سراج الدین ظفر ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے ۔ سراج الدین ظفرؔ

فرخ منظور

لائبریرین
ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے
میزان ِ دلبری پہ انہیں تولتے رہے

عکسِ جمالِ یار بھی کیا تھا، کہ دیر تک
آئینے قُمریوں کی طرح بولتے رہے

کل شب ہمارے ہاتھ میں جب تک سُبو رہا
اسرار کتمِ راز میں پر تولتے رہے

کیا کیا تھا حل مسئلۂ زندگی میں لطف
جیسے کسی کا بندِ قبا کھولتے رہے

ہر شب شبِ سیاہ تھی لیکن شراب سے
ہم اُس میں نورِ صبحِ ازل گھولتے رہے

پوچھو نہ کچھ کہ ہم سے غزالانِ بزمِ شب
کس شہرِ دلبری کی زباں بولتے رہے

ہم متقیِ شہرِ خرابات رات بھر
تسبیحِ زلفِ ماہ وشاں رولتے رہے

کل رات ملتفت تھے اِدھر کچھ نئے غزال
ہم بھی نظر نظر میں انھیں تولتے رہے

تا صبح جبرئیل کو ازبر تھا حرف حرف
راتوں کو جو سُرور میں ہم بولتے رہے

اتنی کہانیاں تھی کسی زُلف میں کہ ہم
ہر رات ایک دفترِ نو کھولتے رہے

کل رات میکشوں نے توازن جو کھو دیا
خط ِ سُبو پہ کون و مکاں ڈولتے رہے

پہلے تو خود کو عشق میں حل ہم نے کر دیا
پھر عشق کو شراب میں ہم گھولتے رہے

روکا ہزار بزم نے ہنگامِ مے کشی
ہم تھے، کہ رازِ ارض و سما کھولتے رہے

کل شب تھا ذکرِ حُور بھی ذکرِ بتاں کے ساتھ
زُہد و صفا اِدھر سے اُدھر ڈولتے رہے

اپنا بھی وزن کر نہ سکے لوگ، اور ہم
روحِ ورائے روح کو بھی تولتے رہے

سرمایۂ ادب تھی ہماری غزل ظفرؔ
اشعار ِ نغز تھے، کہ گُہر رولتے رہے

(سراج الدین ظفرؔ)
 
Top