غزل برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
دن ہے بے مزا ہمدم
آ مجھے ستا ہمدم

جو بھی بن چکا ہوں میں
غم کی ہے عطا ہمدم

اس لیے بھی چپ ہوں بس
اب میں تھک چکا ہمدم

دل نہیں لگا میرا
میں جہاں گیا ہمدم

کس کو ڈھونڈتا ہوں میں
کیا ہے کھو گیا ہمدم

درد کی دوا دیکر
درد کو گھٹا ہمدم

دل مرا ہے کیوں بے چین
کچھ مجھے بتا ہمدم

لے کے اپنی بانہوں میں
دے مجھے شفا ہمدم

رات اب بھی باقی ہے
بات کو بڑھا ہمدم

کھول کر قفس میرا
کر مجھے رہا ہمدم

بے پناہ ہوں حساس
یعنی ہوں گدھا ہمدم

اور کیا کہوں تم سے
اب ہے کیا بچا ہمدم

ہے کہاں پہ گم فیضان
کچھ نہیں پتہ ہمدم
 
آخری تدوین:
مجھے تو ٹھیک لگ رہی ہے غزل۔ بس اس شعر کو دوبارہ دیکھ لیں ۔۔۔

بے پناہ ہوں حساس
یعنی ہوں گدھا ہمدم
پہلے مصرعے میں بے پناہ اور ہوں میں تنافر محسوس ہوتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں یعنی کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگتا۔ لفظ گدھا کی وجہ سے غزل کی عمومی فضا بھی متاثر ہو رہی ہے۔
 

فیضان قیصر

محفلین
مجھے تو ٹھیک لگ رہی ہے غزل۔ بس اس شعر کو دوبارہ دیکھ لیں ۔۔۔


پہلے مصرعے میں بے پناہ اور ہوں میں تنافر محسوس ہوتا ہے۔
دوسرے مصرعے میں یعنی کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگتا۔ لفظ گدھا کی وجہ سے غزل کی عمومی فضا بھی متاثر ہو رہی ہے۔

شکریہ راحل بھائی، مجھے بھی یہ شعر کھٹک رہا تھا اور کوئی خاص پسند بھی نہیں آرہا تھا، آپ نے بھی اس پر اعتراض کیا-لہذا اسے فی الفور غزل بدر کر دیا ہے
 
Top