امجد اسلام امجد ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی

سارہ خان

محفلین
ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
دیوار پر لِكھی ہُوئی تحریر جو بھی تھی

ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال
مِل جُل كے اپنی قوم كی تصویر جو بھی تھی

جو سامنے ہے، سب ہے یہ، اپنے كئے كا پھل
تقدیر كی تو چھوڑئیے، تقدیر جو بھی تھی

قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں
ملبے كے مول بِك گئی، تعمیر جو بھی تھی

طالب ہیں تیرے رحم كے ہم عَدل كے نہیں
جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی

ہاتھوں پہ كوئی زخم نہ پیروں پہ كُچھ نشاں
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی

یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت كا ایك درس تھی، تحریر جو بھی تھی

(امجد اسلام امجد )
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب سارہ خان ۔
جو سامنے ہے، سب ہے یہ ، اپنے كئے كا پھل
تقدیر كی تو چھوڑئیے، تقدیر جو بھی تھی

بہت عمدہ انتخاب ہے ۔
 

عمر سیف

محفلین
ہاتھوں پہ كوئی زخم نہ پیروں پہ كُچھ نشاں
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی


خوب ۔۔۔۔
 
Top