خواب

سیما علی

لائبریرین
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
(عندلیب شادانی)
 

سیما علی

لائبریرین
لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے وہی اس کا بھی حال ہو
کچھ اور دل گداز ہوں اس شہر سنگ میں
کچھ اور پر ملال، ہوائے ملال ہو
باتیں تو ہوں کچھ تو دلوں کی خبر ملے
آپس میں اپنے کچھ تو جواب و سوال ہو
رہتے ہے آج جس میں جسے دیکھتے ہیں ہم
ممکن ہے یہ گزشتہ کا خواب و خیال ہو
سب شور شہر خاک کا ہے قرب آب سے
پانی نہ ہو تو شہر کا جینا محال ہو
معدوم ہوتی جاتی ہوئی شے ہے یہ جہاں
ہر چیز اس کی جیسے فنا کی مثال ہو
کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیر
ان روز و شب میں ایسا بھی اک دن کمال ہو

منیر نیازی
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بجھاؤ ایک جلاؤ خواب کا کیا ہے
آنکھوں میں رکھ کر سو جاؤ خواب کا کیا ہے

پاؤں تلے ہے روند کے گزرو کچل کے دیکھو
پیچھے جاؤ آگے آؤ خواب کا کیا ہے

شیلف پہ الٹا کر کے رکھ دو اور بسرا دو
گل دانوں میں پھول سجاؤ خواب کا کیا ہے

خواب کا کیا ہے رات کے نقش و نگار بناؤ
رات کے نقش و نگار بناؤ خواب کا کیا ہے

نیند ملی ہے گڑ سے میٹھی شہد سے شیریں
گاؤ ناچو ناچو گاؤ خواب کا کیا ہے

لا یعنی ہے سب لا یعنی یعنی یعنی
اور کہانی لکھ کر لاؤ خواب کا کیا ہے

ایک کباڑی گلیوں گلیوں واج لگائے
راکھ خریدو آگ کے بھاؤ خواب کا کیا ہے
دانیال طریر
 

سیما علی

لائبریرین
گُونجتا ہے نالہِ مہتاب آدھی رات کو
ٹُوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو

بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹُوٹتے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو

شام ہی سے بزمِ انجم نشہِ غفلت میں تھی
چاند نے بھی پی لیا زہراب آدھی رات کو

اک شکستہ خواب کی کڑیاں ملانے آئے ہیں
دیر سے بچھڑے ہوئے احباب آدھی رات کو

دولتِ احساسِ غم کی اتنی اَرزانی ہوئی
نیند سی شے ہو گئی نایاب آدھی رات کو
شکیب جلالی
 

سیما علی

لائبریرین
کِسی نے میرا وہ دَورِ عَذاب دیکھا تھا؟
ہَر اِک سوال پَر اُن کا جَواب دیکھا تھا؟

اَبھی اَبھی تَو یَہاں تھے وہ گفتگو بھی ہوئی
یَقین ہی نہیں آتا کہ خواب دیکھا تھا

کَہا ہے کِس نے کہ آباد و شاد ہے اَب تَو
کِسی نے کیا دِلِ خانہ خَراب دیکھا تھا

عَجیِب شَخص تھا ٹھَنڈَک بھی تھا تَمازَت بھی
وہ آفتاب تھا یا ماہتاب دیکھا تھا

شَرابِ حُسن سے گَر ہو نہ تِشنَگی سیراب
جَواز یہ ہے کہ تُو نے سَراب دیکھا تھا

عجیب دَور تھا ایک ایک پَل تھی نیند حَرام
اَور اُس پہ دونوں نے اِک مِل کَے خواب دیکھا تھا

خدا ہی جانے وہ دن تھا کہ رات تھی ضامنؔ
طُلُوعِ صُبح سے قَبل آفتاب دیکھا تھا
ضامن جعفری
 
Top