چیف جسٹس نے ٹھوس وجوہات کے بغیرجانبداری کا الزام لگایا،جسٹس فائزعیسیٰ کااختلافی نوٹ

جاسم محمد

محفلین
چیف جسٹس نے ٹھوس وجوہات کے بغیرجانبداری کا الزام لگایا،جسٹس فائزعیسیٰ کااختلافی نوٹ
By ویب ڈیسک On فروری 20, 2021

آئین کسی جج کو دوسرے جج کے دل میں جھانک کر جانبداری کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتا، جسٹس قاضی فائز کا اختلافی نوٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کا اراکین اسمبلی کو فنڈز دینے کے خلاف کیس میں اختلافی نوٹ سامنے آگیا ہے، جس میں انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے ان پر لگائے گئے جانبداری کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے ٹھوس وجوہات کے بغیر جج پر جانبداری کا الزام لگایا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ آئین کسی بھی جج کو دوسرے جج کے دل میں جھانک کر جانبداری کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتا، سپریم کورٹ کسی جج کو مقدمہ سننے سے نہیں روک سکتی جب کہ مقدمے کے فیصلے سے چیف جسٹس کی ساکھ پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنے اختلافی نوٹ میں کہنا تھا کہ جہاں وزیراعظم کا بیان آئین کے خلاف ہے وہیں مقدمے کا اختتام حیران کن تھا، سینٹ میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے جب کہ سینیٹ الیکشن سے قبل وزیراعظم اراکین کو ترقیاتی فنڈز دینے کا کہتے ہیں۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کے اعلان کا الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی نوٹس نہیں لیا گیا، قانونی تحفظ صرف وزیراعظم کے آئینی اقدامات کو حاصل ہوتا ہے، اٹارنی جنرل نے تحقیقات کے بجائے جج کو شکایت کنندہ بنانے کی کوشش کی، تمام ججز کے دستخط ہونے تک حکمنامہ قانونی نہیں ہوسکتا۔

جسٹس قاضی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کی تشکیل اور جسٹس مقبول باقر کو شامل نہ کرنے پر اعتراض کیا تھا، چیف جسٹس نے بنچ کی تشکیل پر اعتراض کا تحریری یا زبانی جواب نہیں دیا، ریکارڈ کے مطابق چیف جسٹس کے زبانی حکم پر 5 رکنی لارجر بنچ بنایا گیا، اٹارنی جنرل نے بھی بنچ میں شامل کسی جج پر اعتراض نہیں کیا تھا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وزیراعظم نہیں صدارتی ریفرنس کیخلاف درخواست دائر کی تھی، دیگر 13 افراد کیساتھ وزیراعظم کو بھی فریق بنایا گیا تھا، اگر وزیراعظم کو فریق بنانا وجہ تھی تو فریق بنچ کے تین ججز بھی تھے، اس کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ رہنے والے تین ججز بھی بینچ میں شامل تھے، جسٹس قاضی نے واضح کیا کہ حکم نامہ تب تک قانونی نہیں ہو سکتا جب تک اس پر تمام ججز کے دستخط نہیں ہو جاتے۔

انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ 10 فروری کو جاری ہونے والے حکم نامے میں کسی بھی جج کو سماعت نہ کرنے کی ہدایت نہیں دی گئی تھی، انہوں نے لکھا کہ واٹس ایپ پر ملنے والی دستاویزات کھلی عدالت میں ججز اور حکومتی وکلا کو دیں، دستاویزات کی تصدیق نہ ہوتی تو بات وہیں ختم ہوسکتی تھی۔

جسٹس قاضی نے اپنے اختلافی نوٹ میں مزید کہا کہ وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ سننے سے روکنے کا مطلب ہے کہ جج صرف پرائیویٹ کیس ہی سن سکتا ہے، ذاتی طور پر عمران خان کو جانتا تک نہیں تو مجھ پر جانبداری کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے جبکہ جانبداری کا الزام عمران خان خود لگا سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں مزید کہا کہ اٹارنی جنرل وزیراعظم عمران خان کا ذاتی وکیل نہیں ہے، حکم نامے پر تمام ججز کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے مقدمہ ختم نہیں ہوا بلکہ زیرالتوا ہے، اپنے اختلافی نوٹ کے آخر میں جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ دعا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف عدلیہ اٹھ کھڑی ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپنے اختلافی نوٹ کے آخر میں جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ دعا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف عدلیہ اٹھ کھڑی ہو۔
جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار کی جوڈیشل ایکٹیوزم والی بھٹکتی روح جسٹس فائز عیسیٰ کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی :)
 

جاسم محمد

محفلین
انہوں نے لکھا کہ واٹس ایپ پر ملنے والی دستاویزات کھلی عدالت میں ججز اور حکومتی وکلا کو دیں، دستاویزات کی تصدیق نہ ہوتی تو بات وہیں ختم ہوسکتی تھی۔
خود ہی مدعی ، خود ہی وکیل اور خود ہی جج۔ کیا معیار رقم کیا ہے اس آئین پر چلنے والے واحد جمہوری انقلابی جسٹس نے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس دھاگے میں آپ خود ہی مدعی، خود ہی وکیل اور خود ہی جج بنے ہوئے ہیں۔ ;)
چیف جسٹس پاکستان جانبدار ہیں اس لئے وہ میرے کیس میں بنچ نہیں بنا سکتے۔ یہ کہہ کر جسٹس فائز عیسی نے پانچ ساتھی ججز کا اکثریتی فیصلہ مسترد کر دیا :)
 
Top