آؤ‌ کہ ذکرِ میر کریں

سیما علی

لائبریرین
صاحب میں انتہائی ممنون ہوں گا اگر کوئی میر کی یہ غزل

پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

مکمل یہاں پوسٹ کردے، بہت بہت شکریہ۔

پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے

آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے

چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے

کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے

مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے

کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے

رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے

تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
زردی عشق سے ہے تن زار بد نمود
اب میں ہوں جیسے دیر کا بیمار بد نمود

بے برگی بے نوائی سے ہیں عشق میں نزار
پائیز دیدہ جیسے ہوں اشجار بد نمود

ہرچند خوب تجھ کو بنایا خدا نے لیک
اے ناز پیشہ کبر ہے بسیار بد نمود

ہیں خوشنما جو سہل مریں ہم ولے ترا
خونریزی میں ہماری ہے اصرار بد نمود

پوشیدہ رکھنا عشق کا اچھا تھا حیف میرؔ
سمجھا نہ میں کہ اس کا ہے اظہار بد نمود
 

یاسر شاہ

محفلین
کچھ موج_ ہوا پیچاں اے میر نظر آئی
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق_ مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
 

یاسر شاہ

محفلین
مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میر کی شب کو
مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو

ہوگا کسو دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
 

سیما علی

لائبریرین
آدمی کو ملک سے کیا نسبت
شان ارفع ہے میر انساں کی

کعبے سو بار وہ گیا تو کیا
جس نے یاں ایک دل میں راہ نہ کی
 

سیما علی

لائبریرین
آب حیات میں مولانا محمد حسین آزاد نے کیا خوب جملہ لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی دلی کی تاریخ پڑھنا چاہے تو وہ دیوان میر پڑھ لے ‘‘
میر کا زمانہ سیاسی زوال ، اقتصادی ، بدجالی ، معاشرتی افراتفری اور اخلاق انحطاط کا زمانہ تھا ۔ اسی لیے انہوں نے ان مخصوص حالات کو گویا اپنی غزلیات کے سانچے میں ڈھال دیا۔
اشعار ملاحظہ ہوں:
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

میر ؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھا میے دستار

مرثئے دل کے کئی کرکے دیئے لوگوں کو
شہر دلی میں سب پاس ہے نشانی اس کی
 

سیما علی

لائبریرین
ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
پر ہم سے تو تھے نہ کبھو منہ پر آئی بات
جانے نہ تجھ کو جو یہ تصنع تو اس سے کر
تس پر بھی تو چھپی نہیں رہتی بنائی بات
لگ کر تدرو رہ گئے دیوار باغ سے
رفتار کی جو تیری صبا نے چلائی بات
کہتے تھے اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے لیک
وہ آ گیا تو سامنے اس کے نہ آئی بات
اب تو ہوئے ہیں ہم بھی ترے ڈھب سے آشنا
واں تو نے کچھ کہا کہ ادھر ہم نے پائی بات
بلبل کے بولنے میں سب انداز ہیں مرے
پوشیدہ کب رہے ہے کسو کی اڑائی بات
بھڑکا تھا رات دیکھ کے وہ شعلہ خو مجھے
کچھ رو سیہ رقیب نے شاید لگائی بات
عالم سیاہ خانہ ہے کس کا کہ روز و شب
یہ شور ہے کہ دیتی نہیں کچھ سنائی بات
اک دن کہا تھا یہ کہ خموشی میں ہے وقار
سو مجھ سے ہی سخن نہیں میں جو بتائی بات
اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات
خط لکھتے لکھتے میر نے دفتر کیے رواں
افراط اشتیاق نے آخر بڑھائی بات!!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
اُردو کے صاحبِ طرز ادیب، انشا پرداز اور اُردو تذکروں کی تاریخ کی بے مثل کتاب،’’آبِ حیات‘‘ کے خالق، محمد حسین آزادؔ نے میر کے بارے میں کچھ یوں تحریر کیا ہے کہ’’ غرض ہر چند کہ تخلّص اُن کا میر تھا، مگر گنجفۂ سُخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ قدردانی نے ان کے کلام کو جواہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پُھولوں کی مہک بنا کر اُڑایا۔ ہندوستان میں یہ بات انہی کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافر غزلوں کو تحفے کے طور پر شہر سے شہر میں لے جاتے تھے۔‘‘
 
Top