ٹیلی ویژن انڈسٹری نے ہمیں معیاری مصنفین دیے، انور مقصود

ٹیلی ویژن انڈسٹری نے ہمیں معیاری مصنفین دیے، انور مقصود
پیرزادہ سلمان 25 اکتوبر 2020
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
5f953b3ec28de.jpg

فیسٹیول میں مجموعی طور پر 44 شوز اور 22 پلیز پیش کیے گئے— فوٹو: بشکریہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی فیس بک پیج
کراچی: آرٹس کونسل آف پاکستان کی جانب سے منعقد کیا گیا سالانہ کراچی تھیٹر فیسٹیول جمعے کے روز فرحان عالم کے ہدایات کے ساتھ پیش کیے گئے ڈرامے گڈ لک ڈارلنگ کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

تھیٹر کے منتظمین کی جانب سے چیزوں کو اطہر خان عرف جیدی کی تحریر کردہ کامیڈی کو پیش کرنا بھی قابل غور تھا، خیال رہے کہ اطہر خان 10 مئی کو انتقال کرگئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ڈراما جسے رواں برس کے اوائل میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) میں پروڈیوس کیا گیا تھا، یہ ایک ایسے سیٹھ کی کہانی ہے جسے فی الحال مالی مسائل کا سامنا ہے، اس کی بیٹی اپنے شوہر سے طلاق لے چکی ہے لیکن ان کا جوائنٹ اکاؤنٹ کچھ ایسا ہے کہ اپنا معاشی بحران دور کرنے کے لیے سیٹھ کی اس اکاؤنٹ پر نظر ہے۔

کراچی تھیٹر فیسٹیول کے آخری روز کا آغاز نامور مصنف اور طنزیہ نگار انور مقصود کی تقریر سے ہوا جو اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی بھی تھے۔

تحریر جاری ہے‎
مزید پڑھیں: ملک میں 6 ماہ بعد تھیٹر بحال، کراچی آرٹس کونسل میں میلہ شروع

انہوں نے کہا کہ یہ ایک معجزہ ہے کہ ایک ایونٹ شہر میں اس مشکل صورتحال میں ہوا (جب دنیا کو عالمی وبا کا سامنا ہے)۔

مجموعی طور پر (2 ایونٹس - عوامی تھیٹر فیسٹیول اور کراچی تھیٹر فیسٹیول) فیسٹیول میں 44 شوز اور 22 پلیز پیش کیے گئے تھے۔

کراچی تھیٹر فیسٹیول سے طلعت حسین، شیما کرمانی اور انجم ایاز جیسے بڑے نام بھی وابستہ تھے۔

تحریر جاری ہے‎
انور مقصور نے نوجوانوں کی کوششوں کو بھی سراہا اور میڈیا پر زور دیا کہ وہ ان کی حوصلہ افزائی کرے۔

انہوں نے کہا کہ اردو ادب میں ڈراما موجود نہیں ہے [جس طرح سے ہونا چاہیے]، آغا حشر اور امتیاز تاج کے ڈراموں کو وہ جگہ حاصل نہیں جو ادب کے ڈراموں کو عموماً ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں 6 ماہ بعد تھیٹر بحال، کراچی آرٹس کونسل کا تھیٹر میلے کا اعلان

انور مقصود نے کہا کہ ٹیلی ویژن انڈسٹری نے ہمیں معیاری مصنفین عطا کیے جن میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ شامل ہیں۔

تحریر جاری ہے‎
ان کا کہنا تھا کہ آج کل ٹی وی پر دکھائے جانے والے زیادہ تر ڈرامے خواتین لکھاریوں کے ہیں۔

انور مقصود نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ بچوں کی طرح سلوک کرتی ہیں، کچھ ان کے ساتھ جڑواں بچوں جیسا سلوک کرتی ہیں کیونکہ ان کے 2 ڈرامے بیک وقت ایک جیسی کہانیوں کے ساتھ 2 ٹی وی چینلز پر چل رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر نوجوان ہیرو [ٹی وی ڈراموں میں] داڑھی رکھتا ہے جس میں یہ پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سا ہیرو کون ہے۔

انور مقصود نے کہا کہ اگر ہم ٹی وی ڈراموں سے داڑھی اور موبائل نکال لیتے ہیں تو کوئی ڈراما نہیں ہوگا، دادا کے پاس فون ہے، دادی کے پاس فون ہے، والدہ کے پاس سیل فون، ہر ایک کے پاس [ڈراموں میں] فون ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: ‘عہدِکورونا’ کے بعد کراچی شہر میں تھیٹر کی بحالی

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے، انہوں نے نوجوان اداکاروں کو مشورہ دیا کہ اگر انہیں ٹی وی ڈرامے میں کام کرنے کا موقع ملے تو انہیں پہلے اسکرپٹ ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ اسکرپٹ کسی بھی ڈرامے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

انور مقصود نے کہا کہ اگر اسکرپٹ اچھی ہے اور ہدایت کار اور اداکار خراب ہیں تو بھی لوگ ڈراما دیکھیں گے۔

ان سے قبل صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے فیسٹیول کی کامیابی میں کردار ادا کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا تھا خاص طور پر ایونٹ کوآرڈینیٹر میصم نقوی اور کونسل کی ٹیم کے لیڈر دانیال عمر جنہوں نے میصم نقوی کے ساتھ کام کیا۔

علاوہ ازیں ہما میر نے تقریب کی میزبانی کی تھی جبکہ انور مقصود نے فیسٹیول کے شرکا کو ایوارڈز دیے۔
 
Top