گمراہ اماموں اور امت میں پھوٹ سے متعلق احادیث

فہد مقصود

محفلین
مجھے اپنی امت پر گمراہ اماموں کا خوف ہے

مجھے اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ ایک چیز کا ڈر ہے
1 ۔
كنت أمشِي مع رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال لغيرُ الدجالِ أخوفني على أمَّتي قالها ثلاثًا قال قلت يا رسولَ اللهِ ما هذا الذي غيرُ الدجالِ أخوفُك على أمتِك قال أئمةٌ مضلينَ
الراوي : أبو ذر الغفاري | المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد
الصفحة أو الرقم: 5/2411 | خلاصة حكم المحدث : فيه ابن لهيعة وحديثه حسن وفيه ضعف ، وبقية رجاله ثقات

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مجھے اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ ایک چیز کا ڈر ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہی بات ارشاد فرمائی
سیدنا ابور ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں
میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ وسلم
آپ کو اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ کس چیز کا خوف ہے
فرمایا : گمراہ اماموں کا

( اس حدیث کی سند میں ابن لهيعة ہیں جو ضعيف الحديث ہیں اور یہ مختلط بھی ہوگئے تھے
لیکن اس حدیث کی اور بھی سندیں اور شواہد { جو آگے بیان ہوں گے ان شاء اللہ } ہیں جو اسے صحت کے درجے تک پہنچاتے ہیں ۔)
البانی رحمہ اللہ نے اس کے طرق نقل کیے ہیں اور اسے صحیح کہا ہے اور اسے '' سلسلة الأحاديث الصحيحة " (1582) ، (1989) میں نقل کیا ہے
حافظ العراقي نے اس کی سند کو جید کہا ہے " تخريج الإحياء " (ص72)
شيخ أحمد شاكر نے " تحقيق مسند أحمد " میں کہا ہے : إسناده حسن : (1/150)
اور اسی طرح ابن كثير نے " مسند الفاروق " (2/535) میں ،اورمناوي نے " التيسير " (2/ 1622) اسے نقل کیا ہے
ابن تيمية رحمه الله نے کہا :
گمراہ اماموں والی حدیث محفوظ ہے اور اس کی اصل صحیح میں ہے
''بيان تلبيس الجهمية " (2/293) .
اور کہا :
گمراہ اماموں سے امراء مراد ہیں " مجموع الفتاوى" (1/355) .
سندي نے " حاشية ابن ماجة " (2/465) میں لکھا :
'' ( گمراہ امام ) یعنی جو مخلوق کو بدعت کی طرف بلائیں " .
شيخ ابن عثيمين رحمه الله نے کہا :
گمراہ امام یعنی شر کے امام
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا :میں اپنی امت پر گمراہ کن اماموں سے ڈرتاہوں
دوسرے فرقوں کے بانی جن کی وجہ سے امت تفرقہ کا شکار ہوئی
گمراہ آئمہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین کے نام پر لوگوں کی قیادت کرتے ہیں
اس میں فاسد حکام اور گمراہ علماء شامل ہیں
ان کا دعوی یہ ہوتا ہے کہ وہ شریعت کی طرف بلارہے ہیں
حقیقت میں شریعت کے سب سے زیادہ مخالف ہوتے ہیں

'' القول المفيد على كتاب التوحيد " (1/365) .
بشکریہ اسلام سول جوب

2 ۔
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم (بَابُ مَا جَاءَ فِي الأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ)
جامع ترمذی: كتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں (باب: گمراہ کرنے والے حکمرانوں کابیان)
22299 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ يَخْذُلُهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ وَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ فَقَالَ عَلِيٌّ هُمْ أَهْلُ الْحَدِيثِ
حکم : صحیح

2229 . سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' میں اپنی امت پر گمراہ کن اماموں (حاکموں) سے ڈرتا ہوں ''
۱؎ ، نیز فرمایا : '' میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر غالب رہے گی ، ان کی مدد نہ کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے ''۔

امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے

3 ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ (بَابُ ذِكْرِ الْفِتَنِ وَدَلَائِلِهَا)
سنن ابو داؤد: کتاب: فتنوں اور جنگوں کا بیان (باب: فتنوں کا بیان اور ان کے دلائل)
4252 . وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ ... (الحدیث)
حکم : صحیح

4252 . سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مجھے اپنی امت پر گمراہ اماموں کا خوف ہے ۔ ''


4 ۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ (بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ)
صحیح مسلم: کتاب: فتنے اور علامات ِقیامت (باب: مسیح دجال کابیان)
73733 . عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَقَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ .... (الحدیث)
حکم : صحیح

7373 .سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی ، انھوں نے کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (کے ذکر کے دوران) میں کبھی آواز دھیمی کی کبھی اونچی کی ۔ یہاں تک کہ ہمیں ایسے لگا جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔ جب شام کو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (دوبارہ) آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں اس (شدید تاثر) کو بھانپ لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا " تم لوگوں کو کیا ہوا ہے ؟" ہم نے عرض کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر فرمایا تو آپ کی آواز میں (ایسا) اتار چڑھاؤ تھا کہ ہم نے سمجھا کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے ۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" مجھے تم لوگوں (حاضرین ) پر دجال کے علاوہ دیگر (جہنم کی طرف بلانے والوں ) کا زیادہ خوف ہے اگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لیے ) دلائل دینے والا میں ہوں گا اور اگر وہ نکلا اور میں موجود نہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والا خود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان ) ہوگا ۔


مجھے اپنی امت پر گمراہ اماموں کا خوف ہے

۱۔ ترجمہ : میرے بعد ایسے امام ہونگے جو میری راہ پر نہیں چلیں گے اور نہ میری سنتوں پر چلیں گے بلکہ ان مین ایسے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے جسم ضرور انسانوں کے ہوں گے لیکن ان کے دل شیاطین کے ہوں گے ۔۔ ( مسلم )

۲۔ ترجمہ : ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ گمراہ اماموں کا خوف ہے اور جس وقت میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو ان سے قیامت تک نہ اٹھائی جائے گی ( ابو داؤد،ترمذی ) :::

۳۔ ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ آخری زمانہ میں ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے ساتھ دنیا کو طلب کریں گے ۔ نرمی ظاہر کرنے کے لئے لوگوں کے لئے بھیڑ کی کھال پہن لیں گے ان کی زبان شکر سے زیادہ شیریں ہوگی اور ان کے دل بھیڑیوں جیسے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا وہ میرے ساتھ مغرور ہوتے ہے اور کیا وہ مجھ پر جراَت کرتے ہے میں اپنی زات کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان لوگوں پر ایسا فتنہ مسلط کروں گا جو عقلمند آدمی کو حیران کردے گا ( ترمذی ) !!

فتنے اور فرقے علماء سوء پیدا کرتے ہے !!!!
 

فہد مقصود

محفلین
سورة الانعام - آیت 63

قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

کہو : خشکی اور سمندر کی تاریکیوں سے اس وقت کون تمہیں نجات دیتا ہے جب تم اسے گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارتے ہو، (اور یہ کہتے ہو کہ) اگر اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا تو ہم ضرور بالضرور شکر گزار بندوں میں شامل ہوجائیں گے ؟

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد


تفسیر: ابن کثیر ۔ حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

احسان فراموش نہ بنو اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرماتا ہے کہ ’ جب تم خشکی کے بیابانوں اور لق و دق سنسان جنگلوں میں راہ بھٹکے ہوئے قدم قدم پر خوف و خطر میں مبتلا ہوتے ہو اور جب تم کشتیوں میں بیٹھے ہوئے طوفان کے وقت سمندر کے تلاطم میں مایوس و عاجز ہو جاتے ہو ۔ اس وقت اپنے دیوتاؤں اور بتوں کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو ‘ ۔ یہی مضمون قرآن کریم کی آیت «وَاِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ» ۱؎ (17-الاسراء:67) میں اور آیت «ھُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ» ۱؎ (10-یونس:22) میں اور آیت «اَمَّنْ یَّہْدِیْکُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ یٰرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ تَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ» ۱؎ (27-النمل:63) میں بھی بیان ہوا ہے ۔ «تَضَرٰعًا وَخُفْیَۃً» کے معنی «جَہْرًا أَوْ سِرًّا» یعنی بلند آواز اور پست آواز کے ہیں ۔ الغرض اس وقت صرف اللہ کو ہی پکارتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس وقت سے نجات دے گا تو ہم ہمیشہ تیرے شکر گزار رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ باوجود اس عہد و پیمان کے ادھر ہم نے انہیں تنگی اور مصیبت سے چھوڑا اور ادھر یہ آزاد ہوتے ہی ہمارے ساتھ شرک کرنے لگے اور اپنے جھوٹے معبودوں کو پھر پکارنے لگے ‘ ۔

پھر فرماتا ہے ’ کیا تم نہیں جانتے کہ جس اللہ نے تمہیں اس وقت آفت میں ڈالا تھا وہ اب بھی قادر ہے کہ تم پر کوئی اور عذاب اوپر سے یا نیجے سے لے آئے ‘ ۔ جیسے کہ سورۃ سبحان میں آیت «رَبٰکُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَکُمُ الْفُلْکَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّہٗ کَانَ بِکُمْ رَحِ۔یْمًا وَإِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِیَّاہُ فَلَمَّا نَجَّاکُمْ إِلَی الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْإِنسَانُ کَفُورًا أَفَأَمِنتُمْ أَن یَخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَکُمْ وَکِیلًا أَمْ أَمِنتُمْ أَن یُعِیدَکُمْ فِیہِ تَارَۃً أُخْرَیٰ فَیُرْسِلَ عَلَیْکُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیحِ فَیُغْرِقَکُم بِمَا کَفَرْتُمْ ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَکُمْ عَلَیْنَا بِہِ تَبِیعًا» ۱؎ (17 ۔ الاسراء:69-66) تک بیان فرمایا ۔ یعنی ’ تمہارا پروردگار وہ ہے جو دریا میں تمہارے لیے کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل حاصل کرو اور وہ تم پر بہت ہی مہربان ہے ۔ لیکن جب تمہیں دریا میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو جن کی تم عبادت کرتے رہتے تھے وہ سب تمہارے خیال سے نکل جاتے ہیں اور صرف اللہ ہی کی طرف لو لگ جاتی ہے ، پھر جب وہ تمہیں خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ پھیر لیتے ہو فی الواقع انسان بڑا ہی ناشکرا ہے کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ تمہیں خشکی میں ہی دھنسا دے یا تم پر آندھی کا عذاب بھیج دے پھر تم کسی کو بھی اپنا کار ساز نہ پاؤ ۔ کیا تم اس بات سے بھی نڈر ہو کہ وہ تمہیں پھر دوبارہ دریا میں لے جائے اور تم پر تندو تیز ہوا بھیج دے اور تمہیں تمہارے کفر کے باعث غرق کر دے تو پھر کسی کو نہ پاؤ جو ہمارا پیچھا کر سکے ‘ ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اوپر نیچے کے عذاب مشرکوں کیلئے ہیں “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس آیت میں اسی امت کو ڈرایا گیا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے معافی دے دی “ ۔ ہم یہاں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں اور آثار بیان کرتے ہیں ملاحظہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ پر ہمارا بھروسہ ہے اور اس سے ہم مدد چاہتے ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے
{ «یَلْبِسَکُمْ» کے معنی «یَخْلِطَکُمْ» کے ہیں یہ لفظ «اِلْتِبَاسِ» سے ماخوذ ہے «شِیَعًا» کے معنی «فِرَقًا» کے ہیں ۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ ’ اللہ قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے عذاب نازل فرمائے ‘ ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ { یا اللہ میں تیرے پر عظمت و جلال چہرہ کی پناہ میں آتا ہوں } ، اور جب یہ سنا کہ نیچے سے عذاب لے آئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی ۔ پھر یہ سن کر کہ ’ یا وہ تم میں اختلاف ڈال دے اور تمہیں ایک دوسرے سے تکلیف پہنچے ‘ ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { یہ بہت زیادہ ہلکا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4628)

ابن مردویہ کی اس حدیث کے آخر میں جابر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ { اگر اس آپس کی ناچاقی سے بھی پناہ مانگتے تو پناہ مل جاتی } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:32/3:ضعیف) مسند میں ہے

{ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { یہ تو ہونے والا ہی ہے اب تک یہ ہوا نہیں }} ۔
۱؎ (مسند احمد:171/1:ضعیف) یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں ۔


مسند احمد میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
{ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنی معاویہ میں گئے اور دور رکعت نماز ادا کی ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی مناجات کی اور فرمایا : { میں نے اپنے رب سے تین چیزیں طلب کیں ایک تو یہ کہ میری تمام امت کو ڈبوئے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ چیز عطا فرمائی ، پھر میں نے دعا کی کہ میری عام امت کو قحط سالی سے اللہ تعالیٰ ہلاک نہ کرے ، اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا بھی قبول فرمائی پھر میں نے دعا کی کہ ان میں آپس میں پھوٹ نہ پڑے میری یہ دعا قبول نہ ہوئی } }
۔ صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2890)


مسند احمد میں ہے
{ سیدنا عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے پاس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بنی معاویہ کے محلے میں آئے اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ ” جانتے ہو تمہاری اس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کس جگہ پڑھی ؟ “ میں نے مسجد کے ایک کونے کو دکھا کر کہا یہاں پھر پوچھا ” جانتے ہو یہاں تین دعائیں حضور نے کیا کیا کیں ؟ “ میں نے کہا ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر کوئی غیر مسلم طاقت اس طرح غالب نہ آ جائے کہ ان کو پیس ڈالے ، دوسرے یہ کہ ان پر عام قحط سالی ایسی نہ آئے کہ یہ سب تباہ ہو جائیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں پھر تیسری دعا یہ کی کہ ان میں آپس میں لڑائیاں نہ ہوں لیکن یہ دعا قبول نہ ہوئی ۔ یہ سن کر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم نے سچ کہا یاد رکھو قیامت تک یہ آپس کی لڑائیاں چلی جائیں گی “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:445/5:صحیح)

ابن مردویہ میں ہے کہ { حضور علیہ السلام بنو معاویہ کے محلے میں گئے اور وہاں آٹھ رکعت نماز ادا کی ، بڑی لمبی رکعت پڑھیں پھر میری طرف توجہ فرما کر فرمایا : { میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں اللہ پاک نے دو تو دیں اور ایک نہ دی ، میں نے سوال کیا کہ میری امت پر ان کے دشمن اس طرح نہ چھا جائیں کہ انہیں برباد کر دیں اور ان سب کو ڈبویا نہ جائے ، اللہ نے ان دونوں باتوں سے مجھے امن دیا پھر میں نے آپ سے لڑائیاں نہ ہونے کی دعا کی لیکن اس سے مجھے منع کر دیا } ۔ ۱؎ (التاریخ الکبیر للبخاری:285/6:ضعیف)

ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے { معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اب دریافت کرتا کرتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاں تھے وہیں پہنچا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں ۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں کھڑا ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی لمبی نماز پڑھی ، جب فارغ ہوئے تو میں کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بڑی لمبی نماز آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم ے پڑھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں یہ نماز رغبت ور ڈر کی نماز تھی } ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تینوں دعاؤں کا ذکر کیا } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1724:صحیح)

نسائی وغیرہ میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کی آٹھ رکعت پڑھیں اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے سوال پر اپنی دعاؤں کا ذکر کیا اس میں عام قحط سالی کا ذکر ہے } ۔ ۱؎ (نسائی فی السنن الکبری:920/1:صحیح لغیرہ)

نسائی وعیرہ میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ساری رات نماز میں گزار دی صبح کے وقت سلام پھیرا تو خباب بن ارث رضی اللہ عنہ نے جو بدری صحابی ہیں پوچھا کہ ایسی طویل نماز میں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں وہی فرمایا جو اوپر مذکور ہوا ، اس میں ایک دعا یہ ہے کہ { اگلی امتوں پر جو عام عذاب آئے وہ میری امت پر عام طور پر نہ آئیں } } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:1639،قال الشیخ الألبانی:صحیح)

تفسیر ابن جریر میں ہے کہ

{ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی جس کے رکوع سجود پورے تھے اور نماز ہلکی تھی پھر سوال و جواب وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13370:صحیح بالشواہد)

مسند احمد میں ہے { رسول اکرام صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میرے لیے زمین لپیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرقین مغربین دیکھ لیے جہاں جہاں تک یہ زمین میری لیے لپیٹ دی گئی تھی وہاں وہاں تک میری امت کی بادشاہت پہنچے گی ، مجھے دونوں خزانے دیئے گئے ہیں سفید اور سرخ ، میں نے اپنے رب عزوجل سے سوال کیا کہ میری امت کو عام قحط سالی سے ہلاک نہ کر اور ان پر کوئی ان کے سوا ایسا دشمن مسلط نہ کر جو انہیں عام طور پر ہلاک کر دے یہاں تک کہ یہ خود آپس میں ایک دوسروں کو ہلاک کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قتل کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قید کرنے لگیں } ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میں اپنی امت پر کسی چیز سے نہیں ڈرتا بجز گمراہ کرنے والے اماموں کے پھر جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک ان میں سے اٹھائی نہ جائے گی } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:123/4:صحیح)

ابن مردویہ میں ہے کہ { جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں نماز پڑھتے تو نماز ہلکی ہوتی ، رکوع و سجود پورے ہوتے ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک بیٹھے رہے یہاں تک کہ ہم نے ایک دوسرے کو اشارے سے سمجھا دیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے خاموشی سے بیٹھے رہو ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو بعض لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آج تو اس قدر زیادہ دیر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھے رہنے سے ہم نے یہ خیال کیا تھا اور آپس میں ایک دوسرے کو اشارے سے یہ سمجھایا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں یہ بات تو نہ تھی بلکہ میں نے یہ نماز بڑی رغبت و یکسوئی سے ادا کی تھی ، میں نے اس میں تین چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے طلب کی تھیں جن میں سے دو تو اللہ تعالیٰ نے دے دیں اور ایک نہیں دی ۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ تمہیں وہ عذاب نہ کرے جو تم سے پہلی قوموں کو کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کیا میں نے پھر کہا کہ یا اللہ میری امت پر کوئی ایسا دشمن چھا نہ جائے جو ان کا صفایا کر دے تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ مراد بھی پوری کر دی ، پھر میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تم میں پھوٹ نہ ڈالے کہ ایک دوسرے کو ایذاء پہنچائیں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول نہ فرمائی } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:4112:صحیح بالشواہد)

مسند احمد کی حدیث میں ہے { میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے چار دعائیں کیں تو تین پوری ہوئیں اور ایک رد ہو گئی ۔ چوتھی دعا اس میں یہ ہے کہ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو جائے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:396/6:صحیح)

اور حدیث میں ہے { دو چیزیں اللہ نے دیں دو نہ دیں آسمان سے پتھروں کا سب پر برسانا موقوف کر دیا گیا زمین کے پانی کے طوفان سے سب کا غرق ہو جانا موقوف کر دیا گیا لیکن قتل اور آپس کی لڑائی موقوف نہیں کی گئی } ۔ (الدر المنشور للسیوطی:33/3:ضعیف)

{ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر کے اٹھ کھرے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری امت پر نہ تو ان کے اوپر سے عذاب اتار نہ نیچے سے انہیں عذاب چکھا اور نہ ان میں تفرقہ ڈال کر ایک دوسرے کی مصیبت پہنچا ، اسی وقت جبرائیل علیہ السلام اترے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو اس سے پناہ دے دی کہ ان کے اوپر سے یا ان کے نیچے سے ان پر عام عذاب اتارا جائے } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:33/3:ضعیف)

سیدنا ابن ابی کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { دو چیزیں اس امت سے ہٹ گئیں اور دور رہ گئیں اوپر کا عذاب یعنی پتھراؤ اور نیچے کا عذاب یعنی زمین کا دھنساؤ ہٹ گیا اور آپس کی پھوٹ اور ایک کا ایک کو ایذائیں پہنچانا رہ گیا ، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر ہے جن میں سے دو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچیس [۲۵] سال بعد ہی شروع ہو گئیں یعنی پھوٹ اور آپس کی دشمنی ۔ دو باقی رہ گئیں وہ بھی ضرور ہی آنے والی ہیں یعنی رجم اور خسف آسمان سے سنگباری اور زمین میں دھنسایا جانا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:134/5:ضعیف)

حسن رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ” گناہ سے لوگ بچے ہوئے تھے عذاب رکے ہوئے تھے جب گناہ شروع ہوئے عذاب اتر پڑے “ ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ با آواز بلند مجلس میں یا منبر پر فرماتے تھے لوگو تم پر آیت «قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ» ۱؎ (6۔الأنعام:65) اتر چکی ہے اگر آسمانی عذاب آ جائے ایک بھی باقی نہ بچے اگر تمہیں وہ زمین میں دھنسا دے تو تم سب ہلاک ہو جاؤ اور تم میں سے ایک بھی نہ بچے لیکن تم پر آپس کی پھوٹ کا تیسرا عذاب آ چکا ہے “ ۔


ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اوپر کا عذاب برے امام اور بد بادشاہ ہیں نیچے کا عذاب بد باطن غلام اور بد دیانت نوکر چاکر ہیں “ یہ قول بھی گو صحیح ہو سکتا ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر اور قوی ہے ، اس کی شہادت میں آیت «ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَاءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ» ۱؎ (67-الملک:16) پیش ہو سکتی ہے ۔

ایک حدیث میں ہے { میری امت میں سنگ باری اور زمین میں دھنس جانا اور صورت بدل جانا ہوگا } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2152،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جو قیامت کے قرب کی علامتوں کے بیان میں اس کے موقعہ پر جا بجا آئیں گی ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ آپس کی پھوٹ سے مراد فرقہ بندی ہے ، خواہشوں کو پیشوا بنانا ہے ، ایک حدیث میں ہے
{ یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے } (سنن ترمذی:2641،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ،

ایک دوسرے کی تکلیف کا مزہ چکھے اس سے مراد سزا اور قتل ہے ، ’ دیکھ لے کہ ہم کس طرح اپنی آیتیں وضاحت کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں ۔ تاکہ لوگ غورو تدبر کریں سوچیں سمجھیں ‘ ۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لوگو ! میرے بعد کافر بن کر نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسروں کی گردنوں پر تلواریں چلانے لگو } ، اس پر لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم اللہ کی واحدانیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مانتے ہوئے ایسا کر سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ہاں یہی ہوگا } ۔ کسی نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم مسلمان رہتے ہوئے مسلمانوں ہی کو قتل کریں اس پر آیت کا آخری حصہ اور اس کے بعد کی آیت «وَکَذَّبَ بِہِ قَوْمُکَ وَہُوَ الْحَقٰ قُل لَّسْتُ عَلَیْکُم بِوَکِیلٍ» ۱؎ (6-الانعام:66) ، اتری } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:13381:مرسل و ضعیف)


سورة الانعام - آیت 63
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہیں :

قَالَ:

كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "لَغَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَى أُمَّتِي " قَالَهَا ثَلَاثًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا الَّذِي غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: "أَئِمَّةً مُضِلِّينَ "


"ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

میں ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
"مجھے میری امت کے لئے دجال سے بھی زیادہ خدشہ (ایک اور چیز کا) ہے"
آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا ۔ میں نے کہا ! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، وہ کیا چیز ہے جس کا آپ دجال کے علاوہ اپنی امت پر خوف کر تے ہیں ؟ تو فرمایا "گمراہ ائمہ"


( مسند امام احمد 20335، 21334 اور 21335] ۔ شیخ شعيب ارناوط اسے صحیح لغیرہ کہا (مستند شواہد کی وجہ سے) اپنےتحقیق مسند (1999 ء 35:21, 296-97 ) میں) -

کیا آپنے کبھی سوچا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو دن رات اپنی امّت کو دجال کے فتنے سے خبردار کرتا رہے ، وہ گمراہ علماء کے فتنے کے بارے میں زیادہ فکر مند کیوں تھے؟

تو وضاحت کے لیے ایک مثال ملاحظہ ہوں:

تصور کریں کہ آپ اپنے بیٹے کو پہلی منزل سے نہ کودنے کو مسلسل خبردار کر رہیں ہیں ، لیکن ایک دن آپ اسکو بتاتے ہو کہ بیٹا مجھے پہلی منزل سے زیادہ تمہارے دوسرے منزل سے کودنے کا ڈر ہے- اصل میں اس بات اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسری منزل سے کودنے کا خطرہ پہلی منزل سے بھی زیادہ ہے ۔ اس طرح گمراہ علماء دجال کے برابر خطرناک یا اس سے بھی بڑھکر ہیں۔

ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"كيف أنتم إذا لبستكم فتنة يهرم فيها الكبير, ويربو فيها الصغير, ويتخذها الناس سنة, إذا ترك منها شيء" قيل: تركت السنة؟ قالوا: ومتى ذاك؟ قال: "إذا ذهبت علماؤكم, وكثرت قُراؤكم, وقَلَّت فقهاؤكم, وكَثُرت أمراؤكم, وقلَّتْ أمناؤكم, والتُمِسَتِ الدنيا بعمل الآخرة, وتُفُقهَ لغير الدين


" کیا حال ہوگا تمہارا جب تم کو فتنہ (آفت یعنی بدعت) اسطرح گھیر لے گی کہ ایک جوان اسکے ساتھ (یعنی اس کو کرتے کرتے) بوڑھا ہوجائےگا، اور بچوں کی تربیت اسی پر ہوگی، اور لوگ اس بطور سنّت لیں گے- توجب کبھی بھی اس (بدعت) کا کچھ حصہ لوگ چھوڑ دینگے، تو کہا جائے گا: " کیا تم نے سنّت کو چھوڑ دیا؟ انہوں (صحابہ) نے پوچھا: " ایسا کب ہوگا؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے علماء فوت ہو گئے ہونگے ، قرآت کرنے والے کثرت میں ہونگے ، تمہارے فقہاء چند ایک ہونگے، تمہارے سردار کثرت میں ہونگے، ایسے لوگ کم ہونگے جن پر اعتبار کیا جا سکے، آخرت کے کام صرف لوگ دنیوی زندگی کے حصول کے لئے کرینگے، اور حصول علم کی وجہ دین کی بجائے کچھ اور ہوگا-"

[ دارمی (٦٤/١) نے اسے دو اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے ، پہلی سند صحیح جبکہ دوسری حسن ہے- اسے حاکم ( ٥١٤/4) اور دوسروں نے بھی روایت کیا ہے]

اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی رحم الله کہتے ہیں:

قلت:
وهذا الحديث من أعلام نبوته صلى الله عليه وسلم وصدق رسالته, فإن كلفقرةمن فقراته, قد تحقق في العصر الحاضر, ومن ذلك كثرة البدع وافتتانالناس بهاحتى اتخذوها سنة, وجعلوها ديناً
?يُتَّبع, فإذا أعرض عنها أهل السنة حقيقة, إلى السنة الثابتة عنه صلى الله عليه وسلم قيل: تُركت السنة


" میں کہتا ہوں : یہ حدیث رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی ایک نشانی ہے، کیوں کہ اسکا ایک ایک جز موجودہ دور میں وقوع پذیر ہو چکا ہے- اہل بدعت سے بدعات کے پھیلاؤ جاری ہیں ، اور لوگوں کے لئے یہ ایک امتحان ہے جس سے انکوں آزمایا جا رہا ہے- ان بدعات کو لوگوں نے بطور سنّت اپنا لیا اور دین کا حصہ بنا دیا ہے- پس جب اہل سنہ ان بدعات سے اس سنّت جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، تو کہا جائے گا: کیا سنّت کو رد کر دیا گیا ہے؟
[ قیام الرمضان :ص5-4، شیخ البانی رحم الله ]

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول میں لازماً کچھ سیکھنے کےلئے اور غور و فکر کرنے کے لئے ہو گا- اسکی مزید وضاحت اگے اس مکالے میں ہوگی-

گمراہ علماء دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہیں :
 

فہد مقصود

محفلین
نقصان،جو جاہل اور عام لوگ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچاتے ہیں۔

اس حدیث سے اور ایک فائدہ، حصول علم کی اہمیت معلوم ہوتا ہے، کہ کوئی شخص بُرائی کے چنگل سے نہیں بچ سکتا جب تک وہ اچھے بُرے کے درمیان فرق نہ جان لے ۔ اگر آپ نہیں جانتے تاریکی کیا ہے تو آپکو ہر طرف روشنی ہی روشنی لگے گی – یہ تا ہم آپکو ایک بےقوف یا دوسرے الفظ میں جاہل بنا دیگا۔ اس طرح ہم (مسلمانوں) کو علم حاصل کرنا چاہیے اور عمررضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پہلے سے ہم کو خبردار کردیا۔

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حَفْصٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ شَبِيبٍ، عَنْ غَرْقَدَةَ، عَنِ الْمُسْتَظِلِّ بْنِ الْحُصَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" قَدْ عَلِمْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ مَتَى تَهْلِكُ الْعَرَبُ: إِذَا وَلِي أَمْرَهُمْ مَنْ لَمْ يَصْحَبِ الرَّسُولَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُعَالِجْ أَمْرَ الْجَاهِلِيَّةِ۔

المُصتضل بن حُسین سے روائیت ہے میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا :

میں جانتا ہوں اور کعبہ کی رب کی قسم، کہ کب عرب (مطلب کے اسلام) ناش ہو جائے گا : جب صحابہ کرام اُنکےامورکے والی نہیں ہونگے وہ لوگ جنہیں علم نہیں کہ جہالت کیا چیز ہے "۔

[مصنف ابن أبي شيبا 6/410،طبقات ابن سعد6/129، مستدرك الحاكم، 4/475، الشعب-الإيمان 6/69، أبو نعيم ھلیه7/243، الحارس بن مسكين بدايہو نہایا]11/650


قال ابن تيمية قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إنَّمَا تُنْقَضُ عُرَى الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً إذَا نَشَأَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْ لَمْ يَعْرِفْ الْجَاهِلِيَّةَ

ابن تیمیہ سے روایت ہے :

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بے شک اسلام کی بنیادیں ایک کے بعد ایک تباہ و برباد ہو جائےگیں۔ اگر اس میں ایسے لوگ پیدا ہو جائےجو نا واقف ہوں گے کہ جہالت کیا ہے ۔

(مجمو'الالفتاوى 10/301، القیم اپنی فوائد میں بھی اسے لائے ہیں)

زبیر بن عدی رحم الله سے روایت ہے:

انس بن ملک رضی الله عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور حجاج کے مظالم کی شکایت کی- پس انس رضی الله عنہ نے فرمایا:

" ہر آنے والا سال پچھلے سال سے بد تر ہوگا یہاں تک تم اپنے رب سے جا ملو – یہ میں نے تمہارے رسول صلى الله عليه وسلم سے سنا ہے-

ابن مسعود رضی الله عنہ اسکی تشریح کچھ کرتے ہیں :

" قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا – اس سے میری مراد دولت میں اضافہ یا بے کر معاملات نہیں ہیں- بلکہ میرا مطلب علم کی کمی ہے- جب علماء فوت ہو جایں گے اور لوگ برابر ہوجایں گے ، وہ نا برائی سے روکیں گے اور نہ نیکی کی طرف بلائیں گے اور یہی انکو تباہی کی طرف لے جائیگی –

[ سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المعرفه میں اسے روایت کیا ہے ؛ نسائی (٣٩٣/3)، الخطیب اسے فقیه ولمتفقیہ (٤٥٦/١) میںلایے ہیں؛ دیکھئے ؛ فتح الباری (٢٦/١٣)]

عمر بن الخطاب نے زیاد رضی اللہ عنہ سے کہا :

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، أَنبَأَنَا عَلِيٌّ هُوَ ابْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي عُمَرُ: «هَلْ تَعْرِفُ مَا يَهْدِمُ الْإِسْلَامَ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «يَهْدِمُهُ زَلَّةُ الْعَالِمِ، وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْكِتَابِ وَحُكْمُ الْأَئِمَّةِ الْمُضِلِّينَ»

کیا آپ جانتے ہے اسلام کن چیزوں سے تباہ ہوگا؟ میں (زیاد) نے کہا نہیں- انہوں (عمر) نے کہا: اسلام تباہ ہوگا ،علماء کے غلطیوں سے ، الله کی کتاب کے بارے میں منافقین کے بحث و دلائل سے، اور گمراہ ائمہ کے رائے سے ۔

] مشكوةألمصابیح89/1حدیث:269، محض الثواب 2/717، الدارمی1/295، مسند الفاروق 2/536، تلبيس الجاهمييا [4/191

الفضیل بن عیاض نے فرمایا :

کیا ہو گا جب آپ پر ایسا زمانہ آئے کہ جب لوگ حق اور باطل ، مومن اور کافر، امین اور غدار ، جاہل اور عالم اور نہ ہی صحیح اور غلط میں تمیز کر سکیں گے؟

ابنبطاحالإبانة الکبرہ 1:188

اس روایت کے بعد ابنبطاح نے کہا :

بہ شک ہم اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے ! آج ہم اس وقت میں پہنچ چکے ہیں، جو ہم نے اسکے بارے میں سنا اور جانا ہے، اسکا بیشتر وقوع پذیر ہو چکا ہے-۔ ایک فرد واحد جسے الله نے سمجھ بوجھ عطا کی ہے، اور اگر جو اسلامی احکامات پر غور و فکر کرتا ہو اور جو صحیح راستے پر مستحکم ہو- تو اس پر یہ بات بلکل واضخ ہو جاییگی کے اکثر لوگوں نے صراط مستقیم اور محکم دلائل سے منه موڑ لیا ہے- اکثر لوگوں نے ان چیزوں کو پسند کرنا شروع کر دیا ہے جن سے وہ کبھی نفرت کرتے تھے، ان امور کو جائز قرار دے دیا جنہیں وہ کبھی حرام کہتے تھے، اور ام امور کو اپنانا شروع کر دیا جنہیں وہ کبھی رد کرتے تھے۔ اللہ تم پر رحم کرے- یہ مسلمانوں کا صیح منشاء نہیں ہے اور نہ اُن لوگوں کا رویہ ہے جو دین جو دین کے سمجھ رکھتے ہیں-

طلق ابن حبيب :

علم اور اہل علم کے لئے ان لوگوں سے زیادہ کوئی خطرناک نہیں جو ان کہ گروہ میں تو شامل ہو جاتے ہیں پر ان سے نہیں ہوتے- یہ جاہل ہوتے ہیں لیکن آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں- یہ لوگ صرف خرابی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اصلاح کر رہے ہیں-
( ابن ابی الدنیا، التوبہ مضمون 62 )

شیخ صالح الفوذان حفظہ اللہ نے کہا :

موجودہ وقت میں اس اُمت کو درپیش سب سے زیادہ خطرناک معاملا ان جاہل مبلغین کا ہے جو آپنے آپ کو اہل علم میں سے سمجھتے ہیں، اور لوگوں کو ( اپنےدین کی طرف) جہالت اور گمراہی کے ساتھ بلاتے ہیں-

إيعناتول-المستفيد، 887/1
 
Top