غزل برائے اصلاح: اُس کی ہر بات میں ابہام کا پہلو پایا

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین
محمد احسن سمیع: راحل
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی
و دیگر اساتذہ کرام_____

آداب

آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے__


اُس کی ہر بات میں ابہام کا پہلو پایا
وہ پہیلی ہے جسے بوجھ نہ خسرو پایا

میں نے تحقیر سے جس کیڑے کو دیکھا دن میں
رات میں اُس کو چمکتا ہوا جُگنو پایا

جو بظاہر مجھے لگتا تھا کہ کم بولتا ہے
اُس کو بجتے ہوئے پازیب کا گھنگھرو پایا

مجھ کو گلشن میں کھلے پھول سے کچھ لاگ نہیں
میں ہوں اُس گل کی فدائی جسے خود رو پایا

اوس کی بوند کو نزدیک سے دیکھا جا کر
تو اسے چشمِ سیہ کار کا آنسو پایا

کتنی گمراہی میں ڈوبے ہیں جوانان وطن
اُن کی گمراہی حسیناؤں کا گیسو پایا

جیسے بھٹکے ہوئے آہو کو ٹھکانہ نہ ملے
میں نے یوں خود کو بیابان کا آہو پایا
 
اُس کی ہر بات میں ابہام کا پہلو پایا
وہ پہیلی ہے جسے بوجھ نہ خسرو پایا
ابہام کا پہلو؟؟؟ یہ کوئی چیز نہیں ہوتی. بات میں یا تو ابہام ہوگا، یا نہیں ہوگا.
مزید یہ کہ کس نے پایا؟؟؟ فاعل کا تذکرہ نہیں شعر میں.
ثالثا، پہلو اور خسرو کو قافیہ کیسے لا رہی ہیں آپ؟ خسرو کی و مجہول ہے. یعنی اس میں "رو" کی آواز ویسے ہے جیسے کہ "رونا" میں ہوتی ہے، نہ کہ ویسے جیسے کہ "روح" میں.

میں نے تحقیر سے جس کیڑے کو دیکھا دن میں
رات میں اُس کو چمکتا ہوا جُگنو پایا
تحقیر سے نہیں، کسی بھی چیز کو حقارت سے دیکھا جاسکتا ہے. تحقیر کی جاتی ہے.

جو بظاہر مجھے لگتا تھا کہ کم بولتا ہے
اُس کو بجتے ہوئے پازیب کا گھنگھرو پایا
بجتی ہوئی پازیب کا گھنگرو بظاہر کم گو کیسے نظر آسکتا ہے؟ عجیب سی بات ہے، مجھے شعر کا مفہوم نہیں سمجھ آیا.

مجھ کو گلشن میں کھلے پھول سے کچھ لاگ نہیں
میں ہوں اُس گل کی فدائی جسے خود رو پایا
یہاں بھی مفہوم کچھ گنجلک ہے.
دوسرے مصرعے میں tenses بھی گڑبڑا گئے ہیں. صیغہ حال سے بات شروع ہو کر ماضی میں ختم ہو رہی ہے.

کتنی گمراہی میں ڈوبے ہیں جوانان وطن
اُن کی گمراہی حسیناؤں کا گیسو پایا
حسینوں کے گیسو جوانان وطن کی گمراہی کا سبب ہو سکتے ہیں، خود گیسوؤں کو گمراہی کیسے کہا جاسکتا ہے؟؟؟
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ خسرو کی طرح خود رو میں بھی واو مجہول، یہ چہرے والارو نہیں بلکہ راہ رو والا رو ہے۔
مطلع میں پہلا مصرع مجھے تو قبول ہے۔ فاعل تو فرسٹ پرسن تصور کیا جا سکتا ہے۔
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم اساتذہ سے نظر ثانی کی درخواست ہے۔۔۔۔۔۔۔


ہم سخن میں نے تُجھے پہلو بہ پہلو پایا
واسطے اپنے تری آنکھ میں آنسو پایا


جس پتنگے کو حقارت سے تھا دیکھا میں نے
رات میں اُس کو چمکتا ہوا جگنو پایا


اُس پری چہرے کی قسمت پہ مجھے رنج ہوا
پاؤں میں اُس کے بندھا میں نے جو گھنگھرو پایا


اوس کی بوند کو نزدیک سے دیکھا جا کر
تو اسے چشمِ سیہ کار کا آنسو پایا

میں جو سوئی تھی کڑی دھوپ میں ہو کر بے دم
آنکھ کھولی تو گھنا سایۂ گیسو پایا


جیسے بھٹکے ہوئے آہو کو ٹھکانہ نہ ملے
میں نے یوں خود کو بیابان کا آہو پایا
 
آخری تدوین:
Top