اسکین دستیاب نورتن

محمل ابراہیم

لائبریرین
ریختہ صفحہ 361


گفتگو دو بدو سن کر وہ فقیر روشن ضمیر ایک ڈھیلا بڑا سا اُس کے سر پر مار کر خاموش ہو گیا ۔

وہ شخص بہ نالہ و زاری بہ صد بے قراری قریب قاضی کے جا کر مستغاثی ہوا کہ " میں نے فلانے درویش جفا کیش سے تین سوال کیے تھے ، سو اُس کا جواب با صواب اُس عذاب کا دیا کہ مارے درد سر کے میرا سراسر حال ابتر ہے ۔ " القصہ قاضی مرد ریاضی نے اُس درویش خیر اندیش کو بلوا کر کہا کہ " اے فقیر روشن ضمیر ! تو نے اُس بے تقصیر ، تن حقیر کو کیوں ڈھیلا مارا کہ جس سے یہ دل تنگ جان سے بہ تنگ ہے " اُس کے جواب میں وہ درویش دل ریش کہنے لگا کہ " وہ ڈھیلا اُس کے سوال فرخندہ فال کا جواب با صواب ہے لیکن یہ نہیں سمجھا ، نہیں تو پتھر کا ہو جاتا ، یعنی اُس کو چھوٹ اثر نہ کرتی اور مانند بت خاموش و بے ہوش رہتا ۔ اے قاضی مرد ریاضی ! اول سوال کا جواب یہ ہے کہ اُس سے پوچھیے کہ درد سر کی کیا صورت ہے اور کہاں سے آتا ہے کہ جس سے اُس کا ناک میں دم ہے ۔ جو یہ اپنے درد سر کی شکل مجھ کو دکھلا دے تو میں بھی اُس کو خدا کو دکھلا دوں ، اور دوسرے یہ جو کہتا ہے کہ جو کرتا ہے خدا کرتا ہے ، اُس کے ہے ارادت کچھ نہیں ہوتا ، تو پھر یہ میری نالش تمہارے پاس کیوں لایا ؟ وہ تو جو کچھ کیا اللہ تعالیٰ نے کیا ، مجھ مجبور کا کیا قصور ، اور تیسرے یہ جو کیا ہے کہ شیطان بے ایمان کو آتش دوزخ نہ عذاب دیکھا وے گی کیوں کہ دونوں کی ایک سرشت ہے کیوں کہ بقول شخصے : مثل


ٹھٹھیرے ٹھٹھیرے بدلائی نہیں ہوتی ہے


پس اگر یہی سمجھا تھا ، پِھر خاک سے اُس کی خاک



ریختہ صفحہ 362




ناپاک کو کیوں رنج و الم پہنچا کیوں کہ ڈھیلے کی سرشت اور اُس کی ایک ہے ۔" یہ تقدیر پُر تاثیر اُس فقیر پُر تاثیر کی قاضی مرد ریاضی سن کر لاجواب ہوا ۔



ابیات


مرد دانا تھا کہ سن کر یہ جواب

پھر زباں پر وہ نہ لایا کچھ خطاب

لیکن اے مہجور ! اُس کا مدعا

فی الحقیقت خوب رنگیں نے کہا

" وہ جو احمق ہے نہیں اُس کا علاج

وہ نہ کل سمجھا ہے سمجھے گا نہ آج"


چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ارشاد کرتے ہیں کہ مشیت ربّانی اور ارادت یزدانی سے لاکھ مردۂ بے جان کو زندہ کر سکتا ہوں اور ہزار نا بینا کو طرفتہ العین میں بینا کرتا ہوں لیکن ایک احمق مطلق کو دانا نہیں کے سکتا ہُوں ، اور ہندی مثل مشہور و معروف ہے : مثل


گدھا پیٹے سے گھوڑا نہیں ہوتا


چنانچہ شیخ سعدی کہتے ہیں : شعر



خر عیسیٰ اگر بہ مکّہ رود

چوں بیاید ہنوز خر باشد



______________


نقل ہے کہ ایک عزیز با تمیز دانائے دہر اور یکتائے عصر ایک امیر صاحب توقیر کے مکان دل ستاں میں وقت اختتام شام وارد ہوا ؛ چنانچہ صاحب خانہ نے اُس کو دیوان خانۂ عالی شان رشک گلستان میں صدر نشین کیا ، بد ایک پاس شب پُر طرب اُس عالی مقدار والا تبار نے بہ تکلف تمام اقسام اقسام طرح طرح


ریختہ صفحہ 363


کے کھانے ذائقے دار مع مربے و اچار دستر خوان محمودی پر اُس شیریں زبان رطب البیان کے سامنے حاضر کیے ، چناچہ حسبِ اتفاق اُس دسترخوان پر الوان پر نقرئی کباب خوری میں ہفت عدد بیضۂ مرغ نیم برشت انجم سرشت ایسے جلوہ گر تھے کہ اُن کی آب داری کے آگے در یتیم بھی یتیم معلوم ہوتے تھے ، لیکن اُس دسترخوان پُر الوان پر ایک تو صاحب خانہ اور دوسری اُس کی منکوحہ مع دو فرزند ارجمند ، یہ چار اشخاص خاص ایک گھر کے اور پانچواں وہ مہمان عالی شان ۔ یہ سب شگفتہ لب اُس دسترخوان دل ستاں پر جلوہ کناں تھے اور بیضۂ مرغ رشک انجم سات عدد جو تھے اُس واسطے صاحب خانہ نے سادگی سے مہمان ذی شان سے کہا " اے عزیز با تمیز ! اُن بیضوں کی تقسیم تعمیم تیرے وقوف پر موقوف ہے مگر دانائی ، اے بھائی ! یوں چاہتی ہے کہ بیضۂ مرغ ایک نہ ٹوٹے اور ساتوں بیضے پانچ آدمیوں میں برابر قسمت ہو جائیں ۔ "

غرض اُس عزیز با تمیز نے " الامر فوق الادب " کہہ کر ایک بیضہ تو صاحب خانہ کے آگے رکھ دیا اور ایک بیضہ آپ لے لیا اور دو بیضے دونوں بیٹوں کو عنایت کیے اور تین بیضے اُس کی زن رشک چمن کے حوالے کر دیے ۔ یہ ماجرا حیرت افزا اُس مرد خدا کہ صاحب خانہ دیکھ کر کہنے لگا " اے عزیز بے تمیز ! یہ حصہ پُر قصہ تو نے کس منصفی سے کیا ؟" یہ سخن دل شکن صاحب خانہ وہ مہمان بے خانماں یوں حرف زن ہوا کہ " اے بندہ نواز ریش دراز ! بہ چشم انصاف صاف ملاحظہ کر کہ ایک بیضہ مرغ کا اور دو بیضے خفیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تین بیضے تیرے پاس بلا وسواس ہوئے يا نہیں اور اسی قبیل پُر دلیل سے تیرے بیٹوں کے اور میرے پاس

__________________________________

۱۔ یہاں سے ایک لفظ پر بنائے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔


ریختہ صفحہ 364



تین تین بیضے موجود ہیں مگر تیری جورو مہ رو کے پاس کوئی بیضہ خفیہ نہ تھا ، اُس واسطے اُس کو کڑک مرغی سمجھ کر میں نے مرغ کے تین بیضے دیے تا کہ ہم سب کے برابر ہو جائے " غرض اُس تقسیم دل دو نیم کی تفصیل بے عدیل سن کر وہ مرد بے دلیل کمال نادم ہوا۔

خیر و شب تو گزری ، پِھر بہ وقت نصف النہار ایک بار وہ پانچوں اشخاص خاص بے شش و پنج برائے تناول تعام لذت التیام جو مستعد ہوئے تو اُس وقت دسترخوان غیرت گلستان پر چار مرغ بریان خجلت وہ گل ارغوان ایسے تیار و خوش گوار ہو کر آئے کہ جس کی بو باس سے مشام قلب سے طائرِ گرسنگی پرواز کرنے لگا ۔ اُس صاحب خانہ خفت خوردہ نے پھر بہ پاس خاطر عاطر مہمان کہا

"اے مجمع الکرامات و اے منبع الکمالات اُن کبابوں کی بھی تقسیم بہ طرز قدیم تیری رائے پر موقوف ہے ۔ " غرض اُس با تمیز نے کہا " کیا مضائقہ : مصرع



اگر یوں ہے مرضی تو کیا ہے خلل


یہ مصرع پڑھ کے ایک مرغ بریان اُس مہمان بے گمان نے صاحب خانہ اور اُس کی منکوحہ کے آگے رکھ کے کہا " یہ ایک مرغ تم دونوں کے حصے میں ہے " اور ایک مرغ اُس کے دونوں بیٹوں کے آگے رکھ دیا اور دو مرغ بریان دل خستہ وابستہ اپنے سامنے رکھے ۔ یہ تقسیم ذمیم صاحب خانہ دیکھ کر کہنے لگا " اے نامعقول بے عقول ! یہ حصہ پُر غصہ تو نے کیسا کیا کہ ایک مرغ ہم دونوں آدمیوں میں دیا اور دو مرغ تُجھ اکیلے نے لیے ۔


قطعہ


منصفی اپنے دل میں آپ تو کر ایسی تقسیم ہے کہیں بہتر


ریختہ صفحہ 365


غیر کو کیا غضب کہ کم دیجے ہاتھ سے اپنے خود بہت

لیجے


یہ گفتگو اُس نیک خو کی سن کر مہمان تیز زبان کہنے لگا کہ " اے نا فہم ! سمجھ تو دل میں کہ ایک مرغ اور تم جورو خاوند یہ تین پورے ہوئے یا نہیں ؛ اور اس طرح ایک مرغ اور تیرے دونوں بیٹے ، یہ بھی تین دل نشین کر لے اور دو مرغ ایک میں تن تنہا ، یہ بھی حساب سے ، اے بے حجاب ! درست اور چست ہیں ؛ کچھ اس میں مطلق کم و زیادہ نہیں ، جی میں سمجھ تو ، تونے کون سی تقصیر اور نا انصافی کی بات میری طرف عائد کی ۔"

یہ گفتگو اُس بد خو کی سن کر صاحب خانہ بہت کڑکڑایا اور اپنے خادموں سے کہنے لگا کہ " اُس مرغے بے ہنگام دل بے دام سے کہہ دو کہ میرے غریب خانے سے نکل جائے ، ورنہ مجھ کو کمال کوفت ہوگی کیوں خ اُس کی ہر ایک نوک جھوک دل کو خار لگتی ہے ۔ یہ کیا غضب ہے کہ جس کا دانہ پانی کھائے اور اُس کو ڈنکے کی چھوٹ یوں لام کاف سنائے ! اُس کی وہ مثل ہے کہ :


٫ جس رکابی میں کھاتا ہے اُسی میں چھید کرتا ہے،


یہ بات اصیل زادے اور نجیب الطرفین سے نہایت معیوب ہے ۔ آج کوئی محتاج بے زر بے پر کو اُس طرح حقیر اور نے توقیر نہیں کرتا ہے جس طرح یہ مرغا مجھ کو اڑا اُڑا کر دباتا ہے ، سچ تو یوں ہے : شعر


اُس سے کس طرح کوئی بر آئے

جس کو غیرت نہ کچھ نظر آئے


یہ سخن دل شکن صاحب خانہ کہ سن کر مہمان پر طوفان



ریختہ صفحہ 366



کہنے لگا " اے یارو ! "


ابیات


کیوں نہ عالم تمام ہووے تباہ

منصفی اُڑ گئی جہان سے آہ

یہ زمانہ بھی ہے عجب ڈھب کا

سچ جو بولے وہی ہے دیوانا


یہ اشعار وہ مہمان زبان طراز پڑھ کے اپنے گھر کو روانہ ہوا اور صاحب خانہ اُس کی گفتگو عربدہ جو سے نہایت خشم گیں ہوا ۔


قطعہ


سچ ہے مہجور مردمان عقل

نئی کرتے ہیں ہر سخن کی دلیل

نہیں ہوتے ہیں وہ کسی جا بند

لاکھ ڈھب کی کرے کوئی گر جھند

__________


نقل ہے کہ ایک دانش مند افلاس کا درد مند بہ دستِ بخت سیاہ بہ حال تباہ اپنے شوہر سے جو کسی اور شہر مینو چہر میں وارد و صادر ہا تو وہاں لوگوں نے اُس کے احوال پر ملال کو دریافت کر کے کہا کہ " اے عزیز صاحب تمیز ! اُس شہر میں ایک شخص رشک حاتم طائی مولائی رہتا ہے ، اگر تو اُس کے پاس بلا وسواس جائے تو غالب ہے کہ تیرا دستِ تہی اُس کے جود و سخا سے پر ہو جائے " وہ دانش مند حال کثیف اور صورت نحیف سے اُس امیر صاحب توقیر کے قریب گیا لیکن وہ ظاہر پرست عقل پست غرور و کبر اور استغنا سے اُس غریب بے نصیب کو مطلق خیال میں نہ لایا بلکہ اُس دور افتادہ



ریختہ صفحہ 367


غم آمادہ کے قریب بیٹھنے کا بھی روا دار نہ ہوا ۔ وہ دانش مند درد مند شرمندہ ہو کر بہ صد ندامت و خجلت کسی مسجد میں جا کر سو رہا ۔ چند روز کے بعد لباس پاکیزہ بہ کرایہ لے کر اپنے تن پر آراستہ و پیراستہ کیا اور اُس ظاہر پرست نو دولت کے قریب بہ صد تہذیب جا کر ہم زانو ہوا ۔ وہ دنیا دار ایک بار بے اختیار تعظیم و تکریم عمیم بجا لایا اور کھانے کو طعام خوش گوار بہ تکلف بسیار مع مربہ و اچار حاضر ہوا ۔ وہ دانش مند ، عقل مند دستر خوان الوان پر بیٹھ کر لقمہ ہائے طعام مقوی مشام اپنے دامن آستین میں رکھنے لگا ۔ یہ واردات واہیات دیکھ کر صاحب خانہ کہنے لگا " اے عزیز بے تمیز ! اپنا لباس کھانے سے ستیاناس کیوں کرتا ہے ؟ یہ طعام ، اے ناکام ! کھانے کے واسطے ہے مگر کپڑے خراب کرنے کو نہیں ہے ۔" یہ کلام نافر جام اُس ناکام کا سن کر وہ کہنے لگا " اے عزیز بے تمیز ! اول روز یہ جگر سوز تیرے پاس بلا وسواس اُس حالت کثیف سے آیا تھا ، تو نے مطلق التفات نہ کیا اور آج یہ محتاج پوشاک نفیس سے تیرے قریب جو آیا تو تو نے اُس قدر تکلف کیا کہ جس کا بیان ، بیان سے باہر ہے ؛ تو یہ طعام ، اے ناکام ! میرے لائق نہیں ہے ، جس کے واسطے ہے ، اُس کو میں کھلاتا ہُوں ۔


ابیات

اگر میری خاطر یہ ہوتا طعام

تو پہلے بھی دیتا مجھے لا کلام

یہ بات اُس کی سن کر وہ ناداں امیر

ہوا اپنے دل میں بہت سا حقیر


ریختہ صفحہ 368


جو مہجور دنیا میں نادان ہیں

وہ باتوں سے اپنی پشیمان ہیں

جو دانا ہیں اُن کا ہمیشہ سخن

دل و جان سے سنتے ہیں سب مرد و زن

___________




نقل ہے کہ ایک بادشاہ عالی جاه قصر بلند پر بیٹھا مردمان رہروان کا نظارہ کناں تھا کہ یکایک طائرِ نظر قفس چشم سے پرواز کر کے ایک طرف کو جا پڑا تو کیا نظر آیا کہ ایک شخص ہاتھ میں مرغ لیے مثل طمعہ اِدھر دکھا رہا ہے ۔ اُس بادشاہ جم جاہ نے اُس کو قریب بلوا کر کہا " اے عزیز بے تمیز ! یہ مرغ نو گرفتار تیرے چنگل نا بکار میں کیا ہے ؟" وہ ذو فنون فیلسوف یہ سخن پُر فن زبان پر لایا کہ " اے شہنشاہِ گیتی پناہ ! اس غلام نا کام کا مرغ کشتی چڑھا اُس مہینے کے درمیان کئی پالیاں گھٹ گیا تھا ، آخر کار نا چار اپنی نا اقبالی سمجھ کر اُس تیرہ بخت نے آج وہ مرغ آپ کی طرف سے بازی لگا کر لڑایا ، سو آپ کے اقبال فرخندہ فال سے وہ مرغ بڑھ گیا ، اُس واسطے آپ کی خدمت فیض درجت میں یہ مرغ بازی کی جیت کا لایا ہُوں ، اُس کو قبول بے عدول کیجئے ۔" بادشاہ نے وہ مرغ اُس مرغے سے یہ سمجھ کر لے لیا ، بہ قول شخصے : مثل

" مفت کی شراب قاضی بھی پی جاتا ہے"

اور اس کے سوا :

" مفت را چہ گفت "

الحاصل وہ مرد عاقل دو چار روز کا وقفہ دے کے ایک گوسفند دل پسند لے کر بادشاہ گیتی پناہ کی خدمت فیض درجت


ریختہ صفحہ 369


میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ " یہ بھی آپ کے نام نیک انجام سے بازی میں جیتی ہے ، اُس کو بھی باورچی خانے میں بھجوا دیجئے ۔" بادشاہ نے وہ بھی مال مفت سمجھ کر لے لی ۔ چند روز کے بعد وہ دانش مند خود پسند ایک شخص رو سیاہ کو ہمراہ لے کر آیا اور بادشاہ جم جاہ سے کہنے لگا " اے حضرت سپہر کرامت ! میں بد خصلت آپ کی طرف سے دو ہزار روپے اُس شخص سے بازی لگا کر چوسر کھیلا تھا ، سو ہار گیا ؛ دو ہزار روپے خزانۂ عالی متعالی سے عنایت کیجیے تا کہ غلام اُس بازی جان بازی سے نجات پائے ۔" یہ سخن واہیات اُس سخن دہن سے سن کر بادشاہ متبسم ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ " سو سنار کی ایک لہار کی " یعنی اُس نے اچھی ضرب لگائی ۔" غرض بادشاہ عالی جاہ نے اُس کو دو ہزار روپے دلوا کر کہا " اے عزیز بے تمیز ! اب جو کچھ ہوا سو ہوا ، الماضی لا یذ کر ، لیکن میرے نام نیک انجام کی پھر کسی سے بازی نہ لگانا ۔


قطعہ


نہ اب تُجھ سے بازی میں لوں گا کبھی

نہ اس طرح کی ہار دوں گا کبھی "

غرض دل میں مہجور وہ بادشاہ

بہ غایت ہوا شرم گیں بے گناہ


نقل ہے کہ ایک بادشاہ جم جاہ نے ایک منجم پر فہم سے پوچھا کہ " اے اختر شناس نیک اساس ! دیکھ تو ، میرا گل زندگی باغ جہاں میں کب تک شگفتہ رہے گا اور خزان اجل میری بہار زیست کو کب پت جھڑ کرے گی ؟" یہ کلام بادشاہ عالی مقام کا سن کر وہ منجم بے غم یوں حرف زن ہوا کہ


ریختہ صفحہ 370


"اے رونق بوستان حشمت و اے زینت گلستان دولت ! علم نجوم سے یوم معلوم و مفہوم ہوتا ہے کہ آپ کا گل زیست گلشن ہستی میں تیس برس کے بعد صرصر اجل سے مرجھائے گا : شعر

اگر جھوٹ ہو اس میں اے شہر یار !

تو اس برہمن کو سمجھنا چمار "


یہ سخن دل شکن اُس برہمن کا سن کر بادشاہ عالم پناہ نہایت ملول غم شمول ہوا ؛ یہاں تک کہ دو چار روز میں وہ دل فگار اس قدر نحیف و نزار ہو گیا جیسا کہ مہینوں کا بیمار ہوتا ہے ۔ یہ احوال پُر ملال بادشاہ فرخندہ فال کا وزیر نیک خصلت دیکھ کر یوں گویا ہوا کہ " اے شہنشاہِ گیتی پناہ !

بہ قول میر حسن : شعر

رہے جاہ و حشمت یہ تیرا مدام

بہ حق محمد علیہ السلام

یہ غلام نا کام خدا وند نعمت ، سپہر کرامت کو کئی روز سے نحیف و نزار دیکھتا ہے ، اس کا موجب و سبب کیا ہے ؛ خانہ زاد موروثی کو دریافت ہو تا کہ اُس کی تدبیر پُر تاثیر کی جائے ۔" یہ گفتگو وزیر نیک خو کی گوش زد فرما کے بادشاہ کہنے لگا " اے وزیر صاحب توقیر ! کچھ نہ کُچھ : شعر

میں پر غم اس لیے بلبل صفت دن رات نالاں ہوں

کہ باغ دہر میں گل کی صفت کچھ دن کا مہماں ہوں"

المدعا وزیر دل پزیر احوال پُر ملال کے اظہار و انکشاف پر جب نہایت در پے ہوا تو بادشاہ جم جاہ نے یہ دیدۂ گریان ، بہ دل بریان یوں زبان کو نطق سے آشنا کیا کہ " اے وزیر دل پذیر !
 

محمد عمر

لائبریرین
271

حکایت

ایک زن فاحشہ نے اپنے بیٹے کو مار ڈال کر ایک زنِ ہمسایہ کے گھر میں گرا دیا اور قاضی سے جا کر استغاثہ کیا کہ فلانی عورت نے میرے پسر رشک قمر کو مار ڈالا ہے، میں قصاص چاہتی ہوں؛ قاضی نے دانائی سے دریافت کر کے انفصال کر دیا

عاقلانِ دوست پرور اور ناقلانِ دشمن منظر ایک زن پُر فن کی یوں حکایت پُر شکایت بیان کرتے ہیں کہ وہ نابکار ناہنجار ہمسایۂ ماں جایا میں ایک عورت نیک خصلت دشمنی دلی رکھتی تھی مگر وہ نیک خُو اُس عربدہ جُو کے قابو پر کبھی نہ چڑھتی تھی۔ قضائے کار ایک روز رات کو اس زنِ پُر فن نے شراب ناب پی کر آپ کو اس قدر سرشار کیا کہ اُس نشے کے عالم میں اپنے پسرِ جان پرور کو خنجرِ آب دار سے ذبح کر کے زنِ ہمسایہ کے گھر میں پھینک دیا اور وقت علی الصبح وہ رو سیاہ قاضی کے پاس جا کر اُس عورتِ خجستہ پیکر پر یوں داد خواہ ہوئی کہ ”اے قاضی شہر! میرا فرزند دل بند اس کم بخت نے آہ! بے گناہ قتل کیا ہے، اگر یہ بھی سیاست سے قتل ہو تو میری تسکین خاطر فاتر ہو، نہیں تو اے قاضی! میں اپنا بھی خون تیرے سامنے کروں گی اور بہ روز محشر قاضی الحاجات کے سامنے گریبان چاک تیری دامن گیر ہوں گی۔“ یہ کلام اُس بد انجام کا سن کر اول زنِ ہمسایہ کو خلوت

272

میں لے جا کے قاضی نے یوں زبان کو سخن سے آشنا کیا کہ اے عورتِ نیک بخت! راست راست کہہ، نہیں تو واللہ باللہ تیرے تن بدن کی بوٹیاں کاٹ کر چیل اور کوؤں کو کھلوا دوں گا۔“ یہ گفتگو قاضی نیک خو کی وہ زنِ کم سخن گوش زد کر کے کہنے لگی کہ ”اے قاضئ شرع متین وائے مسند نشینِ ختم المرسلین! قسم ہے اُس خالقِ جن و انس کی، میں نے اس طفل بے گناہ کو آہ نہیں مارا؛ یہ مجھ پر اتہامِ پُر الزام ناحق ہے، بہ قول شخصے : مصرع

کہ اس کا خدا عالم الغیب ہے

قاضی نے کہا ”اے عورت نیک بخت! اگر تو نے اس طفل صغیر کو نخچیر نہیں کیا، تو میرے سامنے سر تا پا برہنہ ہو جا کہ مجھ کو صاف صاف دریافت ہو کہ تو اس حرکت سے مبرّا ہے“ یہ سخن دل شکن قاضی سے وہ عورت صاحبِ عصمت سن کر سر بہ گریبان خجلت کھینچ کر کہنے لگی ”'اے قاضی عیب پوش گنہ گاراں و اے ردائے بے ستراں! مجھ کو قتل ہونا منظور مگر میں تیرے حضور تا بہ مقدور بے ستر سراسر نہ ہوں گی۔“

غرض قاضی نے ہر چند اس درد مند کو سیاست سے دھمکایا اور ڈرایا کیا لیکن وہ برہنہ نہ ہوئی۔ غرض قاضی نے اس کو رخصت کیا اور اُس زن فاحشہ فاسقہ کو خلوت میں طلب کر کے کہا کہ ”اے زن پُر فن! تیرا سخن مجھ کو باور نہیں آتا ہے لیکن میرے رو برو سر سے تا پا برہنہ ہو تو البتہ تیرا کلام بد انجام مجھ کو صحت ہو“ اُس زن فاجرہ نے چاہا کہ آپ کو برہنہ کرے، وہی قاضی مرد ریاضی نے اس حرکات و سکنات نادانستہ سے منع کیا اور یوں کہا ”اے زن پُر فن تو نے اپنے

273

بیٹے کو آپ ذبح کیا ہے؛ اس نیک بخت صاحب عصمت کو کیوں متہم کرتی ہے“ غرض کئی کوڑے جو اُس کے سراپا پر پڑے تو وہ اقرار کنان ہوئی کہ واقعی یہ تقصیر کبیر مجھ سے ہی سر زد ہوئی۔ القصہ قاضی نے اُس قحبہ نابکار بد کردار کو دار پر کھینچا:

مثنوی

تا نہ پھر کوئی ایسا کام کرے

نیک ناموں پہ اتہام کرے

یہی قاضی کو چاہیے مہجور

منصفی میں کرے ذرا نہ قصور

اور قاضی جو بد دیانت ہو

اُس پہ سارے جہان کی لعنت ہو

حکایت

ایک شخص سو دینار ایک پیر مرد کو سونپ کر سفر کو گیا اور سفر سے آ کر اپنی امانت کا جو طلب گار ہوا تو منکر وہ ناہنجار ہوا۔ مدعی نے پیش قاضی اظہار کیا، اس نے فراست سے انفصال کر دیا

پیرانِ روشن ضمیر اور جوانانِ خوش تقریر یہ حکایت بے نظیر بالائے قرطاس حریر یوں تحریر کرتے ہیں کہ ایک جوان مرد مسلمان نے ایک پیر تن حقیر کو صاحبِ ایمان مرد مسلمان سمجھ کر سو دینار سپرد کیے اور آپ برائے روزگار کسی اور شہر غدّار کو راہی ہو گیا۔ مدتِ مدید اور عرصۂ بعید کے بعد سفر سے آ کر اُس سا ہوکار طبع نے اُس جمع مار سے اپنی

274

امانت طلب کی تو اس مکار ناہنجار نے اقرار کا ٹاٹ الٹ کر یوں کہا کہ ”اے جوانِ پر بہتان! تو مجھے تن حقیر دل گیر پر کس لیکھے سے تہمت کا دھڑا باندھتا ہے۔ اے دوالیے بد اعمال! یہ تیری آنٹ سانٹ مجھے سود نہ کرے گی؛ چل دور ہو میرے آگے سے، نہیں تو ایسا ماروں گا کہ تیری مشیخت بہی پہی پھرے گی:

شعر

میں نہیں واقف ترے دینار سے

سر پھراتا ہے عبث تکرار سے

یہ گفتگو عربدہ جُو اُس پیر بے پیر کی سن کر وہ جوان قاضئ شہر کے آگے داد خواہ ہوا۔ قاضی مرد ریاضی نے اس پیر تن حقیر کو بلا کر جو پوچھا تو وہ مال مردم خور منہ زور منکر ہو گیا۔ قاضی شرعِ شریف نے اُس جوان حیران سے کہا کہ ”اے عزیز با تمیز! تو اس بات کا کوئی گواہ اور شاہد بھی رکھتا ہے یا نہیں؟“ اس جوان با ایمان نے کہا ”اس امر کا گواہ حسبِ دل خواہ سوائے اللہ واللہ باللہ کوئی نہیں“ چار و نا چار قاضی نے از روئے شرع شریف اس پیر بے پیر سے کہا ”اے ضعیف دل نحیف! تجھ پر قسم واجب ہے“ یہ کلام قاضئ عالی مقام کا سن کر وہ جوان دل پریشان کہنے لگا ”اے قاضی منصف زمان و اے عادل جہاں! اس دروغ گو کو قسم کھانے سے مطلق باک نہیں ہے۔ ایک قسم کیا یہ ہزار قسموں کو بحث لغو سمجھتا ہے“ :

شعر

قسم کا مجھے اس کی کیا اعتبار

کہ یکتا ہے جھوٹوں میں وہ بد شعار

قاضی نے کہا ”اے جوان عالی شان! تو نے جس وقت زر نقد

275

اُس کے صرۂ دست میں دیا تھا، اُس وقت یہ کس مکان پُر بہتان پر بیٹھا تھا؟“ اُس جوان با ایمان نے کہا ”اس وقت یہ قاطع الشجر نخلِ بے ثمر اکیلا ایک کیلے کے درخت کے نیچے بیٹھا تھا“ قاضی نے کہا ”اے جوان نادان! پھر تو نے کیوں کہا کہ میرا کوئی گواہ حسب دل خواہ نہیں؛ تیرا گواہ کامل اور شاہد عادل موجود ہے، جا اُس درخت سبز رخت کو لے آ، وہ تیری گواہی دے جائے گا“ یہ سخن حیرت انگیز سن کر وہ پیر مرد اس دم متبسّم ہوا اور وہ جوان دل پریشان نے کہا ”اے قاضی مرد ریاضی! درخت نیک بخت یہاں کیوں کر آئے گا؟‘‘ قاضی شرع متین اور حاکم دین نے کہا کہ ”میری مہر خاص اُس کے پاس لے جا اور اپنی مہر خاموشی کو لب تقریر سے دور کر کے کہنا کہ ’اے درخت سبز رخت! تجھ کو شہر کا قاضی طلب کرتا ہے، یہ اُس کی مہر خاص میرے پاس موجود ہے، اس مہر سے مجھ کو سرخ رو کر اور روسیاہی نہ دے۔“

یہ کلام نیک انجام قاضی سے سن کر وہ جوان با ایمان مع مہر قاضی اُس درخت کی طرف روانہ ہوا۔ اس جوان دل پریشان کے روانہ ہونے کے بعد ایک گھڑی کا تغافل دے کے قاضی نے اُس پیر کار ناہنجار سے پوچھا کہ ”اے پیر روشن ضمیر! وہ ذی شان درخت کے قریب پہنچا ہو گا یا نہیں؟ کیوں کہ مجھے اور بھی قضایائے ضروری حضوری انفصال کرنے ہیں“ یہ سخن قاضی کی زبان سے وہ پیر بے پیر سن کر کہنے لگا کہ ”اے قاضی مرد ریاضی! مثل

ہنوز دہلی دور است

ابھی وہ گمراہ اثنائے راہ میں ہو گا“ یہ کلام اس بد انجام کا قاضی سن کر چپ ہو رہا۔ ایک دو گھڑی کے بعد وہ جوان

276

دل پریشان قاضی کے قریب آ کر یوں گویا ہوا کہ ”اے زینتِ مسند دین و اے نائبِ شرع متین! تیرے حکم پُر قہر کا وہ درخت سبز رخت مطلق شنوا نہ ہوا“ قاضی نے کہا ”اے جوان نادان! وہ درخت تیرے جانے کے بعد خود بخود آ کر گواہی دے گیا“ یہ سخن حیرت افگن وہ پیر سن کر کہنے لگا ”اے قافی مرد ریاضی! کوئی شجر پُر ثمر تو میرے رو برو نہیں آیا، اتنا جھوٹ بولنے سے کیا حصول اور فائدہ دے، کیا یہ شعر تیرے گوش زد میں ہوا؟ شعر

کسے را کہ گردد زبان دروغ

چراغ دلش را نہ باشد فروغ“

اس کے جواب میں قاضی نے کہا کہ ”اے پر تن حقیر! تو سچ کہتا ہے کہ درخت نیک بخت میرے قریب نہیں آیا مگر اس وقت مجھ کو اس درخت نے گواہی سے نونہال کیا کہ جس وقت میں نے تجھ پوچھا تھا کہ وہ جوان درخت کے قریب پہنچا ہو گا یا نہیں۔ تو نے اس کے جواب میں کہا تھا ’ابھی کیا ذکر ہے۔‘ پس اگر تو اُس درخت کی بیخ و بنیاد سے واقف نہ تھا تو یہ کلام نیک انجام تیری زبان سے کیوں کر سرزد ہوتا کہ ’ہنوز دھلی دور است‘۔ تو یوں ہی کہتا کہ ’میں کیا جانوں وہ درخت سبز کیاں سر سبز ہے۔‘ لیکن اس جوان با ایمان نے تجھ کو اس درخت کے نیچے روپے دیے تھے تو تیری زبان نادان سے بے ساختہ یہ سخن نکلا کہ ’وہ جوان تا حال اُس تک نہ پہنچا ہو گا۔‘ اب مکرنے سے کیا فائدہ، مثل ہے : مصرع

سخن راست پر زبان جاری

اور فی الحقیقت ہے کہ ’دریا کا ھگا منہ ہی پر آ رہتا ہے۔‘

277

اے پیر بے پیر! تیری اسی میں خیریت ہے اور عزت و حرمت ہے کہ اُس جوان مرد مسلمان کے سو دینار بلا تکرار حاضر کر، نہیں تو مارے درّوں کے تیرے بدن کا پوست اُدھیڑ ڈالوں گا۔“ غرض اس پیر شریر نے اُس جوان با ایمان کی وہ امانت بہ صد ندامت دی :

مثنوی

جب ایسے نہ ہوں صاحب انصاف لوگ

تو ہر ایک کو کیوں نہ حراف لوگ

کریں اپنی حرفت سے رسوائے خلق

عجب طرح کا ہے یہ ایمائے خلق

جسے یاد تو کچھ فریبوں کی بات

اُسے لوگ کہتے ہیں ہیں ’ہے نیک ذات‘

جسے ظاہرا کچھ بھی ایمان ہے

اُسے کہتے ہیں ’صاف شیطان ہے‘

اسی فکر میں ہائے مہجور اب

بسر اپنی کرتے ہیں اوقات سب

زہے بے تمیزی و بئ حاصلی

کہ در فکر دنیا ز دیس غافلی

278

حکایت

ایک ساہو کار نے پیری میں دوسری شادی کی اور اُس سے ایک بیٹا پیدا ہوا اور ساہو کار کے مرنے کے بعد دو بیٹے جو پہلی بی بی سے تھے، انہوں نے اس لڑکے کو حصہ نہ دیا اور کہا کہ یہ ہمارا بھائی نہیں ہے۔ اکبر بادشاہ نے انصاف سے اس کو حصہ دلوا دیا

منشیانِ کامل اور تواریخ دانانِ قصۂ مشکل، قصۂ راست و باطل کو بیانِ عدالت میں یوں فیصل کرتے ہیں کہ اکبر بادشاہ کے عصر میں ایک ساہوکار مال دار نے حالت پیری و ضعیفی میں اور شادی برائے خانہ آبادی کی، لیکن اس کی اگلی جورو متوفی سے دو پسر رشک قمر موجود تھے۔ غرض اس پیر کبیر کو جو روئے مہ رو جوان پُر ارمان ایسی ملی، گویا اُس کے گھر میں قسمت کی بہ دولت دوسری لچھمی آئی، لیکن وہ پیرِ حقیر اور یہ جوان پُر ارمان، عقدۂ ہوا و حرص کیوں کر وا ہوا۔ غرض وہ پری رخسار غیرتِ بہار ایک روز برائے تفریح طبع بالائے بام فرحت انجام، قریب شام جو گئی تو اپنے مکان عالی شان کے نیچے کیا دیکھی ہے کہ ایک جوانِ ماہ لقا مہر سیما بیٹھا قرآن مجید کی تلاوت کر رہا ہے۔ اس غم آمادۂ دلدادہ کو شوہر کا خوف مطلق نہ آیا۔ بہر صورت کوٹھے کے نیچے اُتر کر دست بستہ کھڑی ہو کر اس نوجوان با ایمان کے مصحفِ رُو کی تلاوت کرنے لگی۔ غرض وہ جوان با ایمان

279

بعد تلاوت قرآن اس کو دیکھ کر کہنے لگا ”اے ہمشیرہ صاحبہ! آپ کا اس جا بے موجب بے سبب کیوں کر آنا ہوا؟“ یہ کلام اس عالی مقام کا سن کر وہ مہ رُو دُو بدُو دل میں کہنے لگی :

مصرع

افسوس ہے صد ہزار افسوس

بہ قول شخصے : مصرع

جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی

یعنی یہ عزیز صاحب تمیز تو مجھ کو منہ سے بہن کہہ بیٹھا، اب کیا کروں : شعر

کوئی صورت نہیں ہے زندگی کی

رہی جاتی ہے جی میں بات جی کی

اس خیال پُر ملال میں وہ آئینہ رُو مانندِ آئینہ حیران و ششدر کھڑی تھی کہ اس عزیز با تمیز نے بہ صفائی دل پوچھا کہ ”اے آئینہ رو، نیک خُو! اس وقت تیرے دل میں کدورت اور عارسی کیوں آ گئی“ یہ سخن اُس رشکِ چمن کا سن کر وہ غنچہ دہن کہنے لگی ”اے غنچہ حدیقۂ خوبی و اے گلِ باغ محبوبی! اس وقت یہ بے سر و سامان، پُر ارمان تیرے عشق میں سیماب وار بے تاب و بے قرار ہو کر آئی تھی، لیکن تو وہ سخن دل شکن زبان پر لایا کہ جس کو سن کر مرغ دل قفس تن میں مثلِ بلبل تصویر خاموش ہے۔“ گفتگو اُس گل رو کی سن کر وہ جوان با ایمان یوں حرف زن ہوا کہ ”اے بہن رشک چمن! خدا کی عنایت اور کرامت سے تیرا شوہر والا گُہر موجود ہے، تو مضطر ناحق اس قدر حرص رکھتی ہے؛ برائے خدا اس حرکات نا شائستہ سے باز آ، یہ کلام

280

اس عالی مقام کا سن کر وہ زن ساہوکار دل فگار کہنے لگی کہ ”اے جوان نادان! اگر اُس باغبان کی نسیم مواصلت سے میرا گل مقصود شگفتہ ہوتا تو میں اس روش بے کلی سے تیرے گلے گا کیوں ہار ہوتی۔“ یہ احوال پر ملال زن ساہوکار کا سن کر وہ جوان با ایمان یوں گویا ہوا کہ ”اے بہن رشک چمن! اگر حرکاتِ شہواتِ نفسانی میں تو گرفتار ہے تو ایک کام نیک انجام کر کہ اپنے شوہر شکستہ کمر کو ہر روز مچھلی کے سر کو روغن گاؤ میں پکا کے روٹی کے ہمراہ خاطر خواہ کھلوا؛ ان شاء اللہ تعالیٰ تجھ کو گردابِ الم سے نجات ہو جائے گی اور تیرا حوضِ مطلب ابر کرم سے لبریز ہو جائے گا: شعر

غرض تیرا مقصد بہ فضل خدا

بر آئے گا دنیا میں اسے مہ لقا!“

الحاصل اُس کے دل کو جوان با ایمان نے اس تشفی اور تسلی سے بہ صد بشاشت رخصت کیا اور وہ زن ساہوکار گھر میں آ کر وہ عمل در پیش لائی۔ بعد چند ایام عنایت الہیٰ سے اس کا تیر مقصد ہدفِ مدعا پر لبِ معشوق ہوا اور یاس و نا امیدی گوشۂ دل سے پران ہو گئی۔ المدعا چند روز غم اندوز کے بعد وہ زن غنچہ دہن حاملہ ہوئی؛ اس عرصے میں اس ساہوکار عالی مقدار کی مایۂ زیست لوب کر دست قضا نے دوالا نکال دیا اور بعد چند ماہ اس رشک ماہ کے درج بطن سے ایک لعل بے بہا پیدا ہوا۔ رفتہ رفتہ وہ لڑکا مہر لقا جب پانچ چھ برس کا ہوا تو اُس کے سوتیلے بھائیوں نے اُس کی مادرِ خستہ جگر کو ورثۂ پدری سے خارج کیا۔ ہر چند اُس نے قاضی اور مفتی سے اپنا حال پُر ملال اظہار و آشکار کیا لیکن کوئی شنوا نہ ہوا، کس واسطے کہ اس کے داعیہ داروں نے حاکموں سے کہا کہ ”اس کا خاوند نہایت پیر حقیر تھا، اس کو

281

رجولیت اس قدر نہ تھی کہ جس سے یہ لڑکا پیدا ہوتا۔ خدا جانے یہ طفل بے نسل کس کی صلب سے ہے؛ ہم اس کو حصۂ پدری نہ دیں گے“ غرض زن ساہوکار گرفتار بلائے روزگار نہایت حیران و پریشان ہوئی۔

آخر کار چار و ناچار وہ دل فگار اکبر بادشاہ جم جاہ کے رو برو دُو بدو یوں حرف زن ہوئی کہ ”اے شہنشاہ گیتی پناہ! تیری عدالت کی ٹکسال میں میری مایۂ ریاست کی روکڑ ناحق ماری جاتی ہے، یعنی اُس کے خاوند کا مال بے زوال میرا فرزند دل ناد بند نہیں پاتا، اس کے بھائی سوتیلے سب کا سب اپنے قبضے میں کر بیٹھے ہیں۔“ القصہ بادشاہ عالم پناہ نے اُس کے داعیہ داروں کو طلب فرما کے جو احوال دریافت کیا تو وہ مال مردم خور منہ زور یوں گویا ہوئے کہ ”خداوند نعمت سپہر کرامت! یہ ہمارا بھائی الخدائی ہے، اس کو ہم ورثۂ پدری کس طرح دیں، کیوں کہ ہمارے باپ نے اس کی ماں سے حالتِ پیری میں شادی کی تھی؛ چنانچہ مشہور و معروف ہے کہ اُس کو رجولیت کی طاقت نہ تھی، خدا جانے یہ لڑکا کس کا زائیدہ ہے۔“

یہ سخن پُر فن اُن کے سن کر اکبر بادشاہ نے اس عورت نیک خصلت کو الگ طلب فرما کر پوچھا ”سچ کہہ کہ تیرا یہ لڑکا کس کے نطفے سے ہے؟ نہیں تو تیرا پیٹ چاک کر کے گردے نکلوا ڈالوں گا“ غرض اس زن کم سخن نے اُس جوان با ایمان کا تعشّق اور مچھلی کے سروں کا قصہ اکبر بادشاہ سے مشرحاً اظہار کیا۔ بعد دریافت حال پُر ملال بادشاہ نے قاضی اور مفتی اور کوتوال کو طلب کر کے ارشاد کیا ”اس زن بیوہ پر حیا کا انصاف تم نے صاف صاف کیوں نہ کیا جو

282

ہم تک اس کی نالش پہنچی؟“ اُن سب نے آپس میں ایک زبان ہو کر جواب دیا کہ ”خداوند نعمت سپہر کرامت! تحقیقات و انصاف کی رُو سے اس کے فرزند ارجمند کو ورثۂ پدری نہیں پہنچتا ہے“ یہ گفتگو دو بدو سن کو بادشاہ نے خادموں سے فرمایا کہ ”اس لڑکے کو حمام با آرام کروا لے آؤ۔“

المدعا جب وہ لڑکا بعد انفراغ حمام بہ خوشئ تمام حضور پُر نور میں حاضر ہوا، اُس وقت بادشاہ عالی جاہ نے ارشاد کیا کہ ”اس لڑکے کو روش پر اس روش سے دوڑاؤ کہ اس کے پھول سے بدن پر شبنم سا پسینہ نکل آئے، غرض وہ لڑکا جب خوب اِدھر اُدھر دوڑا، تمام بدن گلفام عرق عرق ہو گیا، تب بادشاہ نے اس کے پسینے کو رومال محمودی سے پچھوا لیا۔ اس کے بعد پھر اس کو خوب دوڑا کر، عرق پچھوا کر، رومال نچڑوا کر سونگھا تو اس کے پسینے سے مچھلی کی بو پیدا ہوئی۔ بادشاہ نے آب اُس کو سونگھ کر اور خادموں کو سونگھوا کر فرمایا کہ ”دیکھو اس میں کس شے کی بو آتی ہے؟“ ہر ایک نے اُس پسینے کو سونگھ کر عرض کی کہ ”اے ماہ کرامت و اے مہر حشمت! اس کے عرق میں ماہی کے مراتب کی بو معلوم ہوتی ہے“ تب بادشاہ عالی جاہ نے ہر ایک صاحب عدالت اور ارباب صداقت سے ارشاد کیا کہ ”اس عورت نیک خصلت سے دریافت کرو کہ اس کے شوہر شکستہ کمر کو دنیاداری کی طاقت ایک باری کس شکل سے ہوئی تھی“ غرض سب اھل عدالت نے جو اس سے پوچھا تو احوال نسخہ ماہی سقنقور کا ظہور ہوا؛ تب بادشاہ گیتی پناہ نے پُر غضب ہو کر فرمایا کہ ”تم لوگ یہی عدالت و انصاف کرتے ہو کہ جیسا اس زن کم سخن کا اعتراف کیا“ غرض بادشاہ عالم پناہ نے اس لڑکے کو ورثۂ پدری دلوا کر بہ دیدار بشاشت رخصت کیا۔

283

ابیات

غرض سچ تو یوں ہے میانِ جہاں

یہی منصفی چاہیے مہرباں

جو ایسے ہی عادل نہ ہوں بادشاہ

تو ہو جائے یک لخت عالم تباہ

جو مہجور منصف نہ ہوں شہریار

سدا اُن پہ ہو لعنتِ کرد گار

حکایت

ایک شخص حلوائی کی دکان پر مٹھائی لینے گیا اور اُس کا غلہ چرا کر منکر ہوا۔ حلوائی اکبر بادشاہ کے حضور میں اسے لے گیا، بادشاہ نے دانائی سے انفصال کر دیا

عاقلان ذوی الاکرام اور ناقلانِ شیریں کلام یہ حکایت پُر بلاغت کہ جس کا ہر ایک سخن مصری کی ڈلی ہے، دکان بیان میں یوں چنتے ہیں کہ حلوائی مقبول خدائی کی دکان عالی شان پر ایک عزیز نے تمیز مثل مگس حریص کچھ مٹھائی لینے کو گیا اور ایک روپیہ جیب سے فی الحال نکال کر اُس حلوائی مولائی سے کہنے لگا ”اس روپے کی مٹھائی، اے حلوائی! تازی بازی اندر سے لا دے کہ اس کو جو کوئی رشکِ یوسف مصری نقل کرے، وہ منہ پر کچھ نہ بات لائے، اور اگر خدا نخواستہ مٹھائی اچھی نہ ہو گی تو مارے تھپڑوں کے تجھ بد قوام کا منہ لال کر کے اجل کی چاشنی

284

چکھاؤں گا اور ایسی بیزار پٹی کروں گا کہ تیری عقل ریوڑی کے پھیر میں آ جائے گی، اور جو مٹھائی پوری نہ تولے گا تو مارے کفچوں کے تیرا حلوا نکالوں گا یا تیرے ہاتھ کا گٹا توڑ ڈالوں گا“ یہ گفتگو اُس بد خو کی سن کر دلوائی ایسا چپ رہا کہ جیسے کوئی گپ چپ کی مٹھائی کھاتا ہے۔ بعد تامل بسیار یوں جواب دہ ہوا ”اے بھائی! تجھ کو اس آب و تاب کی مٹھائی دوں گا کہ وہ صفائی ماہ و خور میں نہ ہو گی، میری بات میں ہرگز نہ شک کرنا؛ میں لقندرا نہیں ہوں جو میری بات میں اے دلبر فی ہو، اور اگر تجھ کو باور نہیں ہے تو لے، ایک لڈو اس میں سے کھا جا، دیکھ تو کیسا در بہشت کا کھلتا ہے۔“

الحاصل اُس حلوائی نے عین صفائی سے اس کے ہاتھ سے روپیہ لے کر غلے میں رکھ لیا اور آپ اُٹھ کر کوٹھری کے اندر گیا۔ اس خریدار ناہنجار نے اس کا تمام غلہ فی الحال اپنے رومال میں اُلٹ لیا۔ غرض حلوائی نے روپے کی مٹھائی بہت تحفہ اور آب دار ایک ٹوکری میں لگا کر اُس کے حوالے کی اور یہ ملعون ذو فنون وہاں سے مٹھائی لے کر ایک بار فرار ہوا۔ اس کے بعد اس حلوائی کو جو کچھ پیسوں کی خواہش ہوئی تو غلے میں کیا دیکھتا ہے کہ رویے اور پیسوں کا تو کیا ذکر اور مذکور ہے، کہ کوڑی بھی گھس لگانے کو میں نظر آتی۔ یہ احوال کثیر الاختلال دیکھ کر دل میں کہنے لگا: شیعر

کوئی مجھ پہ یہ کیا غضب کر گیا

کہ جس سے میں جیتے ہی جی مر گیا

پھر یکایک سوچ کر کہنے لگا کہ ’جو شخص مٹھائی دانائی سے لینے ابھی آیا تھا، غالب ہے کہ اسی عزیز بے تمیز کی یہ

285

دست چالاکی ہے۔‘

غرض وہ حلوائی مثل سودائی دکان سے اُٹھ کر اُس کے پیچھے دوڑا۔ آخر کار وہ نابکار ایک گلی میں کہیں ہاتھ آ گیا۔ اس کو کھینچ کر وہ حلوائی رسوائی سے دکان پر لایا اور اپنا مال بے زوال طلب کرنے لگا۔ وہ عزیز نا چیز منکر ہو کر یہ کلام با دشنام زبان پر لایا کہ ”اے بے وقوف! تو بھلے آدمیوں پر ناحق تہمت کا دھڑا باندھتا ہے؟ یہ تیری چکنی چکنی باتیں کچھ سود نہ کریں گی، مجھ کو تیرا غلہ لیتے کسی نے دیکھا ہے جو حق ناحق طوفان پر بہتان برپا کرتا ہے۔“

القصمہ یہ قصہ رفتہ رفتہ اکبر بادشاہ گیتی پناہ کے گوشِ ہوش تک پہنچا۔ بادشاہ نے دونوں کو طلب فرما کے ہر چند چشم نمائی کی مگر وہ عزیز بے تمیز ہہی کہا کیا کہ ”خداوند نعمت سپہر کرامت! یہ حلوائی سودائی ہے، یہ رومال مالا مال مجھ پُر ملال کا مال ہے“ آخر کار چار و ناچار بادشاہ نے اس کو اپنے تو شک خانے میں رکھوا دیا اور مدعی اور مدعا علیہ کو فرمایا کہ اپنے گھروں کو جاؤ، جس شخص کے روپے ہوں گے، اسے پہنچ رہیں گے۔ الغرض وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کو راہی ہوئے لیکن اکبر بادشاہ نے دل میں کہا کہ ’عجب قصۂ لاحل ہے کہ جس کا حل ہونا نہایت مشکل ہے کیوں کہ اس کا کوئی شاہد و گواہ حسب دل خواہ نہیں ہے، بقول شخصے‘ :

غیب کی بات کوئی کیا جانے

المدعا ایک شب بادشاہ عالی جاہ نے نہایت غور کر کے وقت سحر دونوں داد خواہوں کو طلب فرمایا اور ایک خواصِ خاص کو ارشاد کیا کہ ”ایک طشت گرم پانی کا جلد حاضر کر

286

تا کہ داد خواہوں کی گرمی آب انصاف سے سرد ہو“ غرض بہ موجب حکم بادشاہ عالم پناہ آب گرم کا طشت وہیں حاضر ہوا، بادشاہ جم جاہ نے فرمایا کہ اس رومال پُر مال کو اس طشت میں غرق کر دو۔ غرض اس رومال پُر مال کو آب گرم میں جو مستغرق کیا اور ایک لمحے کے بعد بادشاہ نے اس کو ملاحظہ فرمایا تو کیا ظاہر ہوا کہ اس طشت کے پانی پر چکناہٹ کی ترمری یوں تمایاں ہوئی جس طرح شب دیجور میں اختر فلک چمکتے ہیں۔ یہ واردات عجائبات بادشاہ جم جاہ نے ملاحظہ فرما کے اشہب تیز گام زبان کو میدانِ عدالت میں یوں جولان کیا کہ ”یہ روپے اس حلوائی تمنائی کے واقعی ہیں، کس واسطے کہ اس کے ہاتھ کی چکناہٹ جو روپے پیسوں کو لگی تھی، سو اس طشت کے آب گرم نے اب حباب آسا ظاہر کر دی اس دروغ گو ہے آبرو کو سب کے سامنے دریائے ندامت میں ڈبو دیا۔ اگر اس کے روپے ہوتے تو چکناہٹ سے کیا علاقہ رکھتے؛ حق تو یوں ہے کہ حق حق ہے اور ناحق ناحق“ : شعر

غرض بادشاہ نے بہ این قیل و قال

کیا عمل مندی سے یہ انفصال

جو مہجور ایسی کرے منصفی

تو کیوں کر نہ ہو خلق اس سے خوشی

287

حکایت

ایک آخوند جولاہے کی لونڈی کو ورغلا کر اپنے گھر میں لے گیا اور جولاہے نے طلب کیا تو آخوند نے کہا ”یہ میری لونڈی ہے۔“ قاضی نے دانائی سے لونڈی جولاہے کے حوالے کی

مالکان تحریر اور منشیانِ دل پزیر یہ حکایت بے نظیر صفحۂ حریر پر نوک قلم سے یوں رقم کرتے ہیں کہ ایک آخوند خود پسند بے معنی لا یعنی نے ایک جولاہے کی کنیز بے تمیز کو گریخت کا قاعدہ پڑھا کر مکتبِ پوشیدہ میں اور ہی بات کا سبق دینے لگا لیکن اس جاہل کو اپنی قابلیت اور مقطع صورت کا مطلق خیال نہ آیا کہ یہ باتیں زیبندہ ہیں یا نہیں۔ الحاصل بعد چند روز جولاہے جگر سوز کو دریافت ہوا کہ میری کنیز بے تمیز محبت کا تانا توڑ کر فلانے آخوند کے گھر میں عیش و عشرت کی پٹاری پھیلائے بیٹھی ہے۔ یہ احوال کثیر الاختلال معلوم و مفہوم کر کے بہ صد بے قراری و سوگواری اس آخوند ناقابل کے قریب گیا اور رشتۂ بیان کو زبان کی سلائی پر چڑھا کے یوں پیچک کرنے لگا کہ ”اے معلم بے ایمان و اے تخمِ شیطان! تو بھی اپنے کام کا خاصا اور بڑا گاڑھا ہے کہ تیری گل بدن تن زیب لونڈی کو بیٹھے بیٹھے کلام نافرجام سے اڑا لایا۔ تجھ پر غضب الہیٰ نازل ہو یا ظلم شائستہ خوانی میں ایسا گرفتار ہو کہ تیرے ہاتھ پاؤں کو جھولا بار جائے، کیوں کہ میں اس کے گلشن فراق

288

میں شب کو شبنم کی طرح یوں ہاتھ مل مل کے روتا ہوں کہ اشکوں سے سب میرا تر اندام ہو جاتا ہے اور بے چینی سے کم خواب آتا ہے۔ فی الحقیقت ہے، بہ قول شخصے : شعر

کروٹیں لیتے ہی لیتے آہ اُڑ جاتی ہے نیند

جس کا دل دلبر میں ہووے اس کو کب آتی ہے نیند

اے آخوند خود پسن! آج بہ ہزار جاسوسی ایک خاکروب دوڑلی سے دریافت ہوا کہ میرے عشرت کے تھان کا ریزہ تیرے مکان کی صحن میں بیٹھا اپنے سر کے سرے صاف کرتا ہے؛ اس واسطے چار و ناچار خانے میں تیرے آیا ہوں کہ میری عرض کو اپنی خدمت فیض درجت میں پزیرا کر کے اس کنیز با تمیز کو میرے ساتھ کر دے، نہیں تو یہ مسلم سمجھ لینا کہ اس کا ثمر محمودی نہ ہو گا۔“ یہ تقریر ناگزیر اس جولاہے کی سن کر آخوند عقل مند کہنے لگا ”اے بے معنی لا یعنی، نمونہ شیطانی! کیا واہی تباہی بکتا ہے، وہ کنیز عزیز اُس شخص کی زر خرید ہے، تو کون ہے جو اس کا خریدار نا ہنجار پیدا ہوا :

اشعار

چل دور ہو سامنے سے میرے

شیطان چڑھا ہے سر پر تیرے

اترے گا نہیں بغیر بیزار

معلوم ہوا مجھے بہ تکرار

الحاصل یہ قصہ رفتہ رفتہ قاضی مرد ریاضی کے آگے رجوع ہوا۔ آخوند خود پسند نے تو ایک بار اظہار کیا کہ یہ لونڈی میری زر خرید ہے اور جولاہے نے کہا ”اے قاضی شرع شریف! خدا تجھ کو اس مسندِ پیغمبری پر دائم و قائم رکھے؛ انصاف سے اس کو صاف تحقیق کر کہ یہ لونڈی میرے پاس ایک مدت مدید سے ہے، اس آخوند نے مہینے کے قریب ہوا ہے کہ وحشت کا

289

مکتب دکھا کے اس کو عشق کا درس دیا ہے؛ المدعا قاضی نے جو اس کنیز بے تمیز سے پوچھا کہ سچ کہہ تو کس کی کنیز ناچیز ہے؟ وہ لونڈی آخوند کی کنودی جواب دہ ہوئی کہ ”یہ گنہ کار دل فگار اس آخوند دولت مند کی لونڈی ہے، جولاہا جھک مارتا ہے جو میرا دعویٰ کرتا ہے“ یہ اس کی بات واہیات سن کر قاضی مرد ریاضی خاموش ہو گیا، اس کے بعد حکم کیا کہ اس کنیز ناچیز کو قید خانے میں مقید رکھو، دو چار روز کے بعد احوال دریافت کر کے جس کی لونڈی ہو گی، اسے مل جائے گی۔

غرض قاضی نے دو تین دن کی مہلت بہ غفلت دے کر آخوند اور جولاہے کو طلب کر کے اس لونڈی کو اپنے سامنے بلوایا اور قلم دان دل ستان آگے رکھ کے اس کنیز بے تمیز سے پوچھا کہ ”سچ کہہ تو کس کی لونڈی ہے؟ اپنا اظہار انکار کر تا کہ میں اس کو لکھ کر تجھ کو رہائی کا حکم دوں“الغرض جس وقت وہ کنیز بے تمیز اپنا احوال فی الحال نوک زبان سے بیان کرنے لگی، قاضی نے بہ آہستگی کہا ”ابھی رہ جا، ایک ذرا اس دوات میں پانی ڈال لا تو تیرا احوال پُر ملال صفحۂ حریر پر تحریر کروں“ وہ کنیز بے تمیز بہ صد خوشی دوات بے آب میں پانی جو ڈال لائی تو تمام دوات پُر آب ہو گئی۔ یہ ماجرائے عجیب قاضی خوش نصیب دیکھ کر جولاہے سے کہنے لگا ”اے عزیز! یہ کنیز تیری ہے، اس کو اپنے گھر لے جا اور آخوند دروغ گو ہے۔ اگر اس کی لونڈی ہوتی تو کیا اس کے قاعدے سے ناواقف ہوتی؟ اس قدر دوات میں پانی کیوں ڈال لاتی“ اور آخوند سے بہ صد غضب کہا ”اے فیلسوف زمان و اے بے وقوف جہان! تو نے پرائی لونڈی کو کیوں اپنا زیر مشق بنایا، تجھ منحرف کو رو سیاہی کا

290

نہ خطر تھا کہ جولاہے شکستہ احوال جگر شگاف کو غبار خاطر کر کے گلزار جہاں میں بچ رہوں گا۔ و اللہ باللہ کیا کروں، اگر تو مرد مسلمان با ایمان نہ ہوتا تو تیرے ہاتھ قلم کر ڈالتا اور نہایت زیر و زبر کرتا، پھر تیری کچھ پیش نہ جاتی۔“ :

ابیات

غرض قاضی نے اس آخوند کو خوب

کیا نفرین سے لوگوں میں محجوب

نہ کرتا گر بدی ایسی وہ بد ذات

تو کیوں کہتا کوئی مجور اُسے بات

ہمیشہ سے یہی دیکھا سنا ہے

برائی کا نتیجہ بھی برا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
نورتن ریختہ صفحہ 331

کبت
اودھو لائی پاتی برہن گھر آئی چھاتی دوا سیپ نین کے موتی سے جھر جھر اُٹھی بیاکل ہوئی نارپاتی لین چلی بار اودھو ناؤں گئے بھول ہر ہی ہر کر اُٹھی۔ اتنے میں سندیسا دینو برہن میں مانجھ بسو تیل بوند آگ پڑی دھڑ دھڑ کر اُٹھی ٹھاری تھی پاٹ لاگ جھاکی برہ آگ پاتی کے ہاتھ لیت باتی سے جر اُٹھی۔

مثنوی
مسلسل کبت یہ جو اُس نے کہا
تو شہ نے جواہر صلے میں دیا
حقیقت میں اکبر نے مہجور تو
جلا دی نظامی کے اس قول کو
"بہ نا سفتہ دُرے کہ در گنج یافت
ترازوئے خود را سخن سنج یافت

نقل ہے کہ ایک نازنینِ مہ جبیں وقت طلوعِ آفتاب عالم تاب بے ساختہ مکان خواب گاہ کا دروازہ کھول کر سر برہنہ انگیا جان باختہ چھاتیوں پر آراستہ کر رہی تھی کہ یکایک اچانک اکبر بادشاہ علی جاہ وہاں رونق افزا ہوئے اور باہم دونوں کی چشم سے چشم دو چار ہو گئی۔ اس حالت پُر حلاوت میں وہ انار پستان مثل گل خندان منہ پھیر کے جو کھلکھلا کر ہنس پڑی تو اس گل حیا آلودہ کے دُر دندن کا یہ عالم نظر آیا کہ جس طرح لطمۂ صبا سے ایک بار انار شق ہو جاتا ہے اور اُس کے دانے رشک گوہر آب دار نظر آ جاتے ہیں۔ یہ عالم دیکھ کر بادشاہ عالم پناہ تبسم کناں یہ چھمچھا زبان پر لائے : چھمچھا

پھوٹو انار پیار کے مارے

یہ چھمچھا جان باختہ کہتے ہوئے اکبر بادشاہ محل سے

نورتن ریختہ صفحہ 332

برآمد ہوئے اور کبیشر زباں آور کو یاد فرما کے ارشاد کیا کہ اس ارتھ کا کبت فی الفور بے غور موزوں کر دے۔ یعنی : چھمچھا

پھوٹو انار پیار کے مارے

یہ کلام بادشاہ عالی مقام کا سن کر وہ کبیشر خوش منظر کہنے لگا "پیر و مرشد برحق! اس ارتھ کا یہ کبت ہے" :

کبت
بھور میں سوت ادوت کے واتھہ بیٹھی مصامن بھون او سارے
کنجن میں کچ دوؤ اٹھیں دھر دھر انچر بھینچ سنبھارے
اور سر آن پڑھو شاہ اکبر درک چار پڑیں نا ہیں وہ نارے
گوری نیہ مکھ موڑ ہنسی دھوں پھوٹو انار پیار کے مارے

مثنوی
یہ سن کر کبت شہ نے ہنس کر کہا
ہزار آفریں مرحبا مرحبا
کہا تو نے ایسا کبت حسب حال
کہ جس سے مرا جی ہوا خوش کمال
غرض شاہ اکبر نے مہجور خوب
کیا اس کبیشر کو مسرور خوب

نورتن ریختہ صفحہ 333

پانچواں باب

ظریفوں کے لطیفوں میں

عاقلانِ دمساز اور ناقلانِ خوش آواز رباب بیان کو بہ مضطرابِ زبان اس قانون سے چھیڑتے ہیں کہ تیمور لنگ بادشاہ خوش آہنگ نے ہندوستان دل ستاں کے تخت سلطنت پر جلوس فرما کے با دل شاد ارشاد کیا کہ "اکثر مرمانِ صادق اور بزرگان فائق سے استماع میں آیا ہے کہ ہندوستان دل ستاں میں مطرب بو العجب خدا ساز خوش آواز ہیں" یہ کلام بادشاہ عالی مقام کا سن کر ایک مطربِ نابینا خوش لہجہ روشن دل اپنے فن کا کامل ایسا استاد زمانہ، گانے میں یگانہ حضور پُر نور میں حاضرہوا جس کی ہر تان میں تان سین اور اودھو نایک کی روح ٹپا ٹوئی کرتی پھرتی تھی، اور تال سُر میں ایسا سرتا کہ سرستی بھی اس کے آگے بے سُری تھی، اور اپنے جن کا ایسا نٹ کھٹ کہ ہر دیس کا کٹھراگ اُس کے خیال میں تھا اور آواز جادو طراز سوہنی سوہنی اسی گداز تھی کہ جس کی خوش الحانی پر الحان داؤدی سندھ کے جنگل میں وجد کرتی تھی، اور اگر دیپک کے وقت وہ چراغِ محفل طرب ایمن کو الاپتا تو اُس کو گوری سن کر ایسا جوڑا شہانا دیتی کہ اس کو سنگیت والے نہایت ملار کرتے۔ غرض اُس نایک زمان پر چھہ راگ تیس راگنی کا سراسر پردہ فاش تھا :

نورتن ریختہ صفحہ 334

نظم
کہاں تک کروں اُس کی تعریف عام
کہ اس سے سوا ہے فصولی کلام
اگر شہر تھا مطربوں سے بھرا
پر ایسا کلانوت نہ تھا دوسرا

الحاصل وہ مطرب دل نواز خوش آواز حضور پر نور میں ایسا خوب گایا کہ تمام محفل بے دل ہو گئی؛ بہ قول میر حسن :

اشعار
غرض جو کھڑتے تھے کھڑے رہ گئے
اڑے جس جگہ سو اڑے رہ گئے
جو پیچھے تھے آگے نہ وہ چل سکے
جو بیٹھے سو بیٹھے نہ وہ ہل سکے

المطلب اس مطرب بوالعجب نے جب سب محفل کو بخوبی محظوظ کیا تب تیمور لنگ بادشاہ جمجاہ نے ارشاد کیا کہ "اے مطربِ بو العجب! تیرا نام خاص و عام میں کیا مشہور ہے؟" یہ مطرب بہ صد ادب عرض کرنے لگا کہ خداوندِ نعمت خدیو شپہر کرامت! اس غلام ناکام کا نام دولت کہتے ہیں" تیمور لنگ شہنشاہ نے متبسم ہو کر فرمایا "اے عزیز بے تمیز! کیا دولت کور ہے جو تجھ اندھے نے اپنا نام دولت رکھا ہے؟" وہ کور منہ زور کہنے لگا "قربان جاؤں! اگر دولت اندھی نہ ہوتی تو لولے لنگڑوں کے کیوںہاتھ آتی" یہ لطیفہ خوش دقیقہ سماعت فرما کر بادشاہ عالی جاہ نہایت خوش ہوا اور خانِ سامان خاص سے بادلِ شاد ارشاد کیا کہ "اس دولت کو اس قدر دولت دو کہ ہماری بدولت دولتِ دنیا سے نو دولتوں میں دولت مند ہو جاوے۔" غرض

نورتن ریختہ صفحہ 335

تیمور لنگ شہنشاہ نے اس مطرب کو ایک سخن دل لگن پر زر ریز کر دیا؛ غرض قول میر حسن کا سچ ہے :

ابیات
سخن کے طلب گار ہیں عقل مند
سخن سے ہے نام نکویاں بلند
سخن کا صلہ یار دیتے رہے
جواہر سدا مول لیتے رہے
اور اب کے زمانے کے شاہ و وزیر
سخن کو سمجھتے ہیں غایت حقیر
سخن کی جہاں ہو نہ مھجور قدر
وہاں کیا کرے جلوۂ نور بدر
*************************************************************
نقل ہے کہ ایک ماہی گیر خوش تقریرجھینگا نامی ہمیشہ دریائے بے پایاں میں مچھلیاں پکڑتا اور بیچ کر اوقات بسر کرتا۔ قضاء کار وہ دام دار ایک روز برائے شکار ایسی جھیل بے عدیل پر گیا، بہ قول مروت :

ابیات
کروں پاٹ کا اُس کے میں ذکر کیا
ہر اک اُس کا سوتا تھا اتنا بڑا
ڈگن کہکشاں فلک تھی جہاں
وہاں مارتا پھرتا تھا مچھلیاں

الحاصل اُس جھیل بے عدیل میں اس دام دار سلیقہ شعار نے جال فی الحال پھینک کر ایسی مچھلی کھینچی کہ جس کی تعریف گردابِ بیان سے باہر ہے۔ اس مچھلی خوش گار غیرت بہار کو وہ ماہی گیر خوش تقریر دیکھ کر دل میں کہنےلگا ‘اگر اس مچھلی

نورتن ریختہ صفحہ 336

رشکِ گلزار کو بازار میں فروخت کروں گا تو کمال ہے کہ پانچ چار فلوس منحوس سے کوئی زیادہ نہ دے گا، اس سے بہتر ہے کہ اس مچھلی نایاب کو آب و تاب سے بادشاہ عالی جاہ کی نذر کیجیے، شاید اس ماہی سے کچھ مراتب زیادہ ہو تو عجب نہیں کیونکہ بہ قول شخصے : مثل

گھڑی میں گھڑیال ہے

مگر اس مچھلی کو سر سواری بذات نہنگ ایسے ناکے پر کھڑے ہو کے دیجیے کہ جاسوس کو محسوس نہ ہو، الغرض وہ ماہی گیر صاحب تدبیر بادشاہِ عالم پناہ کے قریب وہ مچھلی عجیب و غریب لے گیا۔ وہ شہنشاہ عالم پناہ اس مچھلی کو ملاحظہ فرما کے نہایت مسرور ہوا اور وزیر صاحبِ توقیر سے ارشاد کیاکہ اس ماہی گیر دل پذیر کو سو روپے بلا قصور اور بے دستور عنایت کر" وزیر صاحبِ تدبیر نے گوشِ مبارک میں گوش زد کیا کہ "اے بادشاہ بحر و بر و اے ماہ سپہر برتر! ایک ماہی واہی کا انعام و اکرام اس قدر دینا عقل مندوں کا کام نہیں ہے" بادشاہ عالی جاہ نے فرمایا "اے وزیر بے نظیر! حکم شاہی میں فرق آنا موجب ننگ و حیا ہے، بہ قول شخصے :

قول مرداں جان دارد"

اس کے جواب میں وزیر خوش تقریر نے کہا " اے شہنشاہ عالم پناہ! : مثل

جو کوئی گُڑ دیے مرتا ہو اُسے زہر نہ دیجیے"

لیکن اس ماہی گیر بے پیر سے پوچھیے کہ یہ ماہی نر ہے یا مادہ ہے؟ اگر وہ کہے گا کہ یہ نر ہے تو ارشاد کیجیے کہ ہم کو اس شکل کی مچھلی مادہ درکار ہے۔ اگر وہ کہے کہ یہ مچھلی

نورتن ریختہ صفحہ 337

مادہ ہے تو آپ فرمائیں کہ ہم کو نر مچھلی چاہیے، اس گفتگوئے پُر فریب سے وہ لاجواب ہو گا اور حضور لامع النور کا انعام و اکرام واپس ہو جائے گا" بادشاہ عالی جاہ نے وزیر خوش تقریر کا سخن پسند فرما کر پوچھا کہ "اے دام دار ماہیان دریا و اے افتخار مردمان دانا! سچ بتا یہ ماہی نر ہے یا مادہ؟" اس کے جوا ب میں وہ ماہی گیر خوش تقریر حرف زن ہوا کہ "اے شاہ بحر و بر والا گہر! یہ ماہی واہی خنثیٰ ہے یعنی نر اور مادہ کے درمیان ہے" یہ جواب باصواب ماہی گیر، خوش تقریر کا بادشاہ کو نہایت پسند خاطر ہوا اور اس لطیفے کے صلے میں دو سو روپے اور انعام و اکرام فرمائے لیکن سچ تو یوں ہے :

مثنوی
عجب تھا زمانہ کہ جس دور میں
صلہ لوگ پاتے تھے ہر طور میں
اور اب کے زمانے کا یہ حال ہے
کہ دیکھیں جسے گھر سے خوشحال ہے
بلا کر اُسے گھر سے با عز و جاہ
کریں آخرش کو جہاں میں تباہ
غرض اس زمانے کے مہجور لوگ
سمجھتے ہیں کیا آپ کو دور لوگ
ولیکن ملوث بہ ہر کار ہیں
متاع جہاں کے خریدار ہیں
*********************************************************
نقل ہے کہ ایک بادشاہ بدخواہ سپاہ برائے شکار آہوان دیار میان مرغزار تن تنہا گیا تھا؛ اتفاقاً ایک شخص بدصورت نجبا اور بہ سیرتِ شرفا تابشِ آفتاب عالم تاب کے سبب سے زیر درخت

نورتن ریختہ صفحہ 338

بیٹھا تھا۔ وہ بادشاہ روسیاہ بھی اسی درخت کے سائے میں آ کر کھڑا ہوا اور اس عزیز با تمیز سے یوں حرف زن ہوا کہ "اے ملیح بیان و اے فصیح زبان! سچ کہہ اس شہرِ مینوچہر میں بادشاہ خیر خلائق ہے یا ظالم و ستم گر؟" وہ عزیز با تمیز راست گو جواب دہ ہوا کہ "اے شہ سوار باد رفتار! کچھ نہ پوچھ، اس مملکت پُر وحشت کا بادشاہ رُوسیاہ نہایت ظالم اور لائم ہے مگر شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ کے قول کو نہیں سمجھتا : شعر

نہ ماند ستم گار بد روز گار
بہ ماند برو لعنت کردگار

یہ سخن دل شکن گوش زد فرما کر وہ بادشاہ غفلت پناہ کہنے لگا کہ "اے عزیز با تمیز! تو مجھ کو بھی پہچانتا ہے کہ میں کون شخص ہوں؟" یہ کلام بادشاہ ناکام کا سن کر وہ نادانستہ دل خستہ جواب دہ ہوا کہ "میں دل دادہ غم آمادہ کیا جانوں کہ تو کون بلاہے اور کس کھیت کی مولی ہے، ناحق بے معنی گفتگو سے مغز پھراتا ہے" :

ابیات
یہ سن کر کہا شہ نے "اے نابکار!
اسی شہر کا میں تو ہوں شہریار
مرا ہفت کشور ہے زیر نگیں
مجھے باج دیتا ہے خاقان چیں
تجھے اپنے جی کا نہ تھا خوف کیا
جو تو نے مجھے اس طرح بد کہا"

یہ سخن دل شکن سن کر وہ نہایت دل میں ڈرا لیکن دلیری اور دلاوری سے یوں گویا ہوا کہ "اے بادشاہ عالی جاہ! تو بھی

نورتن ریختہ صفحہ 339

مجھ کو پہچانتا ہے کہ میں کون جنس ہوں؟" بادشاہ پُر گناہ نے کہا "اے عزیز بے تمیز! میں تجھ کو نہیں جانتا ہوں کہ تو کون ہے" وہ شخص زبان طراز ایک بار یوں گویا ہوا کہ "اے بادشاہ عالی جاہ! میں دل دادہ سوداگر زادہ ہوں لیکن ہر مہینے میں نحوست ستارے سے میں دال دو پارہ تین روز کامل سڑی وحشی ہو جاتا ہوں؛ چنانچہ میرے آزار نابکار کا آج پہلا روز ہے" یہ کلام فطرت آمیز اس وحشت انگیز کا سن کر بادشاہ ایک بار بے اختیار ہنس پڑا اور بہ تشفیٔ تمام اس خوش کلام کو کچھ اشرفیاں دے کر اپنے شہر پُر قہر میں آیا اور ظلم و ستم کو ملک بے خبری سے بہ عدل و عدالت اخراج کیا اور فی الحقیقت بقول نخشبی :

ابیات
"نخشبی ظلم خؤم مملکت ست
تو نہ گر زیں دقیقہ آگاہی
ظلم صد مملکت بر اندازد
ظلم شاہاں ست دشمن شاہی"
سچ ہے مہجور ظلم شاہی سے
نظر آتے ہیں لوگ واہی سے
************************************************************
نقل ہے کہ ایک شاعر رشک صائب فخرِ حافظ ایک دولت مند ہوش مند کی شان میں چند اشعار آب دار رشک بہار موزوں کر کے لے گیا؛ وہ دولت مند عقل مند اُن شعروں کو استماع کر کے کہنے لگا کہ "اے غیرتِ ظہوری و نظیری و اے خجلت دہِ انواری و ضمیری! بہ اہلیت اس بات کو یقین سمجھیو کہ تو نے یہ قصیدہ دل رمیدہ پُر لطف اس وقت کا محنت سے انشا کیا ہے کہ کسی شاعر زبردست کی کیا قدرت اور جرأت ہے جو ایسا قصیدہ موزوں کر کے تجھ پر سبقت لے جائے لیکن کیا کروں جائے رقت ہے کہ جی کی حسرت جی میں رہی جاتی ہے۔ اگر آج یہ فدوی جگر سوز

نورتن ریختہ صفحہ 341

دو برابر اند؛ بہ قول شخصے : مثل

نہ اودھو کا لین نہ مادھو کا دین
جاؤ تم اپنے گھر خوش اور ہم اپنے گھر خوش"

مثنوی
غرض اس سخن سے وہ شاعر عجیب
ہوا شرم گیں دل میں اپنے غریب
گر اُس تونگر نے مہجور خوب
دیا اُس کو انعام فرح القلوب
************************************************************
نقل ہے کہ ایک کور منہ زور اندھیری رات رشکِ ظلمات میں چراغ بہ دست ہوش پانی کا گھڑا بالئے دوش اس شکل سے بازار میں نمودار ہوا۔ یہ ماجرائے عجیب و غریب ہر ایک عزیز باتمیز دیکھ کر کہنے لگا کہ "اے کور کم زور! یہ کیا حماقت بے لیاقت اس وقت تجھے سوجھی کہ شب تار ناہجار میں تُو چراغ ہاتھ میں لے کر نکلا، بہ قول سعدی علیہ الرحمہ : شعر

نور گیتی فروز چشمۂ ہور
خوش نیا بد بچشم موشک کور

اے احمق تیرہ بخت زبان سخت! تیرے آگے تو لیل و نہار خزاں اور بہار ہر زماں یکساں ہیں، پھر اس روشنی چراغ بے سراغ سے تجھے کیا سود اور بہبود ہے؟" یہ سخن دل شکن سے کر وہ کور منہ زور کہنے لگا "اے او لاغ! یہ چراغ مجھ کور ظاہر کے لیے نہیں ہے، تجھ کور باطن کے واسطے ہے کہ اس اندھیری رات رشک ظلمات میں تو میرا گھڑا پانی کا بھرا نہ توڑے، یعنی چراغ کی روشنی سے تجھ کو روشن ہو کہ اندھا پانی کا گھڑا لیے آتا ہے تو آپ ہی بچ کر چلے گا : شعر

نورتن ریختہ صفحہ 342

نہیں تو اندھیرے میں کیوں کر بھلا
اے اندھے یہ اندھا تجھے سوجھتا"

یہ کلام نیک انجام اس نابیان روشن دل کا سن کر وہ کور باطن مثل چراغ خاموش، خاموش ہو گیا اور کچھ جواب نہ دیا :

اشعار
اگر تجھ کو مہجور ہے عقل و ہوش
تو اس بات کو میری سُن رکھ کے گوش
جو بینا حقیقت سے ماہر نہ ہو
ویا سر حق اُس پہ ظاہر نہ ہو
مثل اس کے حق میں یہ سوجھی ہے زور
کہ اس آنکھ والے سے بہتر ہے کور
**********************************************************
نقل ہے کہ ایک درویش دل ریش سے کچھ تقصیر حقیر سرزد ہو گئی تھی؛ اس کی تعذیر ناگزیر میں حبشی کوتوال بد افعال نے حکم دیا کہ اس فقیر بے پیر کا سارا منہ سیاہ کر کے شہر بدر کر دو : شعر

تا نہ پھر کوئی اس طرح درویش
ظاہرا فقیر میں ہو کافر کیش

یہ کلام اس ناکام کا سُن کر فقیر خوش تقریر کہنے لگا "اے حبشی کوتوال بد خصال! اس فقیر حقیر کا آدھا منہ سیاہ کر کے تشہر کر تو بہتر ہے ورنہ جمیع مشاہر شہر اور جماہیر دھر سمجھیں گے کہ بادشاہ عالم پناہ نے حبشی کوتوال کو شہر بدر کیا ہے" یہ لطیفہ خوش دقیقہ سن کر کوتوال نیک خصال نہایت خوش ہوا اور یہ کلام فرحت الیتام زبان پر لایا کہ "اے فقیر روشن ضمیر! اس روسیاہ پُر گناہ نے تیری تقصیر ناگزیر

نورتن ریختہ صفحہ 343

معاف کی :

اشعار
غرض وہ گدا اپنی تقریر سے
ہوا فارغ البال تقصیر سے
عجب شے ہے مہجور، یعنی سخن
شہادت میں اس کے ہے قول حسن
"سخن سے وہی شخص رکھتے ہیں کام
جنہیں چاہیے ساتھ نیکی کے نام
سخن کا سدا گرم بازار ہے
سخن سنج اس کا خریدار ہے"
***************************************************************
نقل ہے کہ ایک فقیر خوش تقریر بہ صورت آزاد مادر زاد برائے سوال مال دکان بقال سخت مقال پر جا کر یہ سخن دل شکن زبان پر لایا کہ "او لنگور کی صورت، زنبور کی مورت! اپنے غلہ مکاری اور کیسۂ دغا بازی سے من چاہے تو کچھ فقیر کے پلے میں ایسا دے کہ جس سے نفس حریص کا کتا سیر ہو جائے۔" یہ بات واہیات سن کر وہ بقال بدخصال کہنے لگا "اے ہُد ہُد دُم دراز! و اے چغد بد آواز! چل میرے آگے سے دُم دبا کر اُڑ جا، نہیں تو مارے ڈنڈیوں کے تیرے ہاتھ پاؤں تھیلا کر دوں گا۔" غرض اس گفتگوئے دُد بدُو نے یہاں تک سر بلند کیا کہ اُس درویش گم کردۂ خویش نے ایک جوتی پاؤں سے نکال کے بقال بدخصال کے سر پر پڑاق سے جڑی۔ القصہ وہ بقال پیش کوتوال اس فقیر تن حقیر کو لے گیا اور احوال صدق مقال گزشتہ تفصیل سے ایک بار اظہار کیا۔ کوتوال بدخصال نے اس درویش دل ریش سے کہا :

نورتن ریختہ صفحہ 344

اشعار
"اگر تو نہ ہوتا بہ شکل گدا
بہ چوب سیاست تجھے مارتا
ویا قید خانے میں کرتا اسیر
پر اس میں ہے تیری رہائی فقیر
کہ کفارہ اک کفش پا کا اسے
مرے سامنے آٹھ آنے تو دے"

یہ کلام بد انجام کوتوال بدخصال کا سُن کر اُس فقیر خوش تقریر نے ایک جوتی کوتوال کے سرپر جڑی اور ایک روپیہ جھولی سے نکال کر آگے رکھ دیا اور یہ سخن زبان پر لایا کہ "اگر یہی منصفی ہے تو یہ فقیر تن حقیر اس روپے کو کہاں بھناتا پھرے گا، آٹھ آنے آپ لیجیے اور آٹھ آنے اس بقال کذب مقال کو دیجیے" :

ابیات
یہ کہہ کر وہاں سے وہ راہی ہوا
مگر سب نے مہجور باہم کہا
"فقیروں کو غصہ نہ یہ چاہیے
جہاں جائے اُس جا سدا یہ کہے
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خورہو ہم دعا کر چلے"

اور شیخ سعدی بھی یوں فرماتے ہیں :

اشعار
ہر کہ بر خود در سوال کشاد
تا بد میرد نیاز مند بود

نورتن ریختہ صفحہ 345

آز بگذار و پادشاہی کن
گردن بے طمع بلند بود
********************************************************
نقل ہے کہ ایک امیر صاحب توقیر اپنے مکان دل ستان میں تیر سے بہ زور شانہ میخ پر نشانہ لگا رہا تھا۔ ہر چند آور بھی تیر اندازان کماں ابرو اُس محفل عالی منزل میں تیر زنی کر رہے تھے لیکن کسی کمان دار کا تیر مطلب ہدف مقصد پر نہ بیٹھتا تھا۔ اس عرصے میں ایک فقیر خوش تقریر اس جلسے میں آ کر حاضر ہوا اور دست سوال صاحب خانہ کے سامنے دراز کیا۔ اس امیر صاحب توقیر نے تیر و کمان اپنے قبضے سے فقیر خوش تقریر کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ "اے فقیر روشن ضمیر! اس میخ کے بیچ میں تیر کو لب معشوق کرے گا تو تیرا سوال فی الحال بر آئے گا" غرض اس درویش خیر اندیش نے لیس ہو کر تُکے سے اُس میخ کا نشانہ بہ زور شانہ سراسری ایسا مارا کہ ہر گوشے سے تحسین و آفرین لوگ چلا اُٹھے۔ غرض اس امیر بے نظیر نے اُس وقت خوش ہو کر سو روپے اُسے عنایت و کرامت فرمائے۔ وہ فقیر خوش تقریر سو روپے جھولی میں ڈال کر کہنے لگا "بابا اس فقیر تن حقیر کا سوال نہ ملا لیکن شیخ سعدی کا قول سچ ہے : شعر

کریماں را بہ دست اندر درم نیست
خدا وندان نعمت را کرم نیست

یہ سخن دل شکن سن کر امیر صاحب توقیر کہنے لگا "اے نادیدۂ زر و اے حریص بد گہر! تجھ کو میں نے یک مشت سو روپے دیے اور تیرے خیال بد سگال میں نہ آئے، اس کے کیا معنی" اس کے جواب میں وہ فقیر خوش تقریر بولا "اے امیر دل پذیر!

نورتن ریختہ صفحہ 346

اگر تیری گوشۂ خاطر میں گراں بار نہ گزرے تو یہ عرض ہے کہ وہ سو روپے تو میں نے میخ مارنے کے لیے ہیں، سوال بے زاول کا اس میں کیا ذکر ہے؛ فقیروں پر تودۂ طوفان کیوں اُٹھاتا ہے؟" یہ کلام وہ امیر عالی مقام سن کر نہایت خوش و خرم ہوا اور سو روپے آور انعام یا اکرام عنایت فرمائے لیکن سچ تو یوں ہے بہ قول نخشبی :

ابیات
"نخشبی نیست خلق بریک طبع
من نہ دانم تو درچہ منوالی
از کرام ولیام و دھر پرست
نیست عالم زنیک و بد خالی"
سب یہ سچ ہے و لیکن اے مہجور!
ہم تو ہر دم یہی کہیں گے ضرور
آفریں تیری گفتگو کو فقیر
مرحبا تیری حاتمی کو امیر
**********************************************************
نقل ہے کہ ایک شخص نے اپنےنوکر فتنہ گر سے وقت اختتام شام یوں کہا "اے نوکر! وقت سحر اگر دو زاغ برابر تجھ کو نظر آئیں تو مجھ کو خبر کرنا کیونکہ دو زاغ صبح کو دیکھنا شگون نیک ہے :

اشعار
یہ تو کہہ کر وہ سو رہا گھر میں
صبح کو اُس نے بیٹھ کر در میں
کی نگہ اس نے جو سرِ دیوار
تو نظر آئے زاغ دو یک بار

نورتن ریختہ صفحہ 347

یہ خبر وحشت اثر نوکر اپنے خداوند سے کہنے گیا اور ادھر ایک زاغ پرواز کر گیا اور ایک زاغ اکیلا بیٹھا رہا۔ قصہ مختصر صاحب خانہ نے جو آ کر ایک زاغ نا ہنجار سرِ دیوار دیکھا تو نہایت خفا ہوا اور یہ کہنے لگا "اے کوے! میں نے دو زاغ دیکھنے کو کہا تھا یا ایک زاغ منحوس کو کہا تھا؟" غرض تو اپنی شرارت اور فطرت سے باز نہیں آتا ہے۔ اے الو بدخو! یہاں تک تجھ کو ماروں گا کہ تیرے تمام بدن میں سن بھری ہو جائے گی۔ چل میرے سامنے سے اُڑ جا، میں اور نوکر رکھ لوں گا۔ کیا تیری ۔۔۔۔۔ (1) میں سرخاب کا پر لگا ہے یا تو عنقا نوکر ہے۔ میرے بخت ہمایوں چاہیے، تجھ سے ڈھیر لٹورے الو کالے بھجنگے میرے دام میں بہت آ رہیں گے۔ کیا جہان میں کوئی چڑیا کا نوکری نہیں کرتا۔ واللہ باللہ اب میں تجھ کو نوکر نہ رکھوں گا۔ تجھ سا پودنہ بگلا بھگت مجھے بھی نوکر نہیں چاہیے؛ مجھ کو یل نوکر چاہیے کہ جس سے سب زک اُٹھائیں" غرض یہ گفتگو دو بدو میاں اور نوکر میں ہو رہی تھی کہ یکایک ایک کھانے کا خوان بے گمان صاحب خانہ کے واسطے کسی آشنا کے گھر سے آ پہنچا۔ اس خوان دل ستان کو نوکر دیکھ کر کہنے لگا "خداوند! اب آپ دو زاغ ناپاک دیکھنے کا ارادہ نہ کیجیے گا، نہیں تو میری سی نوبت آپ کی ہو گی کیونکہ آپ نے ایک زاغ دیکھا تھا تو کھانے کو آیا اور غلام ناکام نے دو زاغ ناپاک بہم دیکھے تھے تو اس کے عوض گالیاں اور جھڑکیاں کھائیں :

مثنوی
یہ نوکر کی سن کر میاں گفتگو
لگے کہنے یہ راست کہتا ہے تو
**************************************************************
(1) یہاں سے ایک لفظ بر بنائے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔

نورتن ریختہ صفحہ 348

و لیکن جب ایسا ہو حاضر جواب
تو مہجور کیوں کر اٹھائے عتاب
***********************************************************
نقل ہے کہ ایک شاعر مفلوک دل ملوک سر و پا برہنہ بہ حالت یاس ایک امیر کے پاس بلا وسواس مسند زرنگار رشکِ بہار پر ایک بالشت کے فرق سے جا بیٹھا۔ یہ نشست بے موجب اس بے ادب کی دیکھ کر امیر صاحب توقیر کہنے لگا "اے ناپاک بے باک! تجھ میں اور کتنے میں کتنا فرق ہے؟" اس کے جواب میں اس شاعر مفلوک نے ایک بالشت اپنے اور امیر کے درمیان رکھ کر کہا "اے امیر شکل پلید! مجھے میں اور سگ میں ایک بالشت کا تفاوت ہے۔" یہ گفتگو دو بدو سن کر وہ امیر بے نظیر کہنے لگا "اے لینڈی! مجھ کو نیہں جانتا ہے، یہ شخص گرجی بیگ خان کے سگوں میں ہے۔ چل دم دبا کے بھاگ جا، نہیں تو تیرے گلے میں رسوائی کا پٹا ڈال کر رسوائے خلق کروں گا۔" یہ سخن دل شکن سن کر وہ شاعر مفلوک دل ملوک جواب دہ ہوا "اے امیر بے پیر! بس اب زیادہ نہ بھونک، تجھ سے کلخی شکاری ہزاری میں نے بہت درست کیے ہیں، تو اپنے جی میں یہ غرا نہ کرنا کہ میں ذات کا لعل بے بہا ہوں" : شعر

غرض اُس کو شاعر نے مہجور خوب
جھنجھوڑا بہت سا بہ حرف عیوب
*****************************************************************
نقل ہے کہ ایک عزیز نا چیز ایک بار مساعدیٔ روزگار سے مسند دولت اور صدر حشمت پر جلوہ گر ہوا اور روز و شب بے رنج و تعب عیش و طرب میں رہنے سہنےلگا۔ یہ اس کا احوال فرخندہ فال سن کر ایک بار وفادار برائے مبارک بادی خانہ آبادی جو

نورتن ریختہ صفحہ 349

اس خوش نصیب کے قریب گیا تو وہ خود غلط یک بہ یک بھیانک ہو کر کہنے لگا "اے عزیز - تمیز! تو کون ہے جو میرے پاس بلا وسواس آیا :

بیت
میں نہیں واقف ہوں تیرے نام سے
کام کیا ہے تجھ کو میرے نام سے"

یہ سخن دل شکن اس کور باطن کا سن کر وہ غریب بے نصیب تو سنِ زبان کو میدان بیان میں جولان کر کے یوں گویا ہوا کہ "اے یار وفادار ناہجار! تو مجھ کو پہچانتا ہے، میں تیرا یار قدیم و غم خوار مستقیم ہوں مگر اکثر مردمان صادق اور دوستان واثق سے میرے استماع میں آیا تھا کہ تیرا فلانا آشنا اندھا ہو گیا ہے، سو عیادت اور تعزیت کے واسطے آیا ہوں :

اشعار
خدا تیری دولت کو کھوئے کہیں
جو روشن تری آنکھ ہوئے کہیں

اور تجھ سے نہیں ہے کچھ درکار
وقنا ربنا عذاب النار"
یہ تو کہہ کر گیا وہ اپنے گھر
مثل اءینہ وہ ہوا ششدر
گوش دل سے ولے سن اے مہجور!
نخشبی کا یہ قول ہے مشہور

قطعہ
نخشبی اصل زشت زشت بود
بے وفا با کسے وفا ہ کند

نورتن ریختہ صفحہ 350

گرچہ گیرد صواب جملہ جہاں
اصل بد از خطا خطا نہ کند
************************************************************
نقل ہے کہ ایک عزیز با تمز نے ایک طوطی رشک بلبل ہزار داستاں اور غیرت صلصل بوستاں پرورش کی اور اس کو زبان فارسی میں اس قدر آموختہ کیا کہ وہ طوطی دوتی ہر بات میں بہ زبان فارسی کہتی "دریں چہ شک ست۔" القصہ ایک روز وہ شخص دل افروز اس طوطی دوتی کو برائے فروخت ایک بار بازار میں لے گیا اور سو روپے قیمت اس جن بیش قیمت کی ظاہر کی۔ اتفاقاً ایک مغل بے دغل گانٹھ کا پورا آنکھوں کا اندھا اس طوطیٔ عجیب کے قریب آ کر پوچھنے لگا "اے طوطیٔ خوش الحان سو روپے کے لائق ہے؟" طوطی دوتی نے جواب با صواب دیا "دریں چہ شک ست" یہ کلام فرحت التیام وہ مغل بے دغل سن کر نہایت خوش ہوا اور سو روپے نقد کیسۂ حماقت سے فی الحال نکال کر اس طوطیٔ پُر فراست کی بہا میں دے کر خوش و خرم بے اندوہ و غم گھر میں لایا اور جو بات نادرات واہیات اس مغل نے طوطی بہروپی سے پوچھی تو وہ جواب دہ ہوئی "دریں چہ شک ست" اس کلام وحشت التیام سے اس مغل بے دغل کا مرغ دل قفس تن میں پھڑکنے لگا اور اپنے اُلو پنے پر شرمندہ واور خجلت زدہ ہو کر اُس طوطی دوتی سے کہنے لگا "اے طوطی لایموتی! میں نے نہایت حماقت بے لیاقت کی جو تجھ مشتِ پر کو سو روپے کو خرید کیا۔" اس کے جواب میں طوطی دوتی کہنے لگی "دریں چہ شک ست۔" اس مغل بے دغل نے متبسم ہو کر اس طوطی لعبتی کو با دل ناشاد

نورتن ریختہ صفحہ 351

آزاد کیا۔

ابیات
لیک مہجور آج کل کے مغل
نہیں کرتے ہیں اس طرح کے عمل
پیروکار نیک وہ ہی ہوا
قول یہ نخشبی کا جس نے سنا
"نخشبی تا تواں نکوئی کن
کس چہ داند چہاست نیکوئی
نیکوئی را جزا بدی نہ دھند
نکوئی را جزا ست نیکوئی"
***************************************************************
نقل ہے کہ ایک بادشاہ جم جاہ مع مرشد زادہ خوزادہ برائے شکار فرحت آثار و سیر مرغ زار زیر کہسار سوار ہو گیا۔ اتفاقاً دوپہر کے وقت آفتاب عالم تاب نے حرارت بہ شدت پیدا کی۔ بادشاہ اور بادشاہ زادے نے اپنا اپنا لبادا ایک بار اُتار کر ایک مسخرے باہوش کے دوش پر ڈال دیا اور متبسم ہو کر بادشاہ عالی جاہ نے کہا "اے مسخرے ششخرے! ان دونوں لبادوں کا بوجھ تجھ پر ایک خر کا بوجھ ہو گیا۔" یہ کلام بادشاہ عالی مقام کا سن کر وہ مسخرا بے بہا کہنے لگا "قربان جاؤں! ایک خر کا بوجھ کیا بلکہ دو خر گراں بار کا بھار مجھ نابکار پر ہے۔" یہ جواب باصواب بادشاہ عالم پناہ مسموع کر کے نہایت محظوظ ہوا۔ اس لطیفۂ خوش دقیقہ کے صلے میں وہ دونوں لبادے ملبوسی بیش قیمتی عنایت اور کرامت فرمائے۔

نورتن ریختہ صفحہ 352

ابیات
لیک مہجور اب کہاں وہ لوگ
قدر کرتے تھے خلق کی جو لوگ
اب نہ وہ شاہ اور نہ شاہی ہے
جس طرف دیکھو اک تباہی ہے
************************************************************
نقل ہے کہ ایک عزیز صاحب تمیز نے اپنے نوکر فتنہ گر سے مرغ کا سالن مرغن پکوایا؛ جس وقت کہ وہ سالن خوش گوار تیار ہوا تو اس کی بو باس سے اس نوکر فتنہ گر کا طائر ہوش قفس دماغ میں پھڑکنے لگا۔ آخر کار اس نابکار نے مرغ بریان کی ایک ران بہ شوق تمام نوش جان کی اور ایک ران مع سینہ و بازو اپنے آقا کے روبرو لے گیا۔ وہ عزیاز صاحب تمیز مرغ کی ایک ران دسترخوان پر دیکھ کر کہنے لگا : شعر

"مری عقل اس جا پہ حیران ہے
کہ اس مرغ کی ایک کیوں ران ہے"

یہ گفتگو اس نیک خو کی سن کر وہ نوکر فتنہ گر کہنے لگا "خداوند نعمت! اس مرغ نالائق کی ایک ہی ٹانگ تھی : شعر

میرا اس میں ہرگز نہیں ہے قصور
جو تھا گوشت سو آپ کے ہے حضور"

یہ بات واہیات اس کی گوش زد کر کے اس عزیز با تمیز نے کہا "اے مرغے بے ہنگام! کہیں بھی مرغ کی ایک ٹانگ ہوتی ہے جو تو یہ واہی گفتگو دُو بدُو کرتا ہے؟" غرض ہر چند اس دانش مند نے تکرار بے شمار کی لیکن وہ مرغا کڑ کڑا

نورتن ریختہ صفحہ 353

یہی کہے گیا "خداوند نعمت! آپ جتنی چاہیے، اتنی دست درازی کر لیجیے، پر اس مرغ کی ایک ہی ٹانگ تھی۔" آخر کار ناچار ہو کر وہ عزیز، صاحب تمیز دل میں کوفت کھا کر چپ ہو رہا۔ چند روز کے بعد وہ عزیز با تمیز ایک روز کوچہ و بازار کی سیر کرتا پھرتا تھا، اتفاقاً ایک کوچے میں کسی کا مرغ بازو میں سر ڈالے ایک ٹانگ سے کھڑا تھا۔ یہ نوکر فتنہ گر اس مرغ کو دیکھ کر کہنےلگا "خداوند نعمت! آپ فرماتے تھے کہ ایک ٹانگ کا مرغ نہیں ہوتا، ملاحظہ فرمائیے یہ مرغ ایک ٹانگ کا سامنے کھڑا ہے؛ بہ قول شخصے :

‘عیاں را چہ بیاں‘

یہ بات واہیات اس نوکر زباں آور کی سن کر اس عزیز صاحب تمیز نے دستک دے کر جو اس مرغ کو ہشت کیا تو وہ مرغ دوسری ٹانگ نکال کر کھڑا ہو گیا۔ وہ عزیز صاحب تمیز کہنے لگا "اے اندھے احمق بے بصر! دیکھ لے اس مرغ کی دونوں ٹانگیں ہیں یا نہیں؟" یہ کلام اپنے آقا عالی مقام کا سن کر اس نوکر زباں آور نے جواب دیا "خداوند نعمت! یہ تو خوب حکمت ہے لیکن حضرت نے اُس دن سالن کی رکاطی پر کیوں نہ دستک دی جو دونوں ٹانگیں مرغ بریان کی ہو جاتیں۔"

مثنوی
یہ نوکر کا سن کر لطیفہ عجیب
لگا کہنے ہنس کے زہے خوش نصیب
کہ جھوٹے نے سچے کو قائل کیا
غرض ہے یہ نوکر بڑا بے حیا
جو مہجور ہوتا نہ حاضر جواب
تو کس طرح پچتا وہ اس کو کباب

نورتن ریختہ صفحہ 354

نقل ہے کہ ایک بادشاہ جم جاہ نے ایک امیر خوش تقریر سے کہا "اے امیر دل پذیر! جس قوم کا نام بدانجام بان کے لفظ پر ہے وہ نہایت پر فطرت ہوتی ہے : چنانچہ فیل بان، باغ بان، ساربان، گاڑی بان، دربان : شعر

مرے اس سخن کو نہ تو جھوٹ جان
کہ ہے ان سبھوں کی عجب آن بان"

یہ کلام بادشاہ عالی مقام کا سن کر وہ امیر خوش تقریر کہنے لگا :

مثنوی
"بجا آپ کہتے ہیں اے ‘مہربان!،

کہ یہ ‘بان‘ والے ہیں سب بد زبان
انہیں‘بان‘ داروں کو اس آن میں
مقید کا ہو حکم شعبان میں"
غرض سن کے یہ گفتگوئے امیر
ہوا بادشہ دل میں اپنے حقیر
و لیکن نظامی کے اس قول کو
نہ سمجھا تھا مہجور وہ راست گو
"چو در خورد گویندہ ناید جواب
سخن یاوہ گفتن نیاید صواب"
**************************************************************
نقل ہے کہ ایک بادشاہ جم جاہ کی سپاہ خیر خواہ نے فوج عدو سے کسی قلعے پر شکست فاش پائی اور یہ خبر وحشت اثر جو اخبار میں آئی تو صاحب اخبار نے بادشاہ کو خبر دی کہ خداوند نعمت کو فتح و نصرت مبارک اور میمون ہو! یہ کلام فرحت التیام سماعت فرما کے بادشاہ عالی جاہ نہایت خوش و خرم

نورتن ریختہ صفحہ 355

ہوا؛ دو روز کے بعد زبانی شتر سوار بادشاہ نام دار کو دریافت ہوا کہ فوج بلند اوج نے پایۂ ہزیمت و شکست پایا۔ یہ خبر سن کر بادشاہ بحر و بر کمال منغص ہوا اور وزیر صاحب تدبیر سے ارشاد کیا کہ اُس عزیز ناچیز کو بلوا کر چوب سیاست سے تنبیہ کر کہ بادشاہوں کے آگے کیوں دروغ بولا تھا۔ الحاصل وہ عاقل کامل بادشاہ عالم پناہ کے قریب آ کر کہنے لگا کہ "خداوند جہاں، افسر زماں! غلام ناکام آج تعذیر کے قابل نہیں ہے، خلعت فاخرہ کے لائق ہے؛ کس واسطے کہ ہزیمت و ناخوشی کے روز اس غم اندوز نے خداوند نعمت کو خبر خوشنودی سے خوش کیا تھا؛ آج کا روز بھی ناخوشی کا ہے، حضرت کو لازم ہے کہ آج مجھ محتاج کو خداوند خوش و خرم کریں تو بجا ہے۔" غرض اس سخن دل لگن سے بادشاہ عالی جاہ نے اس کی تقصیر حقیر دل سے معاف کی۔

ابیات
ولے سچ ہے مہجور یہ بات عام
بہ قول نظامیٔ شیریں کلام
"سخن گفتن و بکر جاں سفتن ست
نہ ہر کس سزائے سخن گفتن ست"
*******************************************************************
نقل ہے کہ ایک غریب اہل نجیب قاضی مرد ریاضی کے قریب گیا اور یوں گویا ہوا کہ "اے قاضی چشمۂ فیاضی! آج کئی روز کے فاقے سے تیرے پاس بے حواس آیا ہوں، برائے خدا کچھ ایسا کھانا دے کہ نفس حریص کا کتا سیر ہو جاوے اور تجھ کو اس کا ثواب بے حساب ہو گا، کیوں کہ مشہور و معروف ہے۔ "قلوب المومنین عرش اللہ تعالٰی" اور سچ یہی ہے

نورتن ریختہ صفحہ 356

"دہ در دنیا و ستر در عاقبت" اور مثل مشہور ہے "جو دے گا سو پائے گا" یہ کلام نصائح التیام سن کر قاضی حامی اسلام کہنے لگا "اے عزیز صاحب تمیز! کیا تیرے گوش زد نہیں ہوا کہ "قاضی کے گھر کے چوہے بھی سیانے" اس کے سوا جو قاضی کے گھر میں آتا ہے، وہ سوگند کھا جاتا ہے؛ اگر تیری جی چاہے تو جھوٹ یا سچ جس میں تیرا پیٹ بھرے، ویسی ہی قسم کھا لے۔"

نظم
الغرض وہ بہ گفتۂ قاضی
ہو گیا دل میں خوب سا راضی
لیک عقل میں ہے تو با ہوش
تو نصیحت کو سن کے کر لے گوش
کسی سائل کو در سے اے مہجور
ہاتھ خالی نہ بھیج تا مقدور
******************************************************************
نقل ہائے منظوم
نقل طرفہ ہے ایک یہ مشہور
چین سے لے کے اور تا قنطور
ڈنڈ پیل ایک بعد ورزش کے
دودھ ایک کاسہ بھر کے پیتے تھے
ایک دن گھر میں کر کے کثرت کو
رفع کرنے گئے وہ حاجت کو
پُر نفر کو دکھا کے کاسہء شیر
کہا آنکھوں سے دیکھ اے بے پیر
ایسا ہی دودھ سے بھرا کاسا
آ کے پاؤں گا ورنہ میں بہ خدا
مارے کفشوں کے تیرے سر کا غدود
سب نکالوں گا سن لے او مردود
وہ تو گھر میں گئے یہ کہہ کر بات
وہیں اُس نے بڑھا کر دونوں ہات
کھینچ کاسے کو اور ایک اُنگلی
اُس کے اُوپر سے وہ ملائی لی
کھا کے کہنے لگا عجب ہے مزا
آور بھی کھاؤں گا یہ دل سے کہا
الغرض اُس نے تھوڑی تھوڑی واں
کی ملائی تو سب وہ نوش جاں
دودھ بھی اس میں سے غرض آدھا
جب وہ مردو دلے کے پی ہی گیا
یاد آئی جو بات آقا کی
خوف سے تب لگا نکلنے جی

نورتن ریختہ صفحہ 357

دل سے بولا کہ اب کوئی تدبیر
کیجیے جس سے پُر ہو کاسۂ شیر
واں تھا اک حوض اس طرح پُر آب
چشم عاشق ہو جس طرح پُر آب
غرض اس میں سے اس نے لے کر نیر
کر دیا جلد پورا کاسۂ شیر
بعد اک دم کے آئے جو آقا
اپنے کاسے کو دیکھتے ہیں کیا
نہ وہ صورت نہ وہ شباہت ہے
اک پھٹے دودھ کی سی صورت ہے
آ کے غصے میں یوں کہا "بے پیر!
ایسا ہی میں دکھا گیا تھا شیر؟"
سن کے کہنےلگا کہ "اے صاحب!
اس میں سے کچھ نہیں ہوا غائب
دیکھیے ویسا ہی بھرا ہے جام
اور ایسی شکل سے دھرا ہے جام"
سن کے جیہ بات وہ لگے کہنے
"ذرہ آنکھوں سے دیکھ تو اندھے
ایسا پتلا میں دے گیا تھا تجھے
اُلٹا کرتا ہے قائل اور مجھے"
پھر وہ بولا کہ "پتلا اور گاڑھا
مجھ کو تم نے نہیں دکھایا تھا
جیسا دکھلا گئے تھے ویسا اب
دیکھ لیجے بھرا یہ کاسا سب
وہ غرض ہو کے عاقبت ناچار
دودھ پینے لگے جوں ہی یک بار
کہیں پانی میں حوض کی مچھلی
آ گئی تھی جو ایک چھوٹی سی
ان کو پینے میں جو نظر آئی
تو لگے کہنے "او بے سودائی!
اس میں یہ چیز کیا ہے دیکھ ذار"
سن کے یہ بات اور ہو کے خفا
یوں لگا کہنے "سخت واہی ہے
ابے کھا جا یہ شیر ماہی ہے"
اُس کی تقریر سن کے اے مہجور!
ہو گیا چپ غرض وہ اہل شعور
*************************************************************
نقل دیگر
نقل طُرفہ ہے اک ہگوڑے کی
سن کے آئے جسے سبھوں کہ ہنسی
رات کو اپنا چھوڑ کر بستر
ایک صاحب کی جا کے بالیں پر
چین سے بیٹھ کر ہگ آتا تھا
پر وہ اُس کو کبھی نہ پاتا تھا
ایک دن اس نے دل میں ٹھانی یہ بات
سوئیے بھی ذرا نہ آج کی رات

نورتن ریختہ صفحہ 358

دیکھوں تو کون سا وہ انساں ہے
رات کو ہگتا روز جو یاں ہے
الغرض دل میں بات ٹھان کے یہ
سو رہا چپ دوپٹا تان کے یہ
اس میں معمول سے وہیں اپنے
شوق سے آ کے وہ لگا ہگنے
یہ تو تھا جاگتا، وہیں اُٹھ کر
یوں لگا کہنے "تو ہے کون بشر؟
یوں سرہانے مرے جو اے بدخو!
آ کے ہگ جاتا ہے ہمیشہ تو؟"
سن کے کہنے لگا کہ "اے مردک!
مجھ کو پہچانتا نہیں اب تک!
سن لے شیطان کا میں بیٹا ہوں
کیوں نہ سر پر ترے ہمیشہ ہگوں"
سن کے یہ اس نے جھٹ پکڑ کر ہاتھ
جا کے دیول میں پھر کہی یہ بات
"باپ کو تو تمہارے یہ گھر ہے
روز ہگیے یہاں تو بہتر ہے
باپ کے گھر کو چھوڑ کر ہر جا
یوں نہیں ہگتے پھرتے ہیں بیٹا"
غرض اس نے زباں کو کھول دیا
خوب سا اُن کو گوز بند کیا
سچ ہے مہجور یہ ‘پرایا گھر
تھوک کا ڈر‘ ہے اپنا گھر ہگ بھر‘
******************************************************************
نقل دیگر
نقل ہے، اک عزیز وقت پگاہ
گیا اک آشنا کے گھر ناگاہ
اتفاقاً کہ وہ نہ تھا گھر میں
اُس کی مادر نے آن کر در میں
شفقت سےپھر اُس نے یوں پوچھا
"گھر سے کچھ کھا کے آیا ہے بیٹا؟
جب تلک گھر میں آئے تیرا یار
جو کہے تو ابھی وہ ہو تیار
یا نہیں کچھ تو کہہ نہاری نان
دوں منگا چوک سے تجھے اس آن"

نورتن ریختہ صفحہ 359

سن کے یہ اس سلیقہ دار کی بات
یوں لگا کہنے سن کے وہ بد ذات
"آپ کے سر کی سوں کہ یہ بے باک
کھا کے آیا ہے آج تو امساک"
پیر زن سن کے اس کی یہ تقریر
لگی کہنے "تو سخت ہے بے پیر
بڑے بوڑھوں سے اپنے کیسی بات
کہیں کرتا ہے کوئی ایسی بات"
آخرش کو وہ پیر زن مہجور
گئی گھر میں یہ کہہ کے "چل ہو دور"
************************************************************

نورتن ریختہ صفحہ 360

چھٹا باب

خرد مندوں کی نقلوں میں

عاقلان صاحبِ ہوش اور ناقلانِ عجیب پوش قرطاسِ ادراک پر کلک چالاک سے یوں تحریر و تسطیر کرتے ہیں کہ ایک فقیر روشن ضمیرکے قریب ایک غریب پُر فریب جا کر یوں حرف زن ہوا کہ "اے درویش خیر اندیش! تیری خدمت فیض درجت میں تین سوال دور از خیال رکھتا ہوں، اس کا جواب با صواب عنایت کر : پہلے سوال کا احوال یہ ہے کہ سب صاحب کہتے ہیں کہ خدا ہر جا حاضر و ناضر ہے، یہ بندہ گندہ کسی جا نہیں دیکھتا، چشم ظاہر بین سے دکھلا دیجیے۔ دوسرے یہ کہ انسان ضعیف البنیان کو تقصیر کی تعذیر کیوں دیتے ہیں؛ جو کچھ کرتا ہے خدا کرتا ہے، انسان ناتواں کو کچھ قدرت اور طاقت نہیں اور بے ارادت قدرت حق تعالٰی کے کچھ نہیں ہوتا؛ چنانچہ مثل مشہور ہے : مصرع

بے رضائے تو یکے برگ نہ جنبد ز درخت

پس اگر انسان ضعیف البنیان کو قدرت یا طاقت ہوتی تو تمام کام اپنے واسطے خوش تر اور بہتر کرتا۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالٰی شیطان بے ایمان کو برائے عذاب دوزخ میں ڈالے گا، پس آتش دوزخ اس سرکش کو کیوں کر عذاب کرے گی کہ اس کی سرشت آتش کی ہے؛ بھلا آتش کو آتش کیا صدمہ دے گی۔" یہ
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 321

کمانچہ زبان کو سرود تقریر پر کھینچ کر کہنے لگا "پیر و مرشد بر حق! ہم لوگ اس قدر مورد عتاب نہیں ہیں جو آپ عتاب فرماتے ہیں" یہ سخن اس شیریں دھن کا استمع کر کے محل سرائے دل کشا میں بادشاه در آمد ہوئے۔ اتفاقاً اس کے صحن مکان میں ایک یاقوت اب عالی نسب بلكہ جواہر نامی ادهر ادهر پنج رشک مرجاں کمر پر دھرے چہل قدمی کر رہی تھی۔ بادشاہ عالم پناہ اس لعل بے بہا کے قرین آ کر دست بہ دست خوش طبعی کرنے لگے، قضائے کار ایک بار شاه نام دار کا اس کے مالہ مروارید پر جو ہاتھ پڑ گیا تو وہ رشتہ گلو سے ٹوٹ کر گر پڑا، تو وہ نازنین مہ جبين بہ حالت غمگین جھک کر موتیوں کو چننے لگی۔ اس میں بادشاہ جم جاہ کے منہ سے یہ ارتھ سر زد ہوا: چهمچھا

نہ ہو رو سیس لیت ہے تارن

یہ چھمچھا کہتے ہوئے بادشاه دیوان خاص میں تشریف فرما ہوئے اور حکمت سے ارشاد کیا کہ اس ارتھ کا کبت میرے حسب حال فی الحال نہ بنائے گا تو و الله بالله تا بہ زیست کسی کبیشر کو قید سے رہائی نہ دوں گا، یہ کلام بادشاه ذوی الاکرام کا سن کر حکمت کہنے لگا: دوہرا۔

کدهی نہ کا گج ہاتھ ليوں نہ جانوں سیاہی کیسا رنگ
سدا سر ستی داہنے حکم ہے بھگوان کے سنگ

یہ دوہرا دیوتا کا پڑھ کے کہنے لگا "خدا وند نعمت نیر حشمت! اس ارتھ کا یہ کبت ہے:

کبت
ایک سمیں سنگ سیام ہنسی کر لاگ گیو جو مالن سے
مکتا کلی ٹوٹ گری بھویں میں تر لاگی نین نہارن سے

صفحہ 322
کٹ سے نہوری کرسوں بنتی حکمت پران بچارن سے
دلیب کے ناؤ سمير چڑھے نہ ہو رو سیس لیت ہے تارن سے

قصہ مختصر اس کے گہر ہائے سخن کی مسلسل بیانی پر نہایت خوش ہو کر بادشاه عالم پناه نے ان تینوں کبیشروں کو محبوس خانہ سے طلب فرما کے خلعت پر زر مع مالہ مروارید عنایت فرمائے:

مثنوی
سچ ہے مہجور جو سخن داں ہیں
قدر داں گفتگو کے ہر آں ہیں
اور جنہیں کچھ نہیں سخن کا مزا
خزف و لعل کو وہ جانیں کیا

نقل کے ایک روز بادشاه عالی پناه اسپ باد رفتار پر سوار ایک بار چار سوئے بازار میں جونہی پہنچے کہ یکایک بادشاہ کی نگہ ایک دریچے کی طرف جو پڑی تو کیا نظر آیا کہ ایک مہ پاره سر تا بہ پا زیور میں آراستہ دریچے کے پٹ سے لگی ہوئی ایک پٹ کی اوٹ میں نظاره کناں ہے۔ جونہیں اس نازنین مہ جبین کی آنکھ بادشاہ کی آنکھ سے دو چار ہوئی تو وہ رشک مہ تاب پر حجاب دوپٹہ رشک سحاب منہ پر ڈال کر دریچے کے پٹ کو جھٹ پٹ بند کر کے پٹ کی اوٹ میں بازو لگا کر بیٹھ گئی۔ یہ عالم اس پر فہم کا دیکھ کر بادشاه عالم پناه نے قفل سکوت کو کلیہ زبان سے جھر سے کھول کر چھمچھا موزوں کیا: چھمچھا

سوها دار مکھ ناری کنواری پٹ دے گئی

الحاصل دیوان خاص میں رونق افزا ہو کر کب گنگ خوش آهنگ کو ارشاد فرمایا کہ "اس کا کبت، اے پر فراست!

صفحہ 323
جلد کہہ دے۔ یہ ارشاد دور پر نور کب گنگ سن کر کہنے لگا کہ خدا وند نعمت مسہر عظمت! میرے خیال الاختلال میں یہ آتا ہے کہ:

کبت
با در سی نکس دامنی سی دمک کوندھا سی لپک چتون میں چتی گئی
کچھن کٹاری انگ کام بھاری بھون کی مر در میں کرور کھوں کے کئی
کانن سو ہیں کرن پھول اور دیکھے جانے سده بھول دهرت کے چرن پیاری جیو لے گئی
کہاں لون بكها نین گنگ آلى رسی تہاری سہاڈار مکھ ناری کنواری پٹ دے گئی

مثنوی
کہا یہ کبت اس نے جب حسب حال
توشہ نے اسے کر دیا نونہال
سخن گو کی مہجور سب اہل صدر
بہ قول نظامی کریں کیوں نہ قدر
ہزار آفریں بر سخن پروری
کک بہ سازد از ہر جوے جوہری

نقل ہے کہ ایک روز اکبر بادشاہ عشرت اندوز بر سر راه ایک باره دری میں بیٹھے نظاره کناں تھے کہ ایک نازنین مہ جبین ڈول میں پانی بھرے اس طرف سے ہو کر نکلی اور بادشاه جم جاه کی نگاہ اس رشک ماہ کی چھاتی پر جو پڑی تو کیا نظر آیا کہ کچھ انگیا کے مسکنے سے چھاتی یوں ابھری دکھائی دیتی ہے،بہ قول شخصے: چھمچھا

نکست کلی گلاب کی جیون نكست للت لکیر

اور اس کی اٹھکیلی کی چال خوش انداز سے ڈول کا پانی ہلتا جاتا تھا۔ اس عالم پر بادشاہ کے دل پر یہ مضمون گزرا کہ اس ڈول کے پانی کا ہلنا بے وجہ نہیں ہے، یعنی اس نازنین

صفحہ 324
مہ جبین کی ابھری ہوئی چھاتیوں کو دیکھ کر وہ پانی بہ خوش بیانی یوں کہتا ہے کہ ھیہات میرے ہاتھ نہ ہوئے جو میں ان چھاتیوں تک دسترس پا کر محظوظ ہوتا، اور فی الحقیقت وہ چھاتیاں ایسی تھیں کہ جس کے وصف میں مرزا رفیع السودا یوں کہتے ہیں: شعر

لنج یہ قصد رکھے ڈال دے تو ان پر ہاتھ
لنگ کے جی میں یہ آتا ہے کہ لے بھاگ اچک

المطلب بادشاہ جم جاه نے اس ڈول کی ڈانواں ڈول طبیعت دیکھ کر اور پانی کے ملنے پر یہ چھمچھا کہا: چھمچھا

کہہ کارن ڈول میں حالت پانی

یہ چھمچھا کہتے ہوئے بادشاه نے دیوان خاص میں بر آمد ہو كر ہر ایک کبیشر سے ارشاد کیا کہ اس ارتھ کا کبت جلد تیار کرو۔ اس میں کب سنت صاحب قوت اپنے دیوتاؤں کو یاد کر کے بادشاہ عالم پناه سے کہنے لگا "کہ خداوند نعمت مہر سپہر کرامت! اس کا کبت يوں ہے:

کبت
اک سیمیں جل آنن گهر سے نکسی ابله برج کی رانی
جات سکول میں ڈول بھرن جل کھینچت تھی انگیا مسكانی
دیکھا سبھا چھتیاں او گھر ین کب سنت کییں منسا للچائی
ہاتھ بنا پچھتات رہو یہ كارن ڈول میں حالت پانی

یہ کبت پر حیرت سماعت فرما کر وه ماه رفعت میر حشمت نہایت مسرور و محظوظ ہوا اور کبت کا صله ایسا بے بہا ديا کہ پھر اس کو روپوؤں پیسوں کی چاه نہ رکی، بلکہ ایک چشمۂ فیض اس کبیشر کے گھر سے جاری رہا:

صفحہ 325

قطعہ
کیوں نہ مہجور قدر دان سخن
سمجھیں اہل سخن کو کان سخن
کھل گیا جس پہ ان کا رتبا ہے
دل سے خدمت وہ خوب کرتا ہے

نقل ہے کہ اکبر بادشاه عالی جاہ نے ایک روز بہ صد شگفتگی دل ایک خواص خاص سبز رنگ، خوش آهنگ، لعل لب، غنچہ دهن کو پان کا بیڑا رشک لعل بے بہا اپنے سے کھول کر کھلا دیا۔ وہ نازنین مہ جبین اس گلوری کو درجک دهن میں رکھ کر دست بستہ برائے تعظیم و تکریم بادشاه عالم پناہ کے سامنے سر نگوں ہوئی۔ اس میں اس معدن عشرت اور کان حلاوت نے اس نازنین مہ جبین کو آغوش دلبری کھینچ کر اس کے نازک پستان رشک انار پستان پر دست ہوس ڈالا کہ یکایک وه نازنین مہ جبین اس حالت پر حلاوت میں جو متبسم ہوئی تو پان کی پیک زنخدان رشک سیب گلستان پر گر پڑی تو اس ٹھوڑی کا یہ عالم نماياں ہو گیا کہ گویا ماه تاباں کو چیر کے کسم چوایا ہے۔ اس عالم بے بہا پر بادشاہ عالم پناه نے یہ چھمچھا موزوں کیا: چھمچھا

مانو چندر کو چیر کسم چوایو

به چھمچھا جان باختہ کہتا ہوا وہ بادشاه عالی جاه اندرون محل سے بر آمد ہوا اور ایک کبیشر خوش منظر کو طلب فرما کر سوال کیا کہ اس ارتھ کا کبت پر حلاوت جلد موزوں کر دے۔ اس کبیشر زبان آور نے جواب دیا کہ "اے بہار سبز بختان گلشن دولت و اے آبشار خیابان چمن حشمت!

صفحہ 326
اس چھمچھا كا یہ كبت ہے:

کبت
ایک سیمیں پیا نے سکھ میں کر کھول کے آپ تنبول کھلایو
چندر مکھی مکھ میں لے اپنے کر جور کے جوں ہی سیس نوايو
لالن لال لیے ہت سون انگین چھتیاں جیورا هول سایو
مسکاتے پیک گرے مکھ سون مانو چندر کو چیر کسم چوایو


قطعہ
اس کبیشر کا گوش کر کے کلام
بادشہ نے دیا بہت انعام
قدر داں جو سخن کے ہیں مہجور
وہ سخن کو سراہتے ہیں ضرور

نقل ہے کہ ایک روز بادشاه گیتی پناه لب دریا بارہ دری میں پیش از طلوع آفتاب عالم تاب اپنی موج میں سیر دريا کر رہا تھا۔ ایک نازنين ماه جبین جادو نگہ اپنے خاوند کے ہمراه شب کو ہم بستر ہو کر ناگہ وقت پگاه مثل ماه دریا میں نہانے کو آئی اور غوطہ زن ہو کر اپنے بال رشک سنبل بستان غیرت ده مہر درخشان کھڑی ہو کر جو نچوڑنے لگی تو بادشاه عالم پناه کو اس کے قطرات آب دیکھ کر یہ مضمون سوجھا کہ اس جعد عنبرین کی چوٹی سے سر اسر یہ پانی کی بوندیں نہیں گرتی ہیں، مار سیاه نے ماه تاباں کو جو چوسا ہے تو اس کا امرت دم کی راہ سے بہہ نکلا ہے۔ اس عالم پر یہ ارتھ زبان پر گزرا: چھمچھا

امیں نکسو بہ پونچھ کے اورن

اس ارتھ کو پڑھتے پڑهتے بادشاہ عالم پناه دیوان خاص میں زینت بخش ہو کر پرہت کبیشر خوش منظر سے کہنے لگے

صفحہ 327
کہ اس چھمچھا کا کبت موزوں کر، یعنی: چھمچھا

امیں نکسو بہ پونچھ کے اورن

اس کا انعام بہ خوائش تمام تجھ کو خزانہ راجا باسک سے ایسا عنایت ہو گا کہ تو بڑا کوڑ بالا ہو جائے گا اور تیرے من کی آرزو سب نکل جائے گی، اور احيانا اس ارتھ کا کبت میرے حسب دل خواه والله نہ بنے گا تو اے افعی زبان! تجھ ناتواں کو اس قدر مار پڑے گی کہ تیرے بدن کی کھال کیچلی کی طرح ادھڑ جائے گی اور قالب کی پانی سے تیری روح کی ناگن لہرا کر فرار ہو جائے گی اور اژدهائے جان بے گمان کہسار قضا سے سر پٹک کے بے جان کو جائے گا، ویا تجھ روسیاه گمراه کا منہ کالا کر کے ناگپور کے اجگر قید خانے میں مقید کروں گا۔" یہ کلام بادشاه عالى مقام کا سن کر وہ کمیشر خوش منظر کچھ منتر پڑھ کے کہنے لگا "اے خداوند جہان و اہے قبلہ زمان! اس ارتھ کا یہ کبت ہے:

کبت
ایک سیمیں ہر سون رت مانگے پرات کی سلتادينہ کھورن
دے بڑکی جھین نکسین اور ٹھاری بھئی کج لاک نچوڑن
پر ہت بلو کت با چھپ کو جل کے گنگا چوئیں بال کے جھورن
چند کو چوست ہے مانو ناگ میں نکسو بہ پونچھ کے اورن

اشعار
یہ سن کر کبت بادشاہ نے کہا
کک صد آفریں مرحبا مرحبا
کہا تو نے ایسا کبت حسب حال
کہ جس سے مرا جی ہوا خوش کمال


صفحہ 328

غرض شاه نے ہو کے مسرور خوب
دیا اس کو انعام مہجور خوب

نقل ہے کہ ایک نازنین مہر جبين ماه ثانی رنگ چنینی رشک زعفرانی غسل کر کے چوکی طلائی مرصع پر زر کی غلطی کا تہمت باندھے بیٹھی بال رشک سنبل بستان بے گمان سکھا رہی تھی کہ یکا یک اچانک بادشاه گیتی پناه اس کی پشت کی طرف سے محل بے دل میں جو در آمد ہوئے تو بادشاه عالم پناہ کو اس کی پشت کندن سی دمکتی ہوئی پر بالوں کی سیاہی یوں نظر آئی کہ جس پر یہ چھمچھا زبان زد ہوا: چھمچھا

سونے کی دیوار پر چیونٹی کے پر نارے ہیں

یہ ارتھ پڑھتا ہوا وہ بادشاه عالی جاہ محل سے بدل باہر آیا اور ایک کبيشر ہمسر کب گنگ اور افسر دلیپ خوش آهنگ کو طلب کرکے کہا "اس ارتھ کا کبت ایسا بے بہا بنا دے کہ جس میں سراسر میرا مطلب ہمسر ہو اور اگر اس میں ایک سرمہ و تفاوت ہو گا تو تیرا سر تيغ ندامت سے سر دست کاٹا جائے گا اور احيانا مقصد حضور پر نور سے تیرا مضمون سر بر ہو گا تو تجھ کو سر افراز و ممتاز بے انداز کر کے سرداروں میں سر بلند
کروں گا۔"

نظم

اس کبیشر نے سن کے شاہ سے کہا
زہے اقبال اس کمیشر کا
جس کو حضرت سراہیں یوں دل سے
ہے میسر یہ بات مشكل سے

المدعا اس کبیشر صاحب ذکا بے ہمتا نے فی الحال بہ حسب حال

صفحہ 329
یہ کبت بنایا:

کبت
چکنے جھر جھارمانو پنکھدار کیدھوں بھورن کی ڈارکی کیدھوں سوتن کے بچارے ہیں
سر متها کیدھوں ناگن دار کیدھوں نار مکبھول کسی سج سنوارے ہیں
کاجر تے کارے اندهيارے اندھیارے پریم لگت پیاری سوندهاتے سوند هارے ہیں
لانبے لہکارے گوری پیٹھ ہو پر دارے سونے کی دیوار پر چیونٹی کے پر نارے ہیں


ابیات
سن کے اس کا کبت سبھی یکسر
مرحبا بول اٹھے خوشی ہو کر
اور شہ نے اسے سر دربار
سربراہوں کا کر دیا سردار
واقعی جو سخن کہے فی الحال
اس کو کرتے ہیں قدر داں نہال
لیک مہجور اب کہاں وہ لوگ
کیا سخن سنج تھے یہاں وہ لوگ

نقل ہے کہ ایک جوہری رشک پری قدیم اکبر آباد کا مقيم ہيرا لعل نامی چنی لال کے بیٹے نے برائے تجارت جواہرات نادرات جہنے پنے کو سفر کیا تھا لیکن اس کے فراق اور اشتياق میں اس کی جورو نیک خو كا یہ احوال پر ملال تھا کہ آٹھ پہر اپنے شوہر کے در دندان کے خیال میں رو رو کے سلک گہر صدف چشم سے بہایا کرتی اور کبھی اس کے لب یاقوت گوں کے دھیان میں دیدۂ خوں بار سے لخت جگر مثل عقیق احمر ٹپکائی، اور کبھی اس کے رخ سبز رنگ رشک زمرد رمانی کے تصور میں دست وحشت غیرت پنجہ مرجان سے اپنے عارض گلفام کو مارے

صفحہ 330
طمانچوں کے لال کی مانند لال کرتی، اور اس کے یشب خیال میں وصل کی تختی برائے خفقان وه کشتہ حرمان روز و شب سینے پر رکھتی، اور کبھی اس کے کاکل مشکیں کے دھیان میں نیلم کی طرح آنکھوں میں ایسی تیرگی چھائی تھی کہ مانند دانہ سلیمانی دیدے پتھرا جاتے تھے۔ الغرض اسی حالت پر ملالت میں اس جوہری رشک پری کے رشتۂ حیات ٹوٹ جانے کا جو نامہ قاصد غم آماده در پر لایا۔ تو اس نازنین اندوه گین کا احوال پر ملال کیا بیان کروں کہ نامہ بر کی آمد سنتے ہی یہ حقیقت ہوئی کہ ننگ و حیا کا لفافہ کھل گیا اور ابر عشق سے چھاتی بھر آئی، دونوں صدف چشم سے موتیوں کی لڑی نکلنے لگی۔ اس حالت پر صعوبت میں ایک باری بہ صد بے قراری وہ خود غلط خط لینے کو چلی تو یکایک نام دل آرام بھول کر ہر ہر کر اٹھی۔ اتنے میں سنانی کا پیغام ناکام قاصد نے زبانی جو دیا تو دل کا یہ احوال پر ملال ہوا گویا تیل کی بوند آگ پر پڑتے ہی دل دھڑ دهڑ کرنے لگا، اور دروازوں کے پٹ سے جو لگی کھڑی تھی تو ایسی عشق کی آتش بدن پر چھا گئی کہ نامہ لیتے ہی چراغ کی بتی سے جل اٹھی۔ غرض وہ شمع شب افروز بآه جگر سوز آتش اجل سے جل کر وہیں رہ گئی۔ یہ خبر
وحشت اثر ایک بار جو اخبار میں اکبر بادشاه جمجاہ کو پہنچی۔ تو اس اخبار عجوبہ روزگار کو ملاحظہ کر کے کب کنگ خوش آہنگ سے فرمایا کہ اے کبیر زبان آور! عجب بات ہے:

چھمچھا

پانی کے ہاتھ ليت باتی سی جر اٹھی

یہ چھمچھا جان سوختہ کب گنگ سن کر کہنے لگا "خداوند نعمت! فی الحقیقت اس کا یہ موجب ہے:
 

La Alma

لائبریرین
ریختہ صفحہ ۱۶۱

اشعار
کوئی کہتی تھی ہائے اے بھائی
بے اجل تیری موت کیوں آئی
اس تری بے کسی کے مرنے کے
جان سے جائے یہ بہن صدقے
تو نے دنیا کا کیا ابھی دیکھا
یک بہ یک آگئی جو تیری قضا

الحاصل اس بے دل کو تجہیز و تکفین کر کے اور غسّالوں نے لاش کو غسل دے کر کفنِ صاف میں رکھ کر ایک صندوق میں روپوش کیا، بقول مصحفی:

نظم
تابوت پہ سبز اک دوشالا
لا کر پئے زیب و شان جو ڈالا
چادر پھولوں کی لہلہاتی
پھٹتی تھی صبا کی جس سے چھاتی
یوں سبز دوشالا تھا بہ تزئیں
جس طرح کہ آسماں پہ پرویں
تابوت کہ تختہء چمن تھا
جس تختے پہ جوش نسترن تھا

الغرض اس تابوت کو سب روتے پیٹتے سوئے گورِ غریباں گریہ کناں لے چلے اور وہ کسی رشکِ لیلی بھی پا برہنہ، با سرِ عریاں، چاک گریباں تا داماں، افتاں و خیزاں، با آہ جاں کاہ، ہمراہ تھی، لیکن جس بازاری کی ایک باری اس پر نگاہ پڑتی تھی، بے اختیار دیدہء گوہر بار سے گوہرِ اشک اس لعلِ بے بہا پر

ریختہ صفحہ ۱۶۲

‎نثار کرتا۔ المطلب بے صد بے قراری و آہ و زاری گورِ غریباں میں پہنچ کر نمازِ جنازہ سے فراغت کر کے جو اس کو دفن کرنے لگے تو وہ کسبیء غم آمادہ، دل دادہ، بھی سرِ قبر عاشق آ کر کہنے لگی

‎اشعار

‎اتنا مرا کام اب کرو تم
‎مجھ کو بھی اس میں گاڑ دو تم
‎بے اس کے میں جی کے کیا کروں گی
‎میں بھی اسی قبر میں گڑوں گی
‎یہ میرے کیا نصیب، ہے ہے
‎جو اس کے گڑوں قریب، ہے ہے
‎جو اس سے مجھے جدا کرے گا
‎ناحق مجھے درد و غم وہ دے گا
‎غرض اس کو ہر ایک نے بصد منت و نصیحت قبر سے جدا کر کے اس عاشق جان دادہ کو با دیدہء پر خون مدفون کیا۔ بعد رسوم چادر گل وغیرہ اس کسبی رشکِ لیلٰی کو ہر ایک نے بدیدہء گریاں بآہ و فغاں کہا کہ اے بی بی! اب گھر چل، یہاں کے بیٹھنے سے کیا حصول، بقول قدرت اللہ:

‎ابیات

‎یاران و ہم رفیق و شفیقان و دوست دار 1
‎سب آشنا ہیں زندگی، مستعار کے
‎جب مند گئیں یہ آنکھیں تو اے دوست بعد مرگ
‎بھٹکے ہے کون گرد کسے کے مزار کے
———————————
1-
‎نسخہ مطبوعہ محمدی ۱۳۱۱ ء میں “دوستاں" ہے

ریختہ صفحہ ۱۶۳

‎لیکن وہ سوگوار پر اضطرار اس قدر چپ ہوئی کہ پھر کسی سے مطلق ہم کلام نہ ہوئی۔ آخر کار ناچار سب خویش و تبار اس جوانِ جاں نثار کے گھر میں آئے اور اسی نازنین اندوہ گین کا احوالِ پر ملال مادر عاشق جاں دادہ سے بہ تفصیل اظہار کیا۔
‎یہ روداد بے داد 1 اس کی مادر مضطر سن کر بہ صد بے قراری و آہ و زاری ڈولی پر سوار ہو کر تربتِ دل بر پر آئی اور اس کی سوگوار غم گسار سے کہنی لگی کہ اےبیٹی! مجھ کم بخت ماں نے سنگدل ہو کر پتھر چھاتی پر دھرا اور تو کس واسطے اس خاک کے ڈھیر پر بیٹھی ہے؟ اے بیٹی! اگر تیرے یہاں بیٹھنے سے وہ جی اٹھے تو کیا مضائقہ! میں بھی تیری شریک حال ہوں:

‎ابیات

‎ورنہ اس غم الم سے کیا حاصل
‎یہ مری جاں مقام ہے مشکل
‎اس میں چارہ نہیں کسی کو ذرا
‎چہ امیر و وزیر و شاہ و گدا
‎کوئی مرتے کے ساتھ مرتا گر
‎تو نہ جیتا جہاں میں کوئی بشر

‎از برائے خدا و بحق نبی مصطفؐی، اے نور ضیائے چشم امیدواراں و اے دوائے دلِ درد منداں! اٹھ کر میرے گھر چل، میں تجھ کو اپنی بہو بیٹی کی جا پر رکھوں گی اور جو کچھ خدمت گاری و دلداری ہو سکے گی، بسر و چشم بجا لاؤں گی۔
‎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-
‎ نسخہ مطبع محمدی ۱۳۱۱ ء میں یہ لفظ نہیں ہے۔

ریختہ صفحہ ۱۶۴

‎کیونکہ تیرے دیکھنے سے بیٹے کا غم پر ستم ذرا فرو ہو گا اور تیرا بھی وہاں زنان ہم سایہ میں قدرے قلیل دل حزین بہل جائے گا، ورنہ بقول میر حسن: شعر

‎وگرنہ تو رک رک کے مر جائے گی
‎اسی طرح جی سے گزر جائے گی

‎غرض ہر چند با دلِ درد مند اس کی مادرِ مضطر نے اس نازنین اندوہ گین کو سمجھایا لیکن اس بلبل حدیقہء سکوت نے گلشن تقریر میں ذرا بھی زبان کو نطق سے آشنا نہ کیا بلکہ درجک دہن کو اور قفل خاموشی لگ گیا۔ الحاصل وہ بے دل پھر اپنے گھر آ کے مصروف رقت ہوئی مگر وہ نازنین اندوہ گین صبح شام اس قبر کی جاروب کشی کرتی اور شب کو اس کے تعویذ کو چھاتی سے لگا کر سو رہتی اور وقت سحر پھر اس قبر کے گرد جاروب کشی اور چھڑکاؤ سے فراغت کر کے بیٹھ کر با دیدہء اشک بار جرأت کے یہ اشعار دل فگار چپکے چپکے پڑھتی:

‎مثنوی

‎یہ درو غم سے حال ہوا ہے
‎کہ دم لینا مجھے مشکل ہوا ہے
‎مری قسمت میں گر یہ دکھ لکھا تھا
‎تو یا رب کیوں مجھے پیدا کیا تھا
‎کوئی جز غم نہیں ہے غم گسار اب
‎فقط ہے بے قراری ہی قرار اب
‎کسی صورت سے کل آتی نہیں ہے
الہٰی کیوں اجل آتی نہیں ہے
‎مروں تو جائے یہ درد جدائی
‎ الہٰی کیا اجل کو موت آئی؟

ریختہ صفحہ ۱۶۵

‎اس عرصے میں جو کوئی کبھی زبردستی سے کھانے کو کھلا دیتا تو جبرًا وقہرًا کچھ کھا کے چلو پانی وہ تنگ زندگانی پی لیتی، بقول میر حسن: شعر

‎نہ کھانے کی سدھ اور نہ پینے کا ہوش
‎بھرا اس کے دل میں محبت کا جوش
‎جو پانی پلانا تو پینا اسے
‎غرض غیر کے ہاتھ جینا اسے

‎الغرض اس جوانِ غیر دادہ کا چہلم بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ایک روز وہ جگر سوز قبر کو سینہء بے کینہ سے لگا کر بقول مسرور یوں کہنے لگے لگی:

‎مثنوی

‎دیکھتا 1 جو ہے وہ کہتا ہے مجھے
‎پاس ننگ و نام کچھ بھی ہے تجھے

‎یہ بھی جینے کا کوئی اسلوب ہے
‎ایسے جینے سے تو مرنا خوب ہے

‎تنگ کرتا ہے مجھے اب اضطراب
‎اے اجل تو کیوں نہیں آتی شتاب

‎الغرض درد و الم سے وہ نگار
‎ابر باراں کی طرح لیل و نہار

‎اس قدر روئی کہ آخر مر گئی
‎عاشقوں میں نام اپنا کر گئی

‎مر گئی رو رو کے جب وہ گل عذار
‎دیکھ کر ہر اک رہا حیران کار
‎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1-
‎نسخہ مطبع مصطفائی ۱۲۶۷ ھ اور
‎نسخہ میور پریس ۱۸۷۲ء میں بھی اس مصرع کی یہی صورت ہے۔
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
ریختہ صفحہ 376


خوار نہ کر ، ایسے لقمۂ عزیز کو کوئی ہاتھ سے یوں مفت کھوتا ہے۔ آج تیرے صدقے سے میں بھی سیر ہو کر دعائے خیر کروں گی کیوں کہ مثل مشہور ہے "جس کا کھائے اس کا گائے"۔

یہ گفتگو روباہ روسیاہ کی سن کر پلنگ کہنے لگا کہ "اے روباہ دل خواہ! یہ تو ہو سکتا ہے مگر شیرِ دلیر کا نہایت خوف و خطر ہے ؛ مبادا وہ بد بلا جو میرے پیچھے پڑے گا تو اُس کے پنجۂ غضب سے رہائی مشکل ہے اور تو اپنے بل میں چھپ کر بچ رہے گی ؛ کہنے والوں کا تو کچھ نہ جائے گا ، میری جان مفت میں جائے گی" یہ بات واہیات سن کر روباہ رو سیاہ جواب دہ ہوئی "اے پلنگ دل دل! اگر میری فراست اور درایت تجھ کو اعتقاد اور اعتماد نہیں ہے تو میرا پاؤں اپنے پاؤں سے مستحلم باندہ کر اس زن پر فن کے پاس بلا وسواس چل ؛ اگر شیر نیستان اس آن آ جائے گا تو مجھ کو اُس کے روبرو پھینک کر بھاگ جانا" الغرض اس پلنگ بے ننگ نے اس روباہ رو سیاہ کو پاؤں میں باندھ کر جو نہی اس عورت پر فطرت کے قریب گیا ، وہیں وہ مکار ایک بار پکار کر کہنے لگی "اے پلنگ دل تنگ! مرحبا مرحبا! زود بیا ، سچ ہے کہ اس کو رزق کہتے ہیں کہ تو پھر آپ سے میرے پاس آیا اور میں حکایت پُر شکایت شیر کی تیرے سامنے کہہ کر سخت نادم تھی کہ اپنے ہاتھ آیا ہوا رزق کھو دیا لیکن یہ مثل سچ ہے : مصرع

زرق را روزی رساں پر می دھد

اے پلنگ بے ننگ! میں عورت پُر فطرت جادوگر ڈائن اور کفتار جگر افگار کی قسم سے ہوں ؛ ہر ایک صحرا میں جا کر کباب انتخاب پلنگ اور شیروں کے کھاتی ہوں اور بیل اور گینڈوں کا


ریختہ صفحہ 377

شوربا جب تک نہیں پیتی ہوں تب تک عقلیہ کچھ نہیں معلوم ہوتا ، اور تو جو آیا ہے ایک مصنفہ ذرا سا روباہ رو سیاہ کا لایا ہے ، اس سے تو میری ڈاڑھ بھی گرم نہ ہو گی ؛ بہ قول شخصے: مثل

"اونٹ کے منہ میں زیرہ"

یہ گفتگو عربدہ جو دُو بدُو اس زنِ پُر فن کی سن کر روباہ بہ صدِ آہ کہنے لگی " اے پلنگ ! یہ عورت بد ہیت فی الحقیقت کوئی بلائے آسمانی یا آفتِ ناگہانی ہے ، اگر اپنی جان کی امان چاہتا ہے تو یہاں سے سر پر پاؤں رکھ کر فراف ہو۔" غرض وہ پلنگ دل تنگ جو بھاگا تو وہ روباہ روسیاہ پلنگ کے پاؤں سے جو بندھی تھی ، اس کی لتاڑ میں اس قدر مجروح ہوئی کہ تمام بدن پارہ پارہ ہو گیا۔ اس حالت پُر ملالت میں روباہ روسیاہ خندہ زن ہوئی تو وہ پلنگ دل تنگ کہنے لگا "اے روباہ روسیاہ ! یہ کیا غضب ہے کہ تو نے آپ کو میرے پاؤں سے بندھوایا اور میں تیرے باعث بھاگ نہیں سکتا ہوں؛ اگر اس حالت ہر ملامتمیں وہ عورت بد خصلت آ جائے تو مجھ کو اور تجھ کو بہ خوبی نوشِ جان کرے" الغرض وہ روباہ روسیاہ پلنگ کے پاؤں سے چھوٹ کر اپنے بل میں بھاگ گئی اور وہ پلنگ دل تنگ وہاں سے ایسا فرار ہوا کہ کہیں ٹھکانا نہ لگا۔

مثنوی

اس میں جب صبح کا ہوا تڑکا

تب اس زن کا مٹ گیا دھڑکا

اپنے لڑکوں کو لے کے بے دہشت

گھر میں آئی وہ کر کے یہ فطرت


ریختہ صفحہ 378

جس کو مہجور مکر یہ آئے

وہ درندوں سے جی بچا لائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نقل ہے کہ ایک مرغ زار خوش بہار دل کش میں شیر دلیو سکونت رکھتا تھا لیکن اس کے مکان دل ستاں کا ایک میمون ذوفنون نگہبان ہر زمان تھا۔ حسبِ اتفاق وہ شیر شہرۂ آفاق برائے سیر کسی اور اطراف و اکناف کو راہی ہوا؛ ایک دو روز کے بعد ایک سیاہ گوش باہوش مع زن و فرزند بادل خورسند مسکنِ شیر دلیر پر جو وارد ہوا تو وہ مکان دل ستاں نہایت مرغوب الطبع خوش وضع دیکھ کر اپنی مادہ دل دادہ سے کہنے لگا کہ "ایسا صحرا روح افزا تو کبھی دیکھنے کا اتفاق میان آفاق نہیں ہوا تھا: شعر

آؤ اس جا پہ بود و باش کریں

آور گھر کس لیے تلاش کریں"

یہ بات وہ بد ذات کہہ کر اس جائے دل افزا پر نازل ہوا مگر اس سیاہ گوش باہوش کے وہاں مقیم و مستقیم ہونے سے وہ بندر مچھندر کہنے لگا "اے سیاہ گوش بے ہوش! یہ مکان جان ستاں شیروں کا ہے، یہاں سے دُم دبا کر بھاگ جا، نہیں تو اے ناہنجار! تو پنجۂ اجل میں گرفتار ہو جائے گا۔" یہ گفتگو عربدہ جو میمون بد خو کی سن کر سیاہ گوش با ہوش کہنے لگا "اے میمون ذوفنون! کیا جھک مارتا ہے، بہ قول شخصے: مصرع

درویش ہر کجا کہ شب آمد سرائے اوست

اور اس کے سوا یہ زمین مثلِ نگین میرے باپ دادے کی میراث ہے" یہ باتِ واہیات وہ میمون ذو فنون گوش زد کر کے دل میں کہنے لگا 'معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیاہ گوش


ریختہ صفحہ 379

با ہوش کوئی بلائے بد ہے جو اس دلیری و تہور سے باتیں کرتا ہے ورنہ شیروں کا وہ نام ہے کہ جس کے سننے سے انسان اور حیوان کا زُہرہ آب ہو جاتا ہے'۔ وہ بندر خیرہ سر یہ بات دل میں سوچ کر چپ ہو رہا لیکن اس کی مادہ دل دادہ نے کہا "اے سیاہ گوش بے ہوش ! یہ مکان دل ستاں میں استقامت فراغت سے کر ، بے فائدہ قصہ کرنے سے کیا حصول؛ بہ قول شخصے: مثل

کجا ریش کجا ۔۔۔۔۔۔ ، شیر بکری کی کیا لڑائی

اور اس کے سوا سنے گا، زبان طعن دراز کر کے یہ مثل کہے: مثل

شیروں سے جھگڑتی ہے گلی خال کی مادہ"

یہ گفتگو جو روئے بد خو کی سن کر کہنے لگا " اے بی بی! حیلہ گیڈر اور بھیڑیے کا کس طرح سے تیرے گوش ہوش میں پہنچا ہے؟" وہ جواب دہ ہوئی کہ اے سیاہ گوش بے ہوش!:

"نقل ہے کہ ایک گُرگ نا ہموار برائے شکار شغالِ بد اعمال کے پیچھے دوڑا لیکن وہ شغال تیز پا اس کے رُو برُو سے مثلِ کافور کافور ہو گیا؛ تب تو وہ گرگ ضعیف دل نحیف اپنے دل سے یوں مشورہ کرنے لگا کہ ' اس گیڈر کے گھر کے اندر چل کر بیٹھ رہیے۔ جس وقت بہ فراغت وہ آئے، نوشِ جان کیجیے۔' یہ مصلحت


ریختہ صفحہ 380

وہ گُرگ پُر فطرت دل میں ٹھہرا کر اس شغالِ بد خصال کے گھر میں جا بیٹھا۔ اس عرصے میں دوپہر کو وہ گیڈر اپنے گھر بے خطر میں جو آنے لگا تو در پر نشان انجان پاؤں کے پائے؛ یہ ماجرا حیرت افزا بے جا دیکھ کر اپنے در پر کھڑا ہو گیا:

قطعہ

اور دل میں لگا یہ کہنے بات

گھر میں بیٹھا ہے اب کوئی بد ذات

کیجیے اس سے ایسی اب حرفت

جس میں اس کی چلے نہ اک فطرت

"یہ خیال وہ شغالِ دل میں کر کے یوں گویا ہوا کہ "اے میرے گھرِ بے در! میں بے خبر تجھ میں اس وقت آؤں یا نہیں؟" یہ سخن حیرت فگن سن کر وہ گُرگ کہن خاموش مدہوش بیٹھا رہا؛ ایک دم کے بعد پھر شغالِ بد افعال بولا کہ "کیوں میرے گھرِ بے در! میں بے خبر آؤں یا نہ آؤں؟ کیوں کہ میرے اور تیرے ہمیشہ رسم سوال و جواب کی ہے، کس واسطے کہ بنیاد سنگ کی مٹی سے ہے اور سنگ پر نیرنگ کی بنا کوہ پُر شکوہ کی ہے اور کوہ کی رسم سوال و جواب کی ہے، یعنی جو کوئی دامنِ کوہ میں آواز ہم راز دیتا ہے، وہ بھی آواز خوش انداز سے جواب دیتا ہے":

قطعہ

نخشی رد مکن سوال کسے

قلزمی را چہ کم شود زندا

تا کہ از آدمی سخن گوید

اوہم آواز می دھد بہ صدا

"یہ گفتگو دُوبدُو سن کر گُرگ کہن پُر فن دل میں کہنے لگا
 

محمد عمر

لائبریرین
401

بھلا اس کا بار کہاں سے ٹھہرتا :

ابیات

یہ سن کر کہا اس لیے ہاں واقعی

تو دانا سہی میں ہی ناداں سہی

جہاں ایسے احمق ہوں مہجور لوگ

وہاں عقل سے کیا ہوں مسرور لوگ

نقل ہے کہ ایک سائیس اپنے رئیس کا گھوڑا دو رکابہ دریا پر نہلانے کو لے گیا؛ اتفاقاً اس گھوڑے کا پاؤں کہیں بھنور کنڈ میں جو پڑا تو ایک بار بے اختیار غوطے کھانے لگا۔ اس نفر گیدی خر نے آپ کو بچا کر اس گھوڑے کو دریائے حماقت میں ڈبو دیا : شعر

جب نفر ایسا بے حقیقت ہو

کیوں نہ گھوڑا غریق رحمت ہو

الحاصل وہ نفر بہ حالت مضطر میاں کے پاس آ کر کہنے لگا ”میاں صاحب! آپ کا اسپ باد رفتار دریا میں فرار ہو گیا۔“ یہ واردات واہبات سن کر وہ بہ حال مضطر اُٹھ کھڑا ہوا اور اس تفر سے کہنے لگا ”اے خر ناہموار! میری تلوار باڑھ دار اُٹھا لے، دیکھوں تو سہی تو نے میرا گھوڑا کیوں کر ڈبو دیا۔“ الحاصل وہ عزیز با تمیز دریا کے کنارے پہنچا تو اس نفر گیدی خر سے کہنے لگا ”اے احمق مطلق! وہ میرا گھوڑا باد پا بتا کمان ڈبویا۔“ یہ کلام وہ نافرجام سن کر تلوار باڑھ دار دریا میں پھینک کر کہنے لگا۔ ”میاں صاحب! دیکھیے اس جا پر آپ کا گھوڑا ڈوب گیا۔“ یہ واردات واہیات وہ نیک صفات دیکھ کر کہنے لگ ”یک نہ شد دو شد! گھوڑا تو ڈبو چکا

402

تھا اور میری تلوار باڑھ دار جہازی بھی بے وقوفی کی لہر میں ڈبوئی۔ اے اُلّو! جی میں آتا ہے کہ تیرے گلے میں بھنور کلی ڈال کے ایسے تھپیڑے ماروں کہ تیری ساری بے شعوری ہہہ جائے۔۔۔۔۔(1) یا تیری دستار اتار کر قینچی پر چڑھا کے ایسی مار دیجیے کہ تیرا جی ڈوب جائے۔ اے نا لائق گنہ گار! کوئی بھی ایسا گھاٹ کام کرتا ہے کہ جیسا تو نے طوفان اس آن برپا کیا ہے۔ غرض دریافت ہوا کہ تو سیدھا سپاٹ احمق بے اٹک ہے۔

ابیات

چل کہیں سامنے سے ہٹ جا تو

نہیں تو ماروں گا تجھ کو اے باد خو!

اسی دریا میں یا ڈبو دوں گا

اسپ و شمشیر کا عوض لوں گا“

آخرش اس نفر کو اے مہجور!

کر دیا اس نے نوکری سے دور


نقل چار احمقوں کی

نقل ہے کہ ایک پیر زال نیک خصال، خجستہ پیکر، خوش منظر چار سوئے بازار رشک بہار میں کچھ کام نیک انجام کو نکلی تھی، اتفاقاً وہ افسر نیک بختان و ہم سر خاتون بادشاہاں سر دست بلند کر کے سر کو جو کھجانے لگی تو اس عرصے میں چار اشخاص خاص نمودار و موجود ہوئے۔ قضائے کار آن چاروں کی نگہ ناگاہ اس پیر زال نیک افعال کے ماتھے پر جو پڑی تو ایک جوان نادان کہنے لگا کہ ”اس پیر زال نیک خصال نے

- --

1) یہاں سے ایک جملہ بر بنانے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔

403

لا کلام مجھ کو سلام کیا ہے۔“ اس میں دوسرا بول اٹھا کہ ”اے بے حیثیت! تجھ میں کیا فوقیت ہے، اس پیر زن کم سخن نے مجھ کو سلام کیا ہے۔“ حاصل کلام وہ چاروں نا کام اتنی واہی بات پر جنگ و جدل کرتے تھے۔ القصہ اس قصے نے یہاں تک سر کھینچا کہ اس جا پر اکثر لوگ آ کر کھڑے ہو گئے۔ غرض ایک عقل مند دانش مند نے کہا ”اے عزیزو! تم آپس میں عبث لڑتے ہو، وہ پیر زال صدق مقال آگے جاتی ہو گی، اس سے جا کر دریافت کر لو، ذرا سی بات کو ناحق اتنا طول دیتے ہو!“ یہ بات معقول سن کر وہ نامعقول پیر زال غریب کے قریب گئے اور یوں گویا ہوئے کہ ”اے بی صاحب! ہم چاروں میں سے تم نے کس ناکام کو سلام کیا؟“ یہ بات واہیات سن کر پیر زال نیک خیال دل میں کہنے لگی ’معلوم ہوتا ہے کہ یہ چاروں شخص احمق مطلق ہیں‘ متبسم ہو کر کہنے لگی ”اے میاں! جو تمہارے درمیان زیادہ احمق ہو گا، میں نے اسی کو بہ صد نیاز سلام کیا ہے۔“

نقل اول احمق کی

اس کے جواب میں ایک احمق مطلق اس میں سے بول اٹھا، ”بڑی بی صاحب! میرا تو حمق یہ ہے کہ ایک روز میں غم اندوز سسرال فرخندہ فال میں وارد و صادر ہوا تھا اور وہاں لوگوں نے کھانے کے وقت مجھ سے کہا ’کچھ کھانا نوشِ جان کر لو تو آرام فرماؤ‘ مجھے حریص طبع کے منہ سے بے ساختہ نکل کیا کہ میں اپنے غریب خانے سے کھانا کھا کے آیا ہوں : شعر

کچھ نہیں احتیاج کھانے کی

بات میری نہیں بہانے کی

آخر کار منت بسیار اور لجاجت بے شمار سے ہر ایک نے

404

مجھ سے کہا مگر میں نے کسی کو اس بات کا لقمہ نہ دیا کہ بہت خاصا تھوڑا سا کھانا کھا لوں۔ غرض ایک پہر شب کے بعد مجھ کو بھوک نے اس قدر عاجز کیا کہ میرا مرغ روح آتش گرسنگی سے بریان ہونے لگا اور العطش سے جگر کباب ہو گیا۔ اس وقت میں نے چپکے دروازہ کھول کے اور کپڑے اتار کر گدائی کا ارادہ کیا؛ اتفاقاً ایک گھر سے ٹکڑے مانگتا مانگتا اپنی سسرال فرخندہ فال کے در پر آ پہنچا اور دست سوال دراز کیا کہ اندر سے چنبیلی لونڈی بختاور طبع ٹکڑا لے کر باہر نکلی۔ میں نے جو اُسے پہچانا کہ یہ لونڈی ہماری ہے اور دروازہ بھی سسرال کا ہے، وہاں سے میں نے پچھلے پاؤں ہٹنا شروع کیا اور وہ کنیز بے تمیز روٹی دینے کو آگے بڑھی۔ غرض جوں جوں میں بیچھے ہٹتا جاتا تھا، وہ آگے بڑھی چلی آتی تھی اور یہ کہتی تھی کہ ”اے فقیر تن حقیر! تو روٹی کا ٹکڑا کیوں نہیں لیتا ہے۔“ قضائے کار اس نا ہموار کے پیچھے کنواں آ گیا تو ایک بار بے اختیار اس میں دھڑام سے گر پڑا۔ غرض میرے کوئیں میں گرنے سے بے تامل ایک غل پیدا ہوا کہ کوئی فقیر بے صبر گردش کا ڈانواں ڈول کوئیں میں گر پڑا۔ آخر کار مجھ باؤلی صورت کو ہر ایک ایک نے آہ چاہ کر کے نکلا اور سبھوں نے پہچانا کہ یہ تو فلانے کا داماد ناشاد ہے؛ ارے اس کی کیا کمبختی تھی جو یہ اس حالت پر ملالت میں گرفتار ہو گیا۔ غرض اس ذلت و ندامت سے آج تک میں نے پھر کبھی سسرال فرخندہ اقبال کا نام نہیں لیا۔ میرا تو احمق پن اے پیر زن! اس قدر ہے جو بیان میں آیا : شعر

غرض پیر زن سن کے سب ماجرا

لگی کہنے صد آفریں مرحبا !

405

نقل دوسرے احمق کی

یہ گفتگو اس اُلّو کی سن کر ایک اور لٹورا بول اُٹھا کہ ”بڑی بی صاحب! آپ میری حماقت کی حکایت گوش دل لگا کے استماع کیجیے؛ یعنی ایک روز مجھ طالع افروز کو سسرال فرخندہ فال سلام و پیام بلوانے کا آیا۔ اتفاقاً اس سادہ لوح کو پگڑی نہ باندھنی آتی تھی، ایک آشنا آگے کے میرے گھر کے پیچھے استقامت رکھتے تھے؛ آخر کار منت بسیار اور سماجت بے شمار سے باتوں کی لپیٹ میں ان سے دستار بندھوا کے اور پوشاک نفیس تن پر آراستہ و پیراستہ کر کے سسرال فرخندہ فال کی طرف روانہ ہوا۔ ناگاہ اثنائے راہ میں ماندگی اور نیند نے نہایت غلبہ کیا تو یہ خیال اس حال میں دل پر گزرا کہ ایسی جا پر سوئیے کہ جہاں پگڑی نہ اُتارنی پڑے۔ غرض ایک کنواں پختہ جو وہاں نظر آیا تو اس پر یہ بندہ اس طرح سویا کہ سر کوئیں کے اندر رکھا اور جگت پر پاؤں پھیلا کر سو رہا، لیکن کروٹ لینے سے دستار کنوئیں میں فرار ہو گئی اور سہ پہر کے بعد جو اس تیرہ روز کی آنکھ کھلی تو بہت گھبرایا کہ دن تو تھوڑا باقی رہ گیا، بہ قول آنکہ :

مسرور پہنچ منزل موصد پہ سویرے

رستے میں ٹھہرنا نہیں اچھا سفری کا

الحاصل اس گھبراہٹ میں مجھ کو پگڑی کی کچھ خبر نہ رہی، بھاگا بھاگا یہ چالاک سسرال کے قریب جو پہنچا تو وہاں گھر کی لونڈی چلی آتی تھی، اُس نے جو دیکھا کہ میاں سر برہنہ بدحواس بھاگے آتے ہیں، شاید کہ بی بی ماہ تمثال کا انتقال ہو گیا ہے۔ یہ بات واھیات سوچ کر وہ لونڈی

406

روتی ہوئی گھر میں گئی اور واقعہ حیرت افزا خوش دامن سے جو بیان کیا تو سب گھر کے لوگ بہ حالت عجب دندان تاست زیر لب ہو کر ایک بار زار زار رونے لگے۔ غرض میں انجان اس مکان وحشت نشان میں داخل ہوا تو سب کو گریان با دل بریان دیکھا۔ ناچار میں دل فگار بھی زار زار رونے لگا۔ اس عرصے میں ہمسائے کے لوگوں نے آ کر ہر ایک نوحہ گر مضطر کا منہ چھڑا کے مجھ سے پوچھا کہ ”میاں یہ واقعہ کیوں کر گزرا؟“ میں نے بہ چشم پُر نم، بہ حالت غم اُن سے پوچھا کہ ”میاں تم بیان کرو کہ ماجرا حیرت افزا کیوں کر در پیش آیا؟“ آخر کار سب خویش و تبار کو دریافت ہوا کہ یہ اشک باری و بے قراری ناحق کی ہے۔ ”اے پیر زال صدق مقال! اس دن سے جو میں بد اعمال بھاگا تو آج تک پھر اُدھر نہیں گیا۔“ شعر

غرض پیر زن نے اسے بھی کہا

ہزار آفرین مرحبا مرحبا!

نقل تیسرے احمق کی

جب یہ اُلّو بد خو اپنی کہانی لاثانی بیان کر چکرا تو تیسرا مسخرا یوں بولا کہ ”بڑی بی صاحب! یہ سادہ لوح بھی سسرال فرخندہ فال میں جو وارد و صادر ہوا تو وہاں خوش دامن صاحبہ نے بے تکلف تمام اس نابکار کے واسطے کھانا تیار کروایا؛ اتفاقاً میرے دھن سے یہ سخن بر آیا کہ ”میں اس وقت نہایت سیر ہوں۔“ غرض تمام گھر کے لوگ مجبور ہوئے مگر میرے منہ سے ناہ بہ اکراہ نکلی تو پھر مطلق اقرار نہ ہوا؛ بہ قول شخصے : مثل

جائے لاکھ رھے ساکھ

407

آخر کار سب خویش و تبار نا چار ہو کے چپ ہو رہے اور میں مکان خواب گاہ میں اپنی دل خواہ کے ساتھ غلطیدہ ہوا لیکن غلبۂ گرسنگی سے خواب آنکھوں سے کافور ہو گیا۔ اس میں وہ نیک بخت جس وقت سو گئی تو اس ناپاک جان ہلاک نے وہاں کھانے کی تلاش آس پاس کی، کہیں سے کچھ ہاتھ نہ لگا لیکن ایک چھینکے میں ہانڈی کوری نظر آئی، بندے نے جو اُسے کھولا تو مرغی کا انڈا ہاتھ لگا؛ اس عرصے میں یکایک میری بی بی کی آنکھ کھل گئی تو میں نے پاس رسوائی سے وہ انڈا مرغی کا جھٹ منہ میں رکھ لیا اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ اس حالت پر حیرت میں وہ مجھ کو دیکھ کر کہنے لگی ”اے میاں! تم کو خیر تو ہے جو اس طرح گھبرا کے لیٹ گیے؟“ غرض اس نیک بخت نے ہزار سر مارا مگر میں نے اس کو جواب نہ دیا؛ بہ قول شخصے : مثل

میاں مریں ہیں اپنی جان اور بی بی مانگیں شکار

اور اس کے سوا اس کم بخت جان کرخت کے منہ میں انڈا تھا، جواب با صواب کس منہ سے دیتا۔ آخر کار ہر ایک غم خوار خویش و تبار نے کہا کہ کچھ اس کو آزار نابکار ہو گیا ہے یا کوئی اسرار پُر آزار ہے۔ غرض گھر میں ایک تہلکہ عظیم اور صدمہ صمیم برپا ہوا؛ آخر کو اس وقت ایک جراح کو جو دکھلایا تو وہ کہنے لگا ”اس کے گال ورم تمثال پر مواد کا زور ہے، نشتر کے سوا کوئی چیز فائدہ نہ کرے گی۔“ الحاصل اس جراح نے سب سے اجازت لے کر اس شخص کے گال پر نشتر جو دیا تو میں نے وہ انڈا اس گال سے اُس گال میں رکھ لیا۔ یاد ماجرا حیرت افزا جراح دیکھ کر کہنے لگا کہ ”دیکھیے صاحب! ادھر کا مواد اُدھر جا رہا۔“ غرض اس جراح بد راہ نے دوسرے گال کو جو

408

چاک کیا تو وہ انڈا اس بندہ گندہ کے منہ سے نکل پڑا۔ اس انڈے کو گھر والے دیکھ کر نہایت کڑکڑائے : غرض اس دن سے وہ میرا ڈریا جل گیا : شعر

کہو اب منصفی سے تم بڑی بی

کہ مجھ سا دیکھا ہے احمق کہیں بھی؟“

نقل چوتھے بڑے احمق کی

جس وقت وہ سادہ لوح اپنی حماقت بیان کر چکا تو وہ چوتھا بولا کہ ”بڑی بی! صاحب : شعر

شرح یں آتش جان سوز نہ گفتن تا کے

سوختم سوختم ایں راز نہفتن تا کے

اس گم کردہ از خود رفتہ کو ایک امیر صاحب توقیر نے کسی علاقے کا عامل کامل کر کے بھیجا تھا۔ بندے نے وہاں جا کر ایسا۔۔۔۔۔۔(1) کیا کہ سرکار عالی مقدار کی تمام آمدنی مصرفِ بے جا میں تصرف کی اور ایک خر مہرہ یا ایک پیسا کبھی ارسال نہ کیا۔ غرض لشتم پشتم گزرتی جاتی تھی۔ اس کیفیتِ بے حقیقت میں یہ سوجھی کہ شادی برائے خانہ آبادی کیا چاہیے۔ یہ احوال کثیر الاختلال سن کر قانون گو اور متصدی کہنے لگے ”اے صاحب! یہ کیا آپ غضب پُر تعب کرتے ہیں!“ غرض حالت حماقت میں کسی کا کہنا خیال میں نہ آیا : آخر کار ایک پیر زن مکار کو بلوایا اور اس نے شادی کا پیغام دیا۔ اُس پیر زال کذب مقال نے اس شخص کو احمق مطلق جان کر کہا ”ازیں چہ بہتر“ غرض وہ پیر زن پُر فن یہ کہہ کر اپنے گھر کو گئی۔

---

1) یہاں سے ایک لفظ بربنائے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔

409

ایک روز کے بعد آن کر کہنے لگی ”میاں صاحب! آپ کی شادی ایک صاحب زادی سے میں نے ٹھہرائی ہے، ایک پانچ چھ روز میں ظہور میں آ جائے گی لیکن پانچ سو روپے چڑھاوے کے واسطے عنایت کیجیے تو آپ کی بات اس کے ساتھ مضبوط اور مربوط کر آؤں“ بندے نے پانچ سو روپے اپنے صندوقچۂ حماقت بے لیاقت سے نکال کر اس کے صرہ پُر فطرت میں بھر دیے۔ چند روز کے بعد پھر آ کے کہنے لگی کہ ”میاں صاحب! دو ہزار روپے برائے تیاری اور دیجیے تو شادی کا سامان بے پایاں شروع ہو جائے۔“ غرض وہ بھی دلوا دیے۔ دو چار روز کے بعد آ کر کہنے لگی کہ ”میاں صاحب! تم جو بیاہنے چڑھو گے تو تمہارا روپیہ آتش اور اناج اور راگ رنگ میں نہایت صرف ہو جائے گا، اس سے تو بہتر ہے کہ فقط نکاح بہ صد انشراح پڑھا لیجیے، مثل ہے :

آم کھانے سے کام یا پیڑ گننے سے

غرض بندہ سمجھا کہ یہ پیر زال نیک اعمال میرے بھلے کو کہتی ہے لیکن یہ نہ سمجھا : مصرع

کہ ہیں اس بھلے میں بُرے طور بھی

بہ قول شخصے : مصرع

چہ داندگدائے بہای بہ رنج

آخر کار اس مکار کو میں نے مختار کیا اور یہ سخن زبان پر لایا کہ اے بی بی : شعر

جو چاہے کرے تو سفید و سیاہ

ولے مجھ کو ہر طرح کرنا ہے بیاہ“

اس کے جواب میں کہنے لگی ”خیر اچھا، مگر نکاح کے اخراجات ضروریات کے واسطے کچھ عنایت کیجیے تو اجرائے کار

410

ہو“ بندے نے دو ہزار روپے اور بھی دیے۔ اس کے بعد آ کر کہنے لگی کہ ”میاں صاحب! آپ کی دلہن رشک چمن کے آنے کا شگون نہیں بنتا ہے؛ جب ساعت سعید مثل عید جلا پزیر ہو گی تو وہ ماہ رُو تمہارے گھر میں جلا بخش ہو گی، لیکن کچھ اخراجات ضروری اور رسومات مشہوری کو دیجیے تو تنبول اور پنجیری کی بھی تیاری ہو جائے اور کچھ کھانے کی دو چار مہینے کی بھی بسر لے جائے۔ غرض بندے نے اور دو ہزار روپے دلوا دیے۔ اس عرصے میں چند روز کے بعد آن کر کہنے لگی ”میاں صاحب! مبارک میمون ہو کہ تمہارے گھر چاند سا بیٹا پیدا ہوا ہے، کچھ چھِٹی چلّے اور دائی جنائی کے واسطے دلوائیے تو زچہ خانے کا کم اجرا ہو۔“ غرض اس سادہ لوح نے اور بھی کچھ دلوا دیا۔

حاصل کلام وہ ناکام کبھی لڑکوں کی ٹوپی کرنے اور کبھی کھانے پینے کو اور کبھی پارچہ پوشیدنی کو، غرض ہر طرح میں لاکھوں روپیہ لے گئی اور جب میں نے سوال کیا کہ ذرا میری بی بی کو تو دکھا دے تو وہ یہی کہہ کر چلی گئی کہ ”میاں صاحب! ابھی تک دن کڑوے کسیلے ہیں۔“ اس عرصے میں اس شخص کے حمق کی خبر چکلہ دار عالی مقدار کو پہنچی کہ فلانے مکان ویران کی آمدنی ایک کوڑی بھی نہیں آتی تو اُس چکلہ دار نے مجھے کو ناکردہ کار سمجھ کر تغیری کہ شقہ بھیجا۔ اس وقت حالت یاس میں لڑکے بالوں کا خیال آیا کہ کسی طرح اپنی بی بی کے پاس بلا وسواس چلیے کہ اس ضمن میں وہ پیر زن پُر فن جو آئی میں نے کہا ”بڑی بی! تمہارا بڑا سن ہے کہ میرے یاد کرتے ہی تم موجود ہوئیں۔ اے بڑی بی صاحبہ! ہمارے کام میں تو خلل آ گیا لیکن ہمارے گھر بار کے کشت کار اب سب دکھلاؤ تو میری تقاوی کی واصل باقی سے تم بے محاسبہ ہو جاؤ۔“ یہ سخن سن

411

کر وہ پیر زن پُر فن کہنے لگی ”بہت خوب لیکن کچھ اشرفیاں لڑکوں کی شیرینی کے واسطے منگوائیے، میں آپ کو خانۂ مطلب بوالعجب پر پہنچا دوں گی۔“

المدعا وہ پُر دغا مجھ کو ایک بھلے آدمی کے مکان دل ستان کے دروازے پر لے جا کر کہنے لگی ”میاں صاحب! تمہاری سسرال فرخندہ فال یہی ہے، اب یہاں دستک دیجیے، تمہارے صاحب زادے نکل آئیں گے، تم دو چار گھڑی ڈیوڑھی میں بیٹھنا، تمھارا سالا جب دربار سے آئے گا تو تم کو مکان رشک گلستان میں بہ ہر روش لے جائے گا۔ مجھ سے آپ کی بی بی کل سے خفا ہیں، نہیں تو میں ہی آپ کو لے چلتی۔“ یہ بات واہیات کہہ کر وہ بد ذات تو وہاں سے فرار گئی اور بندے نے ایک دستک دی تو لڑکے پانچ چھ برس کے چھوٹے چھوتے اندر سے نکل آئے۔ وہ مٹھائی اُن شیریں دھنوں کو دے کر مجھ تلخ کام نے کہا ”بیٹا اس کو نُقل کرو، دل کچھ نہ شک کرنا“ غرض وہ لڑکے مٹھائی کا دونا جو اندر لے گئے تو گھر والوں نے جانا کہ کوئی میاں کا یار وفادار ہے کہ لڑکوں کے لیے مٹھائی بہ صد صفائی لایا ہے۔ اس نیک بخت نے اندر سے پان دان اور عطر دان برائے معطری مشام فرحت انجام بھجوایا؛ اس کے بعد بہ تکلف بسیار طعام خوش گوار بھیج کر کہلا بھیجا کہ وہ تو خدا جانے کب دربار سے آئیں، آپ بہ خوشی تمام نوش جان کیجیے۔“

آخر کار یہ نا ہموار کھانا زہر مار کر کے لڑکوں کو لیے بیٹھا تھا کہ اس عرصے میں صاحب خانہ نے آ کر مجھ سے صاحب سلامت کی اور گھر میں جا کر بی بی سے پوچھا کہ ”اے بی بی! یہ مرد اجنبی ڈیوڑھی میں کیوں بیٹھا ہے؟“ اس نے کہا ”میں کیا جانوں یہ کون بلا ہوغما ہے، میں تو یہ جانتی تھی کہ کوئی تمہارے اقربا

412

سے ہے یا کوئی لنگوٹیا آشنا با وفا ہے کہ جو واہی مٹھائی لے کر آیا۔“ یہ بات واہیات سن کر صاحب خانہ باہر آ کر کہنے لگا کہ ”اے حضرت! آپ اس وقت کہاں سے تشریف شریف لائے ہیں؟“ اس سادہ لوح نے سادگی سے کہا کہ ”اے بھائی اقربائی! تم مجھ کو نہیں پہچانتے؟ میں تمہارے رشتے کا بھائی ہوں۔ تمہاری بہن رشک چمن مجھ سے پیوند ہوئی ہیں اور میرے یہ دونوں کے نونہال خوش جمال تمہارے بھانجے ہیں۔“ یہ سخن دل شکن سن کر صاحب خانہ تیوری چڑھا کر بولا ”اے مرد کہ ازیک! کیا گو کھاتا ہے، چل دور ہو میرے آگے سے، نہیں تو ایسی جوتیاں ماروں گا کہ بازار میں ھگ ھگ دے گا۔ اسے ناپاک، خاکروب کی صورت! یہ گفتگو پھر جو کرے گا تو تیرے اس طرح آگے آئے گا جس طرح دریا کا ھگا منہ کو آ رہتا ہے۔ خیر میں تو کچھ نہیں کہتا لیکن اور جا ضرور مار کھائے گا؛ یہ نمازی کا ٹکا ہے، یہاں نہ ملا اور جا مل رہے گا۔“ اس نے اس کوھا چھی چھی سے بندے کو اپنے گھر سے نکالا، گویا لاکھ ٹوکرے گو کے سر پر پڑ گئے۔ سو اے پیر زال نیک خصال! اس کی ندامت اور خجالت اس شخص کو آج تک ہے۔

مثنوی

غرج اس کی بھی جب سنی داستان

تو دی اُس بی بی نے شاباشیاں

”ولے سچ تو یوں ہے کہ تم سب کے سب

مری عقل میں ہو عجب بوالعجب

کیا تھا جو میں نے سلام نیاز

وہ مقبول دل کیجے بندہ نواز“

413

یہ چاروں سے مجور کہہ کر سخن

وہاں سے وہ راہی ہوئی پیر زن

------------

نقل اس عہد کی ہے کہ ایک شخص مرزا جیون نامی شاہ جہان آبادی لکھنؤ میں حضور پُر نور کے سواروں میں نوکر تھے اور اُن کے پاس ایک سائیس احمق گاؤں کا رئیس چاکر تھا۔ اتفاقاً ایک روز مرزا مذکور حضور پُر نور کی سواری کے ساتھ نشاط باغ کو سوار ہو گئے لیکن اس نفر گیدی خر سے کہہ گئے کہ ہمارے واسطے بھونی کھچڑی با مصالح تیار کر کے نشاط باغ میں لے آنا۔ غرض مرزا مذکور صاحب شعور تو کھچڑی اور گھی کے مع مصالح دام دے کر اُدھر سدھارے اور ادھر اس کم بخت ناشدنی نے آدھ سیر مونگ کی کھچڑی لے کر بھڑبھونجے سے بھنوا کے اور ایک بادیے میں رکھ کر اس پر گھی کو داغ کر کے ڈالا اور اس پر گرم مصالحہ چھڑک کر دستر خوان میں لپیٹ کر اپنے مرزا کے پاس لے گیا۔ ایسے میں اور لوگوں نے جو دیکھا کہ آج الہیٰ بخش سب سے جلد کھانا لے کر آیا، سب متعجب ہو کر مرزا سے کہنے لگے کہ ”نہیں معلوم کیا پھرتی جلدی کر لایا کہ ہمارے نوکروں میں سے کوئی نہیں پہنچا : شعر

غرض آج اس نے کیا ہے وہ کام

کہ انعام دیجے اسے لا کلام“

الحاصل وہ کھچڑی جو مرزا نے کھولی تو عجب صورت پُر کدورت نظر آئی کہ کچی کھچڑی نیچے بیٹھی ہے اور گھی پر گرم مصالح تالاب کی کائی کی طرح تیر رہا ہے۔ یہ کھچڑی کا تماشا دیکھ کر مرزا کہنے لگے ”اے الہیٰ بخش! یہ کھچڑی

414

کیسی پکی ہے؟ یہ تو تمام خام نظر آتی ہے۔“ یہ سخن دل شکن سن کت خفگی سے جل کر لینے لگا” میاں صاحب! دو بالو سے تو بھنوائی ہے، سسری کچی کہاں سے رہ گئی۔“ شعر

سن کے مہجور اس کی واہی بات

ہنس پڑے سب وہاں کے اہل صفات

اور اسی کی نقل ہے کہ ایک روز اس دل سوز نے دال روٹی مرزا کے واسطے بہ تکلف بسیار تیار کی لیکن اس بد خصال نے دال کو بگھار کر ایک بار کرچھے سے تمام دال کو گھوٹ دیا اور اوپر سے اس میں کرچھے کو جھاڑ جھوڑ کر چپ ہو رہا۔ المطلب وقت شب کھانا جو نکال کر لے گیا تو مرزا مذکور صاحب شعور کی نگاہ ناگاہ دال پر جو پڑی تو کچھ دال میں کالا نظر آیا۔ یہ ماجرائے عجیب و غریب دیکھ کر مرزا نے کہا ”اے رو سیاہ پُر گناہ! اس دال کے اعتدال میں یہ سیاہی واہی کیسی ہے کہ جس سے تمام دال، اے بد افعال! خراب و خستہ نظر آتی ہے؟“، میاں کی یہ گفتگو دو بدو سن کر کہنے لگا ”میاں صاحب! شوق سے کھاؤ، کچھ نہیں ہے، تنک کرچھے کی جھاڑن جھوڑن ہو گی۔“ یہ سخن حیرت انگن سن کر مرزا کہنے لگے ”ابے کرچھے کی جھاڑن جھوڑن کیسی ہے؟“ اس نے جواب دیا کہ ”دال بگھار کر تنک کرچھے سے دال اس لیے چلائے دیوان تھا کہ کرچھے کا گھی کھراب نہ جائے۔“ شعر

یہ مرزا نے سن کر کہا ”بے شعور

بھلا کوئی کب تک تجھے دے شعور

غرض اطمینان خاطر عقلیہ ہو چکا کہ تو نہایت کچا ہے لیکن جو ایسا ہی پکائے گا تو میں بھی مارے مکیوں کے تیرا پلیتھن نکالوں گا کیوں کہ تو نے میری طبیعت نہایت ناخوش کی ہے۔

415

واللہ تجھ سے نوکر سے اس گردے میں مجھ کو چپ آتی ہے اور تیری وہ مثل ہے کہ : مثل

منہ کی گئی لوئی تو کیا کرنے کا کوئی“

نظم

غرض دو تھپیڑے لگا کر اسے

کہا ”تو ہی کھانا یہ کھا لے ابے

کہاں ایسے ہوتے ہیں مہجور لوگ

جو اگلا سا کرتے تھے دستور لوگ

اور اسی نفر گیدی خر کی نقل ہے کہ ایک روز اس کے مرزا ہم دمان دل سوز کے ساتھ کوٹھے پر بیٹھے چوسر کھیلتے تھے۔ اتفاقاً اس مکان دلستان میں گنڈیری اور نارنگیوں کے چھلکے بہت سے پڑے تھے۔ ایک عزیز با تمیز نے کہا ”مرزا جی! تم سے پر نفاست اور یہ غلاظت؟ جائے نفرت ہے۔“ اس میں مرزا مذکور باشعور نے اس نفر گیدی خر کو بلا کر کہا ”ارے یہ کوڑا بے محابا جھاڑ کر کوٹھے کے نیچے پھینک دے لیکن ذرا بھلے کو دیکھ بھال کر پھینکنا۔“ یہ بات وہ بد ذات سن کر کہنے لگا۔ ”بہت نیک صاحب۔“ الحاصل اس آخور بے طور کو وہ نا پاک جھاڑ چھوڑ کر ایک ٹوکرے میں بھر کر سر راہ کوٹھے کے کنارے آ بیٹھا اور اس بات واہیات کا منتظر ہوا کہ کوئی بھلا آدمی آئے تو پھینکوں، کیوں کہ میاں صاحب نے کہا ہے کہ بھلے آدمی کو دیکھ کر پھینکنا۔ اتفاقاً ایک لمحے کے بعد ایک مقطع صورت نجبا سیرت اس راہ سے جو ہو کر گزرے تو اس کم بخت ناشدنی نے وہ ٹوکرا کوڑے کا ان پر یک لخت پھینک دیا۔ وہ بے چارے آفت کے مارے بھیانک ہو کر کہنے لگے ”اے مسخرے! تو اندھا ہے کہ جو بھلے آدمیوں پر کوڑا پھینکتا ہے؟”

416

یہ گفتگو دو بدو سن کر وہ نفر گیدی خر کہنے لگا ”بڑے صاحب ! میں کیا کروں، مرزا صاحب کے کہنے سے پھینکا تھا؛ تمہاری وہ مثل ہے کہ : مثل

دھوبی سے جیتے ہیں، گدھے کے کان مڑوڑت ہو۔“

اس کلام وحشت انجام سے وہ با حیا اور خفا ہو کے کہنے لگا۔ ”ابے تیرا کون سا مرزا ہے، بلا تو بلا سہی۔ کیا وہ ایسا سرھنگ خانہ جنگ ہے کہ بھلے آدمیوں پر کوڑا پھکواتا ہے۔“ یہ بات اس نیک ذات کی سن کر وہ بے شعور با قصور کہنے لگا ”مرزا صاحب! تنک یہ تیر آؤ، تم کا کوئی بھلا آدمی بلاوت ہے۔“ وہ مرزا بے ریا جو آ کر دیکھیں تو ایک بھلے آدمی نہایت خشم گین کوٹھے کے نیچے کھڑے ہیں اور دو چار چھلکے گنڈیری کے سر پر پڑے ہیں۔ غرض مرزا کو وہ دیکھ کر بولے ”او مرد آدمی! یہ کون سی آدمیت اور شرافت ہے کہ بھلے آدمیوں پر کوڑا پھکواتا ہے؟“ یہ کلام وحشت التیام ان کا سن کر مرزا نفر سے کہنے لگے ”اے مسخرے! میں نے تم کو کب کہا تھا کہ یہ کوڑا کسی شرفاء کے منہ پر پھینکنا؟“ اس کے جواب میں کہنے لگا ”میاں! تم نے نہ کہا کہ بھلے آدمی کو دیکھ کر پھینکنا؛ سو ایسا کون بھلا آدمی ہو گا؟“ یہ گفتگو واہی وہ نیک خو راہی سن کر تبسم کہنے لگا کہ ”خیر معلوم ہوا“ اور مرزا صاحب نے ان سے دست بستہ عرض کی کہ ”حضرت سلامت! اس وقت غلام ناکام کو جو چاہیے سو کہہ لیجیے کہ یہ بے وقوف عقل سے معذور ہے۔

اشعار

کوئی بات اس سے میں بد ہوئی

مجھی سے یہ تقصیر سر زد ہوئی“

417

غرض سن کے یہ گفتگو عذر کی

گیا اپنے گھر وہ بھلا آدمی

جو مہجور ہوتا کوئی ذو فنون

تو بے واسطے کا تھا یہ کشت و خون

۔۔۔۔۔۔۔۔(1)

نقل نظم میں

نقل ہے اک طبیب کی مشہور

کیا کروں اس کا میں بھلا مذکور

ایک بیٹا تھا اس کا ایسا اہل

دل میں حکمت کو جانتا تھا سہل

ساتھ اپنے پدر کے ہر جا پر

دیکھنے نبض جاتا تھا اکثر

باپ نے اس کے ایک دن یارو

دیکھ کر نبض ایک روگی کو

یوں کہا ”تو نے کیا گنڈیری آج

کوئی کھائی ہے جو برا کے مزاج؟“

کہا بیمار نے طبیب سے ”واہ!

کیا ہے پہچانا آپ نے واللہ!

گھر میں گنّے بہت سے آئے تھے

لڑکے بالے سبھوں نے کھائے تھے

میرے دل میں بھی کچھ جو آئی ہوس

اک گنڈیری کا میں نے چوسا رس“

الغرض وہ طبیب اپنے گھر

آیا جس دم تو اس سے اس کا پسر

---

1) یہاں سے دو نقلیں بر بنانے کثافت حذف کر دی گئی ہیں۔

418

یوں لگا پوچھنے کہ ”او بابا جان!

سچ تو فرمائیے کہ آپ نے واں

کس طرح سے گنڈیری کا کھانا

اس کا بے ساختہ تھا پہچانا؟“

سن کے اس طبیب نے گفتار

یوں کہا اپنے بیٹے سے اک بار

”میں نے اس طرح اس کو اے بیٹا!

سامنے تھا سبھوں کے پہچانا

پاس اس کے پلنگ کے چھلکا

تھا گنڈیری کا اک طرف کو پڑا

اس علامت سے میں نے اسے جانی!

نبض اس کی تھی صاف پہچانی

اور کیا اس کا سِر کروں میں نقل

ایک من علم پر ہو دس من عقل“

سن کے وہ کم شعور یوں بولا

”واہ کیا خوب آپ نے یہ کہا“

قصہ کوتاہ وہ حکیم غرض

مر گیا، یہ ہوا یتیم غرض

اس کی جا پر لگا مطب کرنے

لگے اس کا علاج سب کرنے

ایک دن اک مریض کو وہ طبیب

دیکھنے کو گیا تھا وائے نصیب

الغرض نبض دیکھ کر یارو

باپ کی بات یاد آئی جو

419

ہر طرف دیکھنے لگا یک بار

جائے خندہ ہے دوستو گفتار

چار جامے تھے اس کے گھر میں بنے

ٹکڑے ہر جا پڑے تھے نمدوں کے

یک بہ یک اس طبیب کی جو نظر

پڑی جاموں کے جا کے ٹکڑوں پر

لگا کہنے مریض کو اس آن

”تو نے نمدا کیا ہے نوشِ جان“

سن کے سب اس طبیب کی گفتار

ہنس کے کہنے لگے وہیں یک بار

”سچ یہ مشہور ہے میان جہاں

نیم حکمت ہے ساری خطرۂ جاں“

جب کہ ایسے طبیب ہوں مہجور

کیوں نہ مر جائیں بے اجل رنجور

فی الحقیقت کہ آج کل کے طبیب

یوں ہی درماں ہیں کرتے وائے نصیب!

ان کے دل میں نہیں ہے خوفِ خدا

الٹی کرتے ہیں ہر مرض کی دوا

نقل دیگر

نقل یہ بھی دوستو کیا خوب ہے

یعنی اہل عقل کے مر غوب ہے

ایک صاحب کا جو خدمت گار تھا

آپ کو گنتا بہت ہشہار تھا

420

لیکن احمق اس قدر تھا دوستو

نقل نادانی کی اُس کی یہ سنو

ایک دن اُس صاحب خانہ کے گھر

آشنا اک آئے جو با کروفر

اس کو بلوا کر انہوں نے یہ کہا

”جا کے دو پیسے کے بیڑے جلا لا“

لے کے دو پیسے غرض وہ سادہ دل

پہنچا جا کر چو ک کے جب متصل

تب لگا کرنے یہ اپنے دل میں دھیان

دونوں پیسے کا پکا کے لیجے نان

جس میں وہ مہمان مسکیں پیٹ بھر

کھائے روٹی اور جائے اپنے گھر

سوچ کر دل میں غرض اس بات کو

لے گیا پکوا کے روٹی دوستو

پہنچا جب گھر میں لیے وہ نان کو

صاحبِ خانہ نے اس نادان کو

یہ کہا ”اس وقت جو لایا ہے تو

رکھ دے جا کر آپ کے وہ رو برو“

ایک روٹی کھول کر بے قیل و قال

رکھ دی اس کے آگے خوش ہو کر کمال

صاحب خانہ کا اک باری جو دھیان

جا پڑا تو دیکھتا کیا ہے کہ نان

سامنے مہمان کے رکھی ہے ایک

اور ہے سر کو جھکائے چپ وہ نیک
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 421
دیکھا غصے سے نفر کو، تب یہ بات
بولا جھنجلا کر کہ "تو اے نیک ذات!
گھورتا کیوں کے مجھے اب ہر زماں
اور بھی موجود ہیں دو روٹیاں"
سن کے يہ مہجور اس کی گفتگو
ہوگیا چپ آخرش وہ نیک خو

نقل دیگر

نقل اک شخص کی عجائب ہے
ہے عجائب تو کیا غرائب ہے
ایک صاحب نے اک نفر نوکر
رکھا تھا لیکن ایسی شرطوں پر
"خوش جو ہوں گا کبھی ذرا تجھ سے
تب اضافے کو کہیو تو مجھ سے
اب تو جو کچھ مجھے میسر ہے
سو تو یہ لے مرا تو نوکر ہے"
قصہ کوتاہ ان کی خدمت میں
تھا یہ حاضر، ولے یہ طینت میں
اس کے تھا، جب کبھی خوشی ہو میاں
تب اضافے کو اپنے کیجیے بیان
ایک دن شب کو ان کے گھوڑے کو
لے گیا چور تو یہ حیران ہو
ہر طرف ڈهونڈنے لگا یک بار
جب نہ ہاتھ آیا ہو کے تب لاچار

صفحہ 422

بیٹھے جس جا میاں تھے کوٹھے پر
وہیں جا کر کہا بہ دیدہ تر
"گھوڑا صاحب کا بھاگ کر واں سے
یاں تو آیا نہیں یہ کہہ دیجے"
سن کے اس بد شعور کی گفتار
بے تحاشا وہ ہنس پڑے یک بار
ہنستے دیکھا نفر نے ان کو جوہیں
گڑگڑا کر لگا يہ کہنے وہیں
'اب اضافے کو میرے کہہ دیجے
بعد پھر چاہیے سو کچھ کیجے"
اور بے اختیار اے مہجور!
اس سے افزوں ہنسا وہ اہل شعور

صفحہ 423
آٹھواں باب

افیونیوں کی نقلوں میں

دبیران مبتلائے نشہ تریاک اور محرران مستانہ و بے باک پوست غزال خوش قماش پر کلک شاخ نخل خش خاش سے یہ نقل پر کیفیت یوں رقم کرتے ہیں کہ ایک افیونی با تونی حالت نشہ میں ایک امیر بے پیر کے گھر وقت شب دودھ لینے کو گیا۔ اس کی عورت نیک خصلت نے کہا "میاں صاحب! اس وقت تھن تلے کا دودھ جو چاہو تو ایک گھڑی ٹھہر جاؤ، میں تم کو شیر بے نیر اچھے سے اچھا دوں گی۔" پہ کلام فرحت انجام سن کر وہ افیونی کھڑا ہو رہا؛ اس میں پینک نے جو زور کیا تو دودھ لینے کے خیال میں ایسا جما کہ سر کی پگڑی اگر کوئی اچكا انٹی کر لے جائے تو بھی خبر دار نہ ہو، اور اس اھیرنی نے تاریکی شب کے باعث یہ خيال نہ کیا کہ دودھ کا خریدار ناہنجار کھڑا ہے یا نہیں، اپنے گھر کی ٹٹی دے کر با فراغت سو رہی۔ قضائے کار اسی رستے سے ایک چھکڑا بار لدا ہوا گزرا۔ اس کا گاڑی بان ہر آن پوئش پوئش کرتا چلا آتا تھا، اس وقت خدا ساز بہ آواز جو اس کے گوش ہوش میں پڑی تو اس امیر کے دروازے کی ٹٹی سے الگ کر کھڑا ہو رہا۔ وہ چھکڑا دو بلدا تو اپنی راہ سے لگا لیکن پھر اس افیونی کو ایسی پینگ آئی کہ ترياق شب کی سیاہی شیر سحر کی سفیدی سے متبدل ہو گئی۔ الغرض: شعر

صفحہ 424
صبح کا جس گھڑی ہوا تڑکا
اس گھڑی اس کو ہہ ہوا کھڑا

یعنی وہ آھیرنی اپنے دروازے کے قریب بعد فراغ خواب پیشاب کرنے کو جو بیٹھی تو آواز ناساز چھل چھل کی ایک بار جو آئی تو وہ افيونی جنونی پینک سے چونک کر بے اختیار ہو کر بولا "ارے او کم بخت نا شدنی! میرے دودھ میں پانی نہ ملانا، نہیں تو مارے جوتیوں کے تیرے سر غدود نکال ڈالوں گا۔" يہ بات واہیات اھيرنی سن کر جو ٹٹی لگی کھولنے تو وہ افیونی جو اس سے لگا ہوا کھڑا تھا، دھڑ سے گر پڑا۔ ایک بار بے اختیار جھنجھلا کے کہنے لگا "اے اندھے چھکڑے والے! میں اس قدر الگ بچ کر کھڑا تھا، لیکن تو نے یہاں بھی مجھ کو دھکا دے کر گرا دیا":

اشعار
خدا تیرے چھکڑے کو غارت کرے
اگاڑی کا یا بیل تیرا مرے
کہ جس سے ترے باپ دادا کی لیک
مٹے اور تو در بہ در مانگے بھیک

یہ گفتگو عربدہ جو اس افیونی کی سن کر وہ اھیرنی کہنے لگی "اے عزیز با تمیز! تو شام سے اب تک یہیں کھڑا تھا؟ رحمت خدا کی! :

قطعہ
جو افیون ایسی ہی تو کھائے گا
تو اک روز پینک میں مر جائے گا"
غرض دودھ والی نے مہجور خوب
اسے کر کے نفرین کھولے عیوب

صفحہ 425
نقل ہے کہ ایک افيونی جنونی خوش معاش یار باش تھا۔ چند مدت کے بعد جب اس کو نشہ تریاک دولت کا اترنے لگا اور فکر اخراجات لا بدی سے پوست اور استخوان باقی رہ گیا تو ایک روز اس کی جورو دل سوز نے کہا "اے عزیز صاحب تمیز! مردوں کو اس قدر خانہ نشینی نہیں چاہیے، یہ بھی نحوست کا سبب ہے۔ اس حالت پر ملالت میں تو سفر کر؛" چنانچہ حدیث شریف ہے:

حديث
"السفر وسيلة الظفر"

یہ کلام نیک انجام اپنی جورو نیک خو کا سن کر افیونی کہنے لگا: شعر

"بہت خوب اے جان والا گہر
مقرر کروں گا میں فردا سفر"

المدعا وہ سخن پرور وقت سحر سفر کا ارادہ کر کے گھر سے راہی ہوا۔ جس وقت وہ تریاکی شہر کے باہر پہنچا تو وہاں ایک تکیہ جاں فزا نظر آیا۔ اس وقت یہ اس کے دل میں سوجھی کہ اس جا پر نشہ پانی بہ کیفیت کر کے ذرا آرام فرحت انجام کیجیے، اس کے بعد منزل مقصد کی راہ لیجیے بہ قول شخصے: شعر

طبع کے اپنے ہم خوشی خواں ہیں
جہان بیٹھے وہیں کے مہماں ہيں

الحاصل وہ افيونی باتونی وہاں بیٹھ کر نشے پانی میں مشغول و مصروف ہوا۔ بعد انفراغ افيون و گزک وہ مردک سو رہا۔ اس عرصے میں سوتے سوتے جو آنکھ کھل گئی تو دن گھڑی چار ایک نظر آیا۔ یکایک گھبرا کے کہنے لگا:

صفحہ 426
تھک گئے میرے پاؤں تو افسوس
ابھی منزل پڑی ہے کالے کوس

الغرض وہ جلد کمر کو باندھ کر، ہاتھ میں حقے کی کلی لے کر بہ شکل گل خنداں، حالت نشہ میں خوش و خرم چل نکلا۔ رفتہ رفتہ اپنے ہی شہر مینوچہر کے دروازے پر آ کر لوگوں سے پوچھنے لگا کہ "اس شہر عالی قدر کا کیا نام نیک انجام ہے؟" ایک شخص نے کہا "اس شہر مینوچہر کو ہندوستان رشک جنان کہتے ہیں۔" اس کلام نیک فرجام کو سن کر کہنے لگا "سبحان اللہ! عجب قدرت الہی ہے کہ اس شہر کا نام ہمارے شہر کے ہم نام ہے۔" رفتہ رفتہ شہر کے درمیان آ کر ایک دکان دار خوش اطوار سے کہنے لگا "اے برادر بہ جان برابر! اس شہر میں کوئی افیونی خوش معاش یار باش بھی بود و باش رکھتا ہے کہ جس کے گھر و شام اپنے نشے پانی کا آرام بہ خوشی تمام ہو؟" اس نے کہا "اے عزیز با تمیز! فلاں محلے میں فلانا افیونی رہتا ہے، جو تو اس کے صبح و شام جائے گا تو البتہ تجھ کو آرام تمام ملے گا:
شعر
ہے نزدیک یاں سے نہ کچھ دور ہے
وہ اس شہر میں خوب مشہور ہے"

یہ خبر وحشت اثر سن کر افیونی کہنے لگا "یہ بھی عجیب و غریب بات ہے کہ یہ افیونی بھی ہمارا ہم نام ملا اور محلے کا بھی نام ہمارے محلے کا سا ہے؛ یہ حسن اتفاق اس آفاق میں کم دیکھنے میں آیا ہے۔"
المطلب وہ بوالعجب اپنے محلے کو پوچھتا پوچھتا

صفحہ 427
اپنے گھر کے دروازے پر جا پہنچا اور دستک دے کر
کہنے لگا "ذرا دروازہ کھول دو، ایک مسافر غريب بے نصیب تمھارے گھر میں مہمان آیا ہے۔" اس عرصے میں وقت شب كا ہو گیا تھا۔ اس کی لونڈی جھٹ پٹ دروازہ کھول کر کہنے لگی "میاں صاحب! ہمارے گھر کا مالک آج سفر کو گیا ہے لیکن آپ بہ کشادہ پیشانی مکان دل ستاں میں رونق افزا ہو جیے، کسی طرح کی بے چینی نہ ہوگی۔" یہ گفتگو دو بدو اس کنیز نیک خو کی سن کر کہنے لگا "یہ بھی عجیب اتفاق بے سیاق ہے کہ ہماری اور افیونی کی ہر جگہ برابری چلی آتی ہے، یعنی ہم جو آج سفر کو نکلے تو وہ بھی آج ہی مسافری کو گیا، اس کے سوا ہمارے سے مکان کی اس مکان عالی شان کی قطع ہے۔" یہ خیال كثير الاختلال دل میں کر کے دیوان خانے میں بیٹھا اور اس کی کنیز باتمیز جو چراغ روشن کر کے لائی تو کیا دکھائی دیا کہ مسافر تو نہیں ہے، میاں صاحب خود آپ ہی اپنے مکان میں جلوہ گر ہیں۔ یہ ماجرا حيرت افزا دیکھ کر بی بی سے جا کے کہنے لگی کہ "اے خاتون زمان! مہمان تو کوئی نہیں، میاں صاحب خود آپ ہی تشریف شریف لائے ہیں۔"
یہ کلام نافرجام اس کنیز با وفا کا سن کر بی بی کہنے لگی "اے مردار ناہنجار! کیا جھک مارتی ہے اگر وہ ہوتا تو باہر کیوں بیٹھتا، اپنے گھر میں نہ آتا۔ وہ بے چارہ مصیبت کا مارا خدا جانے آج کس مکان ویران میں بیٹھا ہوگا۔ تو مجھ پر ناحق گالی چڑھاتی ہے۔" یہ سخن دل شکن لونڈی سن کر چپ ہو رہی لیکن صاحب خانہ کی بی بی نے دل میں کہا کہ میرے گھر میں مہمان انجان آج وارد و صادر ہوا ہے اور مالک گھر کا نہیں ہے؛ بھلا اور زیادہ تکلیف نہ ہو سکے تو ملائی اور میٹھے

صفحہ 428
چانول تو اس کے واسطے بھیجیے تاکہ یہ بھی جانے کہ ہاں کسی افیونی صاحب ظرافت کے گھر میں شب باش ہوئے تھے۔ الغرض اس خاتون خجستہ پیکر نے کھانا خوش ذائقہ اس افیونی کے واسطے بھیجا۔ اس طعام خوش گوار کو دیکھ کر افیونی دل میں لگا واہ واہ! زھے قسمت! کہ آج کھانا بھی ہم کو ہمارے گھر کا سا ہاتھ آیا ؛ بہ قول شخصے: مصرع

حق شکر خورے کو دیتا ہے شکر

اور سچ بھی یہی ہے: مصرع

بے نوایان را خدا رزق ہوائی می دہد

الغرض کنیز نے بہ غور تمام جو دیکھا تو صاف صاف میاں صاحب نظر آئے اور اس وقت کنیز با تمیز بی بی سے آ کر کہنے لگی "اے خاتون جہان و اے بانوے زماں! تو مجھ کو مار کے پرزے پرزے نہ کر ڈال لیکن میں تو یہی کہوں گی کہ میاں صاحب ہی ہیں۔" یہ گفتگو دو بدو کنیز نیک خو کی سن کر بی بی جواب دہ ہوئی "خیر کیا مضائقہ! معلوم ہو جائے گا۔ الحال وہ بی بی دروازے کی دراز سے جو نظارہ کناں ہوئی تو کیا دیکھتی ہے کہ فی الحقیقت میاں صاحب کی نشست کھانا کھانے کی ہے۔ یکایک وہ بی بی کے پاؤں اس کے پیچھے کھڑی ہو کے بہ غور دیکھنے لگی تو بالمشافہ آپ روپ نظر آئے۔ یکایک اس بی بی نے خفا ہو کر پیٹھ پر ایک دو ہتھڑ مارا اور یوں کہا "اے بے حیا! اچھا مسافری کو نکلا تھا۔ تو نے تو وہ مثل کی کہ صبح کا بھولا جو شام کو آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے ہیں۔" یہ سخن دل شکن اپنی بی بی سے سن کر اور بہ غور دیکھ کر کہنے لگا "اے بی بی! اگر یوں ہی تم ہمارے ساتھ ساتھ پھرو گی تو ہم سے مسافری نہ ہو سکے گی۔"

صفحہ 429
مثنوی

یہ سن کر سخن وہ زن پارسا
لگی کہنے "تو سخت ہے بے حیا
سفر تو کرے گا نہ ہرگز کہیں
رہے گا تو قبلہ نما سا یہیں"
جو مہجور ہوتا نہ ايسا وہ حيز
تو جورو نہ کہتی اسے بے تمیز

نقل ہے کہ ایک افيونی جنونی کا نوکر بھی افیونی تھا۔ اتفاقا وہ افیونی بھی اپنے رہوار پر سوار ہو کر عازم سفر ہوا۔ اثنائے راہ میں ایک چوکی پر نشہ پانی کرنے ٹھہر گیا اور گھوڑے کو قائزہ کر کے ایک درخت سے باندھ کے کھڑا کر دیا۔ نشے پانی سے فارغ ہو کر وہ لایعنی اٹھ کر تیار اور استوار ہوا اور نفر سے یوں کہنے لگا "اے نفر باخبر! خبردار کچھ بھولنا نہیں کیونکہ یہ مسافری ہے، اس کے جواب میں نفرگیدی خر بولا کہ "صاحب! بھولنے کا کیا ذکر ہے؛! على ہذا القياس آپ کے پاس افیون کا ڈبا اور میرے پاس حقے کی کلی اور کوئلوں کی تھیلی موجود ہے؛ ظاہر میں تو کوئی چیز بھولے نہیں اور باطن کی خدا جانے: شعر

کچھ ابھی ایسا نشا بھی تو نہیں
بھول جائیں چیز کو جو ہر کہیں

الحاصل وہ دونوں غافل منزل کو چل نکلے اور گھوڑا نگوڑا وہی رہا۔ پھر چند قدم کے بعد وہ افیونی نفر باتونی سے پوچھنے لگا "اے نفر گیدی خر! کچھ بھولے تو نہیں؟ دیکھ تو مجھ کو شبہ نظر آتا ہے، ٹھہر جا۔ پھر نفر بے خبر بول اٹھا کہ صاحب!

صفحہ 430
آپ کو کچھ وہم ہو گیا ہے، میرا اسباب میرے پاس اور آپ کا اسباب آپ کے پاس، بھولنے کا کیا ذکر ہے؟ آخر کار یہ دونوں نابكار اسی گفتگو میں سرائے میں پہنچ کر ایک بھٹیاری دلاری نامی سے کہنے لگے کہ "اے بھٹیاری! کھانے دانے اور گھاس کی جلد تیاری کر، ہمارا مارے بھوک کے کلیجا ٹوٹا جاتا ہے کیوں کہ ہم لوگ افیونی ہیں، ہم کو بھوک اور پیاس کی برداشت نہیں ہے۔" یہ کلام نیک انجام بھٹیاری ایک بار سن کر دانے گھاس کی فکر کر کے کھانا پکانے میں مشغول و مصروف ہوئی۔ ایک گھڑی کے بعد بھٹیاری دل میں کہنے لگی کہ میاں صاحب نے دانہ تو منگوایا اور بھگوایا لیکن گھوڑا نگوڑا ابھی تک نہیں آیا؛ شاید ان کا گھوڑا ماندگی سے پیچھے رہ گیا ہے، اس سبب سے نہیں پہنچا۔ اس عرصے میں جب شام سیہ فام کا وقت قریب آیا تو بھٹیاری ایک باری نفر سے پوچھنے لگی کہ "اے عزیز با تمیز! دانہ گھاس میرے پاس تیار رکھا ہے اور تیرا گھوڑا ابھی تک نہیں آیا، اس کے کیا معنے؛ آیا کچھ لوگ پیچھے رہ گئے ہیں یا گھوڑا ماندگی سے میاں کی سواری کے قابل نہ تھا؟ شعر

عقل میری اس جگہ حیران ہے
کس طرح کا ہائے یہ سامان ہے

یہ کلام وحشت التيام سن کر نفر کہنے لگا "فی الواقع میاں سچ کہتے تھے کہ کچھ بھولے تو نہیں، معلوم ہوا کہ شاید گھوڑا ہی بھول آئے۔" ایک بار وہ ناہنجار میاں سے آ کر کہنے لگا کہ "میاں صاحب! بھٹیاری کہتی ہے کہ تمہارا گھوڑا نگوڑا کہاں ہے، دانہ گھاس خراب ہوا جاتا ہے۔" یہ گفتگو نفر بدخو کی دو بدو سن کر میاں بولے "کیوں بے گدھے! میں نہ کہتا تھا کہ کچھ بھولے ہیں، آخر کو میرا کہا سچ ہوا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
نورتن ریختہ صفحہ 441

سو میں نے کہا تھا کہ "اک نیشکر
وہیں کھیت میں کھاؤں گا چھیل کر"
یہ کہنے لگا "میں تو کھاؤں گا دو
خوشی اس میں ہو یا خفا کیوں نہ ہو"
سو اس بات پر میں نے اے فوج دار!
اسے دھول ماری ہے بے اختیار
یہ ایسا کہاں کا ہے مجھ سے بڑا
جو دو نا شراکت میں کھائے بھلا"

یہ واردات واہیات سن کر فوج دار سلیقہ شعار کہنے لگا "تمہارا قصہ برابر حصؤہ چاہتا ہے، لیکن تم نے جو وہ گنے کے کھیت میں بوئے ہیں، اس کا محصول بے عدول داخل کرو۔" الحاصل وہ دونوں از خود غافل مار دھاڑ سے جرمانہ معقول مع محصول دے کر ملک محمد خان کے بہ قول کہنے لگے :

نظم
نیاؤ نہ کین کیہیں ٹھکرائی
بن کینی لکھ لین برائی
اب کا ہوئیے ہمرے روئے
کوت لیہن بن جوتے بن بوئے

ابیات
یہ سن ماجرا سب صغیر و کبیر
لگے کہنے قصہ یہ ہے بے نظیر
نہ دیکھا کسی نے نہ ایسا سنا
اب آگے کہے اس کے میجور کیا

نورتن ریختہ صفحہ 442

نقل ہے کہ ایک افیونی باتونی کی جورو نیک خو شیریں دہن کا نام دل آرام ‘مصری‘ تھا۔ اتفاقاً ایک روز وہ افیونی پینک کے عالم میں بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ ہمسائے کی ایک عورت نیک بخت نے اس کی جورو نیک خو کو بہ زبان شیریں پکار کے کہا "بی بی مصری ذرا ادھر آنا۔" یہ سمجھا کہ کوئی کہتا ہے "مصری ادھر لانا۔" اس آواز خوش انداز کو گوش زد کر کے حالت نشہ میں اپنی بی بی سے کہنے لگا "

نظم
"مائی صاحب جو مصری تم لینا
میرے بھی منہ میں اک ڈلی دینا
آج پینک میں تھا یہ افیونی
پائی لذت ترے سبب دونی"
سن کے اس بے حیا کی یہ گفتار
کہا بی بی نے "چپ ہو نا ہموار
یہ سخن واہی تو نہ منہ سے نکال
نہ بہک اس طرح زباں کو سنبھال
کھول کر آنکھ دیکھ اے بدخو!
میں تو ہوں تیرے بیاہتی جورو"
سن کے اس گفتگو کو وہ مجبور
دل میں نادم ہوا بہت مہجور
*****************************************************
نقل (1) ہے کہ ایک افیونی مجنونی کا چور سینہ زور جا ضرور
----------------------------------------------------------------
(1) یہاں سے ایک نقل مکمل صورت میں بر بنائے کثافت حذف کر دی گئی ہے۔

نورتن ریختہ صفحہ 443

کا لوٹا حالت نشہ میں آگو سے اٹھا لے گیا اور بعد فراغت حاجت افیونی نے جو آب دست کو لوٹا تلاش کیا تو ہاتھ نہ آیا۔ جبراً و قہراً وہاں سے اُٹھ کر مکان دل ستان میں آیا اور ایک لوٹا منگوا کے خبرداری اور ہوشیاری سے پاس رکھا۔ چند روز کے بعد وہ دزد بدخصلت غفلت دے کر دوسرا لوٹا بھی لے گیا۔ یہ احوال پر ملال افیونی جنونی دیکھ کر بہت گھبرایا۔ آخر کار اس نابکار کو یہ سوجھی کہ اب کسی فطرت پُر فراست سے چور لگور کو پکڑیے۔ یہ خیال وہ بد خصال دل میں کر کے جا ضرور پُر فتور میں لوٹے کی جا پر چادر سر سے پاؤں تک اوڑھ کر، ہاتھ آگے چھاتی سے خم کر کے، آفتابے کی صورت بن کر بیٹھ گیا اور دل میں کہنے لگا کہ ‘وہ چور لگور مجھ کو آفتابہ سمجھ کر لینے آئے گا تو میں اُس کو پکڑ لوں گا : شعر

غل مچاؤں گا اور کروں گا شور
آج پکڑا ہے میں نے اپنا چور‘

غرض یہ خیال وہ بد خصال جی میں کر کے یوں ہی عمل میں لایا۔ قضائے کار وہ چور نابکار اپنی چاٹ پر آ لگا تو جا ضرور غلاظت معمور میں کیا دیکھتا ہے کہ لوٹا نہیں ہے مگر اُس کی جا پر کوئی آدمی مہ چادر میں سے لپیٹ لپاٹ کر بیٹھا ہے۔ یہ ماجرا حیرت افزا وہ چور دیکھ کر کہنے لگا کہ آج کچھ دال میں کالا ہے۔ غرض اس چور لگور نے برائے آزمائش ایک کنکری بھڑ سے اس آفتابۂ تغلبی پر ماری۔ افیونی مجنونی کنکری کھا کر دل میں کہنے لگے کہ ‘آفتابے پر جو کنکری لگتی ہے تو وہ ٹن سے بولتا ہے، احیاناً لوٹا نہ بولے گا تو یہ چور لگور بھڑکے گا۔‘ یہ سوچ کر وہ کٹن ٹن ٹن کرنے لگا۔ یہ آواز ناساز سن کر چور منہ زور

نورتن ریختہ صفحہ 444

کہنے لگا "چہ خوش چرا نہ باشد، آج آپ یہ روپ لائے ہیں کہ آفتابہ بن کے بیٹھے ہیں۔" ایک لات اس کی پیٹھ پر جڑ کر فرار ہو گیا اور افیونی جنونی جا ضرور میں گر کر گھ گھ کرنے لگا، یعنی جس طرح آفتابہ لنڈھ جاتا ہے اور اس کا پانی گھ گھ کرتا ہے :

مثنوی
اس فراست پہ تجھ کو افیونی
کیوں نہ ہر اک کہے گا مجنونی
اس طرح سے بھلا کہیں اے کور!
ہاتھ آیا بھی ہے کسی کے چور
الغرض اس کی عقل پر میجور
کیوں نہ لعنت کریں سب اہل شعور
*************************************************************
نقل (1) ہے کہ ایک افیونی بیرونی کی جا ضرور کا لوٹا ایسا ٹوٹا تھا کہ جب وہ ناپاک برائے احتیاج جاتا تو ذرا ذرا رس کر اس کا پانی بہہ جاتا، وقت آب دست اتنا نہ رہتا کہ وہ افیونی باتونی آپ کو پاک کرتا۔ غرض ایک روز وہ خفا ہو کر جا ضرور میں کہنے لگا کہ اس ٹوٹے لوٹے کا پانی رس کر بہہ جائے گا اور میں آب دست کی خاطر گراں خاطر ہوں گا؛ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ آج پہلے ہی آب دست لے لیجیے، اس کے بعد جا ضرور با شعور پھریے، پھر اس ٹوٹے لوٹے کا پانی بہہ جائے تو بلا سے :
----------------------------------------------------------------------------
(1) یہاں سے ایک نقل مکمل صورت میں بر بنائے کثافت حذف کر دی گئی ہے۔

نورتن ریختہ صفحہ 445

نظم
آخرش اس لعین نے یوں ہی کیا
بے ہگے آب دست اس نے لیا
وار رے تیری عقل، واہ شعور
ایسے گھیلے پہ لعن کر مہجور
**********************************************
(1) یہاں سے ایک نقل مکمل صورت میں بر بنائے کثافت حذف کر دی گئی ہے۔

نورتن ریختہ صفحہ 446

نواں باب

بخیلوں کی نقلوں میں

منعمانِ دولتِ زماں اور سخیان نعمتِ جہاں کلک ذی ہمت سے بیاض تقریر پر یوں تحریر کرتے ہیں کہ ایک بخیل بے عدیل کے گھر میں کلانوت پُر فطرت وارد ہوا۔ ایک پہر کامل اس محفل ناقابل میں وہ نائکِ زمان سرود کناں رہا، لیکن اس بخیل بے عدیل نے ایک خر مہرہ بھی اس کے دستِ تہی میں نہ دیا؛ وقتِ برخاست اپنے گھر کے بکاول بے بدل کو حکم دیا کہ "میاں اس مہمان کو کچھ کھانا کھلا دیا۔" یہ بات واہیات وہ بد ذات کہہ کر اپنی محل سرا پُر دغا میں جا کر سو رہا اور یہ کلانوت پُر فراست بکاول کے پاس بلا وسواس جا کر کہنے لگا کہ "بلا لوں اس شخص کا دم مارے بھوک کے دیگ قالب میں دم پخت ہوا جاتا ہے۔ اس دم قدم رنجہ فرما کر دم پخت کا کوئی لقمہ دمڑی بھر مجھ بے دم کو کھلا دیجیے تو میرا دم عدم کو نہ رخصت ہو۔" یہ گفتار اُس دم اس دم باز ناچار کی سن کر بکاول کہنے لا "اے عزیز با تمیز! اگر اس گھر میں تو انجان مہمان آیا ہے تو ذرا غم کھا، یہاں کے کھانے پینے کا احوال پُر ملال تجھ پر افشا ہو جائے گا، اور بہ قول مرزا سودا میں جگر کباب پر اضطراب کیا کہوں :

نورتن ریختہ صفحہ 447

ان کے باورچی خانے کا احوال
چولہے پر گھر کے جب کریں ہیں خیال
ڈالیں ہیں سر پہ خاک ماتم سے
لکڑی جلتی ہے آتش غم سے
سینے دیگوں کے مارتے ہیں جوش
روتے ہیں ڈھانپ ڈھانپ منہ سر پوش
اس خجالت سے دیگچے یک سر
سر نگوں ہی پڑے ہیں چولہے پر
ڈوئی سے دیگچوں کا ہے یہ حال
سینہ کف گیر کا ہوا غربال
کی زمانے نے لاکھ ہی تدبیر
نہ ملا دیگچے سے پر کف گیر
کرے سو عید گنبد گردان
نہ ٹلے ان کے گھر ستی رمضان
سردی مطبخ میں ایسی رہتی ہے
ناک باورچیوں کی بہتی ہے
سنا اس گھر کا یار تو نے حال
مجھ سے کھانے کا پھر نہ کیجو سوال"

یہ سخن دل شکن بکاول بے دل کا سن کر کلانوت نیک خصلت چپ ہو رہا، پر دل میں یوں کہنے لگا : شعر

ہائے کھانے کے عوض اب ہم کو غم کھان پڑا
دم زدن کی جا نہیں ہے واے دم کھانا پڑا

الحاصل وہ بے دل، بھوک کا بسمل، پانی کا پیاسا، جی سے نراسا ایک کونے میں سر منہ لیپٹ کر سو رہا۔

نورتن ریختہ صفحہ 448

بیان سحر : اور جس وقت کاسۂ آفتابِ عالم تاب دسترخوان فلک پر نمودار ہوا، اس وقت وہ بخیل کم اصل محل سرا سے برآمد ہو کر کلانوتِ نیک خصلت سے کہنے لگا کہ "تیری مدارات بکاول نے رات کو کیسی کی؟" یہ کلام نافرجام اُس کا گوش زد کر کے وہ کلانوت بولا "خداوند نعمت! رات کی مدارات کی بات پُر کرامات تو سبحان اللہ لیکن شب کو آپ کے مکان عالی شان میں غلام ناکام کو عجیب و غریب زیارت میسر آئی کہ جس کا بیان بیان سے باہر ہے۔" وہ بخیل بے عدیل خندہ زن ہو کے کہنے لگا "اے کلانوتِ نیک خصلت! زیارت پُر کرامت تجھ کو یہاں کیسی حصول بے عدول ہوئی؟" وہ کلانوت پُر فراست بولا "قربان جاؤں! غلام ناکام آپ کی الطاف و عنایات سے سیر ہو کر دیوان خانے میں سوتا تھا کہ یکایک کیا دیکھتا ہوں کہ اس مکان عالی شان کے صحن میں ایک سبز پوش، ردا بہ دوش ادھر اُدھر ٹہل رہے ہیں۔ یہ غلام ناکام ان کے رُو برو بہ صد آرزو جا کر دست بستہ عرض کرنے لگا "اے حضرت سلامت! آپ کون بزرگ ہیں؟ : شعر

جو اس جا پہ تشریف فرما ہوئے"
تو سن کر وہ حضرت یہ گویا ہوئے

"اے عزیز با تمیز! میں حضرتِ رمضان المبارک ہوں، یعنی ایک مہینہ تمام خاص و عام مملکت میں رہتا ہوں اور گیارہ مہینے اس قرینے سے کہ جس طرح تجھ پر آج گزری ہے، اسی طرح اس مکانِ ویران میں رہت ہوں۔" اُن کا یہ کلام سن کر غلام ناکام قدموں پر سر رکھ کر چاہتا تھا کہ کچھ اپنی حالت پُر ملالت عرض کرے کہ یکایک بختِ خفتہ کی بہ دولت اس بدبخت کی آنکھ کھل گئی :

نورتن ریختہ صفحہ 449

ابیات
نظر آئے پھر وہ نہ حضرت مجھے
گئی بھوک کی بھول شدت مجھے"
کلانوت کی یہ بات سن کر بخیل
ہوا اپنے دل میں نہایت ذلیل
کلانوت کو مہجور صد آفریں
کیا ایسے عمدہ کو جو شرم گیں
جہاں نیک اور بد سے معمور ہے
سخن شیخ سعدی کا مشہور ہے
"بخیل ار بود زاہد بحر و بر
بہشی نہ باشد بہ حکم خبر"
*************************************************************
نقل ہے کہ ایک کلانوت صاحب فطرت ایک بخیل بے عدیل کے قریب بہ صد تہذیب گیا۔ ایک پہر کے بعد وہ بخیل بے عدیل پلنگ پر جا کر سو رہا۔ یہ کلانوت صاحبِ فراست بھی برائے طمع انعام و اکرام بیٹھا رہا۔ اس عرصے میں جب سب خدمت گار سو رہے اور کچھ اپنے اپنے گھروں کو کھانا کھانے گئے، یہ کلانوت پُر فطرت وقتِ فرصت غنیمت جان کر کچھ مٹھائی خوان میں کسی کسائی جو رکھی تھی، اُس کو کھول کر نوش جان بے گمان کرنے لگا، جب خوب مرغوب طبع سیرہوا تو ایک طرف کو جا کر چپکے سے سو رہا۔ بعد انفراغ خواب وہ بخیل ذلیل جو ہاتھ منہ دھو کر مسند نشین ہوا، ایک بار وہ کلانوت دل فگار سامنے آ کر دو زانو بیٹھ گیا اور دست بستہ عرض کرنے لگال کہ "خداوندِ نعمت! آپ تو بہ فراغت استرحت فرما ہوئے کہ یہ غلام ناکام بھی شدت گرما

نورتن ریختہ صفحہ 450

سےیہیں سو رہا تھا۔" یہ سخن سن کر وہ پُر جن کہنے لگا "اے عزیز با تمیز! تو نے بہت خوب کیا لیکن مجھ بیدار بخت نے آج عجب ڈھب کا خواب انتخاب دیکھا، یعنی اپنے رہوار پر سوار ہوں اور گاہے مغرب میں میرے گھوڑے کا قدم دم بہ دم پڑتا تھا اور گاہے مشرق کا عالم بے خوف و غم دیکھتا تھا۔" یہ کلام اس نافرجام کا سن کر وہ کلانوت پُر فراست بولو "خداوند نعمت! غلام ناکام بھی عجب واردات واہیات میں تھا کہ جس کا بیان کیا کروں؛ بہ قول محمد قائم : شعر

درد دل کچھ کہا نہیں جاتا
آہ چپ بھی رہا نہیں جاتا

یعنی اس مکان دل ستاں میں حضرت سلامت! غلام ناکام بہ فراغت سو رہا تھا کہ یکایک دو شخص مہیب بہ صورت عجیب آ کر کہنے لگے "اے جوان اس خوان پُر الوان کی مٹھائی کھا جا، نہیں تو مارے تھپڑوں کے تجھ بد قوام کو مرگ کی چاشنی چکھا دیں گے۔" غلام ناکام نے ہر چند عذر کیا لیکن اُنہوں نے بہ صد پیزارپٹی وہ مٹھائی رکھی رکھائی مجھ کو کھلوائی۔" یہ سخن دل شکن سن کر وہ بخیل ذلیل کہنے لگا "اے بد ذات! تو نے اُس وقت مجھ کو کیوں نہ جگا دیا؟" اُس نے جواب دیا "غلام ناکام ضعیف البنیان خداوند آپ کو کہاں پاتا جو عرض حال فی الحال کرتا، آپ تو کبھی مشرق میں رونق افزا ہوتے تھے اور کبھی مغرب کو تشریف لے جاتے تھے۔

نظم
بھلا اس میں بندے کا کیا ہے قصور
میں نزدیک تھا آپ تھے دور دور"

نورتن ریختہ صفحہ 451

غرض اس کلانوت سے مہجور خوب
ہوا شرم گیں دل میں وہ پُر عیوب
**************************************************************
نقل ہے کہ کلانوت بامروت ایک بخیل بے عدیل کے گھر میں وارد و صادر ہوا۔ پہر بھر تو اشغال خیال اور دُھرپت کے خیال میں وہ بدخصال بد افعال مصروف رہا، اس کے بعد بہ قول مرزا سودا :

ابیات
وقت آیا جو اس کے کھانے کا
مرتکب ہو کے اس بہانے کا
لگا کہنے کہ "کوئی ہے حاضر؟"
بولا اس وقت ڈیوڑھی کا ناظر
بولا اس سے کہ پھر کے افتابا
محل کی جا ضرور میں رکھوا"

المدعا وہ بے حیا محل سرا میں پائے خانے کے بہانے طعام نافرجام زہر مار کر کے باہر آیا۔ اتفاقاً پلاؤ کا چانول اس بخیل کی مونچھ میں لگا تھا۔ یہ کلانوت چالاک دست سرِ انگشت سے اشارہ کر کے کہنےلگا "قربان جاؤں! آپ کی مونچھمیں پائے خانہ لگا ہے، دست مبارک سے چھڑا ڈالیے اور اس غلام ناکام کو معاف کیجیے کیوں کہ یہ میراثی خاک روب نہیں ہے جو آپ کے آگے سے گو چھڑا لیتا۔"

قطعہ
کلانوت کا سن کر یہ کہنا بخیل
ہوا شرم گیں اور دل میں ذلیل

نورتن ریختہ صفحہ 452

جو مہجور ہوتا نہ ایسا کشف
تو کیوں اپنی باتوں سے ہوتا خفیف
**************************************************************
نقل ہے کہ ایک بخیل ذلیل وہی حالت تباہی میں گھر سے کسی طرف کو راہی ہو گیا تھا اور اس کی جورو نیک خو چرخا زنی کر کے اوقات دن رات بسر کرتی تھی۔ قضاء کار بہ قدرت پروردگار ایک فقیر روشن ضمیر خوش تقریر اُس بے ل کے پاس سائل ہوا۔ اس زن نیک خصال بے مال و منال نے اپنے آذوقے کا آٹا اس کو اُٹھا دیا۔ یہ احول پُر ملال اس نیک خصال کا دریافت کر کے وہ فقیر صاحبِ کمال کہنے لگا کہ "اے زن پارسا باحیا! تیرا کار دنیوی کیوں کر جاری ہے؟" یہ بات اس صاحب کرامات والا صفات کی سن کر کہنے لگی "اے حضرت سلامت! اس شخص کا شوہرشکستہ کمر بہ حالت تباہی کہیں کو راہی ہو گیا ہے۔ یہ روسیاہ پُر گناہ شام و یگاہ چرخا زنی کر کے دن رات اوقات بسر کرتی ہے : شعر

اور کیا تم سے میں کہوں حضرت
تم پہ روشن ہے سب مری حالت"

یہ سخن دل شکن اس عورت نیک بخت کا سن کر درویش خیر اندیش نے ایک کشتی بے مثل فی الحال جھولی سے نکال کر حوالے کی اور کشتی زبان کو دریائے بیان میں یوں رواں کیا کہ "اے ہم کنار افلاس بے قیاس! جس وقت تیرے بیڑے پر فکرِ اخرابات ضروری کی طغیانی ناگہانی موج زن ہو، اُس وقت یہ کشتی چوبی دریائے بے آب میں زمین پاک پر رکھ کر یہ دعا مانگنا کہ ‘اے صانع کون و مکان و اے مالک دو جہان! بہ حق حضرت خواجہ خضر علیہ السلام مجھ کو ایک ہزار دینار

نورتن ریختہ صفحہ 453

خزانۂ غیب سے عنایت اور کرامت کر!‘ اے زن پارسا باخدا، با حیا! اس کشتی بے بہا کے خواص سے تجھ کو ہزار دینار ملیں گے تو تیرے ہمسایوں کو دو ہزار دینار بے تکرار پہنچیں گے۔"

یہ مژدۂ جاں بخش وہ نیک بخت سن کر کہنے لگی "ازیں چہ بہتر کہ میرے ساتھ اہل محلہ بھی خوش و خرم بے اندوہ و غم ہوں، تا مجھ پر کوئی رشک و حسد ہ لے جائے۔" غرض وہ فقیر روشن ضمیر کشتیٔ بے نظیر اس کو دے کر اپنی راہ لگا اور اس کے بعد اس زن پارسا باخدا نے زمین کو لیپ لاپ کر اس کشتی بے بہا کو رکھا اور یہ دعا جناب الٰہی سے طلب کی کہ "اے خالق اکبر! بہ حق حضرت خواجہ خضر اس دل مضطر کو ایک ہزار دینار بلا تکرار خزانۂ غیب سے عنایت اور کرامت کر!" غرض حق تعالٰی نے اس کی دعا باصفا مستجاب کی، یعنی ہزار دینار تو اس کو ملے اور دو ہزار دینا سب اہل محلہ کو حصول بہ طور معقول ہوئے۔ الحاصل اس دولت غیر مترقب کے حاصل ہونے سے ہر ایک اہل محلہ نے اپنے اپنے پختہ مکان عالی شان تیار کیے اور اس زن نیک خصال حور تمثال نے اپنی عمارت رشک جنت ایسی ایک بار تیار کی کہ اگر فرشتہ بھی دیکھے تو یہ کہے : شعر

اگر فردوس بر روئے زمین ست
ہمین ست و ہمین ست و ہمین ست

اس عرصے میں اس زن پارسا باخدا کا شوہر بہ حالت مضطر، تباہی کا مارا سرگشتہ و آوارہ اپنے گھر کی طرف جو آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ تمام محلہ جگ جگ کر رہا تھا۔ یہ عالم وہ قرم دیکھ کر ایک شخص سے پوچھنے لگا کہ "اے بھائی! فلانے

نورتن ریختہ صفحہ 454

سپاہی کا مکان ویران کہاں ہے؟" بارے ایک آدھ آدمی کے پتا بانے سے اپنے مکان عالی شان کے پاس آیا اور کچھ اپنے مکان بے نشان کی علامت دریافت کر کے جو گھر کے اندر جانے لگا تو ایک بار اس کے چوکیدار کہنے لگے کہ "اے کنگال بد خصال! کہاں جاتا ہے؟ اگر تو بھیک مانگنے آیا ہے تو باہر سے سوال کر، تیری جھولی دست تمنا کی یہاں کے دست سخاوت سے پُر ہو جائے گی۔" یہ سخن دل شکن چوکی داروں کا سن کر کہنے لگا کہ "اے مردو! میں اس گھر کا مالک ہوں۔" یہ احوال اس کی جورو نیک خصال کے گوش ہوش تک پہنچا تو چقیں پردے چھڑوا کے مکان عالی شان میں بلوایا۔ الحاصل اُس کی نشست و برخاست کی علامتوں سے پہچان کر اس زن پارسا باحیا نے غسل دلوا کر بہ لباسِ نفیس آراستہ و پیراستہ کیا، لیکن وہ بخیل ذلیل اپنے دل میں کہنے لگا کہ ‘خداوندا! یہ خواب ہے یا کہ بیداری کہ کبھی ایسا دیکھنے کا اتفاق اس آفاق میں نہ ہوا تھا۔ آخر الامر اپنی جورو نیک خوسے پوچھنے لگا کہ "اے زن باوفا! بہ خدا سچ بتا کہ تمام مکان عالی شان اہل محلہ کے تیری عمارت سے بلند دو چند کیوں کر ہیں اور تجھ کو اے نیک خو! یہ دولت و حشمت کہاں سے ہاتھ آئی؟" یہ کلام اس نافرجام کا سن کر اس زن پارسا باخدا نے کشتی دریا نزاد کا احوال نیک مآل اس سے مشروحاً نوک زبان سے بیان کیا۔ اس بات پُر کرامات کے سنتے ہی ای دوہتڑ جورو کو مار کر کہنے لگا "اے کم بخت سیاہ رخت! تجھ کو چرخا زنی کرنا بہتر تھا لیکن اس قدر محلے کو مالا مال نہ کرنا تھا :

نورتن ریختہ صفحہ 455

نظم
خیر جو کچھ کہ اب ہوا سو ہوا
لیک کشتی کو میرے پاس تولا
دیکھو کیسی وہ پُر کرامت ہے کشتی کیا ہے کہ بیخ دولت ہے"

الغرض اس کشتی بےبہا کو زمین پاک پر رکھ کر وہ ناپاک کہنے لگا "اے خالق اکبر! برائے حضرت خواجہ خضر میرے دو مکان مع سائبان دریائے لامکان میں ڈوب جائیں!" غرض اس بوم شوم کے تو دو مکان ویران ہو گئے اور اہل محلہ کے چار چار مکان بے نشان ہو گئے۔ دوسرے روز وہ جگر سوز کشتی کو آگے رکھ کے کہنے لگا کہ "اے ذات باری! بہ حق خواجہ خضر اس شخص کے گھر میں آس پاس پچا س کوئیں ہو جائیں!" علی ہذا لقیاس اس کے گھر میں پچاس کوئیں ہو گئے، اوروں کے گھروں کے گرد سو سو کوئیں بے چاہ اور بے خواہش کھد گئے۔ غرض تیسرے روز وہ غم اندوز یوں کہنے لگا کہ "اے صانع جن و بشر! برائے حضرت خواجہ خضر اس شخص کی ایک آنکھ اور ایک کان دور ہو جائے!" غرض تمام اہل محلہ اندھے اور بوچھے ہو گئے۔ آخرش سب اہل محلہ زچ ہو کر کہنے لگے کہ "یارو یہ بڑا غضب پُر تعجب ہے کہ اس ملعون ذوفنون کا تو ایک نقصان ہوتا ہے اور ہمارے دو بڑے زیان ہر زمان ہوتے ہیں۔" القصہ سب اہل محلہ مجتمع ہو کر اس بخیل ذلیل کے پاس آ کر کہنے لگے "اے عزیز باتمیز! اس حرکت ناشائستہ سے باز آ، کیوں کہ ہم ناحق پائمال الم ہوئے جاتے ہیں۔" تب وہ بخیل ذلیل بولا کہ "بھائیو! یہ کیا غضب پُر تعجب ہے کہ مجھ کو ایک ہزار دینار ملیں اور تم کو دو دو

نورتن ریختہ صفحہ 456

ہزار دینا ملیں؟ : شعر

ہائے اس رشک سے نہ کیوں کر آہ
حال مجھ خستہ حال کا ہو تباہ"

یہ سخن دل شکن سن کر اہل محلہ کہنے لگے "اے عزیز ناچیز! وہ جو دولت غیر مترقب ہم لوگوں کے پاس تجھ خناس سے دو چند بلکہ سہ چند ہے، اس کو بہ خوشی و خرمی ہم سے لے اور اس کشتیٔ دریائے بہشتی کو حضرت خواجہ خضر کے نام ناؤ بنا کے چھڑا دے" غرض اس بخیل ذلیل نے طمع زر نقد اور رشکِ اہل محلہ سے کہ مال بے زوال اس سے دو چند پاتے تھے، اس کشتیٔ بے بہا کو ایک دریائے ناپید کنار میں بہا دیا :

ابیات
ولے شیخ سعدی کا مہجور یہ
سخن سب جہاں میں ہے مشہور یہ
"سخیاں ز اموال بر می خورند
بخیلاں غم سیم و زر می خورند"
************************************************************
نقل ہے کہ ایک بخیل بے عدیل سے ایک عزیز باتمیر نہایت موانست رکھتا تھا۔ اتفاقاً اس عزیز باتمیز کو سفر درپیش ہوا؛ اس بخیل ذلیل کے قریب آ کر کہنے لگا "اے یار وفادار! یہ کنگال دل فگار برائے سفر وسیلۃ الظفر تجھ سے رخصت اس وقت ہونے آیا ہے مگر بہ قول نخشبی :

قطعہ
نخشبی تو فراق مرگ بداں
شاخ مارا بریست برگ دگر
گرچہ یک مرگ بر ہمہ دانند
فرقت دوستان ست مرگ دگر

نورتن ریختہ صفحہ 457

اے دوست دل نواز و اے یار محرم راز! اپنی انگشتری طلائی کار مینائی کی مجھ کو عنایت بہ صد بشاشت کر تو میں اس کو بجائے نشانی تا بہ زندگانی اپنے پاس رکھوں اور جس وقت اس کو دیکھوں، تجھ کو دل سے یاد کروں، تا تشفی خاطر فاتر مجھ دور افتادہ غم آمادہ کی ہو۔" اس کے جواب میں وہ بخیل ذلیل کہنے لگا "اے دوست صادق و اے یار واثق! کچھ اس انگشتری کی احتیاج نہیں ہے؛ اگر تجھ کو مجھ کو با دل شاد یاد کرنا ہو گا تو اپنی انگلی کو خالی دیکھنا تو کہنا فلانے یار غم خوار سے میں نے انگوٹھی طلب کی تھی، اس نے نہ دی : مثل

برائے یاد کردن مایان ہمیں نکتہ بس ست

مگر وہ بخیل ناقص الدلیل قول نخشبی کو نہ سمجھا :

قطعہ
"نخشبی یار خوش کجا یا بند
خدمت یار کن ولے از حد
اہل تحقیق خود چنیں گویند
یار نیکو بہ از قرابتِ بد"
آسنائی کے حق کو اے مہجور!
پر سمجھتا نہیں کوئی مغرور
*********************************************************
نقل ہے کہ ایک بخیل ذلیل جس وقت کھانا زہر مار کرنے کر بیٹھتا تو یہ بات واہیات کہتا کہ "میرے سامنے سے بھیڑ بھاڑ چھوڑ دو۔"

غرض طُرفہ تر سنیے یہ ماجرا
کہ اک آدمی پر یہ کہتا سدا

نورتن ریختہ صفحہ 458

القصہ ایک روز نوکر حیرت اندوز نے کھانا کھانے کے وقت ایک ڈھیلا بڑا سا قب رشک آفتاب میں مارا اور اس طرف سے منہ پھیر کر چپ کھڑا ہو رہا۔ یہ ماجرائے طُرتہ برملا دیکھ کر وہ بخیل ذلیل کہنے لگا "اے ملعون ذوفنون! تو نے میری چینی کی رکابی خاصی کیوں سنگ شرارت سے توڑی؟" یہ کلام با دشنام سن کر وہ خدمت گار زبان طرار کہنے لگا :

نظم
"میں کیا جانوں کس نے دریں اژدحام
شکستہ کیا ہے یہ طرفِ طعام
جو ہوتی نہ ہر روز یہ بھیڑ بھاڑ
تو کرتا پکڑ کر اُسے مار دھاڑ"
سخن اپنے نوکر کا سن کر بخیل
لگا کہنے "نوکر ہے یہ پُر دلیل
اسے نوکری سے چھڑا دیجیے
اور اس کے عوض آور رکھ لیجیے"
غرض اس نے مہجور یوں ہی کیا
عوض اس کے آور آدمی رکھ لیا
***********************************************************
نقل ہے کہ ایک بخیل ابن عزازیل پاؤ سیر آٹا لے کر دو روٹیاں ایسی پکواتا کہ ایک روٹی چھوٹی روغنی اور دوسری سادی؛ ان دونوں کو پکوا کے ایک رکابی سفالی میں رکھ کر روکھی سوکھی زہر مار کر کے خدمت گار کام گار کو اس میں سے ذرا بھہ نہ دیتا اور کھانا کھانے کے بعد کہتا "اے خدمت گار غم خوار! یہ رکابی شتابی دھو کر طاق براق میں

نورتن ریختہ صفحہ 459

رکھ دے۔" یہ کلام نافرجام سن کر خدمت گار زبان طرار جی میں کہنےھ لگا کہ ‘خشک رکابی کے دھونے سے کیا حصول جو یہ نامعقول دھلواتا ہے۔‘ غرض چار و ناچار وہ خدمت گار "الامر فوق الادب" کے موافق حکم بجا لاتا اور سچ یہی ہے "خاوند جوں کا بھی بُرا ہوتا ہے" : شعر

یی جان کر دل میں وہ آدمی
نہ کرتا کوئی بے عدولی کبھی

غرض اس بخیل ذلیل کا یہی کلام مدام تھا کہ کھانے کے بعد اس رکابی سفالی کو دھلواتا۔ اتفاقاً ایک روز وہ نوکر غم اندوز کچھ بھوکا اور پیاسا بھیٹا تھا کہ اس میں اس بخیل ذلیل نے کہا "اے خدمت گار غم خوار! اس رکابی عنابی کو دھو کر طاق براق میں رکھ دے۔" یہ بات واہیات اس بد ذات کی سن کر خدمت گار زبان طرار کہنے لگا "اے صاحب! کیا اس رکابی خالی میں گُو بھرا ہے جو اسے دھو کر رکھ دوں؟"

قطعہ
وہ ممسک یہ نوکر کا سن کر جواب
نہایت ہوا دل میں جل کر کباب
جو مہجور ایسا نہ تھا وہ بخیل
تو باتوں سے اپنی ہوا کیوں ذلیل
************************************************************
نقل ہے کہ ایک منحوس مکھی چوس اپنی اوقات دن رات ایک پیسے میں بسر کرتا لیکن ایک اور شہر میں ایک خسیس حریص اس سے بھی زیادہ سکونت رکھتا تھا۔ اتفاقاً وہ خسیسِ حریص اس منحوس مکھی چوس کی نحوست کا شہرہ سن کر

نورتن ریختہ صفحہ 460

بہ صد مسافت اس منحوس مکھی چوس کے پاس آیا اور صرف اوقات کا پرسان ہوا۔ وہ منحوس مکھی چوس کہنے لگا "اے عزیز با تمیز! سچ تو یوں ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنی عنایت سے دولت پُر نعمت بزرگوں کی میرے صندوق نحوست میں اس قدر دی ہے کہ اگر ہزار برس اس کو بیٹھا کھاؤں تو بھی کم نہ ہو، لیکن میں نے تو اپنی اوقات دن رات کی ایک پیسے پر اس طور پر رکھی ہے کہ پون پیسے کا آٹا اور ادھی پکوائی ادھی کا شوربا یا گڑ لے کر کھانا اور بہ خوبی چین سے سو رہنا۔" یہ کلام اس نافرجام کا سن کر وہ بد انجام بولا "ابے تو نہایت فضول خرچ ہے : شعر

یعنی ہر روز کھائے اک پیسا
کہیں دیکھا ہے بدمعاش ایسا"

یہ سخن دل شکن سن کر وہ منحوس مکھی چوس کہنے لگا "اے یار غم خوار! تو اپنی اوقات واہیات کا بیان کر کہ تو کس طرح شب و روز بسر کرت اہے؟" وہ خسیس طبع حریص جواب دہ ہوا "اے بد شعار نا ہنجار! اپنا یہ چلن پُر محن ہے کہ ایک پیسا اور ایک رومال بے مال لے کر نکلتا ہوں اور بقال کوٹھی دال سے اس پیسے کا آٹا رومال بے مال میں لے کر ایک لمحے کے بعد وہ آٹا خاصا واپس کر دیتا ہوں، لیکن اس رومال بے مال میں جس قدر آٹا لگ رہتا ہے، اس کو الگ گوشے میں بیٹھ کر جھاڑ لیتا ہوں، پھر اس رومال میں اور بقال نیک اعمال کی دکان سے آٹا لیتا ہوں، ایک دم کے بعد اس کو بھی پھیر دیتا ہوں اور اس رومال میں پیسا ڈال کر بہ خوبی جھاڑ لیتا ہوں۔ غرض اسی شکل سے پھر دو تین پہر پھرتا ہوں اور ہر ایک سے آٹا لیتا ہوں اور واپس کر دیتا ہوں؛ اس عرصے میں جب میرے آذوقے کے موافق آٹا خاصا جمع ہو جاتا

نورتن ریختہ صفحہ 461

ہے تو ایک بقال سے نمک بے دھڑک ذرا سے مانگ کے دریا کے کنارے جاتا ہوں، لیکن اس عرصے میں جب تک آٹا لیتا ہوں، تب تک راہ باٹ کی لکڑیاں چھپٹیاں چن چن کر جمع کرتا جاتا ہوں۔"

الحاصل لب ساحل اس آٹے کو دریا کے پانی سے گوندھ کر ان لکڑیوں کی آنچ میں موٹی چھوٹی روٹی پکا کر بغل میں داب کر ہر ایک گلی کوچے میں پھرتا ہوں۔ جس وقت کہیں دال کے بگھار یا گوشت بوننے کی بو باس میری ناک ہوش ناک میں آتی ہے، وہیں بیٹھ کر بہ لذت تمام اپنا طعام کھا لیتا ہوں :

مثنوی
میری تو اس طرح سے ہے اوقات
لیک تو بدمعاش ہے ہیہات"
سن کے منحوس اس کی یہ تقریر
بولا "میری معاش ہے توقیر
سچ تو یہ ہے کہ تجھ سا دنیا دار
میں نے دیکھا نہیں کوئی اے یار!"
بس کہ مہجور کُو بہ کُو ہو سُو
کہے لعنت ہے بر تُریٔ و کدو
*************************************************************
نقل ہے کہ ایک منحوس مکھی چوس اور خسیس حریص سے بہم ملاقات جو ہوئی تو آپس میں اپنی اپنی اوقات واہیات کا احوال وہ بد اعمال بیان کرنے لگے۔ پہلے تو منحوس مکھی چوس بہ صد فخر یہ بولا کہ "اے یار غم خوار! میں ناکام ایک چھ دام کا گھی شیشی میں بھر کر رکھتا ہوں، ایک برس کے بعد پھر لیتا ہوں اور اس کو اس طرح صاف کرتا ہوں کہ جس

نورتن ریختہ صفحہ 462

وقت کھانے کا آتا ہے تو اس گھی کی شیشی کو کھچڑی میں گاڑ دیتا ہوں اور اس کی بو باس بے قیاس سے کھچڑی بہ شوق تمام نوش جان کرتا ہوں، مگر لقمۂ اخیر میں بلا تاخیر ایک رتی وہ گھی ماشاء اللہ البتہ لگا کر کھاتا ہوں۔ غرض ایک سال پُر ملال کے زوال کے بعد وہ گھی خرچ ہو جاتا ہے؛ پھر شروع سال یہ بد خصال اور دھیلے کا گھی مخفی خرید کرتا ہے :

ابیات
یہ سن کر چلن اُس بد اعمال کا
لگا کہنے "تو ہے بُری چال کا
چلن والوں کی اس طرح سے معاش
نہیں ہم نے دیکھی کہیں فاش فاش

"اے عزیز – تمیز! اپنا تو یہ چلن پُر فن ہے، یعنی کھانا کھانے کے وقت لقمہ بناتا ہوں اور گھی کی منڈی کی طرف دکھا کے کھا جاتا ہوں۔ اے یار غم خوار! اس شہر غدار میں ایسے بڑے بڑے لوندے گھی کے ہر لقمے کے ساتھ بے آفات کھانے میں آتے ہیں کہ جس کے بیان میں چرب زبانی نہیں ہو سکتی۔"

ابیات
یہ سن کر وہ منحوس کہنےلگا
"چلن والا تجھ سا نہیں دوسرا
ترے سامنے واقعی اے عزیز!
چلن میں نہایت ہوں میں بے تمیز"
ہمارا تو مہجور ہے یہ مقال
سگ زرد یہ ہے تو وہ ہے شغال

نورتن ریختہ صفحہ 463

نقل ہے کہ ایک عورت خسیس حریص ایک زن پارسا با حیا کو رشتہ داریٔ قرابت کے باعث سے اپنے گھر میں وہ غیبانی برائے مہمانی لائی۔ دو چار گھڑی کے بعد کہنے لگی "اے بی بی ! کچھ کانا کھا تو تیری واسطے پکواؤں، اور مجھ کو تو ابھی بھوک نہیں ہے۔" وہ زن پارسا با حیا کہنے لگی "اے بی بی! ابھی کیا جلدی ہے، جو کچھ گھر میں پکے گا میں بھی وہی کھا لوں گی۔" یہ سن کر وہ عورت پُر فطرت چپ ہورہی: بعد گفتگوئے بسیار وہ زن مکار بولی "اے بی بی! دوپہر تو ہونے آئی، اب تیرے واسطے کہہ تو گوشت وغیرہ منگوا کے پکوا لوں؟" اس میں وہ زن پارسا با حیا کہنے لگی "کیا مضائقہ ہے۔" یہ کلام وہ نافرجام سن کر کہنے لگی "تو کچھ کھائے گی نہ پیے گی، میرا کھانا نا حق پکا پکایا خراب ہو جائے گا۔" یہ کہہ کر وہ عورت پُر فطرت پھر ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی۔ اس میں وقت اختتام شام کا ہونے لگا تو پھر وہ عورت بدخصلت کہنے لگی "اے بی بی!اب بھی کچھ نہیں گیا مگر گوشت تو اس وقت نہ بہم پہنچے گا، اگر کہہ تو بھونی کھچڑی میں دل بریان تیرے واسطے پکا لوں؟" اس زنِ پارسا با حیا نے کہا "کیا مضائقہ!" پھر یوں جواب دہ ہوئی کہ "بی بی تو کچھ کھائے گی نہ پیے گی، یوں ہی بے دلی سے کہتی ہے، میرا کھانا خاصا ناحق خراب ہو جائے گا۔" قصہ مختصر اُس بے چاری آفت کی ماری کو دو روز کامل اسی لیت و لعل میں رکھا لیکن کھانا ذرا بھی نہ پکویا؛ تیسرے روز اس زن جگر سوز سے کہنے لگی "اے بی بی! آج تین دن ہوئے ہیں کہ تو نے پان اور پانی کے سوا کھانا نہیں کھایا، اگر آج کہو تو روکھی روٹی گھی چپڑی شکر سے تیار کروں؟

نورتن ریختہ صفحہ 464

بھلا اسی کو ذرا منہ میں ڈال لینا، اتنا تملق اے رشک حور! کیا ضرور۔" یہ بات واہیات سن کر وہ نیک صفات کہنے لگی "اے ناپاک، زنِ چالاک! :

ابیات
نا پکاتی ہے نہ کھلاتی ہے
بات نہ حق کو کیوں بناتی ہے
تُو وہ عورت خسیس ہے بے پیر
طفل کو رکھے جو سدا بے شیر

یہ سخنِ دل شکن اس زنِ پارسا باخیا کا سن کر کہنے لگی "اے بی بی ! تو بھی اپنا پرایا کتنا سمجھتی ہے؛ کب تو نے کہا اور کب مجھ ناشدنی نے تیرے واسطے کھانا نہ پکوایا؟"تب وہ انِ پارسا با خدا خفا ہو کر بولی "اے کم بخت زبان سخت! کہیں بھی سنا ہے کہ انسان یا حیوان بے کھانا کھائے رہتا ہے۔ کیا تجھ کو نہیں سوجھتا تھا و یا آنکھوں سے اندھی ہے، اور اس کے سوا جب تو نے کھانا پکوانے کو کہا، میں نے کہا، کیا مضائقہ، تو تُو وہیں زبان خست دراز بے انداز کر کے بولتی تھی کہ ‘نہ کچھ کھائے گی نہ پیے گی، یوں ہی بے دلی سے کہتی ہے۔" اس کے جواب میں پھر وہ عورت پُر فطرت بولی کہ "اے بی بی! میں نگوڑی نہ جانتی تھی کہ تو سچ مچ کہتی ہے لیکن خیر اب تیرے واسطے کھانا معقول معقول پکواتی ہوں، دیکھوں تو کہاں تک کھاتی ہے۔" یہ کلام اس نافرجام کا سن کر وہ زنِ پارسا دل صفا کہنے لگی کہ "اب کچھ احتیاج اس بد مزاج کو کھانا کھانے کی نہیں ہے کیوں کہ طے کا روزہ طے ہو چکا، اب میں اپنے گھر جا کر افطار کر لوں گی۔" اس کے جواب میں کہنے لگی

نورتن ریختہ صفحہ 465

خیر بی بی! جس طرح تیرا جی چاہے تو وہی کر، کیوں کہ تو نہایت تنک مزاج ہے؛ تیری خفگی بے دلی مجھ کو منظور نہیں، لیکن برائے خدا ذرا پھر یہاں تشریف فرما ہونا کیوں کہ میں نے تیری خدمت گاری بہ دل داری نہیں بجا لائی۔" یہ بات واہیات سن کر وہ زن کہنے لگی "اے بی بی ! :

نظم
جو تیرے گھر میں میہمان آئے
کھانے کی جا وہ آہ غم کھائے
آخرش کو وہ زن خفا ہو کر
بھوکی پیاسی گئی بس اپنے گھر
پھر نہ مہجور وہ کسی کے یاں
اپنے بے گانوں میں گئی مہماں
************************************************************

نورتن ریختہ صفحہ 466

در خاتمۂ کتاب گوید

بہ فضل ملک الوہاب یہ کتاب انتخاب مرتب بہ نُہ باب پُر از حکایت نایاب مسمی ‘انشاء نورتن‘ رشک چمن مہجور دل رنجور، پُر قصور، بے شعور نے اختتام کی، لیکن دوستان صادق اور محبان واثق کی خدمت فیض درجت میں عرض ہے کہ اس انشاء لیلی نزادکو ناقۂ قرطاس پر محمل نشین کر کے طبع وحچت زدہ نے وادیٔ عبارت پُر فصاحت میں مجنوں صفت سار بانی با مہار معانی کی ہے، جس جا کام ناکام اشتر الفاظ کا غلطی سےپہلو تہی پڑے تو اس کو دست شفقت سے بہ حد صحت پہنچاویں اور اگر اس گلدستۂ نورستہ کی سیر بہار سے دل کو فرحت ہو تو اس روسیاہ پُر گناہ کے حق میں دعائے خیر کریں تاکہ بہ وسیلۂ نجات عالی درجات سے یہ دل افسردہ مثلِ گل پژمردہ باغ جناں میں سایۂ طوبیٰ کے ہمسائے میں سرسبز ہو؛ بہ قول جامی علیہ الرحمہ :

ابیات
ہر کہ خواند طمع دعا دارم
زانکہ من بندۂ گنہ گارم
آنکہ مارا کند بہ نیکی یاد
نام او در جہاں بہ نیکی باد!
******************************************************
قطعۂ تاریخ ختم کتاب
بس اے مہجور! لے کلک زباں تھام
ارے کچھ فکر تجھ کو اور بھی ہے

نورتن ریختہ صفحہ 467

جو کچھ لکھنا ہے تجھ کو لکھ لے جلدی
کہ یہ ہستی مقام نیستی ہے
لکھا رہتا ہے قائم تا قیامت
محرر کی احل سر پر کھڑی ہے
اسی ہی فکر میں بیٹھا تھا خاموش
کہ تاریخ اس کی لکھنی واجبی ہے
یکایک غیب سے آئی ندا یوں
یہ (1) انشا پُر فصاحت کیا لکھی ہے
1230ھ
************************************************************
قطعۂ تاریخ مسرور ہمشیرہ زادۂ مہجور در ختم کتاب

مہجور نے یہ قصہ نو باب کا رقم کر
بازوئے شاعری کا اک نورتن کیا ہے
سن سن کے گوش دل سے لعلِ سخن کو اس کے
جو ہیں مقیم معنی کہتے ہیں مرحبا ہے
تاریخ سال اس کی مسرور نے جو چاہی
دریائے طبع سے کچھ نکلے اگر بجا ہے
یک بار غیب سے بس آئی ندا کہ اس کا
انشائے (2) نورتن ہے کیا نام بے بہا ہے
1230ھ
*******************************************************
(2) مطبع محمدی بمبئی 1311ھ کے ایڈیشن میں دونوں جگہ تاریخ کا سن 1269ھ نکالا ہے جو غلط ہے، صحیح سن 1230ھ ہے۔

نورتن ریختہ صفحہ 468

قطعۂ تاریخ نوازش علی خاں متخلص بہ ضبط

مہجور نے عبارت ہندی میں اک کتاب رنگین کے فسانوں سے جوں سطحۂ چمن اس نسخے کے رکھے ہیں جو نو باب اس لیے "انشاء نورتن" اسے کہتے ہیں مرد و زن تاریخِ خاتمہ یہ کہی اس کی ضبط نے بے داد (1) بے عدیل ہے انشائے نورتن (2)
1230ھ
************************************************************
(1) نسخہ مطبوعہ مطبع محمدی بمبئی 1311ھ ‘پیداو‘ ہے۔
(2) مطبع محمدی بمبئی 1311ھ کے ایڈیشن میں تاریخ کا سن 1269ھ نکالا گیا ہےجو کہ غلط ہے، صحیح سن 1230ھ ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 431
ابيات

یہ سخن سن کے وہ نفر بولا
"ہاں میاں آپ نے تھا سچ ہی کہا"
الغرض دونوں ہلتے اور جھلتے
گھوڑا لینے کو ایک دم دوڑے
لیک مہجور ہو ترئی کہ کدو
لعن ہم تو کہیں گے بر ہر دو

نقل ہے کہ ایک افیونی بیرونی بام دل آرام پر سوتا تھا۔ حالت نشہ میں برائے پیشاب وہ بے تاب جو اٹھا تو یکایک کوٹھے کے نیچے گر پڑا اور بے اختیار پکار کر خدمت گار سے کہنے لگا ''اے فلانے! یہ دھماکا بڑا سا کیا ہوا، دیکھ تو سہی کیا ہے؟" یہ بات واہيات سن کر وہ خدمت گار غم خوار کہنے لگا "میاں صاحب! میں اس وقت اپنا کھانا پکاتا ہوں، ناحق کہاں اٹھوں، کوئی بلى ولی کودی ہو گی، اور تو کچھ یہاں نظر نہیں آتا۔" اس میں افیونی بیرونی نے کہا "اے عزیز بے تمیز! اٹھ کر دیکھ تو سہی، میرے گوش ہوش میں بڑے دھماکے کی آواز ناساز آئی ہے۔" وہ خدمت گار ایک بار خفا ہو کر بولا "او میاں صاحب! تم کہاں ہو، مجھ کو تمہاری آواز بے انداز نیچے کی سنائی دیتی ہے اور آپ میرے رو برو کوٹھے پر گئے تھے۔" یہ گفتگو دو بدو خدمت گار ناہنجار کی گوش زد کر کے وہ افيونی بولا "اٹھ تو، میں بھی تو اسی تعجب میں ہوں: شعر
مجھے بھی تو یہی اب خوف و غم ہے
کہ یہ کیسا دھماکا پر ستم ہے

صفحہ 432
الغرض وہ خدمت گار ایک بار چراغ لے کر جو اٹھا تو کیا دیکھتا ہے کہ میاں عالی شان تابدان میں پڑے ہیں۔ پھر وہ خدمت گار غم خوار کہنے لگا کہ میاں صاحب! تم تو اس وقت تابدان غار پریشان میں پڑے ہو، یہ سخن دل شکن سن کر وہ افیونی بیرونی کہنے لگا "پس یہ ہمارے ہی گرنے کا دھماکا بے تحاشا تھا، ہائے ہائے بڑی چوٹ کھائی۔"

مثنوی
یہ کہہ کر لگا رونے وہ زار زار
ہوئے خندہ زن اور سب اس کے یار
جو ایسا نہ ہوتا وہ بے ہوش آہ
تو یوں لوگ ہنستے نہ شام و پگاہ
حقیقت میں غافل جو مہجور ہو
وہ بہتر ہے ہستی سے درگور ہو

نقل ہے کہ ایک افيونی جنونی لب بام والا مقام پر بیٹھا تھا کہ یکایک حالت نشہ میں یہ خیال کثیر الاختلال دل میں آیا کہ "ہمارے کوٹھے کے سامنے دریائے بے پایاں لہرا رہا ہے۔ خدا نخواستہ جو یہ پانی طغیانی کر کے میرے کوٹھے پر آجائے تو بڑا غضب پر تعب ہو۔" اس خیال پر ملال میں آخرش کو اسے امواج توہم نے آگھیرا اور دریائے وحشت بڑھنے لگا۔ آخر کار وہ دریائے ناپیدا کنار توہم كا ان کے کوٹھے سے آ کر ہم کنار ہوا؛ تب تو یہ افيونی جنونی دریائے حماقت میں مستغرق ہو کر ایک مونڈھے پر چڑھ بیٹھا اور یہ مطلع دلہن بیگم صاحبہ كا زبان پر لایا: شعر

صفحہ 433
دیکھ دریا کو میرے دل پہ لہر آتی ہے
کشتی عمر صد افسوس بہی جاتی ہے

اس عرصے میں اس وہمی کو مونڈھے پر یہ خیال پر ملال آیا کہ یہاں بھی پانی بہ طغیانی آن پہنچا۔ یہ سوچ کر دل میں کہنے لگا کہ "آخر تو ڈوبتے ہیں، اس سے تو دریا میں کود کر پیر نکالیے، ہر چہ بادا باد؛ بہ قول شخصے 'مرتا کیا نہ کرتا' یہ سوچ کر وہ افيونی جنونی کوٹھے پر سے گر کے زمین پر ہاتھ مار مار کے کہنے لگا 'بیڑا پار ہے بھائی۔' یہ ماجرا حیرت افزا ایک شخص دیکھ کر اس کے پاس آیا اور بغل میں ہاتھ دے کر اٹھا کے کہنے لگا "میاں خبردار ہو، آپ کو سنبھالو، بہ کیا واہی تباہی بکتے ہو۔" یہ سخن دل شکن سن کر وہ افيونی جنونی بہ صد خفگی بولا کہ "میرے پاؤں تو تہہ کو لگ گئے، تو ناحق مجھ کو پکڑتا ہے۔"

مثنوی
یہ واہی سخن اس کے سن وہ عزيز
لگا کہنے "بکتا ہے کیا بے تمیز
کدھر کو ہے دریا کنارا کہاں؟
جو تو تیرتا ہے یہاں ہر زماں"
یہ سن کر وہ افیونی کہنے لگا
"میں پینک کے دریا میں تھا پیرتا
مجھے اب نشا کچھ جو کم ہو گیا
تو تیرا سخن صاف کانوں سنا"
غرض ہو کے نادم وہ مہجور خوب
گیا ہائے دریائے غیرت میں ڈوب


صفحہ 434
نقل ہے کہ ایک افيونی جنونی حالت نشہ میں بے حجاب پیشاب کرنے کو جو بیٹھا، اتفاقاً وہ مكان پریشان پشت ماہی تھا۔ یہ افيونی باتونی نشیب کی طرف بیٹھ کر حاجت رفع کرنے لگا۔ یکایک وہ پیشاب لہراتا ہوا اس کی طرف رجوع ہوا؛ اس کو نشے میں دریافت ہوا کہ یہ مار سیاہ آہ مجھ بے گناہ کے کاٹنے کو آتا ہے۔ اس خیال پر ملال میں یہ جوں جوں پیچھے ہٹتا تھا، ووں ووں پیشاب کی دھار بے اختیار لہراتی اس کی طرف آتی تھی۔ الغرض جب وہ موت کی لکیر اس بے پیر کے پاؤں سے لگ گئی ایک بار بے اختیار آہ مار کے لیٹ گیا اور یوں کہنے لگا "اے موذی! لے کاٹ کھا، میں بے کس بے بس ہوں:

نظم

بس نہیں چلتا ہے کچھ اب تو مرا
کاٹ جس جا پر کہ جی چاہے ترا
سن کے یہ تقریر اس کی راہ گیر
بولا "احمق موت کی ہے یہ لکیر
اس سے کیوں ڈرتا ہے تو اندوہ گیں
زہر اس کے کاٹنے میں کچھ نہیں"
سن کے یہ تقریر اس رہ گیر کی
لوٹنے میں اس نے کچھ تاخیر کی
اور نشے کی لہر جب کچھ کم ہوئی
تب اسے مہجور غیرت سم ہوئی

نقل ہے کہ ایک افیونی باتونی بھٹیاری کی سرا میں ایک مكان دل ستاں میں ایک پیک کے ساتھ مقيم ہوا۔ بعد انفراغ طعام وہ بد انجام وقت آرام ایک باری بھٹیاری سے کہنے لگا "اے

صفحہ 435
بھٹیاری پیاری! تو مجھ کو وقت سحر مقرر سب سے پہلے جگا دینا: شعر
تا سویرے میں ٹھنڈے ٹھنڈے آہ
ایسا جاؤں نہ کوئی ہو آگاہ

اور وہ پیک بھی اس سے یوں ہی کہنے لگا کہ "مجھ کو بھی صبح کے تڑکے بے کھٹکے اٹھا دینا: شعر
تا کہ میں بھی بہ منزل مقصود
اک سپائے میں سب سے پہنچوں زود"

الغرض وہ دونوں آشنا بہم ایک جا سو رہے۔ قضائے کار ایک بار افيونی باتونی کی جو آنکھ کھل گئی تو کیا دیکھتا ہے کہ ساری خلقت اور بھٹیاری خواب غفلت میں بے ہوش ہے؛ جلدی کمر باندھ کر اور پیک کی پگڑی گھبراہٹ میں سر پر رکھ کے چل نکلا۔

بیان صبح: اس عرصے میں جب شاہ خاور شعاع کی کلغی سر پر رکھ کر مشرق سے نمودار ہوا، یکایک اس افيونی جنونی کو اپنی پرچھائیں کی پگڑی پر جو کلغی نظر آئی تو ایک بار ہاتھ زانو پر مار کے کہنے لگا "لا حول ولا قوة الا باللہ! بھٹیاری غیبانی نے پہلے اپنے پیک یار غم خوار کو جگا دیا اور ہم کو نہ جگایا: شعر
ہائے افسوس ہم رہے پیچھے
اور وہ پیک ہو گیا آگے

اس خیال پر ملال میں وہ افيونی جنونی جاتا تھا کہ وہ پیک بھی آ پہنچا اور پیچھے سے اس کے سر پر دھول جڑ کے کہنے لگا "او دغا باز نا ساز! میری پگڑی لے کے کیوں بھاگا، تجھ کو اپنا آگا پیچھا نہ سوجھا تھا؛ سچ بتانا، نہیں تو اس

صفحہ 436
لپیٹ میں تیری مشیخت بگڑ جائے گی۔" یہ سخن دل شکن سن کر وہ افیونی کہنے لگا "اے عزیز بے تمیز! کیا تو میرے پیچھے بھاگا تھا، میں تو تیری پگڑی سے سمجھا تھا کہ بھٹیاری غیبانی نے تجھ کو جگا دیا؛ بارے الحمد للہ کہ تجھ سے سے میں ہی آگے پہنچا:

مثنوی
تیرے آنے سے ہوا معلوم اب
ہو گئی تقصیر یہ مجھ سے کڈھب
واسطے حق کے اسے کر دے معاف
گرچہ تیرا دل ہوا ہے بر خلاف"
سن کے اس افیونی کی تقریر کو
ہو گیا مہجور چپ وہ نیک خو

نقل ہے کہ ایک افيونی مجنونی اپنے خدمت گار مکار سے ٹکے کا دودھ روز منگوا کے پیتا لیکن اس کو حلاوت نہ ملتی تھی۔ اتنی بات واہيات کے واسطے اس افیونی نے ایک خدمت گار ہوشیار، مکار اور نو کر رکھ کے حکم دیا کہ "اے دل سوز! تو ہر روز اس خدمت گار نابکار کے ساتھ جا کر شیر بے نظیر لے آیا کر۔" یہ فرمان اس نادان کا سن کر ملازم نو کہنے لگا: شعر
"بہت خوب جو آپ نے ہے کہا
میں آنکھوں سے لاؤں گا اس کو بچا"

الغرض جب وہ پہلا خدمت گار ناہنجار ایک بار دودھ لینے کو چلا تو وہ دوسرا نوکر کمر باندھ کر اس کے ہمراہ ہوا اور اثنائے راہ میں جا کر پوچھنے لگا کہ "اے یار غم خوار!

صفحہ 437
یہ ماجرائے حیرت افزا کیوں کر ہے؟" تو وہ جوان بے ایمان بولا کہ "اے بھائی! میں سودائی اس افيونی جنونی سے ایک ٹکا دودھ کا روز لیتا تھا لیکن ڈیڑھ پیسے کا شیر پانی ملا کے اس افیونی کو پلاتا تھا، اب تو جس طرح کہے، اس کو بجا لاؤں۔" یہ تقرير وہ بے پیر گوش زد کر کے کہنے لگا "خیر کیا مضائقہ، لیکن اب ایک پیسے کا دودھ اس مردود کے واسطے لے چلیے اور دھیلا تولے اور دھیلا مجھ کو دے۔" شعر
کہا پہلے نوکر نے کیا خوب ہے
بات مجھ کو بھی مرغوب ہے

الحاصل افیونی کو شیر بہ ایں تدبیر آدھا پانی مل کر آنے لگا۔ آخر کار ناچار اس افيونی مجنونی نے تیسرا نوکر فتنہ گر آور رکھا اور اس کو بھی یہی حکم دیا کہ "میاں! مجھ کو بازار کے دودھ میں کچھ فی معلوم ہوتی ہے اور یہ دونوں نوکر فتنہ گر ایسے غبن کرتے ہیں کہ میرے پیسے کا پیسا برباد ہو جاتا ہے اور دودھ کا مزہ نہیں ملتا۔" یہ کلام وہ نافرجام سن کر بولا "اے خداوند نعمت، سپہرکرامت! :

ابيات
ہمیں کام جو کچھ کہ فرماؤ گے
ذرا فی نہ اس میں کبھی پاؤ گے
وہ نوکر نہیں ہیں جو آقا کا کام
کریں بے تمیزی سے ہر صبح و شام"

حاصل کلام وہ اگلے دونوں نوکر بد انجام جب دودھ لینے کو چلے تو افیونی نے تیسرے نوکر فتنہ گر سے کہا "میاں! ان دونوں جوان بے ایمان کے ہمراہ جا کر شیر بے نظیر

صفحہ 438
لے آؤ لیکن خبر دار یہ دونوں ناہنجار کچھ غبن نہ کرنے پائیں: شعر
نہیں تو میں تم سے بھی ہوں گا خفا
اگر دودھ آئے گا ویسا برا"

الغرض وہ تینوں نوکر کمر در کمر ایک ٹکے کے دودھ کو خریدنے چلے لیکن ملازم سوم نے دونوں سے پوچھا "اے بھائیو! یہ واردات واہيات کيا ہے، سچ کہو، بہ ہر صورت ہم تمہارے شریک حال ہیں۔ نوکر اول نے کہا "میاں سچ تو یوں ہے کہ ہمارا آقا ٹکے کا دودھ منگواتا تھا لیکن یہ فقير ڈیڑھ پیسے کا شیر بلا تاخیر لے جاتا تھا اور دھیلا آپ رکھتا تھا، لیکن جس وقت یہ دوسرے صاحب اس کی تقلید کو آئے تو انھوں نے کہا کہ "ایک پیسے کا دودھ اس مردود کو بہت ہے، باقی ایک پیسا ہم سمجھ لیں گے؛ سو اس صورت پر کدورت کرتے سے ہم اوقات بسر کرتے ہیں: شعر
اب جو تو کہہ کریں وہی ہم بھی
نہ زیادہ ہو کچھ نہ ہو کم بھی"

یہ سخن حیرت فگن سن کروہ تیسرا نو کر بختاور کہنے لگا کہ "ایک پیسا تم دونوں لو اور ایک پیسا مجھ کو دو، میں سمجھ لوں گا؛ دیکھو تو یہ کھوٹا نوکر اس کچے افیونی کے کیسے کوڑے کرتا ہے کہ دمڑی کے دودھ میں خوش رہے اور ذرا نہ جلے نہ بھنے۔" المطلب اس پکے نوکر نے کیا فعل کیا کہ ایک دمڑی کی ملائی لے کر گھر میں آیا اور اس کو طاق میں رکھ کر چپ کو رہا؛ جس وقت اس افیونی کو پینک آئی، اس نوکر فتنہ گر

صفحہ 439
نے دونوں مونچھوں پر تھوڑی تھوڑی ملائی رکھ دی اور آپ الگ ہو گیا۔ اس عرصے میں پینک سے جو اس افیون کی آنکھ کھلی توایک بار خدمت گار سے کہنے لگا کہ "اے نوکر بختاور! شیر بے نظیر لایا یا نہیں؟" وہ ملازم نو بولا "اے صاحب! میں شیر بے نظیر لایا تھا اور آپ نوش جان بھی کر چکے، اس کو بڑی دیر ہوئی، بلکہ آپ نے نشے کی حالت میں کلی تک بھی نہیں کی۔ ذرا مونچھوں کو تو ملاحظہ فرمائیے۔" تب وہ افیونی شیر خوار ایک بار جو مونچھوں کو تاؤ دینے لگا تو دو ٹکڑے ملائی بالائی کے ہاتھ میں آگئے۔ وہ فتنہ گر کہنے لگا کہ "خداوند! دیکھیے کیا مالائی دار خوش گوار دودھ تھا کہ جس کی جھلی آپ مونچھوں پر جم گئی۔"

مثنوی
یہ سن کر کہا اس نے "ہاں میرے یار
بہت خوب یہ دودھ تھا خوش گوار
ہمیشہ جو لا دے گا ایسا مجھے
تو میں بھی بہت خوش کروں گا تجھے"
غرض اس نئے آدمی نے اسے
کیا ایک دمڑی میں خوش، واہ رے
مثل سچ ہے مشہور یہ جابجا
ملے ہے بہت چھانے سے کر کرا

نقل ہے کہ ایک دو افیونی بیرونی باہم بیٹھ کر یہ مشورہ کناں ہوئے کہ کوئی بات ایسی برائے تلاش معاش کیجیے کہ جس سے بہ خوبی اوقات بسر ہو اور گزک بے دھڑک افیون کی بہم پہنچے۔ اس میں دوسرا افيونی ہارونی بولا کہ "آو ہم تم دونوں

صفحہ 440
شرکت میں بہ آشنائی مٹھائی کی دکان عالی شان کریں تا کہ معاش جگر خراش خوشی و خرمی سے گزرے اور افیون کی چاٹ ہر رات آیا کرے۔ پھر وہ پہلا افیونی باتونی کہنے لگا "واقعی اے یار غم خوار! یہ تدبیر دل پزیر نہایت خوب مرغوب ہے لیکن بازار شہر غدار میں مٹھائی اے بھائی! بیچنا کمال عزت اور حرمت کا زوال ہے، اس سے تو یوں بہتر ہے کہ گنوں کا کھیت کسی ریت میں بوئیے اور جس وقت کے ایک بار تیار ہوں، اس وقت ان کو بیچیے اور چھریاں قرولیاں لے کر بیٹھیے؛ مثلا ایک گنا ہم نے تڑاق سے توڑا، چھیلا، نوش جان کیا۔ اسی طرح تم نے بھی توڑا، چھیلا اور کھایا۔" دوسرا افیونی ہارونی بولا "نہ بھائی! میں تو دو گنے تڑاق پڑاق سے توڑوں گا اور کھاؤں گا۔" تب وہ افیونی اس کے سر پر دھول مار کر کہنے لگا "اے فساد کی کا گانٹھ، فتنے کی جڑ! تو ایسا کہاں کا زبردست عرش کا تارا ہے جو مجھ سے ایک گنا تو زیادہ کھائے گا۔ غرض اتنی سی بات واہیات کا آخر کار قصہ پر آزار کوتوال نیک خصال کے رو برو رجوع ہوا۔ یہ ماجرا حیرت افزا سن کر وہ کوتوال نیک خصال کہنے لگا تمہارا یہ قصہ پر غصہ ہم سے نہ فيصل ہوگا۔ حاصل کلام وہ دونوں نافرجام ایک بار فوج دار معاملہ شعار کے قریب جا کر اپنا احوال پر ملال بہ نوک زبان بیان کرنے لگے۔ اس فوج دار سليقہ شعار نے پوچھا کہ "تم نے گنے کا کھیت کس مقام دل آرام پر بویا تھا جو یہ قصہ برپا ہوا؟ وہ دونوں افیونی بیرونی بولے کہ "خداوند نعمت سپہر بر کرامت! :

نظم
ہماری اور اس کی تھی ٹھہری یہ پات
کہ گنے کہیں بوئیے نادرات
 
ریختہ صفحہ 131 کتاب 79

گیا اور اس فقیر روشن ضمیر کے ہاتھ سے مثل سپند آتش رسیدہ چٹک کر گر پڑا اور مانند ماہی بے آب تڑپنے لگا کہ یکایک گورگن عشق نے اس کشتہ محبت کی تربت شق کی اور بقول عشرت :

ابیات
دل نے وا دیکھی جو اس کشتے کی قبر
پھر کوئی دل کو بھلا آتا تھا صبر
دیکھ خالی آپ سے اپنا مکاں
جا پڑا اس زخم پر شکوہ کناں

یہ حالت طرفہ تر وہ شاہ بحر و بر ملاحطہ فرما کر دریائے تحیر میں مستغرق ہوا اور تمام خدام مع خاص و عام زبانی مرزا علی لطف کے یوں کہتے تھے :

نظم
عشق کوئی طرفہ آفت خیز ہے
عشق کوئی زور ہے خوں ریز ہے
واہ رے اے عشق نیرنگی تری
گہ خوشی اور گاہ دل تنگی تری

اور ادھر دختر شہریار سوگوار اپنے دل فگار کی تربت پر پوشیدہ غرفے سے دیکھ رہی تھی کہ یکایک وہ رشک لیلی مجنوں وار ، بے اختیار قصر شاہی سے اس طرح تربت عاشق پر کود پڑی کہ جس طرح کوئی شہباز اپنے شکار پر بے اختیار گرتا ہے لیکن بقول معقول عشرت :

ابیات
آہ بھر کر قبر میں جوں ہی گری
گرتے ہی بس جاں بہ حق تسلیم کی

ریختہ صفحہ 132 کتاب 80
جذب تھا از بس دل بے تاب کا
ہو گیا پھر چاک سینہ خاک کا
مثل گل جو قبر اس کی کھل گئی
یہ مثال اشک اس میں مل گئی
نام ہی باقی رہا اس کا وہاں
پھر نہ پایا اس سوا کچھ بھی نشاں

اب آگے حالت پر رقت شہنشاہ جاں کاہ اور خادمان محل کی مشق نالہ و آہ کی کیا بیان کروں بقول مصحفی :

ابیات
ہر ایک واں جو پر عجب تھا
دنداں کے ساتھ ربط لب تھا
کہتے تھے کہ ان میں چاہ ہو گی
مدت سے دلوں میں راہ ہو گی

اور گریہ و زاری اور اشک باری کا اس محل بے بدل میں یہ تلاطم تھا کہ گویا طوفان نوح دوبارہ برپا ہوا ، بقول عشرت :

اشعار
غرق جس میں دخت شاہی ہو گئی
کشتی شاہی تباہی ہو گئی
بس اے مہجور تھام اپنی زباں کو
نہ اتنا طول دے اس داستاں کو
یہ ادنی اس محبت کا اثر ہے
نہ لیلی ہے نہ مجنوں نوحہ گر ہے
نہ شیریں ہے نہ خسرو ہے نہ فرہاد
نہ وامق ہے نہ عذرا رشک شمشاد

ریختہ صفحہ 133 کتاب 81
ایسا مہروش ہے اور نہ محمود
محبت سے ہوئے سب بود نا بود
ہوا نل کا نہیں جینا گوارا
دمن کو بھی محبت ہی نے مارا

داستان
خاص محل کی خواص پر خدمت گار بادشاہ عاشق ہوا اور زہر ہلاہل کھا کر نہ موا۔ بادشاہ یہ ماجرائے حیرت افزا سن کر متعجب کمال ہوا اور حکمائے حاذق کر طلب فرما کر مستفسر حال ہوا۔ طبیبوں نے جواب دیا کہ تاثیر عشق کے سبب سے زہر نے اثر نہ کیا وگرنہ اس کی زیست محال ہے ، فقط وصل معشوق مانع وصال ہے۔ بادشاہ نے دونوں عاشق و معشوق کو باہم وصل کیا۔ پہلے عاشق نے جان دی ، تھوڑے دنوں کے بعد جذبہ عشق سے معشوق نے دارالبقا کی راہ لی

راویان رطب اللسان اور حاکیان شیریں دہان یہ فسانہ غم آلودہ زہر الم صفحہ قرطاس پر نوک قلم الماس سے یوں تحریر کرتے ہیں کہ زمانہ سلف میں شہر بغداد میں ایک بادشاہ جم جاہ ، اس قدر ممسک و منحوس و مکھی چوس تھا کہ سپاہ خیر خواہ

ریختہ صفحہ 134 کتاب 82
کو تنخواہ ماہ بہ ماہ نہ دیتا تھا۔ آخر کار اطبائے عالی مقدار و حکمائے والا تبار سب متفق ہو کر کہنے لگے کہ کوئی تدبیر پر تاثیر مفرح القلوب اس قانون کی حکمت سے کیجیے کہ یہ بادشاہ کسی نحو سے ہماری صرف اوقاتکا خبر گیراں ہو اور آزار افلاس بے قیاس خلق کا اس کے داروئے بخشش سے دور ہو جاوے۔
المطلب ان اطبائے حاذق اور حکمائے صادق نے بہم ہو کر زہر ہلاہل ، بار نخل اجل ایسا بنایا : شعر

سونگھے سے جسے مارسیہ ہائے
یہ بحر مرگ مثل موج لہرائے

الغرض وہ زہر ہلاہل ایک چھوٹی شیشی میں بھر کر حکیمان ممالک محروسہ قریب شہنشاہ گیتی پناہ لے گئے۔
بعد آداب و تسلیم ایک حکیم فہیم وہ تحفہ اعجوبہ نذر گزران کر یہ سخن زبان پرلایا کہ اے شہنشاہ عالی جاہ ! اس تحفہ نادر و ہدیہ پر اثر کی توصیف و تعریف میں زبان رطب البیان تلخ کام ہے۔ یہ گفتگو دو بدو طیب نیک خو کی بادشاہ مسموع فرما کر یوں حرف زن ہوا کہ اس چیز عجیب و غریب کا خواص خاص بیان کرکہ یہ دوا پر بلا کس درد مند کو فائدہ مند ہے۔
یہ کلام شاہ عالی مقام کا سن کر وہ طبیب صادق اور لبیب حاذق ، ارسطو طبیعت ، افلاطون خصلت ، لب زہر خوردہ رعب شاہی کو تریاق تقریر سے کھول کر یوں گویا ہواکہ اے رونق گلستان شاہی و اے زیب بوستان آگاہی ! یہ شیشی زہر پر قہر کی ہے۔ اگر اس کی ایک سینگ پیل طویل

ریختہ صفحہ 135 کتاب 83
کے دانت پر بطور خط کھینچ دیجیے تو مانند آب بہہ جائے یا اس کا ایک قطرہ سر کوہ پر شکوہ پر ٹپکائیے تو عجب نہیں کہ مانند حباب دریائے فنا سے ہم کنار ہو۔ یہ سخن حیرت افگن بادشاہ سن کر کہنے لگا "

اشعار
ارے حاضر ہے کوئی جلد جاؤ
وہ ہاتھی فیل خانے میں سے لاؤ
کہ جس کو دیکھ کر پیل فلک کا
خطر سے آب ہو بہہ جائے زہرا

غرض حسب حکم شاہی ایک پیل نہایت طویل ایسا حاضر ہوا کہ جس کی صفت میں میرزا سودا یوں کہتے ہیں :

بیت
بیٹھنے میں ہے وہ کوہ ، اٹھنے میں ہے ابر سیاہ
عرش رفعت میں ، روش میں یہ صفت چرخ اتھک (1)

المدعا بادشاہ نے بہر امتحان حکیمان مسیح الزمان ایک سینک زہر پر قہر سے تر کرکے جو ہاتھی کے دانت پر آفات پر لگوائی ، ایک خط کھینچتے ہی نہ معلوم ہوا کہ وہ ہاتھی تھا یا کہ کالے پانی کا حباب تھا کہ ہوا کے لگتے ہی آب ہو گیا ، یا کہ چھاگل پانی کی تھی کہ ٹھیس لگتے ہی رواں ہو گئی۔ یہ تاثیر بے نظیر اس ہلاہل ثمر اجل کی دیکھ کر بادشاہ نہایت شگفتہ خاطر ہوا اور اس کے صلے میں ہر حکیم قدیم کو خلعت فاخرہ اور جواہر بے بہا سے سرفراز و ممتاز فرما کے رخصت بصد بشاشت کیا ، اور اسی دن سے زہر پر قہر نے اس کے دل کو یہ تاثیر بخشی کہ وہ ہاتھ زہرناک جو تھیں

-----------------------------------------------
1۔ نسخہ مطبع محمدی 1311ھ میں 'اٹھ تک' ہے۔
 
ریختہ صفحات 291 کتاب 239

چوتھا باب
مصرع کہنے بادشاہوں اور گداؤں میں اور فی البدیہ شاعروں کے مطلع کرنے میں اور بادشاہ کے چھمچھا کہنے میں اور کبیشروں کے کبت کرنے میں

شاعران فصیح زبان اور کبیشران ملیح بیان اوراق گل ہائے بوستان پر قلم شاخ نرگس سے یوں مرقوم کرتے ہیں کہ حضرت شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ جس شاہ زادے امیر زادے کو خوبصورت نیک سیرت سنتے تو اس کی نوکری جس فرقے میں بہم پہنچتی ، اس فرقے میں ملازم ہو کر اس کے جمال مہرتمثال سے اپنی آنکھوں کو روشن اور منور کرتے۔ حسب اتفاق ایک شاہ زادے کی نوکری شیخ موصوف کو سائیسوں میں بہم پہنچی ؛ چنانچہ ایک روز شاہ زادہ عشرت اندوز نے یہ مصرع برجستہ موزوں کیا : مصرع

شنیدہ کے بود مانند دیدہ

لیکن اس کا مصرع ثانی اس یوسف ثانی ہمسر ماہ کنعانی کی کی زلیخائے طبیعت میں نہ در آیا۔ آخرکار جتنے شعرائے ذوی الاقتدار شاہ زادہ والا تبار کے ملازم تھے ، ہر ایک سے ارشاد با دل شاد کیا کہ "اس مصرع کا مصرع دوسرا جو شاعر بہم پہنچائے گا ، اس کو بحر دنیا میں اپنا ہم ردیف کروں گا ، اور اگر اس کا مصرع ثانی بہ آسانی کسی سے نہ بہم پہنچے گا ، تو بہ اہل بیت اس

ریختہ صفحات 292 کتاب 240
سے اس طرح پیش آؤں گا کہ اس کا قافیہ تنگ ہو جائے گا"۔ یہ مضمون زشت و زبون سب شاعروں کو سنا کر شاہ زادہ آپ بھی بحر فکر میں غوطہ زن ہوا اور شاعروں نے بھی دریائے تلاش میں خوب ڈوب ڈوب کر غواصی کی لیکن اس مصرع کا دوسرا مصرع خاطرخواہ نہ بہم پہنچا ، تو رفتہ رفتہ یہ ماجرا حیرت افزا شیخ سعدی شیرازی کے گوش ہوش تک پہنچا مگر ان کے گھوڑے کی سواری کی باری کچھ درازی رکھتی تھی۔
آخر کار جس نفر کام گار کے گھوڑے کی چوکی سحر کی تھی ، شیخ موصوف اس کے قریب جا کر بہ حالت غریب کہنے لگے کہ "اے عزیز باتمیز ! صبح تیرے گھوڑے کی سواری باد بہاری میں تیز پا مثل باد صبا دوڑ کر بہ خوبی بجا لاؤں گا اور جو کچھ انعام و اکرام شاہ زادہ عالی مقام مجھ کو عنایت و کرامت کرے گا ، وہ سب بے رنج و تعب تیری عنان دست میں دوں گا تاکہ تیرے عیال و اطفال کے کام آئے" یہ کلام نیک انجام وہ نفرے بے خبر سن کر نہایت خوش ہو کر دل میں یوں کہنے لگا "ازیں چہ بہتر ، محنت اور مشقت تو یہ کرے گا اور زر نقد میرے ہاتھ آئے گا ، بہ قول شخصے : مثل

کمائیں خان خاناں اور اڑائیں میاں فہیم"

یہ خیال مالا مال وہ نفر بے خبر دل میں لا کر شیخ موصوف سے کہنے لگا " کیا مضائقہ ، تیرا کلام معقول میں نے قبول بے عدول کیا"۔ الحاصل وقت سھر شیخ صاحب چوکی کا گھوڑا لے کر آستانہ شاہی پر حاضر ہوئے۔ غرض شاہ زادہ نیک زادہ اس اسپ باد رفتار پر ایک بار سوار ہو کر برائے سیر مرغزار و لالہ زار راہی ہوا۔ اس عرصے میں ناگاہ اثتنائے راہ میں شاہ زادے کو وہ مصرع جو یاد آیا تو سب شعرا اور ندما اور رفقا سے یوں حرف زن ہوا کہ

ریختہ صفحات 293 کتاب 241
"کیوں جی ؟ ہمارے مصرع کا مصرع ثانی کسی با معانی نے نہ بہم پہنچایا ، عجب اتفاق ہے !"۔
یہ کلام شاہ عالی مقام کا شیخ صاحب مسموع کرکے دست بستہ عرض کرنے لگے کہ "خداوند نعمت! غلام گستاخانہ عرض کرتا ہے کہ وہ کون سا مصرع تنہا ہے کہ جس کا مصرع ثانی بہ آسانی بہم نہیں پہنچتا ہے؟" یہ بات واہیات گوش زد کرکے شاہ زادے نے جواب نہ دیا۔ اس میں ایک امیر صاحب توقیر پر تقریر نے کہا "پیر و مرشد برحق! کیا مضائقہ ، یہ بھی بندہ خدا ہے شاید اس کا ناوک خیال نشانہ مقصد پر بیٹھے تو اس کا کچھ عجب نہیں ، بہ قول شخصے : شعر

گاہ باشد کہ کود کے ناداں بہ غلط بر ہدف زند تیرے"

یہ سخن اس دبیر کہن کا سن کر شاہ زادہ کہنے لگا "اے نفر زبان آور ! میرے مصرع کا اگر جواب با صواب تو نہ دے گا تو مارے زیر بندوں کے تیرا قافیہ تنگ کروں گا" غرض بہ ہزار ناز معشوقانہ وہ یکتائے زمانہ شیخ صاحب کے رو برو یہ مصرع موزوں زبان پر لایا : مصرع

شنیدہ کے بود مانند دیدہ

اس کے جواب میں شیخ موصوف نے توسنِ زبان کو میدانِ سخن میں چمکا کر اور شاہزادے کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا کہ "اے یوسف ثانی ہمسر ماہِ کنعانی ! شعر

ترا دیدہ و یوسف را شنیدہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ

یہ مصرع موزوں رشک شمشاد شاہزادہ والا نژاد گوش زد کرکے مانندِ غنچہ گلشن سکوت میں چپ ہو گیا۔ بعد تامل بسیار وہ غیرت گلزار بلبل زبان کو چمن تقریر میں چہچہہ زن کرکے کہنے

ریختہ صفحات 294 کتاب 242
لگا کہ "اے عندلیب باغ سخن دانی و اے بلبل گلشن معانی ! معلوم ہوتا ہے کہ تو سعدی شیرازی ہے" یہ کہہ کر بہ صد عجز و انکسار شیخ ذوی الاقتدار کو رہوار برق رفتار پر سوار کرکے وہ نونہال حدیقہ خوبی و گل باغ محبوبی بہ صد خوشی و شگفتگی آگے روانہ ہوا۔


قطعہ
لیک مہجور اب کہاں وہ لوگ
قدر کرتے تھے جو سخن داں کی
اب یہ حالت ہے مردمان جہاں
بات سنتے نہیں غزل خوان کی

نقل ہے کہ ایک شخص جگر افگار دل داغ دار کسی شہر یار والا تبار کی دختر رشک قمر پر عاشق زار اور مست و سرشار تھا۔ بادشاہ عالی جاہ گیتی پناہ نے مشورہ وزرائے عظام و ندمائے عالی مقام سے اس جوان عاشق زار جگر افگار کو طلب فرما کے کہا کہ "اے عاشق جاں باز و اے شائقِ بتان طناز ! اگر تو اس شخص کی دختر رشک قمر پر اس قدر مثل کتان چاک گریبان ہے اور میدان عاشقی میں جواں مردی اور دلاوری سے قدم مارا ہے ، تو تیری محبت صادق اور الفت واثق ہم پر اس طرح خوب ثبوت ہو کہ جو تو فلانے مکان عالی شان کی بلندی سے کود کرجان بر رہے اور تیرے کسی عضو جسمانی کو مضرت نہ پہنچے تو البتہ تیری عروس امید آغوش حسرت سے بغل گیر بہ صد توقیر ہو جائے گی" المدعا وہ عاشق شیدا یہ مژدہ روح افزا سن کر اس مکان عالی شان کی بلندی رشکِ چرخِ بریں سے کودا لیکن یہ کہتا ہوا :

ریختہ صفحات 295 کتاب 243
قطعہ
جانانِ مرا بہ من بیارید
ایں مردہ تنم بدو سپارید
گر بوسہ زند بر ایں لبا تم

یہ تیسرا مصرعادا ہوتے ہی چوتھے مصرع کے کہنے کی باری نہ پہنچی تھی کہ وہ عاشق زار ، جگر افگار، اجل گرفتار ایک بار زمین پر گرکے بستر فنا پر غلطیدہ ہوا۔ یہ ماجرا حیرت افزا شیخ سعدی شیرازی مسموع کرکے جو اس کے لاشہ پاش پاش کے قریب تشریف فرما ہوئے تو بہ اعجازِ مسیحائی و دانائی یہ مصرع چوتھا موزوں کیا : مصرع

چوں زندہ شوم عجب مدارید

یہ قصہ حیرت افزا اس شہنشاہ گیتی پناہ کے گوش ہوش تک پہنچا کہ وہ کشتہ جفا پر دغا بلندی سے تا بہ زمین یہ تین مصرعے حزین کہہ کر ہم ردیف قضا ہوا : مصرع

جانان مرا بہ من بیارید
ایں مردہ تنم بدو سپارید
گر بوسہ زندبر ایں لبانم

لیکن ایک فقیر روشن ضمیر محرم راز نہانی اس کشتے کی زبانی یوں کہتا ہے : مصرع

چوں زندہ شوم عجب مدارید

یہ کلام حیرت التیام سن کر بادشاہ جمجاہ نے حضرت شیخ سعدی کو طلب فرمایا اور عندلیب زبان کو گلشن تقریر میں نعرہ زن کرکے کہا "اے درویش خیر اندیش ! تو اس جان دادہ دور افتادہ کی زبانی کہتا ہے "اگر وہ میرے لب پر بوسہ دے ، عجب نہ رکھو کہ زندہ ہوں"۔ اس کے جواب میں شیخ سعدی نے کہا "اے

ریختہ صفحات 296 کتاب 244
بادشاہ عالم پناہ ! یہ کلام صدق نظام عاشق صادق کا ہے، کیا مذکور جو دروغ ہو ، بہ قول شخصے : مثل

ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے

اپنی دختر رشک قمر کو طلب کیجیے اور اس مردہ بے جان کے لب سے وہ لعل لب ، لب کو ملائے ، غالب ہے کہ اس کا کاسہ زیست آب زندگی سے لبا لب ہو جائے"۔ یہ گفتگو دوبدو شیخ نیک خو کی گوش زد کر کے بادشاہ کہنے لگا "اے فقیر روشن ضمیر ! اگر اس بات میں کچھ جھوٹ ہو گا تو واللہ باللہ تجھ کو بھی اس کے برابر بستر فنا پر سلاؤں گا"۔ یہ سخن دل کش زبان پر لا کے بادشاہ نے اپنی دختر رشک قمر کو خلوت فرما کے وہاں طلب کیا کہ جس جا وہ کشتہ جفا بستر فنا پر پڑا تھا اور بہ زبان فصاحت پر بلاغت بیٹی سے کہا "اے حسن ملیح و اے رشک مسیح ! اپنے مردہ بے جان اور کشتہ ناوک مژگان کو بہ اعجاز مسیحائی بہ صد رعنائی بوسہ لے کر دیکھ تو زندگی سے کیوں کر سرخ رو ہوتا ہے !" الحاصل اس پری زاد ستم ایجاد نے جونہی اس مردہ بے جان اور کشتہ لب و دہان کے لب سے اپنے لب کو چسپاں کیا ، وہیں وہ وابستہ قجا کے کشتہ جفا ایک چشم زدن میں اٹھ بیٹھا۔ یہ تماشائے عجیب و غریب ملاحظہ فرما کر اس فقیر روشن ضمیر سے بادشاہ کہنے لگا "اے عزیز با تمیز ! معلوم و مفہوم ہوتا ہے کہ تو شیخ سعدی شیرازی ہے :

مثنوی
کہہ کے اس بادشہ نے یہ بات
اپنی بیٹی کا پکڑ کر ہات
شیخ سعدی کے ہاتھ میں دے کر
کہا بہر خدا و پیغمبر

ریختہ صفحات 297 کتاب 245
اس کے عاشق کے ساتھ پڑھ کے نکاح
کیجیے سرفراز ہے یہ صلاح
الغرض بادشاہ نے مہجور
عاشق زار کو کیا مسرور
شیخ سعدی کو پھر بہ صد اعزاز
ہم دموں میں بنایا محرم راز

نقل ہے کہ حضرت شیخ سعدی شیرازی ایک شاہ زادہ خوش جمال مہر تمثال کے ملازمان کم رو میں نوکر تھے۔ اتفاقاََ ایک روز فرحت اندوز وہ گل رعنا خوش زیبا نونہال باغ خوبی نورستہ گلشنِ محبوبی اسپ باد رفتار پر سوار ہو کر ایک گلزار پر بہار کی طرف ہو کر گزرا الغرض گلگشت چمن میں اس رشک شمشاد طبع آزاد نے ایک سرو سہی کو دیکھ کر یہ مصرع موزوں کیا : ع

اس کے جواب میں شیخ سعدی شیرازی نے کہا "اے نونہالِ حدیقہ جہاں بانی و اے گل گلستان کامرانی ! فی الحقیقت ہے : مصرع
سرو در باغ بہ یک پائے ستا دست نگر

لیکن کیا عجب مصرع ثانی ہے :
بہ رکاب تو دود گر بودش پائے دگر

یہ مصرع بے بہا سن کر شاہ زاد شیخ موصوف سے یوں کہنے لگا کہ "اے فخر شاعراں و اے رہبر کاملاں ! معلوم ہوتا ہے کہ تو شیخ سعدی شیرازی ہے :

ادبیات
یہ کہہ کر شاہ زادہ قاش زیں سے
اتر کر دست بستہ ہو یقیں سے

ریختہ صفحات 298 کتاب 246
قدم مخدوم کے لے کر کہا یوں
چھپایا آپ نے تھا آپ کو کیوں
میرے سب خانماں کا فخر ہوتا
جو حضرت آپ کے میں پاؤں دھوتا
غرض مہجور اس شہ نے بہ تکرار
کیا مخدوم کو گھوڑے پر اسوار

نقل ہے کہ ایک شاہ زادی خوزادی خوش جمال مہر تمثال فنون شعر میں نہایت موزوں طبع تھی چنانچہ ایک روز وہ دل افروز برائے تفریح طبع اپنے باغ رشک ارم میں قدم رنجہ فرما کر بہ صد شگفتگی خاطر وہ رشک چمن غیرت سمن متصل خیابان نظارہ کناں مثل گل خنداں تھی۔ حضرت شیخ سعدی شیرازی اس شہزادی کا سن کر ایک نذیر دیکھنے کا دل پر داغ رکھتے تھے۔ المدعا اس روز مخبران صادق اور محرمان واثق سے معلوم ہوا کہ آج وہ سرتاج آج گل رویاں اور افسر لالہ رُخاں اپنے گلزار پر بہار میں رونق افزا ہے۔یہ نوید سراسر امید مسموع کرکے حضرت شیخ سعدی نے قریب باغ آ کر ہر چند اندرون باغ جانے کی تدبیر پر تشویر کی لیکن کوئی راہ راست ہاتھ نہ آئیں اور آخر کار نا چار ایک تابدان کی راہ سے شیخ صاحب سر نکال کے جو دیکھنے لگے تو قضائے کار شاہ زادی غیرت گلزار کی آنکھ سے آنکھ دوچار ہو گئی۔ وہیں شاہ زادی نے فی البدیہ یہ مصرع کہا :

مصرع
زمیں ترقید و پیدا شد سر خسر

اس کے جواب میں شیخ صاحب نے کہا : مصرع
شنید آواز مادہ آمدہ نر

ریختہ صفحات 299 کتاب 247
یہ مصرع برجستہ سن کر شاہزادی ماہ رو نیک خو نے شیخ صاحب کو طلب فرما کے بصد تعظیم و تکریم صدر نشین کیا۔

مثنوی
اور کہا "خوش نصیب میرے تھے
میں نےدیکھے قدم جو حضرت کے
تم سا صاحب کمال دنیا میں
تم سا شیریں مقال دنیا میں
نہ ہوا ہے نہ ہوئے گا پیدا
جانتے ہیں تمام شاہ و گدا"
سچ ہے مہجور شیخ سعدی کا
شاعروں میں ہے مرتبہ اعلا

نقل ہے کہ ایک عزیز با تمیز ، موزون الطبع ، خوش لہجہ ، حسن پرست ، دل دو لخت ، سرشار مئے محبت ایسا تھا کہ بہ قول میر تقی :

مثنوی
سر میں تھا شور شوق دل میں تھا
عشق ہی اس کے آب و گل میں تھا
عشق رکھتا تھا اس کی چھاتی گرم
دل وہ رکھتا تھا موم سے بھی نرم

الحاصل اس شہر کے بادشاہ عالم پناہ کے پسر رشک قمر پر وہ دل داغ دار عاشق زار ہو گیا لیکن بہ قول مرزا علی لطف کے : شعر

مہر اس پر کیوں کہ ہو اس ماہ کو
کیا تناسب ہے گدا سے شاہ کو

ریختہ صفحات 300 کتاب 248
الغرض بہ سعی بسیار اس جگر افگارنے بہ ناچاری خدمت گاری میں اس کی نوکری بہم پہنچائی مگر برائے نطارہ آں ماہ پیکر وہ خشتہ جگر آٹھ پہر حاضر رہنے لگا چنانچہ ایک روز وہ شاہ زادہ شمع شب افروز خواب سے بیدار ہو کر آئینہ ہاتھ میں لے کر اپنے حسن کی بہار کا جو نظارہ کناں ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ زلف پیچاں رشک سنبل بستاں سر سے بل کھا کر سر گوش ہوش سے سرگوشی کر رہی ہے۔ یہ عالم زلفِ پر خم کا ملاحظہ فرما کے یہ مصرع موزوں کیا : مصرع

زلفِ من خم شدہ در گوش سخن می گوید

اس کے بعد ہر چند اس شاہ زادہ خود پسند نے بہ غور خوص کیا لیکن مصرع ثانی رو کش نقش مانی آئینہ طبیعت میں جلوہ گر نہ ہوا۔ آخر کار ہر ایک انیس و جلیس سے فرمایا کہ اس کا دوسرا مصرع برجستہ بہم پہنچاؤ لیکن کسی نیک خصال کے خیال میں نہ آیا ؛ تب وہ خدمت گار دل افگار دست بستہ ہو کر عرض کرنے لگا کہ "خداوند نعمت ! وہ کون سا مصرع ہے کہ جس کا مصرع ثانی بہ آسانی بہم نہیں پہنچتا ہے؟" اس شاہ زادہ والا تبار عالی مقدار نے کاکل معشوقانہ سخن کو شانہ کاری زبانِ جادو طراز سے آراستہ کرکے کہا "اے خدمت گار دل افگار ! :

مصرع
زلفِ من خم شدہ در گوش سخن می گوید

یہ مصرع گوش زد کرکے وہ تیرہ بخت سیہ رخت کہنے لگا "اے نیرِ حشمت و اقبال و اے ماہِ رفعت و اجلال سچ تو یوں ہے : مصرع

مو بہ مو حالِ پریشانی من می گوید
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
صفحہ380

وہ گُرگ پُر فطرت دل میں ٹہرا کر اس شغال بد خصال کے گھر میں جا بیٹھا۔ اس عرصے میں دوپہر کو وہ گیدڑ بے خبر اپنے گھر بے خطر میں جو آنے لگا تو در پر نشان انجان پاؤں کے پائے؛ یہ ماجرا حیرت افزا بے جا دیکھ کر اپنے در پر کھڑا ہو گیا:

قطعہ

اور دل میں لگا یہ کہنے بات
گھر میں بیٹھا ہے اب کوئی بد ذات
کیجیے اس سے ایسی اب حرفت
جس میں اس کی چلے نہ اک فطرت

" یہ خیال وہ شغال دل میں کر کے یوں گویا ہوا کہ " اے میرے گھر بے در! میں بے خبر تجھ میں اس وقت آؤں یا نہیں؟" یہ سخن حیرت افگن سن کر وہ گُرگ کہن خاموش مدہوش بیٹھا رہا؛ ایک دم کے بعد پھر وہ شغال بد افعال بولا کہ "کیوں میرے گھر بے در! میں بے خبر آؤں یا نہ آؤں؟ کیونکہ میرے اور تیرے ہمیشہ رسم سوال و جواب کی ہے، کس واسطے کہ بنیاد سنگ کی مٹی سے ہے اور سنگ پر نیرنگ کی بنا کوہ پُر شکوہ کی ہے اور کوہ کی رسم سوال و جواب کی ہے، یعنی جو کوئی دامن کوہ میں آواز ہم راز دیتا ہے، وہ بھی آواز خوش انداز سے جواب دیتا ہے":
قطعہ
نخشبی رد مکن سوال کسے
قلزمی راچہ کم شود زندا
تاکہ از آدمی سخن گوید
اوھم آواز می دھد بہ صدا
" یہ گفتگو دُو بدُو سن کر گُرک کہن پُر فن دل میں کہنے لگا

صفحہ381

'معلوم و مفہوم ہوتا ہے کہ اس گیدڑ کے گھر کی یہی رسم ہے کہ جب یہ آنے کو کہتا ہے تو آتا ہے اور نہیں تو نہیں آتا ہے؛ اگر اب کی بار اس گھر نا بکار سے آواز نہ سنے گا تو وہ میرے ہاتھ سے ھیہات مفت جائے گا؛ اس سے تو بہتر یوں ہے کہ اب جو وہ آواز دے تو جواب دیجیے۔' یہ بات وہ گُرگ بد ذات دل میں سوچ کر بیٹھا تھا کہ اس عرصے میں وہ شغال بد خصال پھر آواز دہ ہوا کہ "اے خانہء من و اے کاشانہء من! آج تو مجھ کو جواب با صواب کیوں نہیں دیتا ہے؟ " یہ سخن پُر فن سن کر گُرگ کہنے لگا: مصرع
"کرم نما و فرودآ کہ خانہ خانہء تست"
" یہ آواز نا ساز سن کر وہ شغال بد خصال رقص کناں اُس چرواہے کے پاس گیا کہ جو اس گُرگ کا دشمن جان تھا۔
"غرض وہ شبان خندہ زناں کچھ پارہء سنگ اپنے سنگ لا کر خانہء شغال کو سنگسار کرنے لگا۔ آخر الامر وہ گُرگ کہن پُر فن اس گھر بے در میں مر گیا۔" اے سیاہ گوش با ہوش! مجھ کو بھی یہی خوف و خطر ہے کہ اس کا سا حیلہ تیرے وبال گردن نہ ہو" یہ گفتگو مادہ دل دادہ سے سن کر سیاہ گوش با ہوش کہنے لگا "اے نیک بخت! وہ بھیڑیا گدھا تھا، یہ اس کی فہمید میں نہ آیا کہ کہیں بھی مٹی کا گھر بولتا ہے جو اس کو جواب دیتا؛ یہ جس طرح اس میں بیٹھا تھا، بیٹھا رہتا تو وہ شغال بد خصال دو چار بار اور بولتا، آخرش اس کے پاؤں کے نشان کا وسوسہ اس کے دل سے مٹ جاتا، فراغت سے اپنے گھر میں چلا جاتا اور یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنا گھر بے پر کر دیتا۔" یہ گفتگو دُو بدُو مادہ اور نر میں ہو رہی تھی یہ ایک طرف سے وہ شیر نیستاں بہ صد شور و فغاں

صفحہ382
نمود ہوا۔ پھر اس کی مادہ دل دادہ کہنے لگی "اے سیاہ گوش با ہوش! اب بھی کچھ نہیں گیا ہے، یہاں سے فرار ہو چل، ناحق جان دینا کیا حصول" وہ سیاہ گوش با ہوش کہنے لگا "اے جورو نیک خو! جائے خوف و خطر نہیں؛ بہ قول شیخ سعدی علیہ الرحمہ: مصرع
دشمن چہ کند چو مہرباں باشد دوست
لیکن تو یہ کام کر، جس وقت یہ شیر دلیر میری آواز کے برابر آئے، تو تُو اپنے بچوں کو رُلا دینا پھر آگے میں سمجھ لوں گا۔"
اس عرصے میں وہ شیر دلیر حالت غصہ میں قریب آ پہنچا تھا کہ اس مادہ دل دادہ نے بچوں کو رُلا دیا۔ اس میں وہ سیاہ گوش با ہوش کہنے لگا "ارے یہ لڑکے آج بے وقت کیوں روتے ہیں؟" اس کی مادہ دل دادہ بولی کہ "ان کم بختوں کو تو نے شیر کے گوشت کی جو چاٹ لگا دی ہے، سو یہ شیر کی بو دریافت کر کے اپنی غذا طلب کرتے ہیں؛ اگرچہ تیرے پنجہء شیر افگنی سے گھر میں گوشت ہاتھی گینڈے کا بہت موجود ہے مگر ان کی روباہ گرسنگی بے شیر کا گوشت کھائے نہیں سیر ہوتی"۔ یہ کلام فطرت انتیام مادہ سے سن کر سیاہ گوش کہنے لگا "کیا مضائقہ، ان کو دلاسا دے، خدا رزاق مطلق ہے؛ بہ قول شخصے مثل مشہور ہے: مثل
خدا شکر خورے کو شکر پہنچا دیتا ہے
یعنی ان کے واسطے کباب لذیذ اور غذائے لطیف آپ سے آپ موجود ہوئی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کوئی پل میں شیر کا گوشت تازہ کھلاتا ہوں۔" یہ کلام نا فرجام سن کر وہ شیر دلیر نہایت سہم نام ناک ہوا اور دل میں کہنے لگا 'معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بلیات پُر آفات ہے۔' یہ سوچ کر وہ شیر نیستان اپنی جان وہاں سے لے کر بھاگا لیکن وہ میمون ذوفنون اس کے پیچھے پیچھے کہتا جاتا تھا "اے شیر دلیر! تو اس قدر بے حواس اور پُر ہراس کیوں بھاگا جاتا ہے، ایک جانور ضعیف اور حیوان نحیف سے امیر سباع کو مخّوف ہونا نہیں چاہیے، یعنی پیل کو پشے سے مقام ہراس نہیں" یہ بات میمون بد ذات کی سن کر وہ شیر کچھ دلیر ہو کر پھر اپنے مکان دل ستاں کی طرف پھرا۔ جب سیاہ گوش با ہوش نے دیکھا کہ دشمن نے پھر ادھر کو منہ پھیرا تو اپنی مادہ دل دادہ سے کہنے کہ "ذرا لڑکوں کو پھر اُسی شکل سے رُلا دینا، دیکھ تو قدرت الٰہی کا کیا تماشا نظر آتا ہے۔"
الغرض جب وہ بچے چھوٹے چھوٹے رونے لگے تو وہ سیاہ گوش با ہوش کہنے لگا "اے بی بی! اپنے بچوں کو کیوں تشفی اور تسلی نہیں کرتی، اتنا کیوں گھبراتے ہیں، یہ میمون ذو فنون میرا بڑا یار غار ہے، دیکھ تو بھاگے ہوئے شیر کو کس طرح لگائے لاتا ہے، ذرا میرے سامنے آیا چاہیے، پھر میرے چنگل غضب سے کہاں بچ کے جائے گا؛ ان شاء اللہ تعالیٰ ایک پل میں شکار تازہ کا گوشت کھلاتا ہوں۔" یہ بات واہیات سن کر اس شیر دلیر نے کہا کہ "چہ خوش چرا نہ باشد" بہ قول شخصے: مثل دشمن کہاں؟ بغل میں!
یہ میمون ذو فنون بس اسی واسطے مجھ کو سمجھا کے لایا ہے کہ پنجہء اجل میں گرفتار کر کے آپ بچ رہے۔" یہ کہہ کر وہ شیر ایک تھپیڑا قضا کا بندر مچھندر کو جڑ کے بہ صد اضطرار کسی کوہسار کو فرار ہو گیا۔

صفحہ384
مثنوی
واہ رے تیری عقل واہ شعور
کیوں نہ تحسین کریں تجھے مہجور
یعنی ایک شیر سے بہ دانائی
اپنے بچوں کی جان بچوائی
اور گھر بار چھین کر افسوس
کر دیا اُس کو در بدر افسوس
نقل ہے کہ ایک شیر دلیر اپنے بچوں کو یہ نصیحت اور وصیت کرتا تھا کہ "بیٹا جانور صحرائی اور حیوان دریائی سے نہ خوف کھانا لیکن آدمی زاد جلاد کے پاس ہرگز نہ جانا کیونکہ نہایت پُر آفت ہوتے ہیں: شعر
ایک ادنیٰ ہے ان کی یہ تقریر
جس کو چاہیں کریں سخن میں اسیر"
الحاصل وہ شیر بچہ جب سن تمیز کو پہنچا تو ایک روز برائے سیر دل افروز ایک مرغ زار رشک بہار میں گیا تو وہاں ایک فیل طویل نظر آیا۔ یہ شیر بچہ اس کو دیکھ کر نہایت سہم ناک ہوا اور ادھر وہ فیل بے عدیل آپ خوف ذدہ ہوا۔ یہ احوال کثیر الاختال دیکھ کر شیر بچہ دل میں کہنے لگا کہ 'معلوم و مفہوم ہوتا ہے کہ یہ آدمی زاد جلاد نہیں ہے' کوئی جانور صحرائی ہے۔' یہ سوچ کر وہ شیر آگے بڑھ کے فیل طویل سے کہنے لگا "اے عزیز با تمیز! تو آدمی ہے یا اور کوئی جانور شاطر ہے؟" وہ فیل طویل جواب دہ ہوا "اے شیر دلیر! آدمی زاد نہایت جلاد ہوتے ہیں، یعنی ہم بھی اس قد و قامت پُر قیامت پر ان سے ڈرتے ہیں؛ بہر تقدیر جو ہم ان کے ہاتھ آتے ہیں تو وہ ہم

صفحہ385
پر سواری ہر باری کرتے ہیں اور سر کو آنکس آب دار سے فگار کر کے ہم کو سرخ رو کرتے ہیں: شعر
کسی کو خدا ان سے ڈالے نہ کام
وہ ہیں الغرض سب کے سب نیک کام"
یہ تقریر نا گزیر اس فیل طویل کی سن کر وہ شیر بچہ آگے بڑھا تو ایک شتر بے مہار نظر آیا۔ اس کو دیکھ کر خوف سے پہلو تہی کر کے دل میں کہنے لگا 'یہ مقرر آدمی زاد ہو گا کیونکہ اس کے ہاتھ پاؤں بہت دراز و ممتاز ہیں'۔ یہ خیال پر ملال جی میں کر کے کھڑا ہو رہا اور ادھر وہ شتر بے خبر خوف و خطر سے بے کل ہونے لگا۔ المدعا اس شیر بچے نے اس شتر بے خبر سے پوچھا "اے عزیز با تمیز! تو آدم معظم کی قسم سے ہے؟" وہ شتر بے خبر جواب دہ ہوا کہ "اے یار غم خوار! آدمی زاد ناشاد ایسے جلاد ہوتے ہیں کہ جو ہم کو پاتے ہیں تو ہماری ناک غم ناک میں نکیل ریل دیتے ہیں اور پیٹھ پر بوجھ لاد کر جہاں چاہتے ہیں وہاں لیے پھرتے ہیں: شعر
کوئی ان سے ہرگز بر آتا نہیں
کوئی آنکھ ان سے ملاتا نہیں"
یہ کلام اس نا فرجام کی سن کر وہ شیر بچہ آگے بڑھا تھا کہ ایک نر گاؤ زیر کوہ پُر شکوہ نظر آیا، اس کو بھی دیکھ کر دل میں کہنے لگا 'شاید یہ آدمی زاد جلاد ہو۔' یہ دل میں سوچ کر بہ صد خوف و خطر کھڑا رہا اور وہ بیل بھی شیر بچے کو دیکھ کر نہایت مخوف ہوا؛ اس میں اس شیر بچے نے دریافت کیا کہ یہ بھی آدمی کی قسم سے نہیں ہے۔ یکایک اس بیل غریب کے قریب جا کر کہنے لگا "اے یار غم خوار! تو آدمی زاد بے داد
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
ریختہ صفحہ 391

تیری جستجو بہ این آرزو کس جہت سے ہے ؟ کوئی بھی اپنے دشمن کو دوستی سے تلاش کرتا ہے ، یا کوئی بھی آپ سے آپ اپنی چاہ سے کوئیں میں گرتا ہے ؟ ایسی باؤلی باتوں سے میرے دل کو ڈانواں ڈول نہ کر ۔"
یہ گفتگو گرگ تند خو کی سن کر وہ گوسپند کہنے لگی کہ "اے گرگ شیر صولت پلنگ ہیبت ! تیری تلاش بے قیاس کا یہ سبب ہے کہ میرا گِلہ بان میان جہان ایسا منبع سخا اور موجِ عطا ہے کہ اُس کی ذات فائض البرکات سے ہمیشہ چشمۂ فیض جاری رہتا ہے ؛ سو آج اُس خوش مزاج نے مجھ ناکام نافر جام سے کہا کہ ' اے گوسپند کسل مند ! اُس جنگل کے گرگ سے میں بہت راضی ہُوں ، یعنی اُس نے میرے گلے کو کبھی اذیت پُر صعوبت نہیں دی ، اُس واسطے میں نے تُجھ کو اُس کی ضیافت میں تجویز کیا ہے ، تو اُس کے پاس جا اور اپنی جان کو نثار کر کے لقمۂ لذیذ اور غذائے لطیف ہو ۔' اے گرگ ! اُس واسطے یہ نیم جان اُس بیابان کے درمیان تُجھ کو ڈھونڈھتی ہے ، میری بات واہیات اور چاپلوسی کی نہ سمجھنا ؛ بہ قول شیخ سعدی : فرد
در ہزار چو گوسفند سلیم
در فقا ہمچو گرگ مردم در
لیکن اے گرگ ! مجھ میں گانے کا وصف نہایت با حلاوت ہے ، مجھ کو تو نوش جان اُس آن بے گمان كرے گا لیکن وہ بات کر جس میں حلاوت مزے سے حاصل ہو ، یعنی پہلے تو میرے گانے سے مسرور ہو ، پِھر اس عالم سرور میں جو مجھ کو کھائے گا تو نہایت لذت پائے گا ، اس مثل کے بقول : مثل
ایک تو کریلا کڑوا ، دوسرے نیم چڑھا


ریختہ صفحہ 392

یعنی ایک تو عالم سرور اور دوسرے گوشت لذیذ ، یہ بات نادرات سے ہے ۔"
یہ تقریر پر تزویر اُس گوسفند عقل مند کی وہ بھیڑیا گدھا سن کر کہنے لگا " ازیں چہ بہتر ، نیکی اور پوچھ پوچھ ۔" الغرض وہ گوسفند درد مند اُس بھیڑیے گدھے کو ایک ٹیلے پر لے گئی اور وہاں اُس نادان کو الگ بٹھا کر آواز بلند سے جو اس سوتی رشک سرستی نے ایک سر بھرا تو اُس کا چرواہا زمانے کا نٹ کھٹ ہر دیس کا کٹہراگ بوجھنے والا اپنی بکری کا خیال کر کے چالاکی سے ٹپا ٹوئی کرتا اس ٹیلے پر آیا اور لٹھ کو ایسا زور سے پھینک مارا کہ اس بھیڑیے کا پاؤں ٹوٹ گیا ۔
غرض وہ بھیڑیا لنگڑاتا بھاگ کر جنگل میں روپوش ہو گیا اور گلہ بان شاداں و فرحاں شکل گل خنداں اُس گوسفند عقل مند کو بغل میں داب کر اپنے گلے میں لے آیا ۔
مثنوی
لیک بکری نے کیا ہی چھند کیا
گرگ کو مثل شیر بند کیا
گر نہ ہوتی وہ گوسفند عقیل
جان بچنے کی کون سی تھی دلیل
فی الحقیقت شعور ہے وہ چیز
جس سے آتی ہے آدمی کو تمیز
اور جسے کچھ نہیں ہے عقل و شعور
خر سے بد تر اُسے سمجھ مہجور
فی المثل یہ کسی نے خوب کہا
' صاحب عقل کی ہے دور بلا '

ریختہ صفحہ 393

ساتواں باب

احمقوں کی نقلوں میں

محرران معصوم صفت اور کاتبان محروم فطرت کاغذ سادہ لوح پر قلم خام سے یوں رقم کرتے ہیں کہ ایک قصباتی دیہاتی برائے تعیناتی اپنے گھر سے ایک منزل کامل پر سفر کر گیا تھا اور کئی دن کے بعد ایک روز اُس کی جوروئے دل سوز نتھ ناک سے اُتار کر دالان کے سائبان میں بیٹھی منہ دھو رہی تھی ۔ اتفاقاً نائن باہر سے جو آئی تو وہ بے شعور دور سے کیا دیکھتی ہے کہ بی بی کی ناک بے نتھ کے بے سر نظر آتی ہے ۔ یہ احوال پُر ملال دیکھ کر دل میں کہنے لگی کہ شاید ہماری بی بی رانڈ ہو گئی ہیں جو ناک غم ناک میں نتھ نہیں نظر آتی ۔ ' یہ خیال بد سگال دل میں کر کے وہ نائن گھر میں آئی اور اپنے خاوند دانش مند سے کہنے لگی " اے غفلت شعار نا ہنجار ! بیٹھا کیا کرتا ہے ، جلد خبر لے ، فلانی بی بی رانڈ ہو گئی ۔" یہ خبر وحشت اثر سن کر وہ گیدی خر جلد کمر باندھ کر وہاں سے روانہ ہوا ۔
الحاصل منزل مقصود پر پہنچ کر وہ گیدی خر میاں سے کہنے لگا " اے میاں صاحب ! یہاں کس فکر میں بیٹھے ہو ، وہ تمہاری بی بی عصمت والی رانڈ ہو گئی ۔" یہ واقعہ غم افزا سن کر وہ بدخصال فی الحال بے اختیار ڈاڑھیں مار کر رونے لگا اور یہ سخن زبان پر لایا : شعر


ریختہ صفحہ 394

افسوس مری خجستہ پیکر
مجھ بن ہوئی رانڈ اور بے سر
کیوں کر ہو مجھے قرار افسوس
افسوس ہے صد ہزار افسوس

یہ سخن حیرت افگن اُس سادہ لوح کا سن کر سب مرد و زن کہنے لگے " اے بے وقوف ، ذہن سے خالی ! کہیں بھی سنا ہے کہ میاں جیتا رہے اور بی بی رانڈ ہو جائے ۔" یہ گفتگو ہر ایک نیک خو کی سن کر با دیدۂ تر جواب دہ ہوا :

قطعہ
" تم سچ کہتے ہو پر اے بھائی
گھر سے آیا ہے معتبر نائی
پھر بھلا اُس کو میں کیا کروں آہ
ہوا جاتا ہے میرا حال تباہ "
سن کے اُس کی یہ گفتگو سب یار
قہقہ مار کر ہنسے یک بار
واہ رے تیری عقل واہ شعور
آگے اب اُس کے کیا کہے مہجور
________

۲؀ نقل ہے کہ احمق کا گدھا رسّی سے بندھا گم ہو گیا تھا لیکن وہ خر نا ہموار بار بار گدھے کے فراق میں آہ جان کاہ کھینچتا اور شکر کرتا ۔ یہ احوال کثیر الا ختال ایک شخص دیکھ کر یوں کہنے لگا " اے سادہ لوح ! تیرا گدھا گم ہو گیا ہے اور تو بہ آہ جان سوز و غم اندوز شکر کرتا ہے ، اس کا کیا موجب اور کیا سبب ہے ؟ " یہ کلام سن کر وہ ناکام کہنے لگا " اے عزیز بے تمیز ! میں اُس واسطے شکر کرتا ہوں

ریختہ صفحہ 395

کہ خوب ہوا کہ یہ شخص اُس گدھے نا ہموار پر سوار نہ تھا ، نہیں تو اُس کے ساتھ ہاتھ ہی ہاتھ میں بھی گم ہو جاتا " لیکن وہ خر نا ہموار بد کردار یہ نہ سمجھا کہ اگر اُس پر آپ سوار ہوتا تو گدھا بوجھ لدا کیوں کر گم ہوتا ۔ شعر
جس گدھے کو نہ ہووے اتنا شعور
اُس کو سمجھائے کوئی مہجور
________
۳؀ نقل ہے کہ ایک احمق مطلق بہ حالت بیماری ایک باری طبیب خوش نصیب کے قریب گیا ۔ اُس حکیم فہیم نے فرمایا " اے سقیم الم و اے الیم غم ! تو صبح کو قارورہ لے کر حاضر ہونا ، تیری بیماری تشخیص میں آ جائےگی ؛ ان شاء الله تعالیٰ اُس قانون کا نُسخہ مفرح القلوب تُجھ کو لکھ دیا جائے گا کہ تیرے اسباب علامت واہیات جلد رفع ہو جائیں گے ۔"
القصہ وہ رنجور دل ملول گھر میں آیا ۔ قضائے کار اُس نابكار کی جورو بد خو شب کو خود بہ خود بیمار ہو گئی ؛ وقت سحر بہ حالت مضطر اُس سادہ لوح نے اپنا اور اپنی جورو کا قارورہ ایک ہی شیشی میں بھر کر اُس طبیب عجیب کے قریب لے گیا اور قارورے کو دکھلا کر یوں گویا ہوا کہ " اے حکیم فہیم ! مجھ سقیم اور میری جورو دل دو نیم کا باہم قارورہ ہے ، اُس کو ملاحظہ کر کے دیکھ کہ میری رسوب اور اس کے قوام میں کیا فرق ہے ۔" یہ بات واہیات سن کر ایک شخص اُس مطب میں سے بول اٹھا " اے سادہ لوح ! اگر دونوں قارورے باہم لایا تھا تو ایک ڈورا سادہ اپنے اور جورو کے قارورے میں کیوں نہ باندھ لایا ۔"
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
ریختہ صفحہ 396

قطعہ

یہ سن کر لطیفہ سبھی یار غار
ہنسے قہقہ مار کر ایک بار
جو مہجور ہوتا نہ وہ نے شعور
تو کیوں کے اُسے خلق ہنستی ضرور
_________
۴؀ نقل ہے کہ ایک قاضی قصباتی نے شب کو کتاب انتخاب میں یہ نکتہ لکھا دیکھا کہ جس شخص کا سر چھوٹا اور ریش دراز بے انداز ہو ، وہ شخص احمق مطلق ہوتا ہے ؛ چنانچہ قاضی صاحب ان دونوں علامت میں گرفتار تھے ۔ اُس نکتے کو دیکھ کر دل میں کہنے لگے کہ ' سر خورد کو تو بزرگ نہیں کر سکتا ہوں لیکن ڈاڑھی کم کرنے میں البتہ ہاتھ پہنچتا ہے ۔' یہ بات واہیات وہ نیک صفات سوچ کر تلاش مقراض اٹھا ، اتفاقاً اُس وقت کندیٔ ذہن سے مقراض کاغذ تراش نہ ہاتھ آئی ۔ آخر کار چار نا چار آدھی ڈاڑھی ہاتھ میں پکڑ کر فتیل سوز کے قریب جا کر اپنی ریش کو سے چراغ سے جو ہم سر کیا تو آتش چراغ سر بلندی کر کے سر دست قاضی کے ہاتھ تک پہنچی ؛ بے اختیار قاضی دل افگار نے ایک بار ریش دراز ہاتھ سے چھوڑ دی ۔
الحاصل تمام ڈاڑھی قاضی جی کی آتش نادانی سے جل گئی اور صورت پُر کدورت بھونی سری کی شکل نکل آئی ۔ غرض قاضی صاحب اپنی نادانی پر کمال نادم ہو کر کہنے لگے کہ " کتاب کا انتخاب کا نکتہ خوب ثبوت ہوا کیوں کہ اپنی بے وقوفی اور ہے شعوری ریش کے زیر و زبر ہونے سے پیش آئی ؛ بہ قول میر تقی : مصرع


ریختہ صفحہ 397


گھر جلا سامنے اور ہم سے بجھایا نہ گیا

لیکن شدنی کو کوئی کیا کرے ، فی الحقیقت ہے : مثل

پیش آنی ہے وہی جو کچھ کے پیشانی میں ہے

اشعار
آدمی کو و لیکن اے مہجور !
چاہیے اس قدر تو عقل و شعور
کہ جو دیکھے کہیں نشیب و فراز
واں سمجھ کر چلے وہ بندہ نواز
اور کہیں سے خورش کو ہاتھ آئے
بال مکھی کو دیکھ کر کھائے
_________

۵؀ نقل ہے کہ ایک سادہ لوح نے خواب پریشان کے درمیان بے ایمان کی ریش دراز پکڑ کر ایک طمانچہ تڑاک سے جڑا اور یہ سخن تلخ دہن سے کہا کہ " اے ملعون ذو فنون ! تو نے یہ ریش اس واسطے دراز کی ہے کہ مردمان راہ راست رو کو فریب سے بہکا کر بے راہ کروں ۔ " یہ کہہ کر ایک طمانچہ ایسا زور سے جڑا کہ اُس کے صدمے سے جو آنکھ کھل گئی تو کیا دیکھتا ہے کہ اپنی ریش اپنے ہاتھ میں ہے اور طمانچوں کے صدمے سے دونوں رخسار بے اختیار جھلا رہے ہیں ۔ یہ احوال پُر ملال وہ شخص دیکھ کر کہنے لگا : مثل
کردنی خویش مثل ہست کہ می آید پیش
شعر
سچ ہے مہجور آج تک انسان
ہے گرفتار فطرت شیطان
___________

۶؀ نقل ہے کہ ایک سوار اسپ باد رفتار کارواں سرا میں نزول

ریختہ صفحہ 398

ہوا ۔ بعد انفراغ طعام وقت شام وہ سوار خوش کلام اپنے نفر نافر جام سے یوں حرف زن ہوا کہ " اے عزیز نا چیز ! سننے میں آیا ہے کہ اُس شہر پُر قہر کے درد بے درد درزی میں جواں مرد ہیں ۔ ایک کام کر ، تو شوق سے بستر غفلت پر پاؤں پھیلا کر سو رہ ، میں اپنے گھوڑے کی آپ خبرداری کروں گا ؛ بہ قول شخصے : مثل
مال عرب پیش عرب
یہ بات اُس نیک صفات کی سن کر نفر کہنے لگا " اے خدا وند نعمت ! یہ کون سے بات واہیات ہے کہ خدا وند دولت مند تمام رات ہیہات جاگے اور دو پیسے کا نفر گیدی خر بہ فراغت تمام آرام کرے ۔ نہ صاحب یہ نہیں ہونے کا ، آپ یہ فراغت تمام استراحت فرمائیے اور یہ نالائق رد خلائق گھوڑے کی نگہ بانی اور پاسبانی کرے گا ۔ اس بات سے اپنی خاطر عاطر جمع رکھیے : شعر
اگر نوکری میں ہو مجھ سے قصور
تو یہ جانیو ہے بہت بے شعور
القصہ وہ سوار غفلت شعار اس روسیاہ کے کہنے سے سو رہا ۔ پہر رات کے بعد ایک بر بیدار ہو کر کہنے لگا " اے نفر یا با خبر ! کیا کرتا ہے ؟" وہ اُس کے جواب میں کہنے لگا " خدا وند نعمت ! اس وقت غلام ناکام اس تفکر میں ہے کہ الله تعالیٰ نے زمین کو پانی پر کیوں کر فرش کیا !" یہ سخن حیرت افگن سن کر وہ صاحب ہوش کہنے لگا " اے نفر بے خبر ! مجھ کو خوف و خطر ہے کہ تیری فکر میں درد بے درد آن کر اسباب بے خبری کو دزدی نہ کر لے جائے ۔" اس نے جواب دیا

ریختہ صفحہ 399

کہ " اے خدا وند ! کیا مذکور اور کیا مقدور ہے ، آپ اپنی خاطر عاطر جمع رکھیے۔"
الحاصل وہ سوار نیک شعار پھر سو رہا ۔ بعد نصف شب مضطرب چشم وا کر کے یوں گویا ہوا " اے نفر با خبر ! کس فکر میں ہے ؟" اُس نے جواب دیا " اے خدا وند ! اُس فکر میں ہوں کہ خدائے عزوجل نے آسمان بے پایاں کو بے ستون کیوں کر استادہ کیا ہے اور زمین کی مٹّی میخ گاڑنے میں کہاں غائب ہو جاتی ہے !" یہ فکر بے موجب سن کر وہ صاحب ہوش کہنے لگا " اے نفر بے خبر ! اس فکر میں میرا گھوڑا کوئی اُڑا کر نہ لے جائے ۔ اے نفر بے خبر ! اگر تیرا جی سونے کو چاہے تو سو رہ ۔" وہ کہنے لگا " خدا وند ! آپ خاطر جمع رکھیے ، میں خبردار اور ہوشیار ہوں ۔" وہ سوار نا چار پھر سو رہا ؛ تین پہر کے بعد وہ سوار پھر بیدار ہو کر کہنے لگا کہ " اے نفر لختِ جگر ! کیا خبر ہے ؟ " وہ جواب دہ ہوا کہ " خدا وند ! میں اب اس تشویش میں ہوں کہ اونٹ کے پیٹ میں گولیاں کون باندھتا ہے اور کیلے کے پتوں پر اتو خود بہ خود کیوں کر ہوتا ہے ۔" غرض وہ سوار پھر ایک بات اس فکر سے غافل ہو کر سو رہا اور جس وقت چار گھڑی شب پُر تعب باقی رہی ، ایک بار سوار بیدار ہو کر کہنے لگا کہ " اے نفر بے خبر ! کیا خبر ہے ؟" وہ جواب دہ ہوا " اے خدا وند نعمت ! اب غلام ناکام اس فکر میں ہے کہ گھوڑا تو کوئی چور منہ زور سرنگ لگا کر لے گیا ، اب یہ زین اور خوگیر بے نظیر آپ کو سر پر رکھنا پڑے گا یا مجھ کو لے چلنا ہوگا ۔" یہ نکتہ واہیات اس نفر ستم گر کا سن کر وہ نیک صفات ایک بار بہ صد اضطرار خفا ہو کر کہنے لگا " اے احمق ، مخنث ، نفروں کے آخور ، کم زور

ریختہ صفحہ 400

حشری کمری ! چل ایڑ کر جا میرے سامنے سے ۔ میں اب اور کوئی نفر خنگ دبنگ آٹھوں گانٹھ کمیت نو کر رکھ لوں گا جو زبان عربی و ترکی میں گفتگو دو بدو کرے گا ۔ اے ٹٹوے طاقی مگسی ! دل میں سمجھ تو اس کا ایسا اسپ باد رفتار عنان دست سے نکل جائے تو اُس کی آنکھوں میں کیوں کر نہ پھلواری کا سبزہ خار نظر آئے ۔ ہائے اس چال کا گھوڑا نقرے کی تول کا پھر کہاں سے میرے ہاتھ چڑھے گا ، جو عیال و اطفال کو تا زیست خوراک مشکی کھلاؤں گا:
اشعار
غرض اُس نفر کو سبھوں نے گدھا
اگاڑی پچھاڑی سے آ کر کہا
ولے خر کے پیٹے سے مہجور کب
سنا ہے کہ بنتا ہے گھوڑا عجب
_________
۷؀ نقل ہے کہ ایک خر نا ہموار گھوڑی پر سوار اور گھانس کا گٹھا اپنے سر پر رکھے ٹک ٹک کرتا چکا جاتا تھا ۔ اس صورت پر حماقت سے اُس خر کو دیکھ کر ایک شخص نے کہا " اے احمق مطلق ! تو اس گھوڑی رہوار برق رفتار پر سوار ہے مگر گھانس کا گٹھا اکٹھا تونے اپنے سر پر کیوں رکھا ہے : شعر
عجب تو بھی احمق ہے اور گاؤدی
کہ یہ گھانس گھوڑے پہ کیوں رکھ نہ لی"

یہ بات وہ کم ذات سن کر کہنے لگا " اے عزیز نا چیز ! میں احمق نہیں ہوں ، تو ہی احمق ہے ؛ ارے اُس گھوڑی گابھن پر ایک تو میں چڑھا تھا اور دوسرا گھانس کا گٹھا اُس پر لادتا تو
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 176

پیر زال نیک خصال ! بقول شمیم : شعر

تدبیر کوئی اب نہیں بن آتی ہے مجھ کو
وہ دیکھوں ہوں تقدیر جو دکھلاتی ہے مجھ کو

وہ دایۂ گراں مایہ کہنے لگی " اے عزیز بے تمیز ! تو ناحق اس قدر اس کی فکر کرتا ہے اور غم کھاتا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ میں غمخوار اس بیمار کو ایک رواز میں مسند صحت پر بٹھا دیتی ہوں۔" اس کلام کو سن کر وہ سادہ لوح کہنے لگا : "از ایں چپ بہتر، نیکی اور پوچھ پوچھ ! اے پیر زال نیک خصال ! مال و منال تو کیا چیز ہے، اگر میرا نقد جاں اس آرام جاں کے کام آئے تو ایک بار نثار کرنے کو حاضر ہوں۔" یہ سخن وہ پیر زن پر فن مسموع کتر کے کہنے لگی کہ " اے جوان نادان ! اگر تو نے مبلغ خطیر اس ماہ منیر کی تدبیر میں صرف کیے ہیں تو ایک پانسو روپے اور بھی خرچ کر۔ بقول اس کے "جی ہے تو جہان ہے۔" واللہ باللہ تیری شمع سب افراز جو ایک روز میں محفل صحت پر نہ جلوہ گر ہو تو گلگیر شمشیر سے میرا س کاٹ ڈالنا، کیونکہ میری بھی بیٹی کو یہی مرض ہو گیا تھا۔ غرض میں نے بھی تمام جہان کے ملا، سیانے، حکیم، طبیب چھانے، لیکن کسی سے میرا مطلب بر نہ آیا۔ آخر کار بہ قدرت کردگار ایک فقیر روشن ضمیر، سیاح بے پروا میری قسمت سے آوارد ہوا۔ اس بندۂ خدا نے میرے حال پر رحم کر کے ایک ٹوٹکا جادو کا پانسو روپے لگا کر ایسا بنا دیا کہ اس بیمار کا آزار بالکل دفع ہو گیا۔ سو وہ ٹوٹکا بیرا بیٹا اپنی جان و ایمان کے برابر رکھتا ہے۔ اگر تو پانسو روپے خرچ کرے تو ایک شب کی شب میں اس کو چوری سے لے آؤں اور تیری جورو کا آزار گراں بار دور کر کے پھر رہیں پہنچا دوں، مگر یہ بات پر کرامات کسی

صفحہ 177

پر ظاہر نہ ہو، کیونکہ میرا بیٹا ہایت بدمزاج ہے۔ جو اس حال محال سے آگاہ ہو جائےگا تو مجھ کو جیتا نہ چھوڑے گا ۔" یہ کلام فرحت انجام وہ ناکام سن کر اس پیر زال کذب مقال کے پؤں پر سر رکھ کر کہنے لگا "اس بات سے تو میری جاں بخشی کرے گی تو تمام عمر تیرے احسان گراں بار سے سر نہ اٹھاؤں گا۔ " اس کے جواب میں اس پیر زال کذب مقال نے کہا "کیا مضائقہ، لیکن اس ٹوٹکے کی یہ شرط ہے کہ تو اپنے سر پر اٹھا لا اور آپ ہی پہنچا دے، کیونکہ غیر جنس کو اس کو نہیں چھونا۔ آگے تو مختار ہے۔ " غرض اس پیر زال کذب مقال نے جو اس سے کہا، اس نے سب قبول بے عدول کیا۔ بقول شخصے " مرتا کیا نہ کرتا" القصہ وہ پیر زن پرفن اس الو کو دام فریب میں لاکے اپنے گھر میں آئی اور ایک جوان دلستان کو بلوا کر کہنے لگی کہ اے ہمایوں بخت، عنقا رخت تیرے طائر شہوت کے لیے ایک چڑیا سونے کی میں ناچیز لے آئی ہوں : شعر

شوق سے باز کو اڑایا کر
اور گھوڑے کو نت کدایا کر

وہ مثل مشہور ہے کہ " ہم شیر و ہم شکر" مگر ایک مٹکے میں بیٹھ کر تجھ کو چلنا پڑے گا۔" وہ جوان مستان مونچھوں کو تاؤ دے کر کہنے لگا "اے بڑی بی صاحب ! مٹکا تو کیا چیز ہے اپنی افسوں سازی سے تن ہم کو آبخورے میں بند کر کے لے چلو تو جانے کو حاضر ہیں : شعر
ہم نہیں ایسے جو ان باتوں سے ہٹ جاویں گے
اور اگر لڑنے کو چاہو گی تو کٹ جاویں گے

صفحہ 178

غرض وہ دلالۂ کاملہ اس جوان مستان کو گھر بٹھا کے پھر پھر اس جوان بدگمان کے پاس بلا وسواس آئی۔
بیان شب : اس عرصے میں جس وقت جادوگر سپہر نے دیو آفتاب کو سبوچۂ مغرب میں بند کیا اور عامل فلک نے مجمر کہکشاں پر اسپند انجم چھڑکنا شروع کیا، اس وقت وہ پیر زال افسوں ساز اس جوان سادہ لوح کو اپنے گھر کائی اور اس بد نظر کی نظر سے پنہاں اور پوشیدہ اس جوان مستان کو مٹکے میں بٹھا کے اس سادہ لوح سے یوں حرف زن ہوئی کہ لو میں صاحب ! یہی مٹکا ٹوٹکے کا ہے، اسے اپنے سر پر آہستہ آہستہ لے چلو۔ سادہ لوح بہ خوشی اس کے مٹکے نافرجام کو کو سر پر چڑھا کے گھر میں لایا، لیکن یہ سر نہ سمجھا کہ اس میں سراسر سر نگونی ہے۔ الحاصل اس پیر زن پرفن نے اس بیمار کو بہ لباس نفیس آراستہ و پیراستہ کیا اور عطر سے معطر کر کے ہار و پار چنگیر و پاندان رکھوا دیئے اور ہر چہار طرف اگر کی بتیاں بے پایاں روشن کردیں۔ اس کے بعد وہ پیر زن صاحب خانہ سے یوں کہنے لگی کہ لو میاں صاحب ! تم اس کوٹھڑی کے اندر نہ جانا کیوں کہ اس میں جان کا ضرر بے نہایت ہے۔ غرض وہ جوان بد گمان اپنی جورو سے نہایت تعشق رکھتا تھا، خیر "سنگ آمد سخت آمد " سمجھ کر کوٹھری کے در پر پلنگ بچھا کر بستر حماقت پر لیٹ گیا، اور آغوش دیوثی میں عروس حسرت کو لے کے سرگرم خواب غفلت ہوا اور ادھر اس جوان مستان نے فتیلہ کام دیو کا نکال کر چراغ بو الہوسی میں روشن کیا۔ غرض اس ابلیس پر تلبیس نے تمام رات حاضرات خاطر خواہ کی۔
بیان سحر: اور جس وقت شب کی پیرزادی کے سر پر سے

صفحہ 179

قمر کا شیخ سدو اترنے لگا اور شہید مرد مشرق کو مؤذن خروس نے مصلۂ شفق پر بانگ دے دے کر بلانے لگا، اس وقت اس پیر زن پرفن نے اپنا ٹوٹکا جادو کا پھر مٹکے میں بند کیا اور اس سادہ لوح سے کہا کہ لو صاحب ! اپنی بی بی کو دیکھو تو وہ آزار گراں بار کیا ہوگیا۔ یہ کاٹھ کا الو اپنی جورو کو صحیح سالم دیکھ کر مثؒ گل خنداں پیرہن میں پھولا نہ سمایا اور بستان بلبل بئ تأمل چہچہہ زن ہو کر یہ شعر مسرور کا زبان پر لایا : شعر

کیوں ہن وہ گل کی روشن باغ جہاں میں شاد ہو
خانماں برباد ہو کر جس کا پھر آباد ہو

یہ عالم اس فرحت دل عشرت کا وہ پیر زال بدخصال دیکھ کر کہنے لی کہ میں صاحب ! اس خؤشی پر فرحت میں صبح تو رخصت ہوئی جاتی ہے۔ خدا نخواستہ اگر نور کا تڑکا ہو جائے تو تم کو مٹکا لے چلنے سے خفت اور ندامت ہو گی اور مجھ بیوہ کا بیٹا چوکہ خآنے سے جو گھر آئے گا اور مٹکا نہ پائے گا تو میرے کاسۂ سر کو سنگ غضب سے توڑے گا۔ اب " الکریم اذا وعد وفا" کو بجا لایئےاور اس ٹوٹکے کو جہاں سے لائے ہو وہاں پہنچا دیجیئے تا ہماری تمہارہ عزت و حرمت میں فرق نہ آئے۔"
القصہ وہ پیر زن پرفن وہ مٹکا سحر پرفریب کا اس سادہ لوح کے سر پر رکھوا کر چلی۔ اتفاقاً اس نور ظہور کے وقت ایک حلوائی اپنی دکان کے نیچے کڑاہی دھو رہا تھا کہ یکایک اس حلوائی خؤش چشم کی نظر اس عزیز بے تمیز پر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک جوان خوش اسلوب، دل مرغوب پوشاک پہنے ہوئے سر پر مٹکا لیے سامنے چلا آتا ہے اور

صفحہ 180

اس کے پیچھے پیچھے ای ک پیر زال بد خصال لکڑی ہاتھ میں پکڑے سر لو ہلاتہ کھٹ کھٹ کرتی چلی آتی ہے۔
اس کیفیت عجیب و غریب کو وہ حلوائی دیکھ رہا تھا کہ یک بیک وہ شخص مٹکا سر پر لیے قریب آ پہچا، مگر اس جا پر کڑاہے وغیرہ کے دھونے سے وہاں کی زمین پھسلنا پتھر بن رہی تھی۔ اتفاقً اس سادہ لوح کا پاؤں جو لغزش میں آیا تو چاروں شانے چت گرا اور وہ مٹکا فریب جادو کا ٹوٹ گیا، مگر وہ جوان مستان جھٹ اپنے آپ کو جھاڑ پونچھ کر ہاتھ میں جوتی لیے اٹھ کھڑا ہوا، اور اس سادہ لوح کے گریبان میں ہاتھ ڈال کے کہنے لگا کہ او مسخرے ! راہ گیروں پر مٹکا دے مارتا ہے۔ وہ خدا نے خیر کی کہ کوئی ٹھیکرا مٹکے کا میرے سر پر نہ لگا ورنہ ابھی جوتیوں کے مارے تیرا سر گنجا کر ڈالتا۔ادھر تو وہ جوان مستان جوتی اس کے سامنے لیے اپنی کھری کھری کر رہا تھا، لیکن اس سادہ لوح سے کچھ بن نہ آتی تھی۔ جو بے کھٹکے جوتی پیزار لڑتا، اور ادھر وہ پیر زن پر فن اس جوان مستان کے اڑتلے میں پاپوش فریب سے پاؤں خاک ہو کر دامن کو پکڑے کہتی تھی میں مجھ کو تم نے ناحق چوٹی میں گرفتار کیا۔ یہ میرا مٹکا ہیرے پنے کے مول کا بازار رسوائی میں غارت کیا۔ میں صاحب ! میں خآنہ خراب جو اس مٹکے کو کبھی ہاتھ ہنہ لگاتی تھی تو میرا بیٹا مجھ کو کہتا تھا کہ "اری اس کو ہاتھ نہ لگا، نہیں تو تیری ٹانگیں چر سے سیر ڈالووں گا۔"
غرض یہ سادہ لوح ایک تو اس کی باتوں سے چونکتا تھا کہ جو اس کی جورو سے 1 ہو گیا تھا اور دوسرا اس بڑھیا کی زاری اور بے قراری سے روح قالب تن میں تنگ تھی۔
----------
1۔ یہاں سے ایک لفظ بر بنائے کثافت حذف کیا گیا ہے۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 171

دوسرا باب

بدکار عورتوں کے چوتروں میں

ایک عورت نے قید شوہر میں حیلہ بیماری سے بڑھیا ہاتھ جواں مجرد کو گھڑے میں فریب جادو سے سر شوہر پر طلب کیا اور آس سے ۔۔۔۔۔کرکے پھر بھیج دیا اور اُس کے شوہر نے کچھ دریافت نہ کیا

افسوں ازان فصیح شعار و جادو طرازانِ بلیغ گفتار کاغذ مکاید پر یوں تحریر و تسطیر کرتے ہیں کہ ایک جوان سن کر اپنی زنِ کم سخن کو اس طرح رکھتا تھا کہ گاھے زن عم سایہ اور پیر زن دایہ تک بھی اُس نیک اساس کے پاس نہ آئے دیتا، بقول تحشبی
اشعار
تحشبی زن فریب ھا دارد
خویشتن را ز قید او برھا ے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 172

مار زھر ست از سرو تادم
زن فریب ست از سر و تا پاے

لیکن شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے قول کو نہ سمجھا:

بیت
نہ ھر زن زنست و نہ ھر مرد مرد
خدا پنچ انگشت یکساں نہ کرد

غرض وہ نابکار اپنے معمول سے دروازے کو قفل کرکے ایک روز کہیں کو گیا تھا۔ اس کے بعد حسب اتفاق ایک نخود فروش آواز پُر خروش اس کوچے میں وارد ہوا۔ وہ گرفتار بلا اور مبتلائے جگا چنے والے کو بلانے در پر آئی اور ایک ایک کوڑی پٹ کی دراڑ سے باہر نکال کر وہ ہم بازوئے خورشید اور ہم ترازوئے ناھید اُس نخود فروش باہوش سے کہنے لگی کہ اے مرد دانا، ھرزہ گرد، زمانہ نورد! اس دمڑی کے چنے تول کر تو دہلیز کی راہ پھینک دے۔ یہ دانا زد ناچار اشد چن کر اُٹھا لے گی۔ اس عرصے میں وہ مردک اچانک آپہنچا اور اس نخود فروش کو در پر دیکھ کر آتش غضب سے جل بھن کر مثلِ گلخن بن گیا اور اُس قفل کو جھڑ سے کھول کر اپنی زن کم سخن سے کہنے لگا کہ اے خاتون بد طالع و اے پیرامون اوقات ضائع! یہ کون سی حرکت ناشائستہ تجھ سے وقوع میں آئی!: شعر
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 173

کہیں بھی عورتیں نیکوں کی آکر
کھڑی رہتی ہیں یوں سودے کو در پر

یہ سخن دل شکن وہ زن سن کر درجک دھن کا قفل سکوت کلیدِ زبان سے کھول کر یوں کہنے لگی کہ اے عزیز بے تمیز! تو عبث خفا ہوتا ہے۔ کہیں بھی کوئی بھلا آدمی اپنی جورو نیک خو کو قید حیات میں یوں مایوس اور محبوس رکھتا ہے۔ اور کوئی بڑی بوڑھی مجھ بے یاس کے پاس ہوتی تو خیر اجرائے کار بہر طور بند نہ رہتا اور اس کے سوا گھر کی ہستی دونی نظر آتی۔ اس کے جواب میں وہ جوان بے ایمان کہنے لگا کہ ہم کو زنان وفادار کا اعتبار نہیں ہے بقول تحشبی:

قطعہ
تحشبی زن سرشتہ مکر ست
پارسا سال و ماہ فکر کنند

گر بخواھد زن جفا کارہ
بر برید ھزار مکر کنند

اس کلام پر اتہام سے وہ زن کمال بدن ظن ہوئی اور یوں کہنے لگی کہ اے عزیز ناچیز! یہ گفتگو واھی ناحق کرتا ہے۔ حق یوں ہے کہ جو زنان مکار اور نسوان بدکار ہیں، وہ اپنے خاوندوں دانش مندوں کے ہوتے ہوئے برے فعل کرتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتا مگر اپنی وہ مثل ہے: "کر تو ڈر، نہ کر تو ڈر" بقول شخصے" شیر کھائے تو منہ لال، نہ کھائے تو منہ لال" یہ گفتگو وہ عربدہ جو، زشت خو سن کر بولا کہ وہ اور ہی نامرد ہوتے ہیں کہ جن کی زنوں کا کیا مقدور جو کسی سے چشم بد دور آنکھیں ملا سکیں اور خیال بد کا تو کیا ذکر ہے۔ یہ سخن وہ زن پرفن سن کر خاموش
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 174

ہوگئی مگر دل میں کہنے لگی کہ دیکھ تو مردوے تیری خبرداری اور شعور داری کس راہ سے نکالتی ہوں۔

القصہ بعد چند روز وہ شمع شب افروز بستر ناتوانی پر غلطیدہ ہوئی اور ایک باری بیماری درد جگر کی اظہار کی۔ ہر چند اُس جوان نے اطبائے حاذق اور حکمائے صادق کو اس علیل پُر تزویر کو دکھلایا، لیکن کسی سے اس مکار کا آزار تشخیص میں نہ آیا، مگر ایک حکیم فہیم نے اس سقیم بے حرارت اور الیم پُر فطرت کی نبض دیکھ کر بقول شمیم اس کے شوہر شکستہ کمر سے کہا: شعر

نہ مسیحا نہ فلاطوں کی دوا ہے مرغوب
ترے بیمار کو کیا جانیے کیا ہے مرغوب

قصہ مختصر جب اس کا شوہر بے پر دعا اور دوا جابجا کی کر چکا اور گلشن امید میں گل مقصد نسیم فرحت سے نہ کھلا تو بحالت یاس وہ بدقیاس یہ شعر زبان پر لایا: شعر

طبیب عشق را دکاں کدام است
علاج جان کند اور را چہ نام است

یہ گفتگو اس کی جورو سن کر کہنے لگی "اے جوان نادان! میری بیماری بے اختیاری کی تو نے بہت تدبیر بے نظیر کی، لیکن کسی سے شفائے کلی حاصل نہ ہوئی، خیر آنچہ گزشت گزشت، الہاضی لایذکر، مگر اے ناکام! ایک کام یہ بھی کرکہ یہ مجھ گرفتار اجل کو کسی دایہ کاملہ کو دکھلایا، کیوں کہ عورتوں کا معالجہ کچھ عورتوں سے خوب ہوتا ہے؛ بقول آنکھہ "الجنس مع الجنس" یہ کلام وہ نافرجام سن کر کہنے لگا" اے بی بی! کیا مضائقہ، مجھ کو ہر طرح تجھ رشک حور کی صحت منظور ہے۔
 
Top