میری ڈائری کا ایک ورق

سیما علی

لائبریرین
چڑیا کا بچہ جو ابھی ابھی گھونسلے سے نکلا ہے۔ ہنوز اڑنا نہیں جانتا اور ڈرتا ہے ۔ ماں کی متواتر اکساہٹ کے باوجود اسے اڑنے کی جرات نہیں ہوتی۔ رفتہ رفتہ اس میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ ایک دن اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کرکے اڑتا اور فضائے ناپیدا کنار میں غائب ہوجاتا ہے۔ پہلی ہچکچاہٹ اور بے بسی کے مقابلے میں اس کی یہ چستی اور آسمان پیمائی حیرت ناک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جونہی اس کی سوئی ہوئی خود شناسی جاگ اٹھی اور اسے اس حقیقت کا عرفان حاصل ہوگیا کہ "میں اڑنے والا پرند ہوں" اچانک قالب ہیجان کی ہر چیز اس سر نو جاندار بن گئی" بے طاقتی سے توانائی، غفلت سے بیداری، بے پر و بالی سے بلند پروازی اور موت سے زندگی کا پورا انقلاب چشم زدن کے اندر ہوگیا۔ غور کیجیے تو یہی ایک چشم زدن کا وقفہ زندگی کے پورے افسانے کا خلاصہ ہے"

(مولانا ابوالکلام آزاد، غبارِ خاطر)
 

سیما علی

لائبریرین
خوش کلامیاں قلمکاروں کی!

فیض احمد فیض نے مشتاق یوسفی سے پوچھا "آج کل کچھ لکھ رہے ہیں یا بنک کے کام سے فرصت نہیں ملتی؟ "یوسفی نے جواب دیا فرصت اور فراغت تو بہت ہے مگر کاہل ہوگیا ہوں۔ مطالعے کی عیاشیوں میں‌پڑ گیا ہوں اور جب کسی لکھنے والے کو پڑھنے میں زیادہ مزہ آنے لگے تو سمجھیے حرام خوری پر اتر آیا ہے۔ فیض خاموشی سے سنتے رہے پھر شفقت سے یوسفی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ بھئی ہم کسی کی غیبت نہیں‌سن سکتے۔ کسی سے کینہ رکھنا اچھا نہیں ہے اپنے آپ کو معاف کردیں۔

عطاء الحق قاسمی، روزن دیوار، کالم، روزنامہ جنگ۔
 

سیما علی

لائبریرین
دُنیائے اِسلام
کیا سُناتا ہے مجھے تُرک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیلؑ
خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
ہوگئی رُسوا زمانے میں کُلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبورِ نیاز
لے رہا ہے مے فروشانِ فرنگستاں سے پارس
وہ مئے سرکش حرارت جس کی ہے مِینا گداز
حکمتِ مغرب سے مِلّت کی یہ کیفیّت ہوئی
ٹُکڑے ٹُکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
ہوگیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہُو
مُضطرب ہے تُو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
گُفت رومیؔ “ہر بِناے کُہنہ کآباداں کنند”
می ندانی “اوّل آں بنیاد را ویراں کنند”
 

ماہی احمد

لائبریرین
خوش کلامیاں قلمکاروں کی!

فیض احمد فیض نے مشتاق یوسفی سے پوچھا "آج کل کچھ لکھ رہے ہیں یا بنک کے کام سے فرصت نہیں ملتی؟ "یوسفی نے جواب دیا فرصت اور فراغت تو بہت ہے مگر کاہل ہوگیا ہوں۔ مطالعے کی عیاشیوں میں‌پڑ گیا ہوں اور جب کسی لکھنے والے کو پڑھنے میں زیادہ مزہ آنے لگے تو سمجھیے حرام خوری پر اتر آیا ہے۔ فیض خاموشی سے سنتے رہے پھر شفقت سے یوسفی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ بھئی ہم کسی کی غیبت نہیں‌سن سکتے۔ کسی سے کینہ رکھنا اچھا نہیں ہے اپنے آپ کو معاف کردیں۔

عطاء الحق قاسمی، روزن دیوار، کالم، روزنامہ جنگ۔
بدترین دشمن اور بہترین دوست کو معاف کرنے سے بھی زیادہ مشکل کام۔۔۔اپنے آپ کو معاف کرنا!
 

سیما علی

لائبریرین
کی محمد ﷺ سے وفا تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز کیا لوح قلم تیرے ہیں

سیر ت النبی ﷺ کا تقاضہ ہے کہ اہل اسلام و اہل ایمان کیلئے اتباع رسول ﷺ ہما رے لئے بنیادی فرض ہے۔اہل ایمان کو تو حید و سنت کا دامن ہاتھ سے تھامتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے جو شرعئی احکامات ہما ری اُمت پر نازل فرما دئیے ہیں ہمیں اُن کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا نا چاہئے

’’ تمہا رے لئے حضور ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے‘‘ (القرآن)
 

سیما علی

لائبریرین
با ادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب
ایک بار حضرت بہلول داناؓ کسی نخلستان میں تشریف رکھتے تھے۔ ایک تاجر کا وہاں سے گذر ہوا۔۔۔۔۔۔۔وہ آپ کے پاس آیااور سلام کر کے مودب ہو کر سامنے بیٹھ گیا اور انتہائی ادب سے گذارش کی" حضور! تجارت کی کو نس ایسی جنس خریدوں جس میں بہت نفع ہو " حضرت بہلول دانا نے فرمایا " کا لا کپڑا لے لو"۔
تاجر نے شکریہ ادا کیا اور الٹے قدموں چلتا واپس چلا گیا اور جاکر اس نے علاقے میں دستیاب تمام سیاہ کپڑا خرید لیا ۔
کچھ دنوں بعد شہر کا بہت بڑا آدمی انتقال کر گیا ، ما تمی لبا س کے لئے سارا شہر سیاہ کپڑےکی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ، کپڑا سارا اس تاجر کے پاس ذخیرہ تھا اس نے منہ ما نگے داموں میں فروخت کیا اور اتنا منافع کمایا جتنا ساری زندگی نہ کما یا تھا اور بہت امیر کبیر ہو گیا۔
کچھ عرصے بعد وہ گھوڑے پر سوار کہیں سے گذر رہا تھا کہ اسے حضرت بہلول دانا نظر آئے ،اس نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے بولا " او دیوانے اب کی با ر کیا لوں ؟"
بہلول نے فرما یا " تر بوز لے لو"
وہ بھاگا بھاگا گیا اور ساری دولت سے پورے ملک سے تر بوز لئے ۔۔ ایک ہی ہفتے میں سب خراب ہو گئے اور وہ کوڑی کو ڑی کا محتاج ہو گیا اسی خستہ حالی میں گھومتے پھرتے اس کی ملا قات بہلول سے ہو گئی تو اس نے کہا " یہ آپ نے میرے ساتھ کیا کیا ؟
"حضرت بہول دانا نے فرما یا " میں نے نہیں تیرے لہجے اور الفاظ نے سب کیا ، جب تو نے ادب سے پو چھا تو مالا مال ہو گیا اور جب گستاخی کی تو کنگال ہو گیا !!!!! " اسی لئے تو کہتے ہیں ، با ادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب !!
 

سین خے

محفلین
امام علی (ع): لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں: وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں جانتا ہوں۔ ایسا شخص حقیقتاً عالم ہے لہذا اس سے سوال کرو؛ وہ شخص جو نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہے کہ میں نہیں جانتا ہوں راہ ہدایت کا طالب ہے لہذا اسکی ہدایت کرو، وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہوں ، ایسا شخص جاہل ہے اسے چھوڑ دو، اور وہ شخص جو جانتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ میں جانتا ہوں یہ سویا ہوا اہے لہذا سے بیدار کرو۔
امام صادق(ع): لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں: وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ بھی جاتاہی کہ میں جانتا ہوں پس یہ شخص عالم ہے لہذا اس سے علم حاصل کرو؛ وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ میں جانتاہوں یہ سویا ہوا ہے اسے بیدار کرو، وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ جانتاہے کہ نہیں جانتا ہوں ایسا شخص جاہل ہے اسے تعلیم دو، اور وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہوں یہ احمق ہے اس سے اجتناب کرو۔
تیسری فصل جاہلوں کے اقسام
 

سین خے

محفلین
جاہل کون ہوتا ہے اورجاہل انسان کی پہچان !

حضرت امام علی علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے جاہل کے بارے میں فرمایا کہ :جاہل وہ ہوتا ہے جو معرفتِ علم سے بے خبر ہونے کے باوجود خود کو عالم سمجھے اور صرف اپنی ہی رائے کو کافی سمجھے اس طرح وہ ہمیشہ علماء سے دور رہتا ہے اور انکی عیب جوئی کرتا ہے اور جو اسکی بات کو نہ مانے اسے غلطی پر جانتا ہے حالات و واقعات سے بے خبر لوگوں کو گمراہ کرتا رہتا ہے جب اس (جاہل)کے پاس کوئی ایسی بات آجائے جسے وہ نہیں جانتا ہو تو اس کا انکار کردیتا ہے اسے جھٹلاتا ہے اور اپنی جہالت کی بناپر کہتا ہے کہ چونکہ میں اسے نہیں جانتا اس لئے ایسی بات نہ ہے نہ ہوسکتی ہے اور ایسا کس طرح ہوسکتا ہے جبکہ میں اسے نہیں جانتا اس لئے کہ وہ اپنی رائے کو ہی پختہ سمجھتا ہے اور اپنی جہالت سے بھی کم واقف ہوتا ہے ۔وہ ہمیشہ اپنی جہالت کی وجہ سے مشتبہ رائے کوہی مفید سمجھتا ہے حق کا انکار کرتا ہے لجاجت اور ضد کیوجہ سے جری بنا رہتا ہے اور طلبِ علم میں تکبر کا اظہار کرتا ہے ۔

الإمام عليّ عليه السّلام ۔ في وَصِيَّتِهِ لِابنِهِ الحَسَنِ عليه السّلام ۔ : إنَّ الجاهِلَ مَن عَدَّ نَفسَهُ بِما جَهِلَ مِن مَعرِفَةِ العِلمِ عالِمًا وبِرَأيِهِ مُكتَفِيًا ، فَما يَزالُ لِلعُلَماءِ مُباعِدًا وعَلَيهِم زارِيًا ، ولِمَن خالَفَهُ مُخَطِّئًا ، ولِما لَم يَعرِف مِنَ الاُمورِ مُضَلِّلًا ، فَإِذا وَرَدَ عَلَيهِ مِنَ الاُمورِ ما لَم يَعرِفهُ أنكَرَهُ وكَذَّبَ بِهِ وقالَ بِجَهالَتِهِ : ما أعرِفُ هذا ، وما أراهُ كانَ ، وما أظُنُّ أن يَكونَ ، وأنّى كانَ ؟ وذلِكَ لِثِقَتِهِ بِرَأيِهِ وقِلَّةِ مَعرِفَتِهِ بِجَهالَتِهِ .
فَما يَنفَكُّ بِما يَرى مِمّا يَلتَبِسُ عَلَيهِ رَأيُهُ مِمّا لا يَعرِفُ لِلجَهلِ مُستَفيدًا ، ولِلحَقِّ مُنكِرًا ، وفِي الجَهالَةِ مُتَحَيِّرًا ، وعَن طَلَبِ العِلمِ مُستَكبِرًا

تحف العقول:ص73:بحارالانوار:ج77:ص203:میزان الحکمۃ:ج1:ص464:
العقل والجهل في الكتاب والسنة - محمد الريشهري - الصفحة ٢١٩
نقلًا عن كتاب الرسائل للكليني ، وفيه «وفي اللجاجة متجرّيًا» بدل «وفي الجهالة متحيّرًا
 

سیما علی

لائبریرین
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : مَنِ استَقصى على صَدِيقِهِ انقَطَعَت مَوَدَّتُهُ .

حضرت امام علی(علیه السلام) نے فرمایا: جو شخص اپنے دوست پر زیاده اعتراض کرے تو اس کی دوستی کا سلسله ختم هوجاتا هے.
 

سیما علی

لائبریرین
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : لَو يَعلَمُ المُصَلِّي ما يَغشاهُ مِن جَلالِ اللّه‏ِ ما سَرَّهُ أن يَرفَعَ رَأسَهُ مِن سُجودِهِ .

امام (علیه السلام) نے فرمایا: اگر نمازی کو معلوم هوجائے که اس پر رحمت الهی کس قدر سایه فگن هے تووه سجده سے سر نهیں اٹهائے گا.
 

سیما علی

لائبریرین
الإمامُ عليٌّ (عَلَيهِ الّسَلامُ) : لِيَخشَعِ الرَّجُلُ في صلاتِهِ؛ فإنّه مَن خَشَعَ قَلبُهُ للّه‏ِِ عَزَّوجلَّ خَشَعَت جَوارِحُهُ فلا يَعبَثُ بِشَيءٍ .

امام علی (علیه السلام) نے فرمایا: انسان کو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنا چاهئے کیونکه جس شخص کے دل میں الله کا خوف پیدا هوتا هے اس کے اعضا و جوارح اس سے ڈرتے هیں اور پھر وه کسی چیز میں مشغول نهیں هوتے
 

سیما علی

لائبریرین
علامہ شبلی نعمانی رحمة الله علیہ پروفیسر آرنلڈ کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” ہم عدن کی طرف سفر کر رہے تھے۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا ” جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے “ میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہو گیا تھا اور جہاز نہایت آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے ، اس اضطراب میں ، میں او رکیا کر سکتا تھا ، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ”ہاں“ انجن ٹوٹ گیا ہے ، میں نے کہا ” آپ کو کچھ اضطراب نہیں، بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟“ فرمایا:” اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے ، ایسے قابل قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے “ ان کے استقلال سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا۔“ ( متاع وقت اور کاروان علم)
 

سیما علی

لائبریرین
علامہ شبلی نعمانی اور مولانا عبدالسلام ندوی کے مابین استاذ شاگرد کا رشتہ تھا ، اس کے علاوہ دونوں حضرات ایک دوسرے سے بے حد قریب بھی تھے۔ ان کی قربت اور ان کے مابین رشتوں کا علم دونوں کے درمیان ہوئی خط و کتابت سے ہوتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے مولانا کے نام آٹھ (۸) خطوط لکھے ۔ ان خطوط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کا رویہ مولانا کے تئیں کس قسم کا تھا۔ دونوں کے درمیان تعلقات کیسے تھے۔ مولانا عبدالسلام ندوی علامہ شبلی نعمانی کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور علامہ ان کو عزیز رکھتے تھے اور مختلف امور پر ان سے بھی رابطہ اور مشورہ کرتے تھے۔علامہ ان کو نصیحتیں بھی کرتے اور حسب ضرورت تنبیہ بھی کرتے تھے۔علامہ شبلی نعمانی مولانا عبدالسلام ندوی پر بھروسہ بھی کرتے اور ان کی علمی استعدادکے معترف اور قدرداں بھی تھے۔

مکاتیب شبلی حصہ دوم میں مولانا عبدالسلام ندوی کے نام پانچویں خط میں لکھتے ہیں کہ ’’ تم جاتے ہو تو رسالے کا کیا حشر ہوگا‘‘۔ یہ خط الٰہ آباد سے 3؍مارچ 1914 کو لکھا گیا تھا۔ اس خط میں اُس رسالے کا ذکر ہے جس کو علامہ شبلی مولانا عبدالسلام ندوی کے ساتھ جاری کرنا چاہتے تھے لیکن مولانا عبدالسلام ندوی ’’الہلال‘‘ میں جانا چاہتے تھے۔ اسی لیے علامہ شبلی نے ان کو لکھا کہ تمھارے بغیر رسالے کا کیا حشر ہوگا۔ پھر اسی خط میں آگے لکھتے ہیں : ’’تم الہلال میں جاؤ مضائقہ نہیں لیکن یہ شرط کر لو کہ تم الہلال میں جذب نہ ہو جاؤ یعنی جو لکھو اپنے نام سے لکھو ورنہ تمھاری زندگی پر بالکل پردہ پڑ جائے گا اور آئندہ ترقیوں کے لیے مضر ہوگا۔‘‘ (مکاتیب شبلی، حصہ دوم،مطبع معارف اعظم گڑھ،1971، ص:152) مذکورہ بالا خط کے ان جملوں سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ شبلی مولانا عبدالسلام ندوی کو کس قدر عزیز رکھتے تھے ۔ انھیں اس بات کا دکھ تھا کہ وہ علامہ شبلی کو چھوڑ کر مولانا آزاد کے الہلال میں کام کرنے جانا چاہتے ہیں۔ علامہ شبلی انھیں تنبیہ کرتے ہیں کہ اگر الہلال میں جانا ہی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن وہاں جو کچھ لکھیں اپنے نام سے لکھیں۔ علامہ کی جانب سے یہ نصیحت اور تنبیہ دونوں تھی اور اس قسم کی نصیحت اور تنبیہ کسی خاص کو ہی دی جاسکتی ہے۔

علامہ شبلی نعمانی مولانا عبدالسلام ندوی کو علمی کاموں میں مشورہ بھی دیتے تھے۔ اس کی ایک مثال ان کے ایک دوسرے خط میں ملتی ہے۔ یہ خط الٰہ آباد سے 29؍فروری1914 کو لکھا گیا تھا: ’’مولوی عبدالسلام! تم بھولے کیوں بن جاتے ہو تم خود اگر قرآن مجید پر کوئی کتاب لکھتے تو کن عنوانوں کو لیتے ۔ انھیں شروع کرو پھر میں بتاتا بھی جاؤں گا۔ سردست چند حسب ذیل ہیں

1۔ زبان کی تہذیب، غیر قابل اظہار چیزوں کو دوسری طرح سے ادا کرنا مثلاً لامستم النساء اذا جاء احد منکم من الغائط

2۔ احکام تورات کے خلاف احکام

3۔ تاریخی ترتیب قرآن۔ سورتوں کی تعیین تو آسان ہے۔ اتقان میں بھی مذکور ہے لیکن صحاح ستہ سے مستنبط کرنا چاہیے پھر مہما امکن آیتوں کی ترتیب

4۔ مدنی ومکی سورتوں کی خصوصیات امتیازی (مکاتیب شبلی، حصہ دوم، ص: ۱۵۱)

علامہ شبلی نعمانی اور عبدالسلام ندوی ۔سلمان فیصل | مکالمہ
 

سیما علی

لائبریرین
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

گویا اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ محبت اس وقت تک سچی قرار نہیں پاتی جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہر معاملے میں نہ کرے ۔کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کی محبت اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتی جب تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع نہ کرے اور یہی اصل محبت کا تقاضا ہے۔ بات سمجھنے کی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت لازمی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کی جائے اور اپنی تمام زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔
اصل محبت تو یہی ہے اور انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی اطاعت کرتا ہے، اس کی فرمابرداری کرتا ہے، اس کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسند بنا لیتا ہے، اپنے محبوب کو جیسا کرتے پایا خاموشی سے ویسا ہی کرتے چلے جانا اُسے اپنے محبوب کی رضا مطلوب ہوتی ہے اور وہ اس کی ناراضگی سے بچتا ہے اور ہر وقت ہر محفل میں اپنے محبوب کا تذکرہ کرنا اسے اچھا لگتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کے ذکر میں راحت محسوس ہوتی ہے۔ محبت کا ایک اور تقاضا یہ بھی ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے تو اس میں اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور یقیناکرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا تعلق یہ تقاضے پورے کرتا ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہماری طرز زندگی ہے؟ کیا ہمارے عشق کی گواہی ہمارا عمل فراہم کر رہا ہے؟ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعوے دار تو ہیں، تو کیا ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں؟ کیا ہماری طرز زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق ہے؟ کیا ہمارے لبوں پر ہر وقت اللہ اور اس کے محبوب کا ذکر رہتا ہے؟
لیکن جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے ؟یہاں تو یہ عالم ہے کہ جب ربیع الاول آتا ہے تو 12 دن ہم اسے خوب جوش و خروش اور عقیدت سے مناتے ہیں لیکن اس کے بعد کسی کو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یا اس پر عمل کرنا یاد نہیں رہتا،ہمارے اعمال نہیں بدلتے، ہماری زندگیاں نہیں بدلتیں، ہمارے روزوشب نہیں بدلتے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نے دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اپنے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اپنے رب کو ہم تب ہی راضی کر سکتے ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کریں۔ اِسی صورت میںہمیں اللہ کی رضا حاصل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا حبیب بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سب سے اعلیٰ مقام دیا جو کسی نبی کو نہیں ملا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کو اپنے کلمے کا حصہ بنایا" لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ"۔
اور اس طرح قیامت تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اکھٹا رہے گا ۔اللہ تعالیٰ کی توحید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ساتھ پہچانی جاتی ہے اور قیامت تک پہچانی جائے گی ورنہ پہچان ادھوری ہے اور ہمارا ایمان ہی اسی کلمہ شہادت سے پورا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔ ہم اپنے رب کا قرب تب ہی حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بن جائیں۔ اللہ کا حکم ہے کہ اگر میرا بننا ہے تو میرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقوں پر آنا پڑے گا۔ اپنے اللہ کو راضی کرنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنی ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا۔ اصل محبت کا تقاضا یہی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کو سیکھ کر اور اس پر عمل کرکے ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اپنی ساری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال دینا ہی اصل محبت ہے۔ اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کے دعوے دار ہیں تو ہمیں اپنے قول و فعل سے اور اپنے عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا ۔یہی اصل حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ہم محمدی نظر آئیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق نظر آئیں اور زندگی کے ہر قدم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصل محبت کا تقاضا ہے۔ ہم اپنی تمام تر زندگی میں بغیر کسی حیل و حجت کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی محبوبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہے۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ جا نگزیر فرما دے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔کی سوچ اور فکر کو بھی آگے پہنچایا جاتا ہے اور اپنے محبوب کے مشن کو آگے پھیلانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے اور یہی تمام چیزیں ہمیں صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے ملتی ہیں اور جس کی بے شمار مثالیں ہمیں مختلف کتابوں میں ملتی ہیں ۔
میں اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور یقیناکرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا تعلق یہ تقاضے پورے کرتا ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہماری طرز زندگی ہے؟ کیا ہمارے عشق کی گواہی ہمارا عمل فراہم کر رہا ہے؟ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعوے دار تو ہیں، تو کیا ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں؟ کیا ہماری طرز زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق ہے؟ کیا ہمارے لبوں پر ہر وقت اللہ اور اس کے محبوب کا ذکر رہتا ہے؟
لیکن جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے ؟یہاں تو یہ عالم ہے کہ جب ربیع الاول آتا ہے تو 12 دن ہم اسے خوب جوش و خروش اور عقیدت سے مناتے ہیں لیکن اس کے بعد کسی کو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یا اس پر عمل کرنا یاد نہیں رہتا،ہمارے اعمال نہیں بدلتے، ہماری زندگیاں نہیں بدلتیں، ہمارے روزوشب نہیں بدلتے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نے دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اپنے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اپنے رب کو ہم تب ہی راضی کر سکتے ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کریں۔ اِسی صورت میںہمیں اللہ کی رضا حاصل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا حبیب بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سب سے اعلیٰ مقام دیا جو کسی نبی کو نہیں ملا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کو اپنے کلمے کا حصہ بنایا" لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ"۔
اور اس طرح قیامت تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اکھٹا رہے گا ۔اللہ تعالیٰ کی توحید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ساتھ پہچانی جاتی ہے اور قیامت تک پہچانی جائے گی ورنہ پہچان ادھوری ہے اور ہمارا ایمان ہی اسی کلمہ شہادت سے پورا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔ ہم اپنے رب کا قرب تب ہی حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بن جائیں۔ اللہ کا حکم ہے کہ اگر میرا بننا ہے تو میرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقوں پر آنا پڑے گا۔ اپنے اللہ کو راضی کرنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنی ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا۔ اصل محبت کا تقاضا یہی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کو سیکھ کر اور اس پر عمل کرکے ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اپنی ساری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال دینا ہی اصل محبت ہے۔ اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کے دعوے دار ہیں تو ہمیں اپنے قول و فعل سے اور اپنے عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا ۔یہی اصل حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ہم محمدی نظر آئیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق نظر آئیں اور زندگی کے ہر قدم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصل محبت کا تقاضا ہے۔ ہم اپنی تمام تر زندگی میں بغیر کسی حیل و حجت کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی محبوبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہے۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ جا نگزیر فرما دے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

حب رسول ﷺ ، تقاضے کیا ہیں ؟
 

سیما علی

لائبریرین
مشتاق احمد یوسفی صاحب کے قلم سے نکلے شاہکار الفاظ دیکھئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یادش بخیر! میں نے 1945 میں جب قبلہ کو پہلے پہل دیکھا تو ان کا حلیہ ایسا ہو گیا تھا جیسا اب میرا ہے۔ لیکن ذکر ہمارے یار طرح دار بشارت علی فاروقی کے خسر کا ہے، لہٰذا تعارف کچھ انہی کی زبان سے اچھا معلوم ہو گا۔ ہم نے بارہا سنا، آپ بھی سُنیے۔

”وہ ہمیشہ سے میرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے۔ جس زمانے میں میرے خسر نہیں بنے تھے تو پھوپا ہوا کرتے تھے۔ اور پھوپا بننے سے پہلے میں انہیں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھی یقیناً وہ کچھ اور لگتے ہوں گے مگر اس وقت میں نے بولنا شروع نہیں کیا تھا۔ ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور میں رشتے ناتے ابلی ہوئی سویوں کی طرح الجھے اور پیچ در پیچ گتھے ہوتے ہیں۔ ایسا جلالی، ایسا مغلوب الغضب آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا تو میری عمر آدھی ادھر، آدھی ادھر، چالیس کے لگ بھگ تو ہو گی۔ لیکن صاحب! جیسی دہشت ان کی آنکھیں دیکھ کر چھٹپن میں ہوتی تھی، ویسی ہی نہ صرف ان کے آخری دم تک رہی، بلکہ میرے آخری دم تک بھی رہےگی۔ بڑی بڑی آنکھیں اپنے ساکٹ سے نکلی پڑتی تھیں۔ لال سرخ۔ ایسی ویسی؟ بالکل خون کبوتر! لگتا تھا بڑی بڑی پتلیوں کے گرد لال ڈوروں سے ابھی خون کے فوارے چھوٹنے لگیں گے اور میرا منہ خونم خون ہو جائے گا۔ ہر وقت غصے میں بھرے رہتے تھے۔ جانے کیوں۔ گالی ان کا تکیۂ کلام تھی۔ اور جو رنگ تقریر کا تھا وہی تحریر کا۔ رکھ ہاتھ نکلتا ہے دھواں مغز قلم سے۔ ظاہر ہے کچھ ایسے لوگوں سے بھی پالا پڑتا تھا جنہیں بوجوہ گالی نہیں دے سکتے تھے۔ ایسے موقعوں پر زبان سے تو کچھ نہ کہتے لیکن چہرے پر ایسا ایکسپریشن لاتے کہ قد آدم گالی نظر آتے۔ کس کی شامت آئی تھی کہ ان کی کسی بھی رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو در کنار، اگر کوئی شخص محض ڈر کے مارے ان کی رائے سے اتفاق کر لیتا تو فوراً اپنی رائے تبدیل کر کے الٹے اس کے سر ہو جاتے۔ ”
 

سیما علی

لائبریرین
مشتاق احمد یوسفی کی پہلی کتاب چراغ تلے1961میں منظرعام پر آئی۔ اس کتاب سے ایک اقتباس پیش ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سن پیدائش اس طرح بتاتے ہیں:
“یہ غریب الدیار عہد نا آشنائےعصر بیگانہ خویش نمک پرودہ ریش خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد مد عو بابی الکلام 1888ء مطابق ذوالجحہ 1305ھ میں ہستی عدم سے اس عدم ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے مہتم۔

اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔

(اسی طرح نو طرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے:

“جب ماہتاب عمر میرے کا بدرجہ چہار دو سالگی کے پہنچا روز روشن ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شب یلدہ سے ہوا یعنی پیمانہ عمر و زندگانی مادر و پدر بزرگوار حظوظ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دست قضا سے دہلا۔

کہنا صرف یہ چاہتے تھے کہ جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔ لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہو گیا)۔
 

سیما علی

لائبریرین
علی پور کا ایلی، چند اقتباسات

صفحہ 584
ایلی کو ابھی تک یہ علم نہ تھا کہ عشق میں ازلی طور پر خود کشی کا عنصر ہوتا ہے۔ عشق بذات ِخود عاشق کو محبوب کے وصال سے محروم کر دیتا ہے، اس علم نہ تھا کہ محبت محبوب کا حصہ ہے عاشق کا نہیں، اوراگر کسی کی محبت حاصل کرنا مقصود ہو تو اسے محبوب بننے کی کوشش کرنا چاہیے نہ کہ عاشق اور بے نیازی محبوب کی بنیادی خصوصیت ہے۔


صفحہ 891
شرارت وہ لوگ کرتے ہیں جن پر شبہ نہ کیا جاسکے یا جن کا اعمال نامہ صاف ہو اوران پر حرف نہ آسکے۔ بدنام آدمی تو اپنا جائز تحفظ بھی نہیں کر سکتا، وہ تو کانچ کے گلاس کی طرح ہوتا ہے، ذرا ضرب لگی اورٹوٹ گیا۔
جھوٹ سچ۔ ایلی نے زندگی میں نئی بات سیکھی تھی، وہ سچ کے ذریعے جھوٹ بولتا تھا، اس نے تجربے کے زور پر اس حقیقت کو پا لیا تھا کہ سچی بات کہہ دی جائے تو سننے والا حیران رہ جاتا ہے، اس کے دل میں نفرت کے بجائے دلچسپی اور ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے اور کبھی کبھی احترام بھی۔ اس کے علاوہ کہنے والے کے دل پر بوجھ نہیں رہتا اور بات کہہ دی جائے تو وہ پھوڑا نہیں بنتی، اس میں پیپ نہیں پڑتی، اکثر اوقات لوگ سمجھتے ہیں کہ مذاق کر رہا ہے کہ انہیں یقین ہی نہیں آتا۔


صفحہ 894
ایلی جذباتی طور پر ڈرا ہوا بچہ تھا اور ذہنی طور پر ایک نڈر مفکر

صفحہ 1010
شادی کے متعلق ایلی اب سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کا قائل نہ رہا تھا۔ زندگی میں بہت سی باتیں جو اس نے سوچ سمجھ کر کی تھیں، ان کا انجام اچھا نہ ہوا تھا۔ عورت کے متعلق تو اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ چاند کی طرح ایک مخصوص پہلو آپ کے سامنے پیش کرتی ہے، اورعورت کے کئی ایک پہلو ہیں، متبسم پہلو، متذبذب پہلو، 'مجھے کیا' پہلو۔
ایلی سمجھنے لگا تھا کہ شادی ایک جوا ہے چاہے آنکھیں پھاڑ کر کھیلو یا آنکھیں بند کر کے۔

صفحہ 1018
اس روز ایلی نے محسوس کیا کہ وہ مسلمان تھا۔ سیاسی خیالات کا سوال نہ تھا، مسلم لیگی اور کانگرسی کا سوال نہ تھا، یہ سوال نہ تھا کہ آیا وہ اسلام سے واقف ہے؟ آیا وہ شریعت کا پابند ہے؟ یہ سوال نہ تھا کہ آیا رام دین سا مسلمان ہے یا محمدعلی سا۔
سوال صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان ہے یا ہندو۔ ایلی نے محسوس کیا کہ وہ مسلمان ہی نہیں، بذات ِخود پاکستان ہے چاہے وہ پاکستان کے حق میں تھا یا خلاف۔ چاہے وہ اسلام سے بیگانہ تھا، چاہے وہ مذہبی تعصب سے بےنیاز تھا، وہ بذات ِخود پاکستان تھا۔ اس کے دل میں کوئی چلا رہا تھا۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد
 

سیما علی

لائبریرین
صنعتی و سماجی ترقی اور موجودہ حالات کی روش نے ترقی و اخلاقیات کے معانی ہی بدل کر رکھ دیے ہیں۔اخلاقیات کے نئے معیار جو قائم ہوئے ہیں۔ ان پر یقینا اشرافیہ کو اعتراض ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص اسی ہوا میں ہے کہ تمام شہر جلے میرا گھر نہ جلے۔ موجودہ طرز معاشرت نے جس طرح لوگوں کو اکائیوں میں بکھیر کر رکھ دیا ہے اور ہر شخص کو ایک ہجوم میں تنہا کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے اب ایسےمیں کوئی روایت پسند کوئی رکھ رکھاؤ رکھنے والا کسی اور سیارے کی مخلوق معلوم ہونے لگتا ہے۔ الغرض سہولیات تو شاید ترقی پر ہیں لیکن باقی تمام مدارج جو انسان کو انسان بنانے میں معاون ہوتے ہیں تنزلی و ابتری کا شکار ہیں۔
 
Top