پروف ریڈ اول گذشتہ لکھنؤ

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 131

کی قلمرو میں پہلے پہل لکھنؤ کا سکہ جاری ہوا۔

اس کے بعد چھٹا دور وہ تھا جب لکھنؤ میں وزیر، صباؔ، رندؔ، گویاؔ، رشکؔ، نسیمؔ دہلوی، اسیرؔ، نواب مرزا شوقؔ اور پنڈت دیا شنکر نسیمؔ صاحبان مثنوی کی شاعری کا غلغلہ بلند تھا۔ اور دہلی میں مومنؔ، ذوق، غالبؔ نغمۂ شاعرانہ سنا رہے تھے۔ اس دور نے سچ یہ ہے کہ زبان کو بہ لحاظ خیالات سب سے زیادہ ترقی کے درجے پر پہنچا دیا۔

اس کے بعد ساتواں دور امیرؔ، داغؔ، منیرؔ، تسلیمؔ، مجروحؔ، جلالؔ، لطافتؔ، افضل اور حکیمؔ وغیرہ کا تھا۔

ان آخری دوروں پر غائر نظر ڈالنے سے صاف نظر آ جاتا ہے کہ فصاحت زبان اور شاعری نے لکھنؤ میں کیسی مضبوط جگہ پکڑ لی تھی۔ چند ہی روز میں شعر کہنا، لکھنؤ میں ایک وضع داری بن گیا اور شُعرا کی یہاں اس قدر کثرت ہو گئی کہ شاید کہیں کسی زمان میں نہ ہوئی ہو گی۔ عورتوں تک میں شعر و سخن کا چرچا ہوا۔ اور جہال کے کلام میں بھی شاعرانہ خیال آفرینیوں، تشبیہوں اور استعاروں کی جھلک نظر آنے لگی۔

(10)

فارسی شاعری کا اصلی اُٹھان مثنوی سے ہوا ہے۔ اور یہ صنفِ شاعری ہمیشہ سب سے زیادہ اہم اور باوقعت سمجھی گئی۔ ابتدا فردوسی کی رزمیہ مثنوی شاہنامے سے پڑی۔ پھر نظامیؔ، سعدیؔ، مولاناے رومؔ، خسروؔ، جامیؔ اور ہاتفیؔ وغرہ نے اس میں اعلا ترین شہرت و نام وری حاصل کی۔ اُردو میں میر تقی میر نے چھوٹی چھوٹی بہت سے مثنویوں دہلی و لکھنؤ کے قیام کے زمانے میں لکھی تھیں۔ مگر وہ اس قدر مختصر اور معمولی ہیں کہ مثنویوں کے تذکرے میں ان کا ذکر بھی بے محل سا معلوم ہوتا ہے۔

مثنوی لکھنے کا آغاز اردو میں میرضاحکؔ کے بیٹے میر غلام حسن حسنؔ سے ہوا جو

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 132

بچپن ہی میں اپنے پدر بزرگ وار کے ساتھ لکھنؤ چلے آئے تھے۔ یہیں کی صحبت میں اُن کا نشو و نما ہوا تھا، یہیں پرورش پائی تھی، اور یہیں کی آب و ہوا کے آغوش میںان کی شاعری پلی تھی۔ کیوں کہ جس تعلیم اور جس سوسائٹی نے ان کی مثنوی بے نظیر و بدر منیر لکھوائی وہ خالص لکھنؤ کی تھی۔ اسی زمانے میں مرزا محہد تقی خاں ہوسؔ نے مثنوی لیلی مجنوں لکھی۔ اورلکھنؤ میں مثنویت کا مذاق بڑھنا شروع ہوا۔ آتشؔ و ناسخؔ کے زمانے میں تو ذرا خاموشی رہی۔ مگر پھر جو یہ مذاق اُبھرا تو پنڈت دیاشنکر نسیمؔ نے گلزار نسیم، آفتاب الدولہ قلقؔ نے طلسم الفت اور نواب مرزا شوقؔ نے بہارِ عشق، زہر عشق اور فریب عشق لکھیں۔اور انہیں اس قدر عام نمود و شہرت اور عالم گیر مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہر ادنا و اعلا کی زبان پر مثنویوں کے اشعار چڑھ گئے۔ اس سے پیش تر کے زامنے میں کسی صاحب نے مثنوی میر حسن کے جواب میں لذت عشق نام کی ایک مثنوی لکھی تھی، وہ نواب مرزا شوق کی مثنویوں کے ساتھ شائع ہونے کی وجہ سے انہیں کی جانب منسوب ہو گئی۔ لیکن حقیقت میں نہ وہ ان کی ہے اور نہ ان کے زمانے کی ہے۔

ان سب مثنویوں کے دیکھتے، مثنوی گلزار نسیم باوجود عام مقبولیت کے، صدہا غلطیوں سے مملو ہے۔ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نازک خیال نو مشق ہے جو ہر قسم کی شاعرانہ خوبیاں اپنے کلام میں پیدا کرنا چاہتا ہے، مگر قادرُ الکلامی کے نہ ہونے سے قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا ہے اور کسی جگہ اپنے مقصد کو نہیں حاصل کر سکتا۔ اس کے جواب میں آغا علی شمس نے جو ایک بہت ہی کہنہ مشق شاعر تھے، اسی بحرمیں ایک مثنوی لکھی تھی، جس میں غلطیوں سے پاک رہ کے تشبیہات، استعارات اور رعایت لفظی کےکمالات دکھائے تھے۔ مگر افسوس، وہ مثنوی مٹ گئی۔ اور گلزار نسیمؔ کو جو شہرت حاصل ہو چکی تھی، اس پر غالب نہ آ سکی۔ دہلی میں ان دنوں مومن خاں نے چند چھوٹی چھوٹی بے مثل مثنویاں لکھیں، جو

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 133

بہت ہی مقبول اور مشہور ہوئیں۔

مومن خاں کےمذاق شاعری میں نازک خیالی بڑھی ہوئی تھی۔ خیالی تشبیہوں اور استعاروں پر وہ اپنی سخن آفرینی کی عمارت قائم کرتے تھے۔ مثنویوں میں وہ زیادہ تر خیالی جذبات و صفات کو مشخص کر کے اپنے کلام میں ایک خاص لفط پیدا کیا کرتے تھے۔ مومن خاں کے ایک شاگرد نسیم دہلوی، لکھنؤ میں آئے اور یہاں کے مشاعروں میں اپنا رنگ جمایا کہ بہت سے لوگ ان کے شاگرد ہو گئے۔ نسیمؔ دہلوی نے لکھنؤ میں اپنے استاد کے رنگ کو خوب چمکایا۔ اور ان کے شاگرد تسلیم لکھنؤی نے اردو مثنوی میں نظیریؔ و عرفیؔ و صائبؔ کی خیال آرائیاں دکھا دیں اور نظم اردو میں جیتے جاگتے فیضیؔ و غنیمتؔ لا کے کھڑے کر دیے۔ ادھر آخر زمانے میں مولوی میر علی حیدر طباطبائی نظم لکھنؤی نے شراب کی مذمت میں ساقی نامۂ شقشقیہ کے نام سے ایک ایسی بے نظیر اخلاقی نظم اردو پبلک کے سامنے پیش کر دی کہ اس کا جواب نہیں ہو سکتا۔ غرض کہ مومن خاں کی چند مختصر مثنویوں سے اگر قطع نظر کر لی جائے تو اردو مثنوی گوئی کا آغاز بھی لکھنؤ میں ہوا اور ترقی بھی یہیں ہوئی۔

بعض حضرات مثنوی میر حسن اور گلزار نسیم کے ذریعے سے دہلی اور لکھنؤ کی زبان کا مقابلہ و موازنہ کیا کرتے ہیں، جس خیال کو مولوی محمد حسین صاحب آزاد نے اور زیادہ قوت دے دی۔ لیکن اول تو گلزار نسیم کو نظیرؔ اکبر آبادی کے بنجارا نامے کی طرح اگر شہرت ہو بھی گئی تو اُسے مثنوی میر حسن کے مقابلے میں رکھنا، اردو شاعری کی سخت تذلیل و توہین ہے۔ صحیح مقابلہ ہو سکتا ہے تو مثنوی میر حسن اور مثنوی طلسم الفت کا۔ اور اگر گلزار نسیم کی زبان زبردستی لکھنؤ کی زبان مان بھی لی جائے، تو مثنوی میر حسن اور گلزار نسیم کا مقابلہ دہلی اور لکھنؤ کی شاعری کا نہیں بلکہ خود لکھنؤ کی اگلی پچھلی زبانوں کا مقابلہ ہے۔ اس لیے کہ مثنوی میر حسن، لکھنؤ کی پہلی زبان کا نمونہ ہے اور یہ آخری زبان کا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 134

شاعری کی ایک اہم اور قدیم ترین صنف، مرثیہ خوانی ہے۔ قدیم عربی شاعری میں زیادہ تر مرثیے اور رجز ہی شعر و سخن میں اظہار کمال کا ذریعہ تھے۔ فارسی میں مرثیہ خوانی کمزور پڑ گئی تھی لیکن بہ عہد سلاطین صفویہ، ایران میں مذہب شیعہ کو فروغ حاصل ہوا تع مصائب اہل بیت رسالت کی یاد تازہ کرنے کے لیے شعرا کو مرثیہ خوانی کی طرف توجہ ہوئی۔ مولانا محتشم کاشی نے چند بندوں کا ایک بے مثل مرثیہ لکھا تھا جو عموماً مقبول ہوا۔ اس کے بعد سے رواج تھا کہ شعرا کبھی کبھی ماتمِ حسین میں دو ایک مرثیے بھی موزوں کر دیا کرتے۔ لیکن شعر و سخن کی دنیا میں مرثیہ گوئی کی وقعت اس قدر کم تھی کہ مشہور تھا "بگڑا شاعر، مرثیہ گو" پھر جب مذہبی اعتبار سے دولتِ صفویۂ مرحومہ کی جانشین، اودھ کی سلطنت قرار پائی تو لکھنؤ میں مجالس کی ترقی و عزاداری کے جوش و خروش نے مرثیہ گوئی کی ایسی قدردانی کی کہ اس فن کو غیر معمولی عروج حاصل ہونا شروع ہوا اور دراصل لکھنؤ کے عروج کا سارا راز اسی تاریخی واقعے میں مستتر ہے۔ ہندوستان میں مغلوں کی سلطنت تھی جنہوں نے فارسی زبان کو درباری زبان قرار دیا اور فارسی معاشرت ان کی امیرانہ زندگی اور ان کے تمام کمالات کا مرکز تھی۔ نتیجہ یہ تھا کہ ہر ایرانی ہندوستان میں آتے ہی آنکھوں پر بٹھایا جاتا اور اس کی ہر حرکت اور ہر وضع مقبولیت کی نگاہوں سے دیکھی جاتی۔ دہلی کی سلطنت میں بادشاہوں کا مذہب سُنی ہوجے کی وجہ سے، ایرانی اپنی بہت سی باتوں کو چھپاتے اور وہاں کی محفلوں میں اس قدر شگفتہ نہ ہونے پاتے جس قدر کہ وہ اصل میں تھے۔ اودھ کا دربار شیعہ تھا اور یہاں کا خاندان حکمرانی خاص خراساں سے آیا تھا۔ اس لیے یہاں ایرانی بالکل گُھل گئے۔ اور اپنے اصلی رنگ میں نمایاں ہونے کی وجہ سے وہ جس قدر شگفتہ ہوئے، اسی قدر زیادہ ہم مذہبی کے باعث یہاں کے اہل دربار نے ان کے اوضاع و اطوار کو حاصل کرنا شروع کیا۔ اور ایرانیت جو دراصل ساسانی اور عباسی شان و شوکت کے آغوش میں پلی ہوئی تھی، چند ہی روز کے اندر لکھنؤ کی معاشرت میں سرایت کر گئی۔

عرض سوداؔ و میرؔ کے زمانے میں میاں سکندرؔ، گداؔ، مسکینؔ اور افسردہؔ مرثیہ گو تھے جو چھوٹی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 135

چھوٹی نظمیں شہادت امام حسینؓ کے بیان میں تصنیف کر کے مجلسوں میں سنا دیا کرتے۔ ان کے بعد میر خلیقؔ اور میر ضمیرؔ نے مرثیہ گوئی کو بہت ترقی دی اور مرثیوں کی موجودہ وضع انہی کے زمانے کی ایجاد ہوئی۔ یہاں تک کہ زمانہ میر ضمیرؔ کے شاگرد مرزا دبیر اور میر خلیقؔ کے صاحب زادے میر انیسؔ کو نام وری کے شہہ نشین پر لایا۔ اور ان دونوں بزرگوں نے مرثیہ خوانی میں ایسے ایسے کمالات شاعری دکھائے کہ شعر و سخن کے آسمان پر آفتاب و ماہ تاب بن کے چمکے۔ وہی مقابلہ جو میرؔ و سوداؔ اور آتشؔ و ناسخؔ میں رہا تھا، اب میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ میں قائم ہوا۔ مرزا دبیر میں شوکتِ الفاظ تھی، بلند خیالی تھی اور علم و فضل کا زور تھا۔ میر انیسؔ میں سادی، بے تکلف اور جذباتِ انسانی پر حکومت کرنے والی زبان کی وہ خوبیاں تھیں جو سوا مبدِأ فیاض کی عنایت کے سیکھنے سے نہیں آ سکتیں۔ ان دونوں بزرگوں نے فن مرثیہ گوئی کو شاعری کی اور تمام اصناف سے بڑھا دیا۔ اور ادبِ اردو میں وہ نئی چیزیں پیدا کر دیں جن کو انگریزی تعلیم کے اثر سے طبیعتیں ڈھونڈنے لگی تھیں۔

انیسؔ و دبیرؔ نے مرثیہ گوئی کو اس درجۂ کمال پر پہنچا دیا تھا کہ اب مرثیہ گوئی بجاے معیوب ہونے کے، سب سے بڑا شاعرانہ ہنر بن گئی تھی۔ تمام اہل لکھنؤ ان دونوں بزرگوں کے اس قدر معرف و مداح ہوئے کہ سارا شہر دو گروہوں میں بٹا ہوا تھا اور ہر سخن سنج یا اینسیاتھا یا دبیریا اور ان دونوں گروہوں میں ہمیشہ باہمی مخالفت رہتی۔

میر انیسؔ ن مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی کو بھی ایک فن بنا دیا۔ یونانیوں کے بعض مقرروں اور خطیبوں کی نسبت سنا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی تقریروں میں اثر پیدا کرنے کے لیے خاص خاص کوششین کی تھیں اور آواز کے نشیب و فراز اور اوضاع و اطوار کے تغیرات سے گفتگو میں اثر پیدا کرتے تھے۔ اسلام کی اس طولانی عمر میں اس نہایت ضروری جن کو اصول کے ساتھ خاص میر انیسؔ نے زندہ کیا۔ الفاظ کے مناسب آواز کے تغیرات اور مضامین کے موافق چہرہ بنا لینے، کلام کو اعضا و جوارح کے متناسب حرکات اور خط و خال کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 136

اشارت سے قوت دینے کا فن خاص لکھنؤ کی اور وہ بھی میر انیسؔ کے گھرانے کی ایجاد ہے۔ جس کی ترقی میں اب تک کوششیں جاری ہیں۔ اور ہامرے اسپیکر اپنی فصیح البیانی میں اثر پیدا کرنے کے لیے اگر ان باکمالوں کی شاگردی کریں تو نہایت ہی کامیاب اسپیکر ثابت ہوں۔

ڈراما کا فن سخن جو مغربی شاعری کی جان ہے، اس سے عربی و فارسی کا ادب مطلقاً خالی تھا اور فارسی کی شاگردی کی وجہ سے اردو میں بھی اس کی طرف کبھی توجہ نہیں کی گئی۔ سنسکرت میں اعلا درجے کے ڈراما تھے، مگر ان سے ہندوستان کی آخری سوسائٹی بالکل ناآشنا ہو چکی تھی۔ رام چندر جی اور سری کرشن جی کے کارنامے البتہ ہندوؤں میں مذہبی آداب کے ساتھ دکھائے جاتے تھے۔ مگر اردو شاعری کو ان سے کسی قسم کا تعلق نہ تھا۔ رام چندر جی کے حالات انگلستان کے المپیا کی طرح کھلے میدانوں میں رزمیہ نقالیوں کی شان سے دکھائے جاتے اور سری کرشن جی کے حالات رقص و سرود اور موسیقی کے پیرائے میں مذہبی اسٹیجوں پر بعینہ اُپیرا کے طریقے سے نظر آتے جو "رہس" کہلاتے۔ واجد علیشاہ کو رہس سے خاص دل چسپی پیدا ہو گئی۔ اور رہس کے پلاٹ سے ماخوذ کر کے انہوں نے اپنا ایک ڈراما تیار کیا۔ جس میں وہ کنھیا جی بنتے یا عشق کے ستائے ہوئے جوگی بن کے دھونی رماتے اور بہت سی عورتیں، پریاں اور عاشق مزاج گوپیاں بن کے انہیں ڈھونڈھتی پھرتیں۔ پھر جب قیصر باغ کے میلوں کا دروازہ عوام الناس کے لیے بھی کھل گیا تو سارے شہر کے شوقینوں میں ڈراما کا فن خود بہ خود ترقی کرنے لگا۔ اور چند ہی روز میں اس شوق کو اس قدر ترقی ہوئی کہ بعض مشہور شعرا بھی اس زمانے کے مذاق کے موافق طبع آزمائیاں کرنے اور ڈراما لکھنے لگے۔ چنانچہ واجد علی شاہ کے شوق کے ساتھ ہی "میاں امانت نے جو ایک مشاق شاعر تھے، اندر سبھا لکھی اور موجودہ عہد کی کمپنیوں کے طرح شہر میں جا بہ جا مختلف جماعتیں ان کی "اندر سبھا" کو اسٹیج پر کھیلنے لگیں، جن میں کہیں عورتیں اور کہیں لڑکے ایکٹ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 137

کرتے۔ اس اندر سبھا میں اصولِ موسیقی کے مطابق دل کش دحنیں قائم کی گئیں اور سارا شہر اندر سبھا کے جلسے دیکھنے کا مشتاق تھا۔ میاں امانتؔ کی اندر سبھا کی کامیابیاں دیکھ کے اور لوگوں کو بھی شوق ہوا اور اس قسم کے بہت سے ڈرامے ایجاد ہو گئے۔ اور سب کا نام "سبھا" قرار پا گیا۔ چنانچہ شہر میں مداری لال وغیرہ کی بہت سے سبھائیں قائم ہو گئیں، جن کے پلاٹ بدلے ہوئے تھے۔

سبھا کے نئے رنگ نے شہر میں ایسی زندہ دلی پیدا کر دی کہ سوا اندر سبھا کے، لوگ سی اور قسم کا ناچ گانا پسند ہی نہ کرتے تھے۔ ہر طرف سبھاؤں کی دھوم تھی اور اس کی بنیاد پڑ گئی کہ سوسائٹی کے مذاق کے مطابق اگلے عاشقانہ قصے نقل کے طور پر اچھی نظموں میں اور دل کش مضمون کے ساتھ پبلک کے سامنے پیش کیے جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ پارسی تھیٹروں نے اپنی انتظامی خوبیوں اور نمایشی دل فریبیوں کی وجہ سے سبھاؤں کا رنگ پھیکا کر دیا۔ لیکن یہ نہ سمجھو کہ ڈراما کا وہ پرانا مذاق جو لکھنؤمیں ایجاد ہو کے مروج ہوا تھا، مٹ گیا۔ اول تو پارسیوں نے بھی اس چیز کو لکھنؤ سےلیا ہے۔ ان کا پہلا عام کھیل، امانتؔ کی اندر سبھا تھا، اور باوجود اس کے، لکھنؤ کے تمام قومی جلسوں میں آج تک سپیرے، ہرش چندر وغیرہ کے ایسے بیسیوں پرفارمنس ہو رہے ہیں اور اس مذاق کے ایکٹروں کا ایک مستقل گروہ پیدا ہو گیا ہے، جو شرفا میں سے قومی مذاق اٹھ جانے پر بھی عوام کو محظوظ کرتا ہے۔ بہ ہر تقدیر، اس میں شک نہیں کیا جا سکت کہ اردو ڈراما کی بنیاد خاص لکھنؤ ہی میں پڑی اور یہیں سے سارے ہندوستان میں اس کا رواج ہوا۔

اردو شاعری کی ایک قسم واسوخت ہیں۔ یہ خاص قسم کے عاشقانہ مسدس ہوتے ہیں اور ان کا مضمون عموماً یہ ہوت ہے کہ پہلے اپنے عشق کا اظہار، اس کے بعد معشوق کا سراپا، اس کی بے وفائیاں، پھر اس سے روٹھ کے، اسے یہ باور کرانا کہ ہم کسی اور معشوق پر عاشق ہو گئے۔ اس فرضی معشوق کے حسن و جمال کی تعریف کر کے معشوق کو جلانا، چھیڑنا، جلی کٹی سنانا اور

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 138

یوں اس کا غرور توڑ کے پھر ملاپ کر لینا۔ نظم اردو کی یہ قسم لکھنؤ ہی سے شروع ہوئی۔ زمانۂ وسط کے قریب قریب تمام شاعروں نے واسوخت لکھے ہیں اور ان میں بڑے بڑے لطف پیدا کیے ہیں۔ دہلی میں بھی بعد کے زمانے میں مختلف واسوخت لکھے گئے، خصوصاً مومن خاں نے کئی بہت اچھے واسوخت لکھے، مگر آغاز لکھنؤ ہی سے ہوا۔

اُمرا کی عیاشانہ طبیعتوں نے شاعری کی کئی اور صنفوں کو بھی پیدا کر دیا۔ جن کا آغاز دہلی ہی سے ہوا تھا۔ ان میں سب سے زیادہ مہمل ہزل گوئی ہے اور کسی قدر پرلطف ریختی ہے۔ ہزل گوئی کا آغاز دہلی میں جعفر زٹلی سے ہوا جو غالباً محمد شاہ کے زمانے میں تھے۔ ان کے کلام کو میں نے اول سے آخر تک دیکھا ہے۔ سوا فحش گوئی اور حد سے گزری ہوئی بے حیائی کے، نہ کوئی شاعرانہ خوبی نظر آتی ہے اور نہ زبان کا کوئی لطف ہے۔ اس کے بعد دہلی ہی کی خاک سے صاحبقراںؔ تخلص بلگرامؔ کے ایک ہزل لکھنؤ میں آئے اور یہیں چمکے۔ ان کا نام سید امام علی تھا اور آصف الدولہ کے زمانے میں وارد لکھنؤ ہوئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لکھنؤ کے مبتذل مذاق والے رئیس زادوں میں ان کا نشو و نما ہوا۔ ان کا دیوان ملتا ہے اور گو کہ کلام فحش اور تہذیب سے کوسوں دور ہے، مگر پھر بھی اس میں ایک بات ہے، شاعرانہ خوبیوں کے ساتھ زبان اور محاوروں کا پورا لطف ہے۔ لیکن اس فن کو لکھنؤ کے آخری دور میں میاں مشیر نے مرزا دبیرؔ کے شاگرد تھے، کمال کے درجے کو پہنچا دیا۔

مجھے اس موقع پر بلا لحاظ اس کے کہ شیعوں اور سنیوں کے متعصبانہ جذبات کا لحاظ کروں، یہ بتا دینا ضروری ہے کہ لکھنؤ میں جب شیعہ سلطنت قائم ہوئی تو شیعیت نے اپنے اصلی رنگ کو قائم رکھ کے، کمال آزادی کے ساتھ اپنے ہر اصول میں ترقی شروع کی۔ مذہب شیعہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے : ایک تولا یعنی اہل بیت کرام اور خاندان نبوت کے ساتھ اظہار محبت، اور دوسرا تبرا، یعنی اس خاندان محترم کے دشمنوں سے اپنی برات

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 139

ظاہر کرنا، جس نے باہمی رقابت و تعصب کے بڑھنے سے سب و شتم کی صورت اختیار کر لی۔ اصولاً اس عقیدے میں سُنی بھی ان کے ساتھ شریک ہیں، مگر فرق یہ آ پڑا کہ پہلے تینوں جانشینان رسالت کو اہل سُنت، افضل الناس بعد انبیاء و رُسُل، اور سچے جانشینان رسالت مانتے ہیں۔ اور شیعہ ان کو غاصب و ظالم بتاتے ہیں۔ اور جب یہ بزرگ بھی ان کے عقائد میں خاندان رسالت کے دشمن قرار پائے تو ان سے بھی تبرا واجب ہو گیا۔ جس کو مہذب اور صاحب علم لوگوں نے اگر حرفِ براءت کے صحیح معنوں کی حد تک رکھا تو عوام شیعہ اپنے مذاق کے مطابق ان پر زبانِ سب و شتم دراز کرنے لگے۔ اور یہی چیز سُنی (اور) شیعوں کے باہمی تعصب کی بنا قرار پا گئی۔

ان دونوں مذہبی چیزوں نے لکھنؤ کی شاعری پر نہایت ہی عمدہ اور مناسب اثر ڈالا۔ تولا نے مرثیہ گوئی کے فن کو اپنے آغوش میں لے کے جملہ اصناف شاعری سے بڑھا دیا۔ تو دشمنان خاندان نبوت سے تبرا کرنے کے جوش نے پُرانی ہجو گوئی کو اختیار کر کے، اسے "ہرزیہ گوئی" کے نام سے ترقی دی۔ اس فن کے متعدد باکمال لکھنؤ میں مشہور ہوئے، مگر افسوس یہ چیز بالتخصیص اہل سنت کو ناگوار گزرنے والی تھی۔ عہد شاہی میں اس پر تلواریں نکل پڑا کرتی تھیں اور انگریزی میں بھی آج تک کبھی کبھی فوجداریاں اور مقدمے بازیاں ہو جایا کرتی ہیں۔ جس کا نتینہ یہ تھا کہ ہرزیہ گوئی و ہرزیہ خوانی کو مکانوں کی چار دیواری سے باہر نکلنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ اگر ہرزیہ گوئی کا عام سبجکٹ ایسا محدود اور ما بہ النزاع نہ ہوتا تو زمانہ دیکھتا کہ لکھنؤ کے ہرزیہ گویوں نے اپنے بے ہودہ گوئیوں اور فحاشیوں میں بھی کیسے کیسے کمال دکھائے ہیں۔

اس فن میں سب سے زیادہ شہرت مرزا دبیرؔ کے شاگرد میاں مشیر کو حاصل ہوئی۔ ہجو گوئی اور فحاشی پہلے بھی تھی، مگر مشیرؔ نے جس قسم کے محاورات سےکام لیا، بندش الفاظ، طرز ادا، اور استعمال تشبیہات میں جیسی مضحکہ خیزی پیدا کی اور صحبت کو مارے ہنسی کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 140

لٹا دینے اور سمعین کے پیٹ میں بل ڈال دینے کے لیے جو زبان اور جیسا اسلوب سخن اختیار کیا، اس کی خوبیاں اور جدتیں بیان سے باہر ہیں۔ ابتذال میں بھی لطف پیدا کر کے، اسے شایستہ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے قابل بنا دینا، ان کا خاص جوہر تھا۔ جو ان سے پہلے اور ان کے بعد کسی کو نہیں نصیب ہوا۔

ہزل گوئی ہی کے سلسلے میں میاں چرکینؔ کا نام بھی لینا چاہیے۔ لکھنؤ کے زمانۂ وسطےٰ میں عاشور علی خان نام ایک زندہ دل اور نہایت ہی قابل و مذاق رئیس تھے، ان کے وہاں کی صحبت، اس وقت کی سوسائٹی کا ایک اکمل ترین نمونہ تھی۔ انہی نے جانؔ صاحب اور چرکینؔ کو پیدا کیا۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہی کی صحبت میں صاحبقراںؔ کا بھی نشو و نما ہوا تھا۔ چرکین اپنے ہر شعر میں پیشاب پیخانے کے رعایت رکھتے اور ان کے اشعار سے ایسی تعفن اتی ہے کہ نام سنتے ہی ہمارے ناظرین کے دماغ سڑ گئے ہوں گے۔ مگر چوں کہ ان کو ایک قسم کی خصوصیت تھی، ہم نے ان کا ذکر دیا۔ ان کے کلام میں بعض شاعرانہ خوبیاں اور اچھی تشبیہیں بھی ہیں، مگر ان کے مذاق نے ان خوبیوں کو بھی گندہ اور پلید کر دیا ہے۔

لیکن ریختی کا فن باوجود غیر مہذب ہونے کے دل چسپ ہے اور چرکین کی شاعری کی طرح اذیت رساں نہیں۔ مردوں اور عورتوں کے محاورں اور لہجے میں تھوڑا بہت فرق ہر زبان میں ہوا کرتا ہے، مگر اتنا نہیں جتنا ہمیں اپنی زبان میں نظر آتا ہے۔ فارسی، عربی سب زبانوں میں یہ امتیاز موجود ہے۔ مگر اردو اس خصوصیت میں بڑھی ہوئی ہے۔ فارسی اور عربی کا پُرانا مذاق تھا کہ عورتیں شعر کہتیں تو اپنی زبان میں کہتیں۔ اور مرد کبھی عورتوں کی زبان سے کوئی خیال ادا کراتے ہیں تو زبان میں لطف پیدا کرنے کے لیے ان کی زبان اختیر کر لیتے ہیں۔ یہی حال انگریزی کا ہے۔ اردو شاعری ہمیشہ سے صرف مردوں کی زبان میں رہی، یہاں تک کہ اس میں عورتیں کہتی بھی ہیں، تو مرد بن کے کہتی ہیں، مردوں ہی کی زبان اختیار کرتی ہیں اور اپنے لیے ضمیریں تک مذکر استعمال کرتی ہیں۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 114
سلطان خانہ، اس منزل اور مرصع منزل ملی تھیں۔ مگر بادشاہ کے شوق نے چند ہی روز میں بیسیوں کوٹھیاں تعمیر کرا دیں، جن کے گرد نہایت ہی پرفضا باغ اور فرحت بخش چمن تھے۔ جس وقت میں نے دیکھا ہے، بادشاہ کے قبضے میں مندرجہ ذیل عالی شان کوٹھیاں تھیں جو جنوب سے شمال تک ترتیب وار چلی گئئ تھیں: سلطان خانہ، قصر البیضاء، گوشۂ سلطانی، شہنشاہ منزل، مرصع منزل، اسد منزل، شاہ منزل، نور منزل، تفریح بخش، بادامی، آسمانی، تہنیت منزل، حدِ سلطانی، سدِ سلطانی، عدالت منزل۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی کوٹھیاں تھیں، جن کے نام مجھے یاد نہیں رہے۔
اِن کے ماسوا باغوں کے اندر تالابوں کے کنارے بہت سے کمرے، بنگلے اور چھوٹی چھوٹی کوشکیں تھیں۔ ان تمام کوٹھیوں، متفرق کمروں، بنگلوں اور کوشکوں میں صاف سُتھرا پرتکلّف فرش بچھا رہتا۔ چاندی کے پلنگ بچھونوں اور تکیوں سے مکمل لگے رہتے۔ تصویریں اور طرح طرح کا فرنیچر آراستہ ہوتا۔ اور محض پرورش کے خیال سے، ضرورت سے زیادہ مکان دار مقرّر تھے جو روز جھاڑتے اور ہر چیز کو صفائی اور قرینے سے آراستہ رکھتے۔ غرض ہر کوٹھی بہ جائے خود اس قدر آراستہ و پیراستہ نظر آتی کہ انسان اش اش کر جاتا۔ کوٹھیوں کے گرد کے باغ اور چمن ایسی ہندسی ترتیبوں اور اقلیدس کی شکلوں کے مطابق بنائے گئے تھے کہ دیکھنے والوں کو بادشاہ کی مناسبت طبعی پر تعجب ہوتا۔
لکھنؤ میں تو بادشاہ نے صرف قیصر باغ اور اس کے پاس کی چند عمارتیں، یا اپنے والدِ مرحوم کا امام باڑہ اور مقبرہ ہی تعمیر کیا تھا۔ مگر مٹیابرج میں نفیس اور اعلا عمارتوں کا ایک خوبصورت شہر بسا دیا تھا۔ دریا کے اُس پار، مٹیابرج کے عین مقابل کلکتے کا مشہور بوٹینکل گارڈن ہے، مگر وہ مٹیابرج کی دنیوی جنت اور اُس کے دل کش عجائبات کے سامنے مٹ گیا تھا۔ ان تمام عمارتوں، چمنوں، کنجوں اور وسیع و نزہت بخش مرغزاروں کے گرد، بلند دیواروں کا احاطہ تھا۔ مگر میونسپلٹی کی شاہ راہِ عام کے کنارے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 115
کنارے تقریباً ایک میل تک شان دار دکانیں تھیں اور اُن میں وہی ادنا درجے کے ملازمین رہنے پاتے تھے جن کو اپنے فرائض کے لحاظ سے وہاں رہنے کی ضرورت تھی۔ مگر اندر جانے کا راستہ سوا پھاٹکوں کے، جن پر پہرہ رہتا، کسی دُکان میں سے نہیں رکھا گیا تھا۔ خا ص سلطان خانے کے پھاٹک پر نہایت عالی شان نوبت خانہ تھا۔ نقارچی نوبت بجاتے، اور پرانے پہروں اور گھڑیوں ہی کے حساب سے شب وروز گھڑیال بجا کرتا۔
دنیا میں عمارت کے شوقین ہزاروں بادشاہ گزرے ہیں۔ مگر غالباً اپنی ذات سے کسی تاج دار نے اتنی عمارتیں اور اتنے باغ نہ بنوائے ہوں گے جتنے کہ واجد علی شاہ نے اپنی ناکام زندگی اور برائے نام شاہی کے مختصر زمانے میں بنائے۔ شاہ جہاں کے بعد اس بارۂ خاص میں اگر کسی کا نام لیا جا سکتا ہے تو وہ اسی ستم زدہ شاہِ اودھ کا نام ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی خاص عمارت سیکڑوں ہزاروں سال تک باقی رہی اور کسی کی صد ہا عمارتیں زمانے نے چند ہی روز میں مٹا کے رکھ دیں۔
عمارت کے علاوہ بادشاہ کو جانوروں کا شوق تھا۔ اور اس شوق کو بھی انہوں نے اس درجے تک پہنچا دیا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اور شاید کوئی شخصی کوشش آج تک اس کے نصف درجے کو بھی نہ پہنچ سکی ہو گی۔
نور منزل کے سامنے خوش نما آہنی کٹہرے سے گھیر کے ایک وسیع رمنا بنایا گیا تھا۔ جس میں صدہا چیتل، ہرن، اور وحشی چوپایے چھوٹے پھرتے تھے۔ اِسی کے درمیان سنگِ مرمر کا ایک پختہ تالاب تھا جو ہر وقت ملبّب رہتا اور اُس میں شُتر مُرغ، کشوری، فیل مرغ، سارس، قازیں، بگلے، قرقرے، ہنس، مور، چکور اور صد ہا قسم کے طیور اور کچھوے چھوڑ دیے گئے تھے۔ صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ مجال کیا جو کہیں بیٹ یا کسی جانور کا پر بھی نظر آ جائے۔ ایک طرف تالاب کے کنارے کٹہروں میں شیر تھے۔ اور س رمنے کے پاس ہی سے لکڑی کے سلاخوں دار بڑے بڑے خانوں کا ایک سلسلہ
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 141

اگر شاعر کا نام نہ معلوم ہو تو کوئی نہیں پہچان سکتا کہ یہ کسی مرد کا کلام ہے یا عورت کا۔

اردو شاعری کا تیسرا یا چوتھا ہی دور تھا کہ شوخ طبع جوانوں میں خیال پیدا ہوا کہ ریختہ کی طرح ایک ریختی ایجاد کی جائے۔ میر حسنؔ نے اپنی مثنوی میں ضرورت کے موقعوں پر یہ زبان موزوں کی تھی مگر وہاں تک مضائقہ نہ تھا۔ میاں رنگینؔ نے اس رنگ کو مستقل طور پر اختیار کیا، جو دہلی کے رہنے والے تھے اور لکھنؤ کی صحبتوں میں شریک رہا کرتے تھے۔ ابتداً مہذب لوگوں کی صحبت نے اس رنگ کو بے شرمی اور خلاف تہذیب جانا، چناں چہ سید انشاؔ کی زبانی ہم نے لکھنؤ میں دہلی کے جن مہذب سن رسیدہ بزرگ اور وہیں کی ایک رنڈی نوراً کی گفتگو لکھی ہے، اس میں وہ بزرگ فرماتے ہیں "اور سب سے زیادہ ایک اور سُنیے کہ سعادت یار، طہماسپ کا بیٹا، انوری ریختہ اپنے کو جانتا ہے۔ رنگینؔ تخلص ہے۔ ایک قصہ کہا ہے، اُس مثنوی کا نام دلپذیر پر رکھا ہے۔ رنڈیوں کی بولی اس میں باندھی ہے۔ میر حسنؔ پر زہر کھایا ہے۔ ہر چند اس مرحوم کو بھی کچھ شعور نہ تھا، بدر منیر کی مثنوی نہیں کہی گویا سانڈے کا تیل بیچتے ہیں۔ بھلا اس کو شعر کیوں کر کہیے؟ سارے لوگ دلی کے لکھنؤ کے، رنڈی سے لے کے مرد تک پڑھتے ہیں :

چلی واں سے دامن اٹھاتی ہوئی
کڑے سے کڑے کو بجاتی ہوئی

سو اس بے چارے رنگینؔ نے بھی اسی طور پر قصہ کہا ہے۔ کوئی پوچھے کہ بھائی تیر باپ رسال دار مسلم، لیکن بچارہ برچھی بھالے کا ہلانے والا، تیغے کا چلانے والا تھا۔ تو ایسا قابل کہاں سے ہوا؟ اور شہدپن مزاج میں رنڈی بازی سے آ گیا ہے تو ریختہ کے تئیں چھوڑ کر ایک ریختی ایجاد کی ہے۔ اس واسطے کہ بھلے آدمیوں کی بہو بیٹیاں پڑھ کر مشتاق ہوں۔ اور ان کے ساتھ اپنا منہ کالا کرے۔ بھلا یہ کلام کیا ہے:

ذرا گھر کو رنگیںؔ کے تحقیق کر لو
یہاں سے ہے کے پیسے ڈولی کہارو

مرد ہو کر کہتا ہے : کہیں ایسا نہ ہو کم بخت میں ماری جاؤں۔ اور ایک کتاب بنائی ہے اُس

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 142

میں رنڈیوں کی بولی لکھی ہے۔ جس میں اوپر والیاں، چیلیں، اوپر والا، چاند، اُجلی، دھوبن وغیرہ وغیرہ۔"

مگر مہذب بڈھے شکایت کرتے کرتے مر گئے، نوجوانوں کی رنگینی نے رنگینؔ کے مذاق کو ترقی دے ہی کے چھوڑا اور ریختی اردو کا ایک فن ہو گیا۔ جس کی ایجاد گو ایک دہلی ہی کے شاعر سے ہوئی تھی، مگر لکھنؤ میں ہوئی اور یہیں اسے فروغ ہوا۔ قصے کے سلسلے میں س زبان کو میر حسنؔ کے بعد نواب مرزا شوقؔ نے جس اعلا درجۂ کمال کو پہنچا دیا۔ تعریف نہیں ہو گکی۔ صفحے کے صفحے پڑھتے چلے جائیے، یہی نہیں پتا چلتا کہ موزوں کرنے میں شاعرانہ ضرورتوں نے بولنے کی زبان پر کہیں کچھ تصرف بھی کیا ہے یا نہیں۔ لیکن غزل گوئی میں رنگینؔ کی جانشینی جانؔ صاحب نے کی، جو لکھنؤ کے ایک معمولی شخص تھے اور عاشور علی خاں کی خراد پر چڑھ کے تیار ہوئے تھے۔ گو کہ جان صاحب کے بعد اور ریختی گو بھی لکھنؤ میں پیدا ہوئے، مگر جان صاحب پر کمال اور شہرت کا خاتمہ ہو گیا۔ انہوں نے غزلیں لیں، واسوختی کہی، اور اور بھی کئی نظمیں کہیں۔

ریختی میں اگر فحش اور بدکاری کے مذاق سے پرہیز کر کے، پاک دامنی کے جذبات اختیار کیے جاتے تو یہ فن ایک حد تک قابلِ ترقی ہوتا۔ مگر خرابی یہ ہوئی کہ اس کی بنیاد ہی بدکاری کے جذبات اور بے عصمتی کے خیالات پر تھی، اس لیے ریختی گویوں کا قدم ہمیشہ جادۂ تہذیب و اعتدال سے باہر ہو گیا۔ اور اس سے زبان کو چاہے کسی حد تک فائدہ ہوا ہو، مگر اخلاق کو نقصان پہنچا۔

(11)

نثر اردو کی عمر، نظم کے دیکھتے کم ہے۔ مدت تک تعلیم یافتہ لوگوں کہ یہ وضع رہی کہ اگرچہ بعض لوگ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے، مگر عام رحجان اور میلان اردو غزل سرائی کی طرف تھا۔ اور ہندوستان میں اردو شاعروں کی تعداد فارسی شاعروں سے بہت زیادہ تھی۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 143

مگر نثر میں سارے ملک کو فارسی ہی میں لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ علوم و فنون کی کتابیں فارسی میں لکھی جاتیں، دین و مذہب کی کتابیں فارسی میں تصنیف ہوتیں، یہاں تک کہ بوڑھے سے لے کے بچے تک سب فارسی ہی میں خط و کتابت کرتے۔ بچوں کو مکت میں فارسی ہی کی انشائیں پڑھائی جاتیں اور فارسی ہی میں خط لکھنا انہیں سکھایا جاتا۔ نتیجہ یہ تھا کہ بول چال میں اردو زبان چاہے کیسی ہی شیریں و فصیح ہو گئی ہو، لکھنے کی ضرورت پیش آئی اور سب گونگے ہو گئے۔

پہلے پہل اردو میں میر امنؔ دہلوی نے انگریزوں کی حوصلہ افزائی و ہدایت سے اپنی کتاب چار درویش لکھی۔ اُسی زمانے میں میرزا علی لطفؔ نے اپنا تذکرۂ شعراے اردو تصنیف کیا، جو عبد اللہ خاں صاحب مقیم حیدر آباد کی کوشش سے چھپ گیا ہے۔ اسی زمانے کے قریب مولوی اسماعیل صاحب شہید نے توحید و اتباعِ سنت پر اپنی کتاب تقویہ الایمان تحریر فرمائی۔ یہ کتابیں اب چاہے جس نظر سے دیکھی جائیں، ان دنوں ادبی کمال دکاھنے کے لیے نہیں لکھی گئی تھیں۔ ان کی تصنیف سے صرف مقصود یہ تھا کہ بے تکلف اور سیدھی سادی زبان میں مطلب ادا کر دیا جائے اور عوام فائدہ اٹھا سکیں۔ مذکورۂ بالا بزرگوں کو اگر ادب اردو کا کمال دکھانا ہوتا تو اس زمانے کی انشا پردازی کے مطابق ظہوریؔ و نعمتؔ خان عالیؔ اور ابوؔ الفضل و طاہرؔ وحید کا رنگ اختیار کرتے جو اس وقت ادبی دنیا پر حکومت کر رہا تھا اور جس کے بغیر کوئی تحریر ملک میں قابل داد نہ تصور کی جتی۔ تحریر ہی نہیں، گفتگو میں بھی اگر زیادہ تہذیب و شایستگی ملحوظ خاطر ہوتی تو وہی انداز اختیار کر لیا جاتا، جیسا کہ انشاؔ نے میرزا مظہرؔ جانِ جاناں کی تقریر کے چند الفاظ نقل کر کے بتا دیا ہے۔

سچ پوچھیے تو اردو کی نثاری لکھنؤ ہی سے شروع ہوئی جب کہ پہلے مرزا رجب علی بیگ سرور نے فسانۂ عجائب اور اپنی دوسری کتابوں کو شائع کیا۔ اُسی زمانے میں نورتن بھی لکھنؤ میں لکھی گئی۔ جس کے مصنف محمد بخش مہجورؔ شاگرد جرأتؔ لکھنؤ ہی کی صحبت کے ساختہ و پرداختہ تھے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 144

رجب علی بیگ سرور نے سچ یہ کہ انشا پردازی کا اعلا کمال دکھایا ہے اور جس وقت وہ کتاب شائع ہوئی ہے ، اردو صحبتوں میں حیرت کے ساتھ دیکھی گئی۔ مگر بدقسمتی سے انہوں نے دیباچے میں میر امن پر حملہ کر دیا تھا، جس کی وجہ سے ان کے تمام کمالات اہل دہلی کے نزدیک خاک میں مل گئے۔ یہاں تک کہ میر محمد حسین آزاد کے سے مہذب بزرگ بھی انہیں "لکھنؤ کا شہید" فرماتے ہیں۔ اور معلوم نہیں رجب علی بیگ مرحوم سے اس گستاخی کا انتقام کب تک لیا جائے گا؟ میرؔ امن کا ہنر انشا پردازی انگریزوں کو ان دنوں چاہے نظر آ گیا ہو مگر ہندوستان کے اہل زبان میں سے کسی کو نہ نظر آیا تھا اور نہ نظر آ سکتا تھا۔ اس لیے کہ انگریزی تعلیم کے اثر نے اس وقت تک ملکی لٹریچر کا مذاق نہین بدلا تھا اور مشرقی ادب خیالوں اور دماغون میں بسا ہوا تھا۔

ادبی رنگ کے متعلق میں نے کئی بار لکھا ہے اور پھر لکھتا ہوں کہ وہ بالکل تعلیم اور مذاق کی پرورش سے وابستہ ہوتا ہے۔ جس طرح غذاؤں، خوش بوؤں اور رنگوں اور دیگر تمام چیزوں کو گرد کی معاشرت پسندیدہ بنایا کرتی ہے اور مختلف قوموں اور ملکوں میں اس قدر اختلاف رہتا ہے کہ ایک کی لذیز ترین اور محبوب ترین چیز دوسرے کے نزدیک نہایت ہی بدمزہ اور سخت قابل نفرت ہوتی ہے۔ ویسے ہی ادب اور لٹریری مذاق کا حال ہے کہ جو رنگ ایک قوم میں پرورش پا کے دماغوں اور زبانوں پر چڑھ جاتا ہے، دوسری قوم کے نزدیک بے ہودہ بے لطف اور بدمزہ ہوتا ہے اور صحیح فیصلہ کوئی نہیں کر سکتا کہ کون اچھا ہے اور کون بُرا ہے۔

جاہلیت عرب میں فصاحت و بلاغت کا رنگ یہ تھا کہ مقفا فقرے لائے جائیں۔ عبارت میں متناسب و متداول الفاط مترادف آئیں۔ اور ایک ہی مطلب بار بار ادا کر کے مؤثر اور دل چسپ بنایا جائے۔ اسی مذاق کو قرآن نے، چوں کہ وہ لسان قوم میں تھا، نہایت معجز نام طرز سے تکمیل کو پہنچایا۔ پھر وہی مذاق ادب عربی کا عنصر اعظم بن گیا۔ آج کل کے معیار سے دیکھا جائے تو عربی کی فصیح ترین کتابیں مقامات حریری و تاریخ تیموری وغیرہ میں قافیہ پیمائی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 145

تطویل بے جا اور بے ضرورت الفاظ لانے کے سوا کچھ نہیں ہے، جس کا مدتوں اور صدیوں تک ایک دنیا مزہ لیتی رہی ہے۔ یہی رنگ فراسی کے ادیبوں نے اختیار کیا۔ اور جوں جوں ادبی ترقی ہوتی گئی، وہی رنگ پختہ اور گہرا ہوتا گیا۔ اور اس مذاق کے دماغوں میں بسے ہونے کی وجہ سے وہی رنگ اردو کے اُدباے اولین نے اختیار کیا اور دنیا سے داد پائی۔ لہذا ٰہ خیال کرنا کہ چار درویش جن دنوں لکھی گئی ہے، ان دنوں وہ سوا انگریزوں کو پسند ہونے کے، جو اردو کو جانتے ہی نہ تھے، ہندوستان کے اہل علم میں کوئی ادبی کمال تصور کی گئی ہو گی، بالکل بے اصل ہے۔

اب انگریزی کے اثر سے بے شک ایسا زمانہ آ گیا ہے، جب اردو کو پُرانے لٹریچر نے جو زیور اور لباس پہنایا تھا، اتار لیا گیا اور نئے مغربی کپڑے پنہائے گئے، چار درویش اور اس کی سی دوسرے کتابیں چوں کہ پرانے ادبی زیور و لباس سے معر تھیں، اس لیے لوگوں کو پسند آئیں۔ اس لیے نہیں کہ ان میں کوئی خاص خوبی تھی، بلکہ اس لیے کہ اس پرانے مقبول عام قومی لڑیچر کے رنگ سے معرا تھیں جو موجودہ لوگوں کو ناپسند ہے۔

اسی زمانے میں لکھنؤ میں مولوی غلام امام شہید نے اپنا مشہور مولد شریف لکھا، جو اس وقت کے ادبی مذاق میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ لوگوں کو بہت پسند آیا اور مذہبی مقبولیت کی وجہ سے آج تک بہت پسند ہے۔

مگر موجودہ نثر اردو اصل میں دہلی ہی سے نکلی اور ہمیشہ دہلی کی زیربار احسان رہے گی۔ مرزا غالبؔ نے اردو انشا میں بے تکلفی کا رنگ اختیار کیا جو موجودہ مذاق سے بہت ہی قریب ہے۔ اگرچہ وہ بھی کبھی کبھی قافیہ بندی کی رعایت کر جاتے ہیں، لیکن اس بے تکلفی کے ساتھ کہ پڑھنے والے کو قافیے کا خیال بھی غور کرنے سے آتا ہے۔ موجودہ تعلیم نے لوگوں کو اس رنگ کو قبول کرنے کے لیے خوب تیار کر دیا تھا، ہر صحبت میں واہ واہ ہونےلگی۔ انکے بعد سر سید نے اس سادگی میں متانت پیدا کی مگر اس کوشش کے ساتھ کہ زبان دقیق نہ ہونے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 146

پائے اور ایسی رہے کہ ہر ادنا و اعلا اسے سمجھ لے۔ مولوی محمد حسین آزاد نے اس میں متانت کے ساتھ اورلطف پیدا کر دیا۔ جب کہ لکھنؤ کے لوگ انگریزی کے اثر سے دور ہونے کے باعث ہنوز پرانے ہی رنگ کے دیوانے تھے۔ یہاں واجد علی شاہ کے آخر ایام زندگی تک رنگین اور مُقفا عبارت لکھی جاتی تھی اور لوگوں کو اس سادگی کا مزہ نہیں ملنے پایا تھا۔

اب علی گڑھ سے تہذیب الاخلاق، آگرے سے تیرہویں صدی اور لکھنؤ سے اودھ پنچ نکل رہے تھے، جن میں سے ہر ایک نثر اردو کی ایک ممتاز شان رکھتا تھا۔ تہذیب الاخلاق میں متنت اور عالمانہ وقار کے ساتھ قومی درد کا سوز و گداز تھا، سلجھی ہوئی صاف زبان تھی، اور نئے مغربی فلسفہ و ادب سے لیے ہوئے خیالات اور اثر ڈالنے والے مضامین و خطبات تھے۔ تیرھویں صدی میں اعلا منشیانہ قابلیت کے ساتھ قدیم ادبی مذاق کی نگہداشت، نئی خیال آرائیوں اور جدتوں کے ساتھ کی جاتی تھی۔ اور پرانا مشرقی لڑیچر کچھ ایسی جدت طرازیوں کے ساتھ نئے لباس میں ظاہر کیا جاتا تھا کہ نئے او رپرانے دونوں گروہوں سے بے اختیار "واہ واہ" کے نعرے بلند ہوتے تھے۔

اودھ پنچ میں زبان اپنی اصلی شان میں دکھائی جاتی تھی جس میں مذاق کا پہلو غالب رہتا۔ اس میں مختلف لکھنے والے تھے اور ہر ایک کا مذاق خاص لطف اور خاص خوبیاں رکھتا تھا۔منشی سجاد حسین ایڈیٹر کی شوخیاں، مراز مچھو بیگ صاحب کی کوثر کی دھوئی ہوئی زبان، منشی احمد علی کسمنڈوی کی فاسیت کی اعلا ادبی اور شاعرانہ دل چسپیاں ظاہر کرنے والا رنگ، پنڈت تربھون ناتھ ہجرؔ کی ہندی نظمیں اور ان کی خوبیوں کو نہایت دلچسپی کے ساتھ ظاہر کرنے والے مضامین، اردو نثر میں ایک عجیب زندگی و شگفتگی پیدا کر رہے تھے۔

اسی اثنا میں اودھ اخبار کے ساتھ پنڈت رتن ناتھ کا ناول "فسانہ آزاد" شائع ہونا شروع ہوا، جس نے ملک پر بہت بڑا اثر ڈالا۔ اور اردو دنیا ناول نویسی کے مذاق سے آشنا ہو کے اس کی بے انتہا فریفتہ ہو گئی۔ فسانۂ آزاد میں جہاں مصنف نے اپنے قلم سے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 147

کوئی سین دکھایا ہے یا کوئی واقعہ لکھا ہے، وہی فسانۂ عجائب کا پرانا رنگ ترقیوں کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ اور جہاں دوسرں کی زبان سے گفتگو کرائی ہے، بہت ہی سادی اور بے تکلف زبان رکھی ہے، خصوصاً عورتوں کی زبان بہت ہی پاکیزہ ہے، گو کہ جا بہ جا غلطیاں بھی ہو گئی ہیں مگر سچ یہ ہے کہ اپنی کوشش میں وہ جس درجے تک پہنچ گئے ہیں، ان سے پہلے کوئی نہیں پہنچا تھا۔

یہی زمانہ ہے جب کہ مولوی نذیر احمد صاحب نے گورنمنٹ کی فرمایش سے تعریرات ہند کا ترجمہ کیا اور اپنی کتابوں کے ذریعے سے ایک ایسی زبان ملک کے سامنے پیش کی جو کہیں روانی اور صفائی میں بے نظیر ہے اور کہیں لغاتِ عربی سے مملو ہونے کے باعث سخت دقیق و بلیغ۔ اور اسی عہد میں مولوی محمد حسین صاحب آزادؔ کا لٹریچر ایک بہت ہی پسندیدہ رنگ پیش کر رہا تھا۔ خصوصاً انہوں نے زبان اردو کی تاریخ اور تذکرۂ شعراے اردو لکھ کے، ادبِ اردو میں خاص نام وری حاصل کی۔ اُسی زمانے میں 1882ء میں محشر نام ایک ہفتے وار رسالہ میں نے مولوی محمد عبد الباسط صاحب محشرؔ کے نام سے نکالا، جس کے ذریعے سے ایڈیسن کا رنگ اردو میں ایسے دل کش عنوان اور موزوں و مناسب الفاظ و خیالات میں پیش کیا گیا کہ ملک یک بہ یک چونک سا پڑا، ساتھ ہی میرے مضامین اودھ اخبر کے کالموں میں شائع ہونا شروع ہوئے جنہوں نے ملک کے سامنے ایک بالکل نیا لٹریچر پیش کیا جو اس قدر مقبول ہوا کہ ہر طرف سے مرحبا کی صدائیں سنی جانے لگیں۔ یکایک نظر آیا کہ اکثر مضمون نگار اسی رنگ کو اختیار کر رہے ہیں اور ملک کا عام رجحان اسی طرف ہے، اسی درمیان میں میں نے اپنا ناول دلچسپ اور موثر ڈراما شہید وفا ملک کے سامنے پیش کیا اور ہر طرف سے حوصلہ افزائی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 148

کیا۔ جس کا لٹریچر انگریزی دانوں اور پرانے مذاق کے لوگوں دونوں میں مقبول ہوا۔ پھر 1888ء سے اس کے ساتھ تاریخی ناولوں کا سلسلہ جاری کیا گیا۔ جن میں سب سے پہلا ناول ملک العزیز ورجنا ہے۔ ان ناولوں کو ملک نے جس شوق سے لیا اس کے بیان کرنے کی تو ضرورت نہیں ہے مگر اتنا عرض کر دینا ضروری ہے کہ انہی ناولوں کی وجہ سے واقعات کے معلوم کرنے اور کتابوں کے مطالعے کا شوق بڑھنے کی بنیاد پڑی۔ انہی ناولوں کے ذریعے سے ملک میں تاریخ کے پڑھنے اور واقعات عالم سے دلچسپی حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور انہی ناولوں اور دل گداز کے صفحوں نے وہ رنگ پیدا کیا جس پر موجودہ ادبِ اردو کی بنیاد قائم ہے۔

بہ ہر حال نثرِ اردو کا تعلق جہاں تک پرانے ادبی رنگ سے ہے، اس کی بنیاد لکھنؤ میں پڑی۔ ہاں جدید رنگ کا آغاز دہلی سے ہوا۔ مگر اس کوشش میں جہاں تک ممکن ہوا، لکھنؤ نے دہلی کی رفاقت کی۔ خصوصاً ظرافت کی مذاق تو لکھنؤ ہی سے پیدا ہوا اور لکھنؤ میں تکمیل کو پہنچا۔

(12)

لیکن زبان اردو کو جو ترقیاں لکھنؤ میں حاصل ہوئیں، وہ شاعروں، ادیبوں، نثاروں اور مصنفوں ہی تک محدود نہیں ہیں، مختلف سوسائٹیوں اور طبقوں میں ترقی و وسعت زبان کی نئی نئی صورتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے ہر گروہ دانوں کے لیے خاص دل چسپیاں پیدا کیں۔

ان میں سے زیادہ قابل توجہ داستان گوئی ہے، جو دراصل فی البدیہ تصنیف کرنے کا نام ہے۔ یہ فن اصل میں عربوں کا ہے، جہاں عہد جاہلیت میں بھی داستان گوئی کی صحبتیں مرتب ہوا کرتی تھیں۔ لیکن ہندوستان کی داستان گوئی کی نسبت ہم نہیں جانتے کہ عرب کی قصہ خوانی سے ان کا کوئی رشتہ ہے یا نہیں۔ امیر حمزہ کی داستان جو داستان گویوں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 149

کی اصلی اور حقیقی جولاں گاہ ہے، وہ دراصل فارسی میں تھی۔ اور کہتے ہیں کہ شہنشاہ اکبر کے زمانے میں امیر خسرو نام ایک قابل شخص نے اسے تصنیف کیا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ ملوک تغلق کے عہد میں داستانِ امیر حمزہ موجود تھی۔

دہلی کے مشہور داستان گو لکھنؤ میں آنا شروع ہوئے۔ یہاں افیونیوں نے ان کی یہاں تک قدر کی کہ داستان سننے کو اپنی صحبتوں کا ایک عنصر اعظم قرار دے لیا۔ چند ہی روز میں لکھنؤ کے اندر اس کو اس قدر فروغ ہو گیا کہ کوئی دولت مند نہ تھا جس کی سرکار میں کوئی داستان گو نہ مقرر ہو۔ سیکڑوں داستان گو پیدا ہو گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے آج کل کے مقبول سے مقبول اسپیکروں میں سے ابھی تک کسی کو فصیح البیانی میں وہ درجہ نہیں نصیب ہو سکا ہے جو قادر الکلام داستان گویوں کو حاصل تھا۔ دہلی میں بھی دو ایک صاحب کمال داستان گو آج تک پڑے ہیں، مگر لکھنؤ میں ان کا شمار بہت زیادہ ہے۔ اور ان کے طرز تقریر کا اثر عوام شہر کی زبانوں پر بے حد پڑ گیا ہے۔ ناولوں کا ذوق پیدا ہونے کے بعد جس اس بات کی کوشش کی گئی کہ داستان کو داستان گویوں ہی کی زبان میں قلم بند کرا لیا جائے تو لکھنؤ ہی ایسے باکمال داستان گو پیش کر سکا جنہوں نے ضخیم جلدیں لکھ کے اردو داں پبلک میں پھیلا دیں۔ چنانہ چاہؔ اور قمرؔ کے تصانیف ملک میں بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔

داستان کے چار فن قرار پا گئے ہیں : رزم، بزم، حسن و عشق اور عیاری۔ ان چاروں فنوں میں لکھنؤ کے داستان گویوں نے ایسے ایسے کمال دکھائے ہیں جن کا اندازہ بغیر دیکھے اور سُنے نہیں ہو سکتا۔ الفاظ میں تصویر کھینچنا اور تصویروں کا نہایت گہرا دیرپا اثر سامعین کے دلوں پر ڈال دینا ان لوگوں کا خاص کمال ہے۔

سوشل تفنن، مذاق، ظرافت اور دلی لگی کے عنوان سے بھی لکھنؤ میں علم زبان کے کئی فن پیدا ہو گئے، جن میں کوئی مقام لکھنؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ انہی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 150

میں سے ایک فن پھبتی کہنا ہے۔ اس کو دراصل شاعرانہ تشبیہ و استعارے سے تعلق ہے۔ لیکن اس میں اتنی خصوصیت ہے کہ یہ کسی کو بگاڑ کے دکھانے، اس کے عیب نمایاں کرنے اور برجستہ کوئی انوکھی، ہنسانے والی اور عیب و نقصان ظاہر کرنے والی تشبیہ پیش کر دینے تک محدود ہے۔ لکھنؤ کے ادنا ادنا لڑکے، بازاری عورتیں، جاہل دکاندار، ادنا طبقوں کے اہل حرفہ تک ایسی برجستہ پھبتیاں کہہ جاتے ہیں کہ باہر والوں کو حیرت ہو جاتی ہے۔ ایک صاحب کربلاے معلا کی زیارت کر کے واپس آئے اور براق کپڑے پہن کے دوستوں میں آ کے بیٹھے ہی تھی کہ ایک لونڈے نے کہا : "ایں، یہ فرات کا بگللا کہاں سے آ گیا؟" ایک بوڑھے دولہا خضاب کر کے دلہن بیاہنے کو آئے اور بڑی دھوم کی برات لائے۔ زنانے سے نکل کے وہ محفل میں آ رہے تھے، جوتا اُتارنے کے لیے جھکے اور چند قدم فرش پر گھٹنے ٹیک کے چلے، کسی کی زبان سے نکلا : دولہا کہاں ہیں؟ شوخ مزاج رنڈی جو کھڑی مجرا کر رہی تھی، ہنس کے بولی : اے وہ منیوں منیوں چلا تو آتا ہے۔ ایک کبڑیا چوک میں پونڈے بیچ رہا تھا، صدا یہ تھی کہ : ارے بھئی، یہ کنکوے کون لوٹے گا؟ کیا اس سے زیادہ بامذاق کوئی استعارہ ہو سکتا ہے؟ نازک ترین استعارہ وہ ہے جس میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں کا نام نہ لیا جائے، صرف مشبہ بہ کی کوئی خصوصیت بتا کے کلام میں لطف پیدا کر دیا جائے، اس کی اس بہتر مثال کون ہو سکتی ہے کہ نہ پونڈے کا نام لیا، نہ لگے کا جس سے کنکوے لوٹے جاتے ہیں، اور پھر اتنا کہہ کے کہ "کنکوے کون لوٹے گا" یہ بتا دیا کہ یہ پونڈے، لگوں کے برابر ہیں، جن سے کنکوے لوٹے جاتے ہیں۔ اور پھر اس سے زیادہ مناسب اور بازاری لوگوں کے مذاق کی کوئی تشبیہ نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح کی صدہا ہزارہا مثالیں ہیں جو یہاں کی صحبتوں میں اٹھتے بیٹھتے ہر وقت سُنی جاتی ہیں۔

دوسرا "ضلع" ہے۔ یہ دراصل شاعرانہ رعایت ہے جس نے عوام کی بات چیت اور مذاق کی گفتگو میں آ کے خاص رنگ پیدا کر لیا ہے۔ ضلع میں کوشش کی جاتی ہے کہ
 

محمد عمر

لائبریرین
116

شروع ہو گیا تھا جس میں بیسیوں طرح کے اور خدا جانے کہاں کہاں کے بندر لا کے جمع کیے گئے تھے، جو عجیب عجیب حرکتیں کرتے اور انسان کو بغیر اپنا تماشا دکھائے آگے نہ بڑھنے دیتے۔

مختلف جگہ حوضوں میں مچھلیاں پالی گئی تھیں جو اشارے پر جمع ہو جاتیں اور کوئی کھانے کی چیز ڈالے تو اپنی اچھل کود سے خوب بہار دکھاتیں۔ سب پر طُرّہ یہ کہ شہنشاہ منزل کے سامنے ایک بڑا سا لمبا اور گہرا حوض قائم کر کے، اور اُس کے کناروں کو چاروں طرف سے خوب چکنا کر کے اور آگے کی طرف جھُکا کے، اُس کے بیچ میں ایک مصنوعی پہاڑ بنایا گیا تھا جس کے اندر سیکڑوں نالیاں دوڑائی گئی تھیں اور اوپر سے دو ایک جگہ کاٹ کے، پانی کا چشمہ بھی بہا دیا گیا تھا۔ اس پہاڑ میں ہزاروں بڑے بڑے دو دو تین گز کے لمبے سانپ چھوڑ دیے گئے تھے جو برابر دوڑتے اور رینگتے پھرتے۔ پہاڑ کی چوٹی تک چڑھ جاتے اور پھر نیچے اُتر آتے۔ مینڈکیں چھوڑی جاتیں، انہیں دوڑ دوڑ کے پکڑتے۔ پہاڑ کے گردا گرد نہر کی شان سے ایک نالی تھی۔ اس میں سانپ لہرا لہرا کے دوڑتے اور مینڈکوں کا تعاقب کرتے اور لوگ بلا کسی خوف کے پاس کھڑے سیر دیکھا کرتے۔ اس پہاڑ کے پیچھے دو کٹہرے تھے جن میں دو بڑی بڑی چپتیں رکھی گئی تھیں۔ یوں تو خاموش پڑی رہتیں لیکن جس وقت مُرغ لا کے چھوڑا جاتا، اسے جھپٹ کے پکڑتیں اور مسلّم نگل جاتیں۔ سانپوں کے رکھنے کا انتظام اس سے پہلے شاید کہیں نہ کیا گیا ہو گا۔ اور خاص واجد علی شاہ کی ایجاد تھی جس کو یورپ کے سیاح حیرت سے دیکھتے اور اس کی تصویریں اور مُشرّح کیفیت قلم بند کر لے جاتے تھے۔

مذکور جانوروں کے علاوہ، ہزار ہا طیور کے چمکتے ہوئے برنجی پنجرے خاص سلطان خانے کے اندر تھے بیسیوں بڑے بڑے ہال تھے جو لوہے کے جال سے محفوظ کر دیے گئے تھے اور گنج کہلاتے تھے۔ ان میں قسم قسم کے طیور کثرت سے لا کے چھوڑ دیے گئے تھے۔ اور اُن کے

117

رہنے اور نشوونما پانے کا پورا سامان فراہم کیا گیا تھا۔ بادشاہ کی کوشش تھی کہ چرند پرند میں سے جتنی قسم کے جانور دستیاب ہو سکیں سب جمع کر لیے جائیں۔ اور واقعی ایسا مکمّل زندہ عجائب خانہ شاید روئے زمین پر کہیں موجود نہ ہو گا۔ ان جانوروں کی فراہمی میں بے روک روپیہ صرف کیا جاتا اور کوئی شخص نیا جانور لائے تو منہ مانگے دام پاتا۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ نے ریشم پرے کبوتروں کا جوڑا چوبیں ہزار روپے کو اور سفید مور کا جوڑا گیارہ ہزار روپے کو لیا تھا۔ ذرافہ جو افریقہ کا بہت بڑا اور نہایت عجیب جانور ہے اس کا بھی ایک جوڑا موجود تھا۔ دو کوہان کے بغدادی اونٹ ہندوستان میں کہیں نظر نہیں آتے اور بادشاہ کے وہاں تھے۔ کلکتے میں ہاتھی مطلق نہیں ہیں مگر بادشاہ کے اس زندہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں ایک ہاتھی بھی تھا۔ محض اس خیال سے کوئی جانور رہ نہ جائے، دو گدھے بھی رمنے میں لا کے چھوڑ دیے گئے تھے۔ درندوں میں سے شیر ببر، دیسی شیر، تیندوے، ریچھ، سیاہ گوش، چرغ، بھیڑیے۔ سب کٹہروں میں بند تھے۔ اور بڑی خاطر داشت سے رکھے جاتے۔

کبوتروں کا انتظام دیگر جانوروں سے الگ تھا۔ بادشاہ کی مختلف کوٹھیوں میں سب ملا کے چوبیس ہزار کبوتر جن کے اُڑانے میں کبوتر بازوں نے بڑے بڑے کمالات دکھائے تھے۔

جانوروں پر جو صرف ہو رہا تھا، اس کا ناقص اندازہ اِس سے ہو سکتا ہے کہ آٹھ سو سے زیادہ جانور باز تھے۔ تین سو کے قریب کبوتر باز تھے۔ اسّی کے قریب ماہی پرور تھے۔ اور تیس چالیس مار پرور تھے جن کو دس روپے ماہوار سے لے کے چھ روپے ماہوار تک تنخواہیں ملتی تھیں۔ افسروں کی تنخواہ تیس سے بیس روپے تک تھیں اور کبوتروں سانپوں اور مچھلیوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی خوراک میں کچھ کم نو ہزار روپے ماہوار صرف ہوتے تھے۔

عمارت کا کام زیادہ تر مونس الدّولہ اور ریحان الدّولہ کے سپرد رہا۔ جن کو عمارت کی مد میں تقریباً پچیس ہزار ماہوار ملا کرتے تھے۔

ہزار کے قریب پہرے کے سپاہی تھے جن کی تنخواہیں عموماً چھ روپے ماہوار تھیں۔ بعض

118

بعض آٹھ یا دس روپے بھی پاتے۔ یہی تنخواہ مکان داروں کی تھی جن کا شمار پانچ سو سے زیادہ تھا۔ مالیوں کی بھی یہی تنخواہ تھی، اور اُن کا شمار بھی پانچ سو سے زیادہ تھا۔ تقریباً اسّی اہل قلم یعنی محرر تھے جو تیس سے دس روپے ماہوار تک تنخواہ پاتے تھے۔ معزز صاحبوں اور اعلیٰ عہدے داروں کا شمار چالیس پچاس سے کم نہ ہو گا جو اٹھاسی روپے ماہوار پاتے تھے۔ سو سے زیادہ کمہار تھے۔

ان کے علاوہ بیسیوں چھوٹے چھوٹے محکمے تھے: باورچی خانہ، آب دار خانہ، بھنڈی خانہ، خس خانہ، اور خدا جانے کیا کیا تھا۔ پھر ایک مد لواحقِ بیگمات یعنی ممنوعات کے رشتے داروں اور بھائی بندوں کی تھی جنہیں حسبِ حیثیت تنخواہیں ملتی تھیں۔

ان سب لوگوں نے کوٹھیوں کے رقبے سے باہر زیادہ تر اُسی زمین پر جو بادشاہ کو دی گئی تھی اور بہتوں نے پاس کی دوسری زمینوں پر مکان بنا لیے تھے اور شہر بس گیا تھا جس کی مردم شماری چالیس ہزار سے زیادہ تھی۔ ان سب کی زندگی بادشاہ کی تنخواہ کے ایک لاکھ روپے ماہ وار سے وابستہ تھی اور کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اتنی خلقتِ عظیم اس تھوڑی سی رقم میں کیوں کر زندگی بسر کر لیتی ہے۔ بنگالے کے عوام میں یہ مشہور تھا کہ بادشاہ کے پاس پارس پتھر ہے، جب ضرورت ہوتی ہے، لوہے یا تانبے کو اس میں رگڑ کر سونا بنا لیا کرتے ہیں۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ بادشاہ کے قیام سے کلکتے کے پڑوس میں ایک دوسرا لکھنؤ آباد ہو گیا تھا۔ اصلی لکھنؤ مٹ گیا تھا اور اس کی منتخب صحبت مٹیا بُرج میں چلی گئی تھی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان دِنوں لکھنؤ لکھنؤ نہیں رہا تھا، مٹیا بُرج لکھنؤ تھا۔ یہی چہل پہل تھی، یہی زبان تھی، یہی شاعری تھی، یہی صحبتیں اور بذلہ سنجیاں تھیں۔ یہیں کے عُلما و اتقیا تھے، یہیں کے امرا و رؤسا تھے اور یہیں کے عوام تھے۔ کسی کو نظر ہی نہ آتا تھا کہ ہم بنگالے میں ہیں۔ یہی پتنگ بازیاں تھیں۔ یہی مرغ بازیاں تھیں، یہی بٹیر بازیاں تھیں، یہی افیونی تھے ،یہی داستان گوئی تھی، یہی تعزیہ داری تھی، یہی مرثیہ خوانی و نوحہ خوانی تھی، یہی امام باڑے تھے اور یہی کربلا تھی۔ بلکہ جلوس اور شان و شوکت سے بادشاہ کی ضریح اٹھتی تھی، لکھنؤ میں عہدِ

119

شاہی میں شاید اُٹھ سکی ہو۔ غدر کے بعد تو کبھی کوئی تعزیہ نہیں اُٹھ سکا۔ کلکتے کی ہزار ہا خلقت اور انگریز تک زیارت کو مٹیا بُرج میں آ جاتے تھے۔

بادشاہ اگرچہ شیعہ تھے مگر مزاج میں مطلق تعصّب نہ تھا۔ اُن کا پُرانا مقولہ تھا کہ ”میری دو آنکھوں میں سے ایک شیعہ ہے اور ایک سُنّی ہے۔“ ایک بار دو شخصوں میں باہمی اختلاف پر مار پیٹ ہو گئی۔ بادشاہ نے دونوں کی معزولی کا حکم دیا، بلکہ اپنے وہاں ممنوع الملازمت کر دیا اور فرمایا ”ایسے لوگوں کا میرے یہاں گزر نہیں ہو سکتا۔“ آخر میں بادشاہ کی ایک کتاب میں بعض ایسے ناگوار الفاظ چھپ گئے تھے جن پر کلکتے کے سنّیوں میں بڑی شورش ہوئی۔ مگر اس سے لوگ واقف نہیں ہیں کہ وہ الفاظ اصل کتاب میں نہیں بلکہ دوسروں کی تاریخ یا تقریظ میں تھے۔ اور بادشاہ کو جیسے ہی اطلاع ہوئی، بغیر کسی تحریک کے معافی مانگنے کو تیار ہو گئے۔ بے تعصبی کا اس سے زیادہ ثبوت کیا ہو گا کہ سارا انتظامی کاروبار سنیوں ہی کے ہاتھ میں تھا۔ وزیرِ اعظم منصرم الدّولہ بہادر سنی تھے۔ منشی السُّلطان جو ایک زمانے میں سب سے زیادہ مقرّب اور سارے جانور خانے، کُل اہلِ قلم اور کئی اور محکموں کے افسرِ اعلیٰ تھے، سنی تھے۔ نخشی امانت الدولہ جن کے ہاتھ سے کل ملازموں حتیٰ کہ محلوں اور شاہ زادوں تک کو تنخواہ ملتی تھی، سنی تھے۔ عطارد الدولہ اور داروغہ معتبر علی خان جو آخر میں سب سے بڑے عہدے دار اور کل کاروبار کے مالک تھے، دونوں سنی تھے۔ اس سے بڑھ کے کیا ہو گا کہ امام باڑہ سبطین آباد کا محل کے خاص امام باڑے بیتُ البکا كا انتظام اور مجلسوں اور مذہبی تقریبوں کے بجا لانے کا انصرام بھی سنّیوں ہی کے ہاتھ میں تھا۔ وہاں کبھی کسی نے اِس کو محسوس ہی نہیں کیا کہ کون سنی ہے اور کون شیعہ ہے۔

مٹیا بُرج کے دکان دار اور مہاجن تک لکھنؤ کے تھے۔ اور لکھنؤ کی کوئی چیز نہ تھی جو مکمل ترین صورت میں وہاں موجود نہ ہو۔ جدھر گزر جائیے، ایک عجیب رونق اور چہل پہل

120

نظر آئی۔ اور اُس لطف میں لوگ اس قدر محو اور مست و از خود رفتہ ہو رہے تھے کہ کسی کو انجام کی خبر ہی نہ تھی۔ عماراتِ شاہی اور رمنے وغیرہ کے اندر جانے کی اہلِ لکھنؤ، جملہ ملازمین بلکہ ساکنینِ مٹیا برج کو عام آزادی حاصل تھی۔ باغوں میں پھریے تو اس سے زیادہ پُر فضا مقام کہیں نصیب نہ ہو سکتا۔ دریا کے کنارے کھڑے ہو جائیے تو عجیب لطف نظر آتا۔ کلکتے کو آنے جانے والے جہاز سامنے سے ہو کر گزرتے، جو فورٹ ولیم کی سلامی کر لیے یہیں سے اپنی جھنڈیاں اُتارنا شروع کر دیتے اور لوگ سمجھتے کہ بادشاہ کی سلامی لے رہے ہیں۔ محلات کی ڈیوڑھیوں اور سراؤں کے دروازوں پر کھڑے ہو جائیے تو عجب لطف کی دھوم دھام میں کبھی کبھی ایسی صورتیں نظر آ جاتیں اور ایسی فصیح و دل کش زبان اور ایسی مزے مزے کی پیاری باتیں سُننے میں آ جاتیں کہ انسان مدّتوں بلکہ زندگی بھر مزہ لیا کرتا۔

آہ! یہ خوب صورت اور دل فریب نقش تو مٹنے کے قابل نہ تھا، مگر ہائے زمانے نے مٹا ہی دیا اور ایسا مٹایا کہ گویا تھا ہی نہیں۔ ؁۱۳۱۶ محمدی (؁۱۸۸۷ء)میں یکایک بادشاہ کی آنکھ بند ہوئی اور معلوم ہوا کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سُنا افسانہ تھا۔ سب باتیں خواب و خیال تھیں۔ ایک طلِسم تھا کہ یکایک ٹوٹ گیا اور وہ خوبصورت بقعہ جس کی زیارت کی تمنّا یورپ کے سلاطین اور ہندوستان کے والیانِ ملک کو رہا کرتی تھی، آج ایک وحشتستانِ فنا اور عبرت کدہ ہے جہاں کچھ بھی نہیں۔ جس نے اُس اگلے رنگ کو کبھی دیکھا تھا، اب وہاں کے سنّاٹے کو دیکھ کے، سوا اس کے کہ کمال حسرت و اندوہ کے ساتھ ایک ٹھنڈی سانس بھر کے کہے: رہے نام اللہ کا! اور کیا کر سکتا ہے۔

(9)

اس دربار کے فرماں رواؤں کی تاریخ میں سے اب صرف اس قدر بتانا باقی ہے کہ مرزا برجیس قدر بہادر لکھنؤ سے بھاگے تو سرحد نیپال پر دم لیا۔ بم راہِ رکاب تقریباً ایک لاکھ آدمیوں کا مجمع تھا۔ اُن لوگوں نے ارادہ کیا کہ ہمالیہ کی گھاٹیوں میں پناہ گزین

121

ہو جائیں۔ اور جب موقع ملے، نکل کے انگریزوں پر حملہ کریں۔ فتح ہو تو اپنے وطن پہنچیں، شکست ہو تو پھر بھاگ کے پہاڑوں میں ہو رہیں۔ مگر یہ نبھنے والی صورت نہ تھی۔ ریاست نیپال نہ اتنے آدمیوں کو اپنے وہاں پناہ دے سکتی تھی اور نہ اُن کے لیے انگریزوں سے لڑ سکتی تھی۔ اس میں اتنی قوت ہی نہ تھی کہ انگریزوں کا مقابلہ کرتی۔ لہٰذا حکومتِ نیپال نے صرف مرزا برجیس قدر اور اُن کی ماں کو تو پناہ دے دی، مگر اُن کے ہم راہی طوفانِ بدتمیزی کو قطعی حکم دے دیا کہ فوراً واپس جائیں اور نہ جائیں تو مار کے نکال دیے جائیں۔ نیپال کی قلمرو فوراً اُن سے خالی کرا لی جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سب کے سب وہاں سے نکل نکل کے بھاگے۔ بہت سے مارے گئے، بہت سے بھیس بدل بدل کے کسی اور طرف نکل گئے۔ اور مرزا برجیس قدر مع اپنی والدہ کے خاص نیپال میں جا کے سکونت پذیر ہو گئے۔ دربارِ نیپال سے ان کے لیے کچھ معمولی وظیفہ مقرر ہو گیا۔ اور کہتے ہیں، اُن کے جس قدر جواہرات تھا، سب دولتِ نیپال کی نذر ہوا۔ آخر حضرت محل وہیں پیوندِ زمیں ہو رہیں اور ان کے بعد ملکہ وکٹوریا کی جوبلی کے موقع پر دولتِ برطانیہ نے مرزا برجیس قدر کا قصور معاف کر دیا۔ انہیں واپس آنے کی اجازت ملی تو بغیر کسی کو اطلاع دے نیپال سے بھاگ کے کلکتے پہنچے۔ یہاں واجد علی شاہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ اور نہ حیثیت اولادِا اکبر مرزا قمر قدر سب سے زیادہ تنخواہ پا رہے تھے۔ برجیس قدد نے دعویٰ کیا کہ بادشاہ کے تمام بیٹوں سے زیادہ معزّز و مستحق میں ہوں، از روئے قانونِ پنشن، بادشاہ کی پنشن میں سے ایک ثلث گھٹا کے، باقی تنخواہ مجھ پر جاری کی جائے اور اُن کے تمام ورثا اور وابستگانِ دامی کی خبر گیری میرے ذمّے کی جائے۔ اس کی پیروی میں وہ انگلستان میں جانے کی تیّاریاں کر ہی رہے تھے کہ اُن کے خاندان والوں ہی میں سے کسی نے دعوت کی۔ دعوت سے واپس آئے تو قے اور دست جاری ہو گئے۔ آناً فاناً حالت خراب ہو گئی اور ایک ہی دن میں وہ، اُن کی بی بی اور اُن کے کئی فرزند، سب کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔ اور دنیا اِس خاندان کی اُن تمام

122

یادگاروں سے خالی ہو گئی جنہوں نے کبھی تخت و تاج کی صورت دیکھی تھی۔

تاہم مٹیا برج کی چہل پہل اور اِس نئی بستی کی رونق و آبادی نے ایسی صورت پیدا کر لی تھی کہ اگر چشم زخمِ حوادث سے بچ نہ جاتا تو مدّتوں تک یاد دلاتا رہتا کہ اُس بخت برگشتہ بادشاہ کے دربار اور اس کے وابستگانِ دامن کی کیا وضع قطع تھی اور اُن کا کیا مذاق تھا۔ مگر برٹش گورنمنٹ کی عدالت گستری نے واجد علی شاہ کا ترکہ تقسیم کرنے اور اُن کے ورثا کی داد رسی میں یہ شانِ عدالت دکھائی کی ساری جائداد اور سارا گھر بار بچ کے، حصۂ رسدی سب میں تقسیم کر دیا جائے۔ اور جو کچھ ہے، نقد روپے کی صورت میں کر لیا جائے۔ اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ مٹیا برج کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ لاکھوں کا سامان کوڑیوں کو بک گیا۔ اور وہی بقعۂ جو چند روز میں باغِ اِرم بن گیا تھا حضیض ادبار کا جہنّم ہو کے رہ گیا۔ اب تم وہاں جا کے خاک اُڑاؤ، کچھ نہ نظر آئے گا۔ اگر آنکھیں اگلی رونق اور چہل پہل کو ڈھونڈتی ہوں تو کسی امراؤ القیس (۱) کو بلاؤ جو آنسو بہاتا جائے اور تمہیں بتاتا جائے کہ یہاں مرصّع منزل تھی، یہاں نور منزل تھی، یہاں سلطان خانہ تھا اور یہاں اسد منزل تھی۔ وہاں مشاعرے ہوتے تھے، وہاں علمائے با کمال کی مجلسی تھی، وہاں یارانِ با صفا کی بذلہ سنجیاں تھیں، اور وہاں فُصحا سے جادو بیان کی سحر طرازیاں تھیں۔ اِس مقام پر منتخب حسینانِ جہاں کا جھُرمٹ تھا، اس مقام پر رقص و سرود کی محفل گرم تھی، اس مقام پر حوروش مہ جبینوں کو گانے ناچنے کی تعلیم ہوتی تھی، اور اِس مقام پر جہاں پناہ آفریں ممتوعات کے بیچ میں بیٹھ کے جشن منایا کرتے تھے۔ اس جگر کبوتر کے مجمع میں داستان ہوتی تھی۔ اُس جگہ بٹیروں کی پالیاں ہوتی تھیں، اس جگہ کبوتر اُڑتے تھے، اور اس جگہ کنکوّے کے میدان بدلے جاتے تھے۔ اس ڈیوڑھی پر ماہ وش جادو نگاہیں پردے سے سر نکالے

1) جاہلیتِ عرب کا ایک نہایت مشہور شاعر جس نے اپنے قدیم عشرت کدے کی ویرانی اور تباہی کی تصویر نہایت ہی سوز و گُداز کے الفاظ میں دکھائی ہے۔ ۱۲

123

جھانکتی نظر آتی تھیں۔ اس ڈیوڑھی پر ماما، اصیلوں کی آمد و رفت سے ہر وقت ایک عجیب جوش و خروش نمایاں رہتا تھا، اس ڈیوڑھی پر خاص شعرا حاضر رہتے، اس لیے کہ محل سرا والی کو فنِّ شعر سے دلچسپی تھی، اور اس ڈیوڑھی پر روز رنگین عبارت لکھنے والے جواں مزاج ادیبوں کی تلاش رہتی تھی، اس لیے کہ دوسرے تیسرے یہاں سے ایک نئے رنگ کا تودّد نامہ (۱) جا کے بادشاہ کے ملاحظے میں پیش ہوتا۔

لیکن مٹیا برج کے مٹ جانے پر بھی اُس مرحوم دربار کی ہزاروں یادگاریں باقی ہیں۔ خود لکھنؤ اور اُس کی سوسائٹی اس دربارِ دُربار کو یاد دلا رہی ہے۔ اور اودھ کی سر زمین کا چپہ چپہ اُس کی عظمت کی یادگار ہے۔ اس لیے کہ اُس پر جا بجا سلطنتِ ماضیہ کے مار کے بنے ہوئے ہیں۔ اہلِ لکھنؤ کی ہر حرکت اور ادا اگلے ارکانِ دربار کی زندہ تاریخ ہے اور اُن کی چال دیکھ کے بے اختیار زبان سے نکل جاتا ہے؛

ای گل بتوخر سندم، تو بوی کسی داری

لہٰذا دیرپا آثار سلف کی یاد تازہ کرنے کی غرض سے اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اُس دربار کے قائم ہونے سے لکھنؤ میں جو سوسائٹی پیدا ہو گئی تھی، وہ کیا تھی؟ کیسی تھی؟ اور اُس نے کسی عنوان سے ہندوستان کی معاشرت پر اثر ڈال رکھا تھا۔

ہندوستان میں ان دنوں فارسی زبان کورٹ لینگوج (درباری زبان) تھی اور اہلِ ہندوستان کی بہترین معاشرت، ایرانی تہذیب سے ماخوز تھی۔ دولتِ صفویہ کے عہد میں ایرانیوں کا عام مذہب شیعہ، اثنا عشری ہو گیا تھا اور ہندوستان کا حکمراں خاندانِ مغلیۂ چغتائیہ، مذہبِ اہلِ سنّت کا پرو تھا۔ مگر معاشرت پر فارسیّت کا سکّہ جاری ہونے کا یہ اثر تھا کہ باوجود اختلافِ مذہب کے جو عجمی یہاں آتے، ادب کے ہاتھوں سے لیے جاتے تھے۔

1) تودّد نامہ اُن خطوط کو کہتے تھے جو بیگمات و محلّاتِ عالیات، جہاں پناہ کی خدمت میں میں بھیجتیں جو عموماً عاشقانہ رنگ میں ہوتے۔

124

اسی اخلاقی رجحان نے نور جہاں بیگم کو جہاں گیر کے تاج و تخت کا مالک بنا دیا۔ اُسی کی بدولت رہلی کے اکثر معزّز عہدے دار آخر عہد میں شیعہ تھے۔ اور اِسی کی وجہ سے امین الدّین خان نیشا پوری یہاں پہنچتے ہی نواب برہان الملک بن کے، وادیِ گنگا کے سارے وسیع علاقے کے مالک ہو گئے۔ برہان الملک کا اثر اور اقتدار جس قدر بڑھتا اور ترقّی کرتا گیا۔ اُسی قدر زیادہ وہ باکمالانِ دہلی کے مرجع و ماوا بنتے گئے۔ باوجود اِس کے اُن کی اور نوّاب صفدر جنگ کی زندگی چوں کہ ایک نئی سلطنت کی داغ بیل ڈالنے میں صرف ہوئی، اس وجہ سے سوائے بہادر سپہ گروں کی قدردانی کے، انہیں قومی تمدّن اور معاشرتی امور کی طرف متوجہ ہونے کی بہت ہی کم مہلت ملی۔ کیوں کہ ان باتوں کو بہ مقابل فوج کشی و فتح مندی کے، امن و امان کے پُر عیش زمانے سے زیادہ تعلّق ہوا کرتا ہے۔

لیکن جب شجاع الدّولہ نے بکسر کی لڑائی میں ہمت ہارنے کے بعد انگریزوں سے نیا معاہدہ کیا اور مجبور ہو کے فیض آباد میں خاموش بیٹھے تو سرزمینِ اودھ میں ایک نئے تمدّن کی بنیاد پڑ گئی۔ اس مضمون کے آغاز میں ہم بتا چکے ہیں کہ شجاع الدّولہ کے زمانے میں کس کثرت سے باکمالانِ دہلی وطن چھوڑ چھوڑ کے یہاں آنے لگے تھے۔ دہلی سے فیض آباد تک ہر پیشے اور ہر طبقے کے لوگوں کے آنے کا کیسا تانتا بندھ گیا تھا اور صرف نو سال کی مدت میں فیض آباد کیا سے کیا ہو گیا تھا؟ شجاع الدولہ کے بعد نواب آصف الدولہ نے جب لکھنؤ میں قیام کیا تو فیض آباد کا جما جمایا اکھاڑا ایک بارگی فیض آباد سے اکھڑ کے لکھنؤ میں آ گیا اور دہلی کے اعلیٰ خاندانوں اور باکمالوں کا جو سیلاب فیض آباد کو جا رہا تھا لکھنؤ ہی میں روک لیا گیا جو کہ عین سرِ راہ واقع ہوا تھا۔ اور آخر میں چند شرفا و صاحبِ ہنر جو فیض آباد میں بیگموں کی سرکاروں میں اُلجھے رہ گئے تھے، رفتہ رفتہ وہ بھی لکھنؤ میں آ گئے۔ اس لیے کہ آصف الدولہ نے یہاں دولت کی ایسی گنگا نہیں بہا رکھی تھی کہ کوئی سنتا اور سیراب ہونے کے شوق میں بے اختیار نہ دوڑ پڑتا۔

125
ان دنوں یوں تو بہت سی ہندو ریاستیں موجود تھیں مگر مہذّب اور شایستہ دربار مسلمان حکمرانوں ہی کے سمجھے جاتے تھے۔ اور ہندو راجا خود معترف تھے کہ تمدن اور معاشرت میں مسلمان درباروں کا مقام نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ اپنی قریم تہذیب کو زندہ کر کے اپنے لیے نیا تمدّن اور نیا لٹریچر پیدا کرنے کا خیال ابھی ان میں انگریزی تعلیم نے نہیں پیدا کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر کوئی باکمال عالم، شاعر، یا سپاہی مسلمان اُمرا سے برخاستہ خاطر ہو کے ہندو اُمرا کے علاقے میں پہنچ جاتا تو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا اور دیوتاؤں کی طرح اُس کی قدر و منزلت کی جاتی۔

مسلمان دربار اُن دنوں چند گنتی کے تھے۔ سب سے پہلے تو دہلی کا دربار مغلیہ تھا اور اُس کی قدامت اور گزشتہ شوکت کی وجہ سے ہر قسم کے باکمالوں اور مستند خاندانی شرفا کی کان دہلی بنی ہوئی تھی۔ اور اسی سرزمین کے منتشر روڑے تھے جنہوں نے دور دراز صوبوں میں جا کے نئے نئے دربار قائم کیے تھے۔ جن میں سے دکن میں آصف جاہ کا دربار تھا۔ وہاں سے آگے بڑھ کے ٹیپو سلطان اور نواب ارکاٹ کے دربار تھے۔ شمال میں دہلی سے چلیے تو پہلے روہیل کھنڈ کے بہادر خوانین کی قلمرو تھی۔ اس کے بعد یہ اودھ کا دربار تھا۔ پھر اس سے آگے مرشد آباد میں نواب ناظم بنگالہ کا دربار تھا۔ مذکورہ اسلامی درباروں سے دکن کے دربار نہایت ہی دور تھے۔ ان کا راستہ اوّل تو جنگلوں اور پہاڑوں کی وجہ سے نہایت ہی دشوار گزار تھا۔ اور اس پر بھی جرأت کر کے کوئی چل کھڑا ہوتا تو ٹھگ اور ڈاکو جو سارے ملک میں پھیلے ہوئے تھے، راستے ہی میں اُس کی زندگی کا خاتمہ کر دیتے۔ ٹیپو سلطان اور نواب کرناٹک کی قلم روتک جانا درکنار کسی کو نظام حیدر آباد کی مملکت تک پہنچنا بھی مشکل سے نصیب ہوتا۔ اس لیے جب دہلی بگڑنا شروع ہوئی اور تاجدارانِ مغلیہ کی حالت خراب ہونے سے قدردانی کا بازار وہاں سرد پڑا، تو لوگوں نے عموماً شمالی ہندوستان کا رُخ کیا۔ اس میں شک نہیں کہ روہیل کھنڈ ہہت قریب تھا۔ یہاں کے
 

سیما علی

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ
ریختہ صفحہ
126

خوانین اگر قدردانی کرتے تو اُن سے زیادہ موقع کسی کو نہیں حاصل تھا۔ مگر ان میں دین داری تھی شجاعت تھی اور بہت سی خوبیاں تھیں، مگر علمی مذاق اور معاشرتی رنگینوں سے وہ لوگ بالکل مُعرا تھے۔ ان کی حالت کا صحیح اندازہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے خالص فوجی مذاق کے لوگ تھے جنھیں اپنے ہم وطنوں کے جمع کر نے اور اپنےجرگوں کی تعداد بڑھا کے اپنی جنگی قوت کو ترقی دینے کے سوا اوکسی بات کا شوق نہ تھا۔
معاشرت کے رسیلے پن اور تمدنی زندگی کے آداب و اخلاق کے لحاظ سے دیکھے تو ان کی حالت
بالکل وحشی گنواروں کی سی تھی۔ ایسے لوگ بھلا شاعروں ادیبوں اور دیگ قسم کے باکمالوں کی
کیا قدر کر سکتے تھے؟ لہذا آنکی سرزمین میں جو داخل ہوا، قدم بڑھاتا ہوا آگے نکل گیا۔ چارپانچ منزلیں طے کر کے لکھنؤ میں پہنچا تو دیکھا کہ رئیس سے لے کے ادنا طبقے والےتک انکے استقبال میں آنکھیں بجھا رہے ہیں اور ہر طرح خدمت گزاری کو تیار ہیں ۔ ایسی جگہ
پہنچ کے بھلا کون واپس آسکتا ہے ؟جو کیا وہیں کا ہو گیا ۔ اور دلی کا ہرخانماں بربادیہاں آتے ہی پا نو توڑ کے بیٹھ گیا۔نہ وطن ہی یاد رہا اور یہ کسی اور دربار کے دیکھنے کی ہوس ہی دل میں باتی رہی ۔ چند لوگ یہاں سے آگے بڑھ کے نواب ناظم بنگالہ تک بھی پہنچ گئے۔
مگروہ وہی ہے جن کی لکھنؤ قدر نہ کرسکا۔ مگر ایسی چند گنتی ہی کے لوگ تھے ۔ ورنہ دہلی سے
جتنے باکمال آئے ، سب لکھنوی ہی میں کھپتے چلے گئے، تھوڑے ہی زمانے کے اندرحالت
ہوگئی کہ اس دور کے مہذب ترین سوسائٹی کے جتنے مشہورنام وربزرگ تھے سب لکھنؤ
کے اندر جمع تھے
فقط ایک چیز لکھنو میں اس دربار کے قائم ہونے سے پہلے موجود تھی اور وہ عربی کا علم فضل تھا جس کی بنیاد اس وقت پاگئی تھی جب شہنشاہ اورنگ زیب نے فرنگی محل کے مکانات نظام الدین سہالوی کو عطا کیے تھے۔ صاحب ممدوح اوران کے
خاندان کے قیام نے چند ہی روز میں فرنگی محل کو ہندوستان کی ایک ایسی اعلاترین


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ
127

یونی ورسٹی بتا دیا کہ سارے ہندوستان کے علما و فضلا کا مرکز لکھنوکی چھوٹا سا محلہ قرارپایا۔شیخ عبدالحق دہلوی کے بعد دہلی میں بھی کوئی نمود کا عالم میں پیدا نہیں ہوسکا تھا۔ آخرمیں شاہ ولی اللّہ صاحب کے خاندان نے البتہ بہت بڑا عروج حاصل کیا، مگران
کی شہرت علم حدیث تک محدود تھی مگر حدیث کے علاوہ اور جتنے علوم ہیں،ان سب کی یونی ورسٹی لکھنؤ ہی تھا۔ان دنوں لکھنؤ ایک گمنام شهرها،مگر ایسے ایک گمنام مقام کااتنی بڑی یونیورسٹی بن جاتاکہ ہندوستان در کنار ،بخارا، خوارزم اور ہرات و کابل، اس
کے آگے سر جھکا دیں، بہت ہی حیرت کے قابل ہے۔ ساری اسلامی دنیا یہیں کی شاگردی پر فخر
کر رہی تھی اور یہیں کے منتخب کیے ہوئے نصاب تعلیم یعنی سلسلہ،انظامیہ کے سپرد تھی۔
غرض علماے فرنگی محل کی بدولت اس نے دربار کے قائم ہونے سے پہلے ہی لکھنؤ حکمت
فلسفہ و منطق وکلام، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر مختلف علوم کا معدن و مرجع بن چکا تھا۔
لہذا ایک اس چیزیں میں تو لکھنؤ اس نئے دربار کازیرِ بار حسان نہیں ہے، باقی اور تمام ترقیاں اس سلطنت کے قائم ہونے ہی سے پیدا ہوئیں ۔
اب ہم جداجدا بیان کرنا چاہتے ہیں کہ دہلی سے لکھنؤ کون کون سی چیزیں آیئں اوریہاں آکے انھوں نے کیارنگ پکڑا سب سے مقدم اردو زبان ہے جو دہلی
کے ان شرفا اور سردارانِ فوج کی زبان تھی جو اب برہان الملک بہادر کے ساتھ لکھنؤ میں آئےتھے۔ یہ زبان دہلی میں پیدا ہوئی۔ اور اس کی شاعری کا آغاز دکن سے ہوا۔ولی گجراتی نے دہلی میں آکے اپنا دیوان پیش کیا۔ اور اپنے نغمہ دل کش سے اہل زبان کو خواب غفلت سے جگایاکیا۔
اس نغمے میں کچھ ایسا جادو تھا کہ سنتے ہی سب کی زبان پر ہی نغمہ جاری ہوگیا اور دہلی میں اردو شاعری شروع ہوئی ۔
ابتداً چندہی بزرگ تھے جنھوں نے استادی کی شان سے دہلی میں دادِ سخن دیناشروع کی ۔ مگراس زمانے کواگر اردو زبان کی طفلی نہیں تو اردو شاعری کا بچپن کہنا چاہیے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ
128
دنیائے اردو کے ان سابقين الاوّلین میں سب سے زیادہ صاحب علم و فضل اور سب سے بڑے باکمال خان آرزو تھے جنھیں مولاناآزاد مرحوم نے دوسرے دورِ شاعری میں رکھا ہے۔ زمانہ مابعد کے بڑے بڑے باکمال جن میں سودا،میر، میرزا،مظہر جانِ جاناں اور خواجہ میر درد شامل ہیں، سب ان کے شاگرد تھے شاعری اور کمال زبان دانی کے لکھنومیں آنے کی بنیاد اُستادِ خان آرزو سے ٹری۔ نواب شجاع الدولہ کے ماموں سالارجنگ نے کمال قدردانی سے انھیں لکھنؤ بلوایا ۔اورایک زمانے تک اودھ میں اقامت گزیں رہ کے وشجاع الدولہ کی مسند نشینی کے دو
برس بعد ۱۱۶۵ھ(۱۱۸۴محمدی مطابق۱۷۵۲ ،میں خاص لکھنو کے اندر رہ کر گرائے آخرت ہوئے
۔ وہی پہلے استاد اردو شاعری کے تھے اورانھی سے اردو شعروسخن کےلکھنؤ میں آنے کی بنیاد پڑی۔ مگر افسوس کہ ان کی ہڈیاں، سرزمین لکھنو کے دامنِ
شوق سے چھین کے خاک دہلی کو سونپی گئیں ۔
اس کے بعد اسی دور کے دوسرے نامی استادِ سخن اشرف علی خاں فغاں نے جو
احمد شاہ بادشاہ کے کوکا تھے، قدردانی کی تلاش میں لکھنؤ کی راہ لی شجاع الدولہ نےنہایت ہی تعظیم وتکریم کی، ہاتھوں باتھ لیا اور ایک زمانے تک اپنے دربار میں رکھا۔مگر شعرا نازک خیال سے زیادہ نازک دماغ ہوا کرتے ہیں، کسی خفیف سی بات پر روٹھ کےعظیم آباد چلے گئے اور شجاع الدولہ کی وفات سے دوبرس پہے وہیں پیوند زمیں ہو گئے ۔
اب مولانا آزادکا مقر ر کیاہوا تیسرا دورشاعری شروع ہوا جب کہ خانِ آرزوکے شاگرد نظمِ اردو پر حکومت کررہے تھے۔ اس زمانے کی حالت دیکھنے سے نظرآتاہےکہ دہلی اپنے باکمالوں کو اپنی آغوش میں سنبھال نہیں سکتی، ہر طرح کے صاحبان کمالکے سواد سے نکل چلے جاتے ہیں، اور جو جاتا ہے پھر نہیں آتا۔ اس کے مقابل لکھنؤ کی حالتہے کہ جو صاحب فن آتا ہے چاہے کہیں کا وہیں کا ہوجاتا ہے۔ مرزا رفیع سودا، میرتقی میر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ
129

سیدمحمد میر سوز جو اس تیسرے دور کے پیمبرانِ سخن ہیں ،سب دہلی چھوڑ چھوڑ کے کومیں آئے اور یہیں پیوند زمیں ہو گئے ۔
ان کے علاوہ جو باکمالانِنِ سخن اس زمانے میں واردِ لکھنؤ ہوئے اور یہیں کے ہو گئے ، میرزا جعفر علی حسرت میرحیدرعلی حیراں، خواجہ حسن حسن ،میرزا فاخر مکینٓ،میرضاحک ، بقااللّہ خاں بقاء،میر حسن دہلوی،،کے فرزند (صاحبِ مثنوی)
اورانھی کے ایسے بیسیوں شعراہیں میر قمر الدین منت ،میرضیاء الدین ضیاء،اشرف علی
خان فغاں دہلی سے لکھنو میں آ کے ایک مدت تک رہے اور یہیں چمکے ۔مگر آخرمیں بیرونی قدر
دانوں کی کشش سے کلکتے اورعظیم آباد میں جا کے نذرِ اجل ہوئے۔ شیخ محمدقائم قائمٓ
کا انتقال اگرچہ ان کے وطن نگینے میں ہوا،مگروہ بھی ایک مدت تک اسی لکھنوی سبھا
کے ایکڑ تھے ۔
صرف میرزا مظہر جانِ جانان اور خواجہ میر درد کے چند ایسے بزرگ دہلی میں پڑے
رہ گئے جن کوفقیرانہ قناعت اورمرجعیت کی وجہ سے دہلی میں قدم جمانے کا موقع
مل گیا تھا اورسجادہ نشینی کی وجہ سے اپنی مسند درویشی کو نہ چھوڑ سکتے تھے۔غرض شاعری کا تیسرا دور وہ زمانہ ہے جب کہ دہلی کی سبھا وہاں سے اکھڑکے لکھنو میں جم رہی تھی اور
لکھنویں ایک جوشِ قدردانی تھاجس سے ہندوستان کی تاریخ خالی ہے۔
اب چوتھا دور شروع ہوا۔ اس کے ارکان بھی اگرچہ دہلی و اکبرآباد وغیرہ کیخاک سے پیدا ہوئے تھے مگر سب کی شاعری لکھنو ہی میں چمکی یہیں سے ان کاناممشہورہوایہیں کے مشاعروں کے میِر مجلس تھے ۔ یہ لوگ على العموم یہیں سے نکلے،یہیں رہے یہیں سے عروج پایا اور یہیں مرکھپ گئے۔ اس دور کے رکنِ رکین ،جرات،سیدانشاء،مصفحی ،قتیل اور رنگین وغیرہ تھے۔ یہ لوگ اپنے عہد میں زبان پر حکومت کررہے تھے۔
اوران کی شاعری کا غلغلہ اس قدربلند تھا کہ انکے سامنے کسی اور شاعر کا نام چمکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریختہ صفحہ 130

ہی نہ سکا۔ ان سب کی ہڈیاں کہاں ہیں ، لکھنو کی خاک ہیں۔
اس زمانے میں دہلی کے صاحبانِ مذاق جس کثرت سے لکھنؤ آرہے تھے، اسکا اندازہ سید انشاء ایک روایت سے ہوسکتا جب میں انھوں نے اس عہد کے ایکشریف وضع دار بڈھے اور نورًا نام ایک کسبی کی گفتگو نقل کی ہے۔ وہ بزرگ اور کسبی دونوںدہلی کے ہیں مگر دونوں لکھنو میں باتیں کررہے ہیں تو بی نوراًکہتی ہیں؛
“اجی آؤ میرصاحب توعیدکاچاند ہو گئے،دلی میں آتے تھے دودوپہر رات تک بیٹھے تھے۔لکھنؤ میں تمہیں کیا ہوگیا،بھی صورت بھی نہیں دکھاتے۔اب کی کربلا میں کتنا میں نے ڈھونڈھا، کہیں تمھارا اثر آثارمعلوم نہ ہوا،ایسا نہ کیجیو کہ آٹھوں میں بھی نہ چلو تمھیں علی ایک قسم آٹھوں میں مقرر چلیو”
اس کا جواب جو میرصاحب نے دیا ہے ، وہ اگر نہایت ہی دلچسپ ہے مگرتطویل سے بچنے کے خیال سے اسے چھوڑ دیتے ہیں۔انھوں نے دہلی و لکھنو کےموجودہ رنگ پراعتراضات کیے ہیں اور معاصر شعرا پر نکتہ چینیاں کی ہیں،جس سےہمیں بحث نہیں،ہمیں صرف یہ بتانا ہے کہ اس زمانے میں شرفاو کملادرکنار رنڈیاںتک آ کے لکھنؤ میں بستی جاتی تھیں۔ اورجولوگ دہلی میں پھول والوں کی سیر کے رسیاتھے ، اب کربلا اور آٹھوں کے میلے میں اپنا دل بہلاتے تھے۔
شمس العلما مولانا آزاد مرحوم نے بعد کے تمام شعرائے دہلی و لکھنؤ بلاامتیازعہد ایک جگہ جمع کر کے اور زمانے کی طنابیں کھینچ کے،پانچواں دور بنادیا ہے لیکن یہ ناانصافی ہے۔ اصلی پانچواں دور ناسخ آتش کا تھا ۔جس میں زیان نے نئی وضع اختیار کی، بہت سے پرانے محاورات ترک ہوگئے ،نئی بندیشیں پیدا ہوئیں، اورزبان کی بنیاد پڑی جو بعد کے شعرائے دہلی ولکھنؤ میں یکساں طور پر مقبول ہوئی اورقریب قریب وہ زبان بن گئی جواب ہندوستان میں مستند ہے۔اوریہی وہ زمانہ تھا جب شاعری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 161

طبیب تھے، سب لکھنؤ اور اطراف لکھنؤ کے تھے۔ چنانچہ قصبۂ موہان کے ایک طبیب کو دربار گیکواڑ بڑودا میں وہ عزت حاصل ہوئی جو بہت کم اطبا کو حاصل ہو سکی ہو گی۔ غرض ایسے نامور طبیب خاکِ لکھنؤ نے پیدا کیے جن کی مسیحا نفسی کے کارنامے آج تک بچے بچے کی زبان پر ہیں۔

دربار اودھ کے آخر عہد میں سید محمد مرتعش کے ایک شاگرد رشید حکیم محمد یعقوب نے اپنا مطب جاری کر کے ایسی مرجعیتِ عامہ حاصل کی کہ ان کی ذات سے ایک بہت بڑے نام و رطبی خاندان کی بنیاد پڑ گئی، جو آج بلا مبالغہ دنای بھر میں جواب نہیں رکھتا۔ اسی خاندان کے مرحوم نام وروں میں حکیم محمد ابراہیم، حکیم حافظ محمد عبد العلی، حکیم محمد اسماعیل، حکیم محمد مسیح، حکیم محمد عبد العزیز، حکیم حافظ محمد عبد الولی تھے۔ اور حکیم عبد الحفیظ صاحب، حکیم عبد الرشید صاحب، اور حکیم عبد المعید صاحب اس وت اپنی مسیحائی کے کمالات دکھا رہے ہیں۔ کاش یہ اپنے خاندانی فن کو چھوڑ کے دوسرے ہوسوں میں نہ پڑتے۔

دہلی میں حکیم محمد شریف خاں کا خاندان اس وقت تک موجود ہے، جس میں حکیم محمود خاں اور حکیم عبد المجید خاں کے ایسے باکمال گزر چکے اور حاذق الملک حکیم محمد اجمل خاں صاحب بزرگوں کے نام کو اپنے ذاتی کمالات سے آج تک ظاہر کر رہے ہیں۔ دہلی میں حکیم محمد اجمل خاں صاحب نے ایک مدرسہ طبیہ بھی جاری کر دیا ہے، اور طبی ویدک کانفرنس قائم کر کے اپنے فن کو بہت عروج دے رہے ہیں۔ ان کے مقابل لکھنؤ میں حکیم عبد العزیز صاحب نے مدرسۂ تکمیل الطب قائم کیا، جس سے ہر سال بیسیوں اطبا تیار ہو کےاقطارِ عرض میں پھیلتے اور لکھنؤ کی طبی مرجعیت کا ثبوت دیتے ہیں۔

بہ ہر تقدیر، مسلمانوں کا برائے نام یونانی فن طب آج اگر دنیا بھر میں کہیں زندہ ہے تو ہندوستان میں، اور ہندوستن میں اس کے مرکز دو ہی شہر ہیں : دہلی اور لکھنؤ، مگر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 162

دہلی میں صرف ایک حکیم محمود خاں کا خاندان ہے اور لکھنؤ میں ایسے بیسیوں خاندان پڑے ہیں۔ دہلی میں بعض اور اطبا بھی مطب کرتے نظر آتے ہیں، وہ اسی زمانے کی جدید طبیب ہیں جنہوں نے اپنے مطب جما لیے ہیں۔ لکھنؤ میں گو کہ بہت سے نئے طبیب ہیں، لیکن ایسے بہت سے خاندان بھی ہیں جن میں صدیوں سے فن طب کو ترقی رہی۔

لکھنؤ اور دہلی کے اطبا میں ایک اور فرق بھی ہے : طب کا موجودہ نصاب تعلیم، ہمیں نہیں معلوم اطبے دہلی کا مرتب کیا ہوا ہے یا اطباے لکھنؤ کا، لیکن اس پر پورا پورا عمل جیسا اطباے لکھنؤ نے کیا، اطباے دہلی نہیں کرتے۔ پڑھائی وہاں بھی یہی کتابیں جاتی ہیں، مگر دہلی میں طبیبوں کا مطب ایک بڑی حد تک ان کی مدونہ طب سے الگ ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ویدک کی دواؤں کے اختیار کر لینے میں اسی قدر نہیں کیا کہ ان نئے اجزا کو اپنے مطب میں داخل کر لیا بلکہ یہ بے احتیاطی بھی کی کہ ان کے داخل کرنے میں اپنے قدیم مدونہ و مسلمہ اصول خصوصاً مزاج کے مباحث سے چشم پوشی کر لی۔ اور ان اجزاء کو استعمال کرا دیتے ہیں جن کے مزاج اور افعال و خواص سے وہ پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ وہاں فی الحال سب سے بڑی شکایت یہ سنی جاتی ہے کہ مدرسہ طبیہ دہلی کے نصاب میں تشریح کے علاوہ، ڈاکٹری کے دیگر اصول بھی اس کثرت اور بے احتیاطی سے اختیار کر لیے گئے ہیں کہ اصلی فن طب بجائے ترقی کرنے کے، بالکل مٹا جاتا ہے۔ یہی بے احتیاطی انہوں نے پہلے اصول ویدک کے اختیار کرنے میں کی تھی اور یہی اب اصول ڈاکٹری کے لینے میں ہو رہی ہے۔ ایسی حالت میں دہلی میں ہمارے قدیم فن طب کا جو انجام ہوتا نظر آتا ہے، نہایت خطرناک ہے۔

برخلاف اس کے، لکھنؤ کے تمام طبی خاندانوں، خصوصاً حکیم یعقوب مرحوم کے خاندان اور تکمیل الطب میں اصلی اصول طبی کے قائم رکھنے اور ان کو انہیں کے دائرے میں رکھ کے ترقی دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے مطب اس وقت تک اپنے فن اور اپنی کتابوں سے ذر بھی جدا نہیں ہیں اور ایسی سلامت روی کے راستے پر جا رہے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 163

ہیں جس سے امید ہو سکتی ہے کہ شاید اسلامی طب دست بُرد زمانہ سے بچ جائے، اگرچہ اصلی خدمتِ فن سے یہ لوگ بھی ہنوز بہت دور ہیں۔ طب کی روح، علم دوا سازی ہے۔ جو ہمارے قدیم علم کیمیا کا ایک شعبہ ہے۔ اسی فن پر یورپ کے موجودہ معجز نُما فن کیمسٹری کی بنیاد قائم ہوئی ہے۔ اس فن میں مسلمان مصنفین سلف کی کتابیں ابھی کلیتہً نہیں مٹیں، بلکہ بہت سے باقی رہ گئی ہیں۔ اساتذۂ طب کا کام ہے کہ بار بار ان کا مطالعہ کر کے ان کو سمجھیں، ان کو غور و خوض کر کے حل کریں اور انہیں نصاب تعلیم میں داخل کریں۔ پھر ان کے اصول و ضوابط میں جدید تجربات سے فائدہ اٹھا کے، مجتہدانہ تصرف کریں، اور اپنے دوا سازی کے فن کو باضابطہ بنا لیں، جس کے بغیر طب کے تمام کمالات اکثر اوقات بے نتیجہ اور غیر سود مند ثابت ہو جاتے ہیں۔

مگر اسی کمی کے ساتھ بھی لکھنؤ نے طب کو جیسی ترقی دی اور مضبوط بنایا، دہلی سے بہت زیادہ ہے اور دنیا کے اور کسی حصے میں نہیں ہے۔

(15)

لیکن باوجود اس کےھ کہ علوم عربیہ کے بڑے بڑے علماے گراں پایہ لکھنؤ کی خاک سے پیدا ہوئے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربی کی تعلیم، مقتدایانِ اُمت اور پیشواایانِ ملت تک محدود تھی۔ ہندوستان میں درباری زبان فارسی تھی۔ ملازمت حاصل کرنے اور مہذب و معزز صحبتوں میں چمکنے کے لیے یہاں فارسی کی تعلیم بہ خوبی کافی خیال کی جاتی تھی۔ اودھ ہی نہیں سارے ہندوستان میں ادبی و اخلاقی ترقی کا ذریعہ صرف فارسی قرار پا گئی تھی۔ مسلمان تو مسلمان، اعلا طبقے کے ہندؤں کا عام رجحان فارسی ادب و انشا کی طرف تھا۔ یہاں تک کہ اعلا درجے کی انشائیں، ہندو مصنفوں ہی کے قلم سے مرتب و مدون ہوئی تھیں۔ ٹیک چند بہار نے بہار عجم کی سی لاجواب کتاب تصنیف کر دی جو مصطلحاتِ زبان فارسی کا ایک بے عدیل و نظیر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 164

ذخیرہ ہے، اس جس میں ہر محاورے کی سند میں اہل زبان کے بے شمار اشعار پیش کر دیے گئے ہیں۔ لکھنؤ کے ابتدائی عروج میں مُلا فائق کا پھر مرزا قتیلؔ کا نام مشہور ہوا جو ایک نومسلم فارسی داں تھے۔ وہ خود تو مذاقاً کہا کرتے کہ "بوی کباب مرا مسلمان کرد۔ مگر سچ یہ ہے کہ فارسی کی تعلیم، اس کے شوق، اور کمالِ فارسی دانی کی آرزو نے انہیں مسلمان ہونے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے محض اسی شوق میں ایران کا سفر کیا۔ برسوں شیراز و اصفہان اور تہران و آذر بایجان کی خاک چھانی اور ادب فارسی کے اُس اعلا کمال کو پہنچ گئے کہ خود اہل زبان بھی ایسے باکمال زبان داں پر حسد کریں تو تعجب کی بات نہیں ہے۔

مرزا غالب نے جا بہ جا مرزا قتیلؔ پر حملے کیے ہیں۔ بے شک مرزا غالب کا مذاق فارسی نہایت اعلا درجے کا تھا، وہ اس اصول پر بار بار زور دیتے تھے کہ سوا اہل زبان کے کسی کا کلام سند نہیں ہو سکتا۔ مگر ان کے زمانے میں چوں کہ اودھ سے بنگالے تک لوگ قتیلؔ کے پیرو تھے، اور بات بات پر قتیلؔ کا نام لیا جاتا تھا، اس لیے مرزا غالب کو اکثر طیش آ گیا۔ اور جب پیرو پر قتیلؔ نے ان کی خبر لینا شروع کی تو کہنےلگے :

فیضی از صحبت قتیلم نیست
رشک بر شہرت قتیلم نیست

مگر آنانکہ فارسی دانند
ہم برین عہد واری و پیمانند

کہ ز اہل زبان بنود قتیلؔ
ہرگز از اصفہان بنود قتیلؔ

لاجرم اعتماد را نسزد
گفتہ اش استناد رانسزد

کین زبان خاص اہل ایرانست
مشکل ماو سہل ایران است

سخنست آشکار و پنہان نیست
دہلی و لکھنؤز ایران نیست

مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ قتیلؔ نے فارسی دانی میں جو کوششیں کی تھیں اور اس واقفیت و کمال حاصل کرنے میں جو زندگی صرف کی تھی، وہ بالکل بے کار گئی۔ اس بات کے ماننے میں کسی کو عذر نہیں ہو سکتا کہ قتیلؔ کا کوئی دوا، جب تک وہ اہل زبان کی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 165

سند نہ پیش کریں، قابل تسلیم نہیں، اور نہ خود قتیلؔ کے ذہن میں کبھی یہ خیال گزرا ہو گا۔ لیکن اس کی خصوصیت قتیلؔ ہی کے ساتھ نہیں، ہندوستان کا کوئی شخص بجائے خود سند نہیںہو سکتا۔ خود مرزا نوشہ غالبؔ بھی کوئی فارسی کا محاورہ بغیر اہل عجم کے ثبوت پیش کیے، نہیں استعمال کر سکتے۔ ہندوستانی فارسی دانوں کا اگر کچھ وقار قائم ہو سکتا ہے تو صرف اس بنا کر کہ کلام فارسی میں ان کی نظر وسیع ہے اور ہر ہر لفظ کے صحیح محل استعمال سے واقف ہیں۔ اور اس حیثیت سے سچ پوچھیے تو غالبؔ کے مقابلے میں قتیلؔ کا پایہ بہت بلند تھا۔ غالبؔ زندگی بھر ہندوستان کی خاک چھانتے رہے۔ اور اس کے ساتھ طلب معاش میں سرگرداں رہے۔ قتیلؔ کو اطمینان کا زمانہ ملا تھا اور مدتوں خاک پاک ایران میں رہ کے گانو گانو کی ٹھوکریں کھاتے پرے تھے۔

بہ ہر تقدیر، لکھنؤ کی فارسی دانی کا آغاز قتیلؔ سے ہوا اور ان سے کچھ پہلے ملا فائق نے، جن کا خاندان آگرے سے آ کے مضافات لکھنؤ میں بس گیا تھا، ادب و انشاے فارسی اور فارسی نظم و نثر میں اعلا درجے کی بے نظیر کتابیں تصنیف کیں۔ فارسی گو اور فارسی داں ہندوستان میں ان سے پہلے بھی گزرے تھے، مگر فارسی دانی کے ساتھ زبان فرس کے اصول و ضوابط اور اس کی صرف و نحو کے مدون کرنے کا شوق پہلے پہل لکھنؤ ہی میں شروع ہوا اور وہ انہی کے قلم سے ظاہر ہوا۔ ان کی کتابیں اگر سچ پوچھیے تو بے مثال و لاجواب ہیں۔

اس کے بعد فارسی یہاں کی عام تعلیم میں داخل رہی اور نصاب فارسی ایسا بلیغ و دقیق رکھا گیا جو سچ یہ ہے کہ خود ایران کے نصاب سے زیادہ سخت تھا۔ ایران میں جیسا کہ ہر ملک کے لوگوں کا معمول ہے، سیدھی سادی فصیح زبان، جس میں صفائی کے ساتھ خیال آفرینی کی جائے، پسند کی جاتی ہے۔ اور اسی قسم کا نصاب بھی ہے۔ ہندوستان میں عرفیؔ و فیضیؔ اور ظہوریؔ و نعمت خانِ عالیؔ کے ایسے نازک خیال

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 166

شعرا کا کلام داخل درس کیا گیا۔ ملا طغرا اور مصنف پنج رقعہ کے ایسے دقت پسندوں کا کلام پڑھا اور پڑھایا جانے لگا۔ جس سے دعوا کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی زبان دانی اس آخر عہد میں خود ایران سے بڑھ گئی تھی اور یہیں کے لوگوں نے فارسی کی تمام درسی کتابوں پر اعلا درجے کی شرحیں لکھ ڈالی تھیں۔ اور اسی کا یہ حیرت خیز نتیجہ ہے کہ جب کہ دنیا کی تمام زبانوں کے شعرا اہل زبان ہی کے حلقے میں محدود رہتے ہیں اور غیر اہل زبان میں اگر دو چار شاعر پیدا بھی ہو جاتے ہیں تو اہل زبان میں ان کا اعتبر نہیں ہوتا، فارسی کے شعرا ایران سے زیادہ نہیں تو ایران کے برابر ہی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ خصوصاً گذشتہ صدی میں جب کہ ترقی و تعلیم کی دنیا میں لکھنؤ کا ڈنکا بج رہا تھا۔ یہاں کا بچہ بچہ فارسی گو تھا۔ جاہل رنڈیوں اور بازاری مزدوروں کی زبان پر فارسی کی غزلیں تھیں۔ اور بھانڈ تک فارسی کی نقلیں کرتے تھے۔ قصبات اودھ کے تمام شرفا کا مہذب مشغلہ اور ذریعہ معاش فارسی پڑھانا تھا اور ایسے اعلا درجے کے دیہاتی فارسی مدرس لکھنو کی گلیوں میں مارے مارے پھرتے تھے کہ ان کی زبان دانی پر خود اہل عجم بھی عش عش کر جاتے۔ ان کا لب و لہجہ اہل زبان کا سا نہ ہو مگر فارسی کے محاوروں اور بندشوں اور الفاظ کی تحقیق و تدقیق میں ان کو وہ درجہ حاصل تھا کہ معمولی اہل زبان کو بھی خطرے میں نہ لاتے تھے۔

لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہو سکتا ہے۔ جُہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔ اور لکھنؤ کی زبان پر حملہ کرنے والوں کو اگر کوئی اعتراض اتنے دنوں میں مل سکا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس میں فارسی اعتدال سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اس دور کے معیار ترقی کے لحاظ سے یہی چیز لکھنؤ کی زبان کی خوبی اور اس کی معاشرت کے زیادہ بلند ہو جانے کی دلیل تھی۔ خود دہلی میں زبان اردو

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 167

کی ترقی کے جتنے دور قائم کیے جائیں، ان میں بھی اگلے پچھلے دور کا امتیاز صرف یہی ہو سکتا ہے کہ پہلے کے بہ نسبت بعد والے میں فارسی کا اثر زیادہ ہے۔

مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اس وقت بھی بعض نام ور مستند فارسی داں اور فارسی گو موجود تھے، مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہنچ گیا تھا۔ چناں چہ جیسے باکمال فارسی داں ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے، کہیں نہ تھے۔ کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیم فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور ان کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چوں کہ یہیں کے متوطن تھے، اس لیے ان کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاورات فارسی کو استعمال کرنے لگے، جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ ان دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اُڑایا کرتے تھے، مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے، ان کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ ان کی زبان، ان کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظو کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی داں اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثار اور شاعر موجود تھے۔ اور اُردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی، شرفا ہی نہیں عوامُ الناس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودے کہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اُردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے، مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیل معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی، مگر انسان بغیر فارسی پڑھے، مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 168

قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شایستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے اور بغیر فارسی کی تعلیمپائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنےکا سلیقہ آ سکتا ہے۔

مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محرومُ القسمت تاج دارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے، ان میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچہ بچہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا اور بھانڈ تک اس فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے، مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے، اس لیے کہ ان کی اُردو دانی ہی ایک حد تک ان کے لیے فارسی دانی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مسلمانوں میں اب تک خواجہ عزیز الدین صاحب کا ایسا محقق فارسی اگلی بزمِ سخن کے یاد دلانے کو پڑا ہوا ہے جو اپنےک مال کے لحاظ سے سارے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 169

ہندوستان میں یکتا ہیں۔ اور پُرانے سن رسیدہ ہندوؤں میں بھی متعدد فارسی کے اسکالر ملیں گے جن کا ایک نمونہ سندیلے کے راجا درگا پرشاد صاحب ہیں۔ جن کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ زمانہ بدل گیا، زمین و آسمان بدل گئے، آب و ہوا بدل گئی، مگر وہ آج تک وہی ہیں۔ فارسی دانی کی داد دینے اور لینے کو موجود ہیں۔ اور اگلی تاریخ کے ایک کرم خوردہ ورق کی طرح چومنے چاٹنے اور آنکھوں سےلگانےکے قابل ہیں۔

(16)

علوم ہی سے وابستہ کتابت اور تحریر کے فن ہیں۔ مسلمانوں کا پُرانا خط عربی تھا جس کو نسخ کہتے ہیں۔ خلافتِ بغداد کے ازمنۂ وسطی تک ساری دنیاے اسلام میں مشرق سے مغرب تک یہی خط تھا جو ارض حیرہ کے پُرانے خط سے، خطِ کوفی اور خط کوفی سے خطِ نسخ بن گیا تھا۔ خاندان طاہریہ کے زمانے سے وہ تمام علم و فن جو بغداد میں عروج پا رہے تھے، ایران و خراسان کی طرف آنے لگے۔ اور دیلمیوں اور سلجوقیوں کے زمانے میں بغداد کے اکثر کمالات ایران میں بخوبی جمع ہو گئے۔ خصوصاً دیلمیوں کے علمی ذوق اور تفنن طبع سے ایران کا مغربی صوبہ آذر بائیجان جو قدرۃً عراق عجم و عراق عرب کے آغوش میں واقع تھا، ہر قسم کی خوبیوں اور ترقیوں کا گہوارہ قرار پا گیا۔

اسی علاقے میں پہلے پہل خط نے بھی نئی وضع اختیار کرنا شروع کی۔ کتابت خطاطی کی حدوں سے نکل کے نقاشی کی قلمرو میں داخل ہو گئی اور اس میں مصورانہ نزاکتیں پیدا کی جانے لگیں۔ عجمی نزاکت پسندوں کو خط عرب کی پرانی سادگی میں بھدا پن نظر آیا اور پُرانی شان اور وضع خود بخود چھوٹنے لگی۔ نسخ میں قلم ہر حرف اور لفظ میں اول سے آخر تک یکساں رہا کرتا تھا۔ حرفوں میں غیر موزوں خمی اور

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 170

غیر متناسب ناہمواری ہوتی تھی۔ دائرے گول نہ تھے بلکہ نیچے اور چپٹھے ہوتے اور ادھر اُدھر ان میں کونے پیدا ہو جاتے۔ اب نقاشی کی نزاکت کو خطاطی میں ملا کے تحریر میں نوک پلک پیدا کی جانے لگی۔ حرفوں کی نوکیں، گردنیں، اور دُمیں باریک بنائی جانے لگیں۔ دائرے خوبصورت اور گول لکھے جانے لگے۔ اس جدید مذاق کو پوری طرح پیش نظر رکھ کے سب سے پہلے میر علی تبریزی نے، جو خاص دیلم کا رہنے والا تھا، اس نئے خط کو بااصول و باقاعدہ بنا کے مشرقی بلاد میں رواج دیا اور اس کا نام نستعلیق قرار دیا۔ جو اصل میں نسخ تعلیق یعنی ضمیمۂ نسخ تھا۔

یہ نہیں معلوم کہ میر علی تبریزی کس زمانے میں تھے۔ منشی شمس الدین صاحب جو آج لکھنؤ کے مشہور و مستند خوش نویس ہیں، ان کا زمانہ تیمور سے پہلے بتاتے ہیں۔ لیکن نستعلیق کی کتابیں اتنی پُرانی ملتی ہیں کہ تیمور درکنار، ہم سمجھتے ہیں کہ اس خط کی ایجاد محمود غزنوی سے بھی پہلے ہو چکی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ محمود کے حملوں کے ساتھ ہی ساتھ ہندوستان میں فارسی خوش نویسوں کی بھی آمد شروع ہو گئی ہو گی۔ جس کے اثر سے یہاں اس خط کا رواج شروع ہوا۔ اور ہندوستان کے ہر صوبے اور ہر خطے میں نستعلیق کے خوش نویس کثرت سے پیدا ہو گئے۔ لہذا یا تو میر علی تبریزی کا زمانہ بہت قدیم ہے اور یا وہ اصلی موجد خط نہیں ہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ دہلی و لکھنؤ بلکہ سارے ہندوستان کی موجودہ خوش نویسی اپنا استادِ اول میر علی تبریزی کو بتاتی ہے۔ ان کے ایک مدتِ دراز کے بعد ایران میں نستعلیق کی استادی میں میر عماد الحسنی کا نام مشہور ہوا، جو خوشنویسوں میں بڑے ممتاز و نامور کاتب اور استاد الکُل مانے جاتے ہیں۔ ان کے بھانجے آغا عبد الرشید دیلمی، نادر شاہ کے حملوں کے زمانے میں واردِ ہند ہوئے اور لاہور میں آ کر ٹھہر گئے۔ لاہور میں ان کے صدہا شاگرد پیدا ہوئے جنہوں نے اقطاعِ ہند میں پھیل کے انہیں ہندوستان کی خوش نویسی کا آدم نہیں تو نوح
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 151
جس چیز کا تذکرہ آ جائے اُس کے تمام متعلقات کسی نہ کسی پہلو سے باتوں میں لے آئے جائیں۔ آزاد فقیر جو ایک خاص وضع رکھتے تھے، ضلع بولنے میں باکمال مانے جاتے تھے۔ امانت نے اپنی شاعری میں رعایت کی اس قدر کوشش کی کی تمام شاعرانہ خوبیوں سے قطع نظر کر کے رعایت ہی کو اپنا مقصد قرار دے لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا کلام شاعری کے درجےسے نکل کے، ضلع بولنے کے حکم میں داخل ہو گیا۔ مگر لکھنؤ کے اکثر عوام نے اپنی بےتکلفی کی صحبتوں میں اس فن کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ امانت کی شاعری پیچھے پڑ گئی۔ سچ یہ ہے کہ کسی جگہ کے لوگ ضلع بولنے میں اہل لکھنؤ کے عشرِ عشیر درجے کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اس فن میں ایک کتاب بھی شائع ہو گئی (ہے)۔
تیسرا فن تُک بندی ہے۔ یہ شاعری کی قافیہ پیمائی ہے۔ بہت سے جاہل جب ادھر توجہ کرتے ہیں تو جواب سوال میں اس طرح فی البدیہہ قافیہ استعمال کرتے ہیں کہ بڑے بڑے شعرا کو حیرت ہو جاتی ہے۔ ہم نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں ایک ہندو بڑھیا کے کاتے والا دیکھا تھا جو صبح کو خوانچہ لگا کے نکلتا۔ صورت دیکھتے ہی صدہا بازاری لونڈے اُسے گھیر لیتے اور وہ سرِ راہ خوانچہ رکھ کے بیٹھ جاتا۔ فوراً لونڈوں سے اُس سے تُک بندی میں مقابلہ شروع ہو جاتا۔ سارا مجمع ایک طرف ہوتا۔ فریقین میں گالیوں کی بوچھار ہوتی مگر شرط تھی کہ کوئی گالی تُک سے باہر نہ ہو اور کوئی قافیہ رہ نہ جائے۔ ہم نے اُسے بیسیوں بار دیکھا۔ گھنٹوں اُس سے مقابلہ رہتا مگر ہم نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ وہ جواب میں عاجز رہا ہو، کوئی نہ کوئی قافیہ ڈھونڈ کے پیش ہی کر دیتا تھا۔
اسی طرح مذاق اور گفتگو میں طرح طرح کی خیال آفرینیاں ہوتی تھیں اور جاہل عوام بعض وقت ایسے خیالات پیش کر دیا کرتے تھے کہ بڑے بڑے شعرا حیرت میں رہ جاتے۔ یہ زمانہ دراصل لکھنؤ کا گولڈن ایج تھا۔ شاعری اور ادبی خوبیاں لوگوں کے رگ وپے میں سرایت کر گئی تھیں۔ ہر شخص جو معمولی طور پر پڑھنے میں شُد بُد ہو جاتا، طبع آزمائی شروع
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 152
کر دیتا۔ جہلا و عوام، ادنا طبقے کے لوگوں اور گھر کی بیٹھنے والی عورتوں تک میں شاعرانہ لوچ اور ادبی تراکتیں پیدا ہو گئی تھیں۔ اَن پڑھ کبڑیے شاعر تھے اور جُہلا کی زبان بھی اس قدر شُستہ ورفتہ، اخلاقی حفظِ مراتب کے الفاظ سے مملو اور تمدّنی آداب سے لب ریز تھی کہ اکثر صاحبِ علم اُن کی گفتگو سُن کے ششدر رہ جاتے اور کسی کو ان پر جاہل ہونے کا گمان بھی نہ ہوتا۔ سودا بیچنے والوں کی صدائیں، شاعرانہ نکات اور فصاحت و بلاغت کے غوامض سے اس قدر آراستہ و پیراستہ تھیں کہ اوروں کو سمجھنا بھی دشوار تھا۔
ادنا طبقے والوں نے بھی اپنے مذاق کے مطابق خاص ادبی دل چسپیاں پیدا کر لی تھیں۔ مثلاً ایک فن خیال کا پیدا ہو گیا۔ لوگ فی البدیہہ اشعار تصنیف کر کے دائرے پر لگاتے۔ اس کا نام خیال اس لیے رکھا گیا کہ ہر شخص اپنی تخییل کا جوہر دکھائے اور کوئی نئی بات پیدا کرے۔ اس فن میں یہاں بہت سے باکمال پیدا ہوئے جن کو اعلا سوسائٹی اور تعلیم یافتہ لوگوں کی صحبتوں سے گو کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر بجائے خود اگر غور کیجیے تو وہ اصلی اور فطری شاعری تھی اور اسی وضع کی شاعری جیسی کہ عہدِ جاہلیتِ عرب میں تھی۔
اسی طرح ایک گروہ ڈنڈے والوں کا پیدا ہو گیا۔ ان لوگوں کی یہ شان تھی کہ فریب کے زمانے کے اہم اور مشہور واقعات کو کمال آزادی کے ساتھ موزوں کرتے۔ جو جیسا ہوتا، چاہے وہ کتنا ہی بڑا صاحبِ اثر اور دولت مند ہو، اسے ویسا ہی بڑی بے باکی سے دکھاتے اور ثابت کرتے کہ ملک و قوم کو اس سے کیا فائدہ ہوا یا کتنا بڑا ضرر پہنچا۔ پھر اپنی ان نظموں کو ایک شعر خوانی کی خاص وضع میں ڈنڈے بجا بجا کے سناتے۔
عورتوں کی زبان مردوں کے مقابل ہر ملک اور ہر قوم میں زیادہ شستہ اور دل کش ہوتی ہے۔ مگر لکھنؤ میں یہ خاص بات تھی کہ محلات اور محترم خاندانوں کی معزّز بیگموں کی زبان میں علاوہ نسائی دل فریبیوں کے، ادبی اور شاعرانہ نزاکتیں پیدا
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 153
ہو گئی تھیں۔ باتیں کرتیں تو معلوم ہوتا کہ منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں۔ اور غور کیجیے تو صحّت الفاظ، پیاری بندشیں اور طرزِ ادا کی نزاکتیں بتاتیں کہ زبان کی خوبیاں اس سرزمین میں کس اعلا کمال کو پہنچ گئی ہیں۔
(13)
زبان اور شاعری کے کمالات کے ساتھ لکھنؤ نے علم و فضل میں بھی ہندوستان کے تمام شہروں سے زیادہ ترقی کی ۔ اگر سچ پوچھیے تو علوم کے اعتبار سے لکھنؤ ہندوستان کا بغداد و قرطبہ اور اقصائے مشرق کا نیشا پور و بخارا تھا۔
یہاں کے علم و فضل کا آغاز علمائے فرنگی محل سے ہوا جن کے حالات کی طرف اس مضمون کے آغاز میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔ علم بے شک یہاں دہلی ہی سے آیا ہو گا، لیکن پرانے زمانے میں علمائے دہلی میں سے صرف ایک شیخ عبدالحق نظر آتے ہیں، جنہوں نے حدیث اور علوم دینیہ میں شہرت دوام حاصل کی۔ فرنگی محل کے سے کسی دارالعلوم کا وہاں کسی زمانے میں پتا نہیں لگتا۔ ہاں فرنگی محل کے مشہور ہو جانے کے بعد دہلی میں شاہ ولی اللہ صاحب کا خاندان البتہ بہت مشہور ہوا، جن کے فیض و برکت سے آج ہندوستان کے تمام شہروں میں علم حدیث کی تعلیم جاری ہوئی، لیکن اگر علم حدیث کی تعلیم اس نام ور خاندانِ دہلی کی یادگار ہے، تو اس کے ساتھ ہی صرف و نحو، منطق و حکمت اور معانی و بیان اور دیگر فنونِ درسیہ کی تعلیم لکھنؤ کی نام ور یونیورسٹیوں فرنگی محل کی یادگار ہے۔
غائر نظر ڈالنے اور جستجو سے صاف پتا چلتا ہے کہ جیسے معقولی علما لکھنؤ اور خاص فرنگی محل میں پیدا ہوئے، کبھی کسی زمانے میں اور کسی جگہ ہندوستان میں نہیں پیدا ہو سکے تھے۔ اس کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ سلسلۂ درس میں جو کتابیں جاری ہیں وہ یا تو سلف کے نام ور انِ عجم کی تصنیف ہیں یا فرنگی محل والوں کی۔ یا اُن لوگوں کی جنہوں نے فرنگی محل سے فیض حاصل کیا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 171

ضرور ثابت کر دیا۔ انہی کے دو شاگرد جو ولایتی تھے، وارد لکھنؤ ہوئے۔ ان دونوں بزرگوں میں سے ایک حافظ نور اللہ اور دوسرے قاضی نعمت اللہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ بیگ نام آغا عبد الرشید کے ایک تیسرے باکمال شاگرد بھی لکھنؤ میں آئے تھے۔ ان حضرت کے آنے کا زمانہ غالباً نواب آصف الدولہ بہادر کا عہد تھا، جب یہاں کوئی باکمال آ کے واپس نہ جانے پاتا تھا۔ قاضی نعمت اللہ آتے ہی اس خدمت پر مامور ہو گئے کہ شاہ زادوں کو اصلاح دیا کریں اور حافظ نور اللہ کو بھی دربار اودھ سے تعلق ہو گیا اور ان دونوں نے یہاں ٹھہر کے لوگوں کو خوش نویسی کی تعلیم دینا شروع کی۔

ان بزرگوں کے علاوہ یہاں اور پرانے خوش نویس بھی تھے جن میں سے ایک نامور بزرگ منشی محمد علی بتائے جاتے ہیں۔ مگر آغا الرشید کے شاگردوں نے اپنا ایسا سکہ جما لیا کہ خوش نویس کے تمام شائق بلکہ سارا شہر ان کی طرف رجوع ہو گیا۔ جسے خطاطی کا شوق ہوا، انہی کا شاگرد ہو گیا۔ اور تمام خوش نویسان سلف کے نام مٹ کے گمنامی کے ناپیدا کنار سمندر میں غرق ہو گئے۔ اور سچ یہ ہے کہ یہ بزرگ اپنے کمال کے اعتبار سے اس کے مستحق بھی تھے۔

حافظ نور اللہ کی لکھنؤ میں جو قدر ہوئی اس کا اندازہ اسی سے نہیں ہو سکتا کہ وہ یہاں سرکار میں ملازم ہو گئے تھے بلکہ لکھنؤ کی قدردانی کا صحیح اندازہ اس سے ہوت ہے کہ لوگ ان کے ہاتھ کےلکھے ہوئے قطعوں کو موتیوں کے داموں مول لیتے۔ یہاں تک کہ ان کی معمولی مشق بازار میں صرف ایک روپیہ حرف کے حساب سے ہاتھوں ہاتھ بک جاتی تھی۔

ان دنوں اُمرا اور شوقین لوگ اپنے مکانوں کو بجائے تصویروں کے قطعات سے آراستہ کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے علی العموم قطعوں کی بے انتہا مانگ تھی۔ اور

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 172

جہاں کسی اچھے خوش نویس کے ہاتھ کا قطعہ مل جاتا، اس پر لوگ پروانوں کی طرح گرتے اور اسے آنکھوں سے لگاتے۔ اس سے سوسائٹی کو تو یہ فائدہ پہنچتا کہ اکثر اخلاقی اصول اور ناصحانہ فقرے یا اشعار ہمیشہ پیش نظر رہتے، اور ہر وقت گھر میں اخلاقی سبق ملتا رہتا اور خوش نویسی کو یہ فائدہ پہنچتا کہ خوش نویسوں اور صاحب کمال خطاطوں نے اپنے کمال کو قطعہ نویسی ہی تک محدود کر دیا تھا۔ جو آب دار اور عمدہ وصلیوں کو لکھ کے تیار کرتے اور اسی میں وہ گھر بیٹھے دولت مند ہو جاتے۔ مگر افسوس اب ہندوستان سے قطعات اور کتبوں کا رواج اُٹھتا جاتا ہے اور ان کی جگہ تصویروں نے لے لی ہے۔ جس کی وجہ سے اگلے نفیس و مہذب شرعی مذاق آرایش کے مٹ جانے کے ساتھ خوشنویسی بھی ہندوستان سے اٹھ گئی۔ اب کاتب ہیں، خوش نویس نہیں ہیں۔ اور جو دو ایک خطاط مشہور بھی ہیں، وہ مجبور ہیں کہ کاپی نویسی اور کتابت سے اپنا پیٹ پالیں جو چیز کہ اصل میں خوش نویسی کی دشمن ہے۔ بہ خلاف اس کے، ان دنوں ایک گروہ قائم ہو گیا تھا جس کا کام فقط یہ تھا کہ خوش نویسی کو اپنے اصول پا قائم رکھے اور اس کو وقتاً فوقتاً مناسب ترقیاں دیتا رہے۔ چنانچہ اگلے خوش نویس، کتابت کو اپنی شان سے ادنا سمجھتے تھے اور خیال کرتے کہ جو شخص پوری پوری کتابیں لکھے گا، وہ غیر ممکن ہے کہ اول سے آخر تک اصول و قواعد خوش نویسی کو پوری طرح نباہ سکے۔ اور سچ یہ ہے کہ جتنی محنت اور مشقت وہ لوگ ایک ایک وصلی کی درستی میں کرتے تھے، اس کی عُشرِ عشیر محنت بھی کاتب کسی پوری کتاب کے لکھنے میں نہیں کر سکتے۔

ان کی محنت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حافظ نور اللہ سے ایک بار نواب سعادت علی خاں نے فرمایش کی کہ "مجھے گلستاں کا ایک نسخہ لکھ دیجیے" نواب سعادت علی خاں، گلستانِ سعدی کے بے حد شائق تھے اور کہتے ہیں کہ گلستاں ہر وقت ان کے سرہانے موجود رہا کرتی تھی۔ اور کوئی ایسی فرمایش کرتا تو حافظ نور اللہ اپنی توہین سمجھ کے اس

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 173

کا منہ ہی نوچ لیتے مگر فرماں رواے وقت کا کہنا تھا، منظور کر لیا، اور عرض کیا، تو مجھے اسی گڈی کاغذ (ان دنوں رم کو گڈی کہتے تھے) ایک سو (100) قلم تراش چاقو اور خدا جانے کتنے ہزار قلموں کے نیزے منگوا دیجیے "سعادت علی خاں نے حیرت سے پوچھا :"فقط اکیلی ایک گلستان کے لیے اتنا سامان درکار ہو گا؟" کہا "جی ہاں، میں اتنا ہی سامان خرچ کیا کرتا ہوں۔" نواب کےلیے اس سامان کا فراہم کرنا کچھ دشوار تو تھا نہیں، منگوا دیا۔ اب حاٖفظ صاحب نے گلستاں لکھنا شروع کی مگر پوری نہیں ہونے پائی تھی، سات ہی باب لکھنے پائے تھے اور آٹھواں باب باقی تھا کہ انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد جب ان کے بیٹے حافظ ابراہیم دربار میں پیش ہوئے اور انہیں سیاہ خلعت تعزیت عطا ہوا تو سعادت علی خاں نے کہا : "بھئی، میں نے حافظ صاحب سے گلستاں لکھوائی تھی، خدا جانے اس کا کیا حال ہوا؟" حافظ ابراہیم نے عرض کیا : "ان کے لکھے ہوئے سات باب تیار ہیں، آٹھواں باب باقی ہے، اسے یہ حقیر لکھ دے گا۔ اور اس قدر ان کی شان سے ملا دے گا کہ حضور امتیاز نہ کر سکیں گے۔ لیکن ہاں اگر کسی مُبصر خوش نویس نے دیکھا تو وہ بے شک پہچان لے گا۔" نواب نے اجازت دی اور اس گلستاں کو حافظ ابراہیم نے پورا کیا۔

حافظ نور اللہ کے شاگردوں میں زیادہ ممتاز سب سے اول تو خود ان کے بیٹھے حافظ محمد ابراہیم تھے۔ دوسرے منشی سرب سکھ نام ایک ہندو بزرگ تھے۔ جن کو کوئی کایستھ بتاتا ہے اور کوئی کشمیری پنڈت۔ اور تیسرے محمد عباس نام لکھنؤ کے ایک خوش نویس۔ حافظ ابراہیم نے بھی بہت نام پیدا کیا۔ سیکڑوں آدمیوں کو خوش نویس بنا دیا اور فن میں مجتہدانہ مرتبہ پیدا کر کے، اپنے والد سے جدا ایک شان پیدا کی۔ حافظ نور اللہ کے دائرے بالکل گول ہوتے تھے۔ حافظ ابراہیم نے ان میں ایک خفیف سے بیضادیت اختیار کی۔ منشی سرب سکھ کی نسبت کہا جاتا ہے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 174

کہ اپنے استاد کی شان اس قدر اُڑا لی تھی کہ صدہا وصلیاں حافظ نور اللہ کے نام سے پھیلا دیں اور بڑی بڑے خوش نویس بالکل تمیز نہیں کر سکتے تھے اور یہ ان دنوں خوشنویسی کا بہت بڑا کمال تھا۔

حافظ ابراہیم کے ممتاز شاگردوں میں پہلے تو ان کے فرزند حافظ سعید الدین تھے۔ ان کے علاوہ منشی عبد المجید جو سرکار شاہی میں احکام شاہی اور پرچہ ۔۔۔۔۔ مگر (یعنی مراسلت فی ما بین دولتِ انگلشیہ و دولت اودھ) لکھنے پا ۔۔۔۔۔ حافظ ابرا ہیم کے دو شاگردوں نے بہت ہی فروغ پایا جو اپنے زمانے میں سارے لکھنؤ کے استاد قرار پا گئے تھے۔ ایک تو منشی ۔۔۔۔ کشمیری پنڈت جو اپنے فن کے بہت بڑے کامل تھے اور دوسرے ۔۔۔۔۔ محمد ہادی علی جو نستعلیق کے علاوہ نسخ اور طغرا نویسی میں بھی لکھنؤ میں اپنا مثل نہ رکھتے تھے۔

اُدھر قاضی نعمت اللہ کے شاگرد ایک تو ان کے فرزند مولوی محمد اشرف تھے اور دوسرے مولوی قل احمد۔

غرض نستعلیق کے یہی لوگ استاد تھے جن سے لکھنؤ میں خوش نویسی کمال کو پہنچی۔ پھر مطبع جارے ہونے کے بعد کتابت و کاپی نویسی کو فروغ ہوا۔ اور دراصل یہ اسی خاندان کی برکت ہے کہ لکھنؤ میں ہزاروں مسلمان، ہزاروں کایستھ جن سے نوبستہ و اشرف آباد کے محلے بھرے ہوئے ہیں اور سیکڑوں کشمیری پنڈت خوشنویس ہو گئے۔ مگر افسوس، کشمیری پنڈتوں نے انگیریزی تعلیم کے شوق میں اور خوشنویسی کی کساد بازاری دیکھ کے، اس فن کو مطلقاً چھوڑ دیا۔ اور اب جتنے اچھے لکھنے والے ہیں، سب مسلمان ہیں یا کایستھ۔

آخر زمانے میں سندیلے کے ایک منشی عبد الحیی بھی بڑے باکمال خوشنویس تھے۔ جن کے شاگرد منشی امیر اللہ تسلیمؔ، ان کے بڑی بھائی منشی محمد عبد اللطیف اور منشی اشرف علی وغیرہ تھے۔ فی الحال نستعلیق میں منشی شمس الدین صاحب اور نسخ میں منشی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 175

حامد علی صاحب کو شہرت ملی اور یہ دونوں مشنی ہادی علی صاحب کے شاگرد ہیں۔

ہندوستان میں خط نسخ جن باکمالوں کی جانب منسوب کیا جات اہے، ان میں سب سے پہلے شخص یاقوتِ مستعصمی کے لقب سے مشہور ہیں جو یاقوت اول کہلاتے ہیں۔ ہمیں اس نام کا کوئی باکمال کاتب مستعصم باللہ کے عہد میں نہیں نظر آتا۔ کیا عجب کہ اس سے مراد عماد کاتب جو ینی الملقب بہ فخر الکتاب، المتوفی 584ھ ہو۔ جس کی کتاب خریدہ مشہور ہے۔ اور جو پہلے ارض شام میں سلطان اتابک نور الدین زنگی کا اور اس کے بعد مصر میں سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس کا کاتب تھا۔ اس لیے کہ نسخ کا سب سے بڑا آخری خوش نویس وہی مانا جات اہے۔ اس کے بعد سلطان اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں محمد عارف نام، خط نسخ کے ایک بڑے باکمال پیدا ہوئے جن کو یاقوت رقم ثانی کا خطاب دیا گیا۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ انہوں نے خط نسخ کی نئی شان ایجاد کی اور بہ مقابل سابق کے اسے زیادہ خوب صورت بنا دیا۔ یہاں تک کہ نسخ کے اساتذۂ لکھنؤ دعوا کرتے ہیں کہ ان کے کمال کا ساری دنیائے اسلام نے اعتراف کر لیا۔ میں اس کے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ یاقوت رقم ثانی کو ہندوستان میں چاہے جیسی فوقیت حاصل ہو گئی ہو، مگر ان ممالک میں جہاں کا قومی خط، خطِ نسخ اور قومی مادری زبان، زبانِ عرگ ہے، لوگ یاقوت رقم کا نام بھی نہیں جانتے۔ اور نہ ان کی شان کے پیرو ہیں۔

محمد عارف یاقوت رقم کے زمانے میں عبد الباقی نام ایک شخص تھے، جن کا پیشہ حدادی یعنی لُہاری تھا۔ انہیں یاقوت رقم کی مرجعیتِ عامہ دیکھ کے شوق ہوا کہ خود بھی اس فن میں کمال پیدا کریں۔ اتفاقاً عبد اللہ طباخ نام نسخ کے ایک اور خوش نویس ان دنوں مشہور تھے۔ حداد جا کے ان کے شاگرد ہوئے۔ اور ایسی محنت کی کہ استاد کامل مشہور ہو گئے۔ جب ان دونوں کا زمانہ گزر گیا تو یاقوت رقم کی جگہ، ان کے بھتیجے قاضی عصمت اللہ نے لی اور حداد کی یادگار ان کے دو فرزند علی اکبر اور علی اصغر تسلیم کیے گئے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 176

اس کے بعد ہندوستان میں بڑے بڑے خوش نویس پیدا ہوئے اور برابر نسخ کی کتابت ہندوستان میں ترقی کرتی رہی۔ آخر میں شاہ غلام علی صاحب کو شہرت ہوئی جو نسخ کے باکمال خوش نویس تھے۔ اس کے بعد لکھنؤ میں ایک طرف مولوی ہادی علی صاحب کی شہرت ہوئی، جن کا خاندان دہلی سےآیا تھا۔ اور کالپی کے ایک خوش نویس میر اکبر علی کے وہ شاگرد تھے۔ مولوی ہادی علی صاحب کو طغرا نگاری میں بڑا کمال حاصل تھا۔

منشی ہادی علی کے ہم عصر نسخ کے ایک مشہور خوش نویس میر بندہ علی مرتعش تھے۔ ان کے استاد نواب احمد علی نام ایک پرانے وقت کے رئیس اور نسخ کے باکمال استاد تھے۔ میر بندہ علی کے ہاتھ میں رعشہ تھا، مگر قلم جیسے ہی کاغذ پر لگتا، معلوم ہوتا کہ لوہے کا ہاتھ ہے۔ کیا مجال کہ قابو سے باہر ہو۔ ان کی نظر خط کے پہچاننے میں ایسا کمال رکھتی تھی کہ بڑے بڑے لوگ لوہا مان گئے۔

منشی حامد علی صاحب فرماتے ہیں ایک موقع پر منشی ہادی علی، منشی محمد یحیی (یہ بھی نسخ کے بڑے استاد تھے، جنہوں نے طبع ہونے کے لیے لکھنؤ میں پہلا قرآن لکھا) منشی عبد الحیی سندیلوی اور میر بندہ علی مرتعش ایک صحبت میں جمع تھے۔ یہ نسخ کے تمام باکمالوں کی صحبت تھی۔ کسی نے ایک قطعۂ نسخ فروخت کے لیے لا کے پیش کیا۔ گو اس میں کاتب کا نام نہیں لکھا تھا، مگر ان باکمالوں نے بالاتفاق پہچان لیا کہ خاص یاقوت کے ہاتھ کا ہے۔ اور سب کو شوق ہوا کہ اسے اپنے قبضے میں کریں۔ مگر منشی ہادی علی صاحب نے کہا : "یہ ایک دن میرے پاس رہے تو مجھے غور کرنے کے بعد اطمینان ہو گا کہ دراصل یہ یاقوت کے ہاتھ کا ہے یا نہیں۔" مالک نے دے دیا اور وہ اسے گھر لائے۔ دوسرے دن لے جا کے پیش کیا اور کہا، "واقعی یہ یاقوت ہی کے ہاتھ کا ہے۔ اسی کے ساتھ یا یاقوت کا ایک قطعہ میرے پاس بھی پڑا ہوا تھا، میں نے اسے لے جا کے اُس سے ملایا تع بعینہ وہی پایا اور مجھے یقین آ گیا کہ واقعی یہ یاقوت کا ہے۔ اور دونوں قطعے سب کے سامنے رکھ دیے۔ سب نے بلا تامل تسلیم کر لیا کہ دونوں یاقوت ہی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ مگر میر بندہ علی نے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 177

منشی ہادی علی والے قطعے کو غور سے دیکھا، پھر مسکرائے اور اُس کے نیچے لکھ دیا : ع

این کار از تو آید و مردان چنین کنند

یہ تحریر دیکھ کے منشی عبد الحیی صاحب بگڑے اور کہا، "کیا آپ کو اس میں کچھ شک ہے؟" میر بندہ علی نے کہا، "یہ قطعہ تو یاقوت کے ہاتھ کا نہیں ہو سکتا۔" منشی عبد الحیی اور دیگر حریفانِ صحبت نے دعوا کیا کہ یہ خاص یاقوت کے ہاتھ کا ہے۔ میر بندہ علی نے اس میں ایک واو کا سرا دکھایا اور کہا، "یہ یاقوت کا نہیں ہو سکتا۔" اب سب لوگ گومگو میں پڑے ہوئے تھے کہ منشی ہادی علی نے اس وصلی کا ایک کونا پھاڑ کے کاغذ کی تہہ کے اندر سے نکال کے اپنا نام دکھایا اور سب کو یقین آ گیا کہ یہ کارستانی منی ہادی علی صاحب کی تھی۔ سب نے اُن کی بے حد تعریف کی۔ اور انہوں نے کہا، "مگر میں تو میر بندہ علی صاحب کی نظر کا قائل ہو گیا۔"

خوش نویسوں کے عام مذاق کے مطابق میر بندہ علی صاحب سے بھی قطعہ نویسی کے سوا کتابت غیر ممکن تھی۔ زندگی بھر کبھی کوئی چھوٹی کتاب بھی نہ لکھی گئی۔ حاجی حرمین شریفین نے جب مطبع جاری کیا تو بہ ہزار منت و سماجت میر بندہ علی کو اس پر راضی کیا کہ انہیں ایک پنج سورہ لکھ دیں۔ میر بندہ علی نے بڑی محنت سے اور خدا جانے کتنے دنوں میں لکھا اور لے گئے۔ مگر حاجی صاحب کے سامنے جب اس پر آخری نظر ڈالی تو کچھ ایسا ناپسند ہوا کہ بجائے حاجی صاحب کے حوالے کرنے کے، پھاڑ ڈالا اور کہا، "بھئی مجھ سے نہیں ہو سکتا۔"

ان بزرگوں کے تذکرے سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ خوش نویسی میں لکھنؤ کو کوئی ایسا امتیاز حاصل ہو گیا تھا جو ہندوستان میں عدیم النظیر ہو، بہ خلاف اس کے میرا خیال ہے کہ نسخ کے جیسے جیسے باکمال دولتِ مغلیہ سے پہلے ہندوستان میں گزر چکے ہیں، ان کے عُشرِ عشیر درجے کو بھی یہ لوگ نہیں پا سکتے بلکہ نسخ کا کمال ان دنوں مٹ چکا تھا۔ نستعلیق کے متعلق اس قدر البتہ کہا جا سکتا ہے کہ حافظ نور اللہ اور حافظ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 178

ابراہیم کے ہاتھ کے قطعات جس ذوق و شوق سے سارے ہندوستان میں مقبول ہوئے اور کسی خوش نویس کے شاید نہ ہوسکے ہوں گے۔ لیکن اس پر بھی خطاطی کے فن میں لکھنؤ کا درجہ قریب قریب وہی تھا جو دیگر متمدن شہروں کا ہو سکتا ہے۔

مگر لکھنؤ کی خوش نویسی نے مطبع کی ترقی میں جو کام کیا شاید کہیں کی خوش نویسی نہ کر سکی ہو گی۔ مجھے اس کی تحقیق نہیں ہے کہ ہندوستان میں سب سے پہلے مطبع کہاں سے جاری ہوا۔ کلکتے میں اردو لٹریچر کی ترقی اور نیز عام مشرقی علوم کی تقویت میں بہت کچھ اہتمام کیا گیا مگر وہاں ٹائپ کے سوا پتھر کے چھاپے کی پرانی کتابیں میں نے نہیں دیکھیں۔

لکھنؤ میں یہ عہد غازی الدین حیدر (1243 محمدی تا 1256 محمدی، مطابق 1814ء تا 1827ء) ارسل نام ایک یوروپین نے آ کے لوگوں کو مطبع کا خیال دلایا۔ اور جب اہل علم مشتاق ہوئے تو اس نے پہلا مطبع لکھنؤ میں کھولا۔ اس نے پریس اور تمام سامان یہیں تیار کرا کے چھاپنا شروع کیا۔ اور زادالمعاد، ہفت قلزم اور تاجُ اللغات (جو بہت سی جلدوں میں تھی) چھاپ کے پبلک کے سامنے پیش کیں۔ اس سے سیکھ کے اور لوگوں نے بھی مطبع جاری کرنا شروع کیے۔ جن میں سب سے پہلا مطبع غالباً حاجی حرمین شریفین کا تھا۔ انہی دنوں مصطفے خاں، شیشہ آلات کے ایک دولت مند تاجر کچھ چھاپنے کے لیے حاجی حرمین کے پاس لے گئے اور حاجی صاحب کی زبان سے کوئی ایسا سخت کلمہ نکل گیا کہ مصطفے خاں نے گھر آ کے خود اپنا مصطفائی مطبع جاری کر دیا، جسے غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ تھوڑے دنوں بعد علی بخش خاں نے علوی مطبع جاری کیا اور لکھنؤ میں کثرت سے چھاپے خانے کُھلنے لگے۔

ابتداءً طبع کا کام یہاں تاجرانہ اصول پر نہیں بلکہ شوقینی کی شان سے جاری ہوا۔ عمدہ سے عمدہ ارولی کاغذ لگایا جاتا جو پتھر کے چھاپے کے لیے نہایت ہی موزوں تھا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 179

بڑے بڑے خوش نویسوں کو مجبور کر کے اور بڑی بڑی تنخواہیں دے کے ان سے کتابت کا کام لیا جاتا۔ اور بٖغیر اس کے کہ کارگزاری کی کچھ بھی شرط ہو، یا اس کا ذرا بھی خیال کیا جاتا ہو کہ وہ دن بھر میں کتنا لکھتے ہیں، لکھتے بھی ہیں یا نہیں، ان کی خاطر داشت کی جاتی۔ اسی طرح پریس مینوں سے بھی نہ پوچھا جاتا کہ دن بھر میں کتنے کاغذ چھاپے۔ روشنائی کے لیے کڑوے تیل کے ہزاروں چراغ روشن کر کے اول درجے کا کاجل تیار کیا جاتا۔ کھٹائی کے عوض لیموں کاغذی صرف ہوتے اور کپڑے کی جگہ اصلی اسفنج کام میں لایا جاتا۔ غرض ہر چیز اول درجے کی کام میں لائی جاتی۔ اس اہتمام کا نتیجہ یہ تھا کہ شاہی زمانے میں فارسی و عربی کی درسی و دینی کتابیں جیسی لکھنؤ میں چھپ کے تیار ہوئیں، اہل بصیرت کے نزدیک کہیں نہ چھپ سکی ہوں گی۔ اس وقت کی چھپی ہوئی کتابیں جس کسی کے پاس موجود ہیں، ایک دولت ہے اور لوگ ڈھونڈھتے ہیں اور نہیں پاتے۔

میرے والد کے حقیقی چچا مولوی احمد صاحب کو سفر اور تجارت کا بڑا شوق تھا۔ اور اس زمانے میں جب کہ لوگ گھر سے باہر قدم نکالتے ڈرتے تھے، انہوں نے ضاجی حرمین شریفین کے ایجنٹ کی حیثیت سے رتھوں اور بیل گاڑیوں پر سوار ہو کے اور ہزاروں کتابیں ساتھ لے کے لکھنؤ سے راولپنڈی تک سفر کیا تھا۔ ان کا بیان تھا کہ کتابیں ان دنوں عنقا تھیں۔ یہاں کی مطبوعہ کتابوں کو دیکھ کے لوگوں کی آنکھیں کُھل جاتی تھیں اور پروانہ وار گرتے تھے۔ لوگوں کے شوق کا یہ عالم تھا کہ ہم جس شہر یا گاؤں میں پہنچتے، ہم سے پہلے ہماری خبر پہنچ چکتی، اور ہمارا داخلہ عجب شان و شوکت سے ہوتا۔ ادھر ہم کسی بستی میں پہنچے ادھر خلقت نے گھیر لیا۔ بھیڑ لگ جاتی تھی اور ہم جس کتاب کو جس قیمت پر دیتے، لوگ بے عذر لے کے آنکھوں سے لگاتے۔ ہم کریما، مامقیمان وغیرہ کو فی جلد 6 یا 8 آنے کے حساب سے اور گلستاں، بوستاں کو فی جلد تین روپے یا چار روپے کے نرخ سے بیچتے۔ اور اس پر یہ حال تھا کہ ہم مانگ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 180

کو پورا نہ کر سکتے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچتے پہنچتے کتابوں کا ذخیرہ ختم ہو جاتا، اور نئے مال کے انتظار میں مہینوں ٹھہر جانا پڑتا۔ ان دنوں مال کا پہنچنا دشوار تھا، مگر ہم نے ایسا انتظام کر لیا تھا کہ برابر مال لکھنؤ سے آتا رہتا۔

شاہی کے آخر دور میں مصطفائی مطبع اپن یچھپائی کے لحاظ سے دنیا میں جواب نہ رکھتا تھا۔ انتزاعِ سلطنت کے بعد منشی نول کشور نے اپنا مطبع جاری کیا۔ گو وہ چھپائی کی خوبی میں مصطفائی مطبع کا مقابلہ نہیں کر سکا مگر تجارت کے اصول پر چل کے اس نے فارسی و عربی کی اتنی بڑی ضخیم کتابیں چھاپ دیں کہ آج کسی مطبع کو ان کے طبع کرنے کی جرأت نہیں ہو سکتی۔ سچ یہ ہے کہ لکھنؤ میں اگلی شوقینی نے پریس کا ایسا مکمل سامان جمع کر رکھا تھا کہ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے منشی نول کشور ہی کے ایسے بلند حوصلہ صاحب مطبع کی ضرورت تھی۔ آخر نول کشور پریس نے یہاں تک عروج پایا کہ سارے مشرقی لٹریچر کو اس نے زندہ کر دیا اور بہ اعتبار وسعت طبع کے جو فوقیت لکھنؤ کو حاصل ہو گئی، اور کسی شہر کو نہیں نصیب ہو سکتی۔ اور اسی کی برکت تھی کہ وسط ایشیا میں کاشغر و بخارا تک اور افغانستان و ایران کی ساری علمی مانگ لکھنؤ ہی پوری کر رہا تھا۔ چنانچہ آج تک نول کشور پریس علمی تجارے کی کنجی ہے، جس سے کام لیے بغیر کوئی شخص علمی دنیا میں قدم نہیں رکھ سکتا۔

مگر افسوس اب لکھنؤ میں باوجود کثرتِ مطابع کے چھپائی کی حالت ایسی خراب ہو رہی ہے اور روز بہ روز ابتر ہوتی جاتی ہے کہ دوسرے شہر اس پر فوقیت لے گئے ہیں۔ اور ہماری نظر میں پریس مینوں کی اخلاقی حالت خراب ہونے کی وجہ سے اب لکھنؤ میں اکثر شہروں کے مقابلے میں خراب چھپتا ہے۔ مگر ہمارے اطمینان کے لیے اتنا کافی ہے کہ کان پور میں منشی رحمت اللہ صاحب رعدؔ کی وجہ سے مطابع کی حالت اچھی ہے۔ اور

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 181

کان پور دراصل لکھنؤ ہی کی ترقیوں کا ایک ضمیمہ ہے۔

مطبع ہی کے ساتھ لکھنؤ میں مصلح سنگی کا فن ایجاد ہوا۔ پتھر پر جو کاپی جمائی جائے، اسے کسی حد تک چھیل کے اور قلم لگا کے درست کرنا غالباً یورپ ہی سے شروع ہوا ہو گا۔ اور وہاں اب بھی کیا عجب کہ اصلاح کا یہ عمل جاری ہو۔ مگر نسخ و نستعلیق کے حرفوں کو اس وضع سے درست کرنا کہ خوش نویس کی پوری شان باقی رہے اور کسی کو محسوس نہ ہو سکے کہ اس میں کسی اور کا بھی قلم لگا ہے، خاص لکھنؤ کی ایجاد ہے۔ جہاں ابتداءً یہ فن تو اسی حد پر محدود تھا کہ حروف اور نقش و نگار چاہے جس قدر اُڑ گئے یا کچل کے پھیل گئے ہوں، ان کو درست کر دیا جائے۔ مگر چند روز بعد یہاں کی جدت پسندی اس حد سے آگے بڑھی اور ایسے باکمال مصلح سنگ پیدا ہونے لگے جو پتھر پو پوری پوری کتابیں اُلٹی لکھ دیتے ہیں اور خط اپنی حدود پر اس قدر مکمل رہتا ہے کہ مجال کیا جو کوئی پہچا سکے کہ یہ پتھر پر الٹا لکھا گیا ہے۔ ابتداءً اس کے صاحب کمال موجد ایک پرانے بزرگ تھے جو مصطفائی مطبع کی شہرت و نام وری کے باعث ہوئے۔ ان کے زمانے ہی میں ان کے شاگردوں کی کثرت نے یہاں کے مطابع کو فائدہ پہنچایا۔ بہت سے لوگوں نے ترقی کی۔ اور شہر سے مصلح سنگ بہم پہنچانے لگا (کذا)۔ جب مصلح سنگی بہت عام ہو گئی تو منشی جعفر حسین نام ایک مشہور مصلح سنگ کو اُن کی اعلا مشاقی نے آمادہ کیا کہ مطبع کو کاپی نویسی سے بے پروا کر دیں۔ انہوں نے پتھر پر اُلٹا لکھنا شروع کیا۔ یہ کام ابتداءً چھوٹے چھوٹے بازاری مطابع سے شروع ہوا اور آخر میں اعلا و ادنا سب مطبعوں میں ایک حد تک اختیار کر لیا گیا۔ اب منشی سید علی حسین صاحب نے اس حد تک ترقی کی کہ ان کے اُلٹے لکھے ہوئے خط کو بہت سے مشہور خوش نویس بھی نہیں پا سکتے۔ چنانچہ ان کی الٹی کتابت کا ایک معمولی نمونہ ہمارا دلگداز بھی ہے جس کی کاپیاں نہیں لکھی جاتیں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 182

بلکہ منشی علی حسین صاحب مضامینکو پتھر پر الٹا لکھ دیا کرتے ہیں۔ ناظرین دلگداز کو پڑھ کے اور اس کے خط پر غور کر کے اندازہ فرما سکتے ہیں کہ مصلح سنگی کا فن لکھنؤ میں کس درجۂ کمال کو پہنچ گیا ہے۔ گو کہ ہندوستان کے اکثر شہروں میں مصل؁ سنگ لکھنؤ ہی کے ہیں، لیکن اس وقت تک کسی اور شہر کے مطابع کو یہ بات نہیں نصیب ہوئی کہ کاپیاں جمانے کے عوض عبارت پتھروں پر الٹی لکھوا کے چھاپیں۔ یہ فن آت تک لکھنؤ ہی تک محدود ہے۔ مگر افسوس پریس مینوں کی حالت خراب ہو جانے کے باعث لکھنؤ، مصلح سنگی کے اس کمال سے اس قدر فائدہ نہیں اٹھا سکتا جس قدر کہ ہونا چاہیے۔

(17)

ابھی ہمیں لکھنؤ کی بہت سی خصوصتیں بیان کرنی ہیں، جن کو زیادہ تر تعلق اخلاقی چیزوں اور معاشرت کے امور سے ہے۔ مگر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصر طور پر کچھ کیفیت فنون جنگ کی بھی بیان کر دیں۔

سچ یہ ہے کہ یہ آخری دربارِ مشرق اس وقت قائم ہوا جب مسلمانوں اور علی العموم ہندوستانیوں کی سپہ گری کمزور پڑ چلی تھی۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ صحیح یہ کہنا ہو گا کہ پرانی سپہ گری کے فنون اتنے نہیں مٹے تھےجس قدر کہ پرانے فنون اور آلاتِ جنگ، نئے قواعد جنگ اور جدید آلاتِ حرب کے مقابلے میں بے کار ہو گئے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پرانے فنون جنگ بجائے اس کے کہ مسلمانوں یا اہل ہند سے نکل کر کسی نئی ترقی یافتہ بہادر قوم میں عروج پاتے، دنیا ہی سے مٹ گئے۔ اور ایسے مٹے کہ موجودہ نسل اپنے آبا و اجداد کے شجاعانہ کارناموں اور ان کے سپہ گرانہ کاموں سے بلکل نا آشنا ہے۔ اور آج جو ان فنون کے تذکرے کے لیے ہم نے قلم اٹھایا ہے تو کوئی شخص بھی نہیں ملتا جس سے کچھ حالات معلوم ہوں۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 183

ہم شاہزادہ مرزا مسعود قدر بہادر بی، اے۔ اور لکھنؤ کے ایک بہت قدیم بزرگ سلیمان خاں صاحب (جو حافظ رحمت خاں صاحب قدیم نام ور فرماں رواے بریلی کی نسل سے ہیں) نہایت شکر گزار ہیں کہ ان قدیم فنونِ جنگ کے متعلق جو کچھ لکھ رہے ہیں، انھی کی مدد سے لکھ رہے ہیں۔

سپہ گری کے جن فنون کا نشو و نما دہلی میں اور دہلی کے بعد لکھنؤ میں ہوا، وہ در اصل تین مختلف قوموں سے نکلے تھے اور تینوں کے امتزاج سے اُن میں مناسب ترقیاں ہوئی تھیں۔ اور حیرت کی یہ بات ہے کہ باوجود میل جول کے ان میں آخر تک اصلی امتیاز باقی تھا۔ بعض فن آریا قوم کے سپہ گروں سے نکلے تھے۔ بعض کو ترک اور بہادرانِ تاتار اپنے ساتھ لائے تھے۔ اور بعض خاص عربوں کے فن تھے جو ایران میں ہوتے ہوئے یہاں آئے تھے۔ لکھنؤ میں جن فنون کا رواج تھا اور جن کے باکمال استاد موجود تھے، وہ حسبِ ذیل معلوم ہوتے ہیں:

(1) لکڑی ( ۲ ) پٹا ہلانا (۳) بانک (۴) بنوٹ (۵) کشتی ( ۶ ) برچھا (۷) بانا (۸) تیراندازی (۹) کٹار (۱۰) جل بانک۔

(1) لکڑی

یہ اصلی فن جسے پھنکیتی کہتے ہیں، آریا لوگوں کا تھا جو ہندوستان و ایرانی دونوں ملکوں کے آریوں میں مروّج تھا۔ عربي فتوحات کے بعد ایران کی پھنکیتی پر عربی جنگ جوئی کا اثر پڑ گیا۔ اور وہاں کی پھنکیتی بہ مقابل ہندوستان کے زیادہ ترقی کر گئی۔ ہندوستان میں آخر تک یہ دونوں فن اپنی ممتاز وضعوں میں باقی اور لکھنؤ میں دونوں اسکول قائم تھے۔ ایران کی عربی آمیز پھنکیتی، یہاں علی مد کے نام سے مشہور تھی اور خالص ہندی پھنکیتی، رستم خانی کے لقب سے یاد کی جاتی۔ علی مد میں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 184

پھنکیت کا بایاں قدم ایک مقام پر جما رہتا اور صرف داہنے پاؤں کو آگے پیچھے ہٹا کے، پینترے بدلے جاتے۔ برخلاف اس کے رستم خانی میں پھنکیت، پینترے بدلتے وقت داہنے بائیں اور آگے پیچھے جس قدر چاہتا یا جگہ پاتا، ہٹتا بڑھتا اور ناگہاں حریف پر آ پڑتا۔ ایک یہ امتیاز بھی تھا کہ علی مد کا فن خاص رئیسوں اور شریفوں کے ساتھ مخصوص تھا۔ اس کے استاد کبھی کسی رذیل یا ادنا طبقے کے آدمی کو اپنا شاگرد نہ بناتے اور نہ اپنے فن سے واقف ہونے دیتے۔ بخلاف اس کے رستم خانی کا فن اجلاف اور ادنا طبقے کے لوگوں میں عام تھا۔

علی مد کے ایک زبردست استاد فیض آباد میں شجاع الدولہ بہادر اور ان کے بعد ان کی بیوہ بہو بیگم صاحب کی سرکار سے وابستہ تھے ان کا ذکر تاریخ فیض آباد میں ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس فن کے سب سے پہلے استاد وہی تھے جو فیض آباد میں رہے اور پھر واردِ لکھنؤ ہوئے۔ دوسرے استاد اسی فن کے محمد علی خاں تھے جو خاص ہمارے محلے کٹرہ بزن بیگ خاں میں رہتے تھے، اور علی مد کے موجد مانے جاتے۔ تیسرے استاد میر نجم الدین تھے جو شاہ زادگانِ دہلی کے ساتھ پہلے بنارس میں گئے اور پھر وہاں سے لکھنؤ میں آئے۔ ان کا معمول تھا کہ صرف شریفوں کو شاگرد کرتے اور شاگرد کرتے وقت شاہ زادوں سے دولت اور شریفوں سے صرف مٹھائی لیتے اور اسے بجائے اس کے کہ اپنے کام میں لائیں، خود لے جا کے سادات بنی فاطمہؓ کی نذر کر دیتے۔ یہ نواب آصف الدولہ کے عہد میں تھے۔ ایک بہت بڑی استاد میر عطا حسین تھے، جو حکیم مہدی کے مخصوصین میں تھے۔ ایک بہت بڑے استاد پٹے خاں تھے جو اپنے کمال کے باعث غازی الدین حیدر کے زمانے میں علی مد کے موجد وہانی مشہور ہو گئے۔ ان کی نسبت کہا جاتا ہے کہ نو مسلم تھے مگر وضع ان کی بھی یہی تھی کہ سوا شریفوں کے اپنا فن کبھی کسی ادنا طبقے کے آدمی کو نہیں بتایا۔ انہوں نے لکھنؤ میں اپنی یادگار ایک مسجد چھوڑی ہے جو دھنیا مہری کے پُل سے آگے عالم نگر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 185

کے قریب آج تک موجود ہے۔

رستم خانی عوام میں رہی۔ اور اسی وجہ سے اس کو کوئی خصوصیت ہندو یا مسلمان کے ساتھ نہیں رہی بلکہ اس کے صدہا استاد اودھ کے تمام گاوؤں اور قصبوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ تاہم لکھنؤ میں یحیی خاں بن محمد صدیق خاں نے جو کمال اور نام وری سرتم خانی میں حاصل کی، کسی کو نہ نصیب ہوسکی۔ نواب فتح یاب خاں عالی مرتبہ رئیسوں میں ہونے کے باوجود بڑے خوش نویس بھی تھے اور انہوں نے رستم خانی میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔ اسی طرح لکھنؤ کے ایک مشہور بانکے پہلوان میر لنگر باز بھی رستم خانی کے استاد تھے۔ اور اب تک تھوڑا بہت رواج باقی ہے تو ادنا لوگوں میں۔ علی مد کا فن شرفا کے ساتھ مخصوص تھا اور شرفا کو سپہ گری سے کوئی واسطہ نہیں رہا، لہذا وہ فن بھی مٹ گیا۔ رستم خانی ادنا لوگوں میں تھی، اور وہ لوگ آج بھی لڑتے بھڑتے رہتے ہیں، لہذا ان میں رستم خانی کا رواج آج تک موجود ہے۔

علی مد کے دو ایک استاد میں نے مٹیا برج میں دیکھے تھے۔ اور سب کے آخر میں میر فضل علی تھے جو محلہ محمود نگر میں رہتے تھے۔

(2) پٹا ہلانا

اس فن کی اصلی غرض یہ تھی کہ انسان دشمنوں کے نرغے میں پڑ جائے تو لکڑی کے ہاتھ چاروں طرف پھینکتا ہوا سب کو ہٹا کے، سب سے بچ کے اور سب کو مارتا ہوا نکل جائے۔ پٹے کو ٹیک کے اُڑنا اس فن کا کمال تھا اور سب سے بڑی تعریف اس بات کی تھی کہ انسان پر ایک ساتھ دس تیر بھی آ کے پڑیں تو ان کو کاٹ دے۔ یہ فن دہلی میں نہ تھا۔ لکھنؤ میں پورب سے آیا اور جُلاہوں میں زیادہ مروج تھا۔ اگرچہ آخر میں بہت سے شرفا نے بھی خصوصاً قصبات کے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 154
مجتہدینِ شیعہ کا آغاز بھی فرنگی محل ہی سے ہوا۔ لکھنؤ کے پہلے مجتہد مولوی دلدار علی صاحب نے بھی ابتداً کتبِ درسیہ فرنگی محل ہی میں پڑھی تھیں۔ پھر عراق میں جا کے علما ئے کربلا و نجف کے سامنے زانوے شاگردی تہ کیا۔ اور واپس آ کے خود فرنگی محل والوں کی تصدیق و تقریب سے مجتہد اور شیعہ فرماں روا یانِ وقت کے مقتدا قرار پائے۔ اُنہوں نے چوں کہ عراق میں تعلیم پائی تھی، لہٰذا عربی کا نیا ادبی ذوق اپنے ساتھ لائے۔ اور ادبیت میں خاندان ِ اجتہاد اور لکھنؤ کے شیعہ علما کو فرنگی محل والوں پر ہمیشہ فوقیت حاصل رہی اور آج تک حاصل ہے۔
علمائے شیعہ کے ادبی مذاق نے لکھنؤ کو ادب کی تعلیم کا اعلا ترین مرکز بنا دیا۔ جس نے مفتی میر عباس صا حب کا ایسا ادیبِ گراں پایہ پیدا کیا۔
علوم ِ دینیہ میں سے فقہ، اصولِ فقہ، کلام ، اور عقائد میں، علومِ ادبیہ میں سے نحوو صرف اور معانی و بیان میں، علوم ِ عقلیہ میں سے منطق، فلسفہ، طبیعات و الہیات میں، او ر علومِ ریاضی میں سے اقلیدس اور ہیئت میں علمائے فرنگی محل کو خاص نام وری حاصل تھی اور سارے ہندوستان میں ان علوم کی تعلیم کا مرکز ِ اصلی لکھنؤ تھا۔ ادب، شاعری اور عروضِ عربی کو علمائے شیعہ و مجتہدینِ لکھنؤ نے اپنا بنا لیا تھا۔
مناظرہ ، جس سے ہماری مراد یہاں خاص کلامی مباحث اور شیعہ و سنّی کا باہمی ردّو قدح ہے، اِس فن کا آغاز ہندوستان میں قاضی نوراللہ شوستری سے ہوا جو ایران سے اِس لیے آئے تھے کہ سنّیوں کی تردید کریں۔ جب ہی سے یہاں شیعہ و سنّی میں جھگڑے پیدا ہو گئے۔ اور آخر قاضی صاحب کے ایک مدّت بعد شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی نے شیعوں کی رد میں تحفۂ اثنا عشریہ لکھی ۔ مولوی دلدار علی صاحب نے اس کے بعض ابواب کی تردید میں کچھ لکھا۔ پھر مولانا حیدر علی پیدا ہوئے جو اصل میں رہنے والے تو فیض آباد کے تھے مگر ان کا نام لکھنؤ ہی سے چمکا۔ انہوں نے منتہی الکلام لکھی جو شیعوں کی تردید میں اعلا ترین کتا ب سمجھی جاتی تھی۔اسی زمانے میں مولوی لطف اللہ صاحب نے جو لکھنؤ میں
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 155

تحصیلِ علم کر کے یہیں کے ہو گئے تھے، اپنی کئی کتابیں لکھیں جن میں تحقیق و تردید کے علاوہ شوخی بیان بھی تھی۔ میاں مشیر نے اُن کی تردید بڑے زوروشور سے کی ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اُن کی کتاب، تردید کے درجے سے گزر کے ہزل گوئی و ہجو کی سرحد میں داخل ہو گئی۔ آخر میں مولوی حامد حسین صا حب نے سنّیوں کے مذہب کی تردید میں بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھ دیں، جن میں محدّثانہ شان سے سنّیوں کے مذہب کی تردید کی ہے۔ اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ مولوی عبدالشکور صاحب بھی اِس فن میں اہلِ سنّت کی طرف سے نمود حاصل کر رہے ہیں۔
ہمارے مذاق میں مذہبی ردّو قدح چاہے کسی فریق کے لوگوں کو خوش کردے مگر بالکل بے نتیجہ چیز ہے۔ اور اس کے نفع سے مضرّت بڑھی ہوئی ہے۔ لیکن اس موقع پر ہمیں صرف یہ دکھان ہے کہ اس فن میں بھی لکھنؤ نے جو عروج حاصل کیا ہے، اسِ سے پہلے کبھی کسی شہر کو نہیں نصیب ہو سکا تھا۔
علوم دینیہ میں سے لکھنؤ میں تفسیر، حدیث، رجال اور تاریخ کی کمی تھی۔ ان میں سے تفسیر کا فن ایک معمولی درجے تک لکھنؤ میں موجود تھا اور جتنا تھا اس سے زیادہ اور بھی کہیں نہ تھا۔ تا ہم بعض شہروں میں بعض نام ور مفسْر گزرے ہیں۔ مگر ان کا تجّرو کمال اُنہی کی ذات تک محدود رہا اور انہی پر ختم ہو گیا۔ حدیث کو دہلی ہی کے ساتھ خصوصیت رہی۔ آخر عہد میں مولانا محمد عبدالحی مرحوم مکہ معظمہ کے شیوخِ حدیث سے درس و روایتِ حدیث کی سند حاصل کر کے آئے اور سلسلۂ درس بھی جاری کر دیا، مگر اس فن کو یہاں اچھا نشوونما نہیں ہونے پایا۔ رجال کا فن حدیث کے تابع ہے، حدیث میں جس قدر توغلّ بڑھتا ہے، اُسی قدر فنِ رجال میں انسان کی بصیرت بڑھتی جاتی ہے، لہٰذا علمائے لکھنؤ جس قدر حدیث کے فن میں ناقص تھے، اسی قدر رجال کے فن میں بھی ناقص رہ گئے۔ باقی رہی تاریخ، اِس فن کو ہندوستان میں کبھی عروج نہیں حاصل تھا۔ اس میں شک نہیں کہ سوسائٹی کی ضرورت سے فارسی دانوں میں تاریخ کا بہت کچھ مذاق تھا مگر علمائے ہند نے اِس فن کو افسانہ خوانی سے زیادہ وقعت کبھی نہ دی
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 156
جس کی وجہ سے عموماً علما میں ایک بہت بڑا نقص رہ جاتا تھا۔ اور یہی چیز تھی جس نے ہندوستان کے بچّے بچّے کے ذہن میں یہ خیال پیدا کر دیا کہ " عالموں کو زمانہ شناسی سے کیا کام، وہ لوگ تو سیدھے سادے جنتّی ہوتے ہیں۔"
لیکن زمانے کی ضرورتیں دیکھ کے ، دونوں فریق کے علما نے اپنے نصابوں میں مناسب اضافہ شروع کر دیا ہے۔ اور دوسری طرف ندوتہ العلما کا دارالعلوم قائم ہے جو اُن ضروری علوم کی طرف خاص توجّہ کر رہا ہے، جو اِس وقت تک متروک تھے۔ لیکن ان نقصانات کے ساتھ بھی لکھنؤ میں جو کچھ ہوا، دیگر مقامات سے بہت زیادہ ہے۔
(14)
یہ ہم بتا چکے ہیں کہ شیعہ خاندانِ اجتہاد اور فرنگی محل کے علمائے اہلِ سنّت کی برکت سے اِس آخری دربار کے عہد میں علم و فضل نے لکھنؤ میں کیسا عروج حاصل کیا اور اپنی سواد میں کیسی علمی کشش اور مرجعیّت پیدا کر دی۔ لیکن ابھی ہمیں طبِ یونانی سے بحث کرنا باقی ہے۔
یہ شریف ترین فن ، جس کو عالمِ انسانی کے محفوظ رکھنے اور نسلِ انسانی کو ترقی دینے سے واسطہ ہے، گو کہ اس کا ظہور ہر قدیم ملک میں خودرو طریقے اور جزئی تجربات سے ہوا ہے۔ مگر قدیم الایّام میں مغرب کی طرف اہلِ یونان نے اس فن میں بہت ہی نمایاں ترقی کی تھی اور مشرق میں ہندوؤں کے نام ور انِ سلف نے اسے اعلا درجۂ کمال پر پہنچا دیا تھا۔ مسلمانوں میں جب دربارِ خلافت قائم ہوا تو یہ فن دونوں جگہ سے آیا اور دونوں سرزمینوں کے حازق اطبّا دربارِ بغداد کے طبیب تھے۔ ابتداً دو ایک صدیوں تک تمام مستند اطبّا ئے دربارِ عباسی ، ہندو تھے، عیسائی تھے ، یہودی تھے ، مگر مسلمان نہ تھے مگر اُس دور کے اطبّائے باکمال چاہے کسی مذہب کے پیروہوں، آغوشِ اسلام کے پروردہ اور عالم ِ اسلامی کے ممتاز نامور تھے اور انہی کے ہاتھوں سے فنِّ طب ایک
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 157
نئی شان اور نئے عنوان سے مدوّن و منضبط ہونا شروع ہوا۔ جس میں تھوڑی اصلاح اور ردّو بدل کے بعد، اصولی ترتیب تو یونانیوں کی برقرار رکھی گئی مگر تجربات ہر ملک اور ہر قوم کے یکساں طور پر لیے گئے۔
اس کے چند روز بعد مسلمان اطبّائے نام ور پیدا ہونا شروع ہوئے، اور انہوں نے فن طب کو اپنے اجتہادوں اور اپنے تجربات سے اپنا بنانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ ابن سینا نے قانون کی سی بے نظیر و لاجواب کتاب لکھ کے دنیا کے ہاتھ میں دے دی، اور اُس کے آگے مشرق ومغرب کی تمام قوموں نے سر جھکا دیا۔ اُدھر دربارِ اندلس نے عملِ بالید اور تجربات میں مشرق سے بھی زیادہ ترقی کی، اور فن طب مسلمانوں کا خاص فن بن گیا جس کی موجودہ ڈاکڑی کی عمارت قائم ہوئی جس کو زیادہ تعلق اُندلس کے اسلامی طبّی اسکول سے تھا۔
لیکن اِدھر آخری صدیوں میں جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا، تو اُس کا اثر سب سے پہلے اِن کے علوم و فنون میں اور سب سے زیادہ فنِ طب میں نمایاں ہوا اور اکثر ممالک میں اس کی وہی حالت ہو گئی جو عروجِ یونان کے آغاز میں تھی۔ یعنی معمولی قابلیت کے لوگ بغیر اس کے کہ فن کی اعلا ترین کتابوں پر اُن کی نظر پڑی ہو، اپنے جُزئی تجربوں سے لوگوں کا علاج کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند ہی روز میں مصر ، عرب، شام و عراق فن جاننے والے طبیبوں سے خالی ہو گئے۔ صرف ایران اور ہندوستان میں یہ فن باقی تھا۔ لیکن اِس پچھلی صدی میں ایران بھی طبیبوں سے خالی ہو گیا۔ اور تمام ممالکِ اسلام میں اپنے اس فنِ قدیم کے متعلق ایسی جہالت تھی کہ جب یورپ کے فرانسیسی اور انگریز ڈاکڑ نمودار ہوئے تو عوام و خواص سب کو ایک نعمتِ الہٰی نظر آئے اور کسی کو اس کی حِس نہ تھی کہ یہ اصلی فن ہمارا ہی تھا یا ہمارے یہاں بھی کبھی اطبّا ہوتے تھے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 158
مسلمانوں کی طب کو اگر فنا ہونے سے بچایا تو صرف ہندوستان نے، جہاں آج تک اطبائے یونانی ، یورپ کی جدید اصنافِ طب کا مقابلہ کام یابی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اور باوجودے کہ خیراتی ہسپتال گانو گانو موجود ہیں، مگر پھر بھی لوگوں کو جو اعتبار یونانی اطبّا کے علاج پر ہے، ڈاکٹروں پر نہیں۔
دہلی میں اگلے دنوں اس فن کے بہت سے باکمال گزرے جن میں حکیم ارزانی، حکیم شفائی خاں، حکیم علوی خاں، حکیم محمد شریف خاں، بہت اعلا شہرت و کمال کے اطبّا گزرے ہیں۔ لکھنؤ میں بُرہانُ الملک کے زمانے سے دہلی کے حاذق اطبّا سرزمینِ اودھ میں آنا شروع ہو گئے۔ خصوصاً شُجاع الدّولہ کے عہد میں تو دہلی کے دو ایک طبیبوں کے سوا، جتنے تھے، سب یہیں چلے آئے۔ فیض آباد کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ وہاں جتنی سرکاریں تھیں، اُن میں سے ہر ایک سے کوئی یونانی طبیب ضرور وابستہ تھا، جن کا بہت کچھ ادب اور پاس و لحاظ کیا جاتا اور ماہ وار تنخواہ کے علاوہ روزانہ انعام و اکرام سے سرفراز ہوتے رہتے۔
آصف الدؔولہ کے زمانے سے جب لکھنؤ کمالوں کی قدردانی کا مرکز قرار پایا، تو دہلی کے بہت سے خاندانی اطبّا نے یہیں توطّن اختیار کر لیا اور چند روز کے بعد زبان اور شاعری کی طرح فنِّ طب بھی خاص یہیں کا فن بن گیا۔ چنانچہ لکھنؤ نے حکیم مسیح الدولہ، حکیم شفاءالدولہ، حکیم مرزا محمد علی، حکیم سید محمد مرتعش، حکیم مرزا کوچک، حکیم بنّا، حکیم مرزا محمد جعفر کے ایسے عالی پایہ و گراں قدر طبیب پیدا کیے۔ جو سچ یہ ہے کہ اپنے فنون کے مجتہد تھے اور سلف کے سارے سرمایۂ علمی پر ان کی نظریں تھیں۔ہوتے ہوتے فنِّ طب کو یہاں تک ترقی ہوئی کہ لکھنؤ کا شاذونادر ہی کوئی محلہ ہو گا جس میں کوئی نام ور خاندانِ اطبّا نہ موجود ہو۔ خاص شہر کے صدر ہا محلّوں کے علاوہ گردونواح کے گاؤں اور قصبوں میں بھی ہزاروں مطب جاری تھے۔ اور ہندوستان کے جن درباروں اور شہروں میں مشہور و نام ور
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 159
طبیب تھے، سب لکھنؤ اور اطرافِ لکھنؤ کے تھے۔ چنانچہ قصبۂ موہان کے ایک طبیب کو دربارِ گیکواڑ بڑودا میں وہ عز ّت حاصل ہوئی جو بہت کم اطبّا کو حاصل ہو سکی ہو گی۔ غرض ایسے نامور طبیب خاکِ لکھنؤ نے پیدا کیے جن کی مسیحا نفسی کے کارنامے آج تک بچے بچے کی زبان پر ہیں۔
دربارِ اودھ کے آخر عہد میں سیّد محمد مرتعش کے ایک شاگرد رشید حکیم محمد یعقوب نے اپنا مطب جاری کر کے ایسی مرجعیّتِ عامہ حاصل کی کہ اُن کی ذات سے ایک بہت بڑے نامور طبّی خاندان کی بنیاد پڑ گئی، جو آج بلامبالغہ دنیا بھر میں جواب نہیں رکھتا۔ اِسی خاندان کے مرحوم نام وروں میں حکیم محمد ابراہیم، حکیم حافظ محمد عبدالعلی، حکیم محمد اسماعیل، حکیم محمد مسیح، حکیم محمد عبدالعزیز، حکیم حافظ محمد عبدالولی تھے۔ اور حکیم عبدالحفیظ صاحب، حکیم عبدالرشید صاحب، اور حکیم عبدالمعید صاحب اِس وقت اپنی مسیحائی کے کمالات دکھا رہے ہیں۔ کاش یہ اپنے خاندانی فن کو چھوڑ کے دوسری ہوسوں میں نہ پڑتے۔
دہلی میں حکیم محمد شریف خاں کا خاندان اس وقت تک موجود ہے جس میں حکیم محمود خاں اور حکیم عبدالمجید خاں کے ایسے باکمل گزر چکے اور حاذق الملک حکیم محمد اجمل خاں صاحب بزرگوں کے نام کو اپنے ذاتی کمالات سے آج تک ظاہر کر رہے ہیں۔ دہلی میں حکیم محمد اجمل خاں صاحب نے ایک مدرسۂ طبیّہ بھی جاری کر دیا ہے۔ اور طبّی ویدک کانفرنس قائم کر کے اپنے فن کو بہت عروج دے رہے ہیں۔ اِن کے مقابل لکھنؤ میں حکیم عبدالعزیز صاحب نے مدرسۂ تکمیل الطّب قائم کیا جس سے ہر سال بیسیوں اطبّا تیار ہو کے اقطارِ ارض میں پھیلتے اور لکھنؤ کی طبّی مرجعیّت کا ثبوت دیتے ہیں۔
بہ ہر تقدیر، مسلمانوں کا برائے نام یونانی فنِ طب آج اگر دنیا بھر میں کہیں زندہ ہے تو ہندوستان میں، اور ہندوستان میں اس کے مرکز دو ہی شہر ہیں: دہلی اور لکھنؤ۔ مگر
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 160
دہلی میں صرف ایک حکیم محمود خاں کا خاندان ہے اور لکھنؤ میں ایسے بیسیوں خاندان پڑے ہیں۔ دہلی میں بعض اور اطبّا بھی مطب کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اِسی زمانے کے جدید طبیب ہیں جنہوں نے اپنے مطب جما لیے ہیں۔ لکھنؤ میں گو کہ بہت سے نئے طبیب ہیں، لیکن ایسے بہت سے خاندان بھی ہیں جن میں صدیوں سے فنِّ طب کو ترقی رہی۔
لکھنؤ اور دہلی کے اطبّا میں ایک اور فرق بھی ہے: طب کا موجودہ نصابِ تعلیم، ہمیں نہیں معلوم اطبّائے دہلی کا مرتّب کیا ہوا ہے یا اطبّائے لکھنؤ کا، لیکن اِس پر پورا پورا عمل جیسا اطبائے لکھنؤ نے کیا، اطبائے دہلی نہیں کرتے۔ پڑھائی وہاں بھی یہی کتابیں جاتی ہیں، مگر دہلی میں طبیبوں کا مطب ایک بڑی حد تک ان کی مدوّ نہ طب سے الگ ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ویدک کی دواؤں کے اختیار کر لینے میں اِسی قدر نہیں کیا کہ ان نئے اجزا کو اپنے مطب میں داخل کر لیا بلکہ یہ بے احتیاطی بھی کی کہ اُن کے داخل کرنے میں اپنے قدیم مدوّنہ و مسلمہ اصول خصوصاً مزاج کے مباحث سے چشم پوشی کر لی۔
اور ان اجزاء کو استعمال کرا دیتے ہیں جن کے مزاج اور افعال و خواص سے وہ پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ وہاں فی الحال سب سے بڑی شکایت یہ سنی جاتی ہے کہ مدرسہ طبّیہ دہلی کے نصاب میں نشریح کے علاوہ ڈاکڑی کے دیگر اصول بھی اس کثرت اور بے احتیاطی سے اختیار کر لیے گئے ہیں کہ اصلی فنِّ طب بجائے ترقی کرنے میں کی تھی اور یہی اب اصولِ ڈاکڑی کے لینے میں ہو رہی ہے۔ ایسی حالت میں دہلی میں ہمارے قدیم فنِّ طب کا جو انجام ہوتا نظر آتا ہے، نہایت خطرناک ہے۔
برخلاف اِس کے، لکھنؤ کے تمام طبّی خاندانوں، خصوصاً حکیم یعقوب مرحوم کے خاندان اور تکمیل الطّب میں اصلی اصولِ طبّی کے قائم رکھنے اور اُن کو اُنہی کے دائرے میں رکھ کے ترقی دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اُن کے مطب اِس وقت تک اپنے فن اور اپنی کتابوں سے ذرا بھی جُدا نہیں ہیں اور ایسی سلامت روی کے راستے پر جا رہے
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 211

وہ بننگ سے بڑا زبردست اور طاقت ور ہوتا ہے۔ لکھنؤ میں گھاگس اور چننگ دونوں ہوتے ہیں۔ چننگ، گھاگس سے قد میں چھوٹا اور نازک ہوتا ہے، مگر لڑنے میں زیادہ مضبوط اور بہت جیالا ہوا کرتا ہے اور اس کی لڑائی زیادہ شاندار اور خوبصورت ہوتی ہے۔ بہرحال، اس بات کا پتا لکھنؤ ہی میں لگا کہ لڑانے کے لیے چننگ بٹیر زیادہ موزوں ہے۔

بٹیر کی لڑائی کے لیے نہ کسی بڑی میدان کی ضرورت تھی نہ گھر سے باہر نکل کے صحن تک بھی آنے کی۔ بلکہ کمرے کے اندر ہی صاف ستھرے فرش پر تہذیب کے ساتھ بیٹھ کے اس کی لڑائی کی سیر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے لکھنؤ کی سوسائٹی نے اسی کو بہت پسند کیا۔ نہایت نفیس خوب صورت اور سبک کابکیں، بٹیروں کے لیے ایجاد کی گئیں جو ہاتھ دانت کی ننھی ننھی گُمزیوں سے آراستہ کی جاتیں اور اُن میں بٹیر رکھے جاتے۔

اس کا کھیل یوں ہے کہ پہلے موٹھ یعنی پانی میں بھگو بھگو کے گھنٹوں ہاتھوں میں دبائے رہنے سے اُس کی وحشت دُور ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بولنے اور چونچیں مارنے لگتا ہے۔ اس کے بعد بھوک دے کے اور دست آور اجزا جن میں مصری بہت محصوص ہے، دے دے کے اُس کا جسم درست کیا جاتا ہے۔ پھر رات گئے یا آدھی رات کو اُن کے کان می۹ں چلا کے "کو" کہا جاتا ہے، جسے کوکنا کہتے ہیں۔ غرض اس تدبیروں سے چربی چھنٹ جاتی ہے، بھدا پن دور ہو جاتا ہے اور جسم نہایت ہی پُھرتیلا اور قوی ہو جاتا ہے۔ یہی بٹیر کی تیاری ہے۔ اور ان باتوں میں جس قدر زیادہ پورا ہے، اسی قدر سمجھے کہ لڑائی کے لیے زیادہ موزوں ہے۔

لڑائی کے وقت فرش پر چاروں طرف ہلکا ہلکا دانہ چھٹکا دیا جاتا ہے اور بٹیر کابک سے نکالے جاتے ہیں۔ پہلے دونوں بٹیروں کی چونچیں چاقو سے بنا کے خوب

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 212

تیز کر دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ایک دوسرے کے مقابل چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ بٹیر کی لڑائی مرغ سے ملتی ہوئی ہے۔ چونچ سے کاٹتا اور پنجوں سے لات مارتا ہے۔ چونچ سے حریف کے مُنہ کو زخمی اور اُتو کر دیاتا ہے اور پنجوں سے بعض وقت حریف کا پوٹا تک پھاڑ ڈالتا ہے۔ لڑائی پندرہ بیس منٹ یا کبھی اس سے زیادہ دیر تک رہتی ہے۔ اور آخر مغلوب حریف بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اور بھاگنے کے بعد پھر وہ کسی بٹیر کے سامنے لڑائی میں نہیں ٹھہرتا۔

بٹیر کی ترقی کے تین درجے ہیں اور اس کی نام وری کے تین دور سمجھے جاتے ہیں : اول نیا، جو پکڑ کے اور پہلے پہل مانوس کر کے لڑایا جاتا ہے۔ اگر وہ بہت سی لڑائیوں میں جیتا اور نہ بھاگا، تو لڑائی کی فصل ختم ہوتے ہی معمولی پنجروں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب وہ پرانے پر جھاڑ کے نئے نکال لاتا ہے۔ اسے "کریز بٹھانا" کہتے ہیں۔ یہ زمانہ ختم ہوتے ہی دوسرے سال اس کی ترقی کا دوسرا درجہ اور دور ہوتا ہے اور اسے "نوکار" کہتے ہیں۔ پھر اس کے بعد دوبارہ کریز بیٹھ کے جب تیسرے سال وہ لڑائی کے لیے تیار کیا جاتا ہے، تو کریز کہلاتا ہے اور یہ اس کی ترقی کا تیسرا دور، اعلا درجہ ہے۔

عموماً تسلیم کر لیا گیا ہے کہ لڑائی میں نوکار، نئے سے اورکریز، نوکار سے زبردست ہوتا ہے۔ نیا بٹیر، کریز سے دو چونچیں بھی مشکل سے لڑ سکتا ہے۔ اعلا درجے کے بٹیر باز اور شوقین رئیس صرف کریزوں کو لڑاتے ہیں۔ اور نئے بٹیروں کا لڑانا بالکل معمولی کھیل ہے۔ لڑائی میں طرح طرح کے فریب و فن بھی کیے جاتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے بٹیر کے منہ پر کبھیکوئی ایسی کڑوی اور زہریلی چیز یا عطر لگا دیتے ہیں کہ دوسرا بٹیر دو ایک چونچیں مارتے ہی پیچے ہٹنے اور لڑائی سے مُنہ موڑنے لگتا ہے۔ اور اگر اس پر بھی لڑتا رہا تو لڑائی کے بعد مر جاتا ہے۔ بعض لوگ کیف کا کھیل کھیلتے ہیں، یعنی لڑائی سے ایک

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 213

ساعت پہلے اپنے بٹیر کو کائی ایسی تیز نشے والی چیز کھلا دیتے ہیں کہ وہ لڑائی میں بے حس ہو کے بھاگنا بھول جاتا ہے۔ اور جب تک حریف کو یالی سے نہ بھگا دے، مجنونوں کی طرح لڑتا رہتا ہے۔

لکھنؤ میں بٹیر بازی کے شوق نے ایسے باکمال بٹیر باز پیدا کر دیئے جن کا کہیں نظیر نہیں مل سکتا۔ بعض لوگوں نے یہ کمال پیدا کیا تھا کہ کسی کے اچھے نامی بٹیر کو ایک نظر دیکھا، اور کسی معمولی بٹیر کی ویسی ہی صورت بنا دی اور کسی موقع پر باتوں باتوں میں بدل لیا۔ خیر، یہ تو ایک بے ہودہ چوری تھی، مگر بعض استادوں نے یہ کمال حاصل کیا کہ بھگے بٹیروں کو تیار کر کے، اچھے اچھے کریزوں سے لڑا دیتے اور بازی لے جاتے۔ کیف کے کھیل والے استادوں میں ایک صاحب کیف کی نہایت اعلا درجے کی گولیاں تیار کرتے، جو سو روپے کی دس گولیاں بکتیں اور لوگ شوق سے لے جاتے۔

ان لوگوں کی سب سے بڑی استادی، بٹیروں کے علاج میں نظر آتی ہے۔ اور ایسے ایسے بیمار اور ازکار رفتہ بٹیروں کو درست کر لیتے ہیں اور اس خوبی سے ان کے مرض کی تشخیص کرتے اور مناسب اجزا استعمال کراتے ہیں، کہ اطبا اور ڈاکٹر حیرت میں رہ جائیں۔ اس کی بہت کوشش کی گئی کہ بٹیروں کو پال کے، انڈے سےبچے دلوائے جائیں، مگر اس میں کامیابی نہ ہوئی۔

بٹیروں کے نام بھی بڑے بڑے شاندار رکھے گئے، جیسے رستم، سہراب، شہرۂ آفاق، پالیوں میں بڑی سے بڑی بازیاں بدی جاتی ہیں، اور ایک ہزار روپے تک کی بازی میں نے خود دیکھی ہے۔ اس کا شوق بھی بعض بادشاہوں کو رہا۔ نصیر الدین حیدر اپنے سامنے میز پر بٹیروں کی لڑائی دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔

پرانے بٹیر بازوں میں میر بحو، میر عمدو، خواجہ حسن، میر فدا علی، چھنگا، میر عابد، اور سید میرن کے نام یادگار ہیں۔آج سے چالیس سال پہلے مٹیا برج میں میں نے داروغہ غلام عباس، چھوٹے خاں اور غلام محمد خاں خالص پوری کو جو بڑے معمر اور سن رسیدہ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 214

لوگ تھے، اس فن میں نہایت باکمال پایا تھا۔ غالب علی بیگ، مرزا اسد علی بیگ، نواب مرزا، میا(ں) جان، شیخ مومن علی اور غازی الدین خاں نے بھی آخر عہد میں بہت ناموری حاصل کی تھی۔

بٹیروں کا شکار بھی لکھنؤ والوں کے لیے بڑی دلچسپی کی چیز ہے۔ پہلے اس میں صرف شوقینی تھی، جس کی بدولت بہت سے مہین آدمی، جنہوں نے کبھی شہر سے باہر کی سواد نہیں دیکھی تھی، کھیتوں اور جنگلوں کی ہوا کھا آتے تھے، مگر اب اسی پر بہتوں کی روٹیاں چلتی ہیں۔

کہتے ہیں کہ بٹیر پہاڑوں سے رات کو نکلتے اور اوپر کی فضا میں اڑتے ہوئے جاتے ہیں۔ شکار کے شوقین، بڑی آواز سے بولنے والے بٹیروں کو تیار کرتے ہیں، جو برابر رات بھر بولتے رہتے ہیں۔ ایسے بٹیروں کے پھندیت کہتے ہیں۔ کسی ارہر کے کھیت کے اطراف میں اکثر جال پھیلا دیا جاتا ہے۔ پھندیتوں کے آواز سن کے بٹیر اوپر سے اترنا اور گرنا شروع ہوتے ہیں اور رت بھر میں بہت سے جمع ہو جاتے ہیں۔ صبح ہوتے ہی وہ سب طرف سے ہنکا کے جال کی طرف بھگائے جاتے ہیں، جس میں پھنستے ہی پکڑ پکڑ کے پھٹکیوں میں بند کر لیے جاتے ہیں۔

3 : تیتروں کی لڑائی

یہ بھی دل چسپ ہے۔ بیتر، اور طیور کی بہ نسبت اُچک اُچک کے لڑتا ہے۔ مگر اس کا شوق سوا دیہاتی لوگوں اور ادنا درجے والوں کے، امرا و شرفا کو کبھی نہیں رہا۔ تیتر، لوٹ سے اور دوڑا دوڑا کے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان میں جوش اور غصہ پیدا کرنے کے لیے اُن کو دیمک کھلائی جاتی ہے۔ مگر یہ کوئی بڑا کھیل نہیں ہے اور نہ مہذب سوسائٹی میں اختیار کیا گیا۔ ہاں لکھنؤ کے ادنا طبقے والوں میں کثرت سے رہا اور ہے۔

4 : لووں کی لڑائی

لوا، چھوٹے قسم کا تیتر ہے جو بٹیر سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ وہ بجائے دانے کے، سدیا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 215

یعنی مادہ پر لڑا کرتا ہے۔ اسے لڑانا ہوتا ہے تو مادہ کا پنجرا لا کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کا شوق ریاست ریواں وغیرہ میں لوگوں کو زیادہ تھا۔ لکھنؤ میں بھی پسند کیا گیا اور ایک حد تک اختیار کیا گیا۔ لوے کی لڑائی، سچ یہ ہے کہ بٹیر سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہے۔ وہ کُندے کھول کے لڑتا اور گُتھ جاتا ہے اور پھول کی طرح کھل کھل کے اٹھتا اور گرتا ہے۔ لکھنؤ کے بعض اُمرا کو اس کا شوق ہو گیا تھا۔ مٹیا برج میں واجد علی شاہ مرحوم کی سرکار میں ایک بڑے استاد، لوے لڑانے والے تھے، جنہوں نے بہت اچھی اچھی جوڑیں تیار کی تھیں۔ اور جب انہیں سامنے لا کے لڑاتے تو بڑا لطف آتا۔ لووی کی تیاری بھی زیادہ تر لوٹ اور بھوک سے ہوتی ہے اور اس کی لڑائی کا رواج بٹیر کے پیشتر سے تھا۔ مگر آخر میں بٹیر بازی کا اس قدر رواج ہوا کہ لوے کا شوق پھیکا پڑ گیا۔ اس کا شکار بھی عجب طریقے سے ہوتا ہے۔ یہ بھی بٹیر کی طرح اوپر کی فضا میں اُڑتا ہوا جاتا ہے۔ لوگ بٹیر کے پھندیتوں کی سی چھر پر ایک گھڑا باندھ دیتے ہیں، اس کے منہ گھڑ پر جھلی منڈھ کے ایک سینک میں ڈورا باند کے اس سینک کو جھلی میں چبھو کے، اندر اٹکا دیتے ہیں اور اس ڈورے کو ہاتھ سے سوتنا شروع کرتے ہیں۔ جھلی سے ایک بے ہنگم بھوں بھوں کی آواز نکلنا شروع ہوتی ہے، جو لووں کو اس قدر پسند ہے کہ اُڑتے اُڑتے نیچے اُتر پڑتے ہیں اور صبح کو جال میں پھنس کے بٹیروں کی طرح پکڑ لیے جاتے ہیں۔

5 : گل دُم

گُل دُم کو عوام بلبل کہتے ہیں، مگر یہ غلطی ہے۔ بلبل، بدخشاں و عجم کی ایک نغمہ سنج چڑیا ہے۔ اور اس چڑیا کی دُم کے نیچے ایک سُرخ گل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا نام گُل دُم رکھا گیا ہے۔ اس کی لڑائی بھی دیہاتیوں اور بازار لوگوں میں زیادہ ہے، شایستہ سوسائٹی نے اُسے کبھی دل چسپی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ مگر اس کی لڑائی لطف سے خالی نہیں ہوتی۔ درنے پر لڑتے ہیں اور لڑائی میں دونوں حریف گرتے ہوئے اوپر اُڑتے اور گُتھ کے گرتے ہیں۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 216

6 : لال لڑانا

لال صرف پنجروں میں رکھ کے پالنے کے لیے ہیں، لڑائی کے لیے موزوں نہیں، مگر نفس پرست انسان نے انہیں بھی لڑا کے، دو گھڑی دل بہلا لیا۔ لالوں کا پہلے تو اس حد تک مانوس بنانا مشکل ہوتا ہے کہ پنجرے کے باہر نکال کے چھوڑے جائیں اور اُڑ نہ جائیں۔ دوسرے انہیں اس قدر مست بھی ہونا چاہیے کہ دوسرے لال سے لڑنے کو تیار ہو جائیں۔ چنانچہ ان کا لڑ جانا ہی دشوار ہوتا ہے۔ مگر جب لڑ گئے تو خوب گُتھ گُتھ کے اور اُڑ اُڑ کے لڑتے ہیں اور بڑی دیر تک لڑتے رہتے ہیں۔ لالوں کی لڑائی دوسرے چھوٹے طیور کی لڑائی کی نسبت دیر تک رہتی ہے۔ لالوں کی لڑائی کا شوق اہل لکھنؤ میں بہت کم رہا، صرف دو ہی ایک استاد پیدا ہوئے جنہوں نے لڑایا، ورنہ عام رجحان اس کے خلاف تھا اور اس کے شوقین بھی عوام اور بازاری ہی تھے۔

7 : کبوتر بازی

کبوتر اُن مانوس جانوروں میں ہیں جن کا شوق لوگوں کو قدیم زمانے سے لے کے آج تک ہر ملک اور ہر سرزمین میں کسی نہ کسی حد تک ضرور تہا۔ کبوتروں کے بہت سی قسمیں ہیں، جن میں اُڑنے والے گرہ باز اور گولے ہوتے ہیں اور جو محض خوب صورتی اور خوش رنگی کے لحاظ سے پالے جاتے ہیں، ان میں شیرازی، گُلی، نساوری، گلوے، لقے، لوٹن اور چویا چندن وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ یاہو کبوتر رات دن گونجنے اور "یاہو" کا دم بھرنے کی وجہ سے عبادت گزاروں کو زیادہ پسند تھے۔ اور اکثر فقرا و مشائخ کو ان کا شوق تھا۔

سنتے ہیں کہ گرہ باز پہلے پہلے کابل سے لائے گئے۔ پہلے عموماً وہی اڑائے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 217

جاتے تھے۔ گولے بعد کو آئے جن کی نسل عرب و عجم اور ترکستان سے آئی۔ گرہ باز کی یہ شان ہے کہ صبح کو اڑے تو گھنٹوں مکان کی عین محاذی آسمان پر چکر لگاتے رہے، اس طرح کہ صحن کے اندر لگن میں پانی بھر کے رکھ دیجیے تو اس میں ہمیشہ نظر آتے رہیں گے۔ بعض دن دن بھر اڑتے رہتے ہیں اور شام کو اترتے ہیں۔ اپنے مکان کے پہچاننے اور وطن پرستی کے دلدادہ ہونے میں گرہ باز اتنا کمال رکھتے ہیں کہ خود میرے یہاں کا ایک کبوتر کسی کے وہاں پھنس گیا تھا، جس نے پر کاٹ دیے، تین سال کے بعد جب اسے موقع ملا اور پر نکل آئے تو واپس آیا اور اپنے خانے میں گُھس کے اس کبوتر سے لڑنے لگا جو اب اُس میں مقیم تھا۔

لیکن گرہ باز کی دس بارہ سے زیادہ کی ٹکڑی نہیں اُڑتی۔ لوگوں کو سو 100 سو 100 دو 2 دو 2 سو کبوتروں کی ٹکڑیاں اُڑانے کا شوق ہوا تو گولے اختیار کیے گئے۔ کبوتر بازی کا فن دہلی ہیں میں اس قدر ترقی کر گیا تھا کہ کہتے ہیں آخری وارثِ دولت مغلیہ بہادر شاہ کی سواری نکلتی تو دو سو کبوتروں کی ٹکڑی اوپر ہوا میں سواری کے ساتھ اڑتی ہوئی جاتی اور جہاں پناہ پر سایہ کیے رہتی۔

کبوتر کو اپنے گھر سے بہت زیادہ اُنس ہوتا ہے۔ کابک کو ٹھیل پر رکھ کے لے جانے اور جہاں کہا جائے، روک کے اُڑانے اور پھر کابک پر بلا لینے کمال بھی دہلی ہی میں پہلے نظر آ چکا تھا۔

لکھنؤ میں کبوتر بازی اس خاندان فرماں روائی کے ابتدائی دور ہی سے شروع ہو گئی تھی۔ چنانچہ نواب شجاع الدولہ کو کبوتروں کا بڑا شوق تھا۔ سید یار علی نام ایک شخص نے جو بریلی کا رہنے والا تھا، اپنے آپ کو ایک کامل کبوتر باز کی حیثیت سے دربار میں پیش کیا اور اُن کی بڑی قدر کی گئی۔ نواب آصف الدولہ اور نواب سعادت علی خاں کو بھی شوق تھا اور غازی الدین حیدر اور نصیر الدین حیدر کے زمانے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 218

میں تو کبوتر بازی یہاں بہت اعلا درجے پر پہنچ گئی تھی۔ میر عباس نام یہاں کے ایک کامل فن کبوتر باز نے یہ کمال دکھایا کہ جو کوئی پانچ روپے نذر کر کے ان کی دعوت کرنا چاہے، وہ کہیں رہتا ہو، کابک لے کے پہنچ جاے اور اسی کے گھرسے کبوتر اڑا دیتے اور سیٹی پر بلا لیتے۔ مجال کی اکہ کوئی کبوتر کسی اور جگہ گر جائے۔ شوق اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ بعض امیروں کے ہاں صرف نو سو کبوتریاں ایک ساتھ اڑتیں۔ اور بعض رئیس اتنے ہی یا اس سے زیادہ تعداد میں نر کبوتر اڑاتے۔

خوست (علاقۂ سرحدی افغانستان) سے پٹیت نام ایک خاص رنگ کے کبوتر آئے تھے جو نہایت قیمتی تھے۔ اکثر رئیس ہزاروں روپیہ صرف کر کے انہی کو اڑاتے۔

ایک جدت پسند بزرگ نے لکھنؤ میں یہ کمال کیا کہ کبوتر کے دو پٹھوں کو لے کے، ایک کا داہنا اور ایک کا بایاں بازو کاٹ دیا اور کٹے ہوئے بازوؤں کی جگہ ان دونوں میں ٹانکے لگا کے، ایک دوہریا کبوتر بنا لیا۔ اور ایسی داشت سے پالا کہ وہ بڑے ہوئے اور اُڑنے لگے۔ ایسے بہت سے دوہریا کبوتر تیار کیے۔ اکثر معمول تھا کہ جب نصیر الدین حیدر، چھتر منزل سے بجرے پر سوار ہو کے پار جاتے اور کوٹھی دلا رام میں بیٹھ کے دریا کی سیردیکھتے، وہ اُس پار سے اپنے اُن عجیبُ الخلقت دوہریا کبوتروں کو اڑا دیتے، جو پار جا کے بادشاہ کے قریب بیٹھ جاتے۔ بادشاہ انہین دیکھ کے بہت محظوظ ہوتے اور انعام دیتے۔

میر امان علی نام ایک بزرگ نے یہ کمال پیدا کیا کہ کبوتر کو رنگ کے جیسا چاہتے بنا دیتے۔ اکثر جگہ پر اکھاڑ کے دوسرے رنگ کا پر اسی کے سوراخ میں رکھ کے اس طرح جما دیتے کہ وہ اصلی پروں کی طرح جم جاتا۔ اور بہت سے مقامات پر رنگ سے کام لیتے مگر ایسا مضبوط اور پختہ رنگ کہ مجال کیا جو ذرا پھیکا بھی پڑ جائے۔ برس بھر تک رنگ قائم رہتا۔ مگر کب کُریز میں پر گر جاے تو پھر اصلی رنگ نکل آتا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 219

ان کے ان کبوتروں میں سے ہر ایک پندرہ بیس روپے کو بکتا اور اُمرا بڑے شوق سے لیتے۔ وہ بھانتہیا بھی بنا لیا کرتے، جو لاکھوں میں ایک نکلتا ہے اور رنگ کے حدود اور گُلوں کے اعتبار سے بے مثل ہوتا ہے۔

ایک بڑے کبوتر باز، نواب پالئے تھے، جو گرہ باز کبوتروں کو گولوں کی طرح اُڑاتے۔ کمال یہ تھا کہ جس جگہ اور جس مکان پر چاہتے، چھیپی کے اشارے سے بازی کرا دیتے۔ یعنی کبوتر ہوا میں قلا بازیاں کھانے لگتے۔

واجد علی شاہ نے مٹیا برج میں بہت سے نئے کبوتر جمع کیے تھے۔ کہتے کہ ریشم پرے کبوتروں کا جوڑا پچیس ہزار کو لیا تھا اور ایک قسم کے سبز کبوتروں کی نسل بڑھائی تھی۔ جب انتقال ہوا ہے تو چوبیس ہزار سے زیادہ کبوتر تھے جن پر سیکڑوں کبوتر باز نوکر تھے۔ اور ان کے داروغہ غلام عباس، کبوتر بازی کے فن میں جواب نہ رکھتے تھے۔

شوقینی اور فن دانی نے پالنے کے رنگین کبوتروں میں بھی بے مثل ترقی کی تھی۔ یہ صرف مشہور نہیں ہے، بلکہ ایسا شیرازی جو گز بھر کے پنجرے کی وسعت کو بھر لے اور ایسا گُلی جو ایک بارہ برس کی لڑکی چوڑی میں سے نکل جائے، میں نے خود اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں۔ (یہ ذکر ابھی ختم نہیں ہوا، باقی آیندہ نمبر میں عرض کروں گا۔)

(20)

طیور کو لڑآ لڑا کے دلچسپی پیدا کرنا اور تفنن کے کمالات دکھانا، لکھنؤ کے بے فکروں کا نہایت ہی عام مشغلہ ہو گیا تھا۔ کبوتروں اور بٹیروں کے تیار کرنے اور لڑانے میں انہوں نے اس قدر ترقی کی کہ اب ہندوستان کے جس شہر میں اور جہاں کہیں کسی رئیس کو ان چیزوں کا شوق ہے (اور یہ کم بخت شوق، ناعاقبت اندیش دولت مندوں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 220

میں اکثر ہوا کرتا ہے) وہاں استاد لکھنؤ ہی سے بلائے جاتے ہیں اور اس مد کا سارا کارخانہ انہی کے زیر اہتمام ہوتا ہے۔

توتے

طیور لڑانے کے حد سے گزرے ہوئے شوق نے اس میں جدتیں پیدا کرنا شروع کیں اور بعض شوقینوں کا خیال اس جانب مبذول ہوا کہ جو کام کبوتروں سے لیا جاتا ہے، اور کن کن طیور سے لیا جا سکتا ہے؟ چنانچہ میر محمد علی نام ایک بزرگ نے توتوں سے کبوتروں کا کام لینے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔

توتا فطرۃً نہایت ہی بے وفا جانور ہے۔ زندگی بھر رکھیے اور پالیے، لیکن پنجرے سے اڑا تو پھر اُدھر کا رخ نہیں کرتا۔ توتا چشمی، نام ہی بے وفائی کا ہو گیا ہے۔ وہ بولتا ہے، باتیں کرتا ہے، جانوروں کی بولیاں اڑا لیتا ہے، جو فقرے یاد کرا دیجیے، ان کی رٹ لگاتا ہے، مگر اڑانے کے کام کا نہیں۔ اس لیے کہ پنجرے سے چھوٹتے ہی پھر وہ کسی کے بس کا نہیں ہوتا۔ مگر میر صاحب موصوف نے خدا جانے کس تدبیر سے ان کی فطرت بدل دی تھی کہ بارہ توتوں کی ٹکڑی اُڑاتے اور مجال کیا کہ وہ سیٹی بجا کے "آ" کریں اور وہ آسمان سے اتر کے سیدھے پنجرے میں نہ چلے آئیں۔ وہ ان توتوں کو روز حسین آباد لا کے اڑاتے۔

طیور کی ان تیاریوں کا حال بیان کر کے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اہل لکھنؤ نے جتنی محنت طیور کی تیاری میں کی ہے، کاش خود اپنی اور اپنے جسم کی تیاری میں کرتے تو یہ انجام ہرگز نہ ہوتا جا ہوا۔

پتنگ بازی

کنکوے اُڑانے کا شوق کسی نہ کسی حد تک سارے ہندوستان میں ہے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 221

اور آجکل عموماً لڑکوں اور نوجوانوں کا نہایت ہی دلچسپ کھیل ہے۔ اس کی مثرت اور تعمیم دیکھ کے یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ ہندوستان کی بہت پُرانی چیز ہو گی، مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ فن ایک صدی پیش تر کا بھی مشکل سے کہا جا سکتا ہے اور اس کا مرکز ترقی لکھنؤ ہی ہے۔

یورپ میں لڑکے ایک قسم کے کپڑے کے کنکوے اڑایا کرتے ہیں، جن کو جب تک ڈور پکڑ کے بھاگتے رہو، اڑتے ہیں۔ اور ادھر قدم رُکا اور اُدھر وہ زمین پر آ رہے۔ ان کی نسبت یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کب سے ہیں، اور کہاں سے لیے گئے؟

سنا جاتا ہے کہ دہلی میں شاہ عالم بادشاہ اول کے عہد میں یہ شوق شروع ہوا۔ ابتداءً بعض خاص خاص لوگ چنگ اڑایا کرتے تھے۔ چنگ بڑے اہتمام سے بنایا جاتا تھا۔ اس میں دو تکلیں تھوڑے فصل سے آگے پیچھے برابر کھڑی کر کے جوڑ دی جاتیں۔ تکلوں کی شکل : ۔۔۔۔۔ یہ ہوتی تھی، جس میں تین اطراف مدور کونے نکلتے۔ اس میں کھپاچ چھیل کے بیچ میں کھڑی لگائی جاتی جو ٹھڈا کہلاتی اور وہ کھپاچیں خوب چھیل کے اور نرم کر کے اوپر نیچے لگائی جاتیں جو کانپیں کہلاتیں۔ اوپر کی کانپ کی وضع یوں : ۔۔۔۔۔ رہتی۔ اور نیچے کی کانپ کی یوں : ۔۔۔۔۔ ان کے درمیان میں ہلکا باریک کاغذ منڈھ دیا جاتا۔ یہ ایک تکل ہوئی۔ ایسی دو تکلوں کو آگے پیچھے رکھ کے اور درمیان میں جا بہ جا آڑی کھپچیاں لگا کے جوڑ دیا جاتا۔ اور چاروں طرف سے بھی کاغذ منڈھ کے، ایک خاص وضع کی تکنی قندیل بنا دی جاتی، جس کے اندر ایک کپڑے کا بنا ہوا تیل میں ڈوبا گیند، تار میں باندھ کےلٹکا دیا جاتا۔ اور اُسے روشن کر کے رات کو لوگ مضبوط سوتی یا ریشمی ڈور پر اُڑاتے۔ چنگ کی شان یہ تھی کہ معلوم ہوتا ایک لالٹین آسمان پر اُڑ رہی ہے۔ اور غُبارے کے خلاف،

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 222

اُڑانے والے کے اختیار میں ہے۔ جب چاہیں اُڑائیں اور جب چاہیں اتار لیں۔ وہ ہوا میں قائم رہتا، کبھی اوندھا ہوتا تو پھر سیدھا ہو جاتا۔

اُسی زمانے میں بعض لوگ اسی وضع سے انسان کا ایک پُتلا بنا کے اڑاتے۔ بلکہ بعض قابل وثوق یادگارانِ سلف کا بیان ہے کہ سب کے پہلے وہ پُتلا ہی دہلی میں ایجاد ہوا تھا۔ پھر اسی سے ترقی کر کے چنگ ایجاد ہوا، جس کا طول و عرض برابر ہونے کی وجہ سے، اُڑانا اور ہوا میں ٹھہرانا زیادہ آسان تھا۔ اس کا شوق زیادہ تر ہندوؤں میں تھا۔ اور کیا عجب کہ ان کے وہاں کی قومی و مذہبی چیز ہو اور اکاس دیا وغیرہ کے خیال سے ماخوذ ہو۔ پھر اُس چنگ کے کاٹنے کے لیے یادن کو اڑانے کے خیال سے تُکل اُڑنے لگی، جو دراصل آدھا چنگ یا چنگ کی فقط ایک طرف کی دیوار تھی۔ تکل میں خوبی یہ تھی کہ بہ نسبت چنگ کے آسانی سے اُڑ سکتی تھی۔ اس میں چلت پھرت تھی۔ آسمان پر ہوا میں ناچتی اور دُور ہوتی چلی جاتی تھی۔ چنگ ایک جگہ قائم رہتا اور تُکل ادھر اُدھر چلتی پھرتی تھی اور اس پر اتنا قابو تھا کہ جب چاہیں اُس کی ڈور سے رگڑا دے کے دوسرے کے چنگ کو کاٹ دیں۔

تُکل نے دراصل قندیل یا روشن پُتلا اڑانے کا خیال بھلا دیا۔ اور لوگوں کو اس جانب متوجہ کیا کہ ہوا میں کوئی ایسی چیز اڑائی جائے جو زیادہ قابو میں ہو۔ ادھر اُدھر آسمان پر دوڑے اور ناچے۔ تکل کا شوق مسلمان امیروں اور معزز ہندوؤں میں بڑھا۔ اس پر دولت صرف ہونے لگی۔ اعلا درجے کی تُکل کا نام پتنگ مشہور ہوا۔ جس ٹھڈا مرشد آبادی بانس کا ہوتا۔ جس میں اسی روپےلاگت آتی۔ بیس 20 روپے کی جُھل جُھل ہوتی۔ دو روپے کا کاغذ لگتا اور پانچ روپے بنوائی پڑتی۔ غرض ایک سو سات روپے میں ایک پگنگ تیار ہوتا۔

بہر حال، دہلی میں تُکل اور پتنگ ہی تک ترقی ہوئی تھی کہ قدر دان دربار دہلی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 223

سے لکھنؤ میں منتقل ہوا، اور اس کے ساتھ ہی زمانے کے شوقین بھی یہاں چلے آئے۔ اب پتنگ اڑانے سے، پتنگ لڑانے کا شوق نکلا۔ ایسی زوردار تُکلیں بنائی جانے لگیں جن کو معمولی قوت کا آدمی مشکل سے سنبھال سکتا۔ آٹھ آٹھ بل کی مضبوط ڈور چرخیوں پر چڑھائی جاتی اور انہیں چرخیوں کے ذریعے سے تُکلوں کا زور سنبھالا جاتا۔ لڑائی کی یہ شان تھی کہ دو تُکلوں کی ڈور ایک دوسری میں ڈال کے دونوں طرف سے ڈھیل دی جاتی۔ دونوں تُکلیں چکر گھنی کھاتی ہوئی اوپر چڑھتی اور بلند ہوتی چلی جاتیں۔ اور دونوں طرف سے چرخیوں پر چرخیاں خالی ہوتی رہتیں۔ لکھنؤ کے شوق کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ نواب آصف الدولہ کی تکل میں پانچ روپے کی مقیش کی جُھل جُھل ہوتی۔ جو لوٹ کے لاتا، اسے پانچ روپے دے کے تکل لے لی جاتی۔ اور نہ لاتا، تو بھی جہاں چاہتا، پانچ روپے کو بیچ لیتا۔

پتنگ بازی کے پُرانے نامی استاد لکھنؤ میں میر عمدو، خواجہ مٹھن، شیخ امداد تھے، ایک جُلاہے نے بھی اُن دنوں اس فن میں کمال حاصل کیا تھا، جس کی وجہ سے امرا کی صحبتوں میں اس کی بڑی قدر ہوتی۔

امجد علی شاہ کے زمانے میں یک بہ یک گڈی ایجاد ہوئی جس کی قطع لوزات کی سی ہوتی۔ وہ تکل کے بہ نسبت آسانی سے بنتی۔ تُکل میں دو کانپیں اور ایک ٹھڈا ہوتا تھا، گُڈی میں صرف ایک ہی کانپ اور ایک ہی ٹھڈا رہ گیا۔ واجد علی شاہ کے زمانے میں ڈیڑھ کنا کنکوا بن گیا۔ جس کی قطع موجودہ کنکوے کے تھی، مگر نیچے تکل کی یادگار میں کاغذ کو چھوٹا سا پھندنا ہوتا۔ اب نواب محمد حسین خاں سالار جنگی، آغا ابو ترب خاں اور دو ایک شوقین رئیسوں نے پُھندنے کی جگہ نیچے پتا لگا کے وہ کنکوا بنا دیا، جو فی الحال مروج ہے اور جس میں ابھی تک اور کسی ترقی کی گنجائش نہیں نظر آتی۔ فی الحال سارے ہندوستان میں پتے دار کنکوا یا پھندنے دار کنکوا جو ڈیڑھ کنا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 224

کہلاتا ہے، اُڑتا ہے۔ مگر اس کی ایجاد لکھنؤ ہی میں ہوئی ہے۔ یہیں سے سب جگہ گیا اور مقبولِ عام ہوا۔

کنکووں کے لڑانے میں بھی پہلے تکل کی طرح ڈھیل کا رواج تھا۔ بڑے بڑے کنکوے بنتے اور سیروں ڈور پیتے چلے جاتے۔ آخر شاہی اور آغاز انگریزی کے مشہور استاد ولایت علی جو ولایتی کہلاتے۔ الٰہی بخش ٹنڈے جو مٹیا برج میں جاکے مشہور ہوئے اور لکھنؤ کے سیکڑوں باکمال استاد تھے جن کے نام مجھے اس وقت نہیں یاد آتے۔ مگر سچ یہ ہے کہ لمڈورے پیچ لڑاجے کے بادشاہ تھے۔

انگریزی کے آغاز میں کھینچ لڑانے کا رواج ہوا۔ اس کا آغاز تو اُن چھوٹے لڑکوں سے ہوا جن کے پاس تھوڑی سی ڈور ہوتی اور دوسرے کے کنکوے میں پیچ ڈال کے اپنی بے مایگی سے بے تحاشا کھینچ جاتے اور کاٹ دیتے۔ پُرانے استاد ان دنوں ان لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے اور اپنے کنکوؤں کو ان سے الگ رکھتے۔ مگر آخر کار کھینچ ہی کنکوے بازی کا اعلا ترین فن ہو گیا۔ جس میں بڑے بڑے استاد پیدا ہوئے۔ آج لکنو میں بیسیوں استاد پڑے ہوئے ہیں جو اسی شوق میں لاکھوں روپے اُڑا کے استاد بنے ہیں اور گھر بگاڑ کے اتنی فوقیت حاصل کی ہے کہ کنکوے کے میدانوں میں بڑی شوق سے بلائے اور ادب و تعظیم کے ہاتھوں سے لے کے آنکھوں پر بٹھائے جاتے ہیں۔

(21)

اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فن موسیقی کا اور اس کے سلسلے میں ان لوگوں کا جو اس فن سے وابستہ ہیں، لکھنؤ میں کیا حال رہا۔

گانا اُن چیزوں میں سے ہے جن کو انسان کی فطرت نے سب سے پہلے ایجاد کیا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 225

جن الفاظ کے ادا کرنے میں جوش طاہر کرنے کو جی چاہا، لوگ گانے لگے۔ اور جن حرکات و افعال میں جذبات نے ابھارا، ناچنا شروع کر دیا۔ اور چونکہ سب سے زیادہ جوش دمتیانانہ انہماک عبادت میں ہوتا ہے، اور دُنیوی امور میں سب سے زیادہ بے اختیاری کا ناقابل برداشت جوش عشق و محبت کے اظہار میں ہوتا ہے، اس لیے گانے کا آغاز بھی ابتداءً عبادت و عشق میں ہوا۔ ہندوستان میں گانے کا آغاز قطعا عبادت سے ہوا۔ اس لیے کہ یہاں کے پہلے گویے، خاص برہمن تھے، جو ابتداءً عبادت کرتے کراتے وقت اپنے معبودوں کی تعریف کے بھجن گایا کرتے۔ کنھیا جی کی ولادت نے ان کی محبت اور ان کے عشق کو عبادت بنا کے، عاشقانہ موسیقی ایجاد کی۔

اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں شاعری اور موسیقی دونوں کا اظہار عورت کی زبان سے ہوا کرتا ہے۔ ابتداءً برہمن فقط گیت اور سنگیت یعنی سیدھے سادے گانے گایا کرتے تھے جن میں فن کی ترقیوں کا ذرا بھی شائبہ نہ تھا۔ مگر بعد کو مصریوں، بابلیوں اور ایرانی محققوں کے مذاق کی آمیزش سے ایک فن کی بنیاد پڑی اور سب سے پہلے سات سُر ایجاد ہوئے، اس لیے کہ ہر آوز پھیلنے میں ایک حد پر پہنچ کے بدل جاتی ہے۔ ان تبدیلیوں کا صحیح اندازہ کر کے محققین نے سات سُر ایجاد کیے۔

اس کے بعد ہندوستان میں موسیقی کی تقسیم اس حیثیت سے ہوئی کہ جو راگ عبادت میں گائے جاتے، وہ یا تو برہما (پیدا کرنے والی قوت الٰہی کی منقبت میں ہوتے، یا بشن (جلانے اور پالنے والی قوت الٰہی) کی تعریف میں ہوتے، یا مہیش یعنی مہا دیو (مارنے والی قوتِ الٰہی) کی مدح میں ہوتے۔ اسی لحاظ سے تین قسم کے راگ بن گئے۔ پہلی قسم کے راگوں نے نسبت کہا جاتا ہے کہ برہمنوں نے کسی کو نہ بتائے اور اپنے ساتھ لے کے مر گئے۔ جو راگ تمام مراحلِ زندگی، زچہ خانے، شادی ، اور دنیا بھر کے کاروبار کے متعلق تھے، وہ دوسری
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 226

قسم کے راگ قرار پائے۔ آخری قسم کے راگ، مابعدُ الموت کی حالت اور ثواب و عقاب سے وابستہ تھے، وہ اکثر مہیب خوف دلانے والے اور دل پر عالم کے فانی ہونے کا اثر ڈالنے والے ہوتے۔ عاشقانہ راگ بھی محض اس لیے کہ عاشق مرگ کا خواہاں ہوتا ہے، اسی قسم میں شامل کر دیے گئے۔ خصوصاً اس لیے کہ کنھیا، سری کرشن جی مہا دیو ہی کا ایک اوتار تھے۔ اس قسم کے رات عموماً "بروگ" کہلاتے۔ ان کے راگ بھیروں، سرس راگ، اور راگنیاں : بھیرویں، پرچ، کالنگڑا، سوہنی، سند، پیلو وغیرہ ہیں۔

اس کے بعد جب برہمنوں کو راجاؤں کے دربار میں ان کی مدح کے قصائد گانا پڑے، تو ان کے مناسب رعب داب اور سطوت و شوکت کے راگ ایجاد ہوئے۔ جیسے مالکوس، درباری، شہانہ (اڈانہ) وغیرہ۔

مسلمان اپنے ساتھ اپنا موسیقی لائے تھے۔ ان کا موسیقی سب سے پہلے ابن مسجح نے مدون و مکمل کیا تھا۔ اس کے بعد جب عراق میں عباسی دربار قائم ہوا تو عربی اور فارسی موسیقی سے مل کے ایک نیا اور نہایت مکمل فنِ غنا ایجاد ہوا، جو ساری دنیا میں پھیل گیا۔ اور وہی آخر میں عجمی موسیقی تھا۔ مسلمان اسی فن کو ہندوستان میں لائے۔ اور جو گویے ان کے ستھ یہاں آئے تھے، انہی کی یادگار آج کل قوال ہیں۔ ان کے آلاتِ طرف : سرود، چنگ، شہنائی (سینائی)، بربط اور باب ہیں۔

ہندوستان میں ہر چیز پر مسلمانوں نے اپنا اثر ڈالا، تمام علوم و فنون اور معاشرت کی تمام باتوں کو بدل دیا۔ مگر یہاں موسیقی پر بہت کم اثر ڈال سکے۔ جس کی وجہ عموماً یہ خیال کی جاتی ہے کہ خود یہاں موسیقی اس قدر باضابطہ اور اعلا درجے کا تھا کہ اپنی مضبوطی و باقاعدگی کے باعث بیرونی اثر سے متاثر ہی نہ ہو سکا۔ لیکن حقیقت حال اور اس کا اصلی باعث یہ ہے کہ کسی ملک اور زبان کی موسیقی کی طرف انسان اس وقت توجہ کرتا ہے جب اس ملک کا باشندہ بن لے اور وہاں کی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 227

زبان و معاشرت کا رنگ اُس پر چڑھ جائے۔ لہذا یہاں آنے کے بعد حملہ آور مسلمان جب تک عربی یا عجمی رہے، یہاں کے موسیقی کی طرف توجہ نہ کی اور جب توجہ کی تو اس وقت ہندوستانیت ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی۔اپنے قومی راگوں کو بھول چکے تھے، اور یہاں کے نغموں کے دلدادہ تھے۔ اس وقت وہ اس قابل ہی نہیں رہے تھے کہ یہاں کے موسیقی میں کسی قسم کا تصرف کرتے یا اس میں کچھ نکتہ چینی کر سکتے۔

پھر بھی عجمی قوالوں کے نغموں نے ہندوستان کے موسیقی پر تھوڑا بہت اثر ڈال ہی دیا۔ چنانچہ ان کے متعدد راگ ہندی موسیقی میں شامل ہو گئے۔ زنگولہ (جنگلا)، زیف، شاہانہ، درباری، ضلع (کھماچ) وغیرہ کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ عجمی راگ ہیں جو ہندوستانی فن غنا میں شامل ہو گئے ہیں۔

امیر خسرو نے دونوں فنون کو حاصل کیا، اور دونوں کے ملانے کی بہت کچھ کوشش کی۔ کہتے ہیں کہ ستار کو اُنہی نے ایجاد کیا۔ اور یقیناً بہت سے دُھنیں ان کی ایجاد کی ہوئی ہیں۔ لیکن اس کا پتا لگانا بہت مشکل ہے کہ امیر خسرو نے یہاں کے موسیقی میں کون کون خاص چیزیں بڑھائیں۔

مسلمانوں میں معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہوں سے پہلے مشائخ صوفیہ نے موسیقی کی طرف توجہ کی۔ اور حال و قال کی جو صحبتیں عراق و عجم کے زُہادِ سلف میں عبادت کی شان سے قئم تھیں، ہندوستان میں بھی قائم ہو گئیں۔ اور جو گویے اس سے پیش تر بُت خانوں میں بھجن گایا کرتے تھے، مسلمان زُہاد و صوفیہ کے حلقے میں بیٹھ کے معرفت کی غزلیں گانے لگے۔

بادشاہوں کے دربار میں بھی یہاں کے گویے اور گانے ناچنے والی رنڈیاں موجود رہا کرتیں، مگر ان کا افسرِ اعلا کوئی عجمی گویا ہوا کرتا تھا جو ان کے موسیقی پر اپنا کچھ نہ کچھ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 228

اثر ضرور ڈالتا۔ محمد تغلق کے عہد میں دربار کا سب سے بڑا گویا امیر شمس الدین تبریزی تھا، اور کُل زن و مرد ارباب نشاط اس کے زیر حکم تھے۔ انہی دنوں دیو گڑھ، یعنی دولت آباد کے متصل ارباب نشاط کی ایک پوری بستی آباد تھی۔ جو "طرب آباد" کہلاتی۔ اس کے چوپر کے بازار کے بیچوں بیچ میں ایک برج تھا، جس میں روز بعد عصر ارباب نشاط کا چودھری آ کے بیٹھتا اور اس کے سامنے تمام گویوں اور رنڈیوں کے طائفے باری باری آ کے گاتے۔ ان میں سے اکثر مسلمان تھے اور صوم و صلات کے پابند اس بستی میں جا بہ جا مسجدیں تھیں، جن میں ماہ مبارک رمضان میں تراویح پڑھی جاتی۔ بڑے بڑے راجا یہاں آ کے گانا سنتے۔ کئی مسلمان تاج داروں نے بھی یہاں آ کے گانا سُنا تھا۔ اہل طرف کے سرگروہ اور چودھری چوں کہ عموماً مسلمان تھے، اس لیے ظاہر ہے کہ عربی و عجمی اور ہندوستانی فنونِ غنا کس قدر جلد مل جُل گئے ہوں گے۔

ہندو موسیقی کے مرکز شمالی ہند میں متھرا، اجودھیا اور بنارس تھے۔ جہاں مذہبی عنصر اعظم ہونے کی وجہ سے موسیقی کا فن ہمیشہ پرورش پاتا رہتا تھا۔ جون پور کے سلاطین شرقی میں سے سلطان حسین شرقی کو موسیقی کا شوق بہت تھا۔ وہ خود ایک بڑا گویا تسلیم کیا جاتا۔ اور چونکہ اجودھیا اور بنارس دونوں اس کی قلم رو میں تھے، اس لیے، یقیناً اس نے ہندوستان کے اس شریف فن کو بڑا فائدہ پہنچایا ہو گا۔

اکبر نے اس فن کی یہاں تک قدر کی کہ اس کے عہد کا سب سے بڑا نام ور گویا تان سین اس کے "نورتن" میں شامل ہوا۔ ایک مسلمان شہنشاہ کی یہ توجہ و عنایت دیکھ کے وہ خود، یا اس کا بیٹا بلاس خاں مسلمان ہو گیا۔ اس خاندان میں دربار کی قدردانی سے ہندی موسیقی کو روز بہ روز عروج حاصل ہوتا رہا۔ بعد کے درباروں میں اسی نسل کے گویے سرفراز ہوتے رہے۔ چنانچہ آج تک اس خاندان کے لوگ اپنے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 229

آپ کو دربار مغلیہ ہی سے وابستہ خیال کرتے ہیں۔ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ اسی نسل کے ذریعے سے ہندوؤں کا یہ فن مسلمانوں میں آیا۔ مگر جن واقعات کو ہم بیان کر آئے ہیں، ان سے صاف ظاہر ہے کہ اس خاندان سے بہت پہلے مسلمانوں نے اس ہندی کمال کو حاصل کر لیا تھا۔ چنانچہ فی الحال ہندی موسیقی کے تمام باکمال اور کل نامی گویے مسلمان ہی ہیں۔

دہلی میں اس فن پر سب سے پہلے شاہ جہاں بادشاہ کے عہد میں کتاب شمس الاصوات لکھی گئی، جو اب کہیں نہیں ملتی۔ پھر اکبر ثانی کے عہد میں میرزا خاں نام ایک بزرگ نے پنڈتوں اور علمائے سنسکرت کی مدد سے کتاب "تحفۃ الہند" تصنیف کی، جس کے دو ہی ایک نسخے بعض لوگوں کے پاس رہ گئے ہیں۔ اس میں بہت سے ہندی فنون کو جمع کیا ہے۔ جہاں جوتش، سرودھا، سامدرک، کوک، نائکا بھید، اندر حال وغیرہ مختلف فنون پر بحث کی ہے۔ وہاں ہندی موسیقی کو بھی بتایا ہے۔

دہلی میں اسی حد تک ترقی ہونے پائی تھی کہ یہ دلچسپ فن دربار لکھنؤ میں منتقل ہو آیا اور نواب شجاع الدولہ کی قدر دانی و فیاجی نے سارے ہندوستان کے موسیقی دانوں کو اودھ کی سر زمین پر لا کے اکٹھا کر دیا۔ یہاں اجودھیا اور بنارس کے موسیقی کے پرانے اسکول قائم ہی تھے، جون پور کے شرقی سلاطین کی قدردانی کی کچھ نہ کچھ یادگاریں بھی باقی تھیں، ان میں جب دہلی کے باکمال گویے اور تان سین خاں کے مستند اسکول کے استادانِ موسیقی بھی آ کے مل گئے تو خاص شان پیدا ہو گئی۔ اور موسیقی کا دراصل ایک نیا دور شروع ہو گیا۔

شجاع الدولہ کی نسبت مصنفِ تاریخ فیض آباد لکھتے ہیں کہ ارباب نشاط کا بڑا شوق تھا۔ ہزارہا گانے والی رنڈیاں عموماً دہلی سے اور دیگر بلاد دور و دراز سے یہاں آ کے جمع ہو گئی تھیں۔ عام رواج پڑ گیا تھا کہ نواب وزیر کے علاوہ اور تمام امرا و

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 230

سردارانِ فوج بھی کسی طرف کوچ کرتے تو اربابِ نشاط اور رنڈیوں کے ڈیرے ان کے ساتھ ساتھ جاتے۔

اس کا نتیجہ یہ تھا کہ نواب آصف الدولہ بہادر کے عہد میں فارسی زبان میں کتاب "اصول النغمات الآصفیہ" لکھی گئی۔ ہندوستان کے فنِ موسیقی پر اس سے بہتر کوکئی کتاب آج تک تصنیف نہیں ہو سکی، اگرچہ اس کتاب کے بھی بہت ہی کم نسخے دستیات ہوتے ہیں۔ میرے پاس موجود ہے اور میں نے اسے پڑھا ہے۔ مصنف پختہ مغز، صاحب علم و فضل ہے۔ عربی فارسی اور سنسکرت تینوں زبانوں میں پوری دست گاہ رکھنے والا معلوم ہوتا ہے۔ جس نے اس امر میں بڑی کامیاب کوشش کی ہے کہ ہندوستان کی موسیقی کو بہت ہی وضاحت کے ساتھ ہر شخص کے ذہن نشین کر دے۔ اسد اللہ خاں کو کب مرحوم، جنہوں نے چند ہی روز ہوئے انتقال کیا، موسیقی کے اعلا درجے کے صاحب علم استاد تھے، اور کلکتے میں ہندوستانی موسیقی کے پروفیسر مشہور تھے، وہ اس کتاب کی نسبت مجھے اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ "موسیقی کا یہ فارسی رسالہ میرے پاس موجود ہے۔ یہ رسالہ ان معتبر کتابوں سے، جو اس علم کی قدیم مایۂ بساط ہیں، مضامین اخذ کر کے، بڑی تحقیق اور تدقیق سے لکھا گیا ہے۔"

(افسوس، یہ لاجواب کتاب آج تک نہیں چھپی۔ اور اس کے نسخے اس قدر کم یاب ہیں کہ اس کے فنا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر کوئی رئیس توجہ کریں تو ملک اور اپنی قدیم تاریخ پر بڑا احسان کریں۔)

یہ رسالہ ہی بتا رہا ہے کہ آصف الدولہ کے عہد کے لکھنؤ میں موسیقی کو کس قدر ترقی ہو گئی تھی۔ اس کا مصنف ایک بڑا محقق معلوم ہوتا ہے، جس نے ابن سینا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 231

کی کتاب شفا سے لے کے عربی اور فارسی موسیقی کے اصول بھی بہ صراحت بتا دیے ہیں۔ دل گداز کے اس مضمون کی تکمیل کے لیے ہم نے پروفیسر کوکب مرحوم سے مدد مانگی تھی۔ انہوں نے جواب میں ہمیں جو کچھ لکھا، اسے ہم بجنسہ شائع کیے دیتے ہیں۔ اس سے بہ خوبی معلوم ہو جائے گا کہ لکھنؤ میں آنے کے بعد فن موسیقی کی کیا حالت رہی؟ افسوس اب وہ دنیا میں نہیں ہیں، ورنہ ہمیں ان سے بہت زیادہ مدد ملتی۔ خصوصاً اس لیے کہ اپنی نئی کتاب، جو فن موسیقی میں لاجواب ہے، وہ ہمارے یہاں چھپوانا چاہتے تھے۔ آصف الدولہ کے عہد کی ترقی موسیقی تسلیم کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں :

"نواب سعادت علی خاں کےزمانے میں موسیقی پر اوس پڑ گئی۔ غازی الدین حیدر کے زمانے میں اس جن کا ایک بہت بڑا کامل و اکمل شخص لکھنؤ میں موجود تھا، جس کا نام حیدری خاں تھا۔ یہ صاحب اپنی وارفتہ مزاجی کے وجہ سے "سڑے حیدری خاں" مشہور تھے۔ اور گولا گنج میں رہتے تھے۔ غازی الدین حیدر کو ان کا گانا سننے کا بڑا شوق تھا، مگر کبھی اس کا موقع نہیں ملا تھا۔ ایک روز سہ پہر کو غازی الدین حیدر ہوادار پر سوار دریا کنارے تفریح کو نکلے۔ رومی دروازے کے نیچے لوگوں نے دیکھا کہ سڑے حیدری خاں چلے جاتے ہیں۔ بادشاہ سے عرض کی کہ قبلۂ عالم، حیدری خاں یہی ہیں۔ بادشاہ کو اشتیاق تھا ہی، حکم دیا کہ بلاؤ۔ لوگ پکڑ لائے اور سامنے کھڑا کر دیا۔ بادشاہ نے کہا : ارے میاں حیدری خاں، کبھی ہمیں اپنا گانا نہیں سناتے؟ بولے : جی ہاں کیوں نہ سناؤں گا، مگر مجھے آپ کا مکان نہیں معلوم ہے۔ بادشاہ بے اختیار ہنس پڑے اور کہا : اچھا ہمارے ساتھ چلو، ہم خود تمہیں اپنے مکان پر لے چلیں گے۔ "بہت خوب" کہہ کے، بے تکلف ساتھ ہو لیے۔ چھتر منزل کے قریب پہنے تھے کہ حیدری خاں ہتھے پر سے اکھڑ گئے اور بولے :

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 232

میں چلتا تو ہوں مگر پوریاں اور بالائی کھلوائیے گا، تو گاؤں گا۔ بادشاہ نے وعدہ کیا اور محل میں بیٹھ کے گانا سُننے لگے۔ تھوڑی ہی دیر سُن کے بہت محظوظ ہوئے۔ وجد کا عالم طاری ہوا اور بے خود و بے تاب ہو گئے۔ یہ حالت دیکھ کے حیدری خاں خاموش ہو گئے۔ بادشاہ نے پھر گانے کو کہا تو بولے : حضور! یہ تمباکو جو آپ کے پیچوان میں بھرا ہوا ہے، بہت ہی اچھا معلوم ہوتا ہے، آپ کس کی دکان سے منگواتے ہیں؟ غازی الدین حیدر خود بھی آشفتہ مزاج تھے اور سڑی مشہور تھے، اس سوال پر منغص ہوئے، تو مصاحبوں نے عرض کیا : قبلۂ عالم! یہ شِڑی تو ہیئ ہے، اب تک یہی نہیں سمجھا ہےکہ کس سے باتیں کر رہا ہوں۔

اب لوگ بادشاہ کے ایما سے حیدری خاں کو دوسرے کمرے میں لے گئے، پوریاں بالائی کھلوائیں، حقہ پلوایا۔ آپ نے پاؤ بھر پوریاں، آدھ پاؤ بالائی اور ایک پیسے کی شکر منگوا کے اپنی بی بی کو بھجوائی (جو اُن کا ہر جگہ معمول تھا) جب تک ان کاموں میں رہے، بادشاہ نے بادۂ ناب کے جام پیے اور جب نشے کا زور ہوا تو پھر حیدری خاں کی یاد ہوئی۔ فوراً بُلوا کے گانے کا حکم دیا۔ مگر جیسے ہی انہوں نے اپنا نغمہ شروع کیا، روک کے کہا : حیدری خاں، سنتے ہو! اگر مجھے خالی خوش کیا اور رُلایا نہیں، تو یاد رکھو کہ گومتی میں ڈبوا دوں گا۔ اب تو حیدری خاں کی عقل چکر میں آئی۔ سمجھے کہ یہ بادشاہ ہیں۔ کہا: حضور! اللہ مالک ہے، اور جی توڑ کے گانے لگے۔ خدا کی قدرت یا یہ کہیے کہ حیدری خاں کی زندگی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں بادشاہ پر اثر ہوا، بے اختیار رونے لگے، اور خوش ہو کے کہا : حیدری خاں! مانگ کیا مانگتا ہے؟ عرض کیا؛ جو مانگوں گا، دیجیئے گا؟ بادشاہ نے وعدہ کیا۔ اور حیدری خاں نے تین دفعہ قُبولوا کے کہا : حضور، یہ مانگتا ہوں کہ مجھے کبھی نہ بلوائیے گا اور نہ گانا سنیے گا۔ بادشاہ نے تعجب سے پوچھا : کیوں؟ عرض کیا: آپ کا کیا ہے، مجھے مروا ڈالیے گا، پھر مجھ سا حیدری خاں پیدا نہ ہو گا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 233

اور آپ مر جائیں گے تو فوراً دوسرا بادشاہ ہو جائے گا۔ اس جواب پر غازی الدین حیدر نے ناراض ہو کے مُنہ پھیر لیا۔ یہ موقع پاتے ہی حیدری خاں اپنی جان لے کے بھاگے اور اپنے گھر آئے۔

غرض، غازی الدین حیدر کے زمانے میں یہی ایک باکمال موسیقی داں کھنؤ میں تھا۔ نصیر الدین حیدر کے زمانے میں یوں تو ہزاروں گانے والے تھے، مگر اس پایے کا گویا کوئی نہ تھا۔ محمد علی شاہ میں پیرانہ سالی کی بے حسی تھی اور امجد علی شاہ بغیر جناب قبلہ و کعبہ سے پوچھے کوئی کاا نہ کرتے تھے، لہذا ان کے زمانے میں بعض شوقین رؤسائے شہر اگر ارباب نشاط کے قدردان بھی تھے تو چھپا کے گانا سنتے۔ اس لیے اب اس فن کی جو کچھ قدر ہوئی، واجد علی شاہ کی عہد شباب کی تخت نشینی میں ہوئی، جب کہ لکھنؤ کا ساغرِ عیش چھلکنے کو تھا اور گل ہونے والا چراغ آخری مرتبہ بھڑک کے روشن ہوا تھا۔"

(22)

اگرچہ ہم نصیر الدین حیدر اور بعد والے فرماں روایان عہد کے موسیقی کے بارے میں کچھ اور بھی بیان کرنا چاہتے ہیں، مگر اس سے پہلے مانسب معلوم ہوتا ہے کہ اسد اللہ خاں کوکب مرحوم کے خط کا باقیماندہ حصہ بھی اپنے ناظرین کو سنا دیں، جس سے لکھنؤ کی موسیقی پر ایک مستند ماہر فن کی رائے معلوم ہو جائے گی۔

وہ تحریر فرماتے ہیں : "واجد علی شاہ کے عہد میں لکھنؤ میں باکمالان موسیقی کا گروہ کثیر جمع ہو گیا تھا۔ لیکن دربار کے رسوخ یافتہ اور صاحب، خطاب گویے کاملینِ فن نہ تھے۔ صرف ایک قطب الدولہ، رام پور کے رہنے والے البتہ ستار

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 234

خوب بجاتے تھے اور اپنے فن میں اچھے تھے۔ انیس الدولہ، مصاحبُ الدولہ، وحید الدولہ اور رضی الدولہ اگرچہ گویے تھے،مگر ایسے باکمال نہ تھے، فقط عنایتِ شاہی سے دولہ ہو گئے تھے۔ کاملین فن میں یہ لوگ تھے : پیار خاں، جعفر خاں، حیدر خاں، باسط خاں، یہ سب لوگ میاں تان سین کے خاندان کی یادگار تھے۔ اس خاندان کے دو نامی شخص آج کل بھی موجود ہیں : ایک وزیر خاں جو ریاست رام پور میں ہیں۔ دوسرے محمد علی خاں، جو ریاست پرسنڈا میں ملازم ہیں۔ محمد علی خاں کے والد باسط خاں تھے جن کا نام اوپر آ چکا ہے۔"

اس موقع پر کوکب خاں مرحوم بتاتے ہیں کہ میرے والد مرحوم نعمت اللہ خاں نے باسط خاں ہی سے علم موسیقی حاصل کیا تھا۔ نعمت اللہ خاں تقریباً گیارہ سال تک مٹیا برج میں واجد علی شاہ کے ساتھ رہے۔ پھر اس کے بعد تیس برس تک دربار نیپال میں رہے۔

اس کے بعد لکھتے ہیں : "واجد علی شاہ کے عہد میں موسیقی کا خوب چرچا رہا۔ لیکن علم موسیقی اپنے بلند پایے سے گر کے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر آگیا تھا۔ لکھنؤ میں کدرپیا نے ٹھمریاں تصنیف کر کر کے عوام میں پھیلائیں، اور موسیقی کو بے حس کر دیا۔ چنانچہ اکثر شیدایانِ موسیقی اعلا درجے کی راگ راگنیوں کو چھوڑ کے، کدرپیا کی ٹھمریاں پسند کرنے لگے۔ موسیقی کے مذاق میں تنزل محمد شاہ رنگیلے ہی کے عہد سے شروع ہو گیا تھا جب میاں سارنگ نے خیال کو تصنیف کیا، جس سے فن موسیقی اصولاً ناقص ہو گیا۔ مگر اس نے بہ درجہا زیادہ خرابی کدر کی ٹھمریوں سے پیدا ہو گئی۔ اور اب عوام و رؤسا کی یہ حالت تھی کہ اعلا قسم کے موسیقی کو اگر سنتے بھی تھے تو دل چسپی و شوق سے نہیں، بلکہ ناپسند کرتے تھے۔

واجد علی شاہ کے مصاحب گویوں میں سے انیس الدولہ اور مصاحبُ الدولہ نے موسیقی کو پیار خاں سے حاصل کیا تھا، جو بہت بڑا صاحبِ کمال اُستاد تھا۔ اور جو کچھ اُس نے ان دونوں شاگردوں کو بتایا، وہ بے شک اعلا پیمانے پر تھا، لیکن اس کا کیا علاج کہ دربار میں ایسے موسیقی کی قدر ہی نہ تھی۔ رہس جو قیصر باغ میں ہوتا تھا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 235

جس میں واجد علی شاہ خود کنھیا بنتے تھے، بہت ہی مبتذل درجے کا موسیقی تھا۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ رغبت نہ ہونے پر بھی اہل کمال کی دربار شاہی میں بڑی قدر ہوتی تھی۔ جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ واجد علی شاہ نے بھی باسط خاں سے فن موسیقی حاصل کیا تھا۔ اور فن میں پوری بصیرت رکھتے تھے۔ اپنی عالی دماغی کی وجہ سے بادشاہ نے اپنے طرز میں نئی راگنیاں تصنیف کیں، جن کے نام اپنی طبیعت داری سے جوگی کنٹر، جوہی، شاہ پسند وغیرہ رکھے۔ واجد علی شاہ کو اس فن میں اساتذہ کا درجہ حاصل تھا۔ صاحب کمال تھے۔ لیکن اس الزام سے نہیں بچ سکتے کہ اُن کے عامیانہ مذاق نے لکھنؤ میں موسیقی کو سبک اور عام فہم بنا دیا۔ زمانے کا یہ رنگ دیکھ کے، نفیس طبیعتیں رکھنے والے گویوں نے بھی راگ راگنیوں کی مشکلات کو ترک کر کے ، چھوٹی چھوٹی، سادی، دلکش اور عام فہم چیزوں پر موسیقی کو قائم کیا۔ عوام میں غزل، غھمری کا چرچا ہو گیا۔ اور دھرپدو ہوری وغیرہ جو نہایت ثقیل اور مشکل چیزیں ہیں، ان کی طرف مطلق توجہ نہ کی گئی۔ کھماچ، جھنجھوٹی، بھیرویں، سیندورا، تلک کا مود، پیلو وغیرہ چھوٹی چھوٹی مزے دار راگنیاں اہل مذاق کے تفنن کے لیے منتخب کی گئیں۔ اور یہی چیزیں بادشاہ کو بالطبع مرغوب تھیں۔ یہ راگنیاں لکھنؤ کی قدرداں سوسائٹی کے مذاق میں یہاں تک سرایت کر گئیں کہ آج سارے ہندوستان میں لکھنؤ کے سفیدے خربوزوں کی طرح، لکھنؤ کی بھیرویں بھی مشہور ہو گئی۔ اور سچ یہ ہے کہ بھیرویں، لکھنؤ ہی کا حصہ ہے۔ ایسی بھیرویں ہندوستان کے کسی حصے میں نہیں گائی جاتی۔ سوزخوانوں نے بھی انہیں عام پسند و عام فہم راگنیوں کو زیادہ رواج دیا جو مذہب کی سفارش سے گھر کی بیٹھنے والی عورتوں تک کے گلے میں اُتر گئیں۔ یہاں تک کہ ان کی نوحہ خوانی سُن کے بڑے بڑے باکمال گویے نقش حیرت بن جاتے ہیں۔ سوز خوانوں میں سے اکثر پیار خاں اور حیدر خاں کے شاگرد تھے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 236

لے، ایک اہم جزوِ موسیقی ہے۔ جس کو عرف عام میں ٹائم یا وقت کہنا زیادہ موزوں ہے۔ اس کا مادہ واجد علی شاہ میں بہت زیادہ تھا، جسے قدرت کی دین کہنا چاہیے۔ اور یوں تو لے کا مادہ کم و بیش ہر شخص میں ضرور موجود ہوتا ہے۔ شعرا نے جو اوزان مقرر کیے ہیں، وہ بھی لے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ علم عروض دراصل مکمل لے ہے۔ ارکان، تال کے اجزا ہیں۔ یہ بدیہی امر ہے کہ جس شخص میں فطرۃً لے کا مادہ بہت بڑھا ہوا ہو گا، اس کے ہر عضو اور بُنِ مو سے حرکتِ بے اختیاری و ربودگی پیدا ہو جائے گی، اور لَے پر عضو عضو پھڑکنے لگے گا۔ عوام کی نظر میں یہ حرکت بے وقعت اور مہمل معلوم ہوتی ہے۔ لیکن وہ شخص جس سے سرزد ہوتی ہے، مجبور ہے۔ وہ دانستہ اس فعل کو نہیں کرتا، بلکہ اعضا خود بہ خود لَے پر حرکت کرنے لگتے ہیں۔ واجد علی شاہ کے اسی فعل کو لوگ کہتے ہیں کہ وہ ناچتے تھے۔ حالانکہ وہ ناچتے نہ تھے۔ بلکہ لَے داری میں محو ہو کے، اُن کے اعضا سے ایسے حرکات سرزد ہونے لگتے تھے۔ جو لوگ اصول موسیقی سے ناواقف ہیں، کہنے لگے : بادشاہ ناچتے ہیں۔ دراصل واجد علی شاہ کبھی اور کسی زمانے میں نہیں ناچے۔ اُن کا ناچنا بس یہی تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ لَے داری میں کوئی اعلا درجے کا کاملِ فن گویا بھی بادشاہ کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔ میں نے اُن کی صحبت کے معتبر گویوں سے سنا ہے کہ بادشاہ کے پاؤں کا انگوٹھا سوتے میں بھی لَے پر چلتا تھا۔

نرت، جس کو بھاؤ بتانا کہتے ہیں، یہ فن بھی علمِ موسیقی کا ایک خاص جز ہے۔ نرت کا مقصد یہ ہے کہ مافی الضمیر، حرکات اور اشاروں سے ادا کیا جائے۔ جس کو انگریزی میں موشن کہتے ہیں۔ موشن بڑے بڑے جید اسپیکروں اور لیکچراروں میں پایا جاتا ہے، لیکن انہیں کوئی ہدفِ ملامت نہیں بناتا۔ مگر بے چارے واجد علی شاہ محض اپنی لَے داری کی وجہ سے بدنام کیے جاتے ہیں۔"

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 237

یہ ہے جو لکھنؤ کی موسیقی اور واجد علی شاہ کے متعلق کوکب مرحوم کی تحریر سے معلوم ہوا۔ اس سے صاف پتا چل سکتا ہے کہ لکھنؤ نے چاہے اعلا درجے کے موسیقی کو رواج نہ دیا ہو، مگر اُس کے سدھارنے اور عام پسند بنانے کا یہ شہر کتنا بڑا زبردست اسکول قرار پا گیا تھا۔

غازی الدین حیدر ہی کے زمانے میں یہاں اعلا درجے کے قوالوں کی شہرت تھی چھجو خاں اور غلام رسول خاں استادِ فن مانے جاتے تھے۔ شوری اتنا بڑا زبردست موجدِ فن تھا کہ ٹپے کا موجد وہی مانا گیا ہے۔ بخشو اور سلاری اُن دنوں طبلہ بجانے کے استاد مانے جاتے تھے اور ان کے مقابل کسی کو طبلہ چھونے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔

اس آخر زمانے میں صادق علی خاں سارے ہندوستان میں استادِ بے بدل مانے جاتے تھے۔ چھوٹے اور بڑے منے خاں کے گانے میں ایسا مزہ اور لطف تھا کہ باوجود کاملِ فن ہونے کے، ناواقف عوام کو بھی اپنے نغمے پر فریفتہ کر لیتے۔

مٹیا برج میں جو ڈھاڑی، واجد علی شاہ کے دربار میں ملازم تھے، اُن سب کو میں نے خود سُنا تھا۔ احمد خاں، تاج خاں اور غلام حسین خاں اس وقت کے زبردست صاحبِ کمال مانے جاتے۔ دُنی خاں جس نے سارے کلکتے میں اپنی دھوم مچا رکھی تھی، اور اپنے سحر آفریں گلے سے ہر ادنا و اعلا کو فریفتہ کر لیا کرتا، لکھنؤ ہی کا تھا اور لکھنؤہی کے اسکولِ موسیقی کا تعلیم یافتہ تھا۔ مرد گویوں کے علاوہ لکھنؤ میں بعض رنڈیوں نے وہ کمال حاصل کیا کہ بڑے بڑے ڈھاڑی ان کے سامنے کان پکڑتے تھے۔ زہرہ و مشتری، جو شاعرہ بھی تھیں، گانے میں اپنا جواب نہ رکھتی تھیں۔ چونے والی حیدر کو وہ ناموری حاصل ہوئی کہ اُس کے گلے سے سوز سننے کے لیے لوگ محرم کے انتظار میں دن گنا کرتے اور محرم میں باہر کے سیکڑوں ہزاروں شوقین لکھنؤ میں آ کے حیدر کے امام باڑے میں گھنٹوں امیدوار بنے بیٹھے رہتے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 238

کہ کب بی حیدر اپنا نغمۂ غم شروع کریں گی۔

طبلہ بجانے میں آخری عہد کا کامل، محمد جی تھا، جس کی سارے ہندوستان میں شہرت تھی۔ تقریباً تیس سال کا زمانہ ہوا، مجھے چوک میں ایک جنٹل مین مرہٹا ملا جو کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھا اور کسی معزز خدمت پر مامور تھا۔ مجھ سے مل کے اس نے کہا کہ "میں لکھنؤ میں صرف اس شوق سے آیا ہوں کہ یہاں کے باکمالان موسیقی کا کمال دیکھوں۔" میں نے پوچھا : آپ کون ہیں؟، کہا : "میں خاندانی گویا ہوں اور میرے باپ دادا سیوا جی کے دربار میں گویے تھے۔ اگرچہ اب انگریزی تعلیم پانے کے بعد نوکری کر لی ہے، مگر اپنے خاندانی فن کو بھی جانتا ہوں۔" اتفاقاً اس وقت ایک اور صاحب آ گئے جو لکھنؤ کی مشہور گانے والی محمدی کے وہاں آتے جاتے تھے۔ بولے : چلیے آپ میرے ساتھ چلیے۔ وہ مرہٹے صاحب مجھے بھی اپنے ساتھ کھینچ لے گئے اور ہم سب محمدی کے وہاں پہنچے۔ا تفاقاً وہاں صادق علی خاں بھی موجود تھے۔ اور سب نے اپنا کمال دکھایا۔ خود وہ مرہٹا بھی گایا۔ اس کے بعد ہم سب چودھرائن کے وہاں گئے، جو گھر یہاں صاحبان فن کا سب سے بڑا کلب سمجھا جاتا ہے۔ وہاں دونوں مُنے خاں بلائے گئے۔ انہوں نے گا کے اپنا کمال دکھایا۔ آخر میں اُس مرہٹے نے کہا : "مجھے تو صرف اتنی تمنا یہاں لائی ہے کہ میں ایک ترانہ گاؤں اور محمد جی میرے ساتھ طبلہ بجا دے۔" فوراً محمد جی بلوائے گئے اور مرہٹے جنٹل مین کے گانے اور محمد جی کے بجانے میں کل حاٖضرین کو بڑا مزہ آیا۔ سب اَش اَش کر گئے۔ اور آخر میں اُس مرہٹے نے قبول کر لیا کہ میں سب جگہ گیا ہوں، مگر محمد جی سے زیابہ باکمال طبلہ نواز آج تک آنکھ سے نہیں دیکھا تھا۔

لکھنؤ میں موسیقی کو اس قدر عروج ہو گیا تھا کہ بہ خلاف اور شہروں کے امرا اور دولت مندوں کے، یہاں کے امرا ذوقِ صحیح رکھتے ہیں، سمجھتے ہیں، دُھنوں، راگوں اور

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 239

کو پہچانتے ہیں اور دو ہی ایک تانیں سُن کے سمجھ جاتے ہیں کہ یہ گویا کسی پایے کا ہے۔ معمولی گانے والا یہاں کی صحبتوں میں فروغ نہیں پا سکتا۔ بازاری لوگ اور عموماً لڑکے جو سڑکوں اور گذرگاہوں میں گاتے پھرتے ہیں، وہ بھی مختلف چیزوں کو ایسے سچے سُروں میں ادا کرتے ہین کہ معلوم ہوتا ہے راگنی اور لے گلے میں اُتری ہوئی ہے۔ اکثر شہروں میں لوگ کثرت سے ایسے ملیں گے جو شعروں کوموزوں نہیں پڑھ سکتے۔ بہ خلاف اس کے، یہاں آپ کو ایسا جاہل ڈھونڈے نہ ملے گا۔ جو اشعار کو موزوں نہ پڑھ سکتا ہو۔ دلیل ہے اس بات کی کہ لَے داری یہاں کے بچے بچے کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔ بعض اوقات کسی بازاری لڑکے کو بھیرویںؔ، وہنیؔ، بھاگؔ یا کسی اور دُھن میں ایسی خوبی سے گاتے سنا گیا ہے کہ سننے والے محو ہو گئے اور بڑے بڑے گویوں کو ان پر حسد آنے لگا۔

موسیقی کے سلسلے میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم سازوں اور آلاتِ موسیقی کا بھی حال بیان کر دیں۔

موسیقی میں دو چیزیں ہوتی ہیں : سُر اور لَے۔ ان دونوں چیزوں میں بگڑنا، گانے کا ناقابل عفو عیب ہے۔ لہذا ان دونوں کی نگہداشت کے لیے دو ہی سازوں کی ضرورت ہوئی۔ چنانچہ فی الحال سُر پر رہنے کی مدد کے لیے سارنگی اور لَے پر قائل رہنے کی ضرورت سے طبلہ کام میں لائے جاتے ہیں۔

سُروں کی مدد کے لیے ہندوستان کا پُرانا ساز بین تھی، جس میں ایک مُجوف چوبی نلی کے دونوں سروں پر دو تونبیاں لگائی جاتیں اور اس پر ساتوں سُروں کے سات تار کھینچ دیے جاتے۔ جن کا نغمہ نلی کے اندر سے دونوں جانب دوڑ کے دونوں تونبیوں میں گونجتا۔ مسلمان اپنے ساتھ رباب، چنگ اور سرود لائے۔ رباب غالباً عربی باجا تھا۔ جس نے عباسیہ کے دور میں بہت ترقی کی تھی۔ چنگ اور سرود عجمی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 240

باجے تھے۔ ان میں سے چنگ بہت ہی پُرانا ساز ہے، جس کا سراغ اسیریا، بابل، مصر، یونان اور روم، غرض تمام اگلی قوموں میں لگتا ہے۔ سرود خالص فارسی باجا تھا، جس کو عباسی دور کے مغنیوں نے اختیار کر کے بہت ترقی دی۔ ہندوستان میں آنے کے بعد جب ہندوؤں اور مسلمانوں کے نغموں میں میل جول ہوا تو پہلے طنبورہ ایجاد ہوا جو دراصل بین کا اختصار اور صرف سُروں کے قائم رکھنے کا کام دیتا تھا، اور تنہا بجانے کی چیز نہ تھا۔ چند روز بعد امیر خسرو نے ستار ایجاد کیا جو دراصل بین اور طنبورہ دونوں میں ایک آسان اور عام پسند تصرف تھا۔ لیکن بین ہو یا طنبورہ یا ستار، گلے کا پورا ساتھ کوئی نہ دے سکتا تھا۔ یہ کمی دیکھ کے، محمد شاہ رنگیلے کے دربار کے زبردست و نامور مخنی میاں سارنگ نے سارنگی ایجاد کی جو اُنہی کی طرف منسوب ہے۔ سارنگی نے بین، طنبورے اور ستار سب کو پیچھے ڈال دیا اور رقص و سرود کی محفلوں میں ایسا رسوخ حاصل کیا کہ ان اگلے سازوں کے بجانے والے بھی فنا ہو گئے۔ انہی پُرانے سازوں میں یہاں ایک قانون بھی تھا، جسے یقیناً مسلمان، شام و عراق سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس کے بجانے والے بھی اب کہیں شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ غرض عیش و طرب کی محفلوں سے سارنگی نے ان سب کو نکال دیا اور ان قدیم سازوں کی یہ شان رہ گئی کہ اعلا درجے کے استاد گویوں میں کبھی کبھی کوئی ایک قنیا نظر آ جاتا ہے، جسے بین یا سرود، رباب یا قانون کے بجانے میں کمال حاصل ہوتا ہے۔ ستار نوجوانوں کے تفنن طبع کے لیے رہ گیا، جسے وہ بغیر گانے کے بجاتے اور سنتے ہیں اور اس کے ساتھ کوئی گانے بھی لگتا ہے۔

اب رہا طبلہ، یہ اگرچہ لَے کے لیے بہت ہی لازمی چیز ہے مگر اس قسم کی کسی چیز کا پتا دیگر ممالک کی پُرانی قوموں میں نہ تھا۔ لڑائی میں طبل جنگ بجتا۔ نوبت میں نقارہ بجایا جاتا۔ مگر ناچ گانے کے ساتھ سواے ہندوستان کے اور کہیں
 
Top