دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

سیما علی

لائبریرین
اے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اس کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے

اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنا
چشمِ گریاں نہ سہی چشمِ تماشائی دے

فراز

تماشائی
 

سیما علی

لائبریرین
ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں جاناں
تیری تصویر کی زیبائی پر

سطح کے دیکھ کے اندازے لگیں
آنکھ جاتی نہیں گہرائی پر

پروین شاکر

گہرائی
 

سیما علی

لائبریرین
اے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اس کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے

اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنا
چشمِ گریاں نہ سہی چشمِ تماشائی دے

فراز

تماشائی
اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنا
چشم گریاں نہ سہی چشمِ تماشائی دے
 

سیما علی

لائبریرین
اے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اس کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے

اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنا
چشمِ گریاں نہ سہی چشمِ تماشائی دے

فراز

تماشائی
طور پر طالبِ دیدار ہزاروں آتے
تم تماشہ جو نہ بناتے نہ تماشائی کا

قمر جلالوی
 

سیما علی

لائبریرین
ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں جاناں
تیری تصویر کی زیبائی پر

سطح کے دیکھ کے اندازے لگیں
آنکھ جاتی نہیں گہرائی پر

پروین شاکر

گہرائی

نگاہ کو بھی میسر ہے دل کی گہرائی
یہ ترجمان محبت ہے بے زباں نہ کہ

شوکت پردیسی

زبان
 

سیما علی

لائبریرین
پھول کی خوشبو ہوا کی چاپ شیشہ کی کھنک
کون سی شے ہے جو تیری خوش بیانی میں نہیں
نامعلوم

شیشہ
نہ بزم اپنی نہ اپنا ساقی نہ شیشہ اپنا نہ جام اپنا
اگر یہی ہے نظام ہستی تو زندگی کو سلام اپنا

اسد بھوپالی

سلام
 
Top