غیر اللہ سے مدد مانگنا

فہد مقصود

محفلین
غیر اللہ سے مدد مانگنا
نوٹ: اس تحریر کا یہ ربط ہے۔ فورم کے قوانین کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور دل آزاری اور سختی سے بچنے کے لئے کہیں کہیں تبدیلی کی گئی ہے۔ نیز چند احادیث حوالاجات سمیت شامل کی گئی ہیں۔ اس تحریر کے علاوہ مزید تحاریر بھی شامل کی جائیں گی۔


الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ و علی آلہ و أصحابہ ومن اھتدی بھداہ ، أما بعد:


صحیفۃ (المجتمع الکوتیہ) نے شمارہ نمبر ۱۵ بتاریخ ۱۹/۴ ۔۱۳۹۰ھ بعنوان ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار میں کچھ اشعار نشر کئے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگنے اور آپ سے امت کی حفاظت، ان کی نصرت و حمایت اور ان کوباہمی پھوٹ و اختلاف سے چھٹکارا دلانے کے مطالبہ پر مشتمل تھے اور جو آمنہ نامی خاتون کی دستخط کے ساتھ تھے، اس مضمون کے چند اشعار ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں:
یا رسول اللہ أدرک عالماً یشعل الحرب و یصلی من لظاھا
یارسول اللہ أدرک أمۃ فی ظلام الشک قد طال سراھا
یا رسول اللہ أدرک أمۃ فی متاھات الأسی ضاعت رؤاھا

'' اے اللہ کے رسول اس دنیا کی مدد کیجئے جو جنگ کی آگ بھڑکارہی ہے اور جو اسے بھڑکائے اسے اس میں جھلس دے رہی ہے۔
اے اللہ کے رسول اس امت کی مدد کیجئے جس کی رات کاسفر شک کی تاریکیوں میں لمبا ہوگیا ۔
یارسول اللہ اس امت کی مدد کیجئے جس کی خوشحالی رنج و غم کی پرشاں خیالیوں میں ضائع ہوگئی''۔

پھر آخر میں اس نے کہا:

یارسول اللہ أدرک أمۃ فی ظلام الشک قد طال سراھا
عجل النصر کما عجلتہ یوم بدر حنین نادیت الإلہ
فاستحال الذل نصرأ رائعاً أن للہ جنوداً لاتراھا

''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کی مددکیجئے جس کی رات کاسفر شک کی تاریکیوں میں لمبا ہوگیا ۔
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ جلد از جلد مدد کیجئے جیسا کہ آپ نے غزؤہ بدر کے دن مدد کی تھی جب آپ نے اللہ کوپکارا تھا ''۔
تو ذلت و خواری شاندار فتح میں تبدیل ہوگئی کیونکہ اللہ کا لشکر ایسے ہیں جنہیں تودیکھ نہیں سکتا۔

(اللہ اکبر) یہ شاعرہ اس انداز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی پکار اور فریاد پیش کرتی ہے اور آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ جلد از جلد امت کی مدد فرما کر اس کا تحفظ فرمائیں اور اس بات کو ذہن سے اوجھل کردیتی ہے کہ مدد صرف ایک اللہ کے ہاتھ میں ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی مخلوق کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔

جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی مبین میں فرمایا :

وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۝۱۲۶ۙ
'' اور مدد تواللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والاہے''۔ سورۃ آل عمران، 126

اور اللہ عزوجل نے فرمایا :

اِنۡ یَّنۡصُرۡکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ یَّخۡذُلۡکُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۶۰﴾

اگر اللہ تعالٰی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ایمان والوں کو اللہ تعالٰی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ (سورۃ آل عمران، 160)

کتاب و سنت کے دلائل اور اجماع امت سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مخلوق کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور اسی عبادت کی توضیح و تشریح اور اس کی جانب دعوت دینے کے لئے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور کتابیں نازل کیں ۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا :

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶
'' میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ''۔ سورۃ الذاریات، 56


اور اللہ تعالی نے فرمایا :

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِىْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّ۔ٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۖ
'' ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (لوگو)صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں کی عبادت سے بچو''۔ سورة النحل، 36


نیز اللہ تعالی نے فرمایا :

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵
'' تجھ سے پہلے جو بھی رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، پس تم سب میری ہی عبادت کرو''(الانبیاء :۲۵)

نیز اللہ عزوجل نے فرمایا :

ال۔رٰ ۚ كِتَابٌ اُحْكِمَتْ اٰيَاتُهٝ ثُ۔مَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّ۔دُنْ حَكِ۔يْ۔مٍ خَبِيْ۔رٍ (1) اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّا اللّ۔ٰهَ ۚ اِنَّنِىْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْ۔رٌ (2) سورۃ ھود

'' الر یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ، ایک حکیم باخبر کی طرف سے ، یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والاہوں''۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے مذکورہ بالا واضح آیات میں بیان فرما دیا ہے کہ اس نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدافرمایا ہے ، اور اس اللہ کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ہے، اس نے رسولوں کو اس عبادت کا ہی حکم دینے اور اس کے منافی امور سے منع کرنے کے لئے مبعوث فرمایا اور اللہ عزوجل نے یہ بھی بتلا دیا کہ اس نے قرآن کریم کی آیات کو واضح کھلا ہوا نازل فرمایا تاکہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔
عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کو ایک گردانا جائے اور اس کے حکموں کو بجالا کر اور منع کردہ چیزوں کو چھوڑ کر اس کی فرمانبرداری کی جائے، اللہ تعالی نے بہت سی آیات میں اس کاحکم دیا ہے ،چنانچہ ایک آیت کریمہ میں فرمایا :

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ
'' انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیاگیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے تمام ترباطل دینوں سے اجتناب کرکے۔ سورۃ البینۃ، آیت ۵


نیز فرمان الہی ہے :

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۔
'' اور پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم سب اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا''۔(الاسراء: ۲۳)

نیز فرمان الہی ہے :

اِنَّ۔آ اَنْزَلْنَ۔آ اِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّ۔ٰهَ مُخْلِصًا لَّ۔هُ الدِّيْنَ (2) اَلَا لِلّ۔ٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۚ سورۃ الزمر، آیت ۲، ۳

'' بے شک ہم نے یہ کتاب ٹھیک طور پر آپ کی طرف نازل کی ہے پس تو خالص اللہ ہی کی فرمانبرداری مدِ نظر رکھ کر اسی کی عبادت کر، خبردار اللہ تعالی ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے''۔

اس مفہوم کی آیات بہت زیادہ ہیں جو سب کی سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صرف ایک اللہ کے لئے عبادت کو خالص کرنا اور اس کے سوا انبیاء وغیرہ کی عبادت سے گریز کرناضروری ہے ، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دعا عبادت کی ایک اہم اور ہمہ گیر قسم ہے ، لہذا اس کاصرف ایک اللہ کے لئے خالص کرنا ضروری ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

فَادۡعُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ
''تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لئے دین کو خالص کرکے گو کافر برا مانیں ''۔ سورة مومن، 14

اور اللہ عزوجل نے فرمایا :

وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا

سورۃ الجن، 18
'' اور یہ مسجدیں صرف اللہ کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو''۔

یہ آیت کریمہ اللہ تعالی کے سوا تمام مخلوقات انبیاء وغیرہ کو پکارنے کی ممانعت کو شامل ہے، کیونکہ لفظ (احد)نکرہ نہی کے سیاق میں وارد ہوا ہے، لہذا یہ اللہ سبحانہ و تعالی کے علاوہ ہر چیز کو عام ہے ۔
ارشاد باری ہے :

وَ لَا تَدۡعُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ

''اور اللہ کوچھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تمہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی نقصان ''۔ سورۃ یونس، 106

یہ خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے اور یہ بات واضح ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو شرک سے محفوظ رکھا ہے ، تواس آیت کریمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرنے کامقصد دوسروں کو شرک سے ڈرانا ہے، پھر اللہ عزوجل نے اس آیت کے آخر میں فرمایا : ( فان فعلت فانک اذا من الظالمین )
'' اگر تونے (شرک ) کیاتو تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے ''۔ سورۃ یونس ، 106
اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنے پر ظالموں میں ہوجائیں گے توپھر اگر کوئی غیر اللہ کوپکارے تو اس کا کیاحال ہوگا؟
مذکورہ بالا اور دیگر آیات سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اللہ کے سوا مردوں ، درختوں ، بتوں وغیرہ کو پکارنا اللہ عزوجل کے ساتھ شرک اور عبادت کے اس عظیم مقصد کے منافی ہے جس کے لئے اللہ تعالی نے جن و انس کو پیدا فرمایا اور کتابیں نازل کیں، کلمہ لا الہ الا اللہ کامطلب بھی یہی ہے ، لا الہ الا اللہ کامعنی یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے، یہ کلمہ غیر اللہ سے عبادت کی نفی کرتا، اور اس کو ایک اللہ کے لئے ثابت کرتا ہے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ۝۰ۙ
'' یہ سب (انتظامات)اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالی ہی حق ہے، اور اس کے سواجن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں ''۔ سورۃ لقمان، آیت 30

یہی دین اسلام کی جڑ اور ملت اسلامیہ کی بنیاد ہے ، اور کوئی بھی عبادت اس وقت تک صحیح نہ ہوگی جب تک کہ بنیاد درست نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۶۵
'' یقیناً آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے (کے تمام نبیوں )کی طرف بھی وحی کی گئی کہ اگر تونے شرک کیاتوبلاشبہ تیراعمل ضائع ہوجائے گا ، اور بالیقین تونقصان اٹھانے والوں میں ہوجائے گا''۔ سورۃ الزمر

نیز اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا :

وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۸۸
''اور اگر بالفرض یہ حضرات (انبیاء کرام )بھی شرک کرتے توجو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے ''۔ سورۃ الانعام

دین اسلام دو عظیم اصول پر مبنی ہے:
اول : تمام تر عبادتیں صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لئے انجام دی جائیں ۔
دوم : عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق انجام دی جائے، کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کایہی معنی ہے ۔
لہذا جو شخص مثلاً انبیاء وغیرہ کو یابتوں یادرختوں یاپتھروں یا ان کے علاوہ دیگر مخلوقات کو پکارے ، یا ان سے مدد طلب کرے ، یاان کے لئے ذبح یانذر و نیاز پیش کرکے ان کا قرب چاہے، یاان کے لئے نماز پڑھے یاسجدے کرے ، توبلاشبہ یہ ساری چیزیں اس اصل سے ٹکراتی ہیں اور کلمہ کے پہلے جز لا الہ الا اللہ کے معنی کے منافی ہیں ۔
اسی طرح اگر کوئی شخص دین اسلام میں کوئی نیاکام گھڑ کر انجام دے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی تواس نے کلمہ کے دوسرے جز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی کے معنی کوثابت نہیں کیا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے ہمارے اس امر (دین اسلام) میں کسی نئی چیز کا اضافہ کیا جو اس (دین) میں نہیں ہے تو وہ (نیا امر) مردود ہے۔


(سنن ابی داوُ د کتاب السنۃ جلد سوئم :4606)

مذکورہ اشعار میں اس شاعرہ نے اپنی فریاد اور پکار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی ہے اور سارے جہاں کے پروردگار سے روگردانی کی ہے ، جس کے ہاتھ میں مدد نفع و نقصان کے اختیارات ہیں ، اور اس کے سوا کسی کے پاس بھی ان چیزوں کااختیار نہیں ہے،بلاشبہ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنا بہت بڑا ظلم ہے۔
اللہ عزوجل نے حکم دیا ہے کہ صرف اس ذات کو پکارا جائے اور وعدہ کیا ہے کہ جو اسے پکارے گا وہ اس کی پکار کو قبول فرمائے گا ، اور فرمایا کہ جو اس کو پکارنے سے تکبر اپنائے گا اسے جہنم میں داخل فرمائے گا ، جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا :

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَ۝۶۰ۧ
'' اور تمہارے رب کافرمان (سرزد ہوچکا ) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جولوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی بھی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے ''۔ سورۃ غافر
اس آیت میں (داخرین )کامعنی ذلیل و رسوا ہیں۔
یہ آیت کریمہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ دعا عبادت ہے، اور اس سے تکبر اختیار کرنے والے کاٹھکانہ جہنم ہے ، جب اللہ تعالی کو پکارنے سے تکبر اختیار کرنے والے کاانجام یہ ہے تو اس شخص کاانجام کیا ہوگا جو اللہ سبحانہ و تعالی سے اعراض کرے اور اس کے سوا دوسروں کو پکارے؟

اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا :
ںوَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَ۔نِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶
'' جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے قبول کرتاہوں اس لئے لوگوں کوبھی چاہیئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کاباعث ہے ''۔ سورۃ البقرۃ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحیح حدیث میں فرمایا:
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: ”اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں“ ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ترمذی ۔ 2516(

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5415)، وانظر: مسند احمد 1/293، 303) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اللہ کے فیصلہ کو کوئی نہیں بدل سکتا، اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا شرک ہے، نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے، بندہ اگر اللہ کی طرف متوجہ رہے تو اللہ اپنے اس بندے کا خیال رکھتا ہے۔

سنن ترمذي, حدیث نمبر 2516, باب:۔۔۔

صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا گناہ کون ساہے؟ تو آپ نے فرمایا : '' توکسی کو اللہ کامد مقابل سمجھے جبکہ اسی نے تجھے پیداکیا ہے''

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا گناہ اللہ کے نزدیک بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تو اللہ کا شریک یا برابر والا کسی اور کو بنا دے حالانکہ تجھے اللہ نے پیدا کیا“ (پھر تو اپنے صاحب پیدا کرنے والے کو چھوڑ کر دوسرے کو مالک بنا دے یہ کتنا بڑا اندھیرا ہے اور مالک اس کام سے کیسا ناراض ہو گا) میں نے کہا: یہ تو بڑا گناہ ہے۔ اب اس کے بعد کون سا گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنی اولاد (لڑکا یا لڑکی) کو مار ڈالے اس ڈر سے کہ تیرے ساتھ روٹی کھائے گا۔“ میں نے کہا: پھر کون سا گناہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو زنا کرے اپنے ہمسائے کی عورت سے۔“

صحیح مسلم۔ کتاب الایمان ۔ 257

صحيح مسلم, حدیث نمبر 257, باب: شرک سب سے بڑا گناہ ہے، اور اس کے بعد بڑے گناہوں کا بیان۔



لہذا جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو پکارے یا اس سے فریاد کرے، یا اس کے لئے نذرو نیاز پیش کرے یااس کے لئے قربانی کرے یاعبادت کی کوئی بھی قسم اس کے لئے انجام تواس نے اس کو اللہ کامد مقابل بنایا، خواہ وہ کوئی نبی ، ولی ، فرشتہ جن یابت یامخلوق میں سے کوئی اور چیز ہو۔
البتہ زندہ حاضر شخص سے کسی چیز کاسوال کرنا اور ظاہری امور میں اس سے فریاد طلب کرنا جس کی وہ قدرت رکھتاہو، شرک نہیں ہے ، بلکہ یہ توایک عام سی چیز ہے جو مسلمانوں کے درمیان جائز ہے۔
جیساکہ موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں اللہ تعالی نے فرمایا

فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِہٖ عَلَي الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّہٖ۝۰ۙ
'' موسیٰ کی قوم والے نے موسیٰ سے اس کے خلاف فریاد کی جو ان کے دشمنوں میں سے تھا''۔ سورۃ القصص۔ 15

اور جب اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں فرمایا :

فَخَ۔۔۔رَجَ مِنْہَا خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ۔(القصص: ۲۱)
'' پس موسیٰ خوفزدہ ہوکر وہاں سے دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے''۔

اس کی ایک مثال یوں سمجھیں کہ جس طرح لوگ جنگ وغیرہ کے دوران باہم ایک دوسرے کی مدد کے محتاج ہوتے اور بعض درپیش امور میں اپنے ساتھیوں سے فریاد کرتے ہیں شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیاکہ وہ لوگوں کویہ بات پہنچا دیں کہ وہ کسی کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ، چنانچہ اللہ تعالی نے سورہ الجن میں فرمایا :

قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِہٖٓ اَحَدًا۝۲۰ قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا۝۲۱
'' آپ کہہ دیجئے میں توصرف اپنے رب ہی کوپکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان و نفع کااختیار نہیں ''۔ سورۃ الجن

نیز اللہ تعالی نے سورۃ الاعراف میں فرمایا :
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۭ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْ۔تَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ۝۰ۚۖۛ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ۝۰ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝۱۸۸ۧ
'' آپ فرمادیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کااختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کامگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہواور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تومیں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ''۔ سورۃ الاعراف

اس مفہوم کی آیات بہت زیادہ ہیں ۔
اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاحال یہ تھا کہ آپ اپنے رب کے سوا نہ کسی کو پکارتے اور نہ ہی مدد کاسوال کرتے تھے ۔ غزؤہ بدر کے دن آپ اپنے رب سے پوری گریہ زاری کے ساتھ دشمنوں کے خلاف مدد طلب کررہے تھے:

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بدر کے دن) دعا فرما رہے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ میں تشریف فرما تھے، کہ اے اللہ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دے کر فریاد کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: بس کیجئے اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حضور میں دعا کی حد کر دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی «سيهزم الجمع ويولون الدبر * بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر» ”جماعت (مشرکین) جلد ہی شکست کھا کر بھاگ جائے گی اور پیٹھ دکھانا اختیار کرے گی اور قیامت کے دن کا ان سے وعدہ ہے اور قیامت کا دن بڑا ہی بھیانک اور تلخ ہو گا۔“ اور وہیب نے بیان کیا، ان سے خالد نے بیان کیا کہ بدر کے دن کا (یہ واقعہ ہے)۔

صحیح بخاری ۔ 2915

صحيح البخاري, حدیث نمبر 2915, باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لڑائی میں زرہ پہننا۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جس دن بدر کی لڑائی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تین سو انیس تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کیا، پھر دونوں ہاتھ پھیلائے، اور پکار کر دعا کرنے لگے اپنے پروردگار سے۔ (اس حدیث سے یہ نکلا کہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے) «‏‏‏‏اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِى مَا وَعَدْتَنِى اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِى اللَّهُمَّ إِنْ تَهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ مِنْ أَهْلِ الإِسْلاَمِ لاَ تُعْبَدْ فِى الأَرْضِ» ‏‏‏‏ ”یااللہ! پورا کر جو تو نے وعدہ کیا مجھ سے، یااللہ! دے مجھ کو جو وعدہ کیا تو نے مجھ سے، یااللہ! اگر تو تباہ کر دے گا اس جماعت کو تو پھر نہ پوجا جائے گا تو زمین میں۔“ (بلکہ جھاڑ پہاڑ پوجے جائیں گے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر دعا کرتے رہے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے یہاں تک کہ آپ کی چادر مبارک مونڈھوں سے اتر گئی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مونڈھے پر ڈال دی، پھر پیچھے سے ہٹ گئے اور فرمایا اے نبی اللہ تعالیٰ کے بس، آپ کی اتنی دعا کافی ہے اب اللہ تعالیٰ پورا کرے گا وہ وعدہ جو کیا آپ سے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّى مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ مُرْدِفِينَ» (۸-الأنفال:۹) ”یعنی جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس نے قبول کی دعا تمہاری اور فرمایا میں تمہاری مدد کروں گا ایک ہزار فرشتے لگاتار سے،“

صحیح مسلم 4588

صحيح مسلم, حدیث نمبر 4588, باب: فرشتوں کی مدد بدر کی لڑائی میں اور مباح ہونا لوٹ کا۔

اس موضوع کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعددآیات نازل فرمادیں چنانچہ فرمایا :

اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَ۝۹
وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِہٖ قُلُوْبُكُمْ۝۰ۚ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۱۰ۧ
'' اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے ، پھر اللہ نے تمہاری فریاد سن لی کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے مدد دونگا جو لگاتار چلے آئیں گے ، اوراللہ نے یہ امدا دمحض اس لئے کی کہ بشارت ہواور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہوجائے اور مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے، جو کہ زبردست حکمت والا ہے ''۔ سورۃ الانفال

ان آیات میں اللہ سبحانہ و تعالی نے مومنوں کو اپنی فریاد رسی یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس نے ان کی پکار کوقبول کرلیا اور فرشتوں کے ذریعہ مدد فرمادی ، پھر اللہ تعالی نے واضح کردیاکہ مدد فرشتوں کی جانب سے نہ تھی بلکہ اللہ کی جانب سے تھی یہ فرشتوں کانزول توخوشخبری دینے اور تمہارے دلوں کے اطمینان کے لئے تھا (ورنہ وہ اللہ فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا تھا )جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ( وما النصر الا من عند اللہ )
'' اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے ''۔

اور اللہ عزوجل نے سورہ آل عمران میں فرمایا:

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّ۔۔ۃٌ۝۰ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۲۳
'' جنگ بدر میں اللہ تعالی نےعین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جبکہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے، اس لئے اللہ ہی سے ڈرو (کسی اور سے نہیں )تاکہ تمہیں شکر گزاری کی توفیق ہو۔ سورۃ آل عمران

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ غزؤہ بدر کے دن اللہ سبحانہ و تعالی ہی معین و مددگار تھا، اس سے معلوم ہواکہ مسلمانوں کی ہتھیار ، قوت اور فرشتوں سے جو مدد کی تھی یہ سب کچھ مدد خوشخبری اور اطمینان قلب کے اسباب تھے، بذات خود مدد نہ تھے، بلکہ مدد توصرف اللہ کی طرف سے تھی ۔

کتاب : توحید کا قلعہ
تالیف : عبدالملک القاسم
دارالقاسم للنشر والتوبیح

لڑی برائے تبصرہ
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
نوٹ: فورم کے قوانین کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہی کہیں تبدیلی کی گئی ہے۔ ربط فراہم کر دیا گیا ہے۔ اصل تحریر ربط پر جا کر پڑھی جا سکتی ہے۔

سوال میں "مولد المنقوص" نامی کتاب کی جانب اشارہ ہے یہ کتاب خرافات، قصے کہانیوں، عقیدہ توحید کے خلاف امور پر مشتمل ہے، اس کتاب کے مصنف نے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں غلو اور آپ سے حاجت روائی ، اور مانگنے اور اسی طرح دیگر انبیائے کرام سمیت نیک لوگوں کو پکارنے وغیرہ جیسے اعمال کو شریعت کا لبادہ پہناتے ہوئے مدلل بنانے کوشش کی ہے۔ موصوف نے اس مقصد کیلیے بہت سی جھوٹی، من گھڑت احادیث اور عجیب و غریب عبارتوں کی بھر مار کر دی ہے، اور اگر ہم ان میں سے ایک ایک کا رد کرنے لگیں تو اس کیلیے بہت سا وقت درکار ہو گا، بلکہ مؤلف کی لکھی ہوئی ہر ایک سطر کا تعاقب اور رد لکھنا پڑے گا۔

مؤلف کے خود ساختہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف اس بات کی نسبت کرنا ہے کہ آپ رحمہ اللہ ، پروردگار رب العالمین کو چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگتے تھے اور کہتے تھے:

يا سيد السادات جئتك قاصدا ** أرجو رضاك وأحتمي بحماكا
اے سربراہوں کے سربراہ! میں تیری طرف آیا ہوں، میری تیری رضا چاہتا ہوں اور تیری پناہ میں آتا ہوں۔
والله يا خير الخلائق إن لي ** قلبا مش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقا لا يروم سواكا
اے افضل المخلوقات! اللہ کی قسم میرا دل بہت ہی مشتاق ہے، اسے تیری سوا کسی کی چاہت نہیں۔
وبحق جاهك إنني بك مغرم ** والله يعلم أنني أه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واكا
تیری جاہ کے حق کا واسطہ میں تیرا عاشق ہوں، اللہ جانتا ہے کہ میں تیرا ہی عاشق ہوں۔
يا أكرم الثقلين يا كنز الغنى ** جد لي بجودك وارضني برضاكا
اے جن و انس کی محترم ہستی! اے بے نیازی کے سرچشمے! اپنی سخاوت سے مجھے عطا کریں اور اپنی رضا کے ساتھ مجھ سے راضی ہو جائیں۔
أنا طامع بالجود منك ولم يكن** لأبي حنيفة في الأنام سواكا
میں تو آپ ہی کی سخاوت کا منتظر ہوں، ابو حنیفہ کیلیے تیرے سوا کوئی نہیں ہے!

اسی طرح اس کتاب کے مؤلف نے امام شافعی رحمہ اللہ سے ذکر کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:
" آل النبي ذريعتي ** وهمو إليه وسيلتي
نبی کے اہل بیت ہی میرا واسطہ ہیں وہی میرے لیے آپ تک وسیلہ ہیں۔
أرجو بهم أعطى غدا ** بيدي اليمين صحيفتي
ان کے واسطے میں امید کرتا ہوں کہ کل مجھے میرے دائیں ہاتھ میں میرا نامہ اعمال دیا جائے گا۔

حالانکہ یہ ان دونوں جلیل القدر موحد ائمہ کرام کے بارے میں سفید جھوٹ ہے؛ اگر یہ جھوٹ نہیں ہے تو پھر ان دونوں اماموں سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ یہ ثابت کر کے دکھا دیں، یا کم از کم ضعیف سند سے ہی ثابت کر دیں، کیا وہ ایسا کر سکیں گے؟ کبھی بھی نہیں!!

اس کتاب میں آنے والے عقیدہ توحید کے خلاف امور میں سے یہ بھی ہے کہ:

"یہ جان لو کہ اللہ کے محبوب بندوں مثلاً: انبیائے کرام، اولیائے عظام اور نیک لوگوں سے حاجت روائی کا مطالبہ ان کی زندگی میں اور ان کی موت کے بعد ہر دو حالت میں جائز ہے۔۔۔"
پھر انہوں نے کہا کہ:
"اس سے معلوم ہوا کہ : "یا رسول اللہ مدد "کہہ کر حاجت روائی کا مطالبہ کرنا جائز ہے، اسی طرح "یا غوث، یا محی الدین عبد القادر جیلانی" وغیرہ کہنا بھی درست ہے"

سائل کے سوال میں ذکر شدہ عبارت بھی اس کتاب میں مذکور امور میں سے ایک ہے:
" ارتكبت الخطايا ، لك أشكو يا سيدي يا خير النبيين"[میں نے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، یا سیدی! اے سب نبیوں سے بہترین نبی! میں آپ سے اس کا شکوہ کرتا ہوں]

یہ عقیدہ توحید کے خلاف ہے، کیونکہ گناہوں سے توبہ صرف اور صرف اللہ تعالی سے مانگی جاتی ہے، اسی طرح گناہوں کے اثرات اور وبال کی شکایت بھی اللہ تعالی سے کی جاتی ہے۔

پہلے سوال نمبر: (179363) میں تفصیل سے گزر چکا ہے کہ: ( وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ...) یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے، آپ کی وفات کے بعد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

شیخ ابن باز کہتے ہیں:
"اس آیت کریمہ میں امت کو ترغیب دلائی گئی ہے کہ اگر وہ گناہ کر بیٹھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، یا اگر گناہ سے بھی بڑا پاپ مثلاً: شرک وغیرہ سر زد ہو جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس توبہ تائب ہو کر اور ندامت کے ساتھ آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کیلیے مغفرت طلب کریں، نیز یہاں پر آپ کے پاس آنے سے مراد آپ کی زندگی میں آنا مراد ہے؛ لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد اس مقصد سے قبر مبارک پر آنا شرعی عمل نہیں ہے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعدصحابہ کرام نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا؛ حالانکہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے، دینِ محمدی کے بارے میں سب سے زیادہ فقاہت بھی انہی کے پاس تھی؛اور [صحابہ نے ایسا عمل اس لیے نہیں کیا ؛]کیونکہ وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کیلیے استغفار نہیں کر سکتے تھے" انتہی
ماخوذ از: مجموع فتاوى ابن باز (6/ 189-190)


نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا ، اللہ کو چھوڑ کر آپ سے مانگنا، آپ کی وفات کے بعد آپ سے حاجت روائی کا مطالبہ کرنا، عقیدہ توحید کے خلاف ہے، تو کسی اور سے حاجت روائی کا مطالبہ کرنے کا کیا حکم ہو گا؟!

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے کہ:

" نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا ، آپ کو صدا لگانا ، آپ کی وفات کے بعد حاجت روائی یا مشکل کشائی کیلیے مدد کا مطالبہ کرنا، عقیدہ توحید کے خلاف ہے ۔۔۔۔۔" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے علاوہ دیگر مخلوقات سے دعا عقیدہ توحید کے خلاف اور گمراہی ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت کوئی بھی دعا کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لیے انسان کو اس عمل سے توبہ کرنی چاہیے اور اللہ کے سوا کسی سے بھی دعا نہیں مانگنی چاہیے، بلکہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا ما شاء اللہ خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کے مالک نہیں تھے، اسی لیے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ یہ بات اعلانیہ طور پر کہہ دیں، چنانچہ اللہ تعالی نے حکم دیا:
(قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ )
ترجمہ: آپ کہہ دیں: میں اپنے لیے کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں، ما سوائے اس کے جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں بہت سے مفادات جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو صرف ایمان لانے والی قوم کو ڈرانے اور خوش خبری دینے والا ہوں۔ [الأعراف:188]

ایک اور جگہ اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
( قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ )
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں ۔[الأنعام:50]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے اور اپنے لیے اللہ تعالی سے مغفرت اور رحمت مانگتے تھے، اسی طرح اپنے صحابہ کرام کیلیے بھی دعائیں کرتے تھے، اگر آپ کسی کی مغفرت کرنے یا رحم کرنے پر قادر ہوتے تو کبھی بھی اللہ تعالی سے دعا کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ، اس لیے یہ بات واضح ہے کہ ساری مخلوقات اللہ تعالی کی محتاج ہیں، صرف اللہ تعالی ہی غنی اور تعریفوں کے لائق ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )
ترجمہ: اے ایمان والو! تم سب اللہ تعالی کے محتاج ہو، اور اللہ تعالی ہی غنی اور تعریف کے لائق ہے۔[فاطر:15]

اگر شیطان ان لوگوں کی عقلوں اور نظریات سے کھلواڑ نہ کرتا تو انہیں یہ بات واضح طور پر معلوم ہو جاتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت کوئی بھی کسی کیلیے نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اور یہ کہ یہ تمام ہستیاں صرف ایک اللہ تعالی کو ہی پکارتی تھیں:
( أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ )
ترجمہ: بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے اور (کون ہے جو) تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ [النمل:62]" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (21/ 218-219)

خلاصہ یہ ہے کہ:

کسی بھی بشر کے سامنےاپنی زبوں حالی، گناہوں کی شکایت ، گناہوں کا اقرار اور کوتاہیوں سے توبہ کرنا، اور اس طرح ان سے مدد و نصرت کا مطالبہ کرنا یہ سب کچھ عقیدہ توحید کے خلاف ہے؛ کیونکہ یہ امور خالص عبادات میں شامل ہیں، انہیں غیر اللہ کیلیے بجا لانا جائز نہیں ہے۔

صحیح مسلم : (2577) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ: (میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں ، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں ، اس لیے مجھ سے رزق مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو!تم سب کے سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں پہننے کیلیے دوں ، اس لیے مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس دوں گا۔ میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو، اور میں سب گناہ معاف کرتا ہوں، اس لیے مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔)

شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں:
"ایسا کوئی کام جو صرف اللہ تعالی ہی کر سکتا ہے اس کا مطالبہ صرف اللہ تعالی سے ہی کرنا جائز ہے، ایسے امور کا مطالبہ فرشتوں، نبیوں یا کسی اور سے کرنا جائز نہیں ہے، غیر اللہ کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ: "مجھے معاف کر دے، ہمیں بارش عطا فرما، ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرما، یا ہمارے دلوں کی رہنمائی فرما، یا اسی طرح کا کوئی اور جملہ " طبرانی نے اپنی کتاب معجم میں روایت کی ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک منافق مومنوں کو تکلیف دیا کرتا تھا، تو صحابہ کرام نے کہا: کہ چلو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس منافق کے مقابلے میں مدد مانگتے ہیں، تو صحابہ کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے غوث نہیں بنایا جا سکتا، غوث تو صرف اللہ ہے)" انتہی
"مجموع الفتاوى" (1/ 329)


واللہ اعلم .
 

فہد مقصود

محفلین
نوٹ: اس تحریر میں بھی فورم قونین کو مدِنظر رکھتے ہوئے تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
دعااللہ تعالیٰ کی عبادت ہے،مومن کا اسلحہ ہے، انبیاء کی سنت اور صالحین کا طریقہ ہے۔ وسعت ہویاتنگی ہر حال میں دعا کی اہمیت مسلَّم ہے اور مومن کے لئے ہر حال میں یہ ایک مرغوب عمل ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے کئی مراحل آتے ہیں کہ جن میں اسے دعا کی احتیاج پیش آتی ہے، انسان ہی کی ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دعامانگنے کاحکم دیا، اور قرآن مجید واحادیث مبارکہ میںہر جگہ اللہ تعالیٰ ہی سے دعامانگنے کاحکم ہے اور اسی کی ترغیب وہدایت بیان ہوئی ہے۔ غیراللہ سےد عامانگنے کا نہ صرف یہ کہ حکم نہیں بلکہ اس کی مذمت بھی وارد ہوئی ہے۔ بطور مثال چندآیات ملاحظہ کیجئے:

.1اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

[اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝۵۵ۚ ]
’’اپنے رب سے دعاکرو گڑگڑاتے اور آہستہ بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں‘‘(الاعراف:۵۵،ترجمہ ازاحمد رضاخان صاحب)

۱: اس آیت کی تفسیر میں نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے لکھا: ’’دعا اللہ تعالیٰ سے خیرطلب کرنے کو کہتے ہیں اور یہ داخل عبادت ہے‘‘(نور العرفان)

۲: جناب محمد کرم شاہ الازہری صاحب نے اسی آیت کی تفسیر میں لکھا:
’’اپنی تمام حاجات اور مشکلات میں بارگاہ الٰہی میں رجوع کاحکم دیا جارہا ہے۔‘‘(ضیاء القرآن 38/2)

غور کیجئے کہ یہ کن علماء کی تفسیریں ہیں اور قرآن مجید کی ان آیات کامفہوم واضح کرتے ہوئے اعتراف کرچکے ہیں کہ’’اپنی تمام حاجات اور مشکلات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کاحکم ہے‘‘

.2اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا۝۰ۭ اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِ۔نِيْنَ۝۵۶]
’’اور اس (رب) سے دعا کروڈرتے اورطمع کرتے بیشک اللہ کی رحمت قریب ہے نیکی کرنے والوں سے۔‘‘(الاعراف:۵۶،ترجمہ از سعید کاظمی صاحب، البیان ص252)
.3اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَ۔نِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶ ](البقرۃ:۱۸۶)
اس آیت کاترجمہ وتفسیر جناب غلام رسول سعیدی صاحب کے قلم سے ملاحظہ کیجئے،لکھا ہے:
ترجمہ: اور(اے رسول) جب آپ سےمیرے بندے میرے متعلق سوال کریں(توآپ فرمادیں) بے شک میں ان کے قریب ہوں، دعا کرنے والاجب دعا کرتا ہے تومیں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو چاہیے کہ وہ(بھی) میراحکم مانیں اور مجھ پر ایمان برقرار رکھیں تاکہ وہ کامیابی حاصل کریں۔(تبیان القرآن 690/1)

اور اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ہمار ے زمانے میں بعض جہلاء اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے بجائے اپنی حاجتوں کاسوال پیروں،فقیروں سے کرتے ہیں اور قبروں اور آستانوں پر جاکر اپنی حاجات بیان کرتے ہیں اور اولیاء اللہ کی نذر مانتے ہیں،حالانکہ ہر چیز کی دعا اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہیے اور اسی کی نذر ماننی چاہیے ،کیونکہ دعا اورنذر دونوں عبادت ہیں اور غیراللہ کی عبادت جائز نہیں۔(تبیان القرآن ۱؍۶۹۱،۶۹۲مطبوع فرید بک سٹال،لاہور)
سعیدی صاحب یہاں اعتراف کررہےہیں کہ بعض لوگ اللہ سے دعا کے بجائے پیروں،فقیروں،قبروں اورآستانوں پر اپنی حاجات کا سوال کرتے ہیں،حالانکہ ہر چیز کی دعا اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہیے، لیکن کتنے ہی افراد یہ بات مانتے نظر نہیں آتے کیونکہ اللہ کے بجائے اونچی قبروں والوں سے دعائیں مانگتے ہیں!!!

سعیدی صاحب نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ’’دعا عبادت ہے اور غیر اللہ کی عبادت جائز نہیں‘‘ البتہ یہ نہیں بتلایا کہ یہ’’ناجائز‘‘ کی کونسی اقسام میں سے ہے؟ اس کی وضاحت مفتی احمدیارخان نعیمی صاحب سے سن لیں، لکھتے ہیں:
’’غیرخدا کی عبادت مطلقاً شرک ہے زندہ کی ہو یا مردہ کی‘‘
(جاء الحق،ص:218مطبوع ضیاء الدین پبلیکیشر)

المختصر!سعیدی صاحب کو تسلیم ہے کہ’’دعا عبادت ہے، اور نعیمی صاحب کا اعلان ہے کہ’’غیر اللہ کی عبادت مطلقاً شرک ہے‘‘

باقی رہا سعیدی صاحب کایہ کہنا:’’ہمارے زمانے کے بعض جہلا‘‘ تو عرض ہے کہ ’’بعض جہلا‘‘نہیں بلکہ بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ پھر آپ قبروں وآستانوں پر اور پیروں فقیروں سے اپنی حاجات طلب کرنے والوں کو’’جہلا‘‘ قرار دے رہے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔
 
Top