برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
معزز اساتذہ الف عین
محمد احسن سمیع: راحل
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی

آداب ۔۔۔۔۔۔

آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے____


داستاں اپنی کبھی مجھ سے سنائی نہ گئی
حالتِ قلب کی تصویر دکھائی نہ گئی

بزم ساقی میں سبھی تشنۂ لب بیٹھے ہیں
آج کیا بات ہے کہ مے بھی پلائی نہ گئی

جد امجد کے جمع کردہ تھے اسباب بہت
ایک پائی بھی مگر ہم سے بچائی نہ گئی

جل رہا ہے دلِ پُر سوز مسلسل دن رات
آگ اُس نے وہ لگائی جو بجھائی نہ گئی

بزم یاراں کی وہی جان وہی رونق تھا
بعد اُس کے کوئی محفل بھی سجائی نہ گئی

کیسے محفوظ وہ رکھتے تری جاہ و حشمت
آبرو اپنی فقط جن سے بچائی نہ گئی

اے سحر ! تجھ کو ڈبو دے گی طلسمی دنیا
بعد میں رونا کہ اک نیکی کمائی نہ گئی
 
داستاں اپنی کبھی مجھ سے سنائی نہ گئی
حالتِ قلب کی تصویر دکھائی نہ گئی
مطلع ویسے تو ٹھیک ہے، تاہم دوسرے مصرعے میں مجھے تصویر زائد اور غیر ضروری لگتا ہے۔ یوں بھی تو کہہ سکتے ہیں
حالت اس دل کی کسی کو بھی دکھائی نہ گئی

بزم ساقی میں سبھی تشنۂ لب بیٹھے ہیں
آج کیا بات ہے کہ مے بھی پلائی نہ گئی
تشنۂ لب کی ترکیب درست نہیں، یہاں تشنہ لب بغیر کسرۂ اضافت کے آئے گا۔ تشنۂ لب کا تو مطلب ہوا ہونٹوں کا پیاسا، جو بے معنی بات ہے۔ پھر تشنۂ لب کے متصل بیٹھے آنے سے تنافر بھی پیدا ہوتا ہے۔

بزم یاراں کی وہی جان وہی رونق تھا
بعد اُس کے کوئی محفل بھی سجائی نہ گئی
دوسرے مصرعے سے اگر تعقید دور کر سکیں تو زیادہ مناسب رہے گا، یعنی بعد اس کے کے بجائے کسی طرح اس کے بعد کہیں۔

کیسے محفوظ وہ رکھتے تری جاہ و حشمت
آبرو اپنی فقط جن سے بچائی نہ گئی
آبرو اپنی ہی خود جن سے بچائی نہ گئی؟؟؟
لیکن آبرو کے مقابل جاہ و حشمت کے بجائے عزت ہی لانا چاہیے۔

اے سحر ! تجھ کو ڈبو دے گی طلسمی دنیا
بعد میں رونا کہ اک نیکی کمائی نہ گئی
دوسرے مصرعے میں ’’رونا‘‘ ٹھیک نہیں لگتا کہ پہلے مصرعے میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے تو دوسرے میں بھی اسی کو برقرار رکھنا چاہیے۔
 

الف عین

لائبریرین
مزید کچھ باتیں
بزم ساقی میں سبھی تشنۂ لب بیٹھے ہیں
یہاں تشنہ لباں کیا جا سکتا ہے، جمع کے صیغے میں

جد امجد کے جمع کردہ تھے اسباب بہت
ایک پائی بھی مگر ہم سے بچائی نہ گئی
... جمع کے م پر زبر نہیں، جزم آنی چاہیے، یا تو اسے 'بہم کردہ' کر دو، یا بہتر ہے کہ مصرع بدل دو، کہ جد امجد بھی اچھا نہیں لگتا
جمع کردہ بہت اسباب تو اجداد کے تھے

بعد میں رونا کہ اک نیکی کمائی نہ گئی
.. نیکی کمائی میں نیکی کی ی کا اسقاط اور متصل کمائی کا ک کی وجہ سے تنافر بھی پسندیدہ نہیں
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اُستاد محترم جناب الف عین
محمد احسن سمیع:راحل

آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے______


داستاں اپنی کبھی مجھ سے سنائی نہ گئی
حالت اس دل کی کسی کو بھی دکھائی نہ گئی

بزم ساقی میں سبھی تشنہ لباں بیٹھے ہیں
آج کیا بات ہے کہ مے بھی پلائی نہ گئی

جمع کردہ بہت اسباب تو اجداد کے تھے
ایک پائی بھی مگر ہم سے بچائی نہ گئی

جل رہا ہے دلِ پُر سوز مسلسل دن رات
آگ اُس نے وہ لگائی جو بجھائی نہ گئی

اُس نے الفاظ کے جو تیر چلائے تھے کبھی
آج تک ذہن سے وہ بات بھلائی نہ گئی

کیسے محفوظ وہ رکھتے تری عزت آخر
آبرو اپنی ہی خود جن سے بچائی نہ گئی

اے سحر ! اُس کا رخ ناز تھا روشن اتنا
اُس سے اک لمحے کو بھی آنکھ ملائی نہ گئی
 

الف عین

لائبریرین
آج کیا بات ہے کہ مے بھی پلائی نہ گئی
کہ' کم از کم میں تو دو حرفی استعمال میں پسند نہیں کرتا۔ یہاں بھی کہ کی بہ نسبت' جو' بہتر لگتا ہے مجھے
اور
اُس نے الفاظ کے جو تیر چلائے تھے کبھی
آج تک ذہن سے وہ بات بھلائی نہ گئی
فاعل دوسرے مصرعے میں' وہ بات' ہے لیکن پہلے مصرع میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ کیا بات۔ اگر اسے مبہم بھی رکھا جائے تو بھی پہلے مصرع کا فاعل جو الفاظ کے تیر ہیں، وہ میل نہیں کھاتے۔ شاید اسے مجہول کر دو تو چل جائے یعنی
اس کے الفاظ کے وہ تیر چلے تھے اک دن
باقی مجھے درست لگ رہی ہے غزل
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
آج کیا بات ہے کہ مے بھی پلائی نہ گئی
کہ' کم از کم میں تو دو حرفی استعمال میں پسند نہیں کرتا۔ یہاں بھی کہ کی بہ نسبت' جو' بہتر لگتا ہے مجھے
اور
اُس نے الفاظ کے جو تیر چلائے تھے کبھی
آج تک ذہن سے وہ بات بھلائی نہ گئی
فاعل دوسرے مصرعے میں' وہ بات' ہے لیکن پہلے مصرع میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ کیا بات۔ اگر اسے مبہم بھی رکھا جائے تو بھی پہلے مصرع کا فاعل جو الفاظ کے تیر ہیں، وہ میل نہیں کھاتے۔ شاید اسے مجہول کر دو تو چل جائے یعنی
اس کے الفاظ کے وہ تیر چلے تھے اک دن
باقی مجھے درست لگ رہی ہے غزل
شکریہ سر
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
آج کیا بات ہے کہ مے بھی پلائی نہ گئی
کہ' کم از کم میں تو دو حرفی استعمال میں پسند نہیں کرتا۔ یہاں بھی کہ کی بہ نسبت' جو' بہتر لگتا ہے مجھے
اور
اُس نے الفاظ کے جو تیر چلائے تھے کبھی
آج تک ذہن سے وہ بات بھلائی نہ گئی
فاعل دوسرے مصرعے میں' وہ بات' ہے لیکن پہلے مصرع میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ کیا بات۔ اگر اسے مبہم بھی رکھا جائے تو بھی پہلے مصرع کا فاعل جو الفاظ کے تیر ہیں، وہ میل نہیں کھاتے۔ شاید اسے مجہول کر دو تو چل جائے یعنی
اس کے الفاظ کے وہ تیر چلے تھے اک دن
باقی مجھے درست لگ رہی ہے غزل


اُس کے الفاظ کے وہ تیر چلے تھے اک دن
آج تک ذہن سے وہ بات بھلائی نہ گئی

سر یہاں دونوں مصرعوں میں "وہ" رپیٹ ہو رہا ہے۔پہلے مصرعے کے وہ کو جو سے بدل دیں تو کوئی مضائقہ ہے؟
 
Top