جاسمن

لائبریرین
آں جملہ رسل ہادی برحق کہ گزشتند
برفضلِ تو اے ختم رسل دادہ گواہی

(آج تک جتنے سچے رسول گزرے ہیں، ائے خاتم المرسلین ! سب نے آپ کی بزرگی کی گواہی دی ہے)

در خَلق و در خُلق توئی نیر اعظم
لاتُدرک اوصافک لم تُدر کَمَاہی

(صورت اور سیرت میں آپ آفتاب عالمتاب ہیں ۔ نہ آپ کے اوصاف کا احاطہ کیا جاسکتاہے اور نہ ہی ان کی حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے)

یا احسن یا اجمل یا اکمل اکرم
واللہ باخلاقک فی الملا یُباہی

(اے سب سے زیادہ حسین ! سب سے زیادہ جمیل ، سب سے زیادہ کامل ، سب سے زیادہ سخی ! ملائکہ کی محفل میں اللہ تعالی آپ کے اخلاق پر فخر کرتا ہے)

تو باعث تکوین معاشی و معادی
اے عبد الہ ہست مسلم بتو شاہی

(یارسول اللہ! دنیا اور آخرت کی تکوین کا باعث آپ ہیں ۔ اے اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے کونین کی شاہی تجھے بخشی گئی ہے)

زآفاق پریدی و ز افلاک گزشتی
درجاتک فی السدرۃ غیر المتناہی

(آپ نے آفاق سے پرواز کی اور آسمانوں سے بھی گذر گئے۔ آپ کے درجات مقامِ سدرہ سے بھی آگے نکل گئے)

امید بکرمت کہ مکارم شیم تست
من کیستم و چیست معاصی و تباہی

(میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کرم کا امیدوار ہوں اور کرم فرمانا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پسندیدہ عادات میں سے ہے ۔ اس نوازش کے سامنے میری کیا حقیقت ہے،میرے گناہوں کی کیا حیثیت ہے )

آئس نیم از فضل تو اے روح خداوند
نظرے کہ رباید ز قمر رنج و سیاہی

(اے رحمت الہی ! میں تیرے فضل وکرم سے مایوس نہیں ۔ ایک ایسی نظر فرمائیے جو قمر سے رنج و سیاہی کو دور کردے)
از خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ۔​

سبحان اللہ!
بہت خوبصورت!
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گر بمستی آرزوئے ابر و باراں می کنم
سنگ می بارد ز ابرِ پنبہ بر مینائے ما


ابوطالب کلیم کاشانی

اگر کبھی عالمِ مستی میں ابر و باراں کی آرزو کرتا ہوں تو روئی کے گالوں جیسے بادلوں سے بھی میرے جام پر پتھر برسنے لگتے ہیں۔

اسی مفہموم کا خواجہ حیدر علی آتش کا خوبصورت شعر:
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
 
با تو وصلم شبِ نوروز مُیسّر شده بود
شبم از وصلِ تو با روز برابر شده بود

(محمد فضولی بغدادی)
مجھ کو تمہارے ساتھ وصل شبِ نوروز مُیسّر ہوا تھا۔۔۔ تمہارے وصل سے میری شب روز کے ساتھ مساوی ہو گئی تھی۔
(نَوروز کو موسمِ بہار کا نُقطۂ آغاز مانا جاتا ہے، اور بہار میں روز و شب کا دورانیہ مساوی ہو جاتا ہے۔ بیتِ ہٰذا میں اُس جانب اشارہ ہے۔)
من ندانم بادہ ام یا بادہ را پیمانہ ام
عاشق شوریدہ ام یا عشق باجانانہ ام
ترجمہ۔ فراہم کریں آپ کی حسن نوازی
 
من ندانم بادہ ام یا بادہ را پیمانہ ام
عاشق شوریدہ ام یا عشق باجانانہ ام
ترجمہ۔ فراہم کریں آپ کی حسن نوازی
مشق کے طور پر ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، فارسی جاننے والے اساتذہ تصحیح فرمائیں۔

میں نہیں جانتا کہ میں شراب ہوں یا شراب کا پیالہ ہوں، عاشقِ شوریدہ ہوں یا محبوب کا عشق ہوں۔
 
بی‌بی‌سی فارسی کے روزنامہ‌نگار اور معاصر افغانستانی شاعر سہراب سیرت کا ایک شعر:

سرِ سفره‌ات ندیدی که به کاسه‌یِ سرِ خود
دو سه لقمه مغزِ خود را به چه جبرِ جان که خوردم؟
(سهراب سیرت)

کیا تم نے اپنے دسترخوان پر نہیں دیکھا کہ جب میں نے خود کے کاسہٗ سر (کھوپڑی) سے اپنے مغز کے دو تین لقموں کو کس جبرِ جاں کے ساتھ کھایا؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بیماریِ ہوائے تو تن را ضعیف کرد
گر نبضِ اُو نمی نگری بنگر آبِ چشم


سیف فرغانی

تیری خواہش و آرزو کی بیماری نے جسم کو ضعیف و لاغر کر دیا، اگر تُو (ہاتھ پکڑ کر اُس کی ڈوبتی ہوئی) نبض نہیں دیکھتا تو آنکھوں میں آنسو ہی دیکھ لے۔
 
بی‌بی‌سی فارسی کے روزنامہ‌نگار اور معاصر افغانستانی شاعر سہراب سیرت کی ایک غزل ’’زخمستان‘‘ اردو ترجمے کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
خاطرنشیں رہے کہ سہراب سیرت ایک جنگ‌زدہ معاشرے میں بڑے ہوئے۔ انہیں افراط‌‌گرائی (extremism) کے خلاف آواز بلند کرنے پر خطرات درپیش ہوئے چنانچہ انہیں انگلستان مہاجرت کرنی پڑی۔ چنانچہ وطن کی یاد، اپنے وطن کی خستہ‌حالی پر پریشانی اور مہاجرت کی مشکلات نے ان کے احساسات اور جذبات پر عمیق اثر ڈالا۔ اس غزل کو اس پسِ منظر میں رکھ کر خوانیے۔

زَخمِستان

(اردو ترجمے کے ساتھ)

روحم، نگاهم،‌ سایه‌ام، خوابم، شبم زخمی‌ست
بوسیده‌ام خود را در آیینه، لبم زخمی‌ست

میری روح، نگاہ، سایہ، خواب (اور) رات (سب کے سب) زخمی ہیں۔ میں نے خود کو آئینے میں بوسہ دیا ہے، میرے لب زخمی ہیں۔

پاییز شد هر فصل من، سالی پر از زهرم
میزان و قوسم تیرخورده، عقربم زخمی‌ست

میرا ہر موسم خزاں ہوگیا، میں زہر سے پُر ایک سال ہوں۔ میرے (برجِ) میزان اور (برجِ) قوس نے تیر کھایا ہے، میرا (برجِ) عقرب زخمی ہے۔
[عقرب بچھو کو کہتے ہیں جس کا ڈنگ زہریلا ہوتا ہے۔ اس شعر کے پہلے مصرعے کے آخری حصے سے اس کا تعلق محسوس کیا جاسکتا ہے۔برجِ قوس کے نشان میں تیر اور کمان موجود ہے۔ آخری مصرعے میں موجود ’تیر خوردہ’ سے بھی اس کا تعلق محسوس کیا جاسکتا ہے۔]

گاوی که بر شاخش زمینم هست دیوانه است
دل، دل،‌ دلم، این پای‌‌درگِل‌‌مرکبم زخمی‌ست

وہ گائے کہ جس کی سینگ پر میری زمین ہے، پاگل ہے۔ دل، یہ دل، میرا دل، یہ کیچڑ میں پاوٗں پھنسائے میرا گدھا زخمی ہے۔
[قدیم ایام میں چند قوموں کا یہ باور بھی رہا ہے کہ سیارہٗ زمین گائے کے سینگ پر کھڑی ہے۔ زلزلہ آنے کی وجہ اس گائے کا غصے سے سر ہلانے کو سمجھا جاتا تھا۔ پائے در گِل مرکبم درحقیقت دل کو کہا جا رہا ہے۔ جب کیچڑ میں ایک گدھے کا پاوٗں پھنس جائے تو اسے نکالنا بسیار مشکل ہوتا ہے، اسی طرح دل بھی مشکل میں بری طرح گرفتار ہے۔]

بی‌سرزمینم!‌ کو زمین؟ اندازهٔ یک قبر
بی‌آسمانم! قرن‌ها شد کوکبم زخمی‌ست

میری سرزمین نہیں ہے! کہاں ہے زمین؟ ایک قبر جتنی (زمین بھی میرے لئے موجود نہیں ہے)۔ میرا آسمان نہیں ہے! صدیاں گزر چکی ہیں کہ میرا ستارہ زخمی ہے۔
[چونکہ ستارہ ہماری قسمت کا حال بتاتے ہیں، چنانچہ جب ستارہ زخمی ہو تو میری شوربختی بھی موجود رہے گی]

کمرنگ شد آن مشق بابا آب یا نان داد
صفحه به صفحه خاک و خون شد…مکتبم زخمی‌ست!

’’بابا آب یا نان داد‘‘ (ابو نے پانی یا روٹی دی) والی مشق رنگ‌پریدہ ہوگئی۔ صفحہ بہ صفحہ خاک و خون ہوگیا۔۔۔میرا مکتب (سکول) زخمی ہے۔
[’’بابا آب یا نان داد‘‘ افغانستانی مکتبوں میں بچوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھانے کے لئے چند ابتدائی جملوں میں سے ایک ہے۔ ]

در بینِ وجدان‌های خفته، بین یک گلّه!
شور و شعورم مرده و تاب و تبم زخمی‌ست

سوئے ہوئے ضمیروں کے درمیان، (نہیں بلکہ یوں کہو کہ گویا) ایک ریوڑ کے درمیان! میرا شور و شعور مردہ ہے اور میرا شور و ہیجان زخمی ہے۔

زخمی‌ست هر چه دارم از آغاز تا انجام
نامم،‌ کلامم،‌ خاطراتم،‌ مذهبم زخمی‌ست

آغاز سے انجام تک میں جو کچھ بھی رکھتا ہوں، زخمی ہے۔میرا نام، کلام، یادیں (اور) مذہب زخمی ہے۔

شاعر: سہراب سیرت
مترجم:اریب آغا ناشناس
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ ذوقِ نغمہ نہ آزادیِ فغاں دارم
چہ سود از آنکہ بشاخِ گُل آشیاں دارم


ابوالحسن ورزی

نہ ذوقِ نغمہ ہے اور نہ ہی مجھے آہ و فغاں کی آزادی ہے، کیا فائدہ اِس سے کہ میرا آشیاں شاخِ گُل پر ہے۔
 
نہ ذوقِ نغمہ نہ آزادیِ فغاں دارم
چہ سود از آنکہ بشاخِ گُل آشیاں دارم

ماشاءالله ماشاءالله بہت اعلی صدا سلامتی ھو اللّه پاک کی رحمت ھو آپ پر جزاک اللّه آپ کی محنت اور ذوق کو خراج تحسین

ابوالحسن ورزی

نہ ذوقِ نغمہ ہے اور نہ ہی مجھے آہ و فغاں کی آزادی ہے، کیا فائدہ اِس سے کہ میرا آشیاں شاخِ گُل پر ہے۔
 
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور جاوید احمد غامدی کے استاد امین احسن اصلاحی تھے جو خود حمید الدین فراہی کے شاگرد تھے۔ حمید الدین فراہی علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد بھی تھے۔
حمید الدین فراہی فارسی شاعر تھے۔ ان کی کتاب ’’نوائے پہلوی‘‘ اور ’’خرد نامہ‘‘ ان کی فارسی شاعری پر مشتمل ہے۔ آئیے، حمید الدین فراہی کے چند اشعار آپ سب کی خدمت میں ترجمے کے ساتھ پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کو فارسی زبان و ادب کی بےپایاں میراث کا اندازہ ہوسکے۔


تو درد دادی و من جان فرستم و شادم
که در میانه‌یِ ما راهِ ارمغان باز است
(حمید الدین فراهی)

تو نے (مجھے) درد دیا اور میں (تجھے) جان بھیجتا ہوں اور خوش ہوں کہ ہمارے درمیان تحفے کی راہ وا (کھلی ہوئی) ہے۔
 
گفتارِ حافظ ار چه روان تازه می‌کند
هم گفته‌ی حمید دهد هوش را نوی
(حمید الدین فراهی)

گفتارِ حافظ شیرازی اگرچہ روح کو تازہ کرتی ہے (لیکن) حمید (الدین فراہی) کی باتیں بھی ہوش کو تازگی دیتی ہے۔
 
من از کمندِ حلقه‌یِ واعظ رمیده‌ام
دل‌خستگیش بین که شکارش ز دام رفت
(حمید الدین فراهی)

میں واعظ کی محفل کے کمند سے بھاگا ہوا ہوں۔اس کی دل‌خستگی دیکھو کہ اس کا شکار دام (جال) سے چلا گیا ہے۔
 
عشق دریا، من حبابی، سرگزشت از من مپرس
دیده‌ای وا کردم و دیگر نمی‌دانم چه شد؟
گفتی‌ام: "پایت چه شد؟ کز کویِ عشق آیی برون"
تو زپا گویی و من خود سر نمی‌دانم چه شد؟
(حمید الدین فراهی)

عشق دریا ہے، میں ایک حباب (پانی کا بلبلہ)، مجھ سے سرگزشت نہ پوچھ!
(پانی کے بلبلے کی مانند، جس کا وجود فقط چند لمحوں تک محدود ہوتا ہے) میں نے ایک آنکھ کھولی اور پھر مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا؟
تو نے مجھ سے کہا ’’تو عشق کے کوچے سے آرہا ہے، تیرے پاوٗں کو کیا ہوا؟‘‘
تو پاوٗں کا کہہ رہا ہے، اور مجھے خود یہ نہیں معلوم کہ میرے سر کا کیا ہوا؟
 
تشنه‌یِ جان به‌لبم وان دَهَنَت چشمه‌یِ نوش
گر پی‌ِ تشنه‌لبی آب بیاری، چه شود؟
من خزان‌دیده نهال استم و تو بادِ بهار
گر به‌من بگذری ای بادِ بهاری، چه شود؟
ابرِ لطفی تو و من خاکِ جگرسوخته‌ام
گر برین سوخته یک بار بِباری چه شود؟
(حمید الدین فراهی)

میں جاں بَلب تشنہ(پیاسا) ہوں اور تیرا منہ چشمہٗ حیات ہے۔اگر تو کسی تشنہ‌لب کے لئے آب (پانی) لے آئے تو کیا ہوتا ہے؟
میں خزاں‌دیدہ پودا ہوں اور تو بادِ بہار ہے۔ اے بادِ بہاری! اگر تو میرے پاس سے گزرے تو کیا ہوتا ہے؟
تو مہربانی کا ابر (بادل) ہے اور میں جگرسوختہ خاک ہوں۔ اگر اس (مجھ) جلے ہوئے پر ایک بار بھی بَرَس جائے تو کیا ہوتا ہے؟
 
به‌یادِ رویِ او شادم چنان در کنجِ تنهایی
که دل بد می‌شود بر تخت اگر با شاه بنشینم
چنان از پرتوِ حسنش گلستان در گلستانم
که در گل‌زار باشم گر بآتش گاه بنشینم
(حمید الدین فراهی)

میں کنجِ تنہائی میں اس کے چہرے کی یاد میں ویسا خوش ہوں کہ اگر میں تخت پر پادشاہ کے ساتھ بیٹھوں تو دل برا ہوجاتا ہے۔
تیرے حُسن کے پرتو سے میں گلستان کے اندر ویسا گلستان ہوں کہ اگر میں کبھی آتش (آگ) میں بیٹھوں تو (درحقیقت) گل‌زار میں ہوتا ہوں۔
 
چامه‌هایِ دری از گفتِ فراهی خوانیم
تا بدین زمزمه آن کهنه زبان تازه کنیم
(حمید الدین فراهی)

ہم فارسی اشعار گفتارِ فراہی سے پڑھتے ہیں تاکہ اس زمزمہ سے ہم وہ قدیم زبان (یعنی زبانِ فارسی) تازہ کریں۔
 
Top