اس غزل کی اصلاح فرمائیں

محسن اعوان

محفلین
ہوئے آدمی یہ پیدا تو انسان مر گئے
جو تھے جان سے پیارے مری جان مر گئے

مجھے تب سمِ بشر سے بہت خوف آیا تھا
کہ جب آدمی کے ڈسنے سے حیوان مر گئے

تجھے دیکھتے ہی دل یہ مرا صاف ہو گیا
مرے ذہن کے بڑے بڑے شیطان مر گئے

تُو نے آ کے مجھ کو اپنے گلے سے لگایا جب
جہاں کے تو خود پہ سارے ہی ابھمان مر گئے

مجھے تو سوالِ زیست پہ ہر ایک نے کہا
پریشان آئے اور پریشان مر گئے

مرے ہم نوا یاں دیکھ کیا حال ہو گیا
میں تو مر رہا کُجا یہ ترے دھیان مر گئے
 
اماں، کہاں ان شاذ بحروں کے چکر پڑ رہے ہو! آخر کوئی تو وجہ ہوگی نا کہ اس قسم کی بحریں اردو میں مقبول عام نہیں ہو سکیں.
مطلع ہی اتنا کھینچ تان کے وزن میں آتا ہے. پیدا کی الف گرانی پڑ رہی ہے، پیارے کی ی یائے مخلوط ہوتی ہے، مگر اس کو "پ+یا+رِ" تقطیع کرنا پڑ رہا ہے!!!
بحر مضارع میں ہی لکھنا ہے تو معروف بحر استعمال کرو جیسے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
 

محسن اعوان

محفلین
اماں، کہاں ان شاذ بحروں کے چکر پڑ رہے ہو! آخر کوئی تو وجہ ہوگی نا کہ اس قسم کی بحریں اردو میں مقبول عام نہیں ہو سکیں.
مطلع ہی اتنا کھینچ تان کے وزن میں آتا ہے. پیدا کی الف گرانی پڑ رہی ہے، پیارے کی ی یائے مخلوط ہوتی ہے، مگر اس کو "پ+یا+رِ" تقطیع کرنا پڑ رہا ہے!!!
بحر مضارع میں ہی لکھنا ہے تو معروف بحر استعمال کرو جیسے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
شکریہ سر جی آپ نے نے مزید باتیں بتائیں جو مرے علم میں نہیں تھیں۔
 
اماں، کہاں ان شاذ بحروں کے چکر پڑ رہے ہو! آخر کوئی تو وجہ ہوگی نا کہ اس قسم کی بحریں اردو میں مقبول عام نہیں ہو سکیں.
مطلع ہی اتنا کھینچ تان کے وزن میں آتا ہے. پیدا کی الف گرانی پڑ رہی ہے، پیارے کی ی یائے مخلوط ہوتی ہے، مگر اس کو "پ+یا+رِ" تقطیع کرنا پڑ رہا ہے!!!
بحر مضارع میں ہی لکھنا ہے تو معروف بحر استعمال کرو جیسے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
زبردست راحل بھائی!
 
Top