آزادنظم: ہے میرا مایۂ زریں!

فاخر

محفلین
ہے میرا مایۂ زریں!

افتخاررحمانی فاخرؔ

مری آنکھوں کوبخشا ہے
جو تیری’برہمی‘ نے
’اشک‘
ہے میرا مایۂ زریں!
تجھے حق ہے کہ توُ مجھ کو
رُلائے مضطرب کرکے!
بہائے توُ مرا خونِ جگر
حق ہے کہ توُ میرا
مٹائے نقشِ ہستی کو
مگر مجھ کو زیاں کا غم!!
نہیں ہے کچھ، نہیں ہے کچھ!!

مرے آنسو کے قطروں میں!
تصوُّر میں ہر اک شامیں!
تری تصویر لرزاں ہو کے کندھوں پہ مرے
دیتی ہے تھپکی اور مسلسل پیار!
ہوا کرتا ہے رقصاں!
تو ُ ہر دم میری نظروں میں!
کبھی جھرنوں،کبھی سرگم
کبھی گیتوں، کبھی سرُ میں!!

بس اک فریاد ہے تجھ سے
جدا ہوکر بھی توُ مجھ سے
نہ چھین اس مایۂ غم کو
جہانِ فکر بھی ہے یہ!
متاعِ شاعری بھی ہے!

٭٭٭٭
 
اچھی نظم ہے فاخر، اچھا خیال ہے ۔۔۔ اور طوالت بھی عین مناسب ہے۔

ایک دو نکات دیکھ لیں، شاید نظم میں مزید نکھار آ جائے۔

بہائے توُ مرا خونِ جگر
حق ہے کہ توُ میرا
مٹائے نقشِ ہستی کو
ان تین لائنوں میں بے جا تعقید محسوس ہوتی ہے۔ اگر اسی ہیئت میں بھی برقرار رکھنا چاہیں تو ’’میرا نقشِ ہستی‘‘ درست نہیں ہوگا، یہاں میرے ہونا چاہیے۔

تصوُّر میں ہر اک شامیں!
شامیں جمع ہے، پھر اس کے ساتھ ’’ہر اک‘‘ کیسے آ سکتا ہے؟

ہوا کرتا ہے رقصاں!
تو ُ ہر دم میری نظروں میں!
پہلی سطر میں بحر خلط ہو رہی ہے۔ اس نظم میں مفاعیلن کی گردان ہے، تو بیچ میں فعولن نہیں آنا چاہیے۔

دعاگو،
راحلؔ
 

فاخر

محفلین
اچھی نظم ہے فاخر، اچھا خیال ہے ۔۔۔ اور طوالت بھی عین مناسب ہے۔

ایک دو نکات دیکھ لیں، شاید نظم میں مزید نکھار آ جائے۔


ان تین لائنوں میں بے جا تعقید محسوس ہوتی ہے۔ اگر اسی ہیئت میں بھی برقرار رکھنا چاہیں تو ’’میرا نقشِ ہستی‘‘ درست نہیں ہوگا، یہاں میرے ہونا چاہیے۔


شامیں جمع ہے، پھر اس کے ساتھ ’’ہر اک‘‘ کیسے آ سکتا ہے؟


پہلی سطر میں بحر خلط ہو رہی ہے۔ اس نظم میں مفاعیلن کی گردان ہے، تو بیچ میں فعولن نہیں آنا چاہیے۔

دعاگو،
راحلؔ




آزاد نظم

افتخاررحمانی فاخرؔ

مری آنکھوں کوبخشا ہے
جو تیری’برہمی‘ نے
’اشک‘
ہے میرا مایۂ زریں!
تجھے حق ہے کہ توُ مجھ کو
رُلائے مضطرب کرکے!
بہائے توُ مرا خونِ جگر
حق ہے کہ توُ میرے


مٹائے نقشِ ہستی کو
مگر مجھ کو زیاں کا غم!!
نہیں ہے کچھ، نہیں ہے کچھ!!

مرے آنسو کے قطروں میں!
تصوُّر میں مرے آکر


تری تصویر لرزاں ہو کے کندھوں پہ
مرےدیتی ہے تھپکی اورمسلسل پیار!
ہوا کرتاہے رقصاں تُو
ہمیشہ میری نظروں میں!
کبھی جھرنوں، کبھی گیتوں
کبھی سرگم کبھی سرُ میں!!

بس اک فریاد ہے تجھ سے
جدا ہوکر بھی توُ مجھ سے
نہ چھین اس مایۂ غم کو
جہانِ فکر بھی ہے یہ!
متاعِ شاعری بھی ہے!


مشورہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے نظرثانی کے بعد پھر پیش ہے۔
 
آخری تدوین:
نہیں ہے کچھ، نہیں ہے کچھ!!
اس لائن کو "نہیں کچھ بھی، نہیں کچھ بھی" کرلیں تو کیسا رہے گا؟

تری تصویر لرزاں ہو کے کندھوں پہ
مرےدیتی ہے تھپکی اورمسلسل پیار!
پہ کی ضرورت نہیں، یہاں "پر" وزن میں آجائے گا.
 
Top