ہمارے نجی تعلیمی ادارے ، تعلیم کے فروغ کے لئے کتنے مددگار ہیں؟

محمداحمد

لائبریرین
یہ ایک عمدہ خیال ہے ۔ اس سال بیکن اور سٹی کے والدین نے بھی لاک ڈاؤن میں متاثر لوگوں کی جو اپنے بچوں کے لیے اسٹدی پیک نہیں خرید سکتے تھے واٹس ایپ گروپ بنا کراسی طرح مدد کی اور بائیکیا کے ذریعے ان کے گھروں تک پہنچا دیا اس طرح کسی عزت نفس بھی مجروع نہیں ہوئی ۔ یہ عام طور پر خوشحال چھوٹے کاروباری حضرات تھے جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔

بیکن، سٹی، روٹس کو تو خود ہی خیال ہونا چاہیے اگر ایک سال ہر بچے کو بھی سٹڈی پیک مفت دے دیں پھر بھی ان کی جمع پونجی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
لیکن اچھی بات ہے کہ والدین ایک دوسرے کی ضرورت کا خیال رکھ رہے ہیں۔

یہ خیال رکھ ہی نہ لیں - یہ تعلیمی ادارے کم اور بزنسز زیادہ ہیں ۔
مگر یہ چاہے کتنے ہی کمرشل بنیادوں پر بنے ہوں ان کی موجودگی نے سرکاری اسکولوں کے ناقص تعلیمی نظام کا عمدہ بدل فراہم کیا ہے ۔ ان کی یہ مہربانی بھی لائق تحسین ہے ۔

یہ بات واقعی درست ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ ان کی مہربانی 'افورڈ' نہیں کر سکتا۔

یہ تو ہے ۔ مگر دیکھیے کہ پھر بھی ہزاروں لاکھوں لوگ ان سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ اور یہ ایک بڑی آبادی کو باعزت روزگار بھی فراہم کر رہے ہیں ۔ یہ کتنی اچھی بات ہے ۔ ہر اسٹریٹ پر آپ کو یہ اسکولز ملیں گے اور کچھا کھچ بھرے ہیں ۔ ہم جیسی ایورج مڈل کلاس بھی ہمت کر کے افورڈ کر ہی لیتی ہے ۔

یہ ایک مثبت بات ہے۔

لیکن اگر یہ متبادل موجود نہیں ہوتا تو پھر تمام تر لوگ بشمول حکومت میں موجود لوگ اس بات کی کوشش کرتے کہ سرکاری اسکولز کا معیار بلند کیا جائے ۔ کیونکہ اُن کے اپنے بچے بھی وہا ں پڑھتے۔

موجودہ صورتحال میں جب تعلیم درجات اور طبقات میں بٹ گئی تو سرکاری لوگوں کو اس سے کیا غرض کہ غریب کے بچے کی تعلیم کا کیا حال ہے۔ کیونکہ ان کے بچے تو بہتر نظام میں تعلیم پا رہے ہیں۔

غریب کے بچے پڑھ بھی نہیں پا رہے یا پڑھ بھی رہے ہیں تو اسی ناکارہ نظام سے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ غریب کے بچے پڑھ لکھ بھی اُسی غربت والی کلاس میں رہیں گے اور سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کے بچے طبقاتی فرق کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیشہ آگے رہیں گے۔

یعنی یہ متبادل نظام موجود نہ ہوتا تو سب کے لئے بہتری ہوتی ۔

اسی بات کو سرکاری ہسپتالوں پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے ۔

اگر سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کے علاج کے لئے بہترین نجی ہسپتال میسر نہ ہوں تو وہ لوگ کوشش کریں گے کہ سرکاری ہسپتالوں کو ہی بہتر کریں ۔ تاکہ اُن کے اپنے اور وہ خود بہتر علاج پا سکیں۔

ہمارا موجودہ نظام سرکاری عہدے داروں اور اُمراء کی خود غرضی پر مبنی ہے۔

شکریہ ۔

آپ کی اسی بات کو دیکھتے ہوئے کچھ عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہوں گی ۔ امید ہے بات پسند نہ آنے پر درگزر فرمائیں گے ۔

حکمرانوں کے بچے ان سے بھی مہنگے اسکولوں میں یا ملک سے باہر پڑھتے ہیں ۔ ان کرپٹ لوگوں کا عوام کو تعلیم دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ورنہ ڈھائی سو ارب ایک ٹرین پر خرچ کرنے کے بجائے پورے پنجاب میں اسکولوں کا جال بچھا دیتے ۔ سندہ میں اسکولوں میں اوطاقیں نہ بنائی جاتیں یا جانور نہ باندھے جاتے ۔ ان کو ووٹرز چاہیئں اس لیے یہ کبھی ایسا نہیں کریں گے ۔ چاہے پرائیویٹ اسکولز ہوں یا نہ ہوں ۔ کے پی میں جیسے ہی اسکولز بہتر ہوئے لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سےنکالا ۔

یہ بالکل بجا فرمایا آپ نے ۔ مدرسوں میں پڑھنے والے بچے بھی ایک الگ ہی دنیا کے باسی ہیں ۔ تعلیم اب غریب کی ترجیع ہے ہی نہیں ۔ وہ روٹی کے چکر سے باہر نہیں نکل پاتے ۔ جب تک لازمی تعلیم سے متعلق کوئی سخت پالیسی نہیں بنتی غریب بچوں کی تعلیم ایک خواب ہی رہے گا ۔ اس میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کیا قصور؟

جب سے اساتذہ سیاسی بنیادوں پر یا پیسے دے کر نوکری لینے لگے ہیں سرکاری اسکولوں کا معیار گر گیا ہے ۔ لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں ۔ اسکول یا تو موجود ہی نہیں یا ان کی حالت نا گفتہ بہ ہے ۔ اس میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کیا قصور؟

میں نے گرافکس کی تعلیم کے لیے ایک سرکاری ادارے میں داخلہ لیا ۔ اس کے بڑے بڑے اشتہارات اخبار میں آتے ہیں ۔ مگر میرا بےکار وقت ضائع ہوا ۔ ساری باتیں ایک طرف، محترمہ استاد کا رویہ سب بچوں کے ساتھ خاصا ہتک آمیز تھا ۔ ہر بات پر طنز اور دھمکیاں۔ اگر کچھ بات پوچھو تو صرف ایک جواب کہ کورس میں یہ شامل نہیں ۔ آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ ان کو سوفٹویرز کی بیسک چیزیں ہی معلوم ہیں - ہر روز ذہنی کوفت ہوتی تھی ۔ جیسے تیسے کورس ختم کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھی خاصی فیس دے کر داخلہ لیا اور پھر معلوم ہوا کہ کیا فرق ہے ۔ اتنا اچھا ماحول، زبردست اساتذہ، اور ہر بچے کی بات کا جواب جب تک وہ مطمئن نہ ہو جائے ۔ بتائے اگر یہ پرائیویٹ ادارے نہ ہوں تو لوگوں کا کتنا وقت ضائع ہو ۔ حالانکہ سرکاری اساتذہ کی تنخواہ کہیں زیادہ ہے مگر وہ بادشاہ لوگ ہیں اپنے آپ کو بالکل بھی اپ ڈیٹ نہیں کرتے اور بچوں کو ڈرا ڈرا کے عزت کرواتے ہیں ۔

تمام تر باتوں سے متفق ہوں۔

اور آپ کی ان باتوں کے تناظر میں مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں عار نہیں ہے کہ سرکاری اداروں کی غیر فعالیت (نا اہلی) کی موجودگی میں پرائیویٹ ادارے غنیمت ہیں۔


اگ ایسا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔

خود میں نے چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک گورنمنٹ اسکول میں پڑھا۔ اور وہ اُس وقت بہت اچھا اسکول تھا اور مجھے اُس اسکول سے پڑھنے پر کبھی ندامت نہیں ہوئی۔

بہرکیف ہماری گفتگو موضوع سے بالکل ہٹ گئی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ منتظمین یہ سوچیں کہ "رکھیں یا پھینکیں"۔ :)

مسئلہ یہ ہے کہ ہم طبقاتی تفریق کا اس بری طرح شکار ہیں کہ اس کو نارمل سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ میں احمد کی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔ اگر بلا تفریق ہر کسی پر صرف سرکاری اداروں ہی سے مستفید ہونے کی پابندی ہوتی تو شاید ان اداروں میں بہتری آتی لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ امرا کے پاس بہترین آپشن موجود ہوتے ہیں اور سفید پوش طبقہ انھی امرا کے کاروباری مقاصد کے تحت قائم شدہ اداروں میں اپنی جمع پونجی لٹاتا پھرتا ہے۔
مجھے پاکستان میں اس سطح پر کام کرتے لگ بھگ ایک دہائی ہونے کو ہے جہاں میرا رابطہ پاکستان کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بڑے بڑے ناموں کے مالکان اور انتظامیہ سے بھی ہوتا رہتا ہے۔ سب کاروبار ہے۔ مجھے یہ خوش فہمی تھی اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ چلو کسی حد تک لوگوں کو ان اداروں کے ذریعے روزگار تو مل رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر اداروں میں لوگوں کی مجبوریوں کو خریدا جاتا ہے اور بھاو تاو کر کے اساتذہ رکھے جاتے ہیں۔ ان اساتذہ کا تدریسی میعار میں بھی اسی لحاظ سے ہوتا ہے پھر۔
باقی رہی بات طلبہ کی تو میری کچھ عرصہ پہلے کی ایک چھوٹے سے لیول کی تحقیق سے ایک دلچسپ بات سامنے آئی کہ اس وقت بڑے بڑے اداروں، سرکاری و غیر سرکاری میں جتنے نوجوان افسر ہیں زیادہ تر مہنگے ترین پرائیویٹ اداروں سے تحصیل یافتہ ہیں اور اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں عام آدمی کی روزمرہ زندگی کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ حتی کہ پاکستان کے جغرافیہ و تاریخ سے بھی اسی حد تک آگہی ہوتی ہے جتنی بورڈ یا کیمبرج کے امتحان پاس کرنے کے لیے ضروری ہے۔
خیر یہ ایک طویل بحث ہے۔ اور اس لڑی کے عنوان سے میل بھی نہیں کھاتی تو بات ختم کرتی ہوں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم نے یہ سود مند گفتگو (ہمارے خیال کے مطابق ) اس لڑی میں اکھٹی کر دی ہے۔ تاکہ اگرممکن ہو تو مزید بات ہو سکے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مسئلہ یہ ہے کہ ہم طبقاتی تفریق کا اس بری طرح شکار ہیں کہ اس کو نارمل سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔

افسوس!

اگر بلا تفریق ہر کسی پر صرف سرکاری اداروں ہی سے مستفید ہونے کی پابندی ہوتی تو شاید ان اداروں میں بہتری آتی لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ امرا کے پاس بہترین آپشن موجود ہوتے ہیں اور سفید پوش طبقہ انھی امرا کے کاروباری مقاصد کے تحت قائم شدہ اداروں میں اپنی جمع پونجی لٹاتا پھرتا ہے۔
درست!
مجھے پاکستان میں اس سطح پر کام کرتے لگ بھگ ایک دہائی ہونے کو ہے جہاں میرا رابطہ پاکستان کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بڑے بڑے ناموں کے مالکان اور انتظامیہ سے بھی ہوتا رہتا ہے۔ سب کاروبار ہے۔ مجھے یہ خوش فہمی تھی اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ چلو کسی حد تک لوگوں کو ان اداروں کے ذریعے روزگار تو مل رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر اداروں میں لوگوں کی مجبوریوں کو خریدا جاتا ہے اور بھاو تاو کر کے اساتذہ رکھے جاتے ہیں۔ ان اساتذہ کا تدریسی میعار میں بھی اسی لحاظ سے ہوتا ہے پھر۔

سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ یہ ادارے تعلیم کو ناصرف کاروبار بلکہ نرا کاروبار سمجھتے ہیں۔ اور اُن کے رات دن اسی خیال میں گزرتے ہیں کہ مزید کمائی کس طرح ہو۔

باقی رہی بات طلبہ کی تو میری کچھ عرصہ پہلے کی ایک چھوٹے سے لیول کی تحقیق سے ایک دلچسپ بات سامنے آئی کہ اس وقت بڑے بڑے اداروں، سرکاری و غیر سرکاری میں جتنے نوجوان افسر ہیں زیادہ تر مہنگے ترین پرائیویٹ اداروں سے تحصیل یافتہ ہیں اور اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں عام آدمی کی روزمرہ زندگی کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ حتی کہ پاکستان کے جغرافیہ و تاریخ سے بھی اسی حد تک آگہی ہوتی ہے جتنی بورڈ یا کیمبرج کے امتحان پاس کرنے کے لیے ضروری ہے۔

پھر سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کو جیسے تیسے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھوالیتے ہیں اُنہیں سرکاری اسکولوں کے معیار سے کوئی واسطہ نہیں رہتا۔ یعنی ہم لوگ خود غرضی برتتے ہوئے اپنے معاملات درست کر لیتے ہیں اور سرکاری تعلیمی نظام پر بات تک کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
احمد بھائی سوال کچھ یوں بنتا ہے کہ ہمارے نجی تعلیمی ادارے تعلیم کے فروغ کے لئیے مددگار ہیں یا نہیں؟؟؟
یہ سب بس ایک بزنس بن چکا ہے اور کچھ نہیں۔۔۔ کتابیں اٹھائیں کوئی میعار نہیں۔۔۔۔ بچے کو تین سال کی عمر سے ڈال دو اس گدھوں کی دوڑ میں۔۔۔۔ نہ ڈالو تو مسائل ڈالو تو مسائل۔۔۔۔ کرونا کا شکریہ فاطمہ ۵ سال کی ہوگئی ہے اور سکول کی شکل تک نہیں دیکھی (میں اس چیز کے حق میں نہیں کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں بچہ ۸ سے ۱ بجے تک "تعلیم" حاصل کرے۔۔۔ کیونکہ پھر یہ مائنڈ سیٹ بن جاتا کہ اس کے علاوہ کوئی تعلیم نہیں) سرکاری ادارے یا نجی ادارے سب کا مقصد بس گھوڑے اور گدھے تیار کرنا ہے جو ریس میں دوڑیں گے۔۔۔۔ اتنے اتنے نمبر ہیں بچوں کے مجھے دیکھ دیکھ کر پریشانی ہوتی۔۔۔۔ اتنے ینگ بچوں میں ڈیپریشن کیسے زور پکڑ رہا ہے۔۔۔۔۔ والدین الگ پریشان ہیں کہ طاقت سے بڑھ کر کرتے ہیں بچے بھی جان مار دیتے حاصل صفر ہے۔۔۔۔۔۔۔ کس کا قصور ہے؟ کیا تعلیم چاہے کم ہو یا زیادہ اس سب تک لے آتی ایک معاشرے کو جہان تک ہم پہنچ گئے ہیں؟؟؟
 

ثمین زارا

محفلین
مسئلہ یہ ہے کہ ہم طبقاتی تفریق کا اس بری طرح شکار ہیں کہ اس کو نارمل سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ آپ کی تمام باتیں درست ہوں کہ ہر شخص کے اپنے اپنے تجربات اس کو ایک مخصوص سوچ تک لے جاتے ہیں ۔ مگر مجھے ایسا کہنے کی اجازت دیجیے کہ اسکولز کے انتخاب میں عموما والدین اپنے بچوں کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس زمانے میں جو بھی بہترین میسر ہو دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آج کل کون اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں ڈال سکتا ہے ؟
میں احمد کی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔ اگر بلا تفریق ہر کسی پر صرف سرکاری اداروں ہی سے مستفید ہونے کی پابندی ہوتی تو شاید ان اداروں میں بہتری آتی
یہ بات صد فی صد درست ہے مگر یہ حکومت کا ذمہ ہے عوام کیا کر سکتی ہے ۔ صرف سرکاری اداروں ہی سے مستفید ہونے کی پابندی ظاہر ہے حکومت قانونی طور پر ہی لگا سکتی ہے ۔ مگر اس کے لیے حکومت کو اسکولوں کو ٹھیک کرنا ہو گا،قانون سازی کرنا ہو گی، بالفاظ دیگر کام کرنا ہو گا جس کا فی الحال ہمارے صوبے میں تو کوئی امکان نہیں ہے یعنی حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ۔ اٹھارویں ترمیم کے باعث۔
لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ امرا کے پاس بہترین آپشن موجود ہوتے ہیں اور سفید پوش طبقہ انھی امرا کے کاروباری مقاصد کے تحت قائم شدہ اداروں میں اپنی جمع پونجی لٹاتا پھرتا ہے۔
جب تک ان اداروں کا حصہ نہ بنا جائے ایسے خیالات آ سکتے ہیں ۔ سفید پوش طبقہ ہونا ایک بات اور احمق ہونا دوسری بات ہے ۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں پیسے کا درست استعمال کرنا کوئی برائی نہیں ۔ ہم لوگ آئے دن باہر کے مہنگے کھانے اور بے جا خریداری پر اپنا پیسا اڑانے کو بالکل غلط نہیں سمجھتے ۔ یہی پیسہ تعلیم پر لگایا جائے تو کیا مضائقہ ہے ۔
مجھے پاکستان میں اس سطح پر کام کرتے لگ بھگ ایک دہائی ہونے کو ہے جہاں میرا رابطہ پاکستان کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بڑے بڑے ناموں کے مالکان اور انتظامیہ سے بھی ہوتا رہتا ہے۔ سب کاروبار ہے۔ مجھے یہ خوش فہمی تھی اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ چلو کسی حد تک لوگوں کو ان اداروں کے ذریعے روزگار تو مل رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر اداروں میں لوگوں کی مجبوریوں کو خریدا جاتا ہے اور بھاو تاو کر کے اساتذہ رکھے جاتے ہیں۔ ان اساتذہ کا تدریسی میعار میں بھی اسی لحاظ سے ہوتا ہے پھر۔
جی بنیادی طور یہ کاروباری ادارے ہیں ۔ آپ کی بات درست ہے ۔ پر سرکاری اسکولوں کے اساتذہ سے بھی ملیے اور ان کے سربراہان سے بھی ۔ ان کی قابلیت دیکھیے تو لگ پتہ جائے گا ۔ اسکولوں میں واش روم تک تو نہیں ۔ اساتذہ اول تو آتے نہیں آتے ہیں تو گائڈ بکس وغیرہ سے پڑھا دیتے ہیں ۔ ہماری ماسی کی بچی ساتویں جماعت میں تھی اور صحیح سے اردو تک نہ آتی تھی ۔ اب ماسی نے اسکول سے نکال کر اپنے ساتھ ہی کام پر لگا لیا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ٹیچرز آتے ہی نہیں ۔ یہ حال ہے ۔
باقی رہی بات طلبہ کی تو میری کچھ عرصہ پہلے کی ایک چھوٹے سے لیول کی تحقیق سے ایک دلچسپ بات سامنے آئی کہ اس وقت بڑے بڑے اداروں، سرکاری و غیر سرکاری میں جتنے نوجوان افسر ہیں زیادہ تر مہنگے ترین پرائیویٹ اداروں سے تحصیل یافتہ ہیں اور اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں عام آدمی کی روزمرہ زندگی کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ حتی کہ پاکستان کے جغرافیہ و تاریخ سے بھی اسی حد تک آگہی ہوتی ہے جتنی بورڈ یا کیمبرج کے امتحان پاس کرنے کے لیے ضروری ہے۔
خیر یہ ایک طویل بحث ہے۔ اور اس لڑی کے عنوان سے میل بھی نہیں کھاتی تو بات ختم کرتی ہوں۔
اب دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے اور حقائق ایک کلک کی نوک پر ہیں ۔ ہم یہاں سے پڑھ کو جب غیر ممالک میں کامیاب زندگی گذار سکتے ہیں، اس ملک کو سمجھ سکتے ہیں ، اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں (اپنے بہن بھائی کی بات کر رہی ہوں) تو پاکستان میں کیوں نہیں کر سکتے ۔ایک بڑے لیول کی تحقیق جس میں ایک صحیح سیمپلیگ لی گئی ہو زیادہ حقیقی نتائج دے سکتی ہے ۔ ان اسکولوں کو بند کرنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ان سے بہتر تعلیمی نظام لایا جائے تو یہ آپ اپنی موت مر جائیں گے ۔ ایک زمانے میں سرکاری اسکولوں کا ہی راج تھا اور لوگ ان میں سے نکل کر ہر بڑے ادارے کے اعلیٰ افسران تھے ۔ مگر اس وقت سرکاری اسکولوں کا ایسا حشر نشر نہیں تھا ۔آپ نے بجا فرمایا کہ یہ ایک طویل بحث ہے ۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
نجی ادارے کا مقصد ظاہر ہے کہ اچھا منافع کمانا ہے اور اسی مقصد کے لیے وہ اپنے کاروبار میں ہر ممکن بہتری لائے گا کہ صارف مطمئن ہو۔ نجی سکول کا یہ کاروبار اور منافع کمانے کی یہ جستجو غلط تو نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
نجی ادارے کا مقصد ظاہر ہے کہ اچھا منافع کمانا ہے اور اسی مقصد کے لیے وہ اپنے کاروبار میں ہر ممکن بہتری لائے گا کہ صارف مطمئن ہو۔ نجی سکول کا یہ کاروبار اور منافع کمانے کی یہ جستجو غلط تو نہیں ہے۔
کاش کہ وہ بہتری واقعی فائدہ مند ہوتی بچوں کے لئیے۔۔۔۔۔ پھر تو میں کہتی بھی کہ واقعی یہ جستجو غلط نہیں۔۔۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
بہت سے پوائنٹس ہیں لیکن فلحال ایک ہی لکھوں گی: پاکستان میں بہت سے نجی سکولوں نے تعلیمی اداروں کا جال بچھایا ہوا ہے (حقیقتاً). ایک سکول جوکہ لاہور کراچی اسلام آباد یا ملک کے کسی بڑے شہر میں ہے وہی سکول ایک چھوٹے قصبے میں بھی ہے۔۔۔۔ جتنی فیس شہر والے لے رہے ہیں، جتنی "کھپ" انہوں نے ڈالی ہوئی والدین کو اتنی ہی دوم ذکر سکول لے رہا ہے کیونکہ انتظامیہ تو ایک ہی ہے (فیس لینے کے معاملے میں)... لیکن جب آپ تعلیمی میعار پر آئیں گے تو انہی دو اداروں کے بچوں کو سائڈ بائے سائڈ کھڑا کرنے پر آپ کو واضح فرق محسوس ہوگا اس تمام "تعلیم" میں جو کنوے کی گئی۔۔۔۔ کیونکہ "تعلیم" کامپرومائزڈ ہے۔۔۔۔۔ فائننشل سسٹم ایک ہی مگر ایجوکیشنل سسٹم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔۔ اور یہ بات میں اپنے تجربے سے کہہ رہی ہوں۔
 
آخری تدوین:
نجی ادارے کا مقصد ظاہر ہے کہ اچھا منافع کمانا ہے اور اسی مقصد کے لیے وہ اپنے کاروبار میں ہر ممکن بہتری لائے گا کہ صارف مطمئن ہو۔ نجی سکول کا یہ کاروبار اور منافع کمانے کی یہ جستجو غلط تو نہیں ہے۔
قانونی طور پر تو شاید نہ ہو تاہم سرمایہ دارانہ نظام کا سماجی فلاح و بہبود کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف منافع کی جستجو میں رہنا کم از کم میرے نزدیک تو کسی طرح بھی قابلِ تعریف نہیں ہے۔
 

ثمین زارا

محفلین
نجی ادارے کا مقصد ظاہر ہے کہ اچھا منافع کمانا ہے اور اسی مقصد کے لیے وہ اپنے کاروبار میں ہر ممکن بہتری لائے گا کہ صارف مطمئن ہو۔ نجی سکول کا یہ کاروبار اور منافع کمانے کی یہ جستجو غلط تو نہیں ہے۔
جب تک کسی ادارے کی فرسٹ ہینڈ نالج نہ ہو اس وقت تک اس کے بارے میں لوگ ابہام کا شکار ہی رہتے ہیں ۔ سب کچھ اگرچہ اچھا نہیں مگر ایسا غلط بھی نہیں ۔ سوائے اس کے کہ یہ کاروباری اادارے ہیں فلاحی نہیں ۔ ہر پرائیویٹ ادارے میں ایسا ہی ہے کہ وہ منافع کو ترجیع دیتے ہیں ۔ ایک برگر ٹھیلے پر 50 روپے کا دستاب ہے اور فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹ پر 500- 600 تک کا بھی ۔ مگر کس کس چیز کا فرق ہے سب جانتے ہیں ۔ اگر سرکاری ادارے اس نہج تک نہ پہنچ جاتے تو لوگ کیوں اپنے ریسورسز کا بڑا حصہ تعلیم پر لگاتے ۔ اس کا آسان حل یہی ہو سکتا ہے کہ جو جس طرح مطمئن ہو ویسا ہی ادارہ منتخب کر لے اپنے بچوں کے لیے ۔
جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
 

ثمین زارا

محفلین

زیک

مسافر
بات نجی تعلیمی اداروں کی ہو رہی ہے لیکن comparative analysis زیادہ اہم ہے۔ نجی سکولوں کا مقابلہ سرکاری سکولوں سے کریں۔ یہ کس لحاظ سے بہتر اور کس انداز میں بدتر ہیں؟
 

ماہی احمد

لائبریرین
جب تک کسی ادارے کی فرسٹ ہینڈ نالج نہ ہو اس وقت تک اس کے بارے میں لوگ ابہام کا شکار ہی رہتے ہیں ۔ سب کچھ اگرچہ اچھا نہیں مگر ایسا غلط بھی نہیں ۔ سوائے اس کے کہ یہ کاروباری اادارے ہیں فلاحی نہیں ۔ ہر پرائیویٹ ادارے میں ایسا ہی ہے کہ وہ منافع کو ترجیع دیتے ہیں ۔ ایک برگر ٹھیلے پر 50 روپے کا دستاب ہے اور فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹ پر 500- 600 تک کا بھی ۔ مگر کس کس چیز کا فرق ہے سب جانتے ہیں ۔ اگر سرکاری ادارے اس نہج تک نہ پہنچ جاتے تو لوگ کیوں اپنے ریسورسز کا بڑا حصہ تعلیم پر لگاتے ۔ اس کا آسان حل یہی ہو سکتا ہے کہ جو جس طرح مطمئن ہو ویسا ہی ادارہ منتخب کر لے اپنے بچوں کے لیے ۔
جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
آپکی بات اپنی جگہ درست ہے۔۔۔۔ لیکن یہ بھی دیکھیے کہ چھوٹے قصبوں وغیرہ میں یہ صورتحال کتنی خراب ہے کہ والدین "نسبتاً" بہتر ماحول کے لئیے اتنا ہی پے کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ یعنی وہ مجبور ہیں ایسی صورتحال میں۔۔۔
 
آخری تدوین:
پبلک سکولز کا معیار ہی بہتر بنانے کی ضرورت ہے. گلی گلی میں کھلے نجی تعلیمی اداروں کا معیار کچھ اتنا خاص نہیں کہ ان کے حق میں آواز بلند کی جائے. سکولز بڑے پیمانے پر تمام نصابی و غیر نصابی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جانے چاہیئیں۔ دوسرا یہ کہ انٹرنیٹ کے دور میں خود آموزی یعنی سیلف لرننگ کی طرف زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔
 

بابا-جی

محفلین
میرٹ پر سرکاری سکولوں میں کُچھ عرصہ سے بھرتیاں ہُوئی ہیں، اُس کے اثرات مگر نظر نہیں آتے ہیں ماسوائے چند سرکاری سکولوں کے، جو کسی نہ کسی وجہ سے معروف ہوئے اور اُن کا کسی سطح کا عُمدہ معیار قائم ہو گیا۔ اِس ابتر صورت حال میں پرائیویٹ سکولز غنیمت ہیں مگر مُنافع بہت زیادہ کما رہے ہیں، اور والدین کا بُرا حال ہے۔ درمیانے درجے کے پرائیویٹ سکُول کا معیار سرکاری سکول کے معیار سے بھی کم ہو گا۔ جو ادارے پرائیویٹ سیکٹر میں اعلیٰ معیار کے ساتھ چل رہے ہیں، اُن کی فیسیں بہت ہی زیادہ ہیں اور شاید وُہ اتنی فیسیں نہ لیں تو چل بھی نہ پائیں کِہ مالکان اِن اداروں کو شاید خدمتِ خلق سمجھ کر نہیں چلاتے اور وُہ اس سوچ میں خُود مختار ہیں کِہ فی زمانہ چلن یہی ہے، وُہ بھی کیا کریں۔
 

عثمان

محفلین
قانونی طور پر تو شاید نہ ہو تاہم سرمایہ دارانہ نظام کا سماجی فلاح و بہبود کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف منافع کی جستجو میں رہنا کم از کم میرے نزدیک تو کسی طرح بھی قابلِ تعریف نہیں ہے۔
کسی پرائیوٹ سکول کا معیار منافع کی جستجو کی وجہ سے ہی بہتر ہوتا ہے۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
کسی پرائیوٹ سکول کا معیار منافع کی جستجو کی وجہ سے ہی بہتر ہوتا ہے۔
یہ جستجو وہ بھوک ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔ اور رہی بات میعار کی تو اللہ کہ نیک بندو موجودہ منافع پر بھی تو کوئی بہتری نظر آئے نا!!! کہ بس جستجو اور منافع کی گیم رہے گی اور میعار محض ایک ایسا گول جو کبھی ایچیو نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔
 

عثمان

محفلین
یہ جستجو وہ بھوک ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔ اور رہی بات میعار کی تو اللہ کہ نیک بندو موجودہ منافع پر بھی تو کوئی بہتری نظر آئے نا!!! کہ بس جستجو اور منافع کی گیم رہے گی اور میعار محض ایک ایسا گول جو کبھی ایچیو نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔
اگر پرائیوٹ سکول کا معیار آپ کو نسبتاً بہتر محسوس نہ ہوتا تو آپ اس کی فیس کیوں ادا کرتیں؟
 
Top