غزل

ملالِ یار دکھی بے حساب رکھتا ہے
یہ زندگی پہ سدا ہی عذاب رکھتا ہے
گریباں میں نہیں جھانکے ہے کوئی بھی اپنے
کسی بھی اور پہ نظرِ عقاب رکھتا ہے
شناختیں نہیں ممکن رہیں ہیں لوگوں کی
ہراک منہ پہ یہاں اب نقاب رکھتا ہے
ابھر نہیں کبھی پاتا ہے زندگی بھر وہ
جو بحر ماضی میں گم زیرِ آب رہتا ہے
کوئی کسی کی ریحانہ اب نہیں سنتا
زبان سنگ بھی منھ میں جناب رکھتا ہے

ریحانہ اعجاز
کراچی ڈیفینس
 

امین شارق

محفلین
ملالِ یار دکھی بے حساب رکھتا ہے
یہ زندگی پہ سدا ہی عذاب رکھتا ہے
گریباں میں نہیں جھانکے ہے کوئی بھی اپنے
کسی بھی اور پہ نظرِ عقاب رکھتا ہے
شناختیں نہیں ممکن رہیں ہیں لوگوں کی
ہراک منہ پہ یہاں اب نقاب رکھتا ہے
ابھر نہیں کبھی پاتا ہے زندگی بھر وہ
جو بحر ماضی میں گم زیرِ آب رہتا ہے
کوئی کسی کی ریحانہ اب نہیں سنتا
زبان سنگ بھی منھ میں جناب رکھتا ہے

ریحانہ اعجاز
کراچی ڈیفینس
عمدہ غزل ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گریباں میں نہیں جھانکے ہے کوئی بھی اپنے
کسی بھی اور پہ نظرِ عقاب رکھتا ہے
اس شعر میں گریباں کا لفظ بہت بھنچ رہا ہے ۔ اور دوسرا مصرع بھی کمزور ہے الفاظ کی نشست کے لحاظ سے اسے دوبارہ ترتیب دیں ۔ ایک مثال ۔
کوئی خود اپنے گریبان میں تو کیا جھانکے
نظر بھی اوروں پہ مثل عقاب رکھتا ہے
ابھر نہیں کبھی پاتا ہے زندگی بھر وہ
یہ بھی نشست کچھ کمزور ہے ۔ کبھی ابھر نہیں پاتا ہے زندگی بھر وہ ۔
اسی طرح مقطع کا تخلص والا مصرع بحر میں نہیں آرہا اسے بھی دوبارہ کہیں ۔
ویسے اچھی مجموعی کوشش ہے ۔
 
اس شعر میں گریباں کا لفظ بہت بھنچ رہا ہے ۔ اور دوسرا مصرع بھی کمزور ہے الفاظ کی نشست کے لحاظ سے اسے دوبارہ ترتیب دیں ۔ ایک مثال ۔
کوئی خود اپنے گریبان میں تو کیا جھانکے
نظر بھی اوروں پہ مثل عقاب رکھتا ہے

یہ بھی نشست کچھ کمزور ہے ۔ کبھی ابھر نہیں پاتا ہے زندگی بھر وہ ۔
اسی طرح مقطع کا تخلص والا مصرع بحر میں نہیں آرہا اسے بھی دوبارہ کہیں ۔
ویسے اچھی مجموعی کوشش ہے ۔
بہت شکریہ ۔ اصلاح کے لئے ممنون ہوں
 

الف عین

لائبریرین
ملالِ یار دکھی بے حساب رکھتا ہے
یہ زندگی پہ سدا ہی عذاب رکھتا ہے
.... عذاب رکھنا اگرچہ محاورہ نہیں، لیکن قبول کیا جا سکتا ہے مطلع میں۔ لیکن 'سدا ہی' مجھے اچھا نہیں لگ رہا روانی میں۔ اس کی جگہ ' ہمیشہ' نہیں کیا جا سکتا؟ یا اس سے بہتر
یہ زندگانی پہ دائم....
دائمی آ سکے تو اور بہتر ہو جائے
'پہ' کی جگہ 'میں' بھی بہتر ہو گا

گریباں میں نہیں جھانکے ہے کوئی بھی اپنے
کسی بھی اور پہ نظرِ عقاب رکھتا ہے
.. پہلا مصرع عاطف بھائی اصلاح کر چکے ہیں لیکن دوسرے مصرعے میں نظرِ عقاب پر عقابی نظر سے نہیں دیکھ سکے! اس کی ظ پر بھی زبر ہونا چاہیے، جزم تقطیع ہو رہا ہے

شناختیں نہیں ممکن رہیں ہیں لوگوں کی
ہراک منہ پہ یہاں اب نقاب رکھتا ہے
.... ہر ایک... کے ساتھ درست ہے، 'ہر اک' درست نہیں
املا کی غلطی بھی بتا دوں، 'رہی ہیں'، 'رہیں ہیں' نہیں

ابھر نہیں کبھی پاتا ہے زندگی بھر وہ
جو بحر ماضی میں گم زیرِ آب رہتا ہے
.. عاطف بھائی کا مصرع قبول کر لو

کوئی کسی کی ریحانہ اب نہیں سنتا
زبان سنگ بھی منھ میں جناب رکھتا ہے
.. تخلص درست نہیں آ سکتا اس بحر میں۔ رِحانہ بجائے ریحانہ کے غلط ہے۔ قافیہ بھی جناب بھرتی کا ہے
 
Top