام خواتین کو بچیوں کی نمائش سے باز رہیں ۔
کبھی نہیں خیال کرتیں کہ اُنکا یہ سلوک بچیوں پر کسقدر برُا اثر ڈالتا ہے ۔۔:crying3:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شمشاد پیارے بھیا

ہمارا معاشرتی مسلۂ انتہائی گھمبیر ہے اور ہم سب سے اُسکا تعلق ہے ۔جسکا تعلق بچیوں کی نمائش سے ۔کہ چار عورتیں آجاتیں ہیں دیکھینے بچیوں کو پھر بھری ٹرالی خالی کرکے جاتے ہوئے کبھی بچی کا رنگ پسند نہیں آتا کبھی قد کبھی بال غرض مختلف قسم کے بیہودہ اعتراضات ۔پروردگار ہدایت دے ایسی تمام خواتین کو بچیوں کی نمائش سے باز رہیں ۔
کبھی نہیں خیال کرتیں کہ اُنکا یہ سلوک بچیوں پر کسقدر برُا اثر ڈالتا ہے ۔۔:crying3:
آپ خود بھی اس معاشرے کی عورت ہیں۔ اس حوالے سے بات کیجیے کہ اس معاشرے میں عورت کو عورت سے کس قدر خطرہ ہے۔ ہمیں بنیادی طور پر شاید عورتوں کو شدید قسم کا شعور دینے کی ضرورت ہے۔

محفلین کی خواتین سے گزارش ہے کہ اس سیما آپی کے چھیڑے موضوع پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہمیں بنیادی طور پر شاید عورتوں کو شدید قسم کا شعور دینے کی ضرورت ہے۔
بھیا آپکی بہن سبین ہماری بڑی بیٹی کی کی منگنی ایسے ہوئی کہ ساس اُنکی امریکہ میں تھیں ،اپنی بڑی بیٹی کو بھیج کر ہمارے گھر بات پکی کردی خود آئیں بھی نہیں ۔اور اپنی تینوں بہویئں اسی طرح پسند کیں تینوں غیر ہیں ایک مرتبہ بھی دیکھنے نہیں آئیں ۔اس قدر قابل احترام شخصیت ہے اُنکی، کہتی ہمارے بیٹیاں اور بہوئیں برابر ہیں جب ہم۔ یہ پسند نہیں کرتے ہماری بیٹیوں کی نمائش ہو تو کسی کی بیٹی کی نمائش کیوں کریں۔۔۔اور معاشرے کو بدلنے کے لئے اسی سوچ کی ضرورت ہے ہم سب کو مل کے :):)

ماہی بٹیا
جاسمن بٹیا
ام عبدالوھاب
ام اویس
زوجہ اظہر
نور وجدان بٹیا
صابرہ امین
رومی
لاریب مرزا بٹیا
لاريب اخلاص بٹیا
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
ہمارا معاشرتی مسلۂ انتہائی گھمبیر ہے اور ہم سب سے اُسکا تعلق ہے ۔جسکا تعلق بچیوں کی نمائش سے
اگر یہ " نمائش" ایک معاشرتی مسئلہ ہے تو اس کا کیا حل ہونا چاہیے۔
1- بغیر دیکھے یا صرف تصویر دیکھ کر رشتے طے کر دینے چاہیے؟
2- جہاں پہلی بار رشتہ دیکھنے جائیں وہیں “ہاں“ کر دینی چاہیے؟
3- صرف خاندان میں ہی رشتے کرنے چاہیے کیونکہ خاندان کے افراد دیکھے بھالے ہوتے ہیں اور اس طرح نمائش سے بچا جا سکتا ہے؟
4- ارینج میریجز کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ کیونکہ فی زمانہ یہی دستیاب مہذب طریقہ ہے کہ گھر کے کچھ افراد لڑکا یا لڑکی دیکھنے اس کے گھر جائیں؟
5- معاشرے میں ایسے ذرائع یا سوشل سیٹ اپ کو فروغ دینا چاہیے جہاں اس نمائشی طریقہء کار سے گزرے بغیرباآسانی اپنی پسند کے شخص کو اپروچ کیا جا سکے؟
 

La Alma

لائبریرین
ویسے یہ نمائش تو لڑکے کی بھی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کی شکل وصورت پر زیادہ فوکس ہوتا ہے اور لڑکے کے بینک بیلنس پر۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اصل مسئلہ رشتے کے انتخاب کا طریقہء کار نہیں، بلکہ معاشرے میں حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مادیت پرستی کا رحجان ہے۔ شادی بیاہ کے تمام معاملات کو صرف اور صرف “خواتین” سے نتھی کر دینا بھی درست نہیں۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں عمومی طور پر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ بہو کی تلاش میں گھر کی عورتوں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ جبکہ داماد کے انتخاب میں زیادہ تر لڑکی کے باپ، بھائی اور خاندان کے دیگر مرد حضرات کی رائے کواہمیت دی جاتی ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
اپنی تینوں بہویئں اسی طرح پسند کیں تینوں غیر ہیں ایک مرتبہ بھی دیکھنے نہیں آئیں ۔
ان کی قسمت اچھی تھی جو ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ وگرنہ رشتوں کےانتخاب کے معاملے میں والدین کی جلد بازی اور غیر سنجیدہ طرز عمل، بعد میں ان کی اولاد کے لئے بہت سی پچیدگیوں اور مسائل کو جنم دینے کا باعث ہوتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
5- معاشرے میں ایسے ذرائع یا سوشل سیٹ اپ کو فروغ دینا چاہیے جہاں اس نمائشی طریقہء کار سے گزرے بغیرباآسانی اپنی پسند کے شخص کو اپروچ کیا جا سکے؟
بٹیا بہت شکریہ آپ کے جواب کا بالکل درست کہا آپ نے دراصل اس طریقہ کا سوشل سیٹ آپ ایسا ہونا چاہیے جو لڑکے لڑکیوں دونوں کے لئے سازگار ہو۔بس تھوڑی کوشش کرنا ہے ہر ایک کو اپنے گھر سے شروع کرنے اور پڑھے لکھے ذہن سے سوچنے کی !!!کیونکہ خصوصاً لڑکیوں پر زور اس لئیے دیا کہ وہ بے حد حساس ہوتیں ہیں اور رجیکٹ ہونے کا trauma انکی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے !اور اُن گھرانوں میں اور بھی تکلیف دہ ہے جہاں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے !!!
 

سیما علی

لائبریرین
ویسے یہ نمائش تو لڑکے کی بھی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کی شکل وصورت پر زیادہ فوکس ہوتا ہے اور لڑکے کے بینک بیلنس پر۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اصل مسئلہ رشتے کے انتخاب کا طریقہء کار نہیں، بلکہ معاشرے میں حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مادیت پرستی کا رحجان ہے۔ شادی بیاہ کے تمام معاملات کو صرف اور صرف “خواتین” سے نتھی کر دینا بھی درست نہیں۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں عمومی طور پر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ بہو کی تلاش میں گھر کی عورتوں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ جبکہ داماد کے انتخاب میں زیادہ تر لڑکی کے باپ، بھائی اور خاندان کے دیگر مرد حضرات کی رائے کواہمیت دی جاتی ہے۔
تمام برُائیوں کی جڑ ہی مادیت پرستی ہی ہے !اور دن بہ دن یہ چیزیں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہیں!لیکن اس بات سے تو آپ اختلاف نہیں کریں گی کہ خواتین کو چالیس سالہ بیٹے کے لئیے بیس سالہ بہو چاہیے ۔ہمارا اپنی خالہ زاد بہن سے اس بات پہ سنگیں اختلاف ہے دوسروں کی بیٹیوں کئ عمروں کا ایک ایک سال کا حساب کریں
جبکہ گھر میں بیٹی کو لوگ اس وجہ سے رجیکٹ کرتے ہیں کہ عمر زیادہ ہے اسقدر افسوس ہوتا ہے اکثریت کی سوچ اور رویوں پر جسں میں انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ تعداد خواتین کی ہے جو معاشرتی بگاڑ کا حصہ بنتی ہیں ۔
ہماری بہو اور بیٹا دونوں دونوں ہم عمر ہیں اور گھر میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔شکر الحمد للّہ خوش و خرم ہیں !
 
Top