نجم سیٹھی کے ادارئیے

پاکستان کے لیے فکرانگیز لمحات
4OY1TgJw-200x200.jpg
by Najam Sethi

October 23, 2020






پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے طبل جنگ بجا دیا ہے۔

لیکن اب کیا ہوگا؟

سولہ اکتوبر کا گوجرانوالہ کا جلسہ سکرپٹ کے مطابق ہوا۔ کم و بیش پچاس ہزار افراد اسٹیڈیم کے اندر تھے حالانکہ سڑکیں بلاک تھیں اور پولیس چھاپے مار رہی تھی ۔ لیکن پھر نواز شریف آئے اور ہر گیند پر چھکا مارا۔ ہر گیند پارک سے باہر جاگری۔ اُنہوں نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف غیر معمولی بیانیے میں دو اہم افسران کو ہدف تنقید بنایا۔ اب ملک کے چاروں کونوں میں اسی بیانیے کی گونج ہے۔ چند دن بعد کراچی میں میدان لگا۔ کچھ سوچ بچار کے بعد اسلام آباد سے تاریخی طور پر شاقی رہنے والی علاقائی قوم پرست جماعتوں کے راہ نما، جیسا کہ محسن داوڑ، اختر مینگل، عبدالمالک، محمود خان اچکزئی، امیر حیدر ہوتی بھی جلسے میں شریک ہوئے اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف خوب گرجے۔ ان کی گھن گرج کے سامنے بلاول بھٹو، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کی للکار بھی ماند پڑ گئی۔

کئی وجوہ کی بنا پر یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے۔ مسلم لیگ ن کی صفوں میں ”اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت“ کا بیانیہ اب پس منظر میں جا چکا۔ یہ بیانیہ رکھنے والے شہباز شریف اب خاموشی سے جیل بھگت رہے ہیں۔ دوسری طرف”ریاست سے بالا تر ریاست کے خلاف“ بیانیہ اب اگلے قدموں پر ہے۔ لندن میں جلاوطن نواز شریف اس بیانیے کی گولہ باری کررہے ہیں۔

پی ڈی ایم الائنس میں دائیں بازو کی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام، بائیں بازو کی سیکولر پیپلز پارٹی، اور مرکزی دھارے کی روایت پرست مسلم لیگ ن بڑے شراکت دار ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جماعتیں ملک میں اسٹبلشمنٹ کے غیر جمہوری کردار کے خلاف اپنی اپنی نظریاتی پوزیشن کو ایک طرف رکھ کے اکٹھی ہوئی ہیں ۔ درحقیقت جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ ن کبھی اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعتیں تھیں ۔ اگرقومی اسمبلی کی 70 نشستوں پر ہونے والی دھاندلی کو نہ بھی شمار کیا جائے تو بھی پی ڈی ایم گزشتہ انتخابات میں پاکستان کے طول و عرض میں ڈالے گئے ووٹ کے کم و بیش 65 فیصد کی دعویدار ہے۔ان 70 نشستوں پر اکتیس فیصد ووٹ تحریک انصاف کے نام گنے گئے۔

گویا اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ پاکستان کے سرد علاقوں سے نکل کر اس کے گرم مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں آگیا ہے۔ اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے اسٹبلشمنٹ 70 بھرتی کرتی ہے۔ کراچی جلسے میں اسٹبلشمنٹ ایک اور حوالے سے بھی ڈرامائی صورت حال کی زد میں آگئی ۔ اس کے افسران نے جلسے کے بعد نصف شب کو مبینہ طور پر سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کو اُن کے گھروں سے اٹھایا،اُنہیں سکیٹر کمانڈر ہیڈکوارٹرز لے گئے اور کیپٹن صفدر کے وارنٹ گرفتاری جاری کرائے جن پر مزار قائد پر نعرے بازی کا الزام تھا۔ اس سے سندھ پولیس میں ایک غیر معمولی بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے یہاں تک کہ چیف آف آرمی سٹاف کو اس افسوس ناک واقعے کی تحقیقات کا اعلان کرنا پڑا۔ پتہ چلا کہ جس شخص نے ایف آئی آر درج کرائی تھی، اس کے تحریک انصاف سے روابط ہیں، وہ ایک اشتہاری مجرم ہے اور واقعے کے وقت موقع پر موجود بھی نہیں تھا۔

اہم بات یہ ہوئی کہ پی ڈی ایم کی صفوں میں دراڑ نہ پڑ سکی۔ اس کی بجائے اس کا اسٹبلشمنٹ بیانیہ مزید توانا ہوگیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ایسے مزید واقعات بھی رونما ہوں گے، خاص طور پر بیوروکریسی اور عدلیہ میں جو اسی طرح کے شدید دباؤ تلے کام کررہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ انیتا ایوب کیس میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے باوجود گزشتہ دو برسوں کے دوران پنجاب میں پانچ چیف سیکرٹری اور پانچ انسپکٹر جنرل پولیس اپنے عہدوں سے اچانک تبدیل کردیے گئے۔ اس کی وجہ طریق کار کے بغیر، من مانی سے کیے گئے تبادلے اور تقرریاں تھیں۔

پنجاب میں تنک مزاج سی سی پی او کے ہاتھوں انسپکٹر جنرل پولیس کی حالیہ توہین سے لے کر اپنے فیصلوں کے ذریعے اسٹبلشمنٹ کو ناراض کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کی برخاست جیسے بہت سے کیسز ہمارے سامنے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزراہم نے اسٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ ایک ایس پی کے ’کارنامے‘ دیکھے تھے۔ وہ ایس پی سندھ حکومت کے افسران کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔

اب پی ڈی ایم کا اگلا پڑاؤ کوئٹہ میں ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن صوبائی حزب مخالف میں موجود قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ مل کر ملک کو ”ون یونٹ“ کی طرح چلانے والی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے خطے کے ساتھ روا رکھے گئے سیاسی اور معاشی امتیاز اور آئینی حقوق کی محرومی کے خلاف آواز بلند کریں گے۔

اسٹبلشمنٹ کو ہدف بنانے کا فائدہ ہوگا یا نقصان، اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور تحریک انصاف کی حکومت مل کر یا اکیلے اکیلے اس پرکیا ردعمل دیتے ہیں۔ اب تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ مایوس کن گورننس اور بے پناہ بدعنوانی میں دھنسی تحریک انصاف کی حکومت نے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دینے سے گریز کیا ہے۔ بدقسمتی سے اسٹبلشمنٹ نے بھی کھلے عام ”ایک صفحے“ پر ہونے کی پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے اچھا نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہوا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے خلا ف عوامی اشتعال بڑھ رہا ہے۔ اگر اس نے سیاسی شراکت داری کا کھیل موقوف نہ کیا تو جلد ہی اسے حز ب اختلاف کی زبان بندی کے لیے جبر کرنا پڑے گا۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی ساکھ مزید کھو بیٹھے گی۔ اور یہ ساکھ ہی ہے جو ریاست اور معاشرے کو باہم جوڑے رکھتی ہے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پھر اسے پی ڈی ایم کے ساتھ مفاہمت کرنی پڑے گی جس کا اس کے سوااور کوئی مطلب نہیں کہ مسائل کی جڑ، عمران خان کو چلتا کردیا جائے۔ اسٹبلشمنٹ کے لیے بحران دراصل پاکستان کے لیے فکر انگیز لمحات ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پھر اسے پی ڈی ایم کے ساتھ مفاہمت کرنی پڑے گی جس کا اس کے سوااور کوئی مطلب نہیں کہ مسائل کی جڑ، عمران خان کو چلتا کردیا جائے۔ اسٹبلشمنٹ کے لیے بحران دراصل پاکستان کے لیے فکر انگیز لمحات ہیں
سارا کالم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لکھ کر مسائل کی جڑ عمران خان کو چلتا کر دیا جائے گا۔ نواز شریف نے کیسے کیسے سینئر لفافی بھرتے کئے ہوئے ہیں۔
 
سارا کالم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لکھ کر مسائل کی جڑ عمران خان کو چلتا کر دیا جائے گا۔ نواز شریف نے کیسے کیسے سینئر لفافی بھرتے کئے ہوئے ہیں۔
ایک فاتر العقل کی وجہ سے اپنا اعتبار کھونا کہاں کی عقلمندی ہے۔سنا ہے علی عمران بھی شمالی علاقاجات کی سیر سے واپس آگئے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک فاتر العقل کی وجہ سے اپنا اعتبار کھونا کہاں کی عقلمندی ہے۔سنا ہے علی عمران بھی شمالی علاقاجات کی سیر سے واپس آگئے ہیں۔
یعنی متحدہ اپوزیشن کو اصل مسئلہ عمران خان سے ہے نہ کے اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو چھوڑ کر اپوزیشن کو سلیکٹ کر لے تو جمہوری بالا دستی قائم ہو جائے گی؟
 
یعنی متحدہ اپوزیشن کو اصل مسئلہ عمران خان سے ہے نہ کے اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو چھوڑ کر اپوزیشن کو سلیکٹ کر لے تو جمہوری بالا دستی قائم ہو جائے گی؟
اپوزیشن تو بقول شخصے کرپٹ ہے ہی، اس کا کیا کہنا۔ نیازی کی خیر منائیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن تو بقول شخصے کرپٹ ہے ہی، اس کا کیا کہنا۔ نیازی کی خیر منائیے۔
نیازی کو فارغ کر کے اسٹیبلشمنٹ کو کیا ملے گا۔ بدنامی تو پھر بھی ہوتی رہے گی جتنے مرضی نئے پتلے نیازی کی جگہ لے آئیں۔
باقی کرپٹ اپوزیشن کے خلاف عدالتی کیسز کو بھی نیازی کے رہنے یا نہ رہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ان سب کو چیف جسٹس پاکستان اور نیب دیکھ رہا ہے۔
 
نیازی جیسے کولاکر تو اسٹیبلشمنٹ ڈبل مصیبت میں پھنس گئی۔ اتنی براہِ راست بدنامی تو آج تک تاریخ میں محکمۂ زراعت کی نہیں ہوئی تھی۔ لگتا ہے ویگو ڈالے کا خوف بھی اب لوگوں کو زبان بندی پر مجبور نہیں کرسکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
نیازی جیسے کولاکر تو اسٹیبلشمنٹ ڈبل مصیبت میں پھنس گئی۔ اتنی براہِ راست بدنامی تو آج تک تاریخ میں محکمۂ زراعت کی نہیں ہوئی تھی۔ لگتا ہے ویگو ڈالے کا خوف بھی اب لوگوں کو زبان بندی پر مجبور نہیں کرسکتا۔
نیازی تو پھر جمہوریت پسندوں کیلئے بہت اچھی خبر ہے۔ عمران خان کا اقتدار جتنا طویل ہوگا اسٹیبلشمنٹ مزید ذلیل ہو گی۔ پی ڈی ایم عمران خان کو وقت سے پہلے بھیج کر اسٹیبلشمنٹ کی ذلالت کو بچانا چاہ رہی ہے۔ اگر یہ اپنے مشن میں مخلص ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کو مزید رسوا ہونے کا موقع دیں۔
 
نیازی تو پھر جمہوریت پسندوں کیلئے بہت اچھی خبر ہے۔ عمران خان کا اقتدار جتنا طویل ہوگا اسٹیبلشمنٹ مزید ذلیل ہو گی۔ پی ڈی ایم عمران خان کو وقت سے پہلے بھیج کر اسٹیبلشمنٹ کی ذلالت کو بچانا چاہ رہی ہے۔ اگر یہ اپنے مشن میں مخلص ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کو مزید رسوا ہونے کا موقع دیں۔
جمہوریت پسند وزیراعظم کی کرسی پر ایک نالائق سیلیکٹڈ کو کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جمہوریت پسند وزیراعظم کی کرسی پر ایک نالائق سیلیکٹڈ کو کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔
یہی جمہوریت پسند پچھلی حکومتوں میں وقت سے پہلے وزیر اعظم کو گھر بھیجنے پر اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔ اب خود اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کی تحریک چلا رہے ہیں۔ :)
 
یہی جمہوریت پسند پچھلی حکومتوں میں وقت سے پہلے وزیر اعظم کو گھر بھیجنے پر اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔ اب خود اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کی تحریک چلا رہے ہیں۔ :)
اس لیے کہ پچھلے وزرائے اعظم عوام کے منتخب ہواکرتے تھے۔ فارم 45 اور محکمۂ زراعت کے کرداروں کی گنتی سے سیلیکٹ کیے ہوئے نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس لیے کہ پچھلے وزرائے اعظم عوام کے منتخب ہواکرتے تھے۔
۱۹۹۰ کا الیکشن چوری ہوا۔ آئی ایس آئی نے دھاندلی کر کے نواز شریف کو وزیر اعظم بنایا۔ ۱۹۹۷ کا الیکشن جہاں نواز شریف کو ریکارڈ دھاندلی کر کے دو تہائی سیٹیں ملی۔ ۲۰۱۳ کا الیکشن آر اوز کا الیکشن تھا جہاں رات ۹ بجے نواز شریف نے اپنی جیت کا اعلان کر دیا۔
 
کیا آصف زرداری شعبدہ دکھاسکتے ہیں؟
4OY1TgJw-200x200.jpg
by Najam Sethi

November 13, 2020

in Editorial Urdu

0


Share on FacebookShare on Twitter




”کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کیس“ بہت غیر معمولی ہے۔ ”کسی“ نے ”کہیں“ تو حزب اختلاف کی رہنما مریم نواز شریف کے شوہر، کیپٹن صفدر کی گرفتاری کا فیصلہ کیاتھا۔ کپٹن صفدر نے کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر ”ووٹ کو عزت دو“کے نعرے لگائے تھے۔ جب آئی جی پولیس اور ایڈیشنل آئی جی پولیس نے مقدمے کے اندراج سے انکار کیا تو پیراملٹری فورس کے جوانوں نے اُنہیں ”اغوا“ کرکے مزار کی حرمت پامال کرنے والے شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور اسے گرفتار کرنے پر مجبور کیا ۔ چنانچہ یہ گرفتاری ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر عمل میں لائی گئی جہاں مذکورہ شخص اپنی اہلیہ کے ساتھ قیام پذیر تھا ۔ جب اعلیٰ افسران کے ساتھ روا رکھی جانے والی اس بدسلوکی پر سندھ پولیس کے افسران احتجاجاً ”چھٹی“ پر جانے لگے تو بلاول بھٹو زرداری نے آئین اور قانون کی پامالی پر چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر باجوہ سے انکوائری اور ذمہ داری کا تعین کرنے کا مطالبہ کیا ۔ سندھ پولیس ہڑتال پر جارہی تھی۔ جنرل باجوہ نے صورت حال کو بگڑنے اور قابو سے باہر ہونے سے بچانے کے لیے فوری انکوائری کرائی۔

اب جی ایچ کیو انکوائری کی منظر عام پر آنے والی مختصر سفارشات کے مطابق: آئی ایس آئی اور رینجرز کے اُن درمیانے درجے کے افسران کو جی ایچ کیو رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو ”عوامی مفاد“ میں مبینہ طور پر ”ضرورت سے زیادہ جذباتی“ ہوگئے تھے۔

نواز شریف نے رپورٹ کو ”مسترد“ کرتے ہوئے کہا کہ جی ایچ کیو نے ان درمیانے درجے کے افسران کو قربانی کا بکرا بنایا ہے۔ نوازشریف کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گرفتاری کا حکم دینے والی اسلام آباد کی اصل شخصیت کو اس کا ذمہ دارٹھہرایا جائے۔

یہ جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی پر اُسی الزام کا تسلسل ہے کہ اُنہوں نے مبینہ طور پر ایک ”سلیکٹڈ“وزیر اعظم کو ملک پر مسلط کیا ہے جس کے احمقانہ اور مخبوط الحواس فیصلوں نے پاکستان کی کمر توڑ دی ہے۔

ایک طرف نواز شریف کا رویہ جارحانہ ہے تو دوسری طرف بلاول بھٹو نے جی ایچ کیو کے ”حل“ کو خوش آئند قرا ر دیتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کے قریب ہونے کی کوشش کی ہے ۔ اب اُن کا کہنا ہے کہ وہ نوا زشریف کی چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو نام لے کر ہدف بنانے کی پالیسی کی حمایت نہیں کرتے، گرچہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو سہارا دے کر ملک پرمسلط کرنے پر اسٹبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ احتیاط بلاوجہ نہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کے رہنماؤں، خاص طور پر شریف خاندان، کو اسٹبلشمنٹ اور تحریک انصاف نے اس قدر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے کہ اب ن لیگ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ اب اُن کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اس ”ہائبرڈبندوبست“ کو پٹری سے اتارنے کے لیے جو ہوسکتا ہے کر گزریں۔ چنانچہ وہ اس حکومت کو سہارا دینے والے سول اور ملٹری کرداروں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔

عوام میں ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے کی مقبولیت نے ن لیگ کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ پر مبنی حکمران اشرافیہ کی ناقص گورننس عوامی اشتعال کا سبب بن رہی ہے اور وہ اس نعرے کو اپناتے جارہے ہیں۔ اُن کا ”تھری ان ون“ہدف اس الائنس کوتوڑنا اور اپنے لیے سیاسی جگہ تلاش کرنا ہے۔ اُن کی یہ پالیسی اُس وقت تک بہت محفوظ ہے جب تک مولانا فضل الرحمن اور اُن کی جمعیت علمائے اسلام اوراس کے منظم اور پرجوش کارکن ان کے ساتھ ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے پاس بھی کھونے کے لیے کچھ نہیں، ہا ں حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو اس کے پاس کھونے کے لیے بہت کچھ ہے، لیکن وہ اسٹبلشمنٹ کو ناراض کرکے کچھ حاصل نہیں کرسکتی۔ اس کی سندھ حکومت معطل ہونے سے بچ گئی؛ آصف زرداری کو فی الحال سزا اورجیل کی صعوبتوں کا سامنا کرنے کاکوئی شوق نہیں؛ اور پیپلز پارٹی یہ بھی جانتی ہے کہ اگر تازہ انتخابات ہوتے ہیں تو اسے صوبے میں پہلے سے کم نشستیں ملیں گی۔اس کی وجہ صوبے میں اس کی مخالف پارٹیوں کاا بھرنا ہے۔ یہ پی ڈی ایم میں ایک معتدل آواز بن کر رہنا پسند کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو صرف تحریک انصاف اور عمران خان کونشانہ بنا ئے ہوئے ہیں تاکہ وقت آنے پر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کرچلنا مشکل نہ ہو۔

اس دوران اسٹبلشمنٹ پی ڈی ایم کے مجوزہ لانگ مارچ یا اسمبلیوں سے استعفے دینے کی دھمکی کو زائل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس کی جارحانہ مشینری اگلے ماہ ہونے والے احتجاج کو دبانے کے لیے تیار ہے۔ اس نے تین اہداف حاصل کرنے کے لیے جہانگیر ترین کو بھی واپس میدان میں اتارا ہے: گنے کی کرشنگ شروع کرنے اور سٹاک کی ہوئی چینی کے ذخائر بازار میں لانے کے لیے تاکہ چینی کا موجودہ بحران ختم ہوسکے؛ پنجاب اور سندھ میں تحریک انصاف کے ناراض کارکنوں سے بات کرکے اُنہیں بحران کے وقت ساتھ دینے پر راضی کرنے کے لیے؛ اور اگر اسٹبلشمنٹ کو مرکز اور صوبے میں ان ہاؤس تبدیلی کرتے ہوئے تحریک انصاف کے علاوہ حکومت سازی کی ضرورت پیش آئے وہ ان ممبران کو ہاتھ میں رکھ سکیں، یاموجودہ سیاسی جمود ختم کرنے کے لیے تازہ انتخابات کراکر نیا اسٹبلشمنٹ نواز کولیشن بنایا جاسکے۔ جہانگیر ترین بہرحال انتہائی مفاد پرست سیاست دان ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ جب وہ واپس پاکستان آئے تو عمران خان کی جبین ہر گز شکن آلود نہیں ہوئی تھی۔

اس وقت معیشت لہولہان ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی سخت مشکل میں ہے۔ پرانے ساتھی ہمیں چھوڑ چکے ہیں جبکہ کوئی نئی ریاست ہمارے ساتھ ہاتھ تک ملانے کو تیار نہیں۔تحریک طالبان پاکستان اوربھارت مغرب اور مشرق سے ہمارا گلا دبوچنے کے لیے پنجے تیار کررہے ہیں۔ کوویڈ 19 پوری شدت سے واپس آچکا۔ عوام ناراض اور بے چین ہیں۔ عمران خان سے نجات حاصل کرنے کے لیے پی ڈی ایم نعرہ ئ مستانہ لگانے کے لیے تیار ہے۔ دسمبر اور جنوری سفاک ترین مہینے ہوسکتے ہیں۔

نواز شریف اور مولانافضل الرحمن کے پاس مل کر عمران خان کے قدموں تلے زمین سرکانے کی طاقت ہے لیکن کچھ عجب نہیں اگر آصف علی زرداری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرکے کوئی شعبدہ دکھادیں۔
 
نواز شریف نے رپورٹ کو ”مسترد“ کرتے ہوئے کہا کہ جی ایچ کیو نے ان درمیانے درجے کے افسران کو قربانی کا بکرا بنایا ہے۔ نوازشریف کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گرفتاری کا حکم دینے والی اسلام آباد کی اصل شخصیت کو اس کا ذمہ دارٹھہرایا جائے

کیا سیلیکٹڈ سے متعلق کچھ کہہ رہے ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
کپٹن صفدر نے کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر ”ووٹ کو عزت دو“کے نعرے لگائے تھے۔ جب آئی جی پولیس اور ایڈیشنل آئی جی پولیس نے مقدمے کے اندراج سے انکار کیا
آئین و قانون کے تحت مزار قائد پر سیاسی نعرہ لگانا جرم ہے۔ سندھ پولیس نے کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کر کے سیاسی ہونے کا ثبوت دیا۔ جس کے بعد فوج نے ایک دوسرا غیر آئینی و غیر قانونی کام کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو اغوا کر لیا۔ اور یوں سیاسی فوج ہونے کا ثبوت پیش کیا۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کے رہنماؤں، خاص طور پر شریف خاندان، کو اسٹبلشمنٹ اور تحریک انصاف نے اس قدر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے کہ اب ن لیگ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ اب اُن کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اس ”ہائبرڈبندوبست“ کو پٹری سے اتارنے کے لیے جو ہوسکتا ہے کر گزریں۔ چنانچہ وہ اس حکومت کو سہارا دینے والے سول اور ملٹری کرداروں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔
دیوار سے انہوں نے اپنے آپ کو خود لگایا ہے۔ اپنے کرپشن کے مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے کہتے ہیں نیب کو بند کر دیں۔ یا جعلی بیماریوں کا بہانہ بنا کر ملک سے بھاگ جاتے ہیں اور ادھر عدالتیں ان کو کرپشن کیسز میں مفرور اشتہاری قرار دے دیتی ہیں۔ ایسے بنے گی ان کی سیاست میں جگہ؟
 

جاسم محمد

محفلین
عوام میں ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے کی مقبولیت نے ن لیگ کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ پر مبنی حکمران اشرافیہ کی ناقص گورننس عوامی اشتعال کا سبب بن رہی ہے اور وہ اس نعرے کو اپناتے جارہے ہیں۔ اُن کا ”تھری ان ون“ہدف اس الائنس کوتوڑنا اور اپنے لیے سیاسی جگہ تلاش کرنا ہے۔ اُن کی یہ پالیسی اُس وقت تک بہت محفوظ ہے جب تک مولانا فضل الرحمن اور اُن کی جمعیت علمائے اسلام اوراس کے منظم اور پرجوش کارکن ان کے ساتھ ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے پاس بھی کھونے کے لیے کچھ نہیں، ہا ں حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی سیاست میں جگہ صرف ان کے کرپشن کیسز بند ہونے کے بعد ہی بن سکتی ہے۔ اس کے لئے ان کو فوج سے ایک اور این آر او درکار ہوگا جو کہ عمران خان کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف اور مولانافضل الرحمن کے پاس مل کر عمران خان کے قدموں تلے زمین سرکانے کی طاقت ہے لیکن کچھ عجب نہیں اگر آصف علی زرداری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرکے کوئی شعبدہ دکھادیں۔
متحدہ اپوزیشن کو جو کرنا ہے کر لے، بیشک جوڑ توڑ کر کے عمران خان کو گھر بھیج دے۔ لیکن ان کو اپنے کرپشن کیسز میں کوئی این آر او نہیں ملے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا سیلیکٹڈ سے متعلق کچھ کہہ رہے ہیں؟
جیسے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں حاملہ عورتوں کے جبڑوں میں گولیاں مارنے والی پنجاب پولیس کو حکم دینے والے شہباز شریف اور ان کے بھائی نواز شریف کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا؟ وہاں تو ان کو کلین چٹ چاہیے تھی اور یہاں کہتے ہیں کہ فوج کی اعلی ترین کمان جونیئر افسران کے غیر آئینی و قانونی اقدام پر استعفی دے۔ دنیا بھر کی منافقت شریف خاندان پر ختم ہوتی ہے۔
 
Top