براہ اصلاح

میل رکھتے ہیں نہ دل میں غبار رکھتے ہیں
دوسروں کے واسطے صرف پیار رکھتے ہیں

نفرتوں کے واسطے، بند دل کے راستے
ہم۔فقط محبتوں کو شمار رکھتے ہیں

بھول جاتے ہیں ستم کرنے والوں کے ستم
پر کرم کرے کوئی تو کرم ادھار رکھتے ہیں

ہم نہیں جواب پتھر سے دیتے اینٹ کا
پھول رکھتے ہیں ہم اگر وہ خار رکھتے ہیں

سنگ سےجواب دیتے نہیں ہم اینٹ کا
پھول رکھتے ہیں ہم اگر وہ خار رکھتے ہیں
 
میل رکھتے ہیں نہ دل میں غبار رکھتے ہیں
دوسروں کے واسطے صرف پیار رکھتے ہیں
اس طرح کی بحور شکستہ بحور کہلاتی ہیں ۔۔۔ جن کے دونوں حصوں میں ایک طرح کے اراکین کی تکرار ہوتی ہے۔
جیسے کہ یہ بحر فاعلن مفاعلن کی تکرار پر مبنی ہے۔
ایسی بحور میں یہ رعایت رکھنا ضروری ہے کہ بحر کے ہر جزو میں فقرہ مکمل ہو رہا ہو۔
آپ کے مطلع کو دیکھیں تو پہلے مصرعے میں ایسا نہیں۔ پہلے جزو کے مقابل ’’میل رکھتے ہیں نہ دل‘‘ آ رہا ہے ۔۔۔ دل کے بعد اگر سکتہ لیا جائے تو فقرے کا مطلب ہی جدا ہو جاتا ہے جو شعر کے مفہوم سے لگا نہیں کھاتا۔
دوسرے مصرعے کو وزن میں لانے کے لیے واسطے س کو متحرک پڑھنا پڑ رہا ہے ۔۔۔ اس کا عروضی جواز کا تو شاید ہو ۔۔۔ لیکن محض جمالیاتی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس سے شعر کا حسن خراب ہو رہا ہے۔

نفرتوں کے واسطے، بند دل کے راستے
ہم۔فقط محبتوں کو شمار رکھتے ہیں
ایک تو شعر دولخت ہے۔ مزید یہ کہ پہلے مصرعے میں واسطے اور راستے کی س اسی طرح متحرک ہو رہی جیسے کہ مطلع کے مصرع ثانی میں ہے۔
مزید برآں، دوسرے مصرعے میں بھی وہی مطلع والا مسئلہ ہے کہ ایک جزو کے مقابل فقرہ مکمل نہیں ہو رہا۔

بھول جاتے ہیں ستم کرنے والوں کے ستم
پر کرم کرے کوئی تو کرم ادھار رکھتے ہیں
جاتے کی ے اور والوں کی وں کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ علاوہ ازیں شعر کا مفہوم بھی واضح نہیں کیونکہ ’’رکھتے ہیں‘‘ کی ضمیر مجہول ہے، اور شعر میں فاعل کا تذکرہ ہے، نہ اس کی طرف کوئی اشارہ۔

ہم نہیں جواب پتھر سے دیتے اینٹ کا
پھول رکھتے ہیں ہم اگر وہ خار رکھتے ہیں
پہلے مصرعے میں لفظ پتھر بحر کے دونوں حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے، جو ٹھیک نہیں۔ بلا کی تعقید بھی ہے۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔

سنگ سےجواب دیتے نہیں ہم اینٹ کا
پھول رکھتے ہیں ہم اگر وہ خار رکھتے ہیں
یہاں بھی وہی مسئلہ کہ ’’دیتے‘‘ بحر کے دونوں حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ محاورہ ’’اینٹ کا جواب پتھر سے دینا‘‘ ہے ۔۔۔ محاورات کی اس طرح من مانی ’’پیرافریزنگ‘‘ درست نہیں۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔
 
اس طرح کی بحور شکستہ بحور کہلاتی ہیں ۔۔۔ جن کے دونوں حصوں میں ایک طرح کے اراکین کی تکرار ہوتی ہے۔
جیسے کہ یہ بحر فاعلن مفاعلن کی تکرار پر مبنی ہے۔
ایسی بحور میں یہ رعایت رکھنا ضروری ہے کہ بحر کے ہر جزو میں فقرہ مکمل ہو رہا ہو۔
آپ کے مطلع کو دیکھیں تو پہلے مصرعے میں ایسا نہیں۔ پہلے جزو کے مقابل ’’میل رکھتے ہیں نہ دل‘‘ آ رہا ہے ۔۔۔ دل کے بعد اگر سکتہ لیا جائے تو فقرے کا مطلب ہی جدا ہو جاتا ہے جو شعر کے مفہوم سے لگا نہیں کھاتا۔
دوسرے مصرعے کو وزن میں لانے کے لیے واسطے س کو متحرک پڑھنا پڑ رہا ہے ۔۔۔ اس کا عروضی جواز کا تو شاید ہو ۔۔۔ لیکن محض جمالیاتی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس سے شعر کا حسن خراب ہو رہا ہے۔


ایک تو شعر دولخت ہے۔ مزید یہ کہ پہلے مصرعے میں واسطے اور راستے کی س اسی طرح متحرک ہو رہی جیسے کہ مطلع کے مصرع ثانی میں ہے۔
مزید برآں، دوسرے مصرعے میں بھی وہی مطلع والا مسئلہ ہے کہ ایک جزو کے مقابل فقرہ مکمل نہیں ہو رہا۔


جاتے کی ے اور والوں کی وں کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ علاوہ ازیں شعر کا مفہوم بھی واضح نہیں کیونکہ ’’رکھتے ہیں‘‘ کی ضمیر مجہول ہے، اور شعر میں فاعل کا تذکرہ ہے، نہ اس کی طرف کوئی اشارہ۔


پہلے مصرعے میں لفظ پتھر بحر کے دونوں حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے، جو ٹھیک نہیں۔ بلا کی تعقید بھی ہے۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔


یہاں بھی وہی مسئلہ کہ ’’دیتے‘‘ بحر کے دونوں حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ محاورہ ’’اینٹ کا جواب پتھر سے دینا‘‘ ہے ۔۔۔ محاورات کی اس طرح من مانی ’’پیرافریزنگ‘‘ درست نہیں۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔

بہت بہت شکریہ بہت نوازش

بحر بدلنے کی کوشش کرتا ہوں۔

بہت نوازش
 
اس طرح کی بحور شکستہ بحور کہلاتی ہیں ۔۔۔ جن کے دونوں حصوں میں ایک طرح کے اراکین کی تکرار ہوتی ہے۔
جیسے کہ یہ بحر فاعلن مفاعلن کی تکرار پر مبنی ہے۔
ایسی بحور میں یہ رعایت رکھنا ضروری ہے کہ بحر کے ہر جزو میں فقرہ مکمل ہو رہا ہو۔
آپ کے مطلع کو دیکھیں تو پہلے مصرعے میں ایسا نہیں۔ پہلے جزو کے مقابل ’’میل رکھتے ہیں نہ دل‘‘ آ رہا ہے ۔۔۔ دل کے بعد اگر سکتہ لیا جائے تو فقرے کا مطلب ہی جدا ہو جاتا ہے جو شعر کے مفہوم سے لگا نہیں کھاتا۔
دوسرے مصرعے کو وزن میں لانے کے لیے واسطے س کو متحرک پڑھنا پڑ رہا ہے ۔۔۔ اس کا عروضی جواز کا تو شاید ہو ۔۔۔ لیکن محض جمالیاتی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس سے شعر کا حسن خراب ہو رہا ہے۔


ایک تو شعر دولخت ہے۔ مزید یہ کہ پہلے مصرعے میں واسطے اور راستے کی س اسی طرح متحرک ہو رہی جیسے کہ مطلع کے مصرع ثانی میں ہے۔
مزید برآں، دوسرے مصرعے میں بھی وہی مطلع والا مسئلہ ہے کہ ایک جزو کے مقابل فقرہ مکمل نہیں ہو رہا۔


جاتے کی ے اور والوں کی وں کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ علاوہ ازیں شعر کا مفہوم بھی واضح نہیں کیونکہ ’’رکھتے ہیں‘‘ کی ضمیر مجہول ہے، اور شعر میں فاعل کا تذکرہ ہے، نہ اس کی طرف کوئی اشارہ۔


پہلے مصرعے میں لفظ پتھر بحر کے دونوں حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے، جو ٹھیک نہیں۔ بلا کی تعقید بھی ہے۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔


یہاں بھی وہی مسئلہ کہ ’’دیتے‘‘ بحر کے دونوں حصوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ محاورہ ’’اینٹ کا جواب پتھر سے دینا‘‘ ہے ۔۔۔ محاورات کی اس طرح من مانی ’’پیرافریزنگ‘‘ درست نہیں۔
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔
تبدیلی کے بعد غزل پیشِ خدمت ہے۔امید ہے آپ اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیں گے۔

نہ میل دل میں نہ کوئی غبار رکھتے ہیں
کہ اوروں کے لیے ہم صرف پیار رکھتے ہیں

ستم گروں کے ستم بھول جاتے ہیں لیکن
کرم کرے کوئ تو ہم ادھار رکھتے ہیں

جواب اینٹ کا پتھر سےہم نہیں دیتے
کہ پھول رکھتے ہیں ہم گر وہ خار رکھتے ہیں

ہمارے دل میں نہیں نفرتوں کی کوئی جگہ
فقط محبتوں کو ہم شمار رکھتے ہیں
 
نہ میل دل میں نہ کوئی غبار رکھتے ہیں
کہ اوروں کے لیے ہم صرف پیار رکھتے ہیں
جملے میں کلمۂ نہی کی تکرار مجھے پسند نہیں، غیر فصیح معلوم ہوتی ہے۔ میرے خیال میں جہاں تک ممکن ہوسکے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
نفاق، میل، نہ کوئی غبار رکھتے ہیں۔
سبھی کے واسطے ہم دل میں پیار رکھتے ہیں

ستم گروں کے ستم بھول جاتے ہیں لیکن
کرم کرے کوئ تو ہم ادھار رکھتے ہیں
جاتے کی ے کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، روانی مجروح ہوتی ہے۔

ہمارے دل میں نہیں نفرتوں کی کوئی جگہ
فقط محبتوں کو ہم شمار رکھتے ہیں
نفرتوں کی جگہ یا نفرتوں کے لیے جگہ؟؟؟
محبتوں ’’کو‘‘ شمار ’’کیا‘‘ جائے گا
جبکہ
محبتوں ’’کا‘‘ شمار ’’رکھا‘‘ جائے گا۔

ہمارے دل کو بھلا نفرتوں سے کیا لینا؟
محبتوں کا فقط ہم شمار رکھتے ہیں۔
 
جملے میں کلمۂ نہی کی تکرار مجھے پسند نہیں، غیر فصیح معلوم ہوتی ہے۔ میرے خیال میں جہاں تک ممکن ہوسکے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
نفاق، میل، نہ کوئی غبار رکھتے ہیں۔
سبھی کے واسطے ہم دل میں پیار رکھتے ہیں


جاتے کی ے کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، روانی مجروح ہوتی ہے۔


نفرتوں کی جگہ یا نفرتوں کے لیے جگہ؟؟؟
محبتوں ’’کو‘‘ شمار ’’کیا‘‘ جائے گا
جبکہ
محبتوں ’’کا‘‘ شمار ’’رکھا‘‘ جائے گا۔

ہمارے دل کو بھلا نفرتوں سے کیا لینا؟
محبتوں کا فقط ہم شمار رکھتے ہیں۔
بہت بہت شکریہ
بہ نوازش
آپ کی تمام تر تجاویز اور تبدیلیاں بہت زبردست ہیں۔مجھے بہت پسند آئی۔
جزاک اللہ!

ایک شعر اور ہے اسے بھی دیکھ لیں

سوال ان سے ملاقات کا نہ پورا ہوا
جواب میں وہ بہانے ہزار رکھتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
بہت بہت شکریہ
بہ نوازش
آپ کی تمام تر تجاویز اور تبدیلیاں بہت زبردست ہیں۔مجھے بہت پسند آئی۔
جزاک اللہ!

ایک شعر اور ہے اسے بھی دیکھ لیں

سوال ان سے ملاقات کا نہ پورا ہوا
جواب میں وہ بہانے ہزار رکھتے ہیں
درست لگ رہا ہے شعر
 

الف عین

لائبریرین
مرحبا استاد محترم.
محفل میں واپسی پر خوش آمدید.
امید ہے اللہ کے فضل سے اب تک صحت مکمل بحال ہو چکی ہوگی.
مرحبا استاد محترم.
محفل میں واپسی پر خوش آمدید.
امید ہے اللہ کے فضل سے اب تک صحت مکمل بحال ہو چکی ہوگی.
صحت تو بہتر ہی رہی، آنکھوں میں کیٹریکٹ ہو گیا تھا، اس کی اصلاح تو صرف سرجری کے ذریعے ہو سکتی تھی جو کامیابی سے ١٣ جنوری کو ہو گیا۔ الحمد للہ دائیں آنکھ کی بینائی بہت بہتر ہے، لیکن بائیں آنکھ کا ابھی آپریشن ہونا ہے، جو رمضان کے بعد کراؤں گا ان شاء اللہ۔ رمضان تک تو دائیں آنکھ کی دوائیں ہی جاری رہیں گی۔
 
صحت تو بہتر ہی رہی، آنکھوں میں کیٹریکٹ ہو گیا تھا، اس کی اصلاح تو صرف سرجری کے ذریعے ہو سکتی تھی جو کامیابی سے ١٣ جنوری کو ہو گیا۔ الحمد للہ دائیں آنکھ کی بینائی بہت بہتر ہے، لیکن بائیں آنکھ کا ابھی آپریشن ہونا ہے، جو رمضان کے بعد کراؤں گا ان شاء اللہ۔ رمضان تک تو دائیں آنکھ کی دوائیں ہی جاری رہیں گی۔
اللہ سبحانہ و تعالی خیر و عافیت سے تمام مراحل مکمل فرمائے. آمین.
 

مومن فرحین

لائبریرین
صحت تو بہتر ہی رہی، آنکھوں میں کیٹریکٹ ہو گیا تھا، اس کی اصلاح تو صرف سرجری کے ذریعے ہو سکتی تھی جو کامیابی سے ١٣ جنوری کو ہو گیا۔ الحمد للہ دائیں آنکھ کی بینائی بہت بہتر ہے، لیکن بائیں آنکھ کا ابھی آپریشن ہونا ہے، جو رمضان کے بعد کراؤں گا ان شاء اللہ۔ رمضان تک تو دائیں آنکھ کی دوائیں ہی جاری رہیں گی۔
اللّه تعالیٰ شفائے کاملہ عاجلہ عطا کریں استاد محترم ۔۔۔ بہت خوشی ہوئی آپ کو محفل میں دیکھ کر ۔۔۔
 
استادِ محترم السلامُ علیکم،دل خوش ہو گیا آپ کو دوبارہ محفل میں دیکھ کر۔اللہ آپ کو مکمّل صحت اور شفا سے ہمکنار کرے ۔
 
Top