طلبہ آن لائن امتحان کیوں چاہتے ہیں؟

اس بار ماضی کے برعکس طلبہ تعلیمی اداروں کے کھلنے اور کیمپس میں امتحانات دینے کی مخالفت کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
مائیکرو بلا گنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر سوشل میڈیا صارفین خصوصا یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں اور ہیش ٹیگ ’آن لائن ایگزام اونلی‘ ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔
ٹوئٹرصارف ایمان نے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو ٹیگ کر کے لکھا کہ ’طلبہ یونیورسٹی جا کر امتحان نہیں دے سکتے بلکہ آن لائن امتحانات دے سکتے ہیں۔ آن لائن کلاسز لینے کے بعد کیمپس میں امتحان دینا زیادتی ہے۔ براہ کرم سمجھیں! ہم شکر گزار ہوں گے۔‘
 
ویب ڈیسک (اسلام آباد ):آن لائن کیمپس امتحانات کے خلاف نمل یونیورسٹی طلبا کا احتجاجی مظاہرہ ۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پورا سمسٹر آن لائن ہوا ہے، آن کیمپس آمتحانات نہیں دینگے، طلبہ نے اپنے وسائل پر آن لائن کلاسسز لی ہیں ،بھاری فیسز کیوں دیں، طلبا نمل یونیورسٹی نے فزکل امتحانات کا اعلان کیا ہے جو کہ طلبہ کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔

طلباء کا کہنا تھا کہ کلاسسز آن لائن ہوئے ہیں ویسے امتحانات بھی آن لائن ہونے چاہیے۔آدھی ٹیوشن فیس ،بسوں اور ہاسٹل کی پوری فیس واپس کی جائے۔مطالبات پورے ہونے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
 
اسلام آباد، راولپنڈی (خصوصی نامہ نگار، خبر نگار خصوصی ) بارانی یونیورسٹی طلبہ نے امتحانات آن لائن لینے کیلئے گزشتہ روز مظاہرہ کیا۔ یو نیورسٹی طلبہ کا موقف تھا کہ آن لائن کلاسز کے بعد امتحانات بھی آن لائن ہونے چا ہیں ،تین بار ڈیٹ شیٹ میں تبدیلی زیادتی ہے۔ جب کلاسز آن لائن ہو ئی ہیں تو بھاری بھر کم فیسیں کیوں لی جا رہی ہیں۔ بھاری فیسیں فوری واپس کی جائیں اور آن لائن امتحانات کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔
دریں اثناءبارانی زرعی یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباء کی جانب سے بھی گزشتہ روز مری روڈبارانی زرعی یونیورسٹی کےگیٹ کے سامنے آن لائن کے امتحانات کیلئے دھرنادیا گیا۔ طالب علموں نے احتجاجی دھرنا دیتے ہوئےمری روڈ کو دونوں جانب سے بلاک کردیا۔ طالب علموں نےانتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ اگر کلاسز آن لائن لی ہیں تو امتحانات بھی آن لائن لیں، تمام یونیورسٹیوں نے آن لائن امتحانات کا فیصلہ کیا ہے،اسی طرح ہماری یونیورسٹی میں بھی آن لائن امتحانات لئے جائیں۔طلباء نے ہاتھوں میں یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔
بعدازاں یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کے مطالبات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنانے کی یقین دہانی کروائی جس پر طلبہ نے احتجاج ختم کر دیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جب کلاسز آن لائن ہو ئی ہیں تو بھاری بھر کم فیسیں کیوں لی جا رہی ہیں۔ بھاری فیسیں فوری واپس کی جائیں اور آن لائن امتحانات کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔

آن لائن کلاسز کا مطلب یہ ہے کہ پڑھانے والا عملہ اپنا اپنا کام کر رہے ہے۔ اور طلبہ کو یہ سہولت د ی جا رہی ہے کہ گھر بیٹھے پڑھ لیں ۔ تو ایسے میں فیس کیوں نہ لی جائے۔؟
 

اسد

محفلین
مطالبات تو بڑھا چڑھا کر کچھ بھی کیے جا سکتے ہیں، آخر میں بھاگتے چور کی لنگوٹی پر بھی صبر کیا جا سکتا ہے۔
میرے خیال میں ٹیوشن فیس نہیں بلکہ امتحانی فیس کا معاملہ ہے۔ پہلے ہی آنلائن پڑھائی کے لوازمات پر اضافی اخراجات ہو چکے ہیں۔ کم امتحانی فیس میں آنلائن امتحانات ہو سکتے ہیں۔
دوسرا اہم معاملہ شہر سے باہر کے طالب علموں کا ہے۔ امتحان یا ٹیوشن فیس سے زیادہ ہوسٹل کے "بقایاجات" (جب ہوسٹل میں رہے نہیں تو کرایہ کیوں دیں؟ یا پیشگی کرائے کی واپسی) اور اپنے وسائل سے صرف امتحانوں کے لیے (زیادہ) کرائے پر (عارضی) رہائش حاصل کرنے کا ہے- عام طور پر پورے سمسٹر یا سال کے لیے کمرہ کم کرائے پر ملتا ہے جبکہ صرف امتحانوں کے لیے کرایہ زیادہ ہو گا۔
 
اس بار ماضی کے برعکس طلبہ تعلیمی اداروں کے کھلنے اور کیمپس میں امتحانات دینے کی مخالفت کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
مائیکرو بلا گنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر سوشل میڈیا صارفین خصوصا یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں اور ہیش ٹیگ ’آن لائن ایگزام اونلی‘ ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔
ٹوئٹرصارف ایمان نے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو ٹیگ کر کے لکھا کہ ’طلبہ یونیورسٹی جا کر امتحان نہیں دے سکتے بلکہ آن لائن امتحانات دے سکتے ہیں۔ آن لائن کلاسز لینے کے بعد کیمپس میں امتحان دینا زیادتی ہے۔ براہ کرم سمجھیں! ہم شکر گزار ہوں گے۔‘
طلبہ ڈیڑھ ہوشیار بن رہے ہیں ۔۔۔ اساتذہ اگر ان کا ’’بینڈ بجانے‘‘ پر آجائیں تو آن لائن امتحان میں تین گھنٹے میں ایک سوال تک حل نہیں کر پائیں گے، سارا وقت گوگل سے جوابات تلاش کرنے میں ختم ہو جائے گا!
کچھ سال پہلے کی بات ہے، ہم آئی بی اے کراچی میں پڑھتے تھے۔ رمضان کا مہینہ چل رہا تھا اور غضب کی گرمی پڑ رہی تھی۔ فنانس کے ایک کورس میں ہمارے ٹیچر نے ہمیں آپشن دیا کہ اگر ہم چاہیں تو فائنل امتحان گھر پر ’’اوپن بک‘‘ ٹیسٹ کی صورت دے سکتے ہیں اور پرچہ حل کرنے کے لیے چھ گھنٹے کا وقت دیا جائے گا۔ یہ سنتے ہی ہماری تو باچھیں کھل گئیں ۔۔۔ فوراً سے پیشتر ہامی بھر لی ۔۔۔
تراویح کے بعد امتحانی پرچہ بذریعہ ای میل موصول ہوا۔ ہم چار دوست اکھٹے بیٹھے تھے۔ جب حل کرنا شروع کیا تو صبح کے چار بج گئے، سحری کا وقت آگیا مگر ایک سوال بھی ڈھنگ سے حل نہیں ہو پایا۔
فجر کے بعد ٹیچر کی منت سماجت کی گئی تو انہوں نے تین گھنٹے کا وقت مزید دے دیا ۔۔۔ تاہم اس کے بعد بھی محض نصف پرچہ ہی حل ہوسکا ۔۔۔ اور آخر میں ہم محض ٹیچر کے ہمارے حال پر ترس کھانے کی وجہ سے ہی پاس ہو پائے شاید :)

میں تو کہتا ہوں کہ ایسے ڈیڑھ ہوشیاروں کا آن لائن امتحان ہی لیا جائے ۔۔۔ ان کے دانتوں پر پسینہ نہ آجائے تو کہیے گا :)
 
Top