نجم سیٹھی کے ادارئیے

جاسم محمد

محفلین
نجم سیٹھی کا آج کا وی لاگ دیکھیں۔ آج اس سینئر لفافی نے ساری کاٹھی اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دی ہے ۔ یہ ہے ان کی انقلابی جمہوریت پسندی؟
آئین کی وہ شق دکھائیں جس کے تحت اسٹیبلشمنٹ سے ملک کی اپوزیشن جماعتیں مذاکرات کریں گی کہ آئین کے مطابق چلو۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کو ۲۴ گھنٹے یوٹرن کے طعنے دینے سینیر لفافے والے اب کہہ رہے ہیں کہ فوج یوٹرن لے :)

یوٹرن کی شدید ضرورت
by Najam Sethi
December 4, 2020


”پاکستان خطرناک جمود کا شکار ہوچکا ہے۔ ہر اشاریے سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔

”معیشت مفلوج ہے۔ اس کی ایک وجہ تو حکومت کی غلط پالیسیاں اور کوروناکے انسداد پر لیے گئے یوٹرن ہیں، دوسری وجہ سیاسی غیر یقینی پن ہے جس کا آغاز پاکستان مسلم لیگ ن کے مقبول وزیر اعظم، نواز شریف کو نکال باہر کرنے کے منصوبے اور عمران کی سلیکشن سے ہواتھا اب عمران خان تیزی سے غیر مقبول ہوتے جارہے ہیں۔

”تحریک انصاف کی حکومت آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔ یہ ایک اہم حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار ی ہے: انتخابات سے پہلے مخالف سیاسی راہ نماؤں اور حکمران جماعتوں پر بدعنوانی کے الزامات لگانے کی حکمتِ عملی انتخابات کے بعد شہریوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کارکردگی کا نعمل بدل نہیں ہوسکتی۔

”پی ڈی ایم کی تحریک کودبانا ناممکن ہے۔مرکزی دھارے کی دونوں جماعتیں، پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن اپنی سیاسی مخالفت کو ایک طرف رکھتے ہوئے سیاسی منظر نامے سے اُنہیں ختم کرکے ملک پر یک جماعتی آمریت مسلط کرنے کی تحریک انصاف کی کوشش کے خلاف یکجا ہوچکی ہیں۔ ایک غیر معمولی پیش رفت کے طور پر جمعیت علمائے اسلام بھی ان شانہ بشانہ پوری توانائی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس طرح تحریک انصاف کو بائیں بازو، دائیں بازو اور مرکز کی تمام اہم جماعتوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔

”گویا جمود کو تحریک کاسامنا ہے۔ ریت کا تودا پانی کے دھارے سامنے آگیا ہے۔

”اس دوران سیاسی طور پر غیر جانبدار رہنے کا حلف اٹھانے والے ریاست کے بازو عوام کی نگاہوں میں اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کی قیادت پر انتخابات پر اثر انداز ہونے اور قومی مفاد پر ذاتی سوچ کو ترجیح دینے کا الزام ہے۔عدلیہ، جس نے وکلا تحریک کے دوران انقلابی تبدیلی کا وعدہ کیا تھا، سابق چیف جسٹس صاحبان، ثاقب نثار اور آصف کھوسہ کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر اسٹبلشمنٹ کی باندی بن کر رہ گئی ہے، حالانکہ تحریک کے دوران اس نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف ہی بغاوت کی تھی۔سرکاری افسران جوکبھی بہت فخر سے ریاست اور معاشرے کو قائم رکھنے والا فولادی ڈھانچہ کہلاتے تھے، زرد پتوں کی طرح کمزور اور بے وقعت ہوچکے ہیں۔ اب وہ انتظامی اہمیت کے فیصلے لینے سے خائف ہیں۔

”قوم پرستی کے جذبات عروج پر ہیں۔ بنیاد پرستی کی وجہ سے بھڑکنے والی دھشت گردی کی آگ ابھی تک سرد نہیں ہوئی۔ مودی کے بھارت کی طرف سے خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ حقیقی اور شدید ہے۔ پاکستان کا بیرونی دنیا میں شاید ہی کوئی دوست ہو۔ سعودی عرب جیسے دوست بھی ناراض ہیں۔

”قومی سلامتی کے درپے اس بحران کے ہوتے ہوئے اب آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟

”عام بات یہ کی جاتی ہے کہ کوئی جماعت یا گروہ مسلے کا حل نہیں بتارہا۔ ہر کوئی دوسروں کو مسائل کا ذمہ دارقرار دے رہا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اقتدار اُسے مل جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کے پاس اس بحران سے باہر نکلنے کا پائیدار اور متحرک حل موجود نہیں۔

”اس پریشان کن صورت ِحال کے ساتھ مسلہ ئ یہ ہے کہ اس میں خود فریبی بھی کارفرما ہے اور خود غرضی بھی۔مسلہئ حل کرنے کے لیے کسی قسم کے قومی اتفاق رائے پر زور دیا جاتاہے اگرچہ اس کے لیے ضروری شرائط پورا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اسٹبلشمنٹ نے آزادی کے بعد سے اب تک گزرے برسوں میں سے نصف میں ملک پر براہ ِراست، اور باقی وقت بلواسطہ طور پر حکومت کی ہے۔اس نے انتخابات کو کنٹرول کیا، منتخب شدہ وزرائے اعظم کو ناکام بنایا یا براہ ِراست کارروائی کرتے ہوئے اُنہیں اقتدار سے ہٹا دیا۔ اس نے ون یونٹ، پانچ یونٹ،چار یونٹ کا تجربہ کیا۔ اب یہ چھے یونٹ کے تصور کو اچھال رہی ہے۔ بار ہار اس نے عدلیہ اور میڈیا کی مدد سے آئینی جمہوریت کے تصور کو پامال کیا۔ اسے پاکستان کا اصل مرض سیاست دانوں کی بدعنوانی دکھائی دیتا ہے، لیکن اس دوران یہ اپنی بدعنوانی اور بدانتظامی کا محاسبہ کرنے سے انکاری ہے۔ اپنے کردار کو مسخ کرنے والی گریژن سٹیٹ سول سوسائٹی کے لیے اجنبی اور اس کی دشمن بن چکی ہے۔ ان حالات میں واحد ممکنہ قومی اتفاق رائے وہ یہ ہے جس میں ریاست اور معاشرے کے تمام دھڑے اور اسٹیک ہولڈر اپنا اپنا کردار 1973ء کے آئین کے طے کردہ دائرے میں رہتے ہوئے ادا کریں۔

”موجودہ دلدل نما صورت حال کو دیکھتے ہوئے مخالف سیاسی جماعتوں اور راہ نماؤں کے خلاف انتقامی کارروائیاں ختم کرنے کے لیے قومی مکالمے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ ان میں سے ایک آواز شہباز شریف کی ہے۔ لیکن عمران خان ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بجائے ان پرعرصہ ئ حیات مزید تنگ کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ اس سادہ سے تصور کو سمجھنے سے قاصرہیں کہ حز ب مخالف نہ صرف محب وطن ہوتی ہے بلکہ وہ آئین کے تحت ہونے والے انتخابات جیت کر آئندہ حکومت میں بھی آسکتی ہے۔ ایک اور تصور یہ ہے کہ اس عمل میں اعلیٰ عدلیہ کو بھی شامل کرلیا جائے۔ لیکن اس سے کام نہیں چلے گاکیوں کہ اس ادارے کا دامن انتخابی غلط کاریوں اور سیاسی وابستگیوں سے آلودہ ہے۔

”اب اپوزیشن جماعتوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی لائحہ عمل نہیں بچا کہ وہ مل کر عمران خان کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کی سعی کریں۔ عام طور پر احتجاجی تحریکیں منتخب شدہ حکومتوں کے لیے خطرے کاباعث نہیں بنتیں، جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے نوازشریف حکومت کے خلاف عمران خان کے دھرنے ناکام ہوگئے تھے۔ لیکن اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ آج تحریک انصاف کی حکومت اور اس کا سہارا بننے والی اسٹبلشمنٹ عوام کی نگاہ میں انتہائی غیر مقبول ہیں، جبکہ حزب اختلاف کے رہنماوں کا لہجہ روزبروز جارحانہ ہوتا جارہا ہے۔

”تحریک انصاف حکومت ریاستی جبر کا سہارا لے رہی ہے جو حزب اختلاف کومزید مہمیز دے رہا ہے۔ بھڑکے ہوئے جذبات کا ٹکراؤ ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔اگر اسٹبلشمنٹ ملک کو اس تصادم سے بچانے کے لیے یوٹرن نہیں لیتی، ہم ایک گہری کھائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

محمد خلیل الرحمٰن
 

جاسم محمد

محفلین
آنے والے سال کا مایوس کن سیاسی منظر نامہ
by Najam Sethi
December 25, 2020


پاکستان تحریک انصاف کی مجرمانہ بدانتظامی کے علاوہ کوویڈ 19 نے زندگی کی سرگرمیوں کے شدید متاثر کیا ہے۔ اس کی وجہ سے 2021 ء کا سیاسی منظر نامہ مایوسی سے عبارت دکھائی دیتا ہے۔ ان میں سے کچھ انتہائی تشویش ناک پہلو یہ ہیں:

کوویڈ 19: اگرچہ 2021 ء کے اختتام تک کئی ایک ویکسین دستیاب ہوجائیں گی لیکن حکومت کی طرف سے درکار فنڈنگ کے فقدان اور نجی شعبے کی منافع خوری کی وجہ سے زیادہ تر پاکستانی اُنہیں حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے کورونا کے پھیلاؤ اور اس کی اثر انگیزی میں تیزی کا خطرہ موجود رہے گا۔ اس کے صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

معیشت: جب تک کوویڈ 19 کی وجہ سے عالمی خوراک کی ترسیل ناہموار اور بھارت کے ساتھ تجارت معطل رہے گی، ہمیں کچھ اشیائے خورد و نوش کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں ہم فوری ضرورت کی اشیا نہیں منگوا سکیں گے۔ اس کی وجہ سے دستیاب اشیا کی قیمت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

معیشت کی بحالی کے حکومتی پراپیگنڈے کے باوجودمعاشی صورت ِحال میں ایسی بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیتے جس سے عام شہریوں کی مشکلات میں کمی آسکے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کی پیش گوئی مایوس کن ہے۔ بہت زیادہ خوش فہمی سے کام لیں تو بھی یہ دو فیصد سے نہیں بڑھے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ آبادی میں بلاروک ٹوک اضافے اور دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت سے بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ اس سے سماجی تناؤ، جرائم اور معاشی بدحالی کی صورت ِحال گھمبیر ہوتی جائے گی۔

حکومت کے لیے گئے بھاری بھرکم مہنگے قرضے معیشت میں جان ڈالنے کی خواہش اور صلاحیت کے درمیان ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ جی ڈی پی کی پست شرح نمو اور ہدف کے مطابق محصولات جمع کرنے میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے حکومت کو مالی وسائل کی قلت کا سامنا رہے گا۔ یہ ٹیکس کے اہداف پر نظر ثانی کرنے پر مجبور رہے گی۔ اس سے سرکاری شعبے میں ہونے والی ترقیاتی اخراجات اور غربت کے خاتمے کے لیے چلائے جانے والے پروگراموں پر منفی اثر پڑے گا۔

آئی ایم ایف کی شرائط نئی مشکلات پیدا کریں گی۔ خسارے میں چلنے والے ادارے ملازمین کو سبک دوش کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ حکومت کو ہینڈ شیک کی مد میں خاطر خواہ فنڈز فراہم کرنے پڑیں گے۔ صنعت اور تجارت کو فائدہ پہنچانے والی ٹیکس مراعات ختم کرنی پڑیں گی۔اس سے ملک میں بہت سے کاروبار بند ہوجائیں گے اور کاروباری طبقے حکومت کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوجائیں گے۔ افسر شاہی کے رویے اور قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے نج کاری میں مشکلات برقرار رہیں گی۔ نیب کے بلاروک ٹوک احتساب اور پکڑدھکڑ کا خوف نج کاری کے شعبے کو دامن گیر رہے گا۔

اوسط سے بھاری شرح سود پر مختصر مدت کے قرضہ جات کے علاوہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آئے گی اور نہ ہی اس کی معاشی شرح نمو میں اضافہ ہوگا۔نہ ہی سمندر پار پاکستانی عمران خان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اپنے وطن میں سرمایہ کاری کریں گے کیوں کہ تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی، ساکھ، استحکام اور دورانیے پر کسی کو اعتبار نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ زیر گردشی قرضے نہ صرف اپنی جگہ پر موجود رہیں گے بلکہ ان میں اضافہ بھی ہوگا۔اس کی وجہ سے سراٹھانے و الے بحران توانائی کے شعبے کو متاثر کریں گے۔ سی پیک کی مد میں چین کی طرف سے کی جانے والی سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے۔ نئے منصوبے صرف رسمی افتتاحی تقریبات تک ہی محدود ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی لانے کے بلند وبانگ دعوے کیے ہیں۔ اس کی وجہ روپے کی قدر گرنے سے درآمدات میں ہونے والی کمی ہے نہ کہ برآمدات میں اضافہ۔ درآمدی بل میں کمی سے ایکس چینج کے نرخوں میں استحکام آنا چاہیے۔ تاہم اس کا عام آدمیوں کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوگا۔ اس کا زیادہ سے زیادہ اثر یہ ہوگا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح دہرے ہندسے تک پہنچ جائے گی۔

خارجہ پالیسی کے امکانات: پاکستانی خارجہ پالیسی کے امکانات میں اگلے سال بھی بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بھارت کی دشمنی میں کمی نہیں آئے گی اور کسی اچانک اور محدود جنگ کا خطرہ برِ صغیر کے سر پر منڈلاتا رہے گا۔دوسری طرف بھارت کی سرپرستی سے ہونے والی دھشت گردی پاکستان کو لہو لہان کرتی رہے گی۔

افغانستان پر داخلی کشمکش کے بادل گہرے ہوتے جائیں گے۔ وہاں قیام ِامن میں کردار ادا کرنے پر پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ درحقیقت طالبان بتدریج غنی انتظامیہ کے ہاتھ سے اختیار چھین رہے ہیں۔ اس ٹکراؤ میں اضافے سے پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں صورت حال مزید خراب ہوگی۔ افغانستان سے انخلا میں پاکستان کی معاونت کے باوجود امریکیوں کا پاکستان کے بارے میں موقف تبدیل نہیں ہوگا۔ صدر بیڈن کے دور میں امریکا پاکستان کو واشنگٹن کی بھارت کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کی عینک سے دیکھے گاجس کا ہدف بھارت کی مارکیٹ تک رسائی اور چین کو محدود کرنے کی پالیسی ہے۔

اوآئی سی کے لیڈر، سعودی عرب کے ساتھ تنازع کھڑا کرنے کی وجہ سے پاکستان کی مشرق ِوسطیٰ میں تنہائی اس کے معاشی امکانات کو مزید معدوم کردے گی، خاص طور پر افرادی قوت کی کھپت اور اُن کی بھجوائی گئی رقوم میں شدید کمی آئے گی۔ بیرونی ممالک سے بھجوائی گئی رقوم میں حالیہ اضافہ وقتی ہے کیوں کہ کوویڈ 19 کی وجہ سے پاکستان میں موجودہ خاندانوں کو زیادہ رقوم بھیجی جارہی ہیں۔

سیاسی عدم استحکام: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والا ٹکراؤ ریاستی جبر یا حزب مخالفت کی مختلف جماعتوں کے اپنے اپنے مفاد کی وجہ سے نہیں ختم ہونے جارہا ہے۔ اگر لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفے دینے کا حربہ تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے میں ناکام ہوگیا تو بھی ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ چونکہ نہ تو معیشت اور نہ ہی یوٹرن پر تکیہ کرنے والی حکومت کی بدانتظامی میں کسی بہتری کا امکان ہے، اس لیے تبدیلی کے لیے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس کی وجہ سے حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک میں شدت آتی جائے گی۔

تحریک انصاف کی غلطیوں پر اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے کی اپوزیشن کی پالیسی میں تسلسل کی وجہ سے مقتدر حلقے عمران خان کی حمایت سے دست بردار ہوکر اس بحران کو کسی اور طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وسیع تر قومی سیاسی منظر نامے میں امکانات کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف کی غلطیوں پر اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے کی اپوزیشن کی پالیسی میں تسلسل کی وجہ سے مقتدر حلقے عمران خان کی حمایت سے دست بردار ہوکر اس بحران کو کسی اور طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وسیع تر قومی سیاسی منظر نامے میں امکانات کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔
لیکن نجم لفافی کا لیڈر نواز شریف تو کہتا ہے فوج سے کوئی ڈائلوگ نہیں ہوگا۔
جن کا بیانیہ آپس میں نہیں ملتا وہ ملک میں جمہوری انقلاب لائیں گے۔
 

ثمین زارا

محفلین
پیش قدمی


نواز شریف نے بالآخر خاموشی توڑ دی۔ اہم بات یہ کہ اُنھوں نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ بہت کھلے اور واضح الفاظ میں اسٹبلشمنٹ پر قومی اتفاق رائے کو بگاڑنے اور سیاسی عمل کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا الزام لگایا۔اس سے بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں۔ نواز شریف کو ایسا لہجہ اختیار کرنے کی کس نے شہ دی؟ تحریک انصاف کی حکومت نے اُن کی تقریر نشر کرنے کی اجازت کیوں دی؟ کیا اُن کی اسٹبلشمنٹ مخالف تقریر نے مسلم لیگ نون کو تقویت پہنچائی ہے یا زک؟ کیا ن لیگ اسٹبلشمنٹ مخالف اور اسٹبلشمنٹ نواز دھڑوں میں بٹ جائے گی، جس کی پیش گوئی سیاسی نجومی، شیخ رشید کرتے رہے ہیں؟

بہت دیر سے یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ نواز شریف کی خاموش جلاوطنی کے پیچھے شہباز شریف اوراسٹبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی کسی قسم کی ”مفاہمت“ کا عمل دخل ہے۔ اس کے مطابق اسٹبلشمنٹ کی اہم ضروریات کا خیال رکھنے کے عوض مسلم لیگ ن کی قیادت کو نسبتاً محفوظ راستہ دیا جاسکتا ہے۔ زیادہ شفاف سیاسی بندوبست کا اہتمام بھی ہوجائے گا۔ بلاشبہ یہی وجہ تھی کہ عمران خان مسلم لیگ ن کی قیادت پر بلا تکان حملے کررہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ن لیگ کی قیادت این آر او لینے کی کوشش میں ہے جسے سبوتاژ کرنا ضروری ہے۔ عمران خان کی پوری کوشش رہی ہے کہ ایسے تعلقات کو شروع ہونے سے پہلے ہی بگاڑ دیا جائے۔اب تازہ نیب کیسز مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے تعاقب میں ہیں۔ اُن کے خلاف بھی جو شہباز شریف کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ کے حامی سمجھے جاتے تھے۔ ان واقعات نے ن لیگ کے اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ کے غبارے سے ہوا نکال کر نوا زشریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف موقف کو تقویت دی ہے۔

اس سفر کا آغاز گزشتہ نومبر کو ہواتھا جب ”سلیکٹرز“ کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کو شہباز شریف کے بیانیے نے نقصان پہنچایا تھا۔اب یہ سفر ایک مرتبہ پھر شروع ہونے جارہا ہے۔ اب اسے نواز شریف کے بیانیے کی حمایت حاصل ہے۔ اگلے مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات سے پہلے اس کاوش کا نتیجہ سامنے آجانا چاہیے۔ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے الائنس کا برقرار رہنا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے لیے موت کی گھنٹی ثابت ہوگا۔ تحریک انصاف کو دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہوجائے گی۔وہ آئین میں ترمیم کرکے ملک پر ہمیشہ کے لیے یک جماعتی نظام مسلط کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ چنانچہ حالات ”اب،یا کبھی نہیں“ تک پہنچ چکے ہیں۔

عمران خان نے نواز شریف کی تقریر پر پابندی لگانے کا سوچا تھا لیکن جب انٹیلی جنس رپورٹس ملیں کہ تقریر عمران مخالف کی بجائے اسٹبلشمنٹ مخالف ہوگی تو اُنھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ تحریکِ انصاف کی دلیل یہ تھی کہ اس صورت میں اسٹبلشمنٹ فوری ردعمل دکھائے گی اور مسلم لیگ ن کی سرکوبی کرتے ہوئے عمران خان کے ساتھ الائنس کو مزید تقویت دے گی۔ لیکن اُنہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ تقریر کو اتنی پذیرائی ملے گی اور یہ تقریر ن لیگ کے حامیوں میں زندگی کی لہر دوڑادے گی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے ہاتھ ملانے سے کل جماعتی کانفرنس پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام کا باعث بن جائے گی۔

نواز شریف کی سیاسی فعالیت نے پاکستان مسلم لیگ ن کی توقعات کی مدہم پڑتی ہوئی آنچ کو تیز کردیا ہے۔ بلوچستان، فاٹا، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں اسٹبلشمنٹ مخالف جذبات کی کمی نہیں۔ پی ڈی ایم کی شروعات سے اسٹبلشمنٹ عوامی جذبات کی براہِ راست زد میں آجائے گی۔ ملک کے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ہونے والی کشمکش میں شدت آتی جارہی ہے۔ قومی سلامتی کے محافظ کے طور پر اسٹبلشمنٹ عوامی جذبات کے مخالف چلنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

ان معروضات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کے پیہم اصرار کے باوجود اسٹبلشمنٹ ایک قدم پیچھے ہٹا کر اپنے دیگر آپشنز پر غور کرسکتی ہے۔ اس صورت میں نیب اور عدلیہ کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے ساتھ نرمی برتنے کا اشارے دکھائی دینا شروع ہوجائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مزید کریک ڈاؤن ملک کو آئینی بحران سے دوچار کرکے معیشت کو مفلوج کردے گا۔ اور یہ وہ وقت ہے جب معاشرہ بمشکل کوویڈ 19 سے سنبھل کر بحالی کی سانسیں لینے کے قابل ہوا تھا۔

مختصر یہ کہ گھیر ے میں آئی ہوئی نیم جان اپوزیشن کی بحال ہوتی ہوئی سانسیں اسٹبلشمنٹ کے جارحانہ رویے کے نتائج کے برعکس ہیں۔ چنانچہ توقع کی جانی چاہیے کہ کچھ دروازے رفتہ رفتہ کھلنے شروع ہوجائیں گے، ہر چند بہت محتاط طریقے سے۔ اسی نسبت سے تحریک انصاف کی حکومت کے لیے جگہ سکڑتی جائے گی کیونکہ اسٹبلشمنٹ اسے حز ب اختلاف کو دیوار کے ساتھ لگانے کی ذمہ دار سمجھے گی جس کی وجہ سے حزب اختلاف نے اسٹبلشمنٹ کو براہ راست سیاسی محاذ آرائی کا ہدف بنایا ہے۔

شیخ رشید غصے سے بوکھلائے پھرتے ہیں۔ اُن کامسکراہٹ سے لبریز اعتماد ہوا ہوچکا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے نرم مزاج رہنماؤں کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ روابط کی خبریں فاش ہونے سے تصدیق ہوتی ہے کہ عین وقت پر طاقت کا استعمال کیوں موقوف کیا گیا۔ ایسا کرنا فریقین کے لیے کسی طور بہتر نہ تھا۔ کسی کو بھی ایسے روابط پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ در حقیقت نواز لیگ کے حامیوں کو یقین ہے کہ ایسی ملاقاتوں سے ناانصافی کا ازالہ ہونے میں ناکامی سے نواز شریف کے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔

اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی صلاحیت کا بہت بڑا امتحان ہے کہ یہ مل کر کس طرح جدوجہد کرتی ہے۔ اس الائنس میں سب سے کمزور کڑی پیپلز پارٹی ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے گرنے، سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب اوربعد میں عدم اعتماد کے ووٹ میں قدم پیچھے کھنچ لینے سے اس کی موقع پرستی کی ایک طویل فہرست ترتیب پاتی ہے۔ اس کے سامنے مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو تو صرف اپنے راہ نماؤں کی قید و بند کی پریشانی ہے، لیکن اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے سندھ حکومت نکل سکتی ہے اگرپی ڈی ایم کی محاذ آرائی کا نتیجہ اس کے حق میں نہ نکلا۔

نواز شریف اور فضل الرحمن اُس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں اُن کے پاس زنجیریں کھونے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ چنانچہ اُنھوں جارحانہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ آگے قدم بڑھاتے ہوئے آصف زرداری اور شہباز شریف اگر نوشتہ ئ دیوار پڑھنے میں ناکام رہے تو وہ سب کے پاؤں پر کلہاڑی بھی مارسکتے ہیں

پیش قدمی
یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ نواز شریف "بھاوؤ" بن گئے ہیں اور اب اسٹیبلیشمنٹ کاکا کو ان سے ڈرنا چاہئے ۔ ورنہ ان کو بھی معلوم ہے کہ پی ڈی ایم کا غبا رہ اب پھٹا کہ تب پھٹا ۔ اس ادارے میں ایسی ایسی باتیں لکھی ہیں کہ خود پی ڈی ایم کے وہم و گمان میں نہیں ۔ نواز شیف کی لاہور جلسے میں کتنی عوامی پذیرائی ہوئی وہ دنیا نے دیکھی ۔ بھان متی کا کنبہ ٹائپ اتحاد جو کرپشن سے توجہ ہٹانے کے لیے بنایا گیا ہے اس کو یہ صحافی اداریے لکھ لکھ کرمصنوعی تنفس دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور مردہ گھوڑے میں جان ڈال رہے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ جانتے ہیں کہ اگر اسٹیٹس کو کو نہ بچایا تو کل ہاتھ ان کے گریبانوں تک بھی پہنچے گا ۔
 

ثمین زارا

محفلین
ایسا تب ہی ممکن ہوگا اگر اپوزیشن جماعتوں کے پاس اسٹیبلشمنٹ کو دینے کیلئے کوئی متبادل سیاسی قیادت دستیاب ہو۔ یاد رہے کہ اپوزیشن کا ٹارگٹ حکومت نہیں اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ نے ان کی بلیک میلنگ میں آکر اپوزیشن کو این آر او دے دیا تو تحریک انصاف حکومت خود اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بن جائے گی۔ اور یہ ملک سے باہر بھاگ کر فوج پر چڑھائی کرنے والی سیاسی قیادت ہرگز نہیں ہے۔ پھر جو دما دم مست قلندر ہوگا وہ دیکھنے والا ہوگا۔ جس کے بعد اپوزیشن، کیا اسٹیبلشمنٹ کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔
یہ حکومت آج تک کئی بڑی غلطیاں کر چکی ہے پر پی ڈی ایم کے تلوں میں تیل ہی نہیں ۔ ایک جھوٹی تحریک کا کوئی مقصد نہیں ۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ حکومت آج تک کئی بڑی غلطیاں کر چکی ہے
مثلاً؟ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینا ایک طویل مدتی اچھا فیصلہ تھا۔ اب نواز شریف کبھی بھی ملک واپس آکر سیاست نہیں کر سکتا کیونکہ عدالتیں اسے اشتہاری قرار دے چکی ہیں۔ یوں وہ اپنے کرپشن کیسز میں اپیل کا حق بھی کھو چکا ہے۔
دوسرا مریم نواز کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ دینا حکومت کا ایک اچھا فیصلہ تھا کیونکہ محترمہ ایک سال کے اندر اندر پوری ن لیگ کا کباڑہ کر چکی ہیں :)
 

ثمین زارا

محفلین
یہ دونوں فیصلے تو بہت اچھے تھے ۔ اگر مریم بی بی بھی باہر جاتیں تو انہوں نے اس سے بھی زیادہ ادھم مچانا تھا ۔ چند بڑی غلطیوں میں شروع کے آٹھ ماہ ضائع کرنا، کئی محکموں میں صحیح لوگ تعینات نہ کرنا، بلاوجہ کے آٹا، چینی وغیرہ کے اسکینڈلز، بزدار کا انتخاب، جہانگیر ترین کی سبکی اور ملک میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی مہنگائی ۔ ان سب باتوں نے کتنی ساری کی گئی اچھائیوں کو نمایاں نہیں ہونے دیا ۔ ایک سخت انتظامیہ اور میڈیا کے منفی پروپگینڈے سے ہوشیاری سے نمٹنا ان کا حل تھا اور بس ۔
 

جاسم محمد

محفلین
چند بڑی غلطیوں میں شروع کے آٹھ ماہ ضائع کرنا، کئی محکموں میں صحیح لوگ تعینات نہ کرنا، بلاوجہ کے آٹا، چینی وغیرہ کے اسکینڈلز، بزدار کا انتخاب، جہانگیر ترین کی سبکی اور ملک میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی مہنگائی ۔
مہنگائی کا مسئلہ تھوڑا سا ٹیڑا ہے۔ اس بارہ میں کئی بار معاشی و مالیاتی گرافس دکھا کر ثابت کر چکا ہوں کہ ن لیگی دور میں مہنگائی کم کیوں تھی۔ اور تحریک انصاف حکومت کی وہ کونسی پالیسیاں تھیں جن کو اپنانا ملک دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ناگزیر تھا۔ مگر جس کا فطری نتیجہ مہنگائی کی شکل میں نکلنا ہی تھا۔
ایکسچینج ریٹ، آخر کہانی کیا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
ان سب باتوں نے کتنی ساری کی گئی اچھائیوں کو نمایاں نہیں ہونے دیا ۔ ایک سخت انتظامیہ اور میڈیا کے منفی پروپگینڈے سے ہوشیاری سے نمٹنا ان کا حل تھا اور بس ۔
میڈیا کو مینج کرنا کچھ مشکل کام نہیں۔ آپ نواز شریف کی طرح پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو سرکاری خزانہ سے اربوں روپے کے اشتہارات دے دیں تو یہ حکومت کے حق میں پراپگنڈہ شروع کر دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان کو ہڈی ڈالنے کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام تک درست معلومات پہنچانا کا ٹاسک دیا ہے۔ اور اس حوالہ سے بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔
 

بابا-جی

محفلین
پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو سرکاری خزانہ سے اربوں روپے کے اشتہارات دے دیں تو یہ حکومت کے حق میں پراپگنڈہ شروع کر دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان کو ہڈی ڈالنے کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام تک درست معلومات پہنچانا کا ٹاسک دیا ہے
ہڈی تو عام طور پر اُنہیں ڈالی جاتی ہے جو عُرفِ عام میں شیرو اور ٹائیگر ہوتے ہیں۔ آپ کھُل کر اپنا ما فی الضمِیر بیان کریں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہڈی تو عام طور پر اُنہیں ڈالی جاتی ہے جو عُرفِ عام میں شیرو اور ٹائیگر ہوتے ہیں۔ آپ کھُل کر اپنا ما فی الضمِیر بیان کریں۔
ان ہاؤس تبدیلی سے کھیل کے خاتمے کا آغاز
29/01/2021 نجم سیٹھی

حکومت کو چلتا کرنے کے تین طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا مارشل لا، دوسرا وزیر اعظم کا استعفیٰ، تیسرا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد۔
مارشل لا پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا۔ 1958 ء میں ایسے کوئی حالات نہیں تھے جن میں مارشل لا لگانا ناگزیر ہو، صرف جنرل ایوب خان کے ذاتی عزائم کارفرما تھے۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں امریکا کی حمایت میسر ہوگی۔ سول سوسائٹی اور ادارے اتنے توانا نہیں تھے کہ مارشل لا کے خلاف مزاحمت کرتے۔ اور پھر عدلیہ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔
1977ء میں مارشل لا کو دعوت دینے والے کچھ عوامل جمع ہو گئے تھے : اسٹبلشمنٹ نواز طاقت ور سولین احتجاجی تحریک، ضدی طبیعت رکھنے والا مطلق العنان وزیر اعظم جو نئے انتخابات پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، اور زیرک اور طالع آزما جنرل موقع کی گھات میں۔ اس وقت امریکی حمایت دستیاب نہیں تھی۔ 1999 ء میں نہ تو حالات سازگار تھے اور نہ ہی آرمی چیف طالع آزما تھا۔ سویلین وزیر اعظم نے آرمی چیف کو برطرف کرتے ہوئے ادارے کو شب خون مارنے کی راہ دکھائی۔ ایک مرتبہ پھر فوجی حکومت کے لیے امریکی حمایت کی یقین دہانی موجود نہیں تھی۔
آج مارشل لا کے خلاف طاقت ور عوامل موجود ہیں۔ پہلا، حزب اختلاف کی اسٹبلشمنٹ مخالف مقبول عام تحریک سرگرم ہے جو فوج کی حمایت سے قائم ہونے والی حکومت کے خلاف عوام کو متحرک کر رہی ہے۔ دوسرا، ایک عشرہ قبل جمہوریت بحالی کی تحریک کے بعد توانا ہونے والا بار اور بنچ کسی شب خون مارنے والے جنرل کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔ اس ضمن میں مشرف ٹرائل اور قاضی فائز عیسیٰ کیس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ تیسرا یہ کہ کوئی جنرل بھی اتنا کم عقل نہیں جو ایسے ملک کا کنٹرول سنبھالنا چاہے جس کی معاشی حالت اتنی ابتر ہو جتنی اس وقت پاکستان کی ہے۔ وہ ایسا کرتے ہوئے ذاتی اور ادارے کی ناکامی کا خطرہ مول کیوں لے گا؟ درحقیقت اسی وجہ سے کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے بالواسطہ طور پر ریاست کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی ناقابل تصور ہے کہ عمران خان جیسا شخص حالات کے دباؤ کی وجہ سے استعفیٰ دے دے۔ جب تک ان کی پارلیمانی اکثریت موجود ہے، وہ ایسا کیوں کریں گے؟ جس وقت ان کی مقبولیت انتہائی گر چکی اور معاشی اور سیاسی استحکام کے امکانات کم و بیش دم توڑ چکے، وہ پھر بھی اپنی جگہ پر ثابت قدم ہیں۔ جب عمران خان اور اسٹبلشمنٹ مل کر نواز شریف کے خلاف میدان میں تھے تو بھی نواز شریف کے قدم نہیں ڈگمگائے تھے۔ تو پھر عمران خان ایسا کیوں کریں جب اسٹبلشمنٹ حزب اختلاف کو ہدف بنانے میں ان کی حمایت کررہی ہے؟
اس کے بعد تیسرے امکان کے طور پر تحریک عدم اعتماد ہی باقی رہ جاتی ہے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس میں کامیابی کے لیے مخصوص شرائط درکار ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اور اتحادی بغاوت پر آمادہ ہوں۔ دوسری یہ کہ حکومت اتنی غیر مقبول ہو چکی ہو کہ حزب اختلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر عوامی حمایت حاصل کر سکے۔ تیسری شرط یہ کہ اسٹبلشمنٹ اس کے خلاف عملی طور پر متحرک نہ ہو۔ موجودہ صورت حال میں پہلی دو شرائط پوری ہو سکتی ہیں بشرطیکہ اسٹبلشمنٹ کی طرف اشارہ آ جائے کہ وہ اس کی حمایت کے لیے تیار ہے۔
یہ آصف زرداری کے نتائج کا نچوڑ ہے۔ نواز شریف کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ مخالف قوتیں عمران خان کو گھر بھیجنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن آصف زرداری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کی تجویز پیش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ایک ”تعاون پر آمادہ قومی حکومت“ قائم ہو۔ اس کے لیے اسٹبلشمنٹ کی حمایت سے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی ضرورت ہے۔
اسٹبلشمنٹ کو اس کے لیے قائل کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ (1) نواز شریف اور مریم نواز اس مجوزہ حکومت کا حصہ نہ ہوں، (2) تازہ انتخابات وقت مقررہ، یعنی 2023ء سے پہلے نہ ہوں، (3) چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کسی پریشانی کے بغیر اپنی مدت مکمل کرنے دی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نواز شریف کسی بھی ان ہاؤس تبدیلی کے خلاف ہیں۔ وہ ایسی کسی شرط کے بھی حق میں نہیں جو نئے انتخابات کا راستہ روک کر مسلم لیگ نون کو اقتدار میں آنے سے روکے۔ وہ ہر گز نہیں چاہتے کہ نون لیگ کسی ”قومی“ حکومت کا حصہ بنے کیوں کہ اس صورت میں حکومت میں شامل شراکت داروں کی باہم لڑائی اور ناقص گورننس کی وجہ سے عوامی اشتعال کا نشانہ بننا پڑے گا۔ اس سے انتخابی کامیابی کے امکانات کو زک پہنچتی ہے۔ درحقیقت یہ فارمولہ پیپلز پارٹی کے لیے سازگار ہے۔ یہ سندھ میں اپنی حکومت رکھتے ہوئے مرکز میں بلاول بھٹو کی قیادت میں قومی حکومت میں شریک ہو سکتی ہے۔
پی ڈی ایم میں تنازع کی بنیاد یہی ہے۔ پیپلز پارٹی ان ہاؤس تبدیلی چاہتی ہے جس کے نتیجے میں اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والی قومی حکومت وجود میں آئے، اور پیپلز پارٹی ہی 2023 ء تک اس کی قیادت کرے۔ پاکستان مسلم لیگ نون عمران خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرتے ہوئے یا ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے انتخابات کا فوری انعقاد چاہتی ہے۔ اسے انتخابات میں بھرپور کامیابی کا یقین ہے۔ آصف زرداری ایسی طے شدہ ڈیل چاہتے ہیں جو ان کے لیے ساز گار ہو۔ نواز شریف لانگ مارچ سے لے کر پارلیمنٹ سے استعفوں کے آپشنز استعمال کرتے ہوئے بحران کو گہرا کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسی طے شدہ ڈیل کے نتیجے میں ان کا نقصان نہ ہو۔
مسٹر زرداری کے فارمولے پر عمران خان کی طرف سے فوری طور پر سخت ردعمل آیا۔ براڈ شیٹ کیس کی تحقیقات کے لیے جسٹس (ر) عظمت سعید کی سربراہی میں نیا کمیشن آف انکوائری قائم کیا گیا حالانکہ ان کا اس کیس میں مفادات کا ٹکراؤ ثابت شدہ ہے۔ لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے خلاف سرے محل سمیت بہت سے مقدمات کی تحقیقات کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ یہ پی ڈی ایم الائنس کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ نواز شریف کا فارمولہ کامیابی کے بہتر امکانات رکھتا ہے۔ اس کے لیے مارچ اور اپریل میں اجتماعی طور پر استعفے دیے جائیں۔ یہ اقدام اس ہائبرڈ بندوبست کے آئینی جواز کو زک پہنچا کر حکومت کی فعالیت کو مفلوج کردے گا۔ اس کے بعد اگلے سو دنوں کے اندر ضمنی انتخابات کی کوشش کو پی ڈی ایم روک سکتی ہے۔ یا یہ انتخابات جیت کر ایک بار پھر استعفوں کا ہتھیار استعمال کر سکتی ہے۔ یہ صورت حال اسٹبلشمنٹ کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ عمران خان جیسے غیر فعال لیڈر کی حمایت سے دست کش ہو جائے۔ اس وقت تک ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی نواز شریف اور مریم نواز کی مخالفت میں کمی آ جائے، اور دوسری طرف سے بھی قمر جاوید باجوہ کو قبول کر لیا جائے۔ اس سے ملک موجودہ دلدل سے نکل کر آگے بڑھ سکتا ہے۔
دیکھا جا سکتا ہے کہ ملک میں سیاسی جمود ٹوٹنے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں۔ آصف زرداری پی ڈی ایم میں موجود اپنے شراکت داروں کو لانگ مارچ اور استعفوں کا آپشن ترک کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے، چاہے پیپلز پارٹی اس کا حصہ نہ بھی بنے۔ لیکن پھر مارچ میں ایسا مرحلہ آئے گا جب اسٹبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی، دونوں کو اپنی اپنی حکمت عملی سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ ان ہاؤس تبدیلی سے بھی کھیل ختم ہونے کا آغاز ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ فرائیڈے ٹائمز)
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کا فارمولہ کامیابی کے بہتر امکانات رکھتا ہے۔ اس کے لیے مارچ اور اپریل میں اجتماعی طور پر استعفے دیے جائیں۔ یہ اقدام اس ہائبرڈ بندوبست کے آئینی جواز کو زک پہنچا کر حکومت کی فعالیت کو مفلوج کردے گا۔ اس کے بعد اگلے سو دنوں کے اندر ضمنی انتخابات کی کوشش کو پی ڈی ایم روک سکتی ہے۔ یا یہ انتخابات جیت کر ایک بار پھر استعفوں کا ہتھیار استعمال کر سکتی ہے۔ یہ صورت حال اسٹبلشمنٹ کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ عمران خان جیسے غیر فعال لیڈر کی حمایت سے دست کش ہو جائے۔ اس وقت تک ممکن ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی نواز شریف اور مریم نواز کی مخالفت میں کمی آ جائے، اور دوسری طرف سے بھی قمر جاوید باجوہ کو قبول کر لیا جائے۔ اس سے ملک موجودہ دلدل سے نکل کر آگے بڑھ سکتا ہے۔
سینئر لفافی نجم سیٹھی تو عمران خان کو ہٹانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملانے کے مشورے دے رہا ہے۔ یہ کیسا فوج مخالف جمہوری انقلاب ہے؟
 

بابا-جی

محفلین
عمران خان کو جب اسٹیبلشمنٹ نے گھر بھیجنا ہو گا تو عدالت کے ذریعے بھِجوا دے گی۔ ویسے بھی نا اہل حُکمران کو برداشت کرنے میں مُضائقہ کیا ہے؟ ہٹانے کی کوشش کریں گے تو کپتان کو مزید مضبوطی بھی مل سکتی ہے، نہیں ہٹائیں گے تو کپتان کے لیے زیادہ خطرہ رہے گا کہ وُہ اب کُچھ کر کے دکھائے۔ پانچ سال کپتان کو نہ دینا اُس کے ساتھ زیادتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کو جب اسٹیبلشمنٹ نے گھر بھیجنا ہو گا تو عدالت کے ذریعے بھِجوا دے گی۔ ویسے بھی نا اہل حُکمران کو برداشت کرنے میں مُضائقہ کیا ہے؟ ہٹانے کی کوشش کریں گے تو کپتان کو مزید مضبوطی بھی مل سکتی ہے، نہیں ہٹائیں گے تو کپتان کے لیے زیادہ خطرہ رہے گا کہ وُہ اب کُچھ کر کے دکھائے۔ پانچ سال کپتان کو نہ دینا اُس کے ساتھ زیادتی ہے۔
مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق سیکھ کر کپتان کو حکمرانی کا پورا آئینی حق فراہم کر دیا ہے۔ امید ہے اس بار ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی وگرنہ ایک اور سیاسی شہید جماعت ملک کو چمٹ جانی ہے۔ یوں اگلے ۵۰ سال کپتان زندہ ہے اور بلا اک واری فیر کے نام پر ووٹ بٹورے گی :)
 
آخری تدوین:

بابا-جی

محفلین
مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے سبق سیکھ کر کپتان کو حکمرانی کا پورا آئینی حق فراہم کر دیا ہے۔ امید ہے اس بار ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی وگرنہ ایک اور سیاسی شہید جماعت ملک کو چمٹ جانی ہے۔ یوں اگلے ۵۰ سال کپتان زندہ ہے اور بلا اک واری فیر کے نام پر ووٹ بٹورے گی :)
کچھ ایسا نہیں ہوتا نظر آتا ہے۔ کپتان نے فی الوقت اپنا امیج الگ برباد کر دِیا ہے۔ بھٹو بننا آسان نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کچھ ایسا نہیں ہوتا نظر آتا ہے۔ کپتان نے فی الوقت اپنا امیج الگ برباد کر دِیا ہے۔ بھٹو بننا آسان نہیں۔
جس ملک میں نواز شریف جیسا چور اور زرداری جیسا ڈاکو بار بار حکمرانی کر سکتا ہے وہاں صادق و امین عمران خان کا امیج کیا خاک برباد ہو گا :)
 
Top