یوسفی اقوالِ یوسفی

اقوالِ یوسفی۔ قسط نمبر ایک
تدوین و ترتیب۔ محمد خلیل الر حمٰن
اقوالِ یوسفی​

• بابائے انگریزی ڈاکٹر سمویل جانسن کا یہ قول دل کی سیاہی سے لکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص روپے کے لالچ کے علاوہ کسی اور جذبے کے تحت کتاب لکھتا ہے، اس سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں۔

• خود دیباچہ لکھنے میں وہی سہولت اور فائدے مضمر ہیں ، جو خود کشی میں ہوتے ہیں۔ یعنی تاریخِ وفات، آلہِ قتل، اور موقع واردات کا انتخاب صاحبِ معاملہ خود کرتا ہے۔ اور تعزیراتِ پاکستان میں یہ واحد جرم ہے ، جس کی سزا صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ ملزم ارتکابِ جرم میں کامیاب نہ ہو۔

• انسان واحد حیوان ہےجو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہوجاتا ہے۔ انسان واحد جاندار ہے ، جسے خلاقِ عالم نے اپنے حال پررونے کے لیے غدودِ گریہ بخشے ہیں۔ کثرتِ استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہوجاتے ہیںجیسے اگلے وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جایا کرتے تھے۔

• تم اگر واقعی کسی احمق کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے توخود کو اپنے کمرے میں مقفل کرلو اور آئینہ توڑ کر پھینک دو۔

• مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہوجاتے ہیں ، بالخصوص اردو ادب میں۔

• جنگل بیابان میں ایک بچہ اپنی ماں سے چمٹ کر کہنے لگاکہ امی! اندھیرے میں مجھے ایک کالا دیو نظر آتا ہے اور مارے ڈر کے میری تو گھِگی بندھ جاتی ہے۔ ماں نے جواب دیا ، بیٹا تو مرد بچہ ہے۔ خوف کو دل سے نکال دے اب کی دفعہ جیسے ہی وہ دکھائی دے ، آگے بڑھ کے حملہ کردینا۔ وہیں پتا چل جائے گا کہ حقیقت ہے یا محض تیرا وہم۔ بچے نے پوچھا، امی! اگر اس کالے دیو کی امی نے بھی اسے یہی نصیحت کرر کھی ہو تو۔۔۔؟

• فقیر کی گالی، عورت کے تھپڑ اور مسخرے کی بات سے آزردہ نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ قولِ فیصل ہمارا نہیں، مولٰنا عبید زاکانی کا ہے( از دشنامِ گدایاںو سیلئ زناں وزبانِ شاعراں و مسخرگاں مرنجید)

• یادش بخیر ! راہزن کے لغوی معنی مرزا نے اسی زمانے میں زنِ بازاری بتائے تھے! اور سچ تو یہ ہے کہ جب سے اس کے صحیح معنی معلوم ہوئے ہیں، غالب اور آتش کے مصرعوں ’ ہوکر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پاؤں‘ اور ’ ہزار رہ زنِ امیدوار راہ میں ہے‘ کا سارا لطف ہی جاتا رہا۔ اب کہاں سے لاؤں وہ ناواقفیت کے مزے۔
ماخوذ از دستِ زلیخا( دیباچہ) خاکم بدہن از مشتاق احمد یوسفی۔
 

شمشاد

لائبریرین
تو آپ بھی سلسہ یوسفیہ کے مرید ہیں۔

ان کا ایک قول میں بھی لکھتا ہوں۔

“گالی، گنتی اور گندہ لطیفہ اپنی زبان میں ہی مزہ دیتے ہیں۔“
 
تو آپ بھی سلسہ یوسفیہ کے مرید ہیں۔

ان کا ایک قول میں بھی لکھتا ہوں۔

“گالی، گنتی اور گندہ لطیفہ اپنی زبان میں ہی مزہ دیتے ہیں۔“

اور کیا خوبصورت ترکیب coin کی ہے قبلہ ’’ سلسہٗ یوسفیہ ‘‘۔ بہت خوب۔
 
اقوالِ یوسفی۔ قسط نمبر دو​
تدوین و ترتیب۔ محمد خلیل الر حمٰن​
اقوالِ یوسفی
· اختر شیرانی ، نابالغ شاعر ہے۔ وہ وصل کی اس طور پر فرمائش کرتا ہے گویا کوئی بچہ ٹافی مانگ رہا ہے۔​
· ہوش خلیج آبادی، اس ظالم کے تقاضائے وصل کے یہ تیور ہیں گویا کوئی کابلی پٹھان ڈانٹ ڈپٹ کر ڈوبی ہوئی رقم وصول کررہا ہے۔ مگر وہ زبان کے بادشاہ ہیں، زبان ان کے گھر کی لونڈی ہے اور وہ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں۔​
· کسیموصوف نے ایک محفل میں غالب کا ایک مشہور شعر غلط پڑھا اور دہرے ہو ہو کر داد وصول کی سو الگ۔ میاں یہ بھی کوئی قرآن و حدیث ہے ۔ جیسے چاہا، پڑھ دیا۔​
· فانی مصورِ غم ہیں تو مہدی ( الافادی) مصورِ بنتِ عم ہیں۔ واللہ ! وہ انشائیہ نہیں نسائیہ لکھتے ہیں۔​
· دیکھا گیا ہے کہ وہی کتب فروش کامیاب ہوتے ہیں جو کتاب کے نام اور قیمت کے علاوہ کچھ اور جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کی ناواقفیتِ عامہ جس قدر وسیع ہوگی، جس قدر عمیق اور متنوع ہوگی، اتنی ہی بھر پور خود اعتمادی اور معصوم گمراہی کے ساتھ وہ بری کتاب کو اچھا کرکے بیچ سکیں گے۔​
· ہمارے ہاں اردو میں ایسی کتابیں بہت کم ہیں جو بغیر گرد پوش کے بھی اچھی لگیں۔ گرد پوش تو ایسا ہی ہے ، جیسے عورت کے لیے کپڑے۔​
· اگر قرض ہی دینا ہےتو بڑی رقم قرض دو تاکہ لینے والے کو یاد رہے اور تمہیں تقاضا کرنے میں شرم نہ آئے۔ یہ چھوٹے چھوٹے قرضے دیکر خلقِ خدا کے ایمان اور اپنے اخلاق کی آزمائش کاہے کو کرتے ہو۔​
· اگر دوسرے بے اصول ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں بھی بے اصولا ہوجاؤں۔ دیکھتے نہیں ، اسکول میں حاضری کے وقت بچوں کے نام حروفِ تہجی کی ترتیب سے پکارے جاتے ہیں، مگر بچوں کو اسی ترتیب سے پیدا یا پاس ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔​
· علم احساب درحقیقت کسی متعصب کافر نے مسلمانوں کو آزار پہنچانے کے لیے ایجاد کیا تھا۔​
· جوا اگر قریبی رشتہ داروں کے ساتھ کھیلا جائے تو کم گناہ ہوتا ہے۔​
· کامیابی چاہتے ہو تو کامیاب کتب فروشوں کی طرح بقدرِ ضرورت سچ بولو اور ہر کتاب کے حسن و قبح پر ضدم ضدا کرنے کے بجائے گاہکوں کو انہی کی پسند کی کتابوں سے برباد ہونے دو۔​
· اگر کوئی شخص تجارت میں بہت جلد ناکام نہ ہوسکے تو سمجھ لو کہ اس کے حسب نسب میں فی ہے۔​
· اگر ایک پوری کی پوری نسل کو ہمیشہ کے لیے کسی اچھی کتاب سے بیزار کرنا ہو تو سیدھی ترکیب یہ ہے کہ اسے نصاب میں داخل کردیجیے۔​
· فحش کتاب میں دیمک نہیں لگ سکتی کیونکہ دیمک ایسا کاغذ کھا کر افزائشِ نسل کے قابل نہیں رہ سکتی۔​
· بڑا مصنف اپنی آواز پبلک تک پہنچاتا ہے ، مگر بڑا صحافی پبلک کی آواز پبلک تک پہنچاتا ہے۔​
( مشتاق احمد یوسفی۔ خاکم بدہن۔ صبغے اینڈ سنز)​
 

یوسف-2

محفلین
اگر کوئی شخص ایک مرتبہ پروفیسری کے عہدہ پر فائز ہوجائے تووہ ساری عمر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں وہ عقلمندی کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
"میرے خیال میں بوڑھے عاشق میں تین خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی جوان میں ہوہی نہیں سکتیں۔
اول بے ضرر و بے طلب ہوتا ہے۔
دوم باوفا ہوتا ہے۔
جانتے بوجھتے جس شدت و یکسوئی سے وہ باولا ہوتا ہے وہ کسی جوان کے بس کا روگ نہیں۔"
ضمیر جعفری بولے۔"چوتھی خوبی تو آپ بھول ہی گئے۔جلدی مر جاتا ہے۔"
 

جاسمن

لائبریرین
ہم نے کچھ عرصہ سے یہ اصول بنا لیا ہے کہ کسی انسان کو حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے۔اس لئے کہ ہم نے دیکھا کہ جس کسی کو ہم نے حقیر سمجھا وہ فورا ترقی کر گیا۔
 

فہد اشرف

محفلین
”جب کوئی شخص دوسروں کو قائل کرنے کے لیے زور شور سے فلسفہ اور منطق بگھارنے لگے تو سمجھ جایئے کہ اندر سے وہ بے چارہ خود بھی ڈھلمل ہے ، اور کسی ایسے جذباتی اور نامعقول فیصلے کا عقلی جواز اور توجیہ تلاش کر رہا ہے جو وہ بہت پہلے کر چکا ہے ۔ ہنری ہشتم نے تو محض اپنی ملکہ کو طلاق دینے اور دوسری عورت سے شادی رچانے کی خاطر پاپائے روم سے قطع تعلق کر کے ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈال دی ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگلینڈ کے مذہب یعنی چرچ آف انگلینڈ کی بنیاد ایک طلاق پر رکھی گئی تھی ۔ مرزا کہتے ہیں کہ فی زمانہ نئے مذہب کی ایجاد کا اس سے زیادہ معقول جواز اور ہو بھی نہیں سکتا ۔ “

اقتباس از آبِ گم» کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ» بے کار مباش
 

جاسمن

لائبریرین
"سڑک کہیں نہیں جاتی وہ تو وہی کی وہی رہتی ہے مسافر خود کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے- راہ کبھی گم نہیں ہوتی، راہ چلنے والے گم ہو جاتے ہیں"
یوسفی صاحب اس دنیا کی سڑک کو چھوڑ چلے ، اس راہ پر وہ پھر نہ آئیں گے مگر ان کا نام اور کام ، اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی گلی گوچوں میں زندہ رہے گا۔
 

یاقوت

محفلین
تو آپ بھی سلسہ یوسفیہ کے مرید ہیں۔

ان کا ایک قول میں بھی لکھتا ہوں۔

“گالی، گنتی اور گندہ لطیفہ اپنی زبان میں ہی مزہ دیتے ہیں۔“

مظلوم اقرری کا شمار بھی مزاح گزیدگان یوسفی میں ہوتا ہے۔درج بالا سلسلے میں ایک اور بات عرض ہے۔
زرگزشت میں فرماتے ہیں الفاظ بعینہ تو یاد نہیں ہیں مفہوم عرض کردیتا ہوں ۔۔
دفتر میں بات سب آپس میں اردو میں دفتری بات انگلش میں اور گالی ہر شخص اپنی مادری زبان میں دیتا تھا۔۔
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
شادی شُدہ حضرات اگر خوش رہنا چاہتے ہیں تو پہلے دل کی سُنیں پھر دماغ کی اور اُس کے بعد وہی کریں جو "بیوی" کہتی ہے۔
- مشتاق احمد یوسفی
 

شمشاد

لائبریرین
پرائیوٹ اسپتال اور کلینک میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ موحوم کی جائداد، جمع جتھا اور بینک بیلنس کے بٹوارے پر پسماندگان میں خون خرابا نہیں ہوتا کیونکہ سب ڈاکٹروں کے حصے میں آجاتے ہیں۔

ہماری گائکی کی بنیاد طبلے پر ہے۔ گفتگو کی بنیاد گالی پر۔

داغ تو دو ہی چیزوں پر سجتا ہے۔ دل اور جوانی۔

- مشتاق احمد یوسفی
 

شمشاد

لائبریرین
بہت دیر تک وہ یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ کافی نہایت مفرح ہے اور دماغ کو روشن کرتی ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں‌نے یہ مثال دی کہ ’’ابھی کل ہی کا واقعہ ہے۔ میں دفترسے گھر بے حد نڈھال پہنچا۔ بیگم بڑی مزاج ہیں۔ فوراً کافی کا TEA POT لا کر سامنے رکھ دیا۔‘‘

میں ذرا چکرایا ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

’’میں‌ نے دودھ دان سے کریم نکالی‘‘ انھوں‌ نے جواب دیا۔

میں نے پوچھا ’’شکر دان سے کیا نکلا؟‘‘

فرمایا، ’’شکر نکلی، اور کیا ہاتھی گھوڑے نکلتے؟‘‘

مجھے غصہ تو بہت آیا مگر کافی کا سا گھونٹ پی کر رہ گیا۔

"کافی" از مشتاق احمد یوسفی
 

شمشاد

لائبریرین
میرے پیر و مرشد مرحوم مشتاق احمد یوسفی (میں سلسلہ یوسفیہ کا مرید ہوں) نے اپنے زندگی میں صرف چار کتابیں لکھی تھیں۔ دو کتابیں "خاکم بدہن" اور "چراغ تلے" بہت چھوٹی ہیں، جبکہ ضحامت کے لحاظ سے "آب گُم" اور "زرگزشت" تھوڑی فربہ ہیں۔ اس چار کتابوں میں سے ان کے چند ایک چنیدہ اقوال پیش خدمت ہیں۔ امید ہے آپ کو پسند آئیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
وار ذرا اوچھا پڑے یا بس ایک روایتی آنچ کی کسر رہ جائے تو لوگ اسے بالعلوم طنز سے تعبیر کرتے ہیں۔ ورنہ مزاح ہاتھ آئے تو بت، ہاتھ نہ آئے تو خدا۔ (چراغ تلے)
 
Top