اردو محفل کی مفت ٹیوشن اکیڈمی

سید عاطف علی

لائبریرین
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا اسلام کی کون سے خصلت بہتر ہے؟ آپؐ نے فرمایا کھانا کھلانا اور (ہر ایک مسلمان کو )سلام کرنا (چاہے وہ) اس کو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔
اگر سلام کرنے والا جانتا ہی نہیں تو کسی کے مسلمان ہونے کا علم کس طرح ہو ؟
آج کل کے ماحول میں کئی مذاہب اور ثقافتیں اور طرز ہائے معاشرت باہم اختلاط پذیر ہیں ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اگر سلام کرنے والا جانتا ہی نہیں تو کسی کے مسلمان ہونے کا علم کس طرح ہو ؟
آج کل کے ماحول میں کئی مذاہب اور ثقافتیں اور طرز ہائے معاشرت باہم اختلاط پذیر ہیں ۔
مجھے بھی اس معاملہ میں علماء کا جواب تو معلوم نہیں مگر میرا اپنا طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص میں اُس کے مذہب کی علامت واضح نہیں ہے تو میں سلام کرتا ہوں ورنہ گریز کرتا ہوں علاوہ ازیں کسی بات کے علم نہ ہونے پر مؤاخذہ کرنا دین کا مزاج نہیں ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھے بھی اس معاملہ میں علماء کا جواب تو معلوم نہیں مگر میرا اپنا طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص میں اُس کے مذہب کی علامت واضح نہیں ہے تو میں سلام کرتا ہوں ورنہ گریز کرتا ہوں علاوہ ازیں کسی بات کے علم نہ ہونے پر مؤاخذہ کرنا دین کا مزاج نہیں ہے
مسلمان کی شرط قوسین میں شاید مترجم کی لگائی ہوئی لگتی ہے ۔ اصل کلمات ہوتے تو قوسین کی ضرورت نہیں رہتی۔
 

ام اویس

محفلین
غیر مسلم کو سلام کرنے کی تحقیق کی گئی، جس سے یہ معلوم ہوا کہ اِس بارے میں شروع ہی سے علماء کے درمیان دو قول رہے ہیں، ایک بڑی جماعت اِس بات کی قائل ہے کہ کسی بھی غیر مسلم کو ’’السلام علیکم‘‘ کے لفظ سے ابتداً سلام نہ کیا جائے، اور اگر کوئی غیرمسلم مسلمان کو سلام کرے، تو اُس کے جواب میں صرف ’’وعلیکم‘‘ یا ’’وعلیک‘‘ کہا جائے، ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ‘‘ نہ کہا جائے۔
اِس جماعت کا استدلال اُس حدیث سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تبدؤوا الیہود ولا النصاریٰ بالسلام، فإذا لقیتم أحدہم في طریقٍ فاضطروہ إلی أضیقہ۔

(صحیح مسلم، کتاب السلام / باب النہي عن ابتداء أہل الکتاب بالسلام وکیف یُردُّ علیہم ۲؍۲۱۴ رقم: ۲۱۶۷، سنن أبي داؤد رقم: ۵۲۰۵، سنن الترمذي / باب ما جاء في کراہیۃ التسلیم علی الذمي ۲؍۹۹ رقم: ۲۷۰۰)
نیز دوسری روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا سلّم علیکم أہل الکتاب فقولوا: وعلیکم۔

(صحیح البخاري / کیف الرد علی أہل الذمۃ السلام ۲؍۱۴۲۶ رقم: ۶۲۵۸، صحیح مسلم ۲؍۲۱۳ رقم: ۲۱۶۳ بیت الأفکار الدولیۃ، سنن أبي داؤد ۲؍۷۰۷ رقم: ۵۲۰۷ دار الفکر بیروت)
جمہور علماء وفقہاء اور شارحین حدیث کی یہی رائے ہے، نیز اِمام ابو حنیفہ اور امام اَبویوسفؒ سے بھی صراحۃً یہی منقول ہے
اِس کے برخلاف ایک دوسری جماعت کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ضرورت سے کسی کافر کو ابتداً سلام کرلیا جائے، یا اس کے جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، یہ رائے حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت ابوامامہؓ، حضرت حسن بصریؒ اور حضرت عمر بن عبد العزیز رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف منسوب ہے، یہ حضرات اُس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں یہ مضمون ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم اور غیر مسلم کے مخلوط مجمع پر سلام سے ابتداء فرمانے کا ذکر ہے۔

(صحیح البخاری ۲؍۹۲۴)

نیز سلام کو مطلقاً عام کرنے کی روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں۔
اِسی اعتبار سے آیت: {وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا} کی تفسیر میں دو رائے ہوگئیں: بعض نے اُسے مسلمانوں کے ساتھ خاص فرمایا اور بعض نے اُس کو عام فرمایا ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بیان القرآن میں اِسی دوسری رائے کی طرف اِشارہ فرمایا ہے، مگر عموماً فقہی کتابوں اور شروحاتِ حدیث میں فتویٰ پہلی رائے پر دیا گیا ہے، خاص کر اِس لئے کہ ’’السلام علیکم‘‘ محض ایک دعا ہی نہیں؛ بلکہ ایک اِسلامی شعار ہے، اِس لئے اُس کا استعمال اِسلامی علامت کے طور پر ہونا چاہئے، جیساکہ دیگر شعار صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔
محمد امیر الدین حنفی
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے جتنے بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پروگرام دیکھے ہیں، انہوں نے لیکچر شروع کرنے سے پہلے مجمع کو، جس میں مسلمانوں کے علاوہ ہر مذہب و ملت کے لوگ موجود ہوتے ہیں، ہمیشہ السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا ہے۔
 
Top