ریختہ صفحہ 82 کتاب 11

آغاز داستان
پیدا ہونا شہ زادہ آرام دل کا اور ملاحظہ کرنا تصویر ملکہ حسن افروز حور شمائل کا اور مائل ہونا اس پر دل کا اور روانہ ہونا محمود کے ہمراہ اس نیم بسمل کا

پلا ساقیا آب گل کوں کا جام
کہ آتا ہے عالم میں ماہ تمام
لگا دے لبوں سے کہ اب پی کے مے
کروں سیر باغ ارم جی میں ہے

راویان اخبار کہن و مصوران پیکر سخن تصویر داستان کی صفحہ بنیان پر یوں کھینچتے ہیں کہ سرزمین چین میں ایک بادشاہ تھا ؛ نہایت عادل و باذل ، دریا دل ، رعیت پرور ، عدالت گستر ، عموم عدل و احسان اس کا رشک افزائے عدل کسری اور نوشیرواں تھا۔ جود و سخا میں حاتم کا کیا ذکر ہے، محیط اعظم اس کی وسعت فیض سے بہ صد پیچ و تاب امواج انگشت بہ دندان تھا۔ اس کے عہد دولت مہد میں زبردستوں کو زیردستوں سے سے بہ تعدی پیش آنا موجب جرم و یقین پاداشی تھا۔ ہر ایک قوی کا دل ہر ضعیف کی فریادسے مانند دندانہ تشدید اندیشہ مند خراش تھا۔ سب کا جام تمنا نشاط سے سرشار تھا۔ رنگ ہر طبیعت کا ہم رنگ گلشن و گلزار تھا۔ بہت بادشاہ اس شہنشاہ گردوں بارگاہ کے

ریختہ صفہ 83 (کتاب 12)
خراج گزار تھے اور غاشیہ اطاعت کا دوش سر پر رکھ کے بندہ فرماں بردار، جاں نثار تھے۔ خصائل خجستہ اور شمائل میمنت افزاسے اس کو کام تھا۔ فرخ سیر کج کلاہ اس شاہ عالی جاہ کا نام تھا ؛ مگر اس شاہ گردوں وقار کا بہ ایں جاہ و حشم دور کنندہ غم ، کاشانہ امید کا روشن کرنے والا کوئی فرزند سعادت توام نہ تھا ؛ چراغ دودمان دولت فروغ بخش عالم نہ تھا۔ کس لحظہ یہ الم دل سے بہم نہ تھا ۔ کس دم اس درد سے لب پر آہ و نالہ پیہم نہ تھا ؛ کون ساعت تھی کہ جگر کا داغ سوزاں نہ ہوتا ، کون وقت تھا کہ رنج و آلام سے گریاں نہ ہوتا۔ جب خیال جگر گوشہ تمنا کا آتا تھا دونوں ہاتھوں سے کلیجہ تھام کر اشک حسرت چشم تر سے بہاتا تھا۔ سلطنت کو بے وجود فرزند دل بند خاک کے برابر جانتا ؛ شہریاری اور حکومت کو وارث تاج و تخت کے نہ ہونے سے باغ خزاں سے بے رونق تر جانتا۔ شب و روز بہ سوز بہ درگاہ حق جل و علی یہ دعا ورد زبان تھی ؛ اس مناجات کی تکرار وظیفہ کام و دھان تھی : مولانا نظامی قدس سرہ

تو گفتی ہر آں کس کہ در رنج و تاب
دعائے کند ، من کنم مستجاب
چو عاجز رہا نندہ دائم ترا
دریں عاجزی چوں نہ خواہم ترا

اے چارہ ساز بے چارگان و اے فریاد رس بے کساں ! تو نے اپنے فضل و احسان سے مجھ حقیر عاجز کو اس رتبے پر پہنچایا ، ایسا مرتبہ بڑھایا کہ ایک عالم کو میرے تحت حکومت کیا ، میرے آگے گردن کشوں کا سرجھکایا ، سارے مخلوق سے ظل اللہ کہلوایا اور یہ توفیق بخشی کہ اس نشہ دولت مرد آزما سے مستی غفلت ہوش رہا نہ ہوئی۔ اپنی رجوع ہر کار میں تیری

ریختہ صفہ 84 (کتاب 13)
درگاہ کے سوا نہ ہوئی۔ اب آفتاب لب بام آیا، سفید بال آئے ، موت کا پیغام آیا ؛ تیرے فضل سے مجھ بندہ ناچیز کی خاطرکیا کیا مہیا نہ ہوا، مگر کوئی فرزند ارج مند ، ثمرہ زندگانی ، اس گمنام کی نشانی اب تک پیدا نہ ہوا کہ میرے بعد وارث تاج و دیہیم کا ہوتا اور فرماں روا اس اقلیم کا ہوتا۔ تیری ذات دست گیر درماندگاں اور وحدہ لا شریک ہے ، میری مشکل کشائی اور حاجت روائی ادنی کار تیرے نزدیک ہے۔ گلمراد مجھ بے بنیاد کا نسیم فضل عمیم سے اپنے شگفتہ اور خنداں کر ! بہ حق اولاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم اس درد لادوا کا جلد درماں کر ! مصنف۔

امیدوار کیوں نہ ہوں میں تجھ کریم سے
تو امید کون ہے ترے فضل عمیم سے

یہ آہ پر تاثیر اور دعائے شب گیر اس ہمایوں خصال ، فرخ فال کی پایہ اجابت کو پہنچ کر بہ درگاہ مجیب الدعوات قبول ہوئی ، آرزوئے خاطر بر آئی ، تمنائے دل حصول ہوئی ، آثار فرزند نمایاں ہوئے ، بانوے شاہ حاملہ ہوئی ، چراغ ہائے مراد دعائے خیر طلبوں سے شبستان بخت مندی میں فروزاں ہوئے۔ بعد گزرنے نو مہینے کے ایک لڑکا مہ پارہ ، سپہر خوبی کا ستارہ برج حمل نواب خاص محمل سے پیدا ہوا۔ ہر خورد و کلاں اس ماہ تاباں پر بلا گرداں ہوا، خورشید انور اس صورت زیبا کا شیدا ہوا۔

سراپا از مصنف عفی اللہ عنہ


تھی وہ پیشانی کہ دیکھے جو کبھی ماہ فلک
مثل تصویر تحیر زدہ رہ جائے بھچک

ریختہ صفہ 85 (کتاب 14)
تیغ ابرو کی وہ تیزی کہ دم خوں ریزی
آدمی کیا کہ ہوئی قتل اشاروں میں ملک
چشم فتاں میں وہ شوخی کہ اسے دیکھ کے گل
مارتا تھا کسی نرگس پہ چمن میں چشمک
اس کی بینی کی لطافت کو رقم کیا کیجے
دم بہ دم ناک میں دم لاتی ہے نتھنوں کی پھڑک
کیا نزاکت کہوں اس کے گل رخسار کی میں
دھیان سے بوسے کے وہ خون کی دیتا ہے جھلک
کان دکان ملاحت کہ نہ دیکھے ، نہ سنے
ہے تمنائے سخن یہ کہ میں پہنچوں اس تک
ناز لے جائے وہیں مشک ختن ہاتھ اٹھائے
بو کبھی زلف معتبر کی جو پہنچے اس تک
تار گیسو جو نظر آئے دل شیدا کو
طائر رشتہ بہ پا بن کے وہ رہ جائے اٹک
لب جاں بخش وہ ایسے کہ کلام شیریں
دم عیسی کے برابر ہو جوپہنچے واں تک
صدف در سے جو دے خامہ دھن کو تشبیہ
ناز در در کہے ، عشوہ کہے چل یاں سے سرک
چہرے پر رنگ طلائی کی بہار ایسی ہے
کہ جسے دیکھ کے شرماتی ہے کندن کی دمک
اس کی گردن کی صراحی کا اگر وصف کروں
رشک سے گردن مینا بھی ابھی جائے ڈھلک
جستجوئے کمر یار میں یہ چرخ کہن
آنکھ پر اپنی مہ و خور کی لگا کر عینک

ریختہ صفہ 86 (کتاب 15)
روز و شب شرق سے تا غرب وہ کرتا ہے تلاش
پر نہیں پاتا نشاں اس کی کمر کا اب تک
پنجہ مہر لگا منہ کی بلائیں لینے
جس دم آغوش میں مادر کی گیا وہ بالک
اب ہو خاموش سخن طول سخن تابہ کجا
کتنی لکھ چکا فسانے کی عبارت اب تک

الغرض ارکان دولت نے اس مژدہ روح افزا کی خبر اس شاہ ، نیاز مند درگاہ بے نیاز ، گوش بر آواز کو پہنچائی ، بادشاہ نے بہ قول میر حسن:

یہ سنتے ہی مژدہ بچھا جا نماز
کیے لاکھ سجدے کہ اے بے نیاز!
تجھے فضل کرتے نہیں لگتی بار
نہ ہو تجھ سے مایوس امیدوار

اور بعد نماز شکرانہ حکم دیا کہ آج سے چھ روزتک سب امیر وزیر ، غریب و فقیر اپنے گھر میں جشن کریں ؛ خزانہ عامرہ سے واسطے مصارفکے جس قدر درکار ہو ، طلب کر لیں۔ سب نے چھ روز تک خوشی کی۔ بعضوں نے انداز سے زیادہ بادہ نشاط اور مئے انبساط سے مست ہو کر فکر دین و دنیا سے فراموشی کی۔ بادشاہ نے دو ہفتے جشن جمشیدی کیا۔ حاجت مندوں کو اس قدر دیا کہ اب تک اس ملک میں کوئی محتاج نظر نہیں آتا۔ جنہوں نے کوڑی آنکھوں سے نہ دیکھی تھی ، انہوں نے لعل و گہر کا ذخیرہ پایا۔ صبح ولادت شاہزادہ محمود صبح عید تھی ، نامرادوں کے قفل بستہ کی کلید تھی۔
الغرض تولد شاہزادہ کی خبر ہر ایک کو معلوم ہوئی اور
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ 107

عرض کی "بسم اللہ! رنگ محل میں چل کر آرام فرمائیے، یہاں کیوں تکلیف اٹھائیے۔"

غرض آرام دل وہاں سے اٹھا اور رنگ محل میں گیا، مسہری زرنگار پر اپنی معشوقہ کے فراق میں لوٹنے لگا۔ روتے روتے سوزش دل جو سوا ہوئی تو یہ فرد خواجہ میر درد کی زبان سے آشنا ہوئی : درد

طپش کو دل کی میں سمجھا تھا یہ آنسو بجھا دیں گے
مگر یہ آگ تو پانی سےبھڑکی اور بھی دونی

پھر جو دل بے قرار نے ستایا تو بہ صد حسرت و باس یہ فرمایا : مصنف

سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر
ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے

کبھی ضبط کے ساتھ روتا تھا، کبھی بے اختیاری سے بہ آواز بلند بکا کر کے ان اشعار درد انگیز کے نالہ سرا ہوتا تھا: جرأت

بہ سوز عشق نے کیسی لگا دی آگ اے ظالم
جلا جاتا ہے دل بر میں، پھنکا جاتا ہے تن اپنا
نہ کوئی یار ہے، نے غم خوار، نے مونس، نہ ہم دم ہے
سناویں کس کو ہم درد و غم و رنج و محن اپنا

فرد
قیس اور فرہاد بھی تو ھائے تھے بیمار عشق
پر الٰہی مجھ کو یہ کیسا دیا آزار عشق

غرض کیسی نیند، کہاں کا سونا، یوں ہی ہر دم رونا، آنسوؤں سے منہ دھونا۔


ریختہ صفحہ 108

بے قرار ہو کر آنا صنوبر پری پیکر کا دل بر کے اشتیاق میں اور عاشق ہونا آرام دل پر؛ پھر شب و روز جلنا

اور شمع ساں گھلنا آتش فراق میں

خدا را ذرا ساقیا اُٹھ شتاب
مرے سامنے لا شراب و کباب
کہ اک جام پی اور قلم کو اُٹھا
کسی خستہ دل کا لکھوں ماجرا

اب ان کو تو یہاں بے قرار رہنے دیجیے اور کچھ حال اُس عروس شاہ زادۂ سیہ فام، یعنی صنوبر ناکام کے سنیے کہ قبل از شادی صنوبر شاہ زادی یہ خبر پا چکی تھی، کوئی دل سوز یہ قصہ سنا کر اس کا دل جلا چکی تھی کہ جس شخص کے ساتھ تیری بیاہ ہونے والا ہے وہ پنج عیب شرعی اور ایسا کالا ہے کہ اگر دیو سفید بھی اُس کی صورت پُر کدورت دیکھے تو مارے خوف کے کالا ہو جائے، مقابل ہونے کی تاب نہ لائے؛ مگر شرم و حیا دامن گیر تھی، اس لیے راضی بہ رضاے تقدیر تھی۔ جب اُس صورت منحوس کے وصل کا خیال کرتی تھی، روتے روتے اپنا بڑا حال کرتی تھی، مگر لوگوں کے سامنے کبھی اس بات کو زبان پر نہ لاتی تھی۔ اس گفتگو کے باب میں اپنے منہ پر گویا ہر خموشی لگاتی تھی۔ اکثر انیسیں جلیسیں اُسے خاموش دیکھ کر کہتی تھی کہ اے شاہ زادی! سبب خاموشی اور افسردہ دلی کا کیا ہے، چپ رہنے


ریختہ صفحہ 109

کا منشا کیا ہے؟آج خدا نے یہ دن دکھایا ہے، گل امید کی شگفتگی کا روز آیا ہے؛ ہنسو، بولو، کچھ بات کرو؛ تو اُس سے کہتی کہ ارے لوگو! میں کیا خاک ہنسوں، کیا بات کروں، خدا کی شان کو دیکھتی ہوں کہ تقدیر کہاں لڑی ہے، کس مصیبت میں جان پڑی ہے، کس بلا کا سامنا ہو گا، بلا اور بھوت سے پالا پڑے گا؛ دیکھیے کیا ہوتا ہے، اب تو ہماری جان اس عذاب میں پھنسی ہے۔ خلقت خدا ظل سبحانی کی عقل مندی پر ہنستی ہے۔ ارے کیا سب کی سمجھ پر پتھر پڑ گئے! ایسے آنکھوں کے اندھے ہو گئے، جان بوجھ کر ایک پلید سے بیاہ کرتے ہیں، مجھے دین و دنیا سے تباہ کرتے ہیں۔ یہ سن کر سمجھاتی تہیں، زخم دل پر مرہم دلاسا لگاتی رہیں۔

القصہ جب عق سے فرصت، تخلیے کی صحبت ہوئی، اُنہیں سہیلیوں میں سے آ کر ایک نے کہا کہ بیگم دولہا اس وقت رنگ محل میں آرام کرنے گیا ہے؛ ہم نے با چشم خود دیکھا ہے؛ سبحان اللہ وہ نہایت خوب صورت نوجوان، رشک حور و غلمان ہے۔ کوئی آنکھوں کے اندھے تھے جس اُس پری پیکر کو بدصورت بتایا تھا۔ کس کی شامت آئی تھی جس نے غلغلہ اُٹھای اتھا، اور حضور سے تعجب ہے کہ اُن بدنزادوں کے کہنے کو سچ جانا، بے دیکھ یقین آ گیا۔ بہ تو وہی مقدہ مطابق ہے :

حکایت
کہ کسی بستی میں ایک میاں جی تھے؛ علم فارسی اور کچھ عربی جانتے تھے، مختصر مطول چھانتے تھے؛ درس و تدریس اُن کا کام تھا، لڑکے پڑھانے کا شغل صبح و شام تھا؛ تقدیر جو لڑی تو ایک امیر نے اُن کو فقیر جان کر اپنے فرزند کی تعلیم کے


ریختہ صفحہ 110

واسطے نوکر رکھا اور نیک سمجھ کر ایک بھلے آدمی کی لڑکی سے بیاہ بھی دیا۔ میاں جی نے جو نوکری بیش قرار اور گھاتے میں جورو نیک کردار پائی، کمال خوش ہو، غم ہاے دین و دنیا فراموش ہوئے۔ جب مدعاے دل خاطر خواہ حصول ہوا، پھر تو حضرت کا یہ معمول ہوا، تمام دن تو لڑکے پڑھانا اور رات کو اپنی بی بی کے ساتھ عیش میں بسر کرنا مقرر رکھا۔

ایک روز مکتب میں بیٹھے ہوے، ‘بہار دانش‘ کا سبق پڑھا رہے تھے، برہمن سادہ لوح کی حکایت سمجھا رہے تھے کہ ناگاہ کسی ظریف حریف نے آ کر کہا کہ میاں جی صاحب! آپ کس خواب خرگوش میں ہیں‘ عالم محو ہے یا کچھ ہوش میں ہیں؛ آج دن دہاڑے آپ کے مکان کا قفل ٹوٹتا ہے، متاع ننگ و ناموس آپ کا ایک بدمعاش لوٹتا ہے؛ خبر لینی ضروری ہے، آیندہ اختیار ہے، بندہ مجبور ہے۔

یہ سنتے ہی میاں جی مارے غیرت کے بید کی طرح کانپنے لگے، شرمندگی سے پسینے پسینے ہو گئے، ہانپنے لگے؛ بہار دانش چھوڑ خوشی بھول گئے، حواس باختہ ہوئے سبق بھول گئے۔ اور تو کچھ بن نہ آیا، گھبرا کر فرمایا کہ بھائی شرح وقایہ لانا، فلانے ورق فلانے صفحے کی وہ سطر پڑھ کر سنانا؛ تفسیر بھی دیکھنی چاہیے، ایسے بدکار کو تعزیز دینی چاہیے۔

لوگوں نے دیکھا کہ میاں جی سخت بے وقوف، محض گدھے ہیں، فقط کتابوں کے بوجھ میں لدے ہیں؛ کچھ اپنے بے گانے کا خیال نہیں کرتے، یہ خوبی استفسار حال نہیں کرتے؛ جو منہ میں آتا ہے، بکتے ہیں، ہر ہر بات میں بہکتے ہیں۔ آخر ایک بے باک نے کہا "میاں جی صاحب! آپ کو یہ جملہ فعلیہ کیوں کر ثابت


ریختہ صفحہ 111

ہوا کہ جس پر آپ ایسا کلام انشا کرتے ہیں؟ آپنے اپنی کیا آنکھ سے دیکھا ہے جو تعزیز دینے کا ارادہ ہے؟ یہ تصور آپ کا محض باطل ہے، تصدیق اس کی بہت مشکل ہے۔ یہ جو آپ نے سوچا ہے، اس شکل کا نتیجہ برا ہے۔ پہلے جا کر دیکھ لیجیے، پھر جو چاہیے وہ کیجیے اور بے دیکھے گمان بد کرنا، جلدی سے حکم حد کرنا نہ حدیث میں آیا ہے نہ قرآن مجید میں خدا نے فرمایا ہے۔"

یہ سن کر میاں جی چونکے اور بہ سرعت تمام اپنے مکاں پر پہجچے؛ دروازہ کھول درانا اندر چلے گئے۔ دیکھا بی بی نیک بخت اپنے میاں کے انتظار میں کھانا لیے بیٹھی ہے؛ میاں کی شکل دیکھتے ہی سیلابچی اور آفتابہ لے کر دوڑی آئی، ہاتھ منہ دھلا کر کھانا روبرو لائے۔ میاں جی دیکھتے ہی تعجب میں آئے اور اپنی بے وقوفی پر بہت شرمائے۔"

غرض اس داستان اور مطلب اس بیان سے یہ ہے کہ بیگم کسی کے کہے سننے پر اعتماد نہ کرنا چاہیے، جو میں کہتی ہوں اسے سچ جانو، نہیں تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے، اب دیکھ لینا کہ وہ کیا ہے۔"

صنوبر یہ سن کر چپ ہو رہی، مگر تمناے وصال ایسے صاحب جمال کی بہ درجۂ کمال ہوئی۔ طبیعت کو خواست گاری مشاہدہ صورت کی فی الحال ہوئی، دل سے مشورہ کرنے لگی کہ کسی طرح شہزادے کو دیکھا چاہیے؛ اگر فی الحقیقت خوب صورت ہے تو شکر خدا ادا کرنا چاہیے کہ اُس کی عنایت اور شفقت ہے؛ مگر پھر یہ خیال کیا کہ نکاح ہوئے کچھ دیر نہیں ہوئی ہے، لوگ ایک دم نہیں چھوڑتے، اُن کی طبیعت میرے دیکھنے سے سیر نہیں ہوئی؛ جاؤں تو کیوں کر جاؤں، اور پھر جی نہیں مانتا، اس دل کو


ریختہ صفحہ 112

کس طرح سمجھاؤں : فرد

دو گونہ رنج و عذاب ست جان مجنوں را
بلاے صحبت لیلی و فرقت لیلی

اور یہ بھی سہی کہ میں وہاں گئی، مگر کسی نے جو مجھے بیٹھے دیکھا تو وہ اپنے جی میں کیا کہے گا‘ اس کا جو چرچا ہمیشہ رہے گا، اُس وقت کیسا ملال ہو گا، مارے غیرت کے کیا حال ہو گا۔ یہ سب خام پلاؤ پکا رہی تھی، دل سے سو سو تدبیریں بنا رہی تھی کہ اُسے عشق نے ہاتھ پکڑ کر اُٹھایا، شرم و حیا کے پردہ رخ سے اُٹھایا، خضر وار اُس تشنہ کام کو آب حیواں پلانے لے چلا، زلیخاں کو یوسف کی چاہ زنخداں میںگرنے لے چلا؛ یعنی صنوبر نے ایک سہیلی دل ربا نام سے کہا کہ اے دل ربا بہر خدا شہ زادے کو کسی صورت مجھے دکھلا دے، میرے جی کا وسواس مٹا دے؛ مبادہ اندرونی کوفت میں میری جان جائے، مرض خفقان طبع نازک پر غالب آئے۔ دل ربا نے کہا "حضور میں تم پر تصدق ہوں! اگر کوئی خدمت عسیر ہو تو اُس کی بجا آوری میں نہ تاخیر ہو، یہ کون سے بڑی بات ہے؛ ابھی چلیے اور دیکھ آئیے؛ اگر ہجر کی گرمی طبع نازک پر ہو تو اُس کو شربت وصال پی کر بجھائیے، اور جو کسی کے دیکھ لینے کا پاس ہے، یہی جی کو وسواس ہے، تو اس میں کیا اجارا ہے؛ یہ کچھ چوری ہے یا چھنالا ہے؟ کچھ وہم و خہال دل میں نہ لایے، بلا تکلف چلیے، مزے اُڑائیے۔

صنوبر یہ سن کے آرام دل کی عاشق زار غائبانہ ہوئی، دل ربا کو ساتھ لے کر روانہ ہوئی۔ قدم بڑھاتے ہی عشق نے دامن اُٹھا لیا اور مثل ہما اُس ملکۂ کشور حسن کے سر پر سایہ کیا؛ نقیبوں کی طرح آواز لگانے لگا، خضر بن کے راہ بتانے لگا، صنوبر


ریختہ صفحہ 113

حور منظر شرم کے مارے گھونگھٹ نکالے، بائنچے اُٹھائے، سر جھکائے ہوئے، ایک طرف دل ربا، بیچ میں آپ خانہ برباد، دوسرے سمت عشق بد بلا اس فن کا استاد، چلی۔ یہ سامان دیکھ کر زہرہ فلک سے پکاری : شعر

خدا جانے کرے گا چاک کس کس کا گریباں کو
ادا سے چلنے میں اُ کا اُٹھا لینا یہ داماں کا!

غرض با ہزاراں کرشمۂ ناز و غمزہ و انداز رنگ محل میں داخل ہوئی، خاطر مضطر کو تسکین ہوئی، دل کی مراد حاصل ہوئی اور جس مقام پر کہ وہ دل آرام مانند مرغ نیم بسمل تھا، خراماں خراماں آئی؛ جوں ہی نظر ملائی تیغ نگاہ سے گھائل ہوئی، طبیعت اور بھی مایل ہوئی : غالب

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا سے رضامند کر گئی

دل نیاز منزل زلف پر خم کا طرہ بنا۔ تار نظر سے کمان ابرو میں چلا بندھا۔ آنکھٰن نطارۂ چشم جادو سے حیران ہوئیں۔ دیدے کی شوخی دیکھ کر حجاب آیا، پردۂ عفت میں پنہاں ہوئیں۔ سنان مژگاں سے خوب نیزہ بازی ہوئی، دلوں کے پرزے اڑے، جلاد عشق کی اچھی فتنہ پردازی ہوئی؛ شعلہ رخسار سے کاشانۂ صبر و تحمل جل گیا؛ اشکو نے جو بجھانے کا ارادہ کیا پنجۂ مژگاں آبلوں سے پھل گیا۔ لب شیریں کی تمنا میں زندگی تلخ ہوئی، بے قراری نے آرامش گاہ میں تصرف کیا، بے اختیار مضطرب ہو کر روئی، جان لبوں پر آئی۔ غنچۂ دہن کے نظارے سے عندلیب روح قفس تن میں گھبرائی، آہ سرد دل پر درد سے کھینچ کر پریشان ہوئی، اُس شکل یوسف تمثال کو دیکھ کر مانند آئینہ حیرانی ہوئی۔ بازو کو دیکھ کر


ریختہ صفحہ 114

تمنائے وصال میں شانہ بھڑکا۔ مرغ دل کو کسی قبلہ رو کی تلاش میں جو بسمل پایا اور کچھ گمان ہوا، جی دھڑکا : مصنف

یہ جو ساماں ہوئے وہاں اک بار
تبر مژگاں کے پل میں ہو گئے یار
عشق نے آن کر سلام کیا
آہ و نالے اپنا کام کیا
پاے رنگیں سے دل ہوا پامال
زلفیں چہرے پہ ہو گئیں جنجال
سر کو ٹکرایا دیکھ پیشانی
آئی پیش اُس کے تھی جو پیشٔ آنی
تھا وہاں موتیوں کا ہار پڑا
عشق یاں بھی گلے کا ہار ہوا
چشمۂ چشم تھا جو واں جاری
یاں بھی تھی آستین تر ساری
تھا جو مرغوب دل کو واں اک گل
یاں بھی دل اُس کا ہو گیا بلبل

القصہ صنوبر آرام دل کو دیکھتے ہی آرام دل کھو بیٹھی۔ اُس کی عاشق زار ہوئی، فرط محبت سے بے قرار ہوئی، بے حواس ہوئی، آگے نہ بڑھ سکی؛ یہ شعر پڑھتے ہی غش آ گیا، زمیں پر گر پڑی : خواجہ وزیر :

رکھیو سوا خط رخ رشک قمر سے دور
رہتی ہے جیسے شال الٰہی سحر سے دور!

عشق فتنہ گر نے اپنا کام کیا، معشوق کو بھی پابند آلام کیا؛ گرتے ہی دل ربا نے شہ زادی کو آغوش میں لیا، ہر چند ہوشیار کیا، مگر صنوبر نے کچھ جواب نہ دیا۔ جب تو بہت گھبرائی،


ریختہ صفحہ 115

شہزادی کو گود میں لیے ہوے شہزادے کے قریب آئی اور کہا "حضور اٹھیے، میری صاحب زادی کو لیٹنے دیجیے۔ خدا جانے آپ نے کیا جادو کیا ہے کہ میری ملکہ کا یہ۰ حال ہو گیا ہے، واہ صاحب! مصنف

دم کسی کا جو کوئی بھرتا ہے
یا کسی پر جو کوئی مرتا ہے
وصل میں کیوں جی اُس کے ساتھ بھلا
کوئی ایسی بھی بات کرتا ہے

آرام دل کہ اپنی مصیبت میں گرفتار تھا، جان سے بیزار تھ، یہ اشعار پڑھ کر اور پلنگ سے اتر کر مسند پر آ بیٹھا۔مصرع مصنف ہر بند مومن خاں مرحوم دیلوی :

ہوںمیں تو کسی ابروے خم فار کا بسمل
اک زلف مسلسل کا گرفتار ہے یہ دل
سن لے مری ضان اس میں تو کچھ بھی نہیں حاصل
اپنی تو طبیعت ہے کسی اور پہ ماہل
کچھ کام نہیں پیچ و خم زلف دوتا سے
کھایا کرے بل سیکڑوں ہی میری بلا سے

رند
بار ہے سر کہیں جدا ہو وے
اُس کا خنجر، مرا گلا ہو وے
دم نہ نکلا شب فراق میں بھی
سخت جانی ترا برا ہو وے!

دل ربا نے جو یہ باتیں سنیں، متحیر ہوئی، لیکن گھبرائی ہوئی تھی، کچھ جواب نہ دیا۔ صنوبر کو پلنگ پر لٹا کر خواصوں


ریختہ صفحہ 116

کو گرد و پیش سے ہٹا کر ڈھولنے میں سے حمائل قرآن نکال کر ہوا دینے لگی، عطر لا کر سونگھایا، چہرۂ گل برگ پر کیوڑے کا چھینٹا دیا؛ غرض سب کچھ کیا، مگر کسی چیز کا اثر نہ وہا۔ جب بوے پیرھن دال دار مشام جان تک پہنچی روح کو تازگی ہوئی، فوراً آنکھ کھول دی۔ اپنے تئیں دل دار کی جگہ لیٹے ہوئے اور محبوب کو نیچے بیٹھے ہوئےدیکھ کر ناتوانی کے ساتھ دل ربا کا ہاتھ پکڑ کر اُٹھی اور پلنگ سے اُتر کر ایک طرف بیٹھ گئی۔ مقابل ہوتے ہی آرام دل کیا، دونوں طرف سے دل مل گیا۔ آرام دل نے کہا : ناسخ

کیا بحر حسن کی ہے کمر پیچ و تاب میں
یہ پیچ و تاب کب ہے بھلا موج آب میں

یہ سن کر صنوبر کو کچھ اپنے حسن و جمال کا غرور ہوا، تیوری پر بل ڈال کر شہزادے سے آنکھ ملائی۔ اس وقت آرام دل نے عالم خیال میں اپنے یار سے مخاطب ہو کر کہا : رند

جلوۂ حسن خدا داد ذرا دکھلا دے
منکروں کو بھی صنم شان خدا دکھلا دے

یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔ دیر تک یہی صحبت رہی، صمم و بکم کی کیفیت رہی آخر صنوبر نے کہا کہ صاحب ہم تمہارے پاس آئے ہیں، تم ہم سے بات بھی نہیں کرتے؛ ہر دم دم سرد بھرتے ہو، کس پر مرتے ہو، یہ کیا آدمیت ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ حضورکے مزاج میں بڑی نخوت ہے۔ کہیے تو آپ کا مزاج کیسا ہے؟ فرمائیے تو کس واسطے حال ایسا ہے؟ شعر

کس کیط رف سے آج عبت تجھ کو پاس ہے
سچ کہہ ہمارے سر کی قسم کیوں اداس ہے


ریختہ صفحہ 117

آرام دل نے جواب دیا : صببح

کیوں آہ آہ ہم نہ کریں شب سے تا سحر
کہ تجھ کو درد ہو تیرا دل تیرے پاس ہے

اے شہزادی! بہ قول ذوق

شوق نظارہ ہے جب اے اک رخ پر نور کا
ہے مرا مرغ نظر پروانہ شمع طور کا
وادی ظلمت میں دیکھو دخل ہے کب نور کا
مہر اک شعلہ سا ہے وہ بھی چراغ دور کا
جانتی ہے جس کو خلقت شعلۂ نار جحیم
سو وہ پنبہ ہے مرے داغ دل محرور کا
دل یہ احوال ہے فرقت میں اک مخمور کی
جیسے مرجھایا ہوا دانہ کوئی انگور کا

اے شہزادی : ذوق

میں وہ مجنوں ہوں جو نکلوں کنج زنداں چھوڑ کر
سیب جنت تک نہ کھاؤں سنگ طفلاں چھوڑ کر
میں وہ ہوں گم نام جب دفتر میں نام آیا مرا
رہ گیا بس منشیٔ قدر جگہ واں چھوڑ کر
ہو گیا طفلی ہی سے دل میں ترازو تیر عشق
بھاگے ہیں مکتب سے ہم اوراق میزاں چھوڑ کر
اضطراب دل نہ پوچھ، اک مرغ نو محبوس کو
دیکھ لے پنجرےمیں اے رشک گلستاں چھوڑ کر

"اے جان جہاں! ہم ایک غیرت گل کے بلبل إہیں، ایک پری کے دیوانے ہیں، اُس کے فراق میں حواس باختہ بالکل ہیں۔ نہ سر کا ہوش، نہ پاؤں کی خبر ہے۔ درد جدائی سے حال ابتر ہے۔


ریختہ صفحہ 118

تصویر دیکھتے ہی محو حیرت ہوئے، زلف پیچاں کا خم دیکھ کر گرفتار دام محبت ہوئے، اور حال مزاج ملال امتزاج یہ ہے کہ تب فرقت کی شدت سے سینے میں درد ہر جگہ ہے؛ طبیعت مکدر ہے، بشاشت کوسوں دور ہے، ملالت کا دل پر اثر ہے، لب پر آہ سرد ہے، دل میں درد ہے، چشم بیامر کے بیمار ہیں، فرط جنوں سے گریبان صبر کے تار تار ہیں، مصنف

حال دل اشک و آہ سے پوچھو
میں غلط، دو گواہ سے پوچھو

لب گور ہیں؛ کلیجہ چھلنی ہے، دل میں ہزاروں ناسور ہیں : ذوق

آ چکی ہے سر گرداب فنا کشتی عمر
ہر نفس باد مخالف کا ہے چھونکا ہم کو

ان دنوں کچھ آپہی آپ خبط ہے، دل کو جنوں سے ربط ہے؛ بہ ظاہر تن درست ہیں، مگر دل مردہ ہے؛ گرم جوشی کرتے ہیں، مگر ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں۔ طبع افسردہ باد سموم سے پژمردہ ہے۔ اس حال ناتواں کا اللہ نگہبان ہے، دم سینے میں کوئی دم کا مہمان ہے؛ بہ قول صببح

ہچکی لگی ہوئی ہے، ہے وقت دم شماری
کیا حال پوچھتا ہے اے ہم نفس ہمارا

یہ دل کم بخت رات دن کراھتا ہے، وصل دل بر کا چاہتا ہے۔ اس کے ہاتھوں ہم اپنی جان سے عاری ہیں، تب فرقت سے رنگ فق ہے، کلیجہ شق ہے، دل میں ہزاروں زخم کاری ہیں : ذوق

یہ تو یوں مضطرب اور سینے میں لاکھوں روزن
دل کا رہنا نظر آتا نہیں اصلا ہم کو

ریختہ صفحہ 119

تبرید غم کا استعمال ہے، ناخن غم کی خراشی سے زخم دل کا عجب حال ہے : مومن مرحوم

اچھا ہوا نہ زخم دل اپنا کے ہم اُسے
ناخن سے چھیلتے رہے جوں جوں بھرا کیا

اب بغیر اُس مسیحا کے کون ایسا ہے جو میرے درد کی دوا کرے اور اس مرض لا علاج سے شفا پاسے : شعر

مرض عشق کی ملتی ہے دوا مشکل سے
ایسے بیمار کو ہوتی ہے شفا مشکل سے

ہر دم یار کا خیال د نظر ہے، اپنی کسے خبر ہے۔ قطعہ

دن کو رخ کی ضیا کی باتیں ہیں
شب کو زلف رسا کی باتیں ہیں
حال مجنون و قصۂ فرہاد
یہ مری ابردا کی باتیں ہیں

دل ربا کہ پہلے بھی شہزادے کی باتیں سن چکی تھی، یہ گفتگو اپنی شہزادی کے رو برو سن کر آگ بگولا ہو گئی، جل بھن کر کوئلہ ہو گئی، کہنے لگی "واہ واہ! دولہا میاں اُس کو میں اپنی شہ زادی کی زیڑی چوٹی پر سے قربان کروں، وہ کون بلا ہے۔ آپ کی ضان تو مفت کی ہے کہ بے دیکھے ہر ایک پر فدا ہے۔ حضور بس اس وقت ایسی باتیں نہ کیجیے؛ ایک تو میری شہزادی کا آپ ہی جی اچھا نہیں ہے، دوسرے آپ اور آگ لگاتے ہیں، دل جلاتے ہیں۔ ابھی جو اعلیٰ حضرت آپ کی یہ باتیں سنیں تو کیا کہیں!"


ریختہ صفحہ 120

آرام دل نے دل ربا کی طرف مخاطب ہر کو کہا کہ کیا ہم تیرے بادشاہ سے ڈرتے ہیں؟ کسی سے کچھ التجا کرتے ہیں؟ تجھ سے کچھ کام ہے نہ تیری ملکہ کا کوئی غلام ہے جو اس طرح نکالتی ہے، ہر گھڑی پائنچے سنبھالتی ہے۔"

دل ربا نے کہا "اگرچہ آپ شاہ ذوی الاحتشام ہیں، مگر قصور معاف ، میری شہزادی کے غلام ہیں۔ گھبرائیے نہیں، جھنجلائیے نہیں، صبح کو یہ بھی کہلا دوں گی، بلکہ ان کی جوتی بھی آپ کے سر پر چھوا دوں گی۔"

آرام دل نے کہا "ذرا زبان سنبھالو، اتنا نہ بہکو (1)، ہم سے نوک کی نہ لو ۔ ہم نے سلطنت کو پاپوش پر مارا ہے؛ تیری شہزادی کس گنتی میں ہے اور تو کیا خام پارا ہے۔ اری نادان! یہ سب تیری خیال خام ہے۔ گھڑی دو گھڑی اپنا اور قیام ہے، دم سحر تو خواب میں بھی نظر نہ آوٰن گے؛ ہم تو چراغ سحری ہیں، صبح ہوتے گل ہو جاویں گے۔ دل کا حال بجز خدا کسی پر ظاہر نہیں، کوئی ہماری حقیقت سے ماہر نہیں : شعر

کھا کے سو رہیے کچھ یہ جی میں ہے
خیریت ہے تو اسی میں ہے

حضرت اسد اللہ خاں غالب :

کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
آتش دوزخ میں وہ گرمی کہاں
سوز غم ہاے نہانی اور ہے
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) نسخہ مطبوعہ 1918ء : بہلو۔


ریختہ صفحہ 121

صنوبر یہ باتیں سن کے سُن ہوئی، دل کو خفقان ہوا، عجب طرح کی ادھیڑ بن ہوئی؛ ایک آہ سرد کھینچی اور کہنے لگی کہ ہے ہے دل ربا! بس زیادہ تنگ نہ کر، کیوں ان باتوں پر مر رہی ہے۔ اُ ن کا دل تو آپ ہی اپنے قابو میں نہیں ہے، تو کس واسطے حسرت بھری اپنے جی کے ارمان پورے کر رہی ہے۔؛ ہاں ہاں صاحب! ہم اسی لائق ہیں؛ آپ کی جانی حسن و خوبی میں فایق ہیں اور ہم نے تو فرط محبت سے، تقاضاے اُلفت سے آپ کی ملاقات کی؛ جگر کی بے قراری، جی کی بے تابی سے آپ سے بات کی۔ اگر مزاج پرسی میں دل عشق منزل رنجور ہوا تو معاف کیجیے، قصور ہوا : لغیری (1)

ہوں آپ کے کتنے ہی ستم، اُف نہ کریں گے
چپ بیٹھ کے ہم کھائیں گے غم، اُف نہ کریں گے
سر تک بھی اگر کاٹ کے پھینکو گے ہمارا
ہم آپ کے قدموں کی قسم، اُف نہ کریں گے

یہ کہہ کر رومال منہ پر رکھ کر زار زار رونے لگی، سوزن مژگاں سے تار نظر میں موتی پرونے لگی۔

آخر وہی عشق جو لیلی کو نجد میں لایا تھا اور وہی جذبہ دل جس نے یوسف کو زلیخا تک پہنچایا تھا، وہی اُلفت جس نے آرام دل کو آوارۂ وطن کیا، وہی محبت جس نے صنوبر پری کو غرق دریاے (2) رنج و محن کیا، اُنہیں سب نے یہاں بھی تاثیر دل دکھائی۔ آرام دل نے طبیعت کے روکنے کی بہت تدبیر کی، مگر کچھ نہ بن آئی، ضبط نہ ہوا، اُس کے رونے پر بے اختیار دریائے سرشک
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) نسخہ مطبوعہ 1918ء میں لا ادری ہے۔
(2) نسخہ مطبوعہ 1918ء میں بحر ہے۔


ریختہ صفحہ 122

آنکھوں سے جاری ہوا، بے خودی کا عالم طاری ہوا۔ پھر شاہ زادے نے فرمایا کہ صاحب! اس قدر کیوں روتی ہو، کیوں اپنی جان کھوتی ہو۔ وصل میں رونا تمہارا ہی کام ہے؛ یہ کیا شگون بد ہے، اس کا بڑا انجام ہے۔ میں تو تمہارے بس میں ہوں، مرغ نو گرفتار کی طرح قفس میں ہوں۔ غلام بناؤ، گالیاں دو، ہم تمہارے تابع ہیں، جو چاہو سو کرو۔ بہ قول حسن :

کبھی یوں بھی ہے گردش روز گار
کہ معشوق عاشق کے ہو اختیار

اور ہمارا تو حال روشن ہے کہ ہر وقت اشکوں سے تر دامن ہے۔ ہم تو کسی پری کے دیوانے ہیں، کسی شمع رو کے پروانے ہیں : نسیم دہلوی

ہم کہتے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے
دل تو حاضرہے ولے پژمردہ ہے

دل ربا نے دیکھا کہ صنوبر کے جذبہ دل نے اثر کیا، شاہ زادہ کچھ کچھ راہ پر آیا؛ جلدی میں جام صراحی صنوبر کے پاس لائی اور شاہ زادی کے کان میں جھک کر کہنے لگی کہ اب ذرا اپنے ہاتھ سے شراب پلائیے، یہی وقت ہے ساقی بن جائیے۔ صنوبر نے ساغر ہاتھ میں لے کر آرام دل سے کہا کہ بھلا اب جو کچھ ہوا، سو ہوا، ذرا اس میں سے دو ایک جرعے ہاتھ سے میرے پیجیے، مجھ کو ممنون منت کیجیے۔ آرام دل نے کہا : لاادری

شراب کیسی، نشہ کہاں کا، کس کے میں انتظار میں ہوں
جو میں نے پی ہے مئے محبت اُسی کے اب تک خمار میں ہوں


ریختہ صفحہ 123

کیا تکلیف ہے کہ بے آب و خورش جیتے ہیں
لخت دل کھاتے ہیں، خون جگر پیتے ہیں

یہاں آنکھوں میں ہر دم شراب محبت کا خمار ہے، جام صراحی بے کار ہے۔ اپنا تو دل مۓ عشق سے سرشار ہے۔ ایک قطرہ بھی بغیر اپنے یار کے ذہر مار ہے، بہ قول صببح :

اُٹھا کے پھینک دے ساقی تو میرے آگے سے
بغیر یار کے جام شراب کیا ہو گا

صنوبر نے کہا "یہ تو ہم خوب جانتے ہیں کہ یہاں آپ کا ناک میں دم ہے، بغکیر اُ سل نواز شاہد مست ناز کے یہ شراب آپ کے حق میں سم ہے، مگر اللہ آپ کو اُسی صنم کی قسم ہے، اسے اولش دیجیئے، اُس کی یاد میں ہامرے سامنے ایک دو گھونٹ پی لیجیے۔"

غرض آرام دل نے شاہ زادی کے اصرار سے یاد دل دار میں وہ جام پیا، پھر انکار نہ کیا۔

سبحان اللہ کیا شان کبریائی ہے کہ آرام دل یوں مزے اڑائے اور وہ نوشاہ سیاہ فام یوں ہی ناکام رہ جائے۔ صنوبر کو ادھر میلان ہو؛ مسافر خانہ بہ دوش، باختہ ہوش، وطن آوارہ کی دل داری کا سامان ہو۔ سچ ہے اس میں کسی کا کیا قصور ہے۔ آدمی بے چارہ مجبور ہے، عشق بد بلا ہے، اس باغ کی اور ہی ہوا ہے۔ سب حسن خوب شکل محبوب کے خواہشمند ہیں، حسین جہاں پسند ہیں : ناسخ

حق جمیل اور دوست رکھتا ہے جمال
خوب رویوں سے محبت خوب ہے

خوب صورت کو اپنے ہم سر کی تلاش ہے، یہی بات ہر دم


ریختہ صفحہ 124

جاں خراش ہے۔ پری کو آدم زاد سے نفرت ہے۔ آئینے کو غبار سے کدورت کی صورت ہے۔ شاخ گل پر یہ جاے بلبل قمری کی بیٹھنا بار ہے۔ سرو پر بلبل کا چہچہے کرنا ناگوار ہے۔

القصہ صنوبر نے شاہ زادے سے نام و نشان اور وجہ سفر بہ اصرار تمام پوچھا؛ اُس وقت آرام دل نے اپنا احوال صنوبر سے بالتفصیل بیاں کیا اور کہا : فرد

گردش تقدیر، بخت نارسا لایا یہاں
اے صنم اب یاد رکھو ہم کہاں اور تم کہاں

صنوبر جو اس کیفیت سے باخبر ہوئی بادۂ غفلت کا نشہ ہرن ہوا، مضطر ہوئی، گھبرا کر دل ربا سے کہنے لگی "کیوں، ہم نے جو پہلے کہا تھا، وہی ہوا یا تمہارا کہنا صحیح ہوا۔ پرھ ایک آہ سرد بہ صد حسرت و یاس سینۂ سوزاں سے کھینچی اور رو کر کہنے لگی : درد

سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس دم گھبرا گیا

اے شاہ زادے! افسوس، تجھ سا شیریں گفتار ہم سے ہم کنار نہ ہو تو دل ہجوم غم و الم سے کیوں کر بے قرار نہ ہو! اب آپ اُدھر تشریف لے جائیں گے، لوگ ہمیں اُس موذی کے پھندے میں پھنسائیں گے۔ مرغ نو گرفتار کے مانند قفس تنہائی میں پھڑک پھڑک کر مر جائیں گے : خبر

کنچ خانہ ہے وہی پھر وہ اندھیری شب ہے
پھر وہی ہم، وہی تنہائی، وہی یا رب ہے

دل ربا نے کہا "بیگم ایسا نہ گھبراؤ، اتنا غم نہ کھاؤ؛ دیکھوں تو حضرت شاہ زادۂ عالم کیوں کر جاتے ہیں اور وہ سیاہ فام


ریختہ صفحہ 125

کیا رنگ لاتے ہیں۔ " صنوبر نے کہا "اے دل ربا بہ قول جرأت :

نہ ساماں ان کے رہنے کا نہ کچھ امید طالع ہے
دل بے تاب کو کس منہ سے کہیے ٹک تحمل کر

صنوبر کی آہ و زاری اور اُس کی بے کسی اور بے قراری سے آرام دل کا آرام دل گیا، کمال صدمہ ہوا، اپنا سا بے قرار پایا، اپنے اوپر قیاس کیا، بے چین ہو گیا، آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور صنوبر سے فرمایا یہ میں تمہارا ہر طرح فرماں بردار ہوں؛ خوشی تمہارے مجھے بہ دل منظور ہے، مگر کیا کروں اس دل سے ناچار ہوں۔ تم ہی ذرا خیال کرو المرء یقیں علی انفسہ اپنا سا دل اور بھی کا دل سمجھو، تھوڑے دنوں اپنی خدمت سے معاف کرو، اعتبار نہیں ہے تو مجھ سے حلف اُٹھواؤ، جسی چاہو قسم لو : فرد

میرے کہنے کا نہ باور ہو نوشتہ لے لو
ضامن انساں کے عوض چاہو فرشتہ لے لو

صنوبر نے رو کر کہا "اے شہزادے! تجھے سے یہ امیدنہ تھی کہ آتش محبت سینے میں بھڑکا کر حرف مہجوری زبان پر لائے گا، شعلۂ رخسار دکھا کر آتش ہجراں میں جلائے گا؛ افسوس! میر تقی مرحوم

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے تری دل کو سو پتھر نکلا

یہاں یہ راز و نیاز، سوز و گداز کی باتیں ہو رہی تھیں کہ مشاطۂ صبح نے پیشانیٔ عروس شب پر سہرۂ تار شعاعی باندھا اور


ریختہ صفحہ 126

نوشاہ ماہتاب نے مقنع حجاب کا رخ انور پر ڈالا۔ دل ربا نے کہا "حضور! دیکھیے سحر ہوئی، مگر آپ کو یوں ہی روتے ہوئے بسر ہوئی؛ چلیے یہاں بیٹھنا مناسب نہیں، محل میں آپ کی تلاش ہو گی۔" یہ سن کر صنوبر آرام دل سے رخصت ہونے لگی اور کہنے لگی کہ اے شہ زادے! بہر خدا مجھ کو اپنے جی سے نہ بھلانا، میری بے کسی پر نظر کرنا، پھر آنا؛ نہیں تو یاد رہے کہ ہم اپنے جی سے گزر جائیں گے۔ آپ کو بھی خبر ہو گی تو آپ بھی افسوس کریں گے، پچھتائیں گے۔ ہائے ہم پر وہ مصیبت ہے کہ خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے! سنتے ہیں کہ قیامت آئے گی، مگر ہمارے واسطے آج ہی قیامت ہے :

حضرت نواب اسد اللہ خاں غالب

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے، لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

کیا کروں پاس عزت اور والدین کی اطاعت فرض ہے، ورنہ تمہیں اپنے پاس سے اک دم جدا نہ ہونے دیتے۔ اگر تم نہیں مانتے تو خود ہم راہ چلتی، مگر اپنے دل پر جدائی کے صدمے نہ ہونے دیتی۔

آرام دل نے صنوبر سے اپنے پھر آنے کا وعدہ کیا اور عہد و پیمان کیا، بہت سمجھایا، قرآن درمیان کیا۔ صنوبر نے کہا "اچھا اب تمہار خدا حافظ اور نگہ بان؛ علی کی حمایت، نبی کی امان!


ریختہ صفحہ 127

دل آپ کے حوالے کیا اور آپ کو خدا کو سونپا۔ یہ ہمارے یاد دلاتا رہے گا، اپنا قصہ سنا کر غم و الم خاطر مبارک سے بھلاتا رہے گا، مگر : میر

دل کی کچھ قدر کرتے رہنا تم
یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا

یہ کہہ کر زار زار روتی ہوئی دل ربا کے ساتھ چلی گئی اور موتی محل میں داخل ہوئی۔

صنوبر کے جاتے ہی یاد دل دار نے شہ زادے کو پھر پلنگ پر گرایا، جس قدر ہنسے تھے اُس سے دو چند رلایا۔ نسیم سحر جو چلی، یہ رات کا جاگا ہوا انگڑائیاں لینے لگا۔ فلک تفرقہ پرداز نے اپنا کام کیا، یعنی آرام دل نے خیال جاناں میں آرام کیا۔


ریختہ صفحہ 128

4
لے جانا اُن پریوں کا آرام دل کو پھر اسی بیابان میں اور روانہ ہونا اُس آرام دل و جان کا تلاش ملک جاناں میں، سیر باغ بہشت نزاد کی اور ملاقات ملکہ سیم تن پری زاد کی

بس اب ساقیا جلد بیدار ہو
ذرا خوب غفلت سے ہشیار ہو

پھر اک جام ہی اور پلا دے مجھے
بہار گلستاں دکھا دے مجھے

شہ سواران عرصۂ داستان، و رہ نوردان کوچۂ بیانان اشہب جہندۂ قلم کو میدان صفحۂ قرطاس میں یوں جولان کرتے ہیں کہ جب صبح قریب ہوئی صنوبر مضطر کو فرقت دل دار نصیب ہوئی۔ لال پری اور سبز پری کہ اُس وقت تک مصنوعی ملازم سرکار تھیں، محفل میں سرگرم کاروبار تھیں، آرام دل کو تلاش کرنے لگیں۔ رنگ محل میں جو آئیں تو دیکھتی کیا ہیں کہ شہ زادہ ایک ضواہر نگار پلنگڑی پر جوانی کی امنگ مین شبنم کو دوپٹا تانے سو رہا ہے۔ ناتوانی پاؤں دبا رہی ہے، نسیم سحری کا پنکھا ہو رہا ہے۔ پریوں نے شہ زادے کو غافل پر کر (1) اُسی تخت پر آہستہ سے لٹایا، جس کروٹ سوتا تھا، اُسی کروٹ سلایا؛ پھر آپ سوار ہوئیں اور تحت کو کے اڑیں۔ اثناء راہ میں دفعۃً آرام دل کی آنکھ کھلی؛
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) نسخہ مطبوعہ 1918ء میں ‘کے‘ ہے۔


ریختہ صفحہ 129

پریوں پر نظر پڑی؛ سمجھا کہ سب انہیں کی جعل سازی اور شعبدہ بازی ہے؛ خوف سے پھر آنکھیں بند کر لی۔ پریاں جہاں سے آرام دل کو لائی تھیں، وہاں جا پہنچیں۔ شہ زادے کو اُسی زین پوش پر لٹا کر آپ اور طرف روانہ ہوئیں۔ یہاں شہ زادے نے آنکھ کھولی، دیکھا کہ گھوڑے تیار کھڑے ہیں اور محمود کسی کی جستجو میں زار زار روتے ہیں، جان سے بیزار کھڑے ہیں۔ ذرام دل نے محمود کو پکارا، وہ شہ زادے کو دیکھ کر دیوانہ وار دوڑا۔ دیکھا کہ شہ زادے کے ہاتھ پاؤں میں مہندی لگی ہے، گلے میں پھولوں کی بدھی پڑی ہے، پوشاک شاہانہ زیب بدن ہے، ہاتھ میں کنگنا بندھا ہے، عطر کی خوشبو سے جنگل غیر گلشن ہے، متحیر ہو کر پوچھنے لگا "حضور! خدا کے واسطے بتائیے کہ آپ کہاں تشریف لے گئے تھے؟ مجھے داغ مفارقت دے گئے تھے۔ فرمائیے تو یہ کہاں مزے اُڑائے؟ کیا رات بھر میں ملکہ حسن افروز سے شادی کر آئے؟"

آرام دل نے تمام ماجرا ابتدا سے انتہار تک محمود سے بیان کیا۔ صنوبر کی آہ و ازری اور بے قراری کے ذکر میں اشکوں سے تر داماں کیا۔ محمود نے کہا "حضور مبارک ہو! شگون اچھا ہوا، لیکن جب خداودند کریم آپ کے مطالب پر لائے، روز فراق کٹے، شب وصال کی سحر آئے، اُس وقت اپنے عہد و پیمان کے مطابق کیجیے گا، اس سوختہ فراق کو کہین دم نہ دیجیے گا۔" آرام دل نے کہا "اے محمود : فرد

میسر ہو وصال یار ہم کو
بھلا ایسی کہاں تقدیر میری

ہاں اگر خدا مجھ کو در دل دار تک پہنچائے گا، میرے جی کا مقصد بر آئے گا، تو ان شاء اللہ تعالٰی ایفائے وعدہ کروں گا، اپنے


ریختہ صفحہ 130

قول پر ثابت رہوں گا۔" یہ کہہ کرگھوڑے پر سوار ہوا، رہبر محمود وفادار ہوا۔

ایک روز چلتے چلتے دوپہر کے وقت آرام دل شدت گرمی سے آب آب ہو گیا؛ تمازت آفتاب کی تاب نہ لا سکا، بے تاب ہو گیا۔ اتفاقاً اُس بیابان میں ایک باغ کا دروازہ نظر آیا، شہ زادہ گھوڑے سے اُتر آیا؛ محمود سے فرمایا کہ اس وقت گرمی کی بڑی شدت ہے، مارے پیاس کے بری حالت ہے، چلو اس باغ میں جی بہلائیں، تھوڑا پانی پی کر تشنگی بجھائیں۔"

محمود نے کہا کہ حضور اس رہ گزر، دشت پر خوف و خطر میں خدا جانے کس نے یہ باغ بنوایا ہے، کون اس کا مالک ہے، کس نے اسے تعمیر کروایا ہے؟ جلد یہاں سے گزر کرنا چاہیے؛ آپ کو ابھی مسافت بعیدہ طے کرنی ہے، ایسے ایسے مقاموں سے حذر کر چاہیے : سعدی

در بیشہ گماں مبر کہ خالی ست
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد

اور جو تشنگی غالب ہے، دل فردوس منزل پانی کا طالب ہے تو آگے آبادی کا نشاں ہے، بستی کا گماں ہے وہاں چل کر مقام کیجیے گا، کھانا کھائیے گا، پانی پیجئے گا۔ؔ

غرض محمود نے ہر چند دم دیا، سمجھایا، مگر شہ زادے کے مطلق خیال نہ آیا؛ بے تکلف باغ میں داخل ہوا۔ محمود نے ساتھ نہ چھوڑا، قدم اندر رکھتے ہی دروازہ باغ کا بند ہو گیا؛ محمود نے آرام دل کو جھک کر سلام کیا اور کہا کہ شہ زادے! دیکھ، آگے نہ جا؛ اب بھی پھر چل، جو ہونا تھا سو ہوا :


ریختہ صفحہ 131

حافظ شیرازی علیہ الرحمۃ۔

نصیحت گوش کن جاناں کہ از ضان دوست تر دارند
جوانان سعادت مند بند پیر دانا را

آرام دل نے کہا کہ محمود عیاذاً باللہ بڑھاپے میں تو تیری عقل ماری گئی ہے؛ مجھے بھی کیا خفقان ہوا ہے، تیرے کہنے سے ایسی سیر چھوڑوں، اس فضا کی جگہ سے منہ موڑوں۔ محمود نے کہا "بہت خوب! چلیے اور تماشے دیکھیے" آرام دل آگے بڑھا، دیکھا کہ باغ بہت عمدہ ہے۔ ہر روش پر سبزۂ نو دمیدہ سے فرش زمردیں بچھا ہوا ہے۔ ہر درخت اپنے اپنے موقع سے لگا ہوا ہے۔ ایک طرف تختۂ یاسمن شاہدان سیم تن کی یاد دلاتا ہے، مقابل اُس کے لالہ زار اپنے سینۂ بے کینہ پر ہزاروں داغ کھاتا ہے۔ ایک طرف نرگس شہلا بلبلوں سے آنکھ ملا رہی ہے، ایک جانب سنبل زار اپنے بل میں آپ ہی پیچ و تاب کھا رہی ہے۔ کہیں نافرمانی کی شوخی پر صبا نے مارے طمانچوں کے منہ نیلا کر دیا ہے، کسی جگہ نیرنگ ساز عشق نے گل اشرفی کا رنگ زرد کیا ہے :

نظم
گلوں پر اس روش سے پیچ سنبل
کہ جیسے عارض ضاناں پہ کاکل
ہر اک سو جلوہ گر تھے سر و شمشاد
کہ جیسے جمع ہوں خوش رو پری زاد
تر و تازہ بنفشہ اور ریحان
بہ رنگ خط مسکیں، عنبر افشاں
بہ رنگ چشم فتاں چشم نرگس
بہ از چشم غزالاں چشم نرگس


ریختہ صفحہ 132

اور مرغان خوش الحان کی صدا، بلبلوں کے چہچہے جا بہ جا۔ باغ کے چاروں کونوں پر چار برج ہم سر گردون دوار، اُن میں جھرنا جاری، ساون کی بہار، وسط باغمیں ایک تالاب، بیچ میں اُس کے برج عقیق یمنی کا صد ہا لعل بے بہا اور ہزار ہا در یکتا جڑا ہوا۔ فرش اطلس و کمخواب سے مزیب، سجا سجایا، اسباب ضروریات سے مرتب۔ یہ کیفیت دیکھ کر آرام دل کہا : مرزا بے دل

خوش ست سیر و لیکن دل و دماغ کجا ست
دل از گلے کہ تسلی شود بہ باغ کجا ست

پھر آگے بڑھا؛ ایک بارہ دری سنگ مرمر کی نظر آئی؛ زربفت کے پردے، گنگا جمنی چلمنیں، سرخ اطلس کا شائبان کھچا ہوا، نیچے اس کے ایک تخت سنگ مرمر کا بہت عریض و طویل بچھا ہوا، مگر فرش و فروش کے تکلف سے مبرا، جوں صفحۃٔ قرطاس معرا۔

آرام دل بارہ دری کے اندر گیا؛ دیکھا ہر ایک دالان رفیع الشان، ہم سر آسمان انجم شیشۂ آلات سے آراستہ ہے؛ یاقوت، ہیرال نیلم، پکھراج، زمرد، لعل بدخشاں سے ہر در و دیوار پیراستہ ہے۔ نقش و نگار میں ہر سنگ غیرت ارژنگ، گل اور بوٹے کی صفائی پر عقل مانی و بہزاد کی دنگ۔ گل دستہ ہاے گلاب طاقوں پر قرینے سے دھرے ہوئے، شیشہ ہائے شراب کشتیوں میں مئے انگور سے بھرے ہوئے، مسند زرنگار گرد اُس کے ملک در شہوار صدر دالان میں بچھی ہوئی؛ ایک طرف پلنگڑی مرصع پر شبنم کی چادر کھنچی ہوئی؛ عطر دان، پان دان، خاص دان طلائی کشتیوں میں اپنے اپنے موقع سے رکھے ہوئے؛ دواوین اور قصہ ہائے دل چسپ و یادگار زماں کتاب دانوں میں چنے ہوئے، یہ سب سامان تھا، مگر کسی


ریختہ صفحہ 133

انسان کا کہیں نام نہ نشان تھا۔ آرام دل بارہ دری کی تیاری دیکھ کر ششدر ہوا، ایسے باغ دل کشا و مکان اعلیٰ کو خالی دیکھ کر متحیر ہوا۔ وہ سبزہ زار بغیر دل دار دل و جگر میں نشتر ہوا۔ تھوڑی دیر ادھر اُدرھ کی سیر کر کے عازم سفر ہوا اور شعر پڑھا : شعر

سیر کی، خوب چنے پوھل، بہت ساد رہے
باغ باں جاتے ہیں گلشن ترا آباد رہے

پھر گھوڑے پر سوار ہو کر تا در باغ آیا، دروازے کو اُسی طرح بند پایا، ہر چند زور کیا، مگر نہ کھلا؛ جب تو بہت گھبرایا۔ محمود سے فرمایا کہ دروازہ کھولنے کی جلد تدبیر کرو، اب نہ تاخیر کرو۔ محمود نے کہا "حضور میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ آپ ایس سیر پر لعنت ہزار بار پڑھیے، اس باغ کے گل و بوٹے کو بد تر از خار سمجھیے، آگے نہ بڑھیے؛ مگر آپ نے نہ مانا، جو میں سمجھا تھا، وہی سامنے آیا۔ اس وقت میں کیا کروں، کہاں جاؤں، کس سے التجا کروں؟ مگر ہاں کسی کو تلاش کرنا چاہیے، یوں ہی بے آب و دانہ اور بے گور و کفن نہ مرنا چاہیے۔"

الغرض آرام دل اور محمود چار طرف سراسیمہ و حیران اُس باغ کے باغ بان کی جستجو کرنے لگے، راہ ظلمات میں خضر کی تلاش چار سو کرنے لگے۔

آخر اسی دوا دوش میں قریب وقت شام آیا، مگر کہیں انسان کا نشان بھی نہ پایا۔ جب شہ زادے نے دیکھا کہ اب کہیں گریز کی راہ نہیں، کیا کیجیے کوئی مقام پناہ نہیں، سمجھا کہ پیمانۂ عمر شراب حیات سے معمور ہوا، یہیں تک کی زندگی تھی۔ رنج و الم،


ریختہ صفحہ 134

صدمہ درد کہ ہر وقت ہم درد تھا، شکر خدا کہ دل سے دور ہوا، مگر افسوس کہ وصال یار کی دل میں حسرت ہے، آئینۂ دل میں کدورت ہے : حضرت اُستاد غالب

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
پھر بے خودی میں بھول گیا راہ کوئے یار
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں

آخر ناچار وہ دل فگار اور محمود غم گسار ایک درخت کے نیچے مایوس، غم و الم سے مانوس ہو کر بیٹھے، آرام دل جب بہت بے قرار ہوا تو یہ فرمایا اور اشک بار ہوا : مصنف

فرقت میں اب لبوں پر مری جان زار ہے
آ اے اجل کہ تیرا فقط انتظار ہے

القصہ دونوں اُسی درخت کے نیچے بیٹھے رو رہے تھے، رہائی کی فکر میں غلطاں پیچاں ہو رہے تھے کہ ایک طوفان عظیم نمودار ہوا؛ سیاہ آندھی اُٹھی، گردش میں گردون دوار ہوا۔ دفعۃً وہ باغ اور مکان ہلا اور ہوا کے زور سے آسمان کی طرف چلا۔ یہ سانحہ دیکھ کر محمود گھبرایا، آرا م دل نے آنکھیں بند کر لیں، غشی کا عالم ہوا، کلیجا تھرا گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ باغ پھر رو بہ زمین دامن کوہ قاف میں جاگزیں ہوا۔ شاہ زادے نے آنکھ کھولی، دیکھا وہی مکان اور باغ ہے، مگر صدھا دیو پری زاد (1) اپنے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔ کوئی روشنی کی تیار کر رہا ہے، جھاڑ فانوس میں لال سبز بتیاں لگاتا ہے؛ کوئی فرش درست کرتا ہے، کوئی دیوار گریوں پر کنول چڑھاتا ہے۔ دیو غل مچاتے ہیں؛ کودتے، اُچھلتے، میوے کھاتے ہیں۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) نسخہ مطبوعہ 1918ء : دیو پری زادے کہ اپنے اپنے کاروبار میں۔


ریختہ صفحہ 135

آرام دل کو جو حواس آئے نظر بچا کر محمود کو روش سے ایک تختے میں گرا دیا اور خود یہ چالاکی ایک درخت پر چڑھ گیا، دیکھا کہ پہلے چند پری زاد شیشہ ہاے ھلاب لے کر آئے اور تخت سنگ مرمر جو بارہ دری کے صحن میں بچھا ہوا تھا، اُس پر وہ گلاب چھڑکا؛ پھر فراشوں نے آ کر اُس پر فرش بچھایا، جا بجا پھولوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ ایک سمت صدر میں مسند تکیہ لگایا۔ خواصوں نے کشتیاں شراب ناب کی رکھیں۔ قریب اُس کے قابیں گزک اور کباب کی رکھیں۔ شاہدان دل نواز اور مطربان خوش آواز آ کر جمع ہوئے، اپنے اپنے ساز درست کرنے لگے۔ تمام دیو اور پری زاد اپنے اپنے موقع اور مراتب سے جا بہ جا دست بستہ کھڑے ہوئے، منتظر آمد سواری چھوٹے بڑے ہوئے کہ دفعۃً ایک تخت رواں ہم راہ اُس کے ہزارہا پریاں آسمان پر سے صحن باغ میں نازل ہوا؛ اُترتے ہی سب پریوں نے گھیر لیا۔ چاروں طرف ے صداے بسم اللہ بلند ہوئی، طبیعت ہر ایک کی خرسند ہوئی۔ اس تخت پر سے ایک پری نہایت کم سن از سر تا پیر جواہر میں جڑی بڑے ناز سے اُتری :

مثنوی
ناز و انداز خوب کرتی ہوئی
چلی ہر گام گل کترتی ہوئی
جو نہیں اُس نے اُٹھائی رخ سے نقاب
کھل گیا قصر حسن کا اک باب
سب کو دھوکا ہوا کہ چاند ہوا
چاند بھی دیکھ اُس کو ماند ہوا
سرخ رخسار جب نظر آیا
لالے نے داغ رشک سے کھایا

القصہ اُس بلقیس ثانی نے تخت پر جلوس فرمایا، بزم عشرت کو


ریختہ صفحہ 136

غیرت کاشانۂ عروس بنایا۔ زمرد پری کا طائفہ کھڑا ہوا، ناچ گانے کا سماں بندھا۔ اُس وقت اُس شہنشاہ حسن و خوبی نے اپنی خواصوں سے ارشاد کیا کہ ہمارا مہمان کہاں ہے؟ جلد جاؤ اور ہاتھوں ہاتھ لاؤ؛ دیکھو تو اس پرستان کا سلیمان کہاں ہے؟" یہ سنتے ہیں پریوں کو اُس یوسف ثانی کی تلاش ہوئی، بڑی جستجوے جاں خراش ہوئی؛ آخر جہاں شاہ زادے کو دیکھتے ہی بہ فراست دریافت کر گئیں کہ بے شک یہی شخص ہمارے شاہ زادی کا مہمان ہے، ورنہ آدم زاد کا اس مقام میں گزرنا کیا مجال ہے، کیا جان ہے! یہ سمجھ کر جلد تر آرام دل کو اُس درخت سے اُتارا، زیر قدم آنکھوں کا فرش بچھایا؛ مثل گل بازی ہاتھوں ہاتھ اُس گل بدن کو بہ تعظیم تمام انجمن میں لا بٹھایا :

مثنوی
نظر آیا جب وہ مہ چار دہ
اُٹھی پیشوانئ کو وہ رشک مہ
کہا "آؤ صاحب! بس اب کیا ہے دیر
کرو اپنے دیدار سے مجھ کو سیر
رہی آج تک میں بہت خستہ حال
پریشان و حیران، سرگشتہ حال
مگر خوش ہوا اب دل بے قرار
کرو شکر احسان پروردگار
توقف اگر اور ہوتا کہیں
تو میں آپ لاریب آتی وہیں"
یہ کہہ اور جلدی پکڑ اس کا ہاتھ
برابر بٹھایا اُسے اپنے ساتھ
 

مقدس

لائبریرین
181


غم نگر ہوا۔ دریائے محبت جوش میں آیا، شہزادے کے جذبۂ دل نے خوب اثر دکھایا۔ شعر

خون رگ مجنوں سے نکلا فصد ليلى نے جو لی
عشق میں تاثیر ہے پر جذب کامل چاہیے

خیال مژگان یار کا دل میں نشتر جو چبها، آنکھوں سے خون کی ندی بہنے لگی؛ بے تابی دل کو بہت ضبط کیا مگر نہ رہ سکی، رو کر کہنے لگی: مصنف

دل کسی شوخ پہ آیا ہے خدا خیر کرے
بے جگہ اس نے پھنسایا ہے خدا خیر کرے

خواب میں جس کا نہ آیا تھا کبھی مجھ کو خیال
وہ ان آنکھوں نے دکھایا ہے خدا خیر کرے

دیکھ تصوير تری اے مہ اوج اقبال
اور عالم نظر آیا ہے خدا خیر کرے

اب تو یہ حال ہے، کیا ہوئے گا آگے آگے
دل میں یہ خوف سمایا ہے خدا خیر کرے

بیٹھے بٹھلائے سخن عشق قیامت زا نے
ایک اندهير مچايا ہے خدا خیر کرے

محمود سے کہنے لگی کہ "برائے خدا سچ بتا، یہ کس کی تصویر ہے؟ تجھے میرے سر کی قسم جلد كہہ، یہ کون شہنشاه حسن اور سپہر خوبی کا ماه منیر ہے؟ نہیں تو دل سوز عشق سے موم کے مانند پگھل جائے گا، یاد رکھنا کہ ابھی دم نکل جائے گا۔" محمود نے اپنے جی میں کہا کہ نشانہ تو کارگر ہوا، شہزادے کے عشق کا اس کے دل پر اثر ہوا، مگر ایسا نہ ہو یہ راز افشا ہو جائے، جلد اس کو تسکین دو، مبادا کوئی فتنہ برپا

182

ہو جائے۔ شعر

عشق اور مشک چھپانے سے نہیں چھپتا ہے
بر سر راه ہی پٹتا ہے ڈھنڈورا ان کا

یہ سمجھ کر کہنے لگا "حضور! یہ کیا غضب کرتی ہیں، رنج و الم بے سبب کرتی ہیں۔ رونے دھونے کو موقوف کیجیے اور ذرا دو باتیں میری سن لیجیے۔"
شہزادی نے کہا "اے محمود!
عشق میں اپنی جان کھو بیٹھے ابھی کیا روئے اور روئیں گے ہم یہاں تو چشمه چشم سے دریا بہتا ہے، تجھے اس بات سے کیا مطلب، تو اپنا قصہ کہہ، کیا کہتا ہے؟"

محمود نے کہا "حضور! یہ تصویر آرام دل خلف شاه چین کی ہے؛ جس کے دیکھنے سے ماه چہار دہم اپنی پیشانی پر داغ ندامت اٹهاتا ہے، یہ شبيہ اس نازنین زہرہ جبین کی ہے۔ فرد
تو بلقیس ہے گر، سلیاں ہے وه
تو زہره ہے گر ماه تاباں ہے وہ
یہ سن کے زیادہ تر بے تاب ہوئی، بقول شخصے:

گفتگو یار بھی دیدار سے کچھ کم نہیں
آرزوئے وصل، وصل یار سے کچھ کم نہیں

اور کہنے لگی کہ "محمود! تجھ سے کس بات کا پرده ہے، واسطے خدائے لا يزال کے يہاں چلا آ، اس کے حال سے مجھے اچھی طرح آگاہ کر اور سرگزشت اپنی کہہ سنا۔"
محمود اندر گیا، ملکہ نے محمود کی صورت دیکھتے ہی اک آه سینہ سوزاں سے بھری اور رومال سے آنسو پونچھ کر کہنے لگی کہ "محمود! بہر خدا جلد بتا کہ وه شہزاده کہاں ہے جس کی یہ

183

تصویر ہے؟ دل اب قابو میں نہیں، ہر دم اندوه كثير ہے۔
مصنف

خدا کے واسطے اس کا پتا بتا قاصد
کہاں ہے وه مہ تاباں پتا بتا قاصد

محمود نے کہا "حضور! اس آہ و زاری بے قراری سے تو کام نہ نکلے گا۔ اگر کوئی دیکھ لے گا، میرے واسطے ضرر جان کا خطر ہے، اس سے یہی بات بہتر یے کہ ذرا آپ دم لیجیے، مبادا کہیں دشمنوں کو صدمہ پہنچے، ایسا نه ستم کیجے۔ جو میں عرض کروں اسے پہلے سنیے، صحرائے بے خودی میں تنکے نہ چنیے۔"
غرض محمود نے سب حال، اپنا ملک چین میں جانا، آرام دل سے ملاقات کر کے تصوير ملكہ دکھانا، پھر شہزادے کا عاشق ہو کر دیوانہ وار طلب وصال میں آواره ہونا، سب عیاں کیا مگر صنوبر شہزادی اور سیم تن پری کے حال کو مصلحتہ بيان نہ کیا اور کہا کہ شہزادہ ایک ساحرہ کے پیچ میں آ گیا ہے، دیکھیے خدا کب اس مکار عورت، قحبہ روزگار سے اس کو نجات ديتا یے، بے طور چکمہ کهایا ہے۔

ملکہ حسن افروز شراب محبت سے ایک تو سرشار ہو رہی تھی، اس حال کو سن کر اور بھی مدہوش ہو گئی، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے، یہ اشعار پڑھتے پڑھتے بے ہوش ہو گئی:
حضرت اسد اللہ خاں غالب
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کے مانند گویا جل گیا

دل میں ذوق وصل یاد یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا


184

محمود نے جلدی سے گلاب کیوڑا چھڑکا، ہوش میں لایا۔ ملکہ حسن افروز نے آنکھ کھولی اور فرمایا: جرأت

حال یہ کچھ تو ہے اب دل کی توانائی کا
کہ یہ طاقت نہیں لوں نام شکیبائی کا

محمود ہاتھ جوڑ کر قدموں پر گر پڑا اور بولا کہ "حضور! واسطے خدا کے ایسا رنج وغم نہ کھائیے، یہ کیا غضب ہے، اس طرح صدمے نہ اٹھائیے۔ دیکھیے پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں کہ ايسا نہ ہو كہ کہیں رفتہ رفتہ شاه کو خبر پہنچے؛ دوست دشمن ہر جگہ ہیں، دیوار ہم گوش دارد، میری جان مفت جائے، آپ کا کیا نقصان ہو، بیٹھے بٹھائے مجھ پر آفت آئے۔ اب توقف کیجیے، دل کو تسکین دیجے۔ دیکھیے تو میں کیا کرتا ہوں اور کیا تماشا دکھاتا ہوں، پھر وادی تلاش میں قدم دھرتا ہوں، بحول الله المستعان، تھوڑے عرصے میں محبوب کو پہلو میں بٹھاتا ہوں۔"
یہ سب باتیں عشق انگیز اور فتنہ خيز ہو رہی تھیں کہ ملکہ کی مانی، جس نے اسے دودھ پلایا تھا، دالان میں آئی۔ اس کو دیکھتے ہی محمود کی روح بدن میں تھرائی۔ ہوش جاتے رہے، سکتے کا عالم ہوا¹، ملکہ حسن افروز کو بھی اپنی رسوائی کا غم ہوا۔ مانی نے شہزادی سے کہا "بیگم! یہ کیا حال ہے، اس طرح سر جھاڑ منہ پھاڑ کیوں بیٹھی ہو، جی تو بحال ہے؟"
ملکہ نے آنکھیں نیچی کر لیں اور کچھ جواب نہ ديا: مصرع

منہ سے نہ كچھ کہا مگر آنسو نکل پڑے

1 نسخه مطبوعہ 1918ء میں لفظ "ہوا" نہیں ہے۔


185

مانی پہلے ہی سب حال پردے کے پاس کھڑی ہوئی دیکھ سن چکی تھی، مسکرا کر کہنے لگی کہ "بیگم! میں سب حال سن چکی ہوں، مجھ سے راز دل نہ چھپاؤ، کچھ بات کرو، يوں ہی ناحق گھٹ گھٹ کر اپنا دل نہ کڑھاو، مجھے تمہارے سر کی قسم میں کسی سے نہ كہوں گی، تم مجھ سے اپنے دل کی بات تو کہو، حتی الوسع کوشش میں رہوں گی۔ جب بہت تنگ کیا تو ملکہ حسن افروز نے کہا "جیا! : جرأت

پوچھو نہ کچھ سبب میرے حال تباہ کا
الفت کا یہ ثمر ہے نتيجہ ہے چاه کا
تشبیہ کسی مزے سے میں لذت کو اس کی دوں
کچھ دل ہی جانتا ہے مزا دل کی چاہ کا

اے مانی! میں کیا حال بیان کروں اور تمہیں اس بات کا کیا جواب دوں: مصرع

دل من داند و من دائم و داند دل من۔"

یہ کہتے ہی بے خود ہو گی۔ دل بھر آیا، زخم جگر ابهر آیا، مانی کے گلے لگ کر خوب روئی کہ پھر غش آ گیا۔ ددا نے جھنجھلا کر کہا کہ "لڑکی! نہ کچھ کہتی ہے، نہ سنتی ہے، ناحق رو رو کے آپ کو ہلاک کرتی ہے، جان کھوتی ہے۔" غرض بہ ہزار دشواری پھر ہوش آیا، پھر مانی۔ پوچھا، پهر یہی فرمایا:

مصرع
دل من داند و من دانم و داند دل من

محمود نے جو دیکھا کہ ددا خیر خواه معلوم ہوتی ہے اور حال بھی سن چکی ہے، کہنے لگا صاحب! میں بڑی دیر سے بک رہا ہوں، سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا ہوں کہ حضور واسطے خدا


186

کے چندے صبر کیجیے، میں ابھی پھرتا ہوں اور جس طرح ہو سکتا ہے، شہزادے کو لاتا ہوں، مگر یہ میری بات مطلق نہیں مانتی ہیں، وعده کرتا ہوں مگر جھوٹ جانتی ہیں۔" مانی نے کہا: ع

اے باد صبا ایں ہمه آورده تست

اے محمود! تو نے بڑا غضب کیا که شیزادی کو گرفتار
رنج و تعب کیا۔ اب دیکھیے وه شہزاده کس گھڑی يہاں آتا ہے اور میری لڑکی کے دل سے یہ غم و الم کب جاتا ہے۔" محمود نے کہا "جيا! تم کیا کہتی ہو، بیگم صاحب کچھ اپنی زبان سے کہیں اور مجھے رخصت کریں۔ دیکھو تو میں ابھی جاتا ہوں یا نہیں اور چھ مہینے کے عرصے میں شہزادے کو یہاں لاتا ہوں یا نہیں۔"
یہ سن کر ملکہ حسن افروز نے آنکھ کھولی اور نہایت ضعف اور ناتوانی سے مانی کی طرف دیکھ کر بولی کہ "دیکھو مانی! محمود کیا کہتا یے، تم بھی ذرا اس بات کی شاہد رہنا، یہ مجھے زبان ديتا ہے:

گر اس میں ذرا خلاف ہو گا
سن لینا کہ مطلع صاف ہوگا

پھر مہر اپنے نام کی کہ لعل بدخشاں پر کنده تھی، انگلی
میں سے نکال کر محمود کے ہاتھ میں دی اور آہ سرد دل پر درد سے کھینچ کر کہنے لگی کہ "محمود! اس جان جہان، آرام دل عاشقان کو مجھ گم نام کی یہ نشانی دینا اور میری طرف سے دست بستہ عرض کرنا: مصنف

خون دل یان شراب ہے تجھ بن
دل بریاں کباب ہے تجھ بن


187


تیری فرقت میں زندگی ہے عذاب
اور مرنا ثواب ہے تجھ بن
کوئی مونس نہ کوئی پے غم خوار
میری مٹی خراب ہے تجھ بن

قطعه

ابر غم خوب گھر کے آیا ہے
چشم مردم پر آب ہے تجھ بن
برق رخشان پہ خنده زن ہے اب
دل کو وہ اضطراب ہے تجھ بن
نالوں نے رعد کو کیا ہے خجل
شور و غل کے حساب ہے تجھ بن
اب فنا ہوں گے ہم کوئی دم میں
جان شكل حباب ہے تجھ بن
اے شہہ حسن! التفات ادهر
کشور دل خراب ہے تجھ بن
آتشیں رخ دکھا سخن مجھ کو
دل مرا آب آب ہے تجھ بن

دل میں مطلق تاب و تواں نہیں، حال دل کیا کہوں، قابو
میں اپنی زبان نہیں، ہر وقت جان دینے پر مستعد ہوتی ہوں، بے قراری سے زار زار روتی یوں . جب یی خیال آتا ہے کہ بے تیری ملاقات کے مر جانا، داغ حسرت اپنے وصال کا تیرے دل پر دهر جانا دل قبول نہ کرے گا، الزام اس کا مجھ پر دهرے گا، ٹھہر جاتی ہوں، دل کا پاس کر جاتی ہوں اور سچ تو یہ ہے کہ:

سید محمد خان رند


188

فرقت میں تری جان تلف کی نہیں جاتی
اے جان جہاں! جان تو یوں دی نہیں جاتی

اب اگر تم ہمارے شیدا ہو اور معشوق باوفا ہو تو بهر خدا ایک نظر مجھ خستہ جان، مہجور خاطر پریشان کو جمال جہان آرا اپنا دکھاؤ اور ایک مرتبہ مجھ بیمار، اجل گرفتار، وقف صد آزار کو شربت دیدار پلاؤ۔" : رند

دست قدرت پہ جان و دل صدقے
تیری صورت پہ جان و دل صدقے

شعر

آجاؤ بس اب راه نہ اے یار د کھاؤ
مشتاق ہوں دیدار ذرا اپنا دکھاؤ

یه کہہ کر جی میں جو آگیا، لیٹے لیٹے قلم اٹھایا، با چشم اشک بار یہ چند اشعار نامے کے لکھے اور محمود کے حوالے کیے:

نامہ ملكہ حسن افروز از مصنف

گل گل زار حسن رعنائی
بلبل شاخ سار زیبائی
شه سوار سمند ناز و ادا
نو بہار حدیقہ زیبا
میرے دل دار میرے عاشق زار
میرے غم خوار میرے جان نثار
بعد صد شوق وصل جسمانی
بعد صد ذوق وصل روحانی
تیری تصویر جب سے آئی نظر
محو حیرت ہوں اے مرے دل بر
الله الله ترا یہ حسن و جمال
چشم بد دور روزو شب مہ وسال
رخ پر نور مہر عالم تاب
رنگ رخسار سرخ جوش شباب
نہیں ہے زلف کی جفا کی پناه
یہ وه کافر کہ بس خدا کی پناہ
چشم بیمار نے کیا بیمار
نگہ مست نے کیا سرشار
دل کو باندها کمند گیسو نے
ذبح کر ڈالا تیغ ابرو نے


189



دهن تنگ نے کیا دل تنگ
رنگ چہرے کا دیکھ اڑ گیا رنگ
سینے نے وصل کا کیا طالب
ہو میسر گمان ہے غالب
ہاتهوں نے خوب ہاتھا پائی کی
لشکر ہوشی کی صفائی کی
جب سے دیکھی تری کمر کی لچک
بے کلی ہے مجھے صنم اب تک
قد قیامت بلا ہے آفت ہے
چتونوں میں عجب شرارت ہے
ہوغرض سر سے پاؤں تک آفت
زیر الله حسن و رنگ رخت
اب سناویں تمہیں ہم اس کا نام
جس کو عشاق نے کیا ہے سلام
کون وہ عشق خانماں برباد
ظالم و قاتل و ستم ایجاد
عشق تو کہیے مجمع آفات
عشق موذی بلا ہے اور بد ذات
عشق ظلم و ستم ہے آفت ہے
عشق بے مہر و بے مروت ہے
عشق رہتا ہے دل میں ہو کرداغ
اس غم آباد کا یہی ہے چراغ
تلخ کامی اسی سے حاصل ہے
ذائقہ اس کا سم قاتل ہے
رشتہ عمر کو زبا نہ ہے
تو سن جاں کو تازیانہ ہے
دل یہی سب کا خون کرتا ہے
یہی پیدا جنون کرتا ہے
میرے دل میں ہے گھر کیا اس نے
آخر اپنا اثر کیا اس نے
تپ فرقت سے جسم جلتا ہے
دل سے ہر دم دھواں نکلتا ہے
خون دل چشم تر سے جاری ہے
زخم دل پر ہمارے کاری ہے
سخت بے چین ہون خدا کی قسم
تیری ہی چشم سرمہ سا کی قسم
ہجر میں تیرے اب تو مرتے ہیں
کوئی دن زندگی کے بهرتے ہیں
ناتوا سے اب یہ حالت ہے
بات کرنا بھی اک قیامت ہے
کبھی ہوتے ہیں جان سے بے زار
کبھی رونے ہیں آہ زار و نزار
کبھی بلبل کی طرح نالاں ہیں
کبھی سنبل صفت پریشاں ہیں
کبھی جوش جنوں سے وحشت ہے
کبھی کچھ آپ ہی آپ رقت ہے
آنکھیں شبنم کی طرح گرياں ہیں
کبھی نرگس کی طرح حیراں ہیں
کبھی دریا دکھایا آنکھوں نے
کبھی سر تک ڈبايا آنکھوں نے


190

کبھی دل آبلہ سا پکتا ہے
کبھی آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے
ایسے جینے سے کاش مر جائیں
جان سے اپنی ہم گزر جائیں
مگر ہم کیا کریں کہ ہیں مجبور
ہے زمیں سخت آسان ہے دور
اب جدائی بہت ستاتی ہے
آ مری جاں کہ جان جاتی ہے
قہر کر دے گا اب بیان سخن
بڑی آفت ہے یہ زبان سخن

اور نامے کو لفافے میں بند کر کے یہ شعر شیخ محمد ابراهيم ذوق کا بہ صد ذوق و شوق لکھا اور محمود کے حوالے کیا: ذوق مرحوم

یہ چاہتا ہے شوق کہ قاصد بہہ جائے مہر
آنکھ اپنی ہو لفافہ خط پر لگی ہوئی

محمود نامہ لے کر ملکہ سے رخصت ہوا۔ وقت رخصت شہزادی نے کئی کشتیاں زر و جواہر سے معمور محمود کو عنایت کیں اور خلعت سے سرفراز کیا، محمود آداب بجا لایا "نصرمن الله و فتح قريب" کہه کر رخصت ہوا اور صبح دم ملک تبریز کی طرف روانہ ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ 191

9

بے قرار ہونا ملکۂ حسن افروز کا فراق دل دار میں اور آگاہ ہونا شاہ فارس کا شہ زادی کی بے قراری سے اور حال دریافت کے لیے آنا اُسی حالت اضطرار میں

خوب ساقی نے دی شراب سخن
بھر گئی عشق سے کتاب سخن
کہیں عاشق پڑے سسکتے ہیں
کہیں معشوق بھی پھڑکتے ہیں
اب ذرا اور بھی دے اک اک جام
کہ یہ محفل بہ خیر ہو انجام

شہ سوارانِ عرصۂ عشق بازی، و فارسان مضمار جاں گدازی، مسافران بار ناکامی بردوش، باختہ ہوش، از خود فراموش لکھتے ہیں کہ جب محمود ملکۂ حسن افروز سراپا گداز و ہمہ تن سوز سے رخصت ہو کر شہ زادۂ آرام دل کی تلاش میں نکلا، یہاں طپش دل فردوس منزل میں زیادہ ہوئی، بسمل کی طرح تڑپنے لگی، جان دینے پر آمادہ ہوئی۔ جب وحشت خاطر زیادہ پاتی، عقیلہ تو تھی دل کو سمجھاتی کہ : رند

اے دل نہ تڑپ اتنا گیا ہے مرا قاصد
آج آئی خبر یار کی یا کل خبر آئی


ریختہ صفحہ 192

رند
دل بے تاب شتاب آئے گا قاصد نہ تڑپ
راہ میں دیر لگے گی فقط آتے جاتے

سمجھاتے سمجھاتے جب خیال یار یورش کرتا، آنسو نکل آتے، پھر وہی نقشے ہو جاتے۔ بے تابی زور کرتی بے قراری دل میں شور کرتی۔

مانی نے کہا "بیگم! خدا کے لیے ایسی بے قرار نہ ہو اور آہ و زاری کو موقوف کرو، ڈرتی ہوں کہ اس حال سے کوئی خبردار نہ ہو۔" ملکہ نے کہا "اے جیا! جرأت

شعلۂ و برق و شرر بھی ہم نے دیکھے پر کوئی
بے قراری میں نہ پایا اس دل بیتاب سا
دل ہے کافر یا خدا جانے کہ کیا آفت ہے یہ
تلملاتا ہے پڑا پہلو میں اک سیماب سا

جیا! میں کیا کروں، دل کو کیوں کر سمجھاؤں۔ جو شے اپنے قابو میں نہ ہو تو اس پر کسی کا بس نہیں چلتا ہے۔ درد

دل دے دیا ہے اک بت کافر کے ہاتھ میں
اب حق میں دیکھیے مرے اللہ کیا کرے

مانی نے کہا "بی بی! یہ کیا خبط ہے، ذرا سنبھلو، یہ مقام ضبط ہے۔ خدا کی عنایت سے نا اُمید نہ ہو، اُسی کو یاد کرو، مژدۂ "لا تقطوا مین رحمۃ اللہ" سے جی کو شاد کرو۔ اب اُٹھو ہاتھ منہ دھو ڈالو، دل کو سنبھالو۔ دیکھو خاصے کا وقت آیا ہے، لوگ اس حال میں دیکھیں گے تو کیا کہیں گے، یہ کیا بے ہودہ پن جی میں سمایا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا بس ہر دم رونا ہے، بی بی ! اللہ حافظ و نگہ بان ہے جو ایسا


ریختہ صفحہ 193

رونا دھونا ہے۔ خیر وہ بھی اک بات تھی ہو گئی، اب دیکھو محمود گیا ہے، کیا جواب لے کر آتا ہے۔"

ملکہ نے کہا "مانی! للہ تم اس مقدمے میں دخل نہ دو، مجھے نہ ستاؤ، تم نہیں جانتی ہو، میں جس حال میں ہوں، مجھے اسی حال میں رہنے دو، میرا مغز نہ کھاؤ۔ میر تقی

انداز وہی سمجھے مرے دل کی چاہ کا
زخمی جو کوئی ہووے کسی کی نگا ہ کا

یہ کہہ کر اور چھپر کھٹ میں جا لیٹ رہی۔ تصویر کو چھاتی سے لگا کر ایک شور مچایا اور بہ صد حسرت و یاس ہو کر فرمایا : نسیم دہلوی

نہ تم بر میں، نہ دل پہلو میں، روئیں آہ کس کس کو
مقام شکر ہے، دیکھیں فلک کیا کیا دکھاتا ہے

اس عرصے میں قمر النسا وزیر زادی جو شہ زادی کی ہم سن تھی، بلکہ شہ زادی سے بھی کم سن تھی، شیش محل میں آئی، ملکہ کو جو نہ دیکھا، بہت گھبرائی۔ مانی سے کہنے لگی "کیوں مانی! بیگم صاحب کیا ابھی تک سوتی ہیں؟ کیا سبب ہے جو بیدار نہیں ہوتی ہیں؟"

مانی کہ انجام کی فکر میں غوطے کھا رہی تھی، دل سے سو سو تدبیریں بنا رہی تھی، کچھ نہ بولی، قمر النسا چھپر کھٹ کے پاس آ کر پردہ اُٹھا کر دیکھتی کیا ہے کہ شہ زادی کی آنکھیں نرگس وار کسی کے انتظار میں وا ہیں مگر آنکھوں سے دو دریا رواں ہیں؛ گویا گنگا جمنا ہیں، رنگ چہرے کا زعفرانی ہے، لب خشک ہیں، دل میں سوز نہانی ہے۔ گرمی عشق سے پیشانی عرق آلود ہے، کسی کے تصور میں سکتے کا سا حال ہے۔ چین


ریختہ صفحہ 194

دل کا مفقود ہے۔ جب بے تابیٔ دل زیادہ ہوتی ہے، یہ غزل پڑھتی ہے اور روتی ہے : مصنف

حال دل زار ہے کیا ہونا ہے
سخت بیمار ہے کیا ہونا ہے
دل مرا رسم وفا کیا جانے
نو گرفتار ہے کیا ہونا ہے
رات دن دیدۂ دیدار طلب
میرا بے دار ہے کیا ہونا ہے
جان زار اس مرے دل کے ہاتھوں
سخت ناچار ہے کیا ہونا ہے
دل مرا پی کے شراب اُلفت
مست و سرشار ہے کیا ہونا ہے
بدن آغاز محبت میں سخن

صورت خار ہے کیا ہونا ہے

قمر النسا یہ حال دیکھ کر متحیر ہوئی، چھکے چھوٹ گئے، رشتۂ استقلال ٹوٹ گئے؛ حیرت سے صورت ششدر ہوئی۔ گھبر کر کہنے لگی "بیگم! مزاج کیسا ہے؟ خدا کے لیے فرمائیے تو یہ کیا ہے؟" ملکہ حسن افروز نے منہ پھیر کر جواب دیا کہ "ہاں بہن اچھے ہیں۔" قمر النسا فرط محبت سے بے قرار ہو مانی سے کہنے لگی کہ "مانی! دیکھو تمہارے بیگم کے دشمنوں کا کیا حال ہے، تمہیں کچھ خبر بھی ہے، کیا سمجھ پر پتھر پڑ گئے، عقل پر زوال ہے؟" مانی گھبرا کر کہنے لگی "کیوں بی بی خیر تو ہے؟" قمر النسا نے کہا "بئی واللہ تم نے بھی کمال کیا کہ ہر دم پاس رہتی


ریختہ صفحہ 195

ہو اور پھر "خیر تو ہے" کس مزے سے کہتی ہو۔" یہ کہہ کر گھبرائی ہوئی بیگم صاحب کے پاس گئی، جا کر حال بیان کیا، رو رو کے تر دامان کیا۔ بیگم صاحب اور سب خواصیں سراسیمہ و پریشاں، افتاں و خیزیاں شہ زادی کے پاس آئیں۔ بیگم صاحبہ بلائیں لے کر ملکہ سے کہنے لگیں کہ "میری جان! کہو تو جی کیسا ہے؟ میں تیرے واری کیوں تیرا حال ایسا ہے؟" ملکہ نے کہا "اماں جان! کیا کہوں دل میں درد ہے، تمام بدن میں اعضا شکنی ہے، چہرہ زرد ہے۔ کلیجہ منہ کی راہ نکلا آتا ہے، کچھ ایسا درد اُٹھتا ہے کہ جی بیٹھا جاتا ہے۔ گو بے اختیار دل چاہتا ہے، مگر اب تک تو ضبط کیے ہوں، آگے دیکھیے خدا کیا دکھاتا ہے۔ حضرت غالب

پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
سینہ جویائے زخم کاری ہے

یہ سرگزشت سن کر بیگم صاحبہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اور تو کچھ بن نہ آیا، گھبرا کر فرمایا "ارے کوئی حضور کو خبر کرو۔"

یہ سنتے ہی ایک خواجہ سرا نے جا کر بادشاہ کے حضور میں سب حال گزارش کیا۔ بادشاہ کہ اس وقت تسبیح خانے میں مشغول یاد الٰہی تھے، شہ زادی کی علالت کی خبر سن کر محل میں تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ "بیٹا! کہو کیا سبب ہے جو تم کو اس قدر رنج و تعب ہے؟"

ملکہ نے کہا "جناب عالی! میں بھی حیران ہوں کہ اس بے خودی کا باعث کیا ہے، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل خود بہ خود نکلا آتا ہے، تمام بدن سنسناتا ہے۔ لوگوں کی کثرت


ریختہ صفحہ 196

اور آمد و رفت سے دم رکتا ہے، تن بدن میں آگ لگ رہی ہے، تمام جسم پھنکتا ہے۔ خدا جانے کیا آفت آسمانی اس دل کم بخت پر نازل ہوئی ہے کہ اس قدر روئی ہوں مگر ابھی تک تسکین نہیں حاصل ہوئی ہے۔"

بادشاہ خاطر پریشان روتے ہوئے باہر تشریف لائے اور مسیح الزمان حکیم احسن اللہ خان کو علاج کے واسطے بھیجا۔ جب حکیم صاحب آئے، مانی نے ملکہ کو ہوشیار کیا، حکیم کے آنے سے خبردار کیا۔ ملکہ نے کچھ جواب نہ دیا اور ایک آہ سینۂ سوزاں سے بھری، یہ کہا اور پھر آنکھ بند کر لی : لا اعلم

نبض نہ دیکھ اے طبیب، ہاتھ لگا اور موا
میری تو شکل اور ہے، ہائے چھوا اور موا

حکیم صاحب نے کہا "حضور! یہ کیا فرماتی ہیں، ناحق رو رو کے اپنے مرض کر بڑھاتی ہیں۔ ذرا نبض دکھائیے، پھر تابعدار جو دوائیں دے، اُسے نوش فرمائیے۔ دیکھیے تو کیسا جلد آرام ہوتا ہے اور یہ کم ترین کیسے ملذذ دوائیں دے کر بہ مرض کھوتا ہے۔"

ملکہ نے خفا ہر کو جواب دیا کہ "حکیم صاحب! بھلا آپ نے ہمارا مرض کیا تشخیص کیا جو آپ دوا بھی اپنے ساتھ لائے ہیںِ جائیے ہمیں مطلق صحت نہ ہو گی، آپ ناحق دوا دینے آئے ہیں : خسرو

از سر بالین من بر خیز اے ناداں طبیب
درد مند عشق را دارو بہ جز دیدار نیست

قمر النسا کہ نہایت زیرک اور دانا تھی، شہ زادی کے فحوائے کلام سے فوراً دریافت کر گئی کہ ہو نہ ہو یہ مادہ


ریختہ صفحہ 197

سوداوی عشق کا رجوع ہے، آفتاب محبت کا مشرق سینہ سے طلوع، مگر ابھی شروع ہے، بہ قول شخصے : ع

کہ عشق و مشک را نتوان نہفتن

دل میں تو سمجھ گئی مگر اس وقت کچھ نہ بولی۔ بیگم صاحب بھی اس کلام سے ہوشیار ہوئیں، مانی کو الگ لے جا کر کہنے لگیں کہ "مانی! تم کو تو معلوم ہو گا، کہو یہ ماجرا کیا ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو اندر ہی اندر اس کے دل کو ستاتی ہے؟ مانی! ہو نہ ہو مجھے تو لڑکی کے کلام سے عشق کی بو آتی ہے۔"

جب مانی نے دیکھا کہ راز آشکارا ہوا، بہ جز راستی اب چارہ نہیں، حال ظاہر سارا ہوا، بیگم صاحبہ کا ہاتھ پکڑ کے شہ زادی کے قریب لائی اور تصویر کہ ملکہ کے سینے سے لگی ہوئی تھی، آہستہ سے اُٹھا کر دکھائی۔ بادشاہ بیگم تصویر دیکھتے ہی ہزار جان سے آرام دل پر نثار ہو گئیں، صورت دیکھتے ہی بے قرار ہو گئیں۔ مسکرا کر فرمانے لگیں کہ "مانی! یہ کس یوسف ثانی کی تصویر ہے اور یہ کون شہنشاہ والا جاہ، صاحب عز و توقیر ہے؟" مانی نے از ابتدا تا انتہا حقیقیت حال پُر اختلال، محمود کا آنا اور تصویر دکھانا، شہ زادی کا عاشق ہونا اور بہ تلاش شہ زادہ پھر محمود کا جانا، سب بیان کیا۔

بیگم صاحبہ نے جب حال شہ زادی کے تعشق کا سنا، مآل کار سوچ کر غم گین ہوئی، مگر اور امراض کی طرف سے رفع شک ہوا، دل کو ذرا تسکین ہوئی۔ مانی کو الگ لے جار کر سمجھایا کہ تم جہاں دیدہ ہو، ذرا لڑکی کی دل داری کرتی رہنا۔ عشق کم بخت نے اس کے دل میں گھر کیا ہے، تم مدام غم خواری کرتی رہنا اور کہنا کہ "بی بی! گھبراؤ نہیں، خاطر جمع رکھو، جس کی تم نے


ریختہ صفحہ 198

تصویر دیکھی ہے، تمہاری اماں جان اُسی شہ زادے کے ساتھ تمہاری شادی کریں گی؛ ذرا اپنے دل کو تسکین دو، صبر سے بیٹھی رہو، ان شاء اللہ تعالٰی بہت جلد گل ہائے مقصود سے تمہاری گود بھریں گی۔" یہ کہہ کر بیگم صاحبہ ملکۂ حسن افروز کے پاس آئیں۔ اس طرح کی گفتگو تو زبان پر نہ لائیں مگر آغوش میں ے کر پیار کیا، پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا "میری جان! تمہیں اللہ کی امان! ہم سے کچھ بات تو کرو؛ بیگم! یہ بری بات ہے، دیکھو ہر دم ٹھنڈی ٹھنڈی سانس نہ بھرو۔" ملکہ نے کہا "اماں جان! شعر

آپ کی باتوں سے یہ اور بھی دل دکھتا ہے
جائیے بہر خدا یاں سے کہ دم رکتا ہے

بھلا ہم کیا بات کریں، آپ بزرگ ہیں، آپ کو اس بات کا کیا جواب دیں؟" درد

کسی سے کیا بیاں کیجے اس اپنے حال ابتر کو
دل اس کے ہاتھ دے بیٹھے جسے جانا نہ پہچانا

آخر جب بیگم صاحبہ نے دیکھا کہ بات کرنے سے طبیعت پر جوش آتا ہے، آدمی کی صورت سے نفرت ہے، کلام سے دم گھبراتا ہے، ناچار خاص محل سے تشریف لائیں، ہم راہ اپنے وہ تصویر بھی لیتی آئیں۔ بادشاہ جو محل میں آئے، بیگم صاحبہ نے تخلیہ کیا اور شاہ سے طلب مشورہ کیا۔ جب حضور آ کر بیٹھے، بیگم صاحبہ نے وہ تصویر بادشاہ کو دکھلائی۔ شاہ والا جاہ بہ یک نگاہ حیران، انگشت بہ دندان، دست قدرت کے قربان ہو کر رہ گئے اور فرمانے لگے "بیگم! یہ کون خجستہ نہاد ہے، آدم زاد تو نہیں معلوم ہوتا۔ شاید پری زاد ہے۔"


ریختہ صفحہ 199

بیگم نے کہا "حضور! میں پہلے آپ سے یہ پوچھتی ہوں کہ اگر یہ شخص آپ کی صاحب زادی کے ساتھ شادی کی درخواست کرے تو آپ کو منظور ہے؟" بادشاہ نےئ کہا "صاحب! اگر یہ کوئی شہ زادۂ عالی خاندان، والا دودمان ہے تو خیر کیا مضائقہ، منظور ہے، ورنہ ابھی ان باتوں کا کیا مذکور ہے؟"

بیگم صاحبہ نے کہا "سنیے! یہ تصویر شہ زادۂ آرام دل پسر شاہ چین کی ہے؛ جو آپ کی ملکہ کا حسن و جمال سن کر عاشق ہوا ہے، یہ تصویر اُسی نازنین مہ جبین کی ہے۔ محمود سوداگر متاع خوبی سمجھ کر لایا تھا اور آپ کی صاحب زادی کے حضور میں نذر گزرانا تھا، پس دیکھنا کیا تھا، گویا قیامت کا آنا تھا۔ جب سے یہ تصویر دیکھی ہے، لڑکی اُس کی عاشق زار ہے، فرط محبت سے بے قرار ہے۔ نہ تو دشمن بیمار ہیں، نہ خدا نخواستہ کچھ آسیب ہے مگر حضرت عشق پڑھے جن سوار ہیں۔ سب اُنہیں کا فریب ہے اور فی الحقیقت صورت اچھی جہان کو پسند ہے، معشوق باوفا کہاں ملتا ہے، اسی سبب سے دل عاشق درد مند ہے۔ خوش نصیبوں کو ایسے بھی مل جاتے ہیں کہ جذبۂ محبت سے بے چین ہو کر آپ ہی دوڑے چلے آتے ہیں۔ اب آپ کو اختیار ہے، چاہے اپنے فرزند کی خوشی کیجیے یا نہ کیجیے، بندی دست بردار ہے، اور جو آپ سچ پوچھتے ہیں تو یہ بات ہماری یاد رکھیے کہ اگر چراغ عقل کا ہاتھ میں لے کر ڈھونڈیے گا تو قیامت تک ایسا شہ زادہ خوب صورت، نمکین، والا خاندان باعزو تمکین اندھیرے گھر کا اجالا نہ ملے گا، اور بالفرض اگر کوئی بہ ہزار خرابی مل بھی گیا تو یاد رہے کہ آپ کی صاحب زادی کا چاہنے والا نہ ملے گا۔" مصنف


ریختہ صفحہ 200

دنیا میں اگر ڈھونڈیے تو کیا نہیں ملتا
پر چاہنے والا نہیں ملتا نہیں ملتا

بادشاہ اس حال کو سن کر دیر تک بحر تفکر میں غوطہ زن رہا، پھر بہت سوچ کر کہا کہ "اچھا میں اس کا جواب پھر دوں گا، تم لڑکی کو سمجھاؤ، خاطر آشفتہ بہلاؤ۔"

بیگم صاحب نہ کہا "بھلا جس بشر پر عشق کا سایہ ہوتا ہے اور جس کو وصال یار کی دھن ہوتی ہے، وہ کس کی سنتا ہے؟ بہ قول ناسخ

ہر گھڑی کہتے ہو صاحب ‘صبر کر‘
بندۂ عاشق ہے یا ایوب ہے

ایسے شخص کو کچھ کہنا یا سمجھانا فقط ستانا اور نا حق جی جلانا ہے۔" بادشاہ خاموش اُٹھے اور تصویر ہاتھ میں لیے باہر تشریف لائے۔ وہاںملکہ حسن افروز نے جو فرصت پائی، معشوق کی یاد آئی، غشی سے کچھ افاقہ ہوا تھا، آنکھ کھولی چشم نین باز سے فلک کو دیکھ کر دست افسوس ملے اور داہنی طرف سے بائیں طرف کروٹ لے کر پھر وہی شعر زبان پر لائے : نسیم دہلوی

نہ تم بر میں نہ دل پہلو میں روئیں آہ کس کس کو
مقام شکر ہے دیکھیں فلک کیا کیا دکھاتا ہے
دل امڈا آتا ہے از خود گلے مل مل کے رونے کو
کمر بستہ سفر خستہ مقرر کوئی آتا ہے
گزرتی ہیں بڑی تکلیف سے راتیں جدائی کی
ملیں پھر تم سے ہم اب دیکھیے وہ دن کب آتا ہے
میں صدقے اے اجل آ جا شب فرقت میں جلدی سے
ہماری جان جاتی ہے ترا کیا اس میں جاتا ہے


ریختہ صفحہ 201
نسیم دہلوی اب ناتوانی سے یہ عالم ہے
کوئی ہم کو اُٹھاتا ہے کوئی ہم کو بٹھاتا ہے

یہ پڑھ کر خوب روئی؛ جب رونے سے عاجز آئی تو یہ مثلث کا بند لب پر لائے ؛ مومن خاں مرحوم

منظور ہے کچھ اور کہ اشک آنکھ سے چلے
من کیستم کہ گریہ بہ حالم کند ولے
می زیبدت بہ نرگس شہلا گریستن
ہیں خوں فشانیاں عبث اے چشم اشک بار
گر کام دل زگریہ میسر شود زبار
صد سال مے تواں بہ تمنا گریستن

کبھی جو دل گھبراتا تو یہ شعر لب پر آتا : امانت

لب جاں بخش کی اُلفت میں لب پر جان آئی ہے
مریض عشق مرتا ہے مسیحا کی دوہائی ہے

اس بے قراری اور آہ و زاری میں تصویر کا جو خیال آیا، جا بجا ڈھونڈا اور نہ پایا تو بے اختیار ہو گئی، آپ میں نہ رہی، مانی کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگی کہ "دیکھو مانی میں تیرا گریبان چاک کروں گی، میر تصویر میرے حوالے کرو، نہیں تو ابھی اپنے تئیں ہلاک کروں گا۔"

مانی نے کہا "بیگم! خیر ہے، دشمنوں کو کیا ہو گیا؟ خدا سے ڈرو، میں نے تو آج تک ایسی باتیں نہ کبھی دیکھیں نہ سنیں۔ ماشاء اللہ چشم بد دور ابھی تو تصویر ہی دیکھی ہے، جب صورت دیکھو گی تو زمین پر پاؤں نہ رکھو گی۔"

ملکہ نے کہا "ہاں بجا کہتی ہو، تم نے ابھی دنیا میں کیا دیکھا ہے، تم تو ابھی پیر نابالغ ہو، بال دھوپ میں


ریختہ صفحہ 202
سفید ہو گئے ہیں، اچھا تم بھی اپنی کہہ لو، کیا کہتی ہو؟"

مانی نے کہا "لڑکی! بیگم صاحبہ نے بھی وہ تصویر دیکھی اور مجھ سے حال دریافت کر کے خوش ہوئین، بلکہ فرماتی تھیں کہ ان شاء اللہ تعالٰی میں اپنی لڑکی کی شادی اُسی شہ زادے کے شاتھ کروں گی۔ اب وہ تصویر حضور کے دکھانے کو لے گئی ہیں۔"

ملکہ یہ گفتگو سن کر مارے خوشی کے پھولی نہ سمائی، رنگ زعفرانی گلابی ہو گیا، باغ باغ ہو کر اور مسکرا کر یہ شعر زبان پر لائے۔ مرزا رفیع السودا

ہجر اور وصل سے کچھ کام نہیں ہے مجھ کو
بات وہ کیجیے کے ٹک دل کو ہو تسکیں جس میں

مانی! مجھے اس سے کیا مطلب کہ اماں جان کیا کہتی تھیں اور باوا جان کہتے ہیں؛ تم میری تصویر دینے والی کون تھیں؟ خدا کی قسم مانی! خیر اسی میں ہے کہ میری تصویر مجھے منگا دو۔"

مانی نے قمر النسا سے کہا کہ "بی بی! کچھ سمجھ میں نہیں آتا، خدا جانے اُس بالشت بھر کاغذ میں کیا رکھا ہے۔ ذرا تم جاؤ اور بیگم صاحبہ سے وہ مانگ لاؤ۔" وہ گئی اور بیگم صاحبہ ے حقیقت کہی۔ اُنہوں نے اُسی وقت تصویر منگوائی اور قمر النسا کے ہاتھ شہ زادی کے پاس بھجوائی۔ جب تصویر آئی، دل نے ذرا توانائی پائی۔ رات دن اُسی کا شغل، ہر دم اشعار برجستہ اور غزلیں بر محل : میر حسن

غزل یا رباعی و یا کوئی فرد
اُسی ڈھب کی پڑھنا کہ ہو جس میں درد


ریختہ صفحہ 203

کبھی وصال یار کی طرف سے یاس، ہجوم غم سے رنگ فق، چہرہ اُداس۔ کبھی جو درد دل سوار ہوا تو پیچ تاب کھا کر بائیں طرف ہاتھ سے دبایا، دیر تک خاموش رہی، صدمے سے بے ہوش رہی؛ جب آنکھ کھولی، دل کو ڈھونڈا، ہر جا نہ پایا، نالوں کو ضبط کیا ور فرمایا : حضرت غالب

کسی کے دے کے دل کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
کیا غم خوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب اس غم کی وہ میرا راز داں کیوں ہو
وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
یہ کہہ سکتے ہو ہم دل میں نہیں ہیں پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

غرض ہر دم سوزش عشق سے آہ و زاری تھی، التہاب قلب سے بے قراری تھی۔ کسی عنوان دل کو قرار نہ تھا، سب نصیحت کرنے والے تھے مگر کوئی غم خوار نہ تھا۔
**********************************************
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ 231

13

دربار سلطانی میں تشریف لے جانا آرام دل کا، پھر موتی محل میں آنا اور جذبۂ دل صنوبر بسمل سے، بہ مدد سفید دیو شہ زادے کا ملک داراب میں جانا، شہ زادۂ سیاہ فام سے لڑنا اور اس کو بھگانا

ساقیا! اب ہے رزم کا ہنگام
دے مجھے ساغر مئے گل فام
ہے زباں میرے تیغ جوہر دار
خامہ میرا ہے رخش تیز خرام
لب ساغر ذرا چٹا اس کو
دیکھ پھر آب داریٔ صمصام
رکھ کے اس پر تو دست مے آلود
دیکھ تو سن کی میرے تیزیٔ گام

راقمان کوئفِ جدال و محرران ماجرائے قتال سمند باد رفتار قلم کو عرصۂ کارزار بیان میں یوں گرم عنان کرتے ہیں کہ جب نیزہ باز فلک، یعنی آفتاب خطوط شعاعی کے نیزے لے کر نکلا اور شہنشاہ کج کلاہ ماہتاب تاب مقالے کی نہ لا کر قلعۂ مغرب میں حصاری ہوا، لال کرتی کا رسالہ بہ حکم ملکۂ مہر سیما محمود باوفا


ریختہ صفحہ 232

کےمکان پر حاضر ہوا۔ آرام دل پوشاک شاہانہ زیب بدن کر سمند تیز قدم پر سوار ہوا۔ گرد و پیش، یمین و یسار بارہ ہزار سوار کا حصار ہوا۔

تمام شہر میں یہ خبر مشہور ہوئی، بلکہ دور دور ہوئی کہ آرام دل جس سے شہ زادی کی نسبت ٹھہری ہے، آج تشریف لایا۔ اب شادی ہو گی۔ یہ سن کے ہر شخص پھولا نہ سمایا۔ اثنائے راہ میں محمود نے ہزاروں اشرفیاں اس شہنشاہ کشور خوبی پر نثار کیں اور دیوان خاص تک پہنچتے پہنچتے کئی لاکھ لٹا دیں۔ طبعیت درپۓ اختصار ہے، اس لیے ایک ہی فقرہ لکھا ہے۔ زیادہ طول کرنا ناظرین کو ملول کرتا ہے۔

خلاصۂ کار آرام دل بہ کر و فر بسیار داخل دربار شاہی ہوا۔ غلغلۂ حسن و جمال اُس نیر اقبال کا از ماہ تا بہ ماہی ہوا۔ لال پردے کے قریب پہنچتے ہی وہ سرخ رو، یعنی شہ زادۂ خوش خو گھوڑے پر سے اترا۔ خاص بردار اور چوب دار آگے ہوئے۔ نقیب بہ آواز بلند پکارے کہ شہ زادۂ عالم پناہ سلامت! رسالے کے دستے نے پرا باندھ کر سلامی دی۔ آفتاب نے فلک پر ماہی مراتب صدقے اُتارے۔ آسمان نے سورج مکھی دکھائی۔ خواصوں نے مہتابی لگائی۔

غرض امراء اور مصاحب شہ زادے کو بیچ میں کیے ہوئے، پیچھے محمود وفادار عرق چین لیے ہوئے، دیوان خاص میں تخت شاہی کے قریب پہنچے۔ بادشاہ نے وزیر اعظم کو استقبال کے واسطے بھیجا۔ وزیر حسب دستور کورنش بجا لایا اور شہ زادے کا قدم بوس ہوا۔

بادشاہ کے پہلے شہ زادے کے آنے سے آگاہ ہو چکا تھا،


ریختہ صفحہ 233

جب آرام دل نزدیک پہنچا صورت دیکھتے ہی بادشاہ محو دیدار ہوا۔ بد قدرت کا نمونہ پایا۔ وہ تصویر تو نقل تھی، اصل کو جو دیکھا، اصل تو یہ ہے کہ اُس سے بھی دونا پایا۔ داماد فرخ نہاد کا عاشق زار بے قرار ہوا۔ گلے لگانے کو دونوں ہاتھ بڑھائے۔ آرام دل دوڑ کر قدموں پر گر پڑا۔ بادشاہ نے اُٹھا کر کلیجے سے لگایا، برابر بٹھایا۔

آرام دل نے سلسلۂ تقریر کو چھیڑا۔ تقریر مسلسل، گفتار بے بدل، لطیفہ ہاے ضرب المثل، نکتہ ہائے بر محل، اشعار برجستہ اور مضمون ہائے نوبستہ سے ہر ایک کو شیدا کیا۔ بادشاہ نے علم میں آزمایا، کچھ سوال و جواب درمیان آیا؛ کسی طرح کا اُس کھرے کو کھوٹا نہ پایا۔ ہر طرح سے بادشاہ کو جواب شافی دیا۔ اگر دوسرے نے پوچھا اُسے فوراً بند کیا۔ بادشاہ نے طرز گفتگو اور طریقۂ سخن نہایت پسند کیا؛ شاد و خرسند ہوا، جذبۂ محبت ایک سے دہ چند ہوا۔ لڑکی کی خوش نصیبی سے شکر خدا کیا، فرض سے ادا ہوا، دوگانہ شکر ادا کیا۔ پھر دربار برخاست کیا اور شہ زادے کو موتی محل میں رہنےکا اور دربار میں روز حاضر ہونے کا حکم دیا۔

آرام دل بادشاہ سے رخصت ہر کو موتی محل میں آیا، سب حال ملکہ سے کہہ سنایا۔ ملکہ کا دل مسرور ہوا، دل کی مراد ملی، صدمۂ فرقت کی خاطر خواہ داک ملی۔ رنج و الم دل سے دور ہوا۔ پھر تو مدام یہ دستور ہوا کہ سر شام ملکہ گل اندام مانی اور قمر النسا کے ساتھ شہ زادے کے پاس آتی، شب بھر دل لگی اور مذاق تفریح طبع کے حرف و حکایات سے دل بہلاتی۔ پو پھٹتے ہی وہ جگ ٹوٹتا، سرہنگ صبح وہ سب سامان عیش لوٹتا۔ سر شام پھر وہی گھڑی آتی، عروس شب مجلس جماتی۔ شہ زادہ بھی دم سحر دربار میں جاتا


ریختہ صفحہ 234

گھڑی دو گھڑی بیٹھ کر پھر آتا۔ غرض مدام عیش و نشاط میں مصروف ہوئے۔ سحر کے جھگڑے، گلے شکوے موقوف ہوئے۔ شب و روز خوشی و عشرت کے جلسے ہونے لگے، تخم محبت مزرعۂ دل میں ہونے لگے۔


اسی طرح ایک مدت گزر گئی۔ معشوق جو گل عذار پایا، خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ عاشقوں کا کبھی خیال نہ آیا۔ آخر آہ عاشق کہاں تک بے کار جائے، کبھی خیال اپنا ضرور دکھائے۔ محبت کا دل پر اثر ہو۔ دل دلبر عیش و عشرت میں رنج دل عاشق سے ضرور باخبر ہو۔

غرض ایک دن آرام دل بالاے بام نہر کی سیر کر رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے کچھ اُس نیم بسمل ھدف خدنگ محبت، یعنی صنوبر سوختہ جگر، خنجر عشق کی گھائل کا خیال آیا، بے چین ہو گیا، کمال غفلت پر زوال آیا۔ سچ ہے : ع

جسے کمال ہے اس کو زوال ہے پیدا

عشزق کی لذت سے تو خوب آگاہ تھا، مجروح سنان آہ تھا، گھبرا کر اسی عمل بے بدل سے سفید دیو کو بلایا۔ وہ مع فوج اپنی حاضرہوا۔ شہ زادے کا جاہ و جلال، حشمت و اقبال دیکھ کر بہت خوش اور شگفتہ خاطر ہوا، بہ صد تعظیم آداب بجا لایا۔

آرام دل نے فرمایا کہ تو ابھی ملک داراب میں جا اور تحقیق کر آ کہ صنوبر شہ زادی پر اس زنگی شہ زادے کے سبب سے کیا گزری؟ کیا واردات ہوئی؟ رخصت کے باب میں کیا بات ہوئی؟ دیو بہ موجب ایمائے شہ زادہ ملک داراب میں گیا اور سب کیفیت دیکھ کر پھر آیا۔ التماس کیا کہ شاہ داراب اور اس خانہ خراب، یعنی پدر شہ زادۂ سیہ فام میں جنگ عظیم درپیش


ریختہ صفحہ 235

ہے۔ بادشاہ کو بڑیا تفکر ہے، نہایت پس و پیش ہے۔

یہ سنتے ہی آرام دل بے قرار ہو گیا، اسی وقت چلنے کو تیار ہو گیا۔ نشۂ جواں مردی سے بے خود ہو کر جھومنے لگا۔ کبھی قبضۂ شمشیر کبھی بازوے قلعہ گیر چومنے لگا :

بیغ ابرو نے سیکڑوں بل کھائے
ترک چشموں نے پل کے نیزے اتھائے

کف منہ سے جاری ہوا، غضب کا عالم طاری ہوا۔

آخر اسی حالت غیظ و سفید دیو سے فرمایا کہ مجھے ملک داراب میں پہنچا دے۔ دیو نے حسب الحکم شہ زادے کو اپنے کندھے پر بٹھایا : نسیم لکھنوی

"موند آنکھ" کہا تو موند لی آنکھ
"کھول آنکھ" کہا تو کھول دی آنکھ

طرفۃ العین میں شہ زادے نے آپ کو اسی رنگ محل میں پایا۔ پھر سفید دیو سے فرمایا کہ جلد ایک گھوڑا لا! وہ گیا اور سمند برق دم اصطبل شاہی سے چن کر لایا۔ آرام دل نے دیو کو رخصت کیا اور آپ پانچوں ہتھیار درست کر، کمر ہمت چست کر گھوڑے پر سوار ہوا اور رزم گاہ کی طرف گھوڑا پھینکا۔

اب سنا چاہیے کہ جب مخالف نے زیر شہر پناہ اپنی فوج کو حرب و ضرب سے آراستہ کیا تھا اور بادشاہ نے وزیر اعظم کو خلعت سپہ سالاری سے سرفراز فرما کر مقابلہ و جہاد کا حکم دیا تھا، وزیر نے اپنی تدبیر سے باہر شہر کے مورچہ لگایا تھا ہر ایک شمشیر کے جوہر دیکھے تھے، جونان شیر افگن کو آزمایا تھا۔ اسی طرح ہر روز لڑائی ہوتی تھی۔ شام کو دونوں لشکر تھک کر دم لیتے تھے، صبح کو پھر زور آزمائی ہوتی تھی۔


ریختہ صفحہ 236

ایک شب شاہ بدخو، جنگ جو نے موقع وقت اور ہنگام فرصت پا کر اپنی فوج میں سے دس ہزار جوانوں کو مستثنیٰ کیا اور اُس گم راہ نے کمند کی راہ ان کو شہر میں اُتارا، یعنی شب خون مارا۔ شہر میں ہر طرف غوغا ہوا کہ قیامت کا سامنا ہوا، حشر برپا ہوا۔ لوہا برسنے لگا، ایک عالم تہ تیغ خوں آشام ہوا۔ جس نے اس ہنگام میں ذرا چون چرا کیا، ہاتھ پاؤں ہلا کر کچھ جواب دیا، اس کا وہیں کام تمام ہوا۔ کسی کو دم لینے کی فرصت نہ ملی، ہوش و حواس جاتے رہے، تلوار اُٹھانے کی مہلت نہ ملی۔ وزیر کو جو یہ خبر ہوئی، پانچ چار رسالے اور کئی ہزار پیادے لے کر چڑھ دوڑا۔ آتے ہی ان کا محاصرہ کر لیا، تلواروں کی باڑھ پر دھر لیا۔ تیغ دو دم لے کر غول میں کود پڑا۔ خون کی ندی اور نالے بہائے، خوب لڑا۔ آخر کسی ملعون کے ہاتھ سے زخم کاری لگا، غش آیا، گر پڑا۔ گرتے ہی لوگوں نے اُٹھا لیا، ہاتھوں ہاتھ محل میں پہنچایا۔ سردار جو گرا، تمام فوج کے دانت کھٹے ہوئے، منہ پھرا؛ مگر سواروں نے کام کیا، بہادروںمیں اپنا نام کیا۔ گھوڑے ڈپٹا ڈپٹا کے ان موذیوں کو غازیوں کی ٹاپوں میں رونڈ ڈالا، خوب دل کا بخار نکالا۔ جو بچ کر بھاگے، ان پر نیزے لگائے، پستول تول تول کے مارے، نشانہ لگانے کے فن دکھائے۔ غرض خوب دل کیا، ایک ایک جو جہنم واصل کیا۔

بادشاہ وزیر کے زخمی ہونے سے خنگر غم و الم کا گھائل ہوا، نہایت شکستہ دل ہوا۔ طبیعت کو پریشانی ہوئی، عقل کو سرگردانی ہوئی۔ حریف کے مگر و دغا پر کمال غصہ آیا، غضب سے بدن تھرایا؛ صبح بھی نہ ہونے دی، کچھ رات باقی تھی کہ اسی دم زرہ بکتر، خود، چار آئینے سے آراستہ ہو کر فیل مست پر سوار ہوا۔ رزم گاہ میں آتے ہی طبل جنگ بجوایا، سوتوں کو


ریختہ صفحہ 237

جگایا۔ لڑائی ہونے لگی، زور مندوں میں طاقت آزمائی ہونے لگی۔ بیداروں سے مقابلہ ہوا، جن پر نیند غالب تھی انہیں خوب مرگ میں سلایا۔ فوج نے بڑا دل کیا، ہزاروں کو جان سے مارا، صدہا کو گھائل کیا : مصنف

چنگاریاں تیغوں سے اُڑائیں
کیفیتیں جنگ کی دکھائیں
جھک جھک گئی گاؤ کی کمر بھی
رک رک گیا چرخ کینہ ور بھی

مرتے مرتے مخالف کی فوج پراگندہ ہوئی۔ دونوں طرف قیامت کا شور ہوا۔ وہ روز گویا روز رست خیز تھا۔ ادھر کی تلواریں کر گئیں، ہاتھوں سے گر گئیں، ادھر کا لوہا تیز تھا۔

آخر زنگی نہایت زبردست، قد و قامت میں مثل فیل مست، بد شکل، دیو بچہ، شاہ بد نہاد کا بھائی، صورت میں قصائی، شہ زادہ سیاہ فام کا چچا گرز گراں بار ہاتھ میں لیے کودتا اچھلتا میدا میں نمودار ہوا۔ اس کی دہشت سے ان کی فوج کے چھکے چھوٹ گئے۔ خائف اور ترساں ہر پیادہ اور سوار ہوا۔ وہ مردود آتے ہی پکارا، بڑی آواز سے گرجا، للکارا کہ ہے کوئی ایسا جو میرا مقابلہ کرے؟ آئے، جسے اپنی جان عزیز نہ ہو وہ مجھ سے مجادلہ کرے؟ ادھر تو اس کے خوف سے لوگوں کا پہلے دم نکل رہا تھا، منہ پر مردنی چھائی تھی، چہرے کا رنگ بدل رہا تھا، مگر بہ حکم بادشاہ، افسران سپاہ اور بہت سے خان بہادر، جان نثار، بڑے بڑے طاقت دار چو منا پچ منا نال اٹھانے والے، مردوں کی ہڈیوں پر چورنگ لگانے والے میدان میں جاتے، ذرا گھوڑے کو ایڑ لگا کے چمکا کے دو دو پلہ کدا کے بجائے تلوار بھاگ آنے کی تھات لگاتے۔ مگر وہ کب چھوڑتا تھا، ایک ایک کو چن کر مار لیتا، پلاؤ قورمے


ریختہ صفحہ 238

کا مزہ چکھاتا۔ غرض جو اس کے سامنے جاتا، جیتا پھر کے نہ آتا۔ اسی طرح شام ہو گئی، ہزاروں نعشیں اس بدمعاش کے ہاتھ سے خاک و خون میں غلطاں ہوئیں۔ رسالوں میں ہل چل پڑی، پلٹنیں ہراساں ہوئیں۔

بادشاہ یہ کیفیت دیکھ کر گھبرایا، اپنی فوج کے سرداروں فرمایا کہ یہ طرفہ ماجرا ہے، کچھ عجیب مزا ہے، جسے دیکھتا ہوں ڈرا جاتا ہے۔ یہ سن کے فوج کے اور بھی پاؤں اُکھڑنے لگے۔ میدان میں جانے کے واسطے آپس میں تکرار ہوئی، بحث کی گفتار ہوئی، آستین چڑھا کے لڑنے لگے۔ ایک نے کہا "جائیے، بہت شیخی مارتے تھے ذرا بڑھ کے تلوار لگائیے۔ؔ اس نے کہا "میں تو بہت لڑا، اب آپ کی باری ہے؛ جانا ہو تو جائیے نہیں جگہ خالی کیجیے، ہتھیار کھول دیجیے۔کس کام کی یہ چھری ہے۔"

غرض آپس میں خانہ جنگی اور رد و بدل ہونے لگی۔ سواروں کی عجیب شکل ہوئی؛ طرق کے طرق، رسالے کے رسالے بھاگنے لگے۔ پیدلوں میں کھل بل ہوئی؛ کوئی درد کا بہانہ کر کے کھڑے کھڑے پیٹ پکڑ کے بیٹھ گیا۔ کسی کو مارے خوف کے دست آنے لگے۔ بڑے بڑے تیر انداز اور پٹے باز لڑے نہ بھڑے، مگر زخمیوں کی ڈولیوں میں سوار ہو ہو کے جانے لگے۔ جواں مردوں کو تیور پر تیور آنے لگے۔مجروحان خنجر بیم سے دار الشفاء شاہی بھر گیا۔ لڑائی کے نام سے لرزہ آیا، خوف و ہراس سب کے دلوں میں اثر کر گیا۔

غرض ہر شخص کو ہر بہانے سے مکتب فرار میں اُستاد کے خوف سے سرک نامے کا سبق پڑھا بادشاہ تنہا ہاتھی پر سوار رہ گئے۔ جو دس پانچ سوار نمک خوار رہ گئے، وہ ایک ایک کا منہ تکٹے رہے، کوئی آگے نہ بڑھا۔


ریختہ صفحہ 239

بادشاہ حیران تھا، تفکر سے سر در گریبان تھا۔ بڑے تردد میں تھا، راہ مشکل درپیش تھی۔ رہائی کی واشد میں تھا کہ آرام دل گھوڑا پھینکتا ہوا شہر کے دروازے سے نکلا۔ بادشاہ ایک سوار کو یکہ و تنہا اوبچی بنا ہوا اور میدان میں بے خوف و بیم آتا ہوا دیکھ کر حیران ہوا۔ سوچا کہ شاید مخالف نے دھوکا دے کر شہر کے اندر کچھ فتور اُٹھایا ہے جو یہ سوار خبر دینے آیا ہے۔ دل میں نہایت خوف سمایا، زانو پر ہاتھ مار کر "ترکی تمام شد" زبان پر لایا۔ فیل بان کو ہول کر چلنے کا اشارہ کیا۔ کچھ تدبیر بن نہ آئی، بھاگنے کا ارادہ کیا۔

آرام دل کسی طرف نہ متوجہ ہوا، سیدھا تیر سا میدان میں جا پڑا اور مقابل ہوتے ہی اُس دیو بچے سے مبارز طلب ہوا۔

بادشاہ یہ کیفیت دیکھ کر ٹھہر گیا اور اس جوان رشکِ غلمان کو جوانی پر افسوس کرتا رہا۔

وہ ملعون تو چاٹ پر لگا ہوا تھا، کسی مارے خاں سے کہاں مقابلہ ہوا تھا! مرد بے ریشہ جو دیکھا، لقمۂ بے ریشہ تصور کیا، جھپٹا : نسیم لکھنوی

بےریشہ وہ طفل نوجواں تھا
حلوا بے دود سے بے گماں تھا

پھر بڑھ کر للکارا اور وہی گزر گاؤسر آرام دل پر اس زور سے پھینک کر مارا کہ اگر وہ اپنی اُستادی سے خالی نہ دیتا تو ہڈیاں پسلیاں پس کر سرمہ ہو جاتیں۔ نیست و نابور ہوتا، نشان زندگی مفقود ہوتا۔

شہ زادے نے گرز کی زد بچا کر اپنی گھات لگا کر گھوڑے کو اُسی میدان میں گرد اس شامت زدہ کے کاوا پھیرا۔ نقطۂ پرکار کی طرح اس زاویہ نشین دائرۂ اجل کو بیچ میں گھیرا۔ ایسا گھوڑا پھیرا، وہ چکر لگایا کہ غور کر کے جو دیکھا تو ایک شے


ریختہ صفحہ 240

مدور موہوم سی معلوم ہوتی تھی، خیال اور تصور سے بھی نہ مفہوم ہوتی تھی۔

وہ ملعون جو محصور ہوا حیران ہو کر مینار کی طرح کھڑا رہ گیا، مجبور ہو گیا۔

آرام دل نے کاوا دیتے دیتے گھوڑے کو دبایا۔ گھوڑا بھرایا، وہ ملعون تھرایا۔ ہھر شہ زادے نے گھوڑا جھپٹا کے اُ س مردود کی پشت میں برچھا مارا اور دھکا دے کر سیخ کی طرح زمین سے اُٹھا لیا۔ وہ برچھا مارا کہ سینے کے پار ہو گیا، وہ دوزخی فی النار ہو گیا : ع

بود اسفل السافلین منزلش

شاہ درارب ہاتھی پر سوار اس رشک رستم اور غیرت سہراب کی جواں مردی پر متحیر اور حیران کھڑا تھا۔ دیکھنے والوں کے ہوش پران تھے۔ فی الحقیقت شہ زادہ ایسا ہی لڑا تھا۔

بادشاہ نے بہ فراست سمجھا کہ ہو نہ ہو یہ شہ زادۂ آرام دل ہے۔ جس کی جستجو اور جس کے دیدار کی آرزو تھی، یہ وہی رشک ماہ کامل ہے۔

الغرض آرام دل نے اُس کی لاش پھینک کر گھوڑا اُٹھایا، ولایتی کمر ےس کھینچ کر صاعقے کی طرح خرمن زندگانیٔ عدو پر جا پڑا۔ گھوڑا کڑکا کے، شمشیر برق دم تڑپا کے جس سوار ہاتھ لگایا، خود سر سے سینے کے کواڑ توڑ کر استخوان کے زینے سے پشت زین پر اُتر آیا۔ جس پیدل کے برابر آ کر سر پر خنجر مارا اس نے سر پر روکا، مثل خیار تر دو ٹکڑے ہوا۔ ہر صغیر و کبیر، برنا و پیر الامان پکارا۔ مارتے مارتے خون کا دریا بہا دیا۔ ہر ناپاک لڑائی کے بکھیڑے سے پاک ہوا اور دریائے خون میں نہا لیا۔ پھر تو اُس کی تلوار کی آب داری کے سامنے کائی سے پھٹ گئی،
 

مقدس

لائبریرین
204
10
رہائی اس گرفتار دام محبت کی عورت بد ذات کے ہاتھ سے، پھر ملک فارس کی طرف روانہ ہونا اس
بادیہ پیمانے عرصۂ الفت کا، محمود سے
ملنا اور آگاه ہونا ملكہ حسن افروز
کے حال سے​


ہاں پلا دے ساقیا اک اور جام
مستیوں کا اب دکھا عالم تمام
دے لبالب بادۂ گلفام تو
لکھ دے اس آغاز کا انجام تو

طلسم کشایان جاده سخن و عزلت نشینان گوشہ رنج و محنع عقده ہائے حال گرفتاران کو ناخن تدبیر سے یوں کھولتے ہیں کہ ایک شب وہی عورت ساحره حسب معمول آرام دل کے پاس بیٹھی اختلاط کی باتیں کر رہی تھی۔ اثنائے گفتگو میں شہزادے کی نظر اس مہر پر پڑی جو وہ ساحره اپنے ہاتھ میں پہنے ہوئے تھی؛ دیکھتے ہی سیم تن پری کی باتوں کا خیال آیا۔ جی میں کہنے لگا "خير سمجهوں گا، پھر آنکھ بچا کر اور ایک بال ان بالوں میں سے جو بازو پر بندھے ہوئے تھے، نکال کر دونوں طرف سے پکڑ کے کھینچا، کچھ دیر نہ گزری تھی کہ سفید دیو ہزاروں دیو ہم راه لیے ہوئے آرام دل کے حضور میں حاضر ہوا۔ آداب و تسليمات بجا لایا اور شہزادے کو اس حال میں دیکھا، سخت متحير ہوا اور

205

گھبرایا۔ ساحره دیووں کی شکل دیکھتے ہی بہ سرعت تمام حجرے میں گئی اور غضب ناک ہو کر ایک ٹھوکر زمین پر ماری، زمين شق ہو گئی۔ صد ہا حبشی شمشیر برہنہ ہاتھوں میں لیے غل مچاتے باہر نکلے، داروگیر کا ہنگامہ ہوا، سب درهم برهم وه کارخانہ ہوا۔ دونوں طرف سے تلواریں چلنے لگیں، زمین سے خون کی ندیاں ابلنے لگیں۔ آرام دل نے سفید دیو سے کہا کہ "کھڑا کیا دیکھتا ہے، جا اور میری انگشتری اس حرافہ سے چھین لا۔" سفید دیو انگشتری کا نام سنتے ہی زرد ہو گیا، خوف سے حراساں ہوا، بید کی طرح لرزاں ہوا، جی میں کہنے لگا "بڑا غضب ہوا کہ انگشتری سلیمانی اس کے ہاتھ آئی، اب میں شہزادے کی رہائی کی کیا تدبیر کروں۔" سوچتے سوچتے ایک کشتی نظر آئی کہ زمین و آسمان کے بیچ میں گردش میں ہے، دیکھتے ہی اس کی طرف لپکا اور ایک ہی حملے میں اس کو اپنے قبضے میں کر زمین پر لايا۔ اس کشتی میں ایک پنجرا اور اس پنجرے میں ایک مینا بند تھی۔ دیو اس مینا کو نکال کر آرام دل کے پاس لایا اور کہا کہ "حضور! اس مینا کے جسم میں اس ساحرہ کی روح ہے، آپ اسے خوب تکلیف دے کر مار ڈالیے، دل کا حوصلہ نکالیے۔ پہلے اس کا ایک بازو توڑیے، پھر دوسرا، پھر ایک ٹانگ، پھر دوسری ٹانگ، پھر خوب زور سے گردن مڑوڑیے، غرض جيتا نہ چھوڑیے۔

آرام دل مينا كو ہاتھ میں لے کر چاہتا تھا کہ پہلے بازو توڑے، ساحره نے غل مچایا کہ "او شہزادے! دیکھ کیا ستم کرتا ہے، میرے احسان بھول گیا، او محسن کش! تو میرے غضب سے نہیں ڈرتا ہے": مصنف

ابھی تجھ کو مزا چکھا دوں گی
خاک ہو جائے گا جلا دوں گی

206

سفید دیو نے جواب دیا کہ "او بد بخت! ننگ خاندان!

شہنشاه قاف جو تم سب کا پیر و مرشد اور استاد ہے، تو نہیں جانتی کہ یہ شہزاده آس کا داماد ہے؛ بس خیر اسی میں ہے کہ وہ انگشتری لا، ورنہ اپنی جان سے ہاتھ اٹھا"
ساحرہ نے کہا "اچھا تو قسم کھا کہ انگشتری لے کے مینا چھڑوا دوں گا۔ دیو نے کہا "مجھے خاک پائے سلیمان کی قسم! اگر تو انگشتری دے گی تو میں پھر تیری مینا چھڑوا دوں گا ورنہ پھر وہی قسم کھاتا ہوں کہ مینا کو مار ڈالوں گا اور اس شہر کو بیخ و بنیاد سے کھدوا کر ہوا پر اڑا دوں گا۔" ساحره نے جب دیکھا کہ سوائے صلح کے اب کوئی چاره نہیں، ناچار وہ انگشتری سفید دیو کی طرف پھینکی۔ دیو نے جلدی سے شہزادے کی انگلی میں پہنا کر یوں عرض کی کہ خداوندا اب اس مینا کو چھوڑ دیجیے اور مع الخير يیاں سے تشریف لے چلیے۔"

آرام دل نے مینا کو چھوڑ دیا اور دروازے کے باہر آ کر شکر خدا کریم بجا لایا۔ پھر دیو کو رخصت کر کے کمر ہمت چست باندهی، ملک جاناں کی راہ لی اور یہ فرمایا: ذوق


رخصت اے زندان! جنوں زنجیر در کھڑکائے ہے
مژده خار دشت پھر تلوے مرے کھجلائے ہے

مئے عشق سے سرشار تھا، جھومتا تھا، خار بیابان ہر ہر گام پر قدم چومتا تھا۔ جب کوئی کانٹا آبلہ پا میں چبھ جاتا تو ہنس کر فرماتا:
خواجہ حیدر علی آتش

آبلے پاؤں کے کیا تو نے ہمارے توڑے
خار صحرا سے جنوں عرش کے تارے توڑے

دهوپ کی حدت، تپ فرقت کی شدت، اپنے حال زار پر دقت،

207

صدمہ دوری سے مرنے کی نوبت، اس حال سے جو آرام دل کا خیال آتا تو جنون اور زیاده ہوتا، یہ کہتا اور روتا: حضرت غالب
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
یعنی ہماری جیب میں اک تار بھی نہیں
شوریدگی کے حال سے ہے سر و بال دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں
ملنا اگر ترا نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے که دشوار بھی نہیں ہے
بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں
طاقت بہ قدر لذت آزار بھی نہیں
دل میں ہے یار کے صف مژگاں سے رو کشی
حالانکہ طاقت خلش خار بھی نہیں

اسی طرح ہزاروں آفتیں اور مصیبتیں جھیلتا ہوا، جان پر کھیلتا ہوا چلا جاتا تھا، فلک کے جور و ستم سے جب گھبراتا تھا تو یہ اشعار زبان پر لاتا تھا: شیخ محمد ابراهيم ذوق
رکھ مکدر بس اب اے چرخ نہ اتنا ہم کو
ہم نے جانا کہ کیا خاک سے پیدا ہم کو
اور ہم درد کہاں، ہو نہ ہو اے حضرت دل
درد اب تم کو ہمارا ہو، تمھارا ہم کو
ہر قدم پاؤں پہ سر رکھتے ہیں خار سر دشت
اے جنوں تو نے ہی کانٹوں میں گھسیٹا ہم کو
دل میں تھے قطرۂ خوں چند سو مانند حباب
نہ رہے وہ بھی جب الفت نے نچوڑا ہم کو
ہم تبرک ہیں بس اب کر لے زیارت مجنوں
سر پہ پهرتا ہے لیے آبلہ پا ہم کو

208

جب چلتے چلتے راہ کی ماندگی سے عاجز آیا، تاب و طاقت نے جواب دیا، بہت گھبرایا۔ ایک درخت سایہ دار نظر آیا، شہزادے نے افتاں و خیزاں بہر کیف اپنے تئیں وہاں تک پہنچایا۔ بے تاب تو ہو¹ ہی رہا تھا، آتے ہی یہ شعر پڑھا اور لب چشمہ گر پڑا:
جرات
نزع میں بھی تری صورت کو نہ دیکھا افسوس
مرتے مرتے بھی نہ ارمان نظر کا نکلا

محمود کہ ان کی تلاش میں دیوانہ وار دو منزلہ سہ منزلہ طے کرتا ملک تبریر کی طرف چلا جاتا تھا، حسن اتفاق سے اس روز اس صحراے پر فضا میں اس کا بھی گزر ہوا، ملکہ حسن افروز کے جذب دل کا اثر ہوا۔ محمود نے دور سے دیکھا کہ ایک شخص جور فلک ستم پیشہ سے پاے مال؛ سرگردان، پریشان، خراب حال؛ کسی کے فراق میں حالت تباه، کوئی سنگ نہ ساتھ مگر بے کسی ہم راه؛ ٹھنڈی چھاؤں میں پڑا سوتا ہے، اس کی بے کسی پر ہر برگ درخت کف افسوس مل مل کر روتا ہے۔ قريب جو آیا شہزاده آرام دل کو پایا، مارے خوشی کے جامے سے باہر نکل گیا۔ قریب تھا کہ شادی مرگ ہو جائے، مگر شہزاده آرام دل پروردۂ ناز و نعم کی مصیبت اور بے کسی کا خیال کر کے غمگین ہوا اور سنبھل گیا۔ پھر جلدی سے پانی کا چھینٹا دے کر ہوش میں لایا۔ شہزادے نے محمود کو جو اپنے پالیں پر بیٹھے دیکھا، سمجها کہ شاید میں خواب دیکھتا ہوں۔ محمود کے گلے لگ کر خوب رویا اور کہا کہ "اے محمود! جس دن سے تو مر گیا، مجھے زندہ درگور کر گیا۔ محمود نے کہا "جناب عالی! میں

1- نسخه مطبوعه 1918ء میں لفظ "ہو" نہیں ہے۔


209

زنده اور ویسا ہی بنده ہوں۔ آپ مجھے مردہ بناتے ہیں، عالم خواب میں، یہ بیداری ہے، یہ کیا کلمہ زبان مبارک سے فرماتے ہیں۔ آرام دل یہ سنتے ہی گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور "ہائے محمود" کہہ کر لپٹ گیا۔ دیر تک روتا رہا، اشکوں سے منہ دهوتا رہا۔ آخر محمود نے کہا "حضور! بہر خدا آپ چپ رہیے، میری سنیے اور اپنی کہیے۔" آرام دل نے کہا: تسكين

جس کا رفیق جس سے جدا ہو گیا ہو یار
وہ اپنی بے کسی پہ نہ روئے تو کیا کرے

محمود نے کہا "خدا حضور کو تا قیامت سلامت رکھے! یہ بجا ہے مگر خدا کے فضل سے خاکسار اب تو زنده ملا، پھر اب کس بات کا گلا ہے، شہزادے نے فرمایا اے محمود!:

حضرت غالب
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت
جگر کو مرے عشق خوں نا بہ مشرب
لکھے ہے، خدا وند نعمت سلامت

غرض آرام دل نے محمود سے اپنا حال پر رنج و ملال بیان کیا، پھر محمود نے اپنا قصہ پر غصہ عیاں کیا اور کہنے لگا کہ جس کے واسطے آپ ایسے بے قرار ہيں، جس بے وفا کے آپ مشتاق ہیں: شوق

جس کا رہ رہ کے دھیان آتا ہے
جس پہ دم دشمنوں کا جاتا ہے
کھاتے ہیں، پیتے ہیں، نہ سوتے ہیں
واسطے جس کے روز روتے ہیں


210

اسے حضور کے احوال سے آگاہ کیا، اس نے تو سن کے کچھ التفات نہ کیا اور اپنے ادنی غلاموں کے برابر بھی نہ سمجها۔ " آرام دل یہ سن کر خاموش رہا، پھر کچھ سوچ کر کہنے لگا: جرأت

"اس دل سے جو ملا نہ دل اس رشک ماہ کا
ہے یہ قصور اپنے ہی بخت سیاہ کا"

یه کہتے ہی آنسو نکل پڑے، رونے لگا، رشتہ تصور یار میں گوہر اشک پرونے لگا۔ محمود نے کہا ''حضور! سمجھنا تو درکنار، آپ کی شان میں بڑی گستاخیاں کی ہیں، بلکہ مجھے بھی چند سطریں لکھ کر دی ہیں اور کہا ہے کہ جہاں کہیں اس اجل گرفتہ کو پانا تو یہ پرچہ دکھانا۔" یہ کہہ کر نامہ شہزادے کے ہاتھ میں دیا، آرام دل نے کہا : ع

"ہرچه از دوست می رسد نیکو است"

پھر پوچھا "یہ خود اس نے لکھا ہے یا دوسرے سے لکھوایا ہے؟" محمود نے کہا "حضور! اپنے ہاتھ سے تحریر فرمایا ہے، دیکھیے تو کیسا کیسا رنگ دکھایا ہے." آرام دل نے کہا "جو کچھ ہو سو ہو: شفيق

اس کو بھی ہم ہزار سمجھتے کیں مغتنم
آتے ہیں اس کے خط جو شکایت بھرے ہوئے

اور اے محمود!: لاادری
ہاتھ کا اس کے خط لکھا لایا تیرے قاصد میں ہاتھ کے صدقے. یہ کہہ کر نامہ لیا، پہلے سات بار تصدق ہوا، پھر بوسہ دے کر بہ صد ذوق و شوق کھولا۔ نسيم
کو سرمہ خموشی نے کھلایا تحریر کو آنکھوں سےلگایا

211


ملک فارس میں پہنچنا آرام دل کا اور باغ حیات بخش
میں جانا ملكہ حسن افروز حور شمائل کا

پھول سے لب ریز بهر کر ساقیا
بادۂ گل رنگ کا ساغر پہلا
دیکھ پھر باغ معانی کی بہار
عاشق و معشوق میں بوس و کنار

زبان راقمان کیفیت گل زار اور خامہ منشيان جادو نگار سے زمين قرطاس پر یوں پھول جھڑتے ہیں کہ زاہد شب زنده دار ماہتاب تسبیح کہکشان ہاتھ میں لے کر حجرہ مغرب میں آیا اور آتشین رخ بے مہر آفتاب نے در پرده مشرق سے چہره انور دکھایا، شہزادے نے کمر ہمت چست باندھی اور محمود کے ہم راه چل نکلا اور ہر روز منزلیں طے کرتا بلبل وار اس گل گلستان رعنائی کا دم بھرتا چلا جا تا تھا۔ بارے چند روز میں ملک فارس میں داخل ہوا، تمنائے خاطر برائی مقصد دل حاصل ہوا۔

آرام دل نے پوچھا "یہ کون مقام ہے؟" محمود نے کہا "ملک دل آرام ہے۔" شہزادے نے فرمایا: مصنف

بخت اسعد کوچہ دل دار میں لایا مجھے
بعد مدت یاب تلک گردوں نے پہنچایا مجھے

اور کہا "اے محمود! لله اب دير نہ لگا، جلد اس آرام جان
سے ملا، محمود نے عرض کی "حضور! اس قدر جلدی نہ فرمائیے، ذرا

212


دم لیجیے، ٹھہر جائیے۔ پھر محمود شہزادے کو اپنے مکان میں لے گیا، سامان ضیافت کیا اور بہت سی قدر و منزلت کر کے مدارات میں مصروف ہوا۔
اب یہاں سے کچھ حال ملكہ جگر افکار کا گوش کیجیے، اور سب فراموش کیجیے کہ ایک روز ملكہ حسن افروز کو فراق دل دار میں غفلت جو آ گئی، عالم خواب میں دیکھا کہ آرام دل تنہا دشت خوف ناک میں ایک درخت کے نیچے پڑا زار زار رو رہا ہے؛ یہ کہتا ہے اور درد دل سے بے قرار ہو رہا ہے: جرأت

نزع میں بھی تری صورت کو نہ دیکھا افسوس
مرتے مرتے بھی نہ ارمان نظر کا نکلا

یہ خواب پریشان اور احوال بے تابی جاناں دیکھ کر یکایک چونک پڑی، گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ دیر تک زاویہ نشین رنج و محن رہی، بحر تفکر میں غوطہ زن رہی۔ پھر بے قرار ہو کر اور رو کر مانی سے کہنے لگی کہ "وه رشک مسیحا کب آئے گا ؟ ہم تمام ہو جائیں گے جب آئے گا؟" مصرع

پس ازاں کہ من نمانم بہ چہ کار خواھی آمد

وہ بولی "بی بی! صبر کرو، چندے اور دل بر جبر کرو: مصرع

صبر تلخ ست و لیکن بر شیریں دارد

ملكہ نے کہا يہاں تو ہر دم نفس واپسیں ہے، ہائے افسوس،
تسلی خاطر کی کوئی صورت نہیں ہے: حضرت غالب

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال¹ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

1 - نسخہ مطبوعہ 1918ء میں "راز" ہے۔

213

مرتے ہيں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

غرض مدام اس ناکام کو آه و نالے سے کام تھا، سوائے مانی اور قمرالنسا کے کسی سے گفتگو تھی نہ کلام تھا۔ نظير اکبر آبادی

کوئی کچھ پوچھے تو منہ دیکھ کے چپ رہ جانا
نہ تکلم، نہ اشارات، نہ حکایت، نہ سخن

اس دن قریب شام قمرالنسا نے آ کر کہا کہ "بیگم! سوتی ہو یا حسب معمول روتی ہو؟" ملکہ نے کہا: جرأت

"خیال خواب کہاں سوز غم سے جلتے ہیں
تمام رات پڑے کروٹیں بدلتے ہیں"

قمرالنسا نے کہا "حضور! خدا آپ کا غم و الم دور کرے، خاطر اندوه آثر مسرور کرے! آج میں باغ حیات بخش میں گئی تھی، سبحان الله عجيب طياری ہے، ہر روش پر گلگشت باد بہاری ہے۔ حضور بھی آج اس باغ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے رشک گلستان ارم فرمائیں، گل و بوٹے کی سیر سے دو گھڑی جی بہلائیں۔"

ملکہ نے فرمایا "معاف کرو، یہیں پڑا رہنے دو۔ رند

تكليف سير باغ نہ دو دل گرفتہ ہوں
طبع شگفتہ چاہیے گلزار کے لیے‘‘

قمرالنسا نے کہا "حضور! خدا کے واسطے چلیے، اگر آپ کا دل نہیں چاہتا تو میری خاطر کیجیے۔ ملکہ حسن افروز کہ قمرالنسا کو دل سے پیار کرتی تھی، اس کی خاطر سے اٹھی اور عجب ناز و انداز سے قمرالنسا کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر حیات بخش کی سیر کے واسطے چلی۔ دو قدم چلی ہو گی کہ اتی حرکت سے رگ رگ سنسنا گئی، ضعف کے سبب سر سے پاؤں تک پسینے میں نہا گئی۔
 

مومن فرحین

لائبریرین
137


یہ سن کے آرام دل بے خود هوا ، چاروں طرف دیکھنے لگا اور دل میں کہنے لگا کہ یہ تو عجب ماجرا هے؛ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا قدرت خدا ہے کہ ابھی تو ایک بند سے رهائی هوئی ھے ، پھر قيد فرنگ کا سامنا ھے . الٰہی! کبھی اس قید سے بھی رھائی پاؤں گا یا یونہی پریشان و سرگرداں هو کر اس کشمکش میں مر جاؤں گا ! پری نے شاہ زادے کو دیکھ کر حال استفسار کیا ، پریشانی کا سبب دریافت کرنے میں بہت اصرار کیا ۔ آرام دل نے
كہا "صاحب مجھ کو سخت حیرت هے کہ آپ کو یہ معلوم هوا کہ ایک شخص اس باغ میں ہمارا مہمان ہے، مگر یہ نہ سمجها کہ کس جگہ کا رہنے والا ہے، کون هے ، کیوں خستہ جان هے ۔ پری نے کہا کہ یہ تو هم جا نتے ہیں کہ آپ شاه زاده والا تبار ہیں ، شاه چین آپ کے والد بزرگ وار ہیں ، سر زمین چین آپ کا مقام ہے، شاه زاده آرام دل آپ کا نام ہے ، مگر یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ کا حال پریشان کیوں ہے چہره گل برگ سے عشق کے آثار نمایاں ہیں ، هر دم چشم گریاں کیوں هے ؟ بہر خدا اس ماجراسے حیرت افزا سے جلد خبر دار کیجیے ، حال اپنا کچھ اظهار کیجیے ؛ میں بھی تو سنوں ، اگر کوئی مرض هو تو اس کی دوا کروں ۔ آرام دل نے جواب دیا : جرأت
دل کی خبر نہ پو چھو کچھ آج کل عزیزو
کیا جانے دل کہاں ہے دو چار دن سے اپنا
صاحب ! ماجراے دل قابل بیان نہیں هے . قره : رویم به بین حالم مپرس ؛ بهی ایک جمله هے ، زیاده بیان کی تاب و تواں نہیں ہے ، اور رونے کا حال کیا پوچھتی هو : سودا
بہنا کچھ اپنی چشم کا دستور هو گیا
دی تھی خدا نے آنکھ سو ناسور هو گیا


138
یہ سب باغ و بہار اپنی آنکھوں میں بد تر از خار نظر آتا ھے ، حال دل بیان کرنے میں خون ہو کے منہ کو جگر آتا هے : درد
گل و گل زار خوش نہیں آتا
باغ بے یار خوش نہیں آتا
اے جنوں ! جیب میں تر ے هاتهوں
ایک بھی تار خوش نہیں آتا
یہ کہہ کر خاموش ہو گیا، یاد چشم مے گون جاناں میں جھوم کر مست و مدهوش ہو گیا ۔
پری نے شہ زادے کے فحواے کالام سے دریافت کیا کہ
بے شک کسی کا عاشق زار ھے، کسی کے تیر نگاه کا فگار هے ، کہنے لگی کہ اے شہ زادے ! میں پرده قاف کے بادشاہ کی بیٹی هوں ؛ ملکہ سیم تن میرا نام هے ، حسن و خوبی میں لاثاني ہوں ، راجا اندر بھی تابع فرمان ، بلکہ ایک ادنی غلام ھے ۔ ایام طفولیت
میں اپنی بڑی بہن کے هم راه تحت طاؤس پر سوار هو کر واسطے سیر ملک چین کے گئی تھی ، ایوان شاہی میں تجھ گل اندام کو خاص محل کے بام پر دیکھا کہ زمرد کی چھپر کھٹ پر عجب خواب ناز میں پڑا سوتا ہے ۔ اب میں کیا کہوں جو اس دم میرا حال هوا ؛ عشق نے دل میں گھر کیا ، جی نڈھال ہوا ۔ بڑی بہن کے سبب سے کچھ بس نہ چلا ، خاموش هو رهی ، مگر دل پر جو صدمہ زیاده هوا تو وہیں بے ہوش هوگئی : مصنف
مجھ سے جو وه ماه مقابل هوا
مثل کناں ٹکڑے مرا دل هوا
سیر جو کی لالۂ رخسار کی
داغ جدائی مجھے حاصل هوا
میری بہن مجھے بے هوش دیکھ کر گھبرائی ، دوڑی کہ شاید کسی نے جادو کیا هو ، اس لیے جلدی سے انگشتری سلیمانی میرے



139

ہاتھ میں پہنائي ۔جب مجھے گونہ افاقہ هوا ، بے خودی کا سبب پوچھنے لگی ۔ میں نے بہانہ کر کے کہا کہ اس وقت ہوا ٹھنڈی چل رہی تھی ، مجھے نیند آتی تھی سو گئی ۔ خیر ، اس وقت کی بات تو رفت و گزشت ہو گی، جب مکان پر آئی دن بھر جی نے چین
رها ، طبیعت بہت گھبرائی . وهاں سے آ کر باغ میں ٹہلنے لگی ، گل و گلزار کی بہار سے کچھ طبیعت بہلنے لگی ۔ آخر خدا خدا کرکے شام ہوئی ، دعا میری بہ درگاه ملک العلام هوئی ؛ اس وقت می تنہا بہ ذات خاص صرف هم راہ ، ایک خواص تخت پر سوار هو کر پھر اسی طرف روانہ هوئی . وهاں پہنچ کر اسی محل کے بام پر اتری ۔ چاروں طرف تیری تلاش کی ، کہیں نہ پایا ، بہت جستجو کی ، لیکن تو نظر نہ آیا ۔ نا چار مایوس ہو کر با دل داغ دار یہ شعر آستانہ مبارک پر قلم مژگان اور شنجرف لخت دل سے لکھ کر روانه بہ سوئے خانه هوئي : مصحفی
اگرت حبیب باشد به درت رسیده باشد
چو ترانه دیده باشد چه قدر طپیده باشد
الغرض تجھ کو نہ دیکها تو دل کو صدمہ كمال هوا ۔ باغ آرام میں پہنچی، پھر تو یہ حال هوا کہ ہر روز بے تابی دل ستانے لگی ، در ساعت موت اپنے مزے چکھانے لگی ۔ ایک روز تنہائی میں بیٹھی رو رہی تھی ، تیرے فراق میں بے قرار ہو رہی تھی کہ ایک خواص نے عرض کی حضور کسی طرح کا رنج و الم نہ کریں ، میں نے گردش سبع سیاره سے دریافت کیا هے کہ جس شخص کی آپ عاشق زار ہیں ، جس کے واسطے حضور بے قرار ہیں ، ان شاء الله تعالي چار برس میں اس سے اور آپ سے ملاقات ہوگی ؛ جس امر کی حضور کے دل میں تمنا ھے ، وہ بات هو گی، لیکن حضور فلانے مقام پر ایک باغ اور مکان کی تعمیر کا حکم دیں اور


140
بعد تیاری کے اس کو عجائبات اور اس طلسمات سے مرتب کریں ۔ وہ شخص چار برس کے عرصے میں سر
گشتهء بادیہء غربت اور آواره صحرائے کربت هو کر اس باغ میں آوے گا ، خوب سیر کر کے جب اراده جانے کا کرے گا هرگز جانے نہ پاوے گا ۔
غرض اے شہ زادے ! میں نے یہ کلام جب سنا ، اسی وقت باغ اور مکان عمده کی تعمیر کے لیے حکم محکم دیا ۔ جب باغ اور مکان میرے دل خواه تیار هوا ، دل بے قرار کو کچھ قرار هوا -
اس روز سے میں نے تنہائی اختیار کی، امید وصال میں ایک ایک دن گننے لگی ۔ رات دن صدمہ فراق سے جان کھویا کرتی اور عالم تنہائی میں یہ اشعار پڑھ کر رویا کرتی : نسیم لکهنوی
عالم کا ترے جہاں بیاں هے
بے تائی دل جهاں جهاں هے
زنجير جنوں کڑی نہ پڑیو
دیوانے کا پاؤں درمیاں هے
ذرے کا بھی چمکے گا ستارہ
قائم جو زمین و آسماں ہے
جو داغ کہ مہر ہے فلک پر
دل میں مرے اب تلک نہاں هے
اے شہ زادے! آخر خداوند کریم نے تجھ بت .. وفا کی صورت دکھائی ، خدا خدا کر کے آج جی کی مراد پائی ؛ اب میں دیکھتی ہوں کہ تو بھی کسی گل بدن کا بلبل زار ہے ، معلوم هوتا هےکہ خدنگ عشق سے سینہ فگار هے : حضرت استاد غالب
هوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وه هم سے بھی زیاده کشته تیغ ستم نکلے
اب بہر خدا یہاں چند روز کرم فرمائیے ، پرستان کی سیر کیجیے ، یہاں کی چیزیں کھائیے ، بالتفصيل حال بیان کیجیے اور جب تک هم نہ کهیں تب تک یہاں سے نہ جائیے ، پریوں کے ساتھ مزے اڑائیے ۔


141
وصل سے کام یاب هونا سیم تن جان جہاں کا اور رخصت طلب کر نا آرام دل عازم کوئے جاناں کا

پلا ساقیا جام آتش لباس
کہ دل کو ھے میرے هوس بے قياس
عروج طبیعت دکھاؤں تجھے
نیا ایک قصه سناؤں تجھے
محرران جادو نگار و راقان فسوں کار لوح قرطاس پر نقوش بیان داستان یوں مرتسم فرماتے هیں کہ جب آرام دل نے یہ قصہ سنا ، نہایت حيران هوا ؛ جی میں کہنے لگا 'یک نه شد دو شد یہ تو بلا کی طرح پیچھے پڑی ؛ اب میں کس طرح اس کے دام سے رهائی پاؤں گا، ملک فارس تک کیوں کر جاؤں گا۔ سوا اس کے یہ
پری میں انسان ، ديو اس کے تابع فرمان ؛ اب سوا سچ بولنے کے چاره نہیں ہے ، بے مرضی اس کے یہاں سے جانا غیر ممکن هے ، کوئي سہارا نہیں ہے۔ یہ سمجھ کر تمام و حال احوال ماضی و حال اپنا آرام دل نے اس بدر کامل سے ظا هر کیا ؛ آس سوخته آتش فراق کو ملكہ حسن افروز کے عشق کے ماہر کیا ۔
سیم تن پری جب سب حال سن چکی تو مخاطب ہو کر بولی " کیوں حضور! ذرا انصاف کیجیے، تقصير میری معاف کیجیے کہ هم تو آپ پر جان فدا کریں اور آپ بے دیکھے کا دم بھریں ۔ صاحب! ہم نے چار برس کامل تمھارے فراق میں صدمے اٹھائے ،


142
رات دن دعائیں مانگیں اور تمھارا یہ کلیجا کہ ايسا كلمه زبان پر لائے ۔ افسوس ! اگر ہم جانتے کہ آپ ایسی بے وفائی ، کج ادائی کریں گے تو کیوں آپ پر جان نثار کرتے ، در به در خاک چھانتے پھرتے : جرأت
جستجو میں دل کے بہلانے کو جی کھونا پڑا
جو هنسی کی بات تھی سو اس کا اب رونا پڑا
سچ تو یوں ہے بے جگہ ربط ان دنوں پیدا کیا
سوچ ہر دم ہے یہی ہم کو کہ ہم نے کیا کیا
آرام دل نے کہا صاحب! کیا دشمنوں پر مصیبت پڑی جو ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں بھرتی هو، هر گھڑی نالے کرتی هو: لا ادری
ہم ترے واسطے مجنوں بھی هوئے
مورد گردش گردوں بھی ہوئے
ظلم کے گرچہ سزا وار نہ تھے
پر ترے عہد میں هم یوں بھی هوئے
تو ملے غیر سے اور یاں میرے
مفت میں دیدہ و دل خوں بھی هوئے
پری نے کہا ’’ اے شہزادے! تو جانتا ھے که میں اس پرستان کے بادشاه کی دختر هوں ، مجھے سب طرح کی قدرت ھے ؛ اگر میں اپنی سخن پروری کروں تو تجھے ہرگز جانے نہ دوں ، لیکن کیا کروں تو میرا محبوب هے ؛ هر ادا تیری میرے دل کو مرغوب هے ، اور دنیا میں سبھوں نے اپنے معشوقوں کی ناز برداری کی ہے ، دین و دنیا دونوں سے گزر گئے ہیں ، ظلم سہتے سہتے مر گئے هیں ، اس لیے تیرا جور و ستم اپنے نزدیک کرم سمجھتی ہوں ، تیری رضا اپنی جان شیریں پر مقدم سمجهتی هوں ۔ بہر کیف آج کی شب


143

یہیں آرام کر ، میرے زخم دل کا مرهم وصال سے التيام كر ؛ صبح جو کہے گا ، بجا لاؤں گی؛ یا تجھ کو وہاں پہنچاؤں گی یا حسن افروز کو کہ جس کا تو دیوانہ ہے ، یہاں لے آؤں گی ۔ اس گفتگو سے آرام دل کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ؛ خوف سے ڈرا اور سوچا کہ مبادا یہ پری طیش میں آ کر مجھے گرفتار بلا کرے ، ایسا نہ هو کہ جادو کرے ۔ پھر یہ خیال کیا کہ آخر
یہ بهی تو شهزادی ہے ؛ بھولی بھولى شكل ، وضع سادی سادی هے ؛ علاوہ اس کے تم پر مرتی ہے ، تمھارے اوپر جان فدا کرتی هے ؛ آؤ آج یہیں گزر کرو، جو ہوتی ہو سو ہو ، آج کی شب اسی جا سحر کرو۔ یہ تصور کر سیم تن پری سے کہا کہ میں تمھارا تابع دار ہوں ، جو ارشاد هو بجا لاؤں؛ مگر اتنا امید وار هوں کہ صبح کو مجھے نہ رو کیے گا، جاتے وقت نہ ٹو کیے گا . یہ کہا اور بہ قول
حسن
پکڑ ہاتھ مسند په کھینچا اسے
محبت کے رشتے میں اینچا اسے
ملکہ سیم تن کہ پہلے هی شہ زادے کی ہر ایک ادا پر فدا تھی ، اس بے باکی پر اور بھی مر گئی ، تمناے وصال اور بھی زیاده ہوئی ، چادر شرم و حیا کی سر سے اتر گئی ۔ یہ کیفیت دیکھ کر سب پریاں وہاں سے
ہٹ گئیں ۔ کچھ درختوں میں جا کے چھپیں ، کچھ کمرے کے دروازے میں چھپ گئیں ؛ فقط ایک خواص باقی رہی جو اس حال سے خبردار تھی ، محرم اسرار تھی ، وہی ساقی رہی ۔
یہاں تو یہ صحبت تھی اور وہاں یہ کیفیت تھی کہ جب سے

١- اینچنا : کسنا ، کھینچنا، کشش کرنا ۔
۲- یہاں سے چند فقرے کثافت کی وجه سے حذف کر دیے گئے ہیں ۔



144
محمود گرا تھا ، اسے کچھ خبر نہ تھی ، بے هوش پڑا تھا۔ چند پر یاں جو اس طرف جا نکلیں ، دیکھتی کیا هیں کہ ایک شخص بوڑها ، ستر اسی برس کا سن و سال ، سر اور ریش کے سفید بال ، سبز عمامہ سر پر ، عباے عنابی در بر، خضر صورت ، پیشانی پر نماز کا گھٹا ، بہ ظاهر مرد کی شکل ، مگر اچھا ہٹا کٹا ، ایک درخت کے نیچے بے ہوش پڑا ہے۔ یہ دیکھ کر متعجب هوئیں ؛ با ہم کہنے لگیں کہ ارے اس باغ میں سوائے شہ زادے کے اور کون ایسا ہے جس کا گزر ہوا ؟ یہ انسان بھی کیا پیر نا بالغ ھے کہ اس کو اپنی جان کا نہ خطر ہو ۔ آخر ایک جو ان سب میں کڑے دل کی تھی ، آگے بڑھی اور محمود کا ہاتھ پکڑ اٹھانے لگی ۔ اس کو جو ہوش آیا تو آپ کو ملک الموت کے منه میں پایا ، سمجھا کہ قضا آن پہنچی ؛ شہ زادے کو خدا جانے کیا کیا ، اب ہماری بھی جان نہیں بچتی - یہ سمجھ کر عاجزی سے کہنے لگا کہ میں اس شہ زادے کا نوکر ہوں جو اس باغ میں آیا ھے ۔
غرض سب پریاں محمود کو گھیرے ہوئے جہاں آرام دل اور ملکہ سیم تن بیٹھے هوئے اختلاط کر رھے تھے، لے کر آئیں ۔ سیم تن محمود کو دیکھتے ھی شہ زادے کے پیچھے چھپ گئی اور پوچھنے لگی کہ یہ کون هے ؟ آرام دل نے کہا " صاحب یہ همارا یار غم خوار جان نثار ہے ۔ اس مصیبت میں اس نے ساتھ دیا ہے ، یار وفادار ہے " یہ کہہ رہا تھا کہ محمود آیا ؛ پہلے تو ملکه سیم تن کے حضور میں آداب بجا لایا ، پھر آرام دل کو تسلیمات کر کے قدم بوس ہوا اور ایک طرف لب فرش مؤدب بیٹھا - پرپول نے حال محمود کی بے هوشی اور راز خود فراموشی کا حضور میں ملکہ سیم تن کی عرض کیا۔ پری اس کی باتوں کو سن کر زیر لب مسکرائی اور دیر تک اس سے هنستی رهی۔ جب رات



145

بہت گزری ، محفل رقص و سرود برخاست اور بزم عیش و نشاط آراسته هوئی . ملکه سیم تن نے خواص کو اشارہ کیا اور فرمایا :
ساقی نه رکے دور یہ موسم ہے غنیمت
پیری میں جوانی کے مزے یاد کریں گے
به مجرد ایماے ملکہ اس پری نے ایک جام بادۂ گل فام سے لب ریز کر کے شه زادے کو دیا ۔ آرام دل نے وہ ساغر ملکہ سیم تن کو پلایا اور دوسرا جام اس کے ہاتھ سے آپ پیا۔ محمود تو ایک هی پیالے میں بے هوش ہو گیا۔ پھر تو یہ کیفیت هوئى کہ سیم تن نشہ شراب سے بے خود هو کر آرام دل کی گود میں گر پڑی ۔ شه زادے نے جی میں کہا کہ واقعی یہ پری تمهاری عاشق ہے ، صحبت کے بھی لائق ہے ، عالم شباب ہے ، اٹھتی جوانی ہے ، چلو مزے کرو ، یہی لطاف زندگانی ہے ۔
الغرض آرام دل نے پری کو گود میں اٹھا لیا اور بارہ دری کے اندر جا کر چھپر کھٹ میں لٹا دیا ۔ جگانے کے لیے گدگدیاں کیں ، آوازیں دیں ، چٹکیاں لیں ! آخر جب ملا دلا گدگدایا تو ذرا ملكہ کو هوش آیا ۔ آنکھ جو کھولى وصال یار سے بغل گرم پائی ۔ یاوری بخت اور فرط محبت سے باغ باغ ہو گئی ، پھولی نه سمائی ۔ اسی حالت مستی و سرور میں آرام دل سے کہنے لگی کہ کیوں جی! میں اگر صبح کو تمھیں نہ جانے دوں تو تم کیا کرو ؟ع
ذرا اس کا مجھے جواب تو دو
آرام دل نے کہا " صاحب اگر یہی اراده هے تو اس میں کیا چاره ہے، اس کا اجاره ؟"
هر چه آید بر سر فرزند آدم بگزرد



146

' قہر دروېش بر جان درویش' اور اس کا میں کیا جواب دوں ؛ مگر اتنا سمجھ لو کہ اگر عهد شکنی پر کمر باند هو گی تو همیں زندہ نہ پاؤ گی، یاد رہے کہ بہت پچھتاؤ گی ۔ " یہ کہتے ہی خیال جاناں میں آنکھوں سے آنسو گر پڑے ۔ سیم تن پری نے بلائیں لے کر کہا میں تو ہنستی تھی ، محض امتحان پر کستی تھی کہ دیکهوں تم کیسے هو ، دل کے کڑے هو یا بودے هو: شعر
ذرا سی بات میں رنجیدہ ہو گئے صاحب
عبث ہے رونا اجی دیکهو وه هنسی آئی،
یہ کہہ کر ہم آغوش هوئي ، نشه بادۂ الفت سے بے هوش هوئی ۔ جب ہوش آیا ، سر اپنا آغوش دل دار میں پایا ؛ یاوری طالع ومساعدت بخت پر سخت عجب هوا ؛ غایت مسرت سے اس وقت یہ شعر زيب ده کام و لب ہوا : غالب
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت هے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے هیں
غرض اسی طرح سے غمزہ و ناز، سوز و گداز، راز و نیاز کی با ہم باتیں رہیں ، حسن عشق کے جلوه هاے نیر نگ سے عجب لطف کی ملاقا تیں رھیں ۔ دونوں اسی لطف میں تھے کہ سپیدهء صبح نمودار هوا ،
سیم تن کا دل بے قرار ہوا ۔ آرام دل نے محمود کو جگایا ۔ محمود نے کہا "حضور اب آپ کا تو پری سے وصال هے ، فارس جانا محال ہے ۔ سبحان الله ! حضور بھی کیا چیز ہیں ، یا تو بہ ایں شورا شوری یا بہ ایں بے نمکي ، خير شکر خدا کہ اب آپ کی طبیعت کچھ کچھ بہل گئی ، ایک شغل پیدا هو گیا ، ذرا سنبهل گئی ۔
آرام دل نے کہا ’’محمود ! مصلحت وقت یہی تھا جو میں نے


147
کیا ہے ۔ اے عزیز! اس نے رخصت کے لیے قسم کھائی، مجھے قول دیا ہے ۔ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو يہاں قید میں جان سے گزر جاتے، کبھی رهائی نہ هوتی ، تڑپ تڑپ کر مر جاتے ۔“ یہ کہہ کر شه زاده سيم تن کے پاس آیا اور کہا " اب رخصت " پری نے جواب دیا 'صاحب ! رخصت چه معنی دارد ، تم نے سنا نہیں :
نسیم لکھنوی
آتا ہو تو ہاتھ سے نہ دیجیے
میرا اس مصرع پر عمل ہے، تمهارے دماغ میں تو خلل ہے ۔ شه زادے نے کہا : نسیم لکھنوی
جاتا هو تو اس کا غم نہ کیجیے
یہ مصرع عمل کے لائق ہے ، اس سے فائق ہے. سیم تن بولی کہ 'چه خوش ! خیر میرے آپ کے عہد و پیمان هوا ہے ، اس کو وفا کرتی هوں ؛ ایک دم توقف کرو ، ملکہ حسن افروز کو یہاں لا کر تمھارا کلیجا ٹھنڈا کرتی هوں . آرام دل نے کہا " بس خدا کے واسطے آپ اتنی تکلیف نہ کیجیے ، مجھ کو بہ یک بینی
دو گوش یهاں سے رهائی دیجیئے ۔ صاحب ! ذرا خیال کرو ، میں نے جو اپنا گھر بار چھوڑ ا، سلطنت سے منہ موڑا تو کیا اس واسطے کہ آپ کے پاس بیٹھ رہوں اور مزے کروں؛ جس کے واسطے سرگرداں
هوا : ایک عالم کی خاک چھانی ، خسته و پریشان هوا ، اس کو اس حکومت سے بلوا لوں ! یہ تو عاشقی نه هوئی ، رنڈی بازی هوئي ؛ محبت نہ هوئی ، جعل سازی هوئی . سیم تن نے کہا نا حق اتنی مشقت اٹھاتے هو ، منزلوں جاتے هو ؛ اگر کہو تو میں بیٹھے بیٹھے تمھارے معشوق کو بلوا لوں ؟، آرام دل نے کہا "ذرا اتنا تو سمجھو ، کیا هم اتنے نہ تھے کہ شاہ فارس سے بہ ذريعہ نامہ و پیام
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ 241

شاہ روسیاہ کی قسمت اُلٹ گئی۔ سب ادنیٰ و اعلیٰ، سوار و پیادے کچھ پیچھے اور کچھ آگے سروں پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ جو بھاگے وہ تیر دو پیکر کے ہدف ہوئے، نشانہ ہوئے۔ جو مقابل آئے شمشیر دو دم سے ملک عدم کو روانہ ہوئے۔ وزیر مارا گیا، پیدل کام آئے، شاہ کو اعراب کا بھی سہارا گیا۔

آرام دل اڑھائی ہاتھ گھوڑا اُڑا کے شاہ کے رو بہ رو لایا۔ بادشاہ نے بھاگنے کا رخ کیا، مگر پیدلوں کہ ہل چل سے خانۂ فرار بند پایا۔ ذرا توقف کیا، شہ زادے نے گھوڑے سے کود کر شاہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ سبحان اللہ! عجیب واردات ہوئی کہ شاہ کو بھری بازی میں پیدل کی کشت مات ہوئی۔ شاہ دارات اس کی جواں مردی اور چالاکی سے متحیر ہوا، حیرت سے ششدر ہوا۔ شہ زادے کے قریب آیا، ہاتھی سے اُتر کے گلے لگایا۔ دست و بازو چومے، پیشانی پر بوسہ دیا۔ شہ زادۂ سیاہ فام اپنی شکست اور اپنے باپ کو مقید دیکھ کر مع فوج باقی ماندہ و ہزیمت خوردہ اپنے ملک کی طرف بھاگا۔ شاہ روسیاہ، اس کا باپ آرام دل کے ہاتھ سے مارا گیا۔ سر اُس خود سر کا تیغ دع پیکر سے اُتارا گیا۔

جب مقصد دل حاصل ہوا، بادشاہ مع شہ زادہ مظفر و منصور قلعے میں داخل ہوا۔ دل ربا نے جو شہ زادے کو مضطر دیکھا، صنوبر سوختہ جگر کے جذبۂ دل کا اثر دیکھا، بہت ادب سے جھک کر سلام کیا اور دست بستہ یہ کلام کیا کہ کیوں حضور! کچھ دل جلوں کی بھی خبر ہے؟ وعدہ وفا کیجیے گا یا یوں ہی دم دیجیے گا؟ فرمائیے کیا مد نظر ہے؟

آرام دل مسکرایا۔ بیگم صاحبہ نے محل میں بلایا، گلے لگایا، کئی خوان زر و جواہر کے نثار کیے۔


ریختہ صفحہ 242

پھر بادشاہ باہر تشریف لائے؛ دفتر خانے میں جا کر بخشی سے اہل سیف کی فہرست طلب فرما کر یک قلم سب کے نام پر قلم کھینچ دیا اور افسروں کے لیے قتل کا حکم سنایا۔

آرام دل نے عرض کی کہ حضور غضب کرتے ہیں۔ بادشاہ بے فوج گنبد بے در ہے اور ابھی تو صبح ظفر کی شام بھی نہیں ہوئی، چرخ درپۓ کیں ہے : مصرع

دشمن نتوان حقیر و بے چارہ شمرد

ابھی بڑا خطرہ ہے۔ فوج کو موقوف نہ کیجیے، بلکہ سرداروں کی تعریف کر کے ان کو انعام اور غلعت دیجیے۔ بادشاہ نے شہ زادے کی دانش مندی پر تحسین کی؛ یہ رائے بہت پسند آئی، اس کی تدبیر پر آفرین کی۔ پھر دربار عام کیا۔ افسروں کی بڑی قدر و منزلت کی۔ اس فتح میں انہیں کا نام کیا۔ ہر ایک کو علیٰ قدر مراتب خلعت گراں بہا سے سرفراز کیا اور سپاہیوں کو بہت سا انعام دیا۔ پھر نجومیوں کو طلب فرمایا، شادی کے واسطے اچھی ساعت دیکھنے کو ارشاد کیا۔ اُنہوں نے پوتھی کو کھولا، جنس وصال کو میزان قیاس میں تولا۔ بعضوں نے قرعہ پھینکا، ہندسوں اور شکلوں کو ملایا۔ پھر ایک زبان ہو کر سب نے عرض کیا کہ ایک برس شہ زادی کا ستارہ اور گردش میں ہے، ابھی وصلت نہ چاہیے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شہ زادۂ بلند اقبال پھر غائب ہو جائیں گے۔ اُن کو ہر دم اپنی نظر کے سامنے رکھیے، ان سے غفلت نہ چاہیے۔ بادشاہ نے ان کو رخصت کیا اور فرمایا کہ "صدق اللہ و کذب النجوم" مگر ہر دم شہ زادے کو پیش نظر رکھنے لگا، اُس کے دیدار سے خرسند ہوا۔ دم علیحدہ ہونے نہ دیتا، نجومیوں کے کہنے کے موافق کاربند ہوا۔


ریختہ صفحہ 243

14
داستان ملکۂ حسن افروز کا موتی محل میں آنا اور آرام دل کی جدائی سے بے قرار ہونا۔ پھر آرام دل کا آنا اور ملاقات سے ملکہ کی خجل اور شرم سار ہونا

پلا ساقیا بادۂ ارغواں

کہ پھر بزم کی اک لکھوں داستاں
مرا یار از بس ہے نازک دماغ
وہی ہے مرے دل کا چشم و چراغ
جو ارشاد ہو وہ بجا لائیو
جہاں تک وہ ماقنگے دیے جائیو

راقمان احوال واماندگاں، و محرران کیفیت مہجوریٔ دور افتادگاں حال فراق اور وصال یوں رقم کرتے ہیں کہ جس روز آرام دل ملک داراب کی طرف روانہ ہوا، اُس رات کو حسب دستور وہ رشک حور مانی اور قمر النسا کے ساتھ موتی محل میں تشریف لائی؛ آرام دل کو جو نہ دیکھا گھبرائی۔ مانی سے کہنے لگی "آج خلاف معمول شہ زادۂ عالم کہاں گئے ہیں؟" مانی نے کہا "کیا خوب! اب تمہارے واسطے وہ اپنے پاؤں میں بیڑیاں ڈالیں؟ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھے رہیں؟ دروازے کے باہر قدم نہ نکالیں؟ لڑکی اتنی قید بند مجھے پسند نہیں آئی، ایسی محبت بھی میری چڑھ ہے، مجھے نہیں بھاتی۔"


ریختہ صفحہ 244

یہ سن کے ملکہ خاموش ہو رہی اور شہ زادے کا انتظار کرنے لگی۔ کبھی دل میں یہ خیال آتا کہ سیم تن پری نہ اُڑا لے گئی ہو، کبھی یہ وسواس جی میں سماتا کہ ماشاء اللہ چشم بد دور! رشک حور ہے کوئی اور پری نہ اُٹھا لے گئی ہو۔ کبھی انہیں باتوں کا خیال کر کے چپکے چپکے رونے لگی، کبھی فرط انتظار سے بے قرار ہونے لگی۔ آنسو جو گرے مانی نے کہا "شہ زادہ جو اب تک نہیں آیا تو اس لیے روتی ہو؟" ملکہ نے جواب دیا کہ مانی! اب بھی میں تمہارا کچھ لیتی ہوں، کچھ کلام کرنے کی تکلیف دیتی ہوں جو مجھے ستاتی ہو، ناحقو میرا جی جلاتی ہو : حضرت اسد اللہ خاں غالب

دل ہی توہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
جب وہ جمال دل فروز صورت مہر نسیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں

آخر اسی انتظار اضطرار میں تمام رات گزر گئی۔ بے تابیؐ شب ہجر عاشق کی اس آرام دل تک بہ وسیلۂ نسیم سحر گئی۔ ملکۂ گل اندام، ناکام، بہ صد درد و آلام خاص محل میں آئی۔ دیر تک متحیر رہی۔ پھر قمر النسا سے کہنے لگی کہ دیکھو کیا طوطی چشم تھے، کیا جلد آنکھیں بدل گئیں۔ باوجود اس قید و بند کے پھر بھی نہ رکے، فرصت جو پائی خدا جانے کہاں نکل گئے۔ بھلا غور تو کرو کسی سے کیا دل لگائیں، کون کون سے دکھ اُٹھائیں، کس کس بات کو کہیں، آخر ہم بھی تو آدمی ہیں، کہاں تک بار غم اُتھائیں؟ : میر تقی

اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو اُس نے مروت کو کیا ہوا


ریختہ صفحہ 245

میر صاحب موصوف

فلک نے عشق کی اب رہ میں ہم کو پیدا کر
بسان سبزۂ نورستہ بائمال کیا

یہ باتیں کر کے ٹھنڈی ٹھنڈی سانس بھر کے رونے لگی، شبنم کا عرق چین آنسوؤں سے بھگونے لگی۔

قمر النسا نے کہا "حضور قصور معاف! آپ کو نہ کچھ شعور ہے نہ رہم ہے؛ یوں ہی ناحق بدگمانی ہے، وہم ہے۔ بھلا یہ تو سمجھیے کہ اگر ان کو جانا ہوتا تو پھر کیوں اپنی سلطنت اور حکومت چھوڑ کے یہاں آتے؟ اگر آپ کے عاشق نہ ہوتے تو کیوں آپ کے طلب وصال میں ہزاروں مشقتیں اور لاکھوں صدمے اُٹھاتے؟ سیم تن پری اور شہ زادی صنوبر مل گئیں تھیں، دو دو کے مالک ہوتے، وہیں نہ رہ جاتے۔" یہ کہہ کر کچھ سوچی اور چور دروازے سے موتی محل میں گئی۔ دیر تک شہ زادے کے آنے کی منتظر رہی۔ آخر جب بہت عرصہ ہوا اور نہ کچھ خبر معلوم ہوئی، نہ شہ زادہ اس وقت تک آیا تو قمر النسا کے دل میں شک آیا، غمگین پھر آئی۔ ملکۂ حسن افروز نے فرمایا : جرأت

"غضب ہے یہ کہ جس کی عاشقی میں جی سے جاتے ہیں
تو وہ کہتا ہے اب تک ہم محبت آزماتے ہیں

ہائے اللہ! کس نے یہ تفرقہ ڈالا، میں نے تو ابھی نظر بھر دیکھا بھی نہیں تھا۔ کیوں رے فلک کینہ ور! تو نے یہ کب کا بخار نکالا؟ جرأت

بہ تنگ آئے ہیں اس دل کے پیچ و تاب سے ہم
جو مر مٹیں تو چھٹیں آہ اس عذاب سے ہم"

پھر قمر النسا سے کہنے لگی "کیوں ہمیں وہم تھا، تمہارے نزدیک


ریختہ صفحہ 246

وقوف تھی، کچھ نہ فہم تھا۔ اب بتاؤ یہ کیا ہوا؟ بیٹھے بٹھائے مجھ پر آسمان ٹوٹ پڑا۔ ہائے یہ کیسا حشر برپا ہوا!" جرأت

دکھ جدائی کے ہمیں تو نے دکھائے اے زیست!
کاش کہ وصل ہی میں جی سے گزر جاتے ہم

قمر النسا نے کہا "بیگم! خدا کے واسطے گھبرائیے نہیں؛ شہ زادہ ٔ عالم ان شاء اللہ تعالٰی جلد تشریف لاتے ہیں، یہ سب غم و الم خدا کے فضل سے دور ہوئے جاتے ہیں۔" ملکہ نے کہا : ذوق

موت ہی سے کچھ علاج درد فرقت ہو تو ہو
غسل میت ہی ہمارا غسل صحت ہو تو ہو

القصہ ملکۂ حسن افروز بھر از سر نو آتش فراق میں جلنے لگی، شعلۂ عشق سے گھل گھل کے شمع کی طرح پگلنے لگی۔ مانی اور قمر النسا ہر چند تسکین دیتیں، دل داری کرتیں، اُس سرگشتہ بادیۂ حزن و ملال کی غم خواری کرتیں، مگر وہاں آہ و فغاں سے کب فرصت تھی؛ رات کو شور مچانا، سوتوں کو جگانا، دن کو چپکے رقت تھی۔ قمر النسا ہر روز موتی محل میں جاتی، باغ حیات بخش میں پریشان پھرتی اور مغموم پھر کر چلی آتی۔ بادشاہ نے جو شہ زادے کے چلے جانے کا حال سنا، بہت متردد ہوا۔ اُسی وقت جا بہ جا، ملک ملک، ہر اقلیم میں اس مضمون کے شقے جاری کیے کہ جہاں شہ زادۂ آرام دل ہو، حاکم وہاں کا بہ مجرد دریافت حال بہ کمال عز و جلال اپنے ہمراہ لے کر آئے، اور حکم دیا کہ وزیر ہر طرف سوار روانہ کر دے اور آپ بھی جائے۔ وزیر حسب الحکم عمل میں لایا۔


ریختہ صفحہ 247

وہاں آرام دل شاہ دارات کے یہاں رہتا، فراق یار کے رنج سہتا تھا؛ ایک دم جدا نہ ہونے پاتا تھا، نہایت بے چین ہوتا، سخت گھبراتا تھا۔ ایک شب شہ زادہ شاہ داراب کے پلنگ کے برابر سوتا تھا، سوتا کیا تھا منہ لپیٹے ہوئے پڑا تھا۔ یہ کہتا تھا اور روتا تھا : نسیم دہلوی

بے تابیوں نے دل کی ڈالا ہے کس غضب میں
پہلو بدل رہے ہیں نالے کنار شب میں

بادشاہ غافل سوتے تھے۔ یہ تو منتظر وقت اور مترصد فرصت تھا، موقع پا کر اُٹھا اور بارہ دب کی ایک صحنچی میں جا کر اسی عمل سے سفید دیو کو بلایا۔ آرام دل نے کہا "مجھے جہاں سے لایا ہے وہاں پہنچا دے۔ بے قرار ہوں، جلد ملک جاناں دکھا دے۔" دیو نے حسب الحکم : نسیم لکھنؤی

کندھے پہ چڑھا کے مثل گیسو
اس گل کو اُڑایا صورت بو

شہ زادے نے آنکھ بند کر کے پھر جو کھولی آپ کو باغ حیچا بخش میں موتی محل کے دروازے پر پایا۔ دیو کو وہیں سے رخصت کیا اور آپ اندر محل میں تشریف لایا۔ حسن اتفاق سے قمر النسا بھی اس وقت موتی محل میں آئی تھی۔ شبیہ آرام دل کی جو طاق میں گل دستوں کے بیچ میں رکھی ہوئی تھی، دیکھ کر رو رہی تھی۔ ملکہ کے حال زار کو خیال کر کے بے قرار ہو رہی تھی کہ دفعۃً آرام دل سامنے سے نظر آیا۔ قمر النسا کو دیکھتے ہی آنکھیں نیچی کر لیں۔ قمر النسا نے کہا "حضور تسلیم! جو صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔ بہ قول حضرت غالب

اُس کو بھولا نہ چاہیے کہنا
صبح جو جائے اور آئے شام


ریختہ صفحہ 248

فرمائیے ایک ہفتے تک کہاں رہے؟ آپ ماہ دو ہفتہ ہیں؛ ایک دو دن کا مضائقہ نہیں، اتنے دن جو نظر نہیں آئے، کہیے تو کس برج میں پنہاں رہے؟ واللہ! آپ کو بھی باتیں سننے کا مزہ ہے، بے سنے نہیں رہتے، کچھ عجب لپکا ہے۔"

یہ سن کے آرام دل مسکرایا اور خاموش دالان میں چلا آیا۔ قمر النسا وہاں سے باغ باغ ملکۂ حسن افروز کے پاس آئی اور کہنے لگی "حضور مبارک! شہ زادۂ عالم تشریف لائے۔ جن کے واسطے آپ بے قرار تھیں وہ آرام دل آئے۔"

ملکہ نے کہا "ہاں تو تو روز آتے ہیں، سب ہر روز ایسی ہی خبریں سناتے ہیں۔"

قمر النسا نے کہا "بیگم! مجھے اپنی جان کی قسم شہ زادۂ عالم آئے۔" جب قمر النسا نے قسم کھائی تو ملکہ کو آرام دل کے آنے پر یقین ہوا۔ دل کو ذرا توانائی آئی۔ شام ہوتے ہیں قمر النسا کے ہمراہ موتی محل میں بالائے بام سفید بادلے کے شامیانے کے نیچے سفید ابر کے ٹکڑے میں مانند ماہ دو ہفتہ کے رونق افروز تھا۔ سب سامان جشن موجود تھا، مگر بے یار چین دل سے مفقود تھا، منتظر آمد ملکۂ حسن افروز تھا۔ ملکہ کی پازیب کی آواز سنتے ہی بے تاب ہو کر استقبال کے وسطے درازے تک آیا۔ ملکہ کو دیکھتے ہی پہلے سات بار تصدق ہوا، سر سے پاؤں تک بلائیں لیں، پھر ہاتھ پکڑ کے مسند پر بٹھایا۔ آپ جو برابر بیٹھنے لگا ملکہ نے کہا "صاحب! میرا آپ سے ایک سوال ہے، طبیعت کو سخت ملال ہے۔ پہلے اُس سوال کا جواب دیجیے، پھر میری برابری اور ہم سری کا دعویٰ کیجیے۔"


ریختہ صفحہ 249

یہ سنتے ہی آرام دل وہاں سے اُٹھ کر مقابل آیا، بیٹھا۔ یار ستم گار کو پر غضب دیکھ کر جینے سے سر دست ہاتھ اُٹھا بیٹھا اور دست بستہ عرض کرنے لگا کہ جو ارشاد ہو، غلام اُس کا جواب دے۔ خاک سار ایک ہفتہ غیر حاضر رہا ہے؛ فرمائیے تو ایک ایک روز، بلکہ ایک ایک ساعت کا حساب دے؟

ملکہ نے کہا "دیکھو چور کی داڑھی میں تنکا۔ صاحب مجھے تمام عمر کے حساب کتاب سے مطلب؟ خفا کیوں ہوتے ہو، اس کا کیا سبب؟ میں تو ایک بات پوچھتی ہوں کہ آپ اتنے دنوں کہاں غائب رہے؟ آپ تو حاضر جواب ہیں، کچھ گفتگو کیجیے، اس کا جواب دیجیے۔"

آرام دل نے کہا "میں شکار کو گیا تھا۔ صید گاہ میں جو پہنچا، ایک ہرن کے پیچھے گھوڑا ڈالا، وہ بہت دور نکل گیا، ہاتھ نہ آیا۔ میں بڑے دلدل میں پھنس گیا تھا۔ گھوڑا میرے سینے تک زمین میں دھنس گیا تھا۔ خدا نے مجھے وہاں سے نکالا۔"

ملکہ نے شہ زادے کی یہ گفتگو سن کر قمر النسا سے کہا "بہن! جلد ان کی خبر لو۔ دیکھو تو ان کے دشمن بہکتے کیوں ہیں۔ یہ کیا خبط ہے۔ کہتے ہیں کچھ منہ سے نکلتا ہے کچھ۔ بھلا غور تو کرو ان کے کلام میں کہیں بھی ربط ہے؟" پھر شہ زادے سے فرمایا "کیوں جی! آج کی شراب پی ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو؟ کیوں کہو تو کیسا جی ہے؟"

شہ زادے نے کہا "میں نے تو نہیں پی، مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں آج نشہ چڑھا ہے جو ہر بات میں الجھتی ہو۔ میں نے جو بات عرض کی اُسے تم نے کس قدر طول دیا ہے، کچھ نہیں سمجھتی ہو۔ میں تو عرض کرتا ہوں کہ شکار کھیلنے گیا


ریختہ صفحہ 250

تھا، قسمت میں مصیبت لکھی تھی، اُسے جھیلنے گیا تھا۔"

ملکہ نے کہا "اچھا جو آپ نے عرض کیا، ہم نے اُسے فرض کیا، مگر اب تم سچے ہوتو حلف اُٹھاؤ، ہمارے سر کی قسم کھاؤ؛ جب ہمیں یقین آئے، دل کا شک رفع ہو، خاطر جمع ہو، شبہہ جائے۔"

جب ملکہ نے قسم کے واسطے فرمایا تو آرام دل بہت گھبرایا۔ چور کے پاؤں کہاں، کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔ خجل ہوا، خنجر ناز و ادا کا بسمل ہوا۔

یہ حال دیکھ کر قمر النسا تو کھوئی گئی، مدعا کی طرف نہ اصلا گئی، مگر ملکۂ حسن افروز فوراً پا گئی، ہاتھ پکڑ کے کہنے لگی "تمہیں میری جان کی قسم! سچ بتاؤ کہاں گئے تھے؟ تم خاطر جمع رکھو، ہم کچھ نہ کہیں گے؛ سچ سچ کہہ دو جہاں گئے تھے۔"

جب ملکہ نے ایسی شدید قسم دی تو شہ زادے کو یہ جز راستی کچھ بن نہ آئی۔ ناچار تمام احوال اپنا؛ ملک داراب میں جانا، شہ زادۂ سیاہ فام سے لڑنا، اس کے باپ کا کھیت پڑنا، اُسے شکست فاش دے کر بھگانا، سب بیان کیا اور کہا کہ ہم تو بہت جلد آئے، آپ کا دل کیوں رنجور ہوا۔ جو یہ کہیے کہ بے اجازت ہماری کیوں گئے، تو ہاں البتہ یہ قصور ہوا۔

ملکۂ حسن افروز یہ سن کر بڑے غضب میں آئی۔ بید کی طرح کانپی، تھرائی؛ مگر غصے کو ضبط کر کے کہنے لگی کہ صاحب! جو کیا بہت اچھا کیا۔ تم ان کے داماد تھے، نہ جاتے تو کون جاتا؟ اس وقت میں جانا عین مناسب تھا اور رنج و الم کو جو کہو تو اس میں رنج کیا ہے، یہ تمہاری غلط فہمی ہے،
 

مقدس

لائبریرین
214

یہ حال جو دیکھا، ہنس کر فرمایا: میر

گر یہی ضعف ہے تو حضرت دل
ہو گے آخر بس ایک آہ میں تم

غرض وہ باغ متصل خاص محل تھا، وہاں تک جانا بہت سہل تھا؛ بہ ہزار خرابی و دشواری باغ میں داخل ہوئی، قمرالنسا کو مسرت حاصل ہوئی۔ لااعلم

صحن گلشن میں جب خرام کیا
سرو آزاد کو سلام کیا

ملكہ نے باغ حیات بخش کی طیاری دیکھی، فراق یار میں روح تن سے جدا ہونے لگی۔ گل و بلبل کے وصل سے مہاجرت دل دار میں شبنم وار زار زار رونے لگی۔ سرو دل جو کو دیکھا، قد جاناں کیی یادمیں بار غم سے پشت دوتا ہو گئی۔ سنبل زار کو پریشان دیکھ کر یاد کا کل بار جان کو بلا ہو گئی۔ نظاره نرگس شہلا سے چشم جاناں کے تصور میں آنکھوں میں آنسوں بھر لائی۔ سمن سيمين بدن کو دیکھا، اپنے سیم تن کے جسم کی صفائی یاد آئی۔ لالہ کی دید سے ولولہ عشق اور بڑها، داغ جنوں چمکا، ایک آه سینہ سوزاں سے بھری اور یہ مطلع پڑھا: سودا

اے لالہ گو فلک نے دیے تجھ کو چار داغ
سینہ مرا سراه کہ¹ اک دل ہزار داغ

قدم اٹھاتی تھی زمین پاؤں پکڑتی تھی، سنبل زار کی شوخی پر زلف پریشان ہوتی تھی، بگڑتی تھی۔ سوسن صد زبان کی غمازی اور بد زبانی سے کچھ زبان پر نہ لا سکتی تھی، صورت تصویر خاموش ایک ایک کا منہ تکتی تھی۔ تاک انگور کو دیکھتے ہی یاد


1- نسخہ مطبوعہ 1918ء میں "کہ ہر اک" ہے۔


215

چشم مےگون جاناں میں آنکھیں چڑھ گئیں، نشہ عیش ہرن ہو گیا، جو سخن ہوا، بہا ہوا سخن ہو گیا۔ا القصہ اسی حال سے خواصوں اور سہیلیوں کے بیچ میں ہر سو وحشیوں کی طرح نظر کرتی، ٹھنڈی ٹھنڈی سانس بھرتی۔ تخت الماسپ پرجو لب نہر موتی کے سامنے بچھا تھا، شامیانہ سرخ اطلس کا اس پر کھچا ہوا تھا، آ کر جلوس فرمایا۔ سامنے مینا بازار نظر آیا کہ نہر کے کنارے صدها عورتیں دکانیں صرافے اور بزازے اور جواہر
اور میوه فروشی کی آراستہ کیے هہیں؛ سودے والیاں زر و جواہر اور پوشاک پر تکلف سے اپنے جسم کو پیراستہ کیے ہیں۔ جواہر فروش پر عجیب جوبن ہے کہ کان جواکر سارا بدن ہے۔ بال بالم میں موتی پروئے ہیں۔ بد قدرت کے ڈھوئے ہیں۔ دانت سلک مروارید ہیں، چشم و گوش ایسے ہیں کہ دید ہیں نہ شنید ہیں۔ رنگ رخسار لعل بدخشاں ہے، لب یاقوت ہیں، ہاتھ شاخ مرجان ہے۔ حلقہ کف دست بسان الماس صاف اور خوش نما ہے، مینائے حنا کی ڈاک سے¹ اور ہی لطف پیدا ہے۔ کلائی صاف ہیرے کی پڑی ہے، چہرہ انور میں کندن کی دمک ہے، مسی مالیده لب نیلم ہیں، زمرد کے بندے ہیں، انیٹوں میں پڑے ہیں، آئینہ وار رخسار میں سبزے کی ڈھلک ہے۔ حلقہ لعل رعنائے پستان ہیں یا شمشاد قد میں دو انار اصفہان ہیں۔ دهکدکی عاشقوں کی دل آویز ہے، ناف بہ گرداب بلا ہیں، کمر بحر حسن میں موج خیز ہے۔ سونے کا پلنگ بچها ہوا ہے، مسند تکیہ لگائے، جواہر بیش بہا جن کی تلاش میں جو بندے کا دل بہا بہا پھرتا ہے، کشتیوں میں چنے ہوئے سب بیٹھی ہیں، خریداروں کو دیتی ہیں

1- نسخہ مطبوعہ 1918ء میں "کے" ہے۔


216

بیچتی کیا ہیں، گویا دل عاشقوں کا مول لیتی ہیں۔ بزاز پیشہ والیاں بہ صد تكلف فرش اطلس پر انواع انواع طرح کے تھان جامدانی کامدانی حریر و کتان لیے ہوئے، اپنا بناؤ کیے ہوئے بیٹھی ہیں۔ ان کا دیدار گویا نین سکھ ہے۔ آنکھیں سکھ پاتی ہیں، راحتیں ہاتھ آتی ہیں۔ کہیں رفل کہیں ڈوریا، کہیں بک ہے۔ ان پھول سے رخساروں پر بلبل چشم حیران ہے، فاخته حواس باختہ ہے۔ دل مومن پریشان ہے۔ تیر مژگاں جگر کے پار ہونے کو ليس ہیں۔ چہرے پر بکھرے ہوئے گیس ہیں۔ تیغ ابرو و نگاه جادو قتل عشاق کے سب سامان در پیش ہیں۔ آنکھیں ایسی ہیں کہ جن کے تصور میں کم خواب آئے، ہمہ تن زيب کیے بیٹھی ہیں، جسم کی صفائی پر نظر ہے، بازار حسن کا ہر گھڑی حسن دونا ہے۔ میوه فروش اور مالنيں وضیع و شريف اشیائے لطيف لطيف دكان لطافت لیے بیٹھی ہیں، خریداری کا بازار گرم ہے، کشمش کے خریداروں کی کشمکش ہے، چلغوزوں کا انبار کیے بیٹھی ییں۔ حسن میں لاثانی ہیں۔ خریدار پروانے ییں، رنگ رخ گويا انار
کے دانے ہیں۔ آپس میں بولتی ہیں کہ آئیے میوؤں کی کشتیاں خوب آئی ہیں۔ زلفیں خریداروں کے دلوں کی دام، آنکھیں شہلا سیاه دو بادام ہیں۔ نہال قد میں رخسار گل زار حسن کے دو سیب ہیں، دور کننده آسيب ہیں، جن کی خواہش میں دل نا شکیب ہیں۔ وہ سیب کیا ہیں، ملذذ سيب ذقن ہے۔ مسی کی اوداهٹ سے جامن شرمنده ہے، مولسری دهن پستاں سخت ولايتی انار ہیں یا پیوندی آم
کے درخت میں خام دو کیریاں ہیں یا دو رنگترے مزیدار ہیں۔ ناف چرخ شکم پر قطب تارا ہے، خریدار بہت ہیں، کیا کرے کہ نخل

217

خرما میں ایک چھوہارا ہے۔ انگور کی قطياں سامنے رکھی ہیں۔ ہر ایک ناز و ادا میں بے باک ہے، اکیلے دو کیلے کو بھانپتی ہیں، مدام کیلے کی تاک ہے۔ وہ نہر کیا تھی، گويا تختہ بلور تھی بلکہ سراسر نور تھی۔ اندر سے باہر تک بالکل فرش سنگ مرمر کا، سبزے کی تحریر اور گل بوٹے کی ساخت سے رشک گل زار جناں۔ جابجا نیلم، پکھراج،
عقیق، یمنی جڑا ہوا، پانی اس میں ایسا رواں جس طرح تختہ بلور پر فرش آب رواں۔ اس میں مقیش کترا ہوا تمام، جس طرح ہر آب رواں پر کامدانی کا کام۔ پانی اس کا آب داری میں گوہر خوش آب، بلكہ گوہر بھی بے آب، خوشبو میں بہ از گلاب، اس میں مچھلیاں سرخ زرد نایاب، جن کے دیکھنے سے مرغ دل میخ آه پر کباب، جانور آبی ہر ایک لاجواب، کہیں مرغابی، کہیں سرخاب، مثل پستان دوشیزه ہر ایک حباب، غیرت ہر زلف خوباں جہاں اس کی امواج کا پیچ و تاب۔ شہزادی کی آمد آمد کی خبر سن کر مالنوں نے دستہ دستہ گل دستے لا کر لب نہر دونوں طرف چن دیے۔ داروغہ باغ نے صدها باغ میوه جات بہ طور ڈالی لگا کر اور انواع انواع طرح کے گل دستے گل زعفران اور کتیکی اور مدن بان سے بنا کر ملکہ حسن افروز کی نذر کیے اور مرغان خوش الحان شیاما و ہٹیر پدالال، بلبل ہزار داستان، طوطی شیریں مقال کہ منہدی کے برجوں پر بند تھے، کھولے! ان کی نواسنجی اور خوش بیانی نے ہر ایک کو بے چین کر دیا، ایسے بولے۔ کوئی اڑ کر سرو پر جا بیٹھا، کسی نے شمشاد کو گلے لگایا؛ کوئی زعفران کے تختے میں جا کر ہنسی کے مارے پھڑکنے لگا، کسی کا دل خوف باغ بان اور بيم صیاد سے بھڑکنے لگا؛ کوئی نہر کے کنارے بال و پر کھول کر نہانے لگا، کوئی مچھلی کے صید کو


218


نہر میں غوطہ لگانے لگا۔ بلبل نے عجیب عجیب حرکتیں کیں کہ پہلے چند صدائیں دیں، پھر "ہائے گل" کہہ کر شاخ گل پر جا بیٹھا۔ گل چیں کو دیکھ کر خار¹ کھا بیٹھا، آہ و فغاں کرنے لگا، اسی کا دم بھرنے لگا۔ کبھی بہ آواز بلند یہ مطلع پڑھا: شيخ ناسخ

بلبل ہوں بوستان جناب امیر کا
روح القدس کے نام مرے ہم صفیر کا

کبھی با دل درد مند یہ مطلع زبان پر رہا: رند

منقار سے ہزار مشقت سے پر کھلے
یا رب نہ یہ خبر مرے صیاد پر کھلے

کبھی غنچے پر تصدق ہوتا اور مست ہو کر زمین پر گر پڑتا، کبھی پھر اڑ کر ادھر جاتا۔ نسیم کے جھوکوں سے بار جو نہ پاتا تو صبا سے پر کھول کر دو دو چونچیں لڑتا، قابو پا کر گل کا بوسہ ليتا، خوش ہو کر دم بھرتا اور پکار کر یہ دعائیں دیتا:
مصنف

بھر گیا هے گل امید سے دامن اپنا
باغ باں تجھ کو مبارک رہے گلشن اپنا


ملكہ حسن افروز یہ کیفیت ملاحظہ کر رہی تھی مگر کیا مقدور کہ چہرے پر ذرا بشاشت کا نام ہو اور دل سے دور رنج و آلام ہو۔ وہی ہر دم اشک جاری اور بے خودی کا عالم طاری۔ کبھی کچھ جی میں آیا تو کسی بلبل سے مخاطب ہو کر فرمایا: رند

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل

ورنہ کچھ اس کی بھی پروا نہیں، لب سخن سے مطلق آشنا نہیں۔

1- نسخہ مطبوعہ 1918ء میں "نار" ہے۔


219


12


دعوت وصال طالب و مطلوب۔ آرام دل کا
موتی¹ محل میں جانا اور ملاقات ملکہ خوش
صفات، پری لقا، یعنی ملکہ حسن افروز
حور شمائل سے لطف اٹھانا​


لا بھر کے ساقیا کوئی پیالہ شراب کا
روز وصال میں ہیں موقع حجاب کا
میں بادہ خوار تشنہ ہوں، ساقی شراب دے
زاہد تو ہی پلا کہ عمل ہے ثواب کا
مضمون وصل اس میں رقم ہے تو چاہیے
چسپاں ہو اب ہر ایک ورق اس کتاب کا

محرران داستان مرغوب و راقمان حال و صال طالب و مطلوب کیفیت قران السعدین یوں لکھتے ہیں کہ جب آفتاب سوختہ آتش باجگر کباب غم کدۂ مغرب میں گیا اور ماہتاب اپنی محبوبہ مشرق کو لے کر حجلہ مشرق سے برآمد ہوا، ملکہ حسن افروز وہاں سے اٹھ کر بادل داغ دار زار زار روتی ہوئی محل میں تشریف لائی اور آتے ہی غش آگیا، چھپر کھٹ میں گر پڑی۔ قمرالنسا اور خواصوں نے جلد جلد گلاب کیوڑا چھڑک کر اٹھایا۔ جب ہوش آیا تو فرمایا: مصنف

1۔ اصل: مولى محل۔


220


عاشق کا دل مدام ستانا نہیں اچھا
اے ہم نفسو مجھ کو جگانا نہیں اچھا


قمرالنسا نے عرض کی "حضور! گل زار کی بہار اور روشنی کی کیفیت تو اب دیکھنے کے لائق ہے، آپ ذرا دل کو سنبھالیے، اس رنج و الم سے کیا حاصل ہے۔"
غرض قمرالنسا نے شہزادی کا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا اور برآمدے میں کرسی جواہر نگار پر بٹھایا۔ موتی محل¹ عجيب تكلف² کا مكان رفيع الشان تھا کہ اس میں بجائے سنگ لعل بدخشاں، یاقوت کی اینٹیں، لکڑی کی جگہ شاخ مرجان؛ بجائے آہن سیم، اس پر طلائی ملمع تھا، سارا مکان مرصع تھا۔ جابجا خوشہ ہائے دردانہ نکاتے تھے، استر کاری زمین میں اسی کے چونے کی تھی، در یکتا سفال کے بدلے ٹھوکریں کھایا کرتے تھے؛ اسی واسطے موتی محل نام تھا، اسم بامسمی تھا۔ شام ہوتے ہی روشنی کا ٹھاٹ ہوا، وحشیوں کا دل اچاٹ ہوا۔ ادهر ماه تاباں فلک پر نمایاں ہوا، اد هر لب نہر ہر روش پر کہ لالٹینیں قد آدم دو دو چار چار قدم پر نصب تھیں، روشن ہوئیں۔ ہر درخت فيضان روشنی سے سرو چراغاں ہوا۔ ہر شجر بلکہ تمام باغ چراغ کی روشنی سے کره نور ہو گیا۔ شہزادی کا جمال جہان آرا ایک عالم کو تجلی طور ہو گیا۔ روشنی کی کیفیت دیکھ کر غنچہ و گل فرط انبساط سے پھول گئے؛ مرغان آبی تڑپ کر باہر نکل آئے، پرند جانور درختوں پر بسیرا لینا بھول گئے۔ قمرالنسا نے محل میں سامان جشن کیا، فراشوں نے مقفی اور فرشی جھاڑوں میں شمع ہائے کافوری کو


1- نسخہ مطبوعہ 1918ء میں "محل میں" ہے۔
2- نسخہ مطبوعہ 1918ء میں "لطف" ہے۔
 

محمد عمر

لائبریرین
162

میں کوئی اور ہی پیارا تھا، اظہار مطلب کا کب یارا تھا، سکتے کا عالم ہو گیا؛ کچھ جواب نہ دیا جب تو بادشاہ اپنے دل میں سمجھا کہ : حضرت غالب

بے خودی بے سبب نہیں غالب

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

دل ربا سے فرمایا کہ سچ بتا یہ کیا معاملہ ہے، نہیں تو ابھی زندہ دیوار میں چنوا دوں گا، نام و نشاں تیرا حرف غلط کی طرح مٹا دوں گا۔

دل ربا اس گفتگو سے لرزاں ہوئی، ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی کہ حضور اس داستان کو ابتدا سے انتہا تک سنیں اور بیگم کی صحت کی کچھ تدبیر کریں، کہ جب سے شادی کی دھوم ہوئی تھی تو ہماری بیگم کو یہ خبر اڑتے اڑتے معلوم ہوئی تھی کہ دولہا بہت بد شکل ہے۔ یہ سن کر یہ درجۂ کمال الم ہوا، محل شادی خانۂ ماتم نظر آنے لگا۔ لوگوں کی بے خبری پر بہت دل تاب کھایا؛ شرم سے کچھ کہہ نہ سکیں، اندر ہی اندر گھٹنے لگیں؛ ہر روز چہرہ زرد ہونے لگا، منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ میں نے غمگین دیکھ کر سبب رنجش کا پوچھا؛ مجھے سے حالِ دل ظاہر کیا، راز نہفتہ سے اس کنیز کو ماہر کیا۔ میں نے دل بہلانے کی بہت تدبیر کی، مگر ان کا وہی حال، انہیں سب باتوں کی طرف خیال رہا۔ میرے افہام و تفہیم نے کچھ نہ تاثیر کی۔ آخر جب نکاح ہو چکا تو دولہا رنگ محل میں گیا، اس وقت سبھوں نے دولہن کو گھیر لیا اور کہنا شروع کیا نہ لائیے، صورت غمگین بدل ڈالیے۔ ہم نے آپ کے دولہا کو دیکھا ہے،

163

ماشاء اللہ نہایت خوب صورت نوجوان ہیں، چشم بد دور بہت حسین رشک خوبان جہاں ہیں : نظم

قمر اُس کی جبیں سے داغ کھائے

مہ نو پیش ابرو سر جھکائے

حضور یہ خدا لا بزال : رند

زیادہ برگ گل سے اُس کے چہرے پر صفائی ہے

میں اُن ہا تھوں کے صدقے جس نے وہ صورت بنائی ہے

جناب عالی! جس قدر تعریف اور توصیف میں اس شاہزادے کے وہ لوگ مبالغہ کرتے تھے اسی قدر ہماری بیگم صاحبہ جھوٹ جانتی تھیں، زار زار روتی تھیں اور کسی کا کہنا نہیں مانتی تھیں۔ آخر جب لوگوں نے دیکھا کہ اُن کا شک کسی طرح رفع نہیں ہوتا ناچار کہا کہ اچھا اگر ہمارا کہنا آپ کے نزدیک راست نہیں ہے تو آپ چل کر اپنی آنکھ سے دیکھ لیں، اس میں کچھ مضائقے کی بات نہیں۔ یہ سن کر ہماری بیگم سب کے کہنے سننے سے اپنی خواصوں کے ہم راہ یہ حفاظت تمام رنگ محل میں گئی اور یہ یک نگاہ اس حور شمائل، غارت گر کشور دل کو دل دے بیٹھیں، سودائے عشق مول لے بیٹھیں، اور بے چین ہو کر قصد اس کے پاس جانے کا کیا۔ اس ارادے سے ہم سب نے ان کو منع کیا، مگر انہوں نے کسی کی نہ سنی اور بے خوف و خطر شوق ملاقات میں اس کے پاس جا بیٹھیں؛ جس نے منع کیا اس کو دو چار سخت و سست سنا بیٹھیں اور جا کر پہلے اس کا نام، ملک کا پتا اور احوال دریافت کیا۔ عند الاستفسار معلوم ہوا کہ شاہ چین کا فرزند ارج مند ہے، ملکہ حسن افروز شہ زادی فارس کے عشق میں درد مند ہے۔ اُسی کی تلاش میں مسافرانہ چلا جاتا تھا، اثناء راہ سے کوئی اُس

164

گم کردۂ کاروان صبر و قرار اور روئے نادیدۂ یار کو یہاں لے آیا اور جبراً قہراً دولہا بنا کے ہماری بیگم کے ساتھ نکاح پڑھوا دیا۔ جناب عالی! جب یہ حقیقت ہماری بیگم کو معلوم ہوئی تو گویا ؏

سمند شوق پہ اک اور تازیانہ ہوا

دشمنوں کی اور بری حالت ہوئی۔ ایک تو اپنی خوبئ قسمت کا غم، دوسرے عشق کا ظلم و ستم، تیسرے معشوق کو اپنی طرف التفات کم، اس پر مفارقت محبوب کا الم، طرہ یہ کہ وہ بھی عشق کے ہاتھوں مبتلا اندوہ و غم۔ یہ سب خیالات اور توہمات جو آ کر توام ہوئے دم یہ خود ہوئیں، غشی کی نوبت ہو گئی۔ یہ حال دیکھ کر اس بت بے وفا کے دل میں فوراً عشق کا اثر ہوا، یعنی اس نے ہماری بیگم سے یہ وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ میں عنقریب فارس سے فائز المرام ہو کر آتا ہوں اور تم کو اپنی ملک زوجیت میں لا کر اپنے ملک کو لے جاتا ہوں۔ از بس کہ عشق ہماری بیگم صاحبہ کا صادق اور وعدہ بھی اس غیرت ماہ کا واثق معلوم ہوتا ہے تو کیا عجب کہ عنقریب ہماری صاحب زادی کی تمنّائے دلی بر آئے، شب فراق کٹے، روز وصال کی سحر آئے : لاادری

یا رب اندر دل آں خسرو شیریں انداز

کہ یہ رحمت گزرے بر سر فرہاد کند

بادشاہ اس حال کو سن کر آب دیدہ ہو گیا اور صنوبر غم دیدہ و مضطر کو کہ اس وقت تک اس کی چشم نرگسی سے قطرات اشک شبنم آسا ٹپک رہے تھے، گلے لگایا اور بہت تسکین دے کر فرمایا کہ بی بی اپنے دل کو غمگین نہ کرو؛ میں تمہارے دولہا کو جس طرح ممکن ہو گا تلاش کر کے بلواؤں گا اور اس موذی بد ذات، ابلیس صفات کو خوب ٹھیک بناؤں گا۔

یہ کہہ کر محل سے برآمد ہوا؛ وزیر اعظم کہ دست بستہ

165

حاضر تھا، تسلیم بجا لایا اور ہاتھ جوڑ کر یہ کلمہ زبان پر لایا کہ خداوند! اُس پادشاہ روسیاہ نے زیر دیوار شہر پناہ بہت سامان لڑائی کا کیا ہے اور اپنی فوج کو آج کی رات ہمارے شہر میں شب خون مارنے کا حکم دیا ہے، لیکن خاکسار نے بھی سب سامان جدال واسطے سزا دہی اس بد خصال کے تیار کر رکھا ہے، تمام فوج کو آمادۂ جنگ و پیکار کر رکھا ہے۔ اس بارگاہ سے جیسا حکم نفاذ پاوے ویسا عمل میں آوے۔

پادشاہ وزیر با تدبیر کی دانش اور ہوشیاری پر ہت مسرور ہوا اور اسی دم تخت پر جلوس فرمایا؛ پھر اسی وزیر کو خلعت فاخرہ اور جواہرات بیش بہا سے سرفراز فرما کے ساری فوج کا سپہ سالار کیا اور حکم دیا کہ ابھی جاؤ اور اس روسیاہ کو گرفتار کر کے میرے پاس لاؤ۔ وزیر اعظم یہ مجرد حکم آداب بجا لایا اور تلوار کمر سے لگا یہ عزم خوں ریزی روانہ ہوا۔ اب آئندہ بیان کیا جائے گا جو وہاں کارخانہ ہوا۔

166

باب ہفتم

پہنچنا آرام دل کا ملک تبریز میں اور مبتلا ہونا جادو زن فتنہ انگیز میں، پھر آوارہ ہونا محمود وفادار کا اور سراغ نہ پانا آرام دل شیفتہ و دل فگار کا

لا ساقی وہ شراب کہ جس میں ہوں مستیاں

پی کر جسے میں توڑوں سبو اور گلابیاں

فرقت میں اس کی اب مری حالت مقیم ہے

جوروں سے اس فلک کے عذاب الیم ہے

ایسا ہوا ہوں زار کہ حالت نہیں رہی

حالت تو کیا کہ پہلی سی صورت نہیں رہی

محرراں سحر کار یہ مدد خامہ ہائے جادو نگار حال آرام دل عاشق زار، بے قرار کو با چشم اشک بار رشتہ تحریر میں یوں منسلک کرتے ہیں کہ وہ باد یہ پیمائے مراحل جان بازی اور رہ نورد وادئ جاں گدازی ہم راہ محمود وفادار کے اسی سمند باد رفتار پر سوار ہر روز نیا دانہ نیا پانی کھاتا پیتا چلا جاتا تھا، فراق یار اور شوق دل دار میں ہر دم زار زار روتا تھا، محمود تسکین دیتا تو کہتا تھا : جرأت

عزیزو کیا کہوں رونا میں اپنی چشم گریاں کا

میں کتنے ہی دریا گر نچوڑوں پاٹ داماں کا

جنوں سے دیکھ لو رتبہ مرے حال پریشاں کا

قدم بوسی کو آیا چاک تا دامن گریباں کا

167

یہ تنگ آئے ہیں ہم وحشی کہاں دل کھول کر روئیں

کہ وحشت پر ہماری تنگ ہر عرصہ بیاباں کا

غرض ہر وقت لب پر آہ، کلیجے میں درد تھا، دنیا کو خاک جانتا، سب طرف سے دل سرد تھا۔ ایک روز اسی طرح رفتہ رفتہ بعد خرابئ بسیار ایک شہر قطع دار اور خوش گوار میں اس کا گزر ہوا۔ فلک کج رفتار اور زمانہ ناہنجار کی خلش سے طرفہ ماجرا رو یہ کار ہوا؛ آرام دل شہر کے اندر گیا اور سرائے میں اترا؛ لوگوں سے پوچھا کہ اس شہر کا کیا نام ہے اور حاکم اس شہر کا کون ذی احتشام ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس شہر کو تبریز کہتے ہیں، حاکم یہاں کا سلیمان شکوہ قندز نام ہے اور آپ کس ملک میں رہتے ہیں؟ محمود نے کہا ”بھائی مسافر ہیں، پریشان خاطر ہیں۔“ آرام دل نے محمود سے کہا کہ تقدیر یہاں تک تو لائی ہے، بعد مدت شہر کی صورت نظر آئی ہے، چلو ذرا سیر کر لیں، دل بھر لیں۔

غرض گھوڑے سرائے میں چھوڑ چاندنی چوک کی طرف روانہ ہوئے۔ اثنائے راہ میں ایک عورت ضعیفہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پہلے جھک کر سلام کیا اور پھر یوں کلام کیا کہ حضور! مجھ کو آپ مسافر معلوم ہوتے ہیں اور ایسا خیال میں آتا ہے کہ شاید ابھی کوئی دور دراز کا سفر کیے چلے آتے ہیں۔ محمود نے جواب دیا کہ ہاں نیک بخت بے شک مسافر ہیں اور تو سچ کہتی ہے ہم ابھی چلے آتے ہیں۔ پھر اس ضعیفہ نے کہا ”صاحب! حکم ہمارے سردار کا ہے کہ جو کوئی مسافر شہر میں آئے پہلے ہمارا مہماں ہو جائے۔ اب میں امید وار ہوں کہ آپ دونوں صاحب ہمارے آقا کے مکان پر چلیں۔“ محمود نے کہا ”واہ! جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام، صاحب ہم تمہارے آقا کو کیا جانیں وہ

168

کون ہیں؟ ہم اپنا ہرج کریں جو تمہارا کہا مانیں۔ عورت نے لہا ” حضور! خفا نہ ہو۔ شہر میں آ کر رہیے گا تو رات بھر آرام فرمائیے گا، صبح کو جہاں جاتے ہیں، وہاں چلے جائیے گا۔ پھر اس سے بہتر کیا ہے، رات بھر سرائے میں کیوں رہیے، ہمارے مکان پر چل کر استراحت فرمائیے۔ اس شہر کے ایک رئیس اعظم سے ملاقات کیجیے، اُن کے خلق، مروّت اور باتوں سے لطف اٹھائیے۔ میں نے جو آپ کو با اخلاق پایا تو یہ زبان پر آیا۔ فرد

کرم ہاے تو مارا کرد گستاخ

وگرنہ ایں قدر طاقت کجا بود

اب احوال اُس پیر زال کا شہ زادے کے لے جانے میں اس قدر اصرار کا باعث سنیے کہ شاہ قندر کی ایک بیٹی تھی بہت خوب صورت اور نازنین مہ جبیں۔ ایّام طفولیت میں ددا اس کی اسے علم سحر پڑھایا کرتی تھی اور جادو کا فن سکھایا کرتی تھی۔ تھوڑے عرصے میں وہ شہزادی علوم میں طاق اور اس فن میں شہرہ آفاق ہوئی۔ جب سن شعور پایا تو تماش بینی کا شوق ہوا، ماہ رویوں کی ہم نشینی کا ذوق ہوا۔ اکثر چھپ چھپ کے لوگوں کے گھر جایا کرتی اور کبھی جو موقع پاتی تو اپنے معشوقوں کو پوشیدہ محل میں بلوایا کرتی۔ شدہ شدہ اس بے حیائی اور سلطنت کی رسوائی کی خبر بادشاہ تک پہنچی۔ بادشاہ نے اپنی لڑکی سے استفسار کیا، اس نے کچھ جواب نہ دیا اور خاموش ہو رہی۔ بادشاہ اس بے باکی سے نہایت غصے میں آیا، اس کے چپ رہنے سے جن باتوں پر گمان تھا صاف یقین لایا۔ سحر کے خوف سے کچھ نہ کہہ سکا مگر ہاتھ پکڑ کے اپنے محل سے نکال دیا۔ اس شہ زادی نے شہر میں ایک سمت بہت بڑا احاطہ گھروا کر

169

اس میں مکانات اور باغات طلسمات کے تعمیر کروائے۔ جب مدعائے دل خاطر خواہ حصول ہوا، پھر تو یہ معمول ہوا کہ سرِ شام اس دائی کو کہ صبح پیری سے اس پر پالا پڑا تھا، جستجو میں کسی مسافر گم کردۂ راہ کے بھیجا کرتی اور جب کوئی دام میں آ جاتا تو اس سے رات بھر جشن کیا کرتی ۔

القصہ باز آمدم برسر مطلب کہ آس بڑھیا قہر کی پڑیا نے ایسی چکنی چپڑی باتیں کیں اور دام مکر پھیلا کر وہ گھاتیں کیں کہ آرام دل نے اُس انکار کرنا بعد از اخلاق جانا اور رد دعوت نامناسب سمجھ کر اس عورت کے ساتھ ہو لیا۔ وہ دلالہ شیطان کی خالہ آرام دل اور محمود کو ایک مکان میں لے گئی، صدر دالان میں مسند پر بٹھایا اور پھر آ کر باہر کے دروازوں میں قفل دے گئی۔ نسیم لکھنوی

صیادنی لائی پھانس کر صید

کرسی پہ بٹھائے نقش امید

پھر دوسرے مکان میں گئی، آرام دل اس مکان کی عمارات، جواہرات کی لطافت دیکھ رہا تھا۔ مقابل اس مکان کے ایک باغ تھا، نہایت خوش قطع، ہر چہار طرف سے۔ اگر وصف باغ میں خامہ داستان سرائے شمہ بیان اس کا اپنی زبان پر لائے تو نخل مراد بارور نہ ہو، قصہ یوں ہی نا تمام رہ جائے۔ قطع نظر اس بہار کے عجائبات طلسمات ایسے عجائب اور غرائب تھے کہ دیکھنے والوں کے ہوش باختہ، حواس غائب تھے۔ اندر بارہ دری میں جہاں کہ کبھی تو سارا مکان مع فرش فروش اور سب سامان سرخ کبھی گلا ہو جاتا کبھی زرد، کبھی سبز، کبھی آبی۔ کبھی تمام روشنی ایک بار گل

170

ہو جاتی، کبھی اُس سے دو چند روشنی پھر اسی طرح بالکل ہو جاتی۔ کبھی یہ معلوم ہوتا تھا کہ درخت مثل آدمیوں کے چلتے ہیں، کبھی یہ نظر آتا تھا کہ شعلہ ہائے آتش بار ہر درخت کے برگ و بار سے نکلتے ہیں۔

غرض وہ شہ زادی دوسرے مکان میں بیٹھی ہوئی یہ سب کمال دکھا رہی تھی، ان حرکتوں سے ان دونوں کو ڈرا رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ شہ زادی اُسی پیر زن کے ہمراہ ناز و انداز سے آ کر آرام دل کے برابر مسند پر بیٹھ گئی۔ انگشتری سلیمانی پر جو نظر پڑی، پہلے خوف سے ڈری، پھر جی میں کہنے لگی کہ کسی طرح اس انگوٹھی کو لے لیجیے۔ یہ سمجھ کر اس پری پیکر نے آرام دل سے کہا: لااعلم

”آہ مشتاق ترے مفت ہوئے جاتے ہیں

اک نظر بھولے سے بھی ہو تو جیے جاتے ہیں

بھلا وصال جسمانی نہیں تو ذرا مصافحہ تو ہو۔“ یہ کہہ کر ہاتھ آگے بڑھایا۔ آرام دل نے بھی جلدی سے ہاتھ ملایا۔ عورت نے ہاتھ پکڑتے ہی پہنچا پکڑا، یعنی انگلی سے اس خوب صورتی کے ساتھ انگوٹھی اتار لی کہ شہ زادے کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ جب انگوٹھی کی طرف سے جمعیت خاطر ہوئی تو آرام دل سے کہنے لگی کہ ”صاحب! جو کوئی اس شہر میں مسافرانہ وارد ہوتا ہے، وہ پہلے ایک رات ہمارے ساتھ سوتا ہے، آج تم آئے ہو، ہمارے پاس رہو۔“ آرام دل نے کہا ”صاحب! رہنا کس جانور کا نام ہے، ہم نہ سمجھے یہ کیسا کلام ہے۔“ عورت مکار فتنہ روزگار نے کہا ”ذرا توقف کرو، رہنے کے معنی بتاؤں گی، ذرا لو، میں خود رہ کے دکھا دوں گی۔“ محمود اس کے نخرے پر جل گیا، ناک بھوں چڑھا کے شہ زادے سے کہنے لگا ”حضور! یہ عورت مکار ساحرہ معلوم ہوتی

171

ہے اور ایسی کچھ خوب صورت بھی نہیں ہے۔ اگر غربت میں ایسی ہی آپ کو رنڈی بازی سوجھی ہے تو اور کسی خوب صورت با اخلاق عورت، عاشق مزاج، معشوق وضع کے پاس چلیے۔“ مصنف

حسن یوسف یہ جہان بسیارست

بہر نظارہ زلیخا باید

اور یہاں تو جب تک بیٹھے گا یوں ہی افسردہ خاطر رہیے گا۔“

عورت یہ سنتے ہی غضب میں آئی، غصے سے کف منہ میں بھر لائی اور نگاہ گرم سے محمود کی طرف دیکھ کر زمین پر ایک ٹھوکر ماری کہ زمین شق ہو گئی، آرام دل اور محمود کی رنگت فق ہو گئی۔ زمین پھٹتے ہی ایک حبشی سیاہ مست شمشیر بہ دست نکل آیا۔ ساحرہ نے آرام دل کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ”پہلے اس شخص کے پاؤں میں زنجیر ڈال، پھر اس موذی بد ذات کو جلد ہمارے سامنے سے لے جا کر قتل کر۔“

یہ مجرد حکم شہ زادی کے اُس حبشی نے ایک زنجیر طلائی شہ زادے کے پاؤں میں ڈال دی اور محمود کا ہاتھ پکڑ کے وہاں سے لے گیا؛ ایک ٹیلے پر کھڑا کر کے چاہا کہ ایک وار میں اس غریب کا کام تمام کرے، محمود نے کہا کہ ”اے شخص! مجھ بے گناہ، نحیف، بوڑھے ضعیف کو مار کر کیا تیرے ہاتھ آئے گا، بجائے نیکی کے دنیا سے بھی خون ناحق کا الزام اور مواخذہ تیرے ساتھ جائے گا۔ مصنف

چھوڑ کر بندۂ خدا دے گا

اجر اس کا تجھے خدا دے گا

حبشی کو اُس کی ضعیفی پر رحم آیا، قتل ناحق سے سر دست ہاتھ اٹھایا اور کہنے لگا کہ ”خبردار پھر کبھی اس طرف رخ نہ کیجیو، جا میں نے تجھے چھوڑ دیا، مگر پھر شہ زادی کے پاس جائیے،

172

میرے اوپر آفت لائیے، ایسا غضب نہ کیجیو۔“ لا ادری

بھاگتا ہے تو بھاگ یاں سے دور

دیکھ پائے نہ کوئی چل ہو دور

محمود نے سلام کر کے کہا : لا اعلم

اگر برروید از تن صد زبانم

ادائے شکر کردن کے توانم

مصنف

خدا تجھ کو دل شاد رکھے مدام

کیا تو نے احسان مجھ پر، سلام

یہ کہہ کے وہاں سے ایسا بھاگا کہ پھر پیچھے پھر کر نہ دیکھا، سرائے میں آ کر دم لیا۔ شہ زادے کی بے کسی اور گرفتاری پر رو رو کے تر دامن و آستین کرنے لگا، اپنی بے وقوفی اور یاوہ گوئی پر ہزاروں لعنت اور نفرین کرنے لگا۔

یہاں حبشی نے آ کر آس شہ زادی سے عرض کی کہ ”خانہ زاد اُس بد نہاد کو مار کر ایک کوئیں میں ڈال آیا ہے۔“ ساحرہ نے کہا ”جا بس یہی کام تھا۔“ حبشی تسلیم کر کے غائب ہو گیا۔ آرام دل نے جو احوال پر اختلال محمود کے مارے جانے کا سنا، ہجوم غم سے کلیجا پھٹنے لگا۔ اس کی رفاقت اور جان بازی پر افسوس بہت کیا، وصال یار سے بالکل مایوس ہوا۔ اس اُستادی پر دور سے پیر فلک کا قدم بوس ہوا اور کہا : مصحفی

اے فلک آپ کو اتنا جو پھرایا تو نے

کوئی معشوق بھی عاشق سے ملایا تو نے

شہ زادے کو جب تک محمود وفادار کی معیت رہی، دل کو ہر طرح تقویت رہی، اب تو ساحرہ کے دام تزویر میں پا بہ زنجیر ہوا، پائے گریز نکسیر شکستہ ہو گیا، صورت تصویر ہوا۔ اپنی خوبئ قسمت اور گردش فلک پر پہلے تو بہت ہنسا، پھر اپنی بے کسی

173

اور بے بسی پر بے اختیار رو دیا۔ ساحرہ کے خوف سے آنسو باہر آنے نہ دیے، چپکے ہی چپکے گھونٹ گھونٹ کر پیے اور فرمایا :

صفیر بلگرامی

ہجر دل دار میں گر آئے اُمنڈ کر آنسو

راز دار ایسے ہیں ہم پی گئے یکسر آنسو

بد مزاجی میں اس کی نہیں رو سکتا ہوں

اور رکھتے ہیں یہاں جوش سمندر آنسو

چشم گرم اس نے دکھائی جو میرے رونے پر

رہ گئے دامن مژگاں سے لپٹ کر آنسو

ہو گیا خشک لہو ہاے مرے جسم کا سب

خون دل آتا ہے اب آنکھوں سے بن کر آنسو

اے صفیر! اس کے نہ آگے کبھی رونا ہر گز

پی لو تم آئے اگر آنکھوں کے اندر آنسو

رقت کو ضبط کیا، دل پر بڑا صدمہ پہنچا، خبط ہوا، اُبکائی کے ساتھ منہ سے خون ڈالا، دل خراشی سے ربط ہوا، سوزش غم نے دل کو پانی پانی کر ڈالا، خوب دل کا بخار نکالا۔ آرام دل کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا، غش پر غش آنے لگے، تمام بدن دفعتاً سرد ہو گیا۔ عورت اس حادثے سے سخت حیران ہوئی، شب وصال میں یار کا یہ حال دیکھ کر نہایت پریشان ہوئی۔ جلد جلد گلاب کیوڑا بید مشک چھڑک کر ہوش میں لائی اور کہنے لگی ”کیوں جی! دغا بازی کرتے ہو، اپنا یہ حال بنا کر ہمیں ڈراتے ہو، ہم سے نہیں ڈرتے ہو۔ بس خیر اسی میں ہے کہ رونے دھونے کو موقوف کرو اور ساغر تمنا مجھ صاحب جمال کا شراب وصال سے بھرو۔“

یہ سن کر آرام دل کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

174

ایک تو وہ پہلے ہی بیٹھا سوخت ہو رہا تھا، رو رو کے اپنی جان کھو رہا تھا، دوسرے اور بھی آتش غضب سینے میں بھڑک گئی۔ اپنی جان سے تو بیزار تھا، سوچا بہت کرے گی، مار ڈالے گی، بہت خوب ہو گا، میرا بکھڑا چکے گا، وہ بھی اپنے جی کی حسرت مٹائے گی۔ یہ سمجھ کر اور ”یا علی“ کہہ کر زنجیر میں اس سے جھٹکا مارا کہ ہر بند اُس کا مثل موئے آتش دیدہ علیحدہ علیحدہ ہو گیا اور زنجیر پھینک یہ کہتا ہوا چلا کہ ”دیکھیں بھلا اب تو ہمیں کس طرح روکتی ہے، منہ تو دیکھیں کس منہ سے ٹوکتی ہے : آتش

مرد وہ ہے کہ جو ہم کو سر میداں روکے“

عورت یہ کیفیت دیکھ کر غصے سے لال ہو گئی، تمام جسم میں لرزہ آ گیا، جان وبال ہو گئی۔ اور تو کچھ نہ بن آئی، تھوڑی زمین سے مٹی اُٹھا کر اس پر کچھ پڑھتی ہوئی شہ زادے کے پیچھے دوڑی اور دروازے کے قریب جا کر آرام دل کے اوپر وہ خاک ڈال دی۔ خاک پڑنا تھا کہ آرام دل جامۂ انسانی چھوڑ کر بہ شکل مور بن گیا۔ ساحرہ نے جھٹ پٹ اُس مور کو پکڑ لیا اور دالان لا کر چھوڑ دیا۔ پھر کہنے لگی ”کیوں چلے نہ گئے مصنف ؏

اب تو مر جاؤ گے دن رات پڑے یاں روؤ گے“

پھر ایک زنجیر پاؤں میں ڈال دی اور بہ آسائش تمام پلنگ پر جا لیٹ رہی۔ شہ زادے نے اپنے دل میں کہا کہ اب کی بے طور پھنسے ہو، اس سے دو چند روؤ گے، جتنا تمام عمر ہنستے ہو۔ پھر تھک کر چھاتی پر غم کا پتھر دھر کر ایک طرف کونے میں ہو بیٹھا اور یہ صد حسرت و یاس یہ شعر پڑھ کر ساحرہ کی جان کو رو بیٹھا : درد

175

روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے

اے عمرِ رفتہ! چھوڑ گئی تو کہاں مجھے

جب نصف شب اسی رنج و تعب میں کٹ گئی، فراق یار میں ساحرہ کی نیند اچٹ گئی۔ بے تاب ہو کر پلنگ پر سے اٹھی اور کچھ پڑھ کے شہ زادے پر دم کرنے لگی؛ دم کرتے ہی آرام دل صورت حیوانی سے ہیئت انسانی میں آیا اور اپنے تئیں یہ جمیع الوجوہ صحیح و سالم پایا، شکر خدائے بے نیاز کا بجا لایا۔ ساحرہ نے کہا کہ تو نے معلوم کیا کہ میں نے پھر تجھے انسان کیوں بنا دیا، آرام دل نے کچھ جواب نہ دیا اور تیوری چڑھا کر سر نیچے کر لیا۔ عورت نے جلدی ہاتھ پکڑ کے پلنگ پر کھینچا اور کہا: صفیر

کہتے ہیں دیکھو آؤ ہمارے پلنگ پر

ہم لوٹتے ہیں دردوں کے مارے پلنگ پر

رات آئی اتنی اور نہ ہوئى یاں بغل بھی گرم

تڑپے ہر ایک آن میں سارے پلنگ پر

آرام دل نے بھی طوعاً و کرہاً ہاتھ پاؤں ڈھیلے کر دیے۔ جو وہ کہتی تھی یہ کرتا تھا، وہ ساغر امیدِ وصال میں پیش کرتی تھی، یہ شیشۂ آتشیں سے مئے دو آتشہ بھرتا تھا۔

غرض اس شہ زادی نے آرام دل سے یہ خوبی کام دل حاصل کیا؛ جب کامیاب ہوئی تو لطف زندگی حاصل ہوا، جان و دل شہ زادے پر نثار کیا، عاشق ہو گئی، دل میں اور ہی مزا سمایا، مُسکرا کر کہنے لگی ”کیوں جانی! اب بھی سمجھے، رہنا اسے کہتے ہیں اور عاشقوں کے پاس معشوق اسی طرح رہتے ہیں۔“

آرام دل نے کہا ”اچھا اب ہم نے تمھارا کہنا کیا،

176

تمہارے سبب سے کتنا بڑا صدمہ اپنی جان پر لیا؛ اب تم بھی اپنا وعدہ وفا کرو، صبح کو ہمیں رخصت بہ رضا کرو۔“ شہ زادی یہ سن کر بہت ہنسی اور کہنے لگی ”واہ واہ، کیا خوب! ارے دیوانے جب تک میں تیرے وصال سے محروم تھی، جب تک تو صرف ایک پاس سخن تھا، کچھ حقیقت نہ معلوم تھی، اب وصل سے میں نے اپنے جی کی مراد پائی ہے، طبیعت کو اور ہی لذت ہاتھ آئی ہے ؛ میں ہرگز نہ جانے دوں گی اور جو زیادہ گفتگو کرے گا تو تیرے ہی سر کی قسم تجھ کو بھی مار ڈالوں گی اور آپ کو بھی ہلاک کروں گی۔“

یہ سن کے آرام دل غریق بحر تفکّر ہوا اور دل میں کہنے لگا: ؏

اے روشنئ طبع تو برمن بلا شدی

ہائے میں اُس ساعت کو نہیں پاتا جب میں اُس بڑھیا کے ساتھ یہاں آیا تھا، افسوس وہ وقت ہاتھ میں آتا جس دم میرا نصیب مجھے یہاں لایا تھا :

مثنوی

عشق کیا کیا نہ جی جلائے گا

خاک کیا گیا نہ یہ اڑائے گا

جان پر اب تو آ بنی افسوس !

کیوں رے دل تجھ پہ کیا بنی افسوس !

چاک دامن ہے اور سینہ شق

رنگ چہرے کا ہو گیا ہے فق

جاں لبوں پر ہے بے قراری ہے

دم ہے جب تک یہ آہ و زاری ہے

177

نزع میں ہوں اب آ مرے پیارے

صورت اپنی دکھا میرے پیارے

دل سرا پردۂ محبت تست

دیدہ آئینہ وار طلعت تست

آخر اسی خرابی اور پریشانی میں ساری رات کٹ گئی، حال زار اُس بے قرار، ستم رسیدۂ روزگار کا دیکھ کر صبح کی بھی چھاتی پھٹ گئی۔ اس عورت ساحرہ نے پھر شہ زادے کو اسی طرح مور بنا دیا اور پاؤں میں وہی زنجیر طلائی ڈال کر باغ میں چھوڑ دیا۔

غرض اُس شہ زادی نے مدام یہی دستور کیا، معشوق صاحب جمال پا کر وصال سے دل مسرور کیا۔ شب کو آرام دل کو صورت میں لا کر مزے کرتی اور دن کو مور بنا کر پھر وہی زنجیر پاؤں میں بھرتی۔

یہاں محمود جب سے سرا میں آیا تھا، ڈرتا ڈرتا کبھی اس کوچے میں جاتا، باہر شہ زادے کا سراغ لگاتا، جب کچھ پتا نہ پاتا، ناچار پھر کر چلا جاتا۔

آخر اسی گردش اور دوا دوش میں چند مہینے کا عرصہ گزرا۔ جب محمود ناچار ہو گیا اور کوئی تدبیر آرام دل تک پہنچنے کی بن نہ آئی تو یہ دل میں ٹھہرائی کہ اب اس ہمارے اوج حسن و خوبی کی خبر اس شہنشاہ کشور رعنائی، پروردۂ ناز و نعم، مدہوش شراب زیبائی کو پہنچانی چاہیے۔ یہ سمجھ کر با خاطر فگار و سینۂ داغ دار ملک فارس کی طرف روانہ ہوا، تیر بے داد فلکِ ستم ایجاد کا ہدف نشانہ ہوا۔

178

باب ہشتم

پہنچنا محمود کا اپنے وطن میں اور باریاب ہونا دربار ملکہ حسن افروز میں، نذر دینا تصویر شہ زادۂ آرام دل کا، اور عاشق ہونا اُس ماہ کامل کا، اور جلنا شعلۂ رخسار کے سوز میں

مرا جی تو بس سیر ہے ساقیا

کسی اور کو اب تو ساغر پلا

کہ جس طرح میں ایک ہوں بادہ نوش

اسی طرح سب کو ہو جوش و خروش

مے کشان خمار و بادہ نوشان انجمن دل دار شراب داستان کو شیشہ بیان میں یوں بھرتے ہیں کہ محمود دو مہینے کے بعد ہزاروں صدمے اور مصیبتیں اٹھا کر با چشم پُر آب و جگر کباب خستہ و خراب ہوتا ہوا اپنے ملک میں پہنچا۔ شب بھر اپنے گھر رہ کر صبح دم بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ دیر تک حاضر دربار رہا مگر ملکہ حسن افروز کی ملاقات کے لیے از حد بے قرار رہا۔ جب دربار برخاست ہوا، محمود نے ایک خواجہ سرا سے کہا کہ ”حضور میں ملکۂ آفاق چھوٹی بیگم صاحبہ کے جا کر عرض کر خانہ زاد قدیم، مورد عنایات عمیم، یعنی محمود تاجر بعد مدت دراز کے سفر دور دراز سے آیا ہے اور تمنا ملازمت اور قدم بوسی کی از بس رکھتا ہے۔“

179

ملکۂ حسن افروز اس دم اپنی مصاحبوں اور سہیلیوں کے ساتھ کھیل میں مشغول تھی، نہ فکر تھی، نہ طبع نازک ملول تھی۔ خواجہ سرا نے آ کر بعد شکر و سپاس محمود کی عرضداشت کو بہ عنوان شائستہ التماس کیا۔ ملکہ حسن افروز نے فرمایا ”محمود میرے واسطے اب کی اچھی اچھی چیزیں لایا ہو گا، ہاں جلد حاضر ہو۔“

خواجہ سرا باہر آیا، محمود کو بلا لایا، ملکہ حسن افروز دالان میں مسند زریں پر بیٹھی اور محمود کے واسطے ایک پلنگڑی جواہر نگار بچھوا دی، اس پر سفید اطلس کی چادر کھنچوا دی۔ محمود نے آ کر پہلے آداب دربار شاہانہ ادا کیا، پھر بہ موجب حکم شہ زادی تسلیم کر کے بیٹھ گیا - شہ زادی نے فرمایا ”کہو کہاں کی سیر کی؟ اتنے دن کہاں رہے؟ کب آئے؟ کس کس ملک پھرے؟ ہمارے واسطے کیا کیا سوغات لائے؟“

محمود نے کہا ”حضور! کیا عرض کروں؟ میرا قصہ بہت دراز ہے اور ماجرائے جاں گداز ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ غلام اب کی مرتبہ ایک چیز خاص حضور کے واسطے لایا ہے۔ شہ زادی نے کہا ”محمود! بھلا دیکھیں وہ کیا چیز ہے جو تجھ کو ایسی عزیز ہے؟“ محمود نے کہا ”وہ چیز ایسی نہیں ہے جو سب کے سامنے دکھاؤں۔ اگر حضور سب کو ہٹاویں اور تخلیہ کریں تو البتہ سامنے لاؤں، د کھاؤں۔‘‘ شہ زادی کو اس کے دیکھنے کا کمال شوق ہوا، عشق فتنہ انگیز کو دل لگی کا ذوق ہوا۔

مثنوی

عشق سے قمر عشق ہے بے داد

عشق ہے ظلم، عشق ہے جلاد

جہاں دیکھو اسی کا چرچا ہے

جہاں سنیے اسی کا غوغا ہے

180

ایک اندھیر ہے زمانے میں

دخل اس کا ہے ہر گھرانے میں

الغرض کچھ عجیب حالت ہے

اس کا ہر فعل جائے حیرت ہے

ملکہ نے حکم دیا کہ سب لوگ یہاں سے چلے جائیں اور جب تک حکم نہ پائیں نہ آئیں۔ جب تنہائی ہوئی، محمود نے موقع پا کر تصویر آرام دل کی کہ اپنے ہاتھ سے کھینچی تھی، ملکہ حسن افروز کے حضور میں حضرت عشق کے ہاتھ بھجوا دی اور یوں عرض کی کہ ”خداوند! خاک سار نے بڑی جان لڑائی ہے، جب یہ تصویر ایک بدر منیر کی ہاتھ آئی ہے۔“ شہ زادی نے تصویر جو ہاتھ میں لی، تصویر لیتے ہی تمام بدن میں رعشہ پڑ گیا۔ دل دھڑکنے لگا، ہر ہر عضو وجد میں آ کر پھڑکنے لگا۔ سچ ہے۔ نظامی

دل را بہ دل رہیست دریں گنبد سپہر

از سوئے کینہ، کینہ و از سوئے مہر، مہر

تصویر کھول کر جو ملاحظہ کی، ہوش و حواس جاتے رہے، طاقت سلب ہو گئی، بدن سنسا گیا، سکتہ ہو گیا، ابر غم مزرعۂ دل پر چھا گیا۔ سودا

حیران نہ ہو کیوں دیکھ اُسے چاہنے والا

تصویر ہے وہ سلمہ اللہ تعالا

دل نے بے اختیار چاہا کہ اس تصویر کو کلیجے میں رکھ لیجیے، آنکھوں نے اشارہ کیا کہ اس کو ہماری پتلی بنائیے، یہاں جگہ دیجیے، زبان نے درازی کی، پہلے دعائیں تو دیجیے- غرض سب کہنا کیا؛ پچھلے تو چھاتی سے لگایا، دو ایک بوسے لے کر آنکھوں سے ملا، پھر بلائیں لے کر جان و دل اس پر سے قربان کیا۔ دل نیاز منزل میں حضرت عشق کا گھر ہوا، آگے عیش آباد تھا، اب
 

سید عاطف علی

لائبریرین
--------------
ریختہ صفحہ 254
--------------
غائب ہو جانا ملکۂ حسن افروز کا، اور گرفتار ہونا دام کرناس دیو ستم گار میں اور روانہ ہونا آرام دل کا تلاش جاناں میں اسی حالت اضطرار میں

نہ دے ساقیا مجھ کو جام شراب
بس اب پھینک دے یہ گزک اور کباب
تمنائے مے اب تو بالکل نہیں
ذرا بھی مجھے خواہش مل نہیں
فلک سفلہ پرور ستانے لگا
مرا یار مجھ سے چھڑانے لگا
عجب طرح کا ماجرا ہے سخن
کیا عاجز اس نے بقول حسن
یہ دو دل کو یکجا بٹھاتا نہیں
کسی کا اسے وصل بھاتا نہیں

مصائب نگاران جگر افگار و جگر افگاران مصآئب نگار لکھتے ہیں کہ ایک شب وہ غیرت ماہ ملکۂ حسن افروز ذی جاہ اپنی محرم راز قمر النسا کے ہمراہ شہزادۂ آرام دل بدر کامل کے پاس تشریف لائی۔ چاندنی رات کی کفیت تھی، دو تین روز کے بعد ملاقات ہوئی تھی، وہ صحبت غنیمت تھی، کچھ جی میں جو آیا ملکہ نے شہزادے سے فرمایا: رند

--------------
ریختہ صفحہ 255
--------------

آج کی رات جو تو مہ کے مقابل ہو جائے
چاندنی میلی ہو دھلوانے کے قابل ہو جائے

ناگہاں سنبل الطیب کے تختے سے جو خوشبو آئی، شہ زادے کے کے مشام کو معطر کیا۔ آرام دل نے کیا خؤب جواب دیا:

خبر مرحوم

بو تری زلف کی گر اس سے مقابل ہو جائے
مشک مادر بہ خطا کہنے کے قابل ہو جائے

پھر ملکہ نے کہا "اس وقت کوٹھے پر سے نظارۂ شہر کریں۔"
شہزادے نے کہا "بسم اللہ ع

صلاح ما ہمہ آنست کان صلاح شما ست

الغرض ملکہ مع شہزادہ و قمر النسا اور چند خواصوں کو لے کر بالائے بام آئی۔ چاندنی کی کیفیت دیکھ کر کمال مسرور ہوئی اور فرط سرور سے شہزادے کی طرف مخاطب ہو کر یہ اشعار زبان پر لائی : لا ادری

دیکھنے نکلا جو تو خورشید منظر چاندنی
دھوپ سے بھی ہے چمک میں آج بہتر چاندنی
کیمیا گر ہے فروغ آفتاب حسن یار
دھوپ سونے کا ورق چاندی ک اپتر چاندنی

پھر ملکہ شہزادے کا ہاتھ پکڑ کے زیر شامیانۂ زرتاب مسند زریں جا بیٹھی۔ باغ حیات بخش اور نہر کی سیر کر کے دل شاد ہوئی۔ ذہن جو لڑا تو یہ غزل بر محل طبع زاد ہوئی : مصنف

جس نے اے جاں تجھے گلشن میں ٹہلتے دیکھا
اس کو پریوں کے نہ جھرمٹ میں بہلتے دیکھا

--------------
ریختہ صفحہ 256
--------------

نالہ ہائے سحری دھوم تو کرتے ہو، ولے
اپنا مطلب نہ کبھی تم سے نکلتے دیکھا
کبک پامال خرام بت طناز ہوا
ناز و انداز سے شاید اسے چلتے دیکھا
دل کا احوال کہوں کیا کہ تپ فرقت سے
کبھی پانی اسے دیکھا کبھی جلتے دیکھا
یہی کہتا ہے کہ نہ چھوڑوں گا میں ہر گز دامن
طفل اشک آج اسی ضد پہ مچلتے دیکھا
پیش شمع رخ جاناں دل پر غم اپنا
کبھی گلتے کبھی جلتے کبھی ڈھلتے دیکھا

شہزادے نے بھی ایک غزل بے بدل بر جستہ کہی اور ملکہ ست مخآطب ہو کر پڑھی: مصنف

آگیا جو ترے کوچے میں نہ ٹلتے دیکھا
دم مسیحا کا ترے در پہ نکلتے دیکھا
مطلب عاشق صادق پہ تجھے اے شہ حسن
مکر سے سیکڑوں انداز بدلتے دیکھا
میرے قابو میں کسی روز نہ آیا تو یار
اپنا بس تجھ پہ کسی آن نہ چلتے دیکھا
تو نے پھیری نظر اپنی تو پھر اس سے جہاں
جو گرا آنکھوں سے تیری نہ سنبھلتے دیکھا
اب تو عشاق کی جاں بازی کا لا دل میں یقیں
تو نے پروانے کو بھی آنکھوں سے جلتے دیکھا
آج بر آئی تمنائے سخن مدت میں
تم کو اے جان جو کوٹھے پہ ٹہلتے دیکھا

--------------
ریختہ صفحہ 257
--------------

اسی طرح با عیش و طرب زلف لیلائے شب تا کمر گئی، یعنی نصف شب گزر گئی۔ خمار بادۂ نشاط کا اتار ہوا۔ فلک ستم گار کا درپئے آزار ہوا۔ اتفاقاً اس وقت ایک طرف سے بالا بالا ایک دیو کا گزر ہوا۔ ظہور شعبدہ باز فلک کینہ ور ہوا۔ اس نے ایک پری نازنیں، قمر طلعت، زہرہ جبیں دیکھی، قدرت خدائے رب العالمین دیکھی۔دیکھتے ہی خنجر عشق کا گھائل ہوا۔ عاشق ہو گیا، بسمل ہوا۔ شہزادے کے پہلو میں بیٹھا دیکھ کر جل گیا، بے خود ہوا۔ اپنے جامے سے باہر نکل گیا غصے سے شہزادے پر جھپٹا اور خنجر آبدار کمر سے کھینچ کر مارا، مگر بہ برکت انگشتر سلیمانی شہزادہ آرام دل محفوظ رہا۔ خنجر جو کارگر نہ ہوا تو وہ ملعون بڑے زور سے للکارا۔ ملکہ وہ آواز ہولناک سن کر لرز گئی۔ خوف سے شہزادے کے پیچھے ہو بیٹھی، ہوش و حواس کھو بیٹھی۔ آرام دل بھی ایک آواز ہولناک سن کر اور بہ ظاہر کسی کو نہ دیکھ کر پریشان ہوا، بہت ہراساں ہوا۔ جب اس مردود کا شہزادے پر کسی طرح بس نہ چلا، غصے میں لال پیلا ہو گیا، بہت جلا۔ جھلا کر ملکہ کو معلق اٹھا لیا اور کندھے پر بٹھا شور و غل کرتا روانہ ہوا۔ آرام دل ملکہ کو یکدم غائب دیکھ کر گھبرایا، بے حواس ہو گیا، قمر النسا ہائے بیگم ! کہہ کے چپ ہو گئی۔ اسے تو سکتا ہوا، خواصیں سر پیٹنے لگیں۔ محل میں کہرام ہوا، غرق دریائے الم عالم مام ہوا۔ ماں یہ حال سن کر غش ہوئی، ہوش و حواس بجا نہ رہے: میر حسن

کلیجہ پکڑ وہ تو بس رہ گئی
کلی کی طرح وہ بکس رہ گئی

بادشاہ کو جو یہ خبر وحشت اثر پہنچی ہجوم غم سے بے تاب ہو گئے۔ کلیجے پر صدمہ پہنچا، زمین پر گرے۔ آرام دل کہ

روت روتے بے ہوش ہوگیا تھا ہوش میں جو آیا تو بصد حسرت و یاس یہ اشعار زبان پر لایا : جرأت

بہت کچھ کرگیا بے ہوش جانا ہم کو جاناں کا
نہ جی کو ہوش ہے دل کا نہ دل کو ہوش ہے جاں کا

ولہ

نہ جی کی دل کو خبر ہے نہ دل کو جی کی خبر
ترے بغیر کسی کو نہیں کسی کی خبر

یہ کہہ کر گریباں چاک کیا، رعنائی اور زیبائی کا بکھیڑا پاک کیا قبائے تنگ ہوا ، بے بار زیبائش کے نام سے تنگ ہوا :
میر

ہاتھ جانے لگا گریباں تک
چاک کے پھیلے پاؤں داماں تک

نسیم لکھنوی

یک چند جو گزری بے خور و خواب
زائل ہوئی اس کی طاقت و تاب
صورت میں خیال رہ گیا وہ
ہیئت میں مثال رہ گیا وہ
آنے لگے بیٹھے بیٹھے چکر
فانوس خیال بن گیا گھر
جامے سے وہ زندگی کے تھا تنگ
کپڑوں کے عوض بدلتا تھا رنگ

فلک کج رفتار کی ستم گاری پر ہنسا۔ دیس بہ دیس پھرنے کے لیے فقیرانہ بھیس کیا۔ کھیس کا تہبند باندھا، اس پر لنگوٹ کسا۔ سرفروشی کی گدڑی کندھے پر درست کی۔ طلب دل دار میں
 
آخری تدوین:
ریختہ صفہ 221 (کتاب 152)
روشن کیا ، رنگینی شیشہ آلات سے تمام انجمن کو غیرت گلشن کیا۔ تمام جھاڑ کنول جھابے ہانڈیوں مردنگیوں میں ، خدا جھوٹ نہ بلائے تو پانچ لاکھ شمعیں روشن ہوئیں۔ قد آدم آئینوں میں تختہ لالہ پھولا ، مرغ نگاہ اس محفل میں آ کر پروانہ بھولا۔ اہل حرفہ سب کام چھوڑ کر اسی طرف دیکھنے لگے۔ شہر والوں کو دھوکا ہوا کہ موتی محل میں آگ لگی ، تماشائی متحیر ہوئے۔ باشندگان دہلی کو پھول والوں کی سیر یاد آئی ، خوشی سے پھول گئے ، اہل لکھنو ایسے محو ہوئے کہ حسین آباد کی روشنی بھول گئے۔ اسی روشنی کے آگے چاند ماند ہوا۔ چمک دمک کی سب حقیقت گرد ہو گئی ، گرمی شعلہ کے حضور چاندنی پر اوس پڑی ، اس پر چاندنی سرد ہو گئی۔ پروانوں کے باہر ہی باہر پر جلے ، شمع تک نہ رسائی ہوئی ، سمندر گھبرا کر نہر میں ڈوب گیا ، کیا قدرت کبریائی ہوئی۔

اس عرصے میں کسی نے خبر دی کہ محمود حاضر ہے۔ یہ سنتے ہی ملکہ حسن افروز کا فرط سرور سے کلیجا پھٹنے لگا ، گھبراہٹ سے دم الٹنے لگا۔ قمر النسا سے فرمایا ، بے ساختہ زبان پر آیا کہ "ارے خدا کے لیے لوگون نے کیوں غل مچایا ہے ، میرا مغز کھایا ہے ، خیر تم اس شر کو یہاں سے رفع کرو ، مجھے خفقان ہوتا ہے ، للہ ان سب کو یہاں سے دفع کرو"۔

قمر النسا بس کہ ذی شعور تھی ، کنواری تھی مگر بہت دور تھی ، ایمائے ملکہ سمجھ گئی۔ خواصوں کو نکال دیا ، ہر ایک کو ہر بہانے سے ٹال دیا۔ جیا اور قمر النسا اور فقط ایک خواصملکہ کے پاس رہی تھی ، عندلیب روح قفس تن میں بھڑک رہی تھی۔ زار زار آنکھوں سے آنسو جاری تھے ، سکتے کا عالم تھا ، ہجوم اندوہ و الم سے ساکت دم تھا۔ کبھی امید وصال تھی کبھی پاس ،


ریختہ صفہ 222 (کتاب 153)

چہرہ اداس ، طبیعت پرملال ، حال پریشان اور جوش جنون میں یہ شعر ورد زبان تھا : حضرت غالب


کہتے تو ہو تم سب کو بت غالیہ مو(1) آئے

اک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ

آئے


پہلے تو بہت ضبط کیا مگر نہ سنبھلی ، غش آ گیا ، بیٹھے بیٹھے گر پڑی ، بدن سنسنا گیا۔ اس عرصے میں آرام دل محل میں تشریف لایا۔ قمر النسا نے صورت دیکھتے ہی درود پڑھا ، صل علی زبان پر آیا۔ آرام دل نے اپنے آرام دل کا یہ حال دیکھا ، ہزار جان سے نثار ہوا ، فرط محبت سے بے قرار ہوا اور دوڑ کر ملکہ کے قدموں پر گر پڑا ، تلوؤں سے آنکھوں ملنے لگا ، روتے روتے ہچکی بندھ گئی ، دم نکلنے لگا۔ سبحان اللہ کیا محل اور کیا وقت ہے۔ گل و بلبل کا وصال ہے ، نرگس چشم عاشق زار ہائے نازک دل دار سے پائے مال ہے ، مگر عاشق کی جان کو یہی سخت عذاب ہے کہ نہ ہجر میں چین ، نہ وزسل میں آرام ، آغاز کا تو انجام ہوا ، اب دیکھیے کیا ہو۔ غرض عاشق کی مٹی خراب ہے ، سر معشوق پائے عاشق پر دیکھا ، عشق نے ترک ادب شہزادے کے دل میں چٹکی لی چونکایا ، ملکہ حسن افروز کو ہوش آیا۔ سر جو اوپر کو اٹھایا ، سر دل دار اپنے پاؤں پر پایا۔ آہستہ سے بلائیں لے لیں اور اٹھ کر مسند پر ہو بیٹھی ، از سر نو دل و جگر سے ہاتھ دھو بیٹھی : شعر

عشق نے جادو کیا ، بے تاب و مفتوں ہو گئی

پہلے لیلی تھی اب اس مجنوں پہ مجنوں ہو گئی


قمر النسا نے آرام دل کو لخلخہ سونگھایا ، بارے ہوش میں آیا ،

----------------------------------------------------------------------

1۔ نسخہ مطبوعہ 1918ء میں "ھو" ہے۔


ریختہ 223 کتاب 154

اٹھ بیٹھا مگر اس گلستان رعنائی ، غنچہ سربستہ بوستان زیبائی کو دیکھ کر مثل تصویر بے حس و حرکت ہو گیا، شمیم زلف معنبر سے سر مست ہو گیا۔ چشم مے گوں کی دید سے سرشار ہوا ، خمار بادہ از جنون کا اتار ہوا : مصنف


زہر چڑھا صید بلا ہو گیا

دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا

ملک حسن افروز نے کہا "کیوں صاحب آپ کون تھے جو پرائے مکان میں بے اجازت تشریف لائے؟ کیا سمجھ کے بے تکلف چلے آئے۔؟" آرام دل نے کہا کہ "میری جان ! کس دل سے کہتی ہو اور کس سے کہتی ہو؟ کیا اپنے آرام دل سے کہتی ہو؟" اتنا کہہ کر ضبط نہ کر سکا پھر قدم پر گر پڑا۔ ملکہ حسن افروز بھی بے خود ہو گئی، ہم آغوش ہو کر رونے لگی ، پیرہن یار آنسوؤں سے بھگونے لگی۔ ایسی روئی کہ ناتوانی سے غش آ گیا : مصنف

واہ رے عشق خوب کام کیا دو ہی باتوں میں بس تمام کیا


قمر النسا حال زار دونوں عاشق بے قرار کا دیکھ کر بے تاب ہو گئی ، دل بھر آیا ، زار زار رونے لگی ، دونوں عاشقان صادق کے گرد پھر پھر کے نثار ہونے لگی۔ دیر تک یہی حالت طاری رہی سب کو بے قراری رہی۔ آخر قمر النسا نے اپنی آنکھوں کے آنسو پونچھ کر دونوں شیفتہ یک دگر عاشقان سوختہ جگر پر گلاب چھڑکا ، کیوڑے کا چھینٹا دیا ، اس کی زلف کی بو اسے سنگھائی ، اس کی کاکل اس کے رخ پر گرائی ، دونوں نے لخلخوں کا کام کیا۔ آرام دل کو ہوش آیا ، یہ شعر زبان پر لایا : لا اعلم


للہ الحمد ہر آں چیز کہ خاطر می خواست

آمد آخر ز پس پردہ تقدیر ید ید
 

الشفاء

لائبریرین
------------------------
کتاب صفحہ 232 سے 241
ریختہ صفحہ 301 سے 310
-----------------------

کتاب صفحہ 232
اس لیے سب سہہ گئے۔
جب چوتھی کھیل چکے ، سب ہنگامہ موقوف ہوا۔ شہزادہ خواب گاہ میں تشریف لایا۔ پھر وہی عیش کا سامان تمام ہوا، وصل کا سر انجام ہوا۔ اس رات نے عجب لطف دکھائے۔ دونوں طرف گل کھلے ہوئے۔ حیا و شرم کا نام نہیں۔ کسی کو کسی طرح کا رنج و آلام نہیں۔ دلوں کو سو سو طرح کے مزے آئے۔ ہر روز اسی طرح با عیش و نشاط ساغر تمنا مئے وصال سے معمور ہوتا، دل بادہ سرور سے مسرور ہوتا۔ شہزادے کو دن عید، رات شب برات تھی، وصل جاناں ایام گزشتہ کی مکافات تھی۔ صبح و شام بادہ نشاط سے سرشار ، عیش و نشاط مدام۔ نہ ہجر سے کچھ مطلب نہ فراق سے کچھ کام تھا، نہ بیم فلک کینہ پرور نہ خوف گردش ایام تھا۔
---------------
کتاب صفحہ 233
عزم آرام دل سوئے وطن؛ رخصت ہونا شاہ سے؛ بیان جلوس سواری اور بہ خدم و حشم روانہ ہونا

چل اے توسن خامہ فرخندہ گام
کہ سامان شادی ہوا سب تمام
بر آیا مرے دل کا سب مدعا
جو کچھ چاہتا تھا وہ حاصل ہوا
مگر اب ذرا حال رخصت لکھوں
بہار خزاں ، سیر غربت لکھوں
سیاحان دشت پیما، و رہ نوردان آبلہ پا احوال رخصت شہزادہ آرام دل مہر سیما یوں لکھتے ہیں کہ ایک شب شہزادے نے چھپر کھٹ میں لیٹے لیٹے ملکہ سے کچھ اشتیاق ملازمت والدین کا اپنے ظاہر کیا۔ اس رضا جو کو تو خوشی خاطر اپنے محبوب کی بہ دل منظور تھی، فی الفور جواب دیا: نسیم لکھنوی
چلیے گا تو ساتھ ہیں بلا عذر
رہیے گا تو بندگی میں کیا عذر

شہزادے کی تو یہی آرزو تھی، صبح دم آتے ہی شاہ سے اپنا عرض حال کیا: نسیم لکھنوی
دعویٰ نہیں کچھ دیے ہوئے پر
قائم رہیے کیے ہوئے پر

---------------------
کتاب صفحہ 234
لازم جو ہو اس میں کد نہ کیجے
سائل کا سوال رد نہ کیجے
بادشاہ یہ سنتے ہی گھبرائے، فرمانے لگے کہ ملک، حکومت، فوج، سلطنت سب کچھ موجود ہے، پھر رخصت چہ معنی دارد؟ بسم اللہ! حکمرانی کرو۔ میں ایک اولاد کے سوا دوسرا فرزند نہیں رکھتا ، جو بعد میرے وارث تاج و تخت ہو، پھر کیا سبب جو ایسا کلمہ زبان پر لاتے ہو؟ ناحق بیٹھے بٹھائے مصائبات سفر اٹھاتے ہو؟
شہزادے نے دست بستہ عرض کی کہ قبلہ عالم! منصفی شرط ہے، حضور کی سلطنت سے کم ترین کو کچھ کام نہیں، مگر حضور اپنے اوپر ہی قیاس فرمائیں کہ آپ کو جب مفارقت اپنے فرزند کی ایک لحظہ گوارا نہیں تو وائے بر حال میرے والدین کے کہ ایک مدت دراز سے مجھ نالائق کی تمنائے دیدار میں مضطر اور بے تاب ہوں گے۔ لوگ بے چارے میری تلاش اور جستجو میں خراب ہوں گے۔
بادشاہ نے فرمایا " اچھا ایک برس اور توقف کرو، پھر رخصت کروں گا۔" شہزادے نے عرض کی " حضرت! اب تو ایک ایک ساعت ایک سال کے برابر ہے۔ میرے حال پر رحم فرمائیے، رخصت کیجیے اگر میری خوشی ہے۔"
غرض بادشاہ نے ہر چند سمجھایا ، بہلایا، راہوں کا نشیب و فراز سنایا، مگر وہ کب سنتا تھا: نسیم لکھنوی
دو دل جو ہوں چاہنے پہ راضی
یہ جان لے کیا کرے گا قاضی
ناچار بادشاہ کو سوائے رخصت اور کچھ بن نہ آیا۔ وزیر اعظم

----------------
کتاب صفحہ 235
سے واسطے تیاری سامان سفر کے ارشاد فرمایا؛ تاریخ ٹھہری، دن مقرر ہوا۔ جبراً قہراً مہینہ بھر اور رکھا۔ جب مہینہ گزر گیا بہ موجب حکم بارک اللہ یوم السبت والخمیس جمعرات کے دن آدھی رات رہے سے کوچ کی تیاری ہوئی۔ اس شب لوگوں کو نیند نہ آئی۔ پہر رات رہے سے زن و مرد ، لڑکے بوڑھے ، جوانوں کا ہجوم ہوا۔ ہر شخص سواری کا جلوس دیکھنے چلا: میر حسن
یہ خالق کی تھی قدرت کاملہ
تماشے کو نکلی زن حاملہ
پانچ کوس تک دو راستہ آدمیوں کی بڑی کثرت تھی، کوٹھوں اور برآمدوں پر بھی یہ کیفیت تھی۔
شہزادہ رخصت ہونے لگا۔ بادشاہ نے رو کر آرام دل کو گلے لگایا، پیشانی پر بوسہ دیا، بازو پکڑ کے سورۃ فاتحہ پڑھی اور یہ کہہ کر رخصت فرمایا: مولانا نظامی
سپردم بہ تو مایہ خویش را
تو دانی حساب کم بیش را
جب شہزادہ سوار ہوا توپ خانہ سر ہوا۔ بادشاہ ثریا جاہ اسد برج میں تشریف لے گئے اور وہاں سے سواری کا جلوس دیکھنے لگے۔ پہلے دو لاکھ سوار زرق برق ، دریائے آہن میں غرق۔ نوجوان گھوڑے وہ کہ جس پر ابلق لیل و نہار نثار ۔ پاؤں میں موزے ، کتان کے پائجامے، حریر کی قبائیں، اس پر زرہ ، سر پر خود، ہاتھوں میں دستانے ، پشت پر گینڈے کی ڈھال بے مثال ، کمر میں بوندی کی کٹاری آب دار، ڈاب میں تلوار ، قبور میں تپنچے کی جوڑی، بندوق چقماق کندھے پر، برچھا ہاتھ میں۔ ہر جوان کی تیکھی چتون، نوک جھوک بات بات میں، طرق کے طرق ، پرے کے پرے، گھوڑے کڑکاتے، لوگوں کو بھڑکاتے، کنوٹیاں ملائے، باگیں اٹھائے دریائے فوج میں سے موج کی طرح نکل گئے۔
---------------
کتاب صفحہ 236
پھر آگے دتیل ہاتھی پر علم ظفر پیکر، پیچھے مکنے پر چھتر، بعد اس کے ماہی مراتب سورج مکھی، شیر دہاں۔
اب سواری کا سامان شروع ہوا، ہر شخص دیکھنے کو رجوع ہوا۔ ہزار بارہ سو سانڈنی جن کی شان میں فرماتا ہے رب العزت" افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت " بغدادی ، دکھنی ، مارواڑی، دو دو سو کوس کے دھاوے کی۔ مقیش کی باگیں ، طلائی مہاریں، گلے میں سونے کے گھنگرو، صندل کی کاٹھی، کمخواب کی جھولیں، ان پر پندرہ پندرہ برس کے جوان سوار، ترکش میں تیر، پرتلے میں تلوار، دوش پر کمان۔ کم سن و خوبصورت نوجوان ہاتھ میں کوڑا، مہاریں کھینچے، مہرے کاٹھی سے ملائے، طاؤس کا جوبن دکھائے اور دو ہزار بچھیرہ ناکند، ناپ کا پورا، جن کی تعریف خالق کونین نے فرمائی ہے، "والعادیات ضبحاً " کہہ کر قسم کھائی ہے۔ اس میں دو سو دریائی باقی سب عراقی، ترکی، اعرابی، ایرانی، کابلی، کچھی، خراسانی، ختائی، دکھنی۔ کاٹھیاوار کامدانی کی گردنیاں، گرد موتیوں کی جھالر، مقیش کی چوٹیاں، مخملی کار چوبی گدے لیس کے ، فراخی قائزہ کھنچا؛ کلیل کرتے، باجے کی آواز سے ڈرتے۔ اور سات سو خاصہ کوتل، باناتی چار جامے، کار چوبی زین پوش، اس پر کوتل کش، سونے کی رکابیں، کمخواب کے تنگ پر زرد دشالوں کے زیر بند، طلائی کلغی، جواہر نگار پوزی دمچی، گردنوں میں یاقوت کے اکے، سونے کے توڑے، گلے میں ہیکل، پاؤں میں جھانجھنیں، پٹھوں پر موتیوں کی پاکھر، رنگین دم، دو دو انگل پر نالے پڑے ہوئے۔ بڑی تیاری سے دم سم، سائیسوں کے ہاتھوں پر، اُڑ جانے کی گھاتوں پر، معشوقوں کی طرح پھڑکتے، توپ کی آواز سے بھڑکتے۔ سائیسوں کے ہاتھوں میں سونے کے موٹے

-----------------
کتاب صفحہ 237
موٹے کڑے، کانوں میں سونے کی مرکیاں، سر پر گل نا رپگڑی، گلے میں اطلس کی مرزئی، پاؤں میں بنارسی دھوتی، پگڑی پر داڑھی باندھنے کے رومال کی گرہ لگی ہوئی، ایک ایک لپیٹ، خرد نو کا جوتا پاؤں میں جیسے لکھنؤ کے جوہری یا متھرا کے سیٹھ۔ مقیش کی باگ ڈوریں کندھوں پر، گنگا جمنی ڈنڈیوں کی چوڑیاں ہاتھوں میں۔ پھر پلٹنیں اکبری، حسینی، اختری، نادری۔ ان کے پیچھے بچھیرا پلٹن، اس پر عجب جوبن۔ بارہ بارہ برس کے جوان، رشک غلمان، لکھنؤ کے بوٹ پاؤں میں، چوڑی دار پائجامے، سرخ اطلس کے انگرکھے، سیلی کمر سے بندھی، گل نار مندیل کی بتیاں، کرن کے طرے، چھوٹے چھوٹے نیمچے اور گپتیاں، پیچک کی جوڑیاں کمر میں، ہلکے ہلکے رفل کندھوں پر، ساز و سینگڑے سے درست، انتہا کے چالاک و چست۔ باجا بجاتے ، برابر قدم اٹھاتے، زنبور کی صدا، قرنا کی ادا، دف کی آواز، گھنگھور بانسلی کی دھن، جھانجھ کا شور۔
خلقت یہی کیفیت دیکھ رہی تھی کہ نقیب اور چوب داروں کی آواز کانوں میں آئی۔ انہوں نے آواز لگائی کہ مجرا شہزادہ عالم پناہ سلامت! پھر ایک غول نمودار ہوا، سواری قریب پہنچی، ہر شخص بے قرار ہوا۔ دیکھا دس بارہ ہزار خاص بردار، خاصیاں کندھوں پر، ان کے غلاف کاشانی مخمل کے ، گرد پوش صاف صاف ململ کے، پائجامے اطلس کے، چپکنیں، زربفت کی ،شالے پٹکے، سر پر باندھنو کا چیرہ بیش قیمت مندیل نما۔ پیچھے آرام دل عماری دار ہاتھی پر سوار، خواصی میں محمود وفادار۔ ہاتھی فلک شکوہ، پر تمکین، باعظمت و شان، سب ہاتھیوں سے دونا، لاکھ دو لاکھ میں ایک، رنگا رنگایا، وضع دار، خرطوم سے تا بہ مستک رشک گل زار۔ دائیں بائیں دو دو برچھے والے ہاتھوں میں برچھے
---------------
کتاب صفحہ 238

سنبھالے ، دانتوں پر سونے کے جڑاؤ مہالے، مستک پر فولادی سپر، اس پر کلغی ، گلے میں طلائی ہیکل، کانوں میں بالیاں، ان میں موتیوں کے مالے، ناظرین کے جی بے چین کرنے والے، سلطانی بانات کی جھول، تخمیناً دس گز کا عرض، پندرہ گز کا طول ، کار چوبی بہت سنگین کام، سلمے ستارے سے مغرق، تمام سرخ ریشم کا رسا، جواہر نگار عماری جواہرات میں جڑی ہوئی ساری۔ فوج دار خاں خوش رو جوان بہ جائے فیل بان۔ دائیں ہاتھ میں جواہر نگار گجباگ، بائیں ہاتھ میں پیچ وان مستک پر رکھے ہوئے، آسن دبائے مہرہ اٹھائے۔ ہاتھی کے خرطوم میں چنور دم بہ دم ناز و ادا سے شہزادے پر ہلاتا ، معشوقانہ جوبن دکھاتا۔
آرام دل کے برابر ذرا ایک قدم پیچھے ہٹ کر ملکہ حسن افروز پردہ داری عماری میں فیل خوش خرام پر سوار؛ مصاحبت میں قمرالنساء پری پیکر، حور کردار۔ اس کے پیچھے پندرہ ہزار ہاتھی ہودج اور عماری کا خاص شہزادی کی سواری کا۔ ان کے بعد کئی سو رتھوں میں مامائیں، اصیلیں، مغلانیاں، خواصیں، پیش خدمتیں سوار۔ ملکہ کے ہاتھی پر خواجہ سرا فیل بان۔ ہاتھی کی وہی شوکت وہی شان۔ عماری تیاری میں اسی عماری کے برابر، بلکہ اس سے بہتر۔ اندر گنگا جمنی چلمنیں، باہر کارچوبی پردے، مخملی فرش، اس پر مسند تکیہ لگا، دیوار گیریوں پر چھوٹے چھوٹے دو الماسی کنول روشن ، عماری میں موتی محل کا جوبن۔
ملکہ والدین کی مفارقت، عزیز و اقربا کی مہاجرت میں فرط آلام سے خاموش سرنگوں۔ دل میں ہزاروں وسواس، مگر راضی بہ رضائے ایزد بے چوں۔ قمرالنساء دل بہلانے کی باتوں میں، سیر و تماشے کے حرف و حکایاتوں میں مصروف۔ ان دونوں ہاتھیوں کے گرد ہزاروں غلام سیم بر، زریں کمر، بے انتہا خواجہ سرا الماس، فیروز، بسنت۔

------------------
کتاب صفحہ 239
یہ ان کے افسروں کا پتا۔ جھرمٹ مارے ہوئے، (کذا) لال سبز توغین ہاتھوں میں لیے ہوئے، لالٹین بلوری روشن کیے ہوئے۔ سواری جو اسد برج کے نیچے پہنچی شہزادے نے جلدی سے پیچوان الگ کیا اور ہاتھی پر کھڑے ہو کر شاہ کو آخری مجرا کیا۔ بادشاہ کی آنکھوں سے آنسو گر پڑے، منھ پھیر لیا۔ وزراء، امراء، زار زار رونے لگے، رومال آنسوؤں سے بھگونے لگے۔ اس وقت سقوں کی گلاب پاشی، صبا کی جاں خراشی، خوشبو کا لہکنا، دشت کا مہکنا، صبح کا جھٹ پٹا وقت، نسیم سحر کا فرفر چلنا، شمعوں اور مشعلوں کا جھلملا جھلملا کے جلنا، سورج کی کرن کا پھوٹنا، شہزادے اور شہزادی سے خلقت کا چھوٹنا، تمام عالم کی گریہ و زاری، ہر صغیرو کبیر پر بے قراری کا عالم طاری۔ یہ کیفیت جو نظر آئی، مہر منور چرخ چہارم پر مضطر ہو کر بہ نظر حیرت تماشا دیکھنے نکلا۔ فلک ستم شعار کہ اس سیر کو بہ چشم انجم نگراں تھا، اس سے بھی نہ دیکھا گیا، گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں۔ چاند کی رنگت فق ہو گئی، منھ پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ آخر مہتاب نے اسی غم میں گھلا گھلا کے آپ کو ہلاک کیا۔ سحر نے اپنا گریبان چاک کیا۔ سبزے کے دل میں غم کی برچھی لگی، بے اختیار شبنم کے آنسو ٹپک پڑے، درخت حیرت سے کف افسوس ملتے تھے کھڑے۔ پہاڑ میں شیر نے اللہ ھو کا نعرہ مارا، مرغ سحر اللہ اکبر پکارا۔ ہر جانور خدا کی یاد کرنے لگا، ھوالباقی کا دم بھرنے لگا۔ شہزادے کی فرقت میں در و دیوار ، چرند و پرند، انسان حیوان سب کو رقت، دشت کو وحشت ، آسمان کو حیرت ، صحرا، جنگل، کوہ سنسان، بیابان ھو کا مکان، عجب عالم نظر آیا؛ سنگ دلوں کا بھی دل بھر آیا۔ روتے روتے لوگوں کی ہچکی بندھ گئی، کلیجے تھرا گئے،

---------------
کتاب صفحہ 240
ہزاروں کو غش آ گئے۔ سیل اشک آنکھوں سے جاری تھا، بے خودی کا عالم طاری تھا۔ آخری دیدار تھا، لوگ بار بار حسرت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے، زار زار روتے تھے اور یہ کہتے تھے : رند

مژدہ اے گردوں بر آیا تیرے دل کا مدعا
شہر سے آباد آتا ہے نظر ویرانہ آج

سواری جب دور نکل گئی لوگ ناچار بادل داغ دار و جگر فگار اپنے اپنے گھر آئے، مگر کہاں کی بھوک کہاں کی پیاس، سب کا جی بے چین، چہرہ اداس، شہر اجاڑ، مکان پہاڑ، ویران بازار، گل و گل زار بدتر از خار نظر آنے لگا، سب کا دم گھبرانے لگا۔ بادشاہ خلقت کی بے قراری، زن و مرد کی آہ و زاری دیکھتے تھے اور بھی صدمہ دل پر ہوتا تھا۔
قصہ کوتاہ جب سواری دور پہنچی اور خزانہ، توپ خانہ، میگزین اردوئے معلیٰ، خیمہ ڈیرہ جا چکا بادشاہ باچشم اشک بارمحل میں تشریف لائے۔ وہاں دیکھا تو سبھوں کی روتے روتے بری حالت، بیگم صاحب کوغشی کی نوبت، گھبرا کر جی بہلانے کے لیے باغ حیات بخش میں تشریف لائے، وہاں عجب رنگ نظر آئے۔ روش پٹری بگڑی ہوئی، سبزہ پامال، تمام باغ میں پت جھڑ، درختوں کا برا حال۔ سرو میں بل، شمشاد میں خم، لالہ داغ بر دل، نرگس چشم پرنم، گلاب کے درخت میں پھول کیسا، کہیں پتے نام کو نہیں، سوکھا ہوا کانٹا۔ موتیا بے آب، چنبیلی کی مٹی خراب، بنفشہ پژ مردہ، ریحان بے جان، سوسن خاموش ، سنبل پریشان، نہر خشک، بے آب، مچھلیاں زبان نکالے ہوئے بے تاب۔ انگور مثل دل عاشقاں مرجھائے، زعفران کے تختے کی طرف دیکھو تو بے اختیار رونا آئے۔ نہ وہ باغ ، نہ وہ بہار، نہ وہ گل، نہ

------------------
کتاب صفحہ 241

وہ خار۔ نہ بلبل کے چہچہے، نہ وہ درخت سرسبز لہلہے، نہ قمری کی کو کو، نہ کوئل کی تو تو، نہ مور کا شور، نہ ساون کی گھٹا گھنگھور ، نہ نسیم ، نہ صبا، نہ کہیں صیاد کا نام، نہ گل چیں کا پتا، نہ سبزہ و صحرا، نہ کیفیت گل زار، نہ موسم خزاں، نہ فصل بہار۔ جب آندھی کا جھونکا آتا درختوں کے ہوش بگڑ جاتے، ہر جھونکے کے ساتھ دو چار جڑ پیڑ سے اکھڑ جاتے۔ باد صر صر کے زور سے ٹہنے پھٹے ہوئے، پتوں سے نہر لب ریز، کنویں پٹے ہوئے۔ بہ جائے بلبل زاغ زیب گلشن، قمری کی جگہ بوم شوم کا مسکن۔ موتی محل ویران، نہ فرش، نہ وہ تکلف، نہ وہ زیبائش، نہ وہ سامان۔ جا بہ جا جانوروں کے گھونسلے، آشیانے، کوؤں کی بیٹ، خس و خاشاک کے ڈھیر، کہیں کنکر، کہیں پتھر، کہیں اینٹ۔
یہ سیر دیکھ کر حضرت ظل سبحانی عالم سکوت میں ششدر و حیران تھے " ھو الغفور الودود ذی العرش المجید فعال لما یرید " کہتے تھے اور گریاں تھے۔ سبحان اللہ جہاں گزران سرائے فانی کچھ عجب مقام ہے، جسے دیکھو با درد و آلام ہے۔ آیند و روند کا تماشا ہے، ہر ایک سے رشتہ ناتا ہے، مگر ثبات بجز ذات پروردگار نہیں۔ مصرع
یکے ہمی رود و دیگرے ہمی آید
کسی کو اس دہر ناپائیدار میں قرار نہیں۔ جو لوگ فنا فی اللہ ہیں ان کے تو کیا کہنے ، نہیں تو وہاں سے شوق دیدار میں آتے ہیں، آب سرد، نان گرم ، سایہ دیوار، شاہد گل عذار، باغ و بہار جہان کی نعمتوں کے مزے اٹھاتے ہیں، جب وطن یاد آتا ہے : شعر

حب وطن از ملک سلیماں خوش تر
خار وطن از سنبل وریحاں خوش تر

------------------------
کتاب صفحہ 232 سے 241
ریختہ صفحہ 301 سے 310مکمل

----------------------

 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ 281

18
ترانہ سنجیٔ عندلیب خامہ در بیان شادی و کیفیت عروسی و دامادی

پلا ساقیا ساغر پر سرور
کہ لکھنا ہے سامان شادی ضرور
پلا دے مئے شادمانی کا جام
اٹھا لے ذرا ساغر لالہ فام
وہا مدتوں میں بہت خستہ حال
بس اب دختر رز سے کر دے وصال
صنم ماہ رو پا کے مسرور ہوں
تری میں عنایت کا مشکور ہوں
کوئی بوتل اچھی سے لا دے مجھے
اگر ہو برانڈی پلا دے مجھے
شب وصل برتر ہے از روز عید
پلا دے پھر اب کیا ہے گفت و شنید

مشاطۂ کلک جواہر سلک عروس مدعا کو حجلۂ بیابان میں یوں آرائش دیتی ہے کہ وزیر حسب الحکم شاہ ثریا جاہ کاروبار شادی کا منتظم ہوا، شہ زادے کی طرف سے مہتم ہوا۔ باغ حیات بخش میں آیا، داروغۂ باغ کو تیاری کا حکم سنایا۔ باغ حیات بخش میں آرائش ہوئی۔ شاہدان گل عذار نے اپنا اپنا سنگار کیا، اور ہی زیبائش ہوئی۔ در باغ پر نقارہ رکھا گیا، شادی


ریختہ صفحہ 282

کی نوبت بجنے لگی۔ موتی محل آراستہ ہوا، کوٹھی سجنے لگی۔ باغ میں از سر نو چمن بندی ہوئی، روش پٹری درست ہوئی۔ باغ بانوں نے اپنی اپنی کاری گری دکھائی۔ ساون بھادوں میں جھرنا جاری ہوا، فصل بہار آئی۔ زعفران کی کیاریوں پر نئے نئے بنگلے بنے۔ شاہدان بوستان بے خزاں بن ٹھن کر طیار ہوئے۔ سوسن نے مسی کی دھڑی جمائی۔ طوطی کے درخت نے ہاتھوں میں مہندی لگائی۔ گل صد برگ نے چنپئی چیرا باندھا۔ چنبیلی نے سفید پوشاک پہنی۔ اس سادگی پر معشوق طرح درا ہوئے۔ معشوقوں کے کم بولنے کی ادا اختیار (1) کی، یہ بھی اپنی دانست میں وضع دار ہوئے۔ سنبل نے زلف پیچاں بنا کر بڑے ناز و ادا سے کمر تک لٹکائی۔ نرگس نے دنبالہ دار سرمہ لگا کر بلبل سے آنکھ ملائی۔ شاہد گل نےگلابی جوڑا پہنا، کیوڑے کا عطر لگایا۔ داؤدی نے زعفرانی جوڑا زیب بدن کیا؛ سہاگ کے عطر میں اپنا بدن بسایا۔ انگور خوشی کے سرور میں مست ہوا۔ لالہ مئے انبساط کا متوالا، شراب ارغوانی کا پیالہ بہ دست ہوا۔ نافرمان کی اودی پوشاک دل میں کھبنے لگی۔ سبزۂ نودمیدہ کی دھانی رنگت آنکھوں میں چھبنے لگی۔ سرو دل جُو معشوقوں کی طرح اکڑنے لگا، شاد ہوا۔ قد دل دار سے مشابہ ہے، اس لیے شمشاد کا نام باغ حیات بخش میں گلشن آباد ہوا۔ نہر لطافت بحر میں حوض کوثر کی لہر آئی۔ باغ نمونۂ فردوس بریں ہوا۔ تسکین بخش دل ہاے حزیں ہوا۔ گل بوٹا، برگ و برگ کے نشو و نما میں قدرت جل و علا نظر آئی۔ اس باغ جنت دماغ میں کچھ عجب کارخانہ جات شاہ بلند مکان تھے کہ مالنیں پری زاد حوریں تھیں۔ باغ بان حسین غلمان تھے۔ غرض گل ہائے ناشگفتہ خوشی سے پھولے، ممنون باد بہاری ہوئے۔ طاؤس باغ کا جوبن
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) نسخہ مطبوعہ 1918ء : اُبھار۔


ریختہ صفحہ 283

دیکھ کر رقصاں ہوئے۔ نہر میں قطار قطار فوارے کہ دو دو گز کے فاصلے پر نصب تھے، جاری ہوئے۔ صدہا من بادلہ کترا گیا، نہر میں چھڑکا گیا۔ زمین پر ستارے نظر آنے لگے : مصنف

فوارے جو سارے چھوٹتے تھے
گردوں سے ستارے ٹوٹتے تھے

عجب کیفیت نمایاں ہوئی، باغ رشک آسمان ہوا۔ نہر عبرت کہکشاں ہوئی۔ روشوں پر مینا بازار لگا، دشمنوں کے دلوں پر خار لگا۔ حلوائیوں نے طرح طرح کی مٹھائی دکانوں پر لگائی۔ خوانچہ والے پکار کر سودا بیچنے لگے۔ ایک روش پر کبابیوں نے اپنی دکان جمانئ۔

القصہ یہاں آرام دل نے زعفرانی جوڑا پہنا، وہاں بیگم صاحبہ نے اچھی ساعت شبھ گھڑی ملکہ حسن افروز کو مانجھے بٹھالا۔ دالان کے پردے چھوڑ دیے، آفتاب کو بر میں چھپایا۔ بادشاہ نے شہر میں کیسر اور شہاب کی نہریں جاری کر دیں اور جلاد فلک کو حکم دیا کہ جسے رنگین دیکھ اسے چمکا دے۔ جو سفید پوش نظر آئے، اسے دریاے خون میں نہلا دے۔ نیرنگ ساز چرخ کج باز نے تمام شہر چھان ڈالا، مگر کوئی بشر سفید پوش نظر نہ آیا۔ گلابی یا زرد، جسے دیکھا انہیں دو رنگ میں ڈوبا پایا۔ جن بادشاہوں، راجا بابوؤں کو فرمان شاہی اور شقے پہنچے، وہ سب آئے۔ شہر کے باہر پانچ کوس تک ہزارہا خیمہ استادہ ہو گیا۔ جو جس کام پر معین ہوا، وہ اس کی بجا آوری میں آمادہ ہو گیا۔

پانچ روز تک مینا بازار اور خاص بازار، جوہری بازار اور نخاس بازار نہایت کیفیت اور عمدگی کے ساتھ آراستہ ہوا۔ جس نے دیکھا اُسے سکتا ہو گیا۔ راہ چلنے والا کھڑا ہو گیا۔ اور شہر پناہ


ریختہ صفحہ 284

سے انتہائے بازار تک دو راستہ تنور گڑے ہوئے۔ دکانوں کی کثرت اور خلقت کے اژدحام سے وہ کشمکش کہ کسی کو بیٹھنے کہ مہلت اور جگہ نہ تھی۔ سب حلوائی اپنی اپنی دکانوں کے آگے کھڑے ہوئے۔ گھنٹے والے کا قلاقند، شہ درے کی برفی اور بالو شاہی۔ برفی جیسے برف کی ڈلی۔ پیٹھے کی مٹھائی، قلمیں اور لچھے۔ متھرا کے پیڑے، دلی کی جلیبی، دہی اور بالائی کے پیالے۔ گرما گرم تازہ تازہ دودھ۔ سبحان اللہ! کیا قدرت رب ودود کہ پانچ منزل تک چلے جائیے، ادھی خرچ نہ ہواور کھانے کو ہمہ نعمت موجود۔

شہر میں بادشاہ نے سوائے دعوت کے توڑے بندی کی۔ فی کس دو خوان پلاؤ، زردہ، قورمہ، متنجن، کباب، بریانی، کلچہ، پسندہ، فرنی، مربا، اچار، باقر خانی، اور دو خوان میوہ جات انار، بہی، ناسپاتی، پستہ، بادام، اخروٹ، انگور ولائتی مع ایک ہزار روپیہ نقد ادنی اور اعلیٰ سب کو عنایت کیے۔ جو دو چار شہر میں باخدا اور ولی تھے، اُنہوں نے نعمت دنیا سمجھ کر انکار کیا، نہیں نہیں کہہ کر بہت اصرار کیا۔ چوب دار شاہ کا حکم بجا لائے اور وہ خوان ان کے دروازے پر رکھ کر چلے آئے۔

جب توڑے بندی ہو چکی، منادی نے ندا دی کہ خبردار کوئی کسی کو تکلیف نہ پہنچائے، زبردستی نہ کرے۔ سب لوگ اپنے اپنے گھر میں جشن کریں۔ کوئی کسی کو کسی طرح کا رنج نہ دے۔ یہ سن کے حضرت عزرئیل علیہ السلام نے بھی قبض روح سے ہاتھ کھینچا۔ جامع مسجد کے شہدوں کو کوتوال کا خوف بالکل جاتا رہا۔ پھر تو بے غم نکی اُڑانے لگے۔ ہزار ہزار روپیہ نقد جو سرکار سے ملے تھے اُن کی ایک ہی ایک موٹھ آنے لگے۔ اگر گشت میں کہیں کوتوال صاحب سے ملاقات ہو گئی تو وہیں


ریختہ صفحہ 285

جھک کر سلام کیا اور موچھوں پر تاؤ دے کر یہ کلام کیا کہ کیوں پیر و مرشد! ایک ہفتے تک کیا کیجیے گا؟ اب تو ہمارے پو بارہ ہیں۔ اب اسی شہر میں ایک دو نہیں اٹھارہ ہیں۔ اب کس کا جوا پکڑ کے سزا دیجیے گا؟

الغرض جو تھا مئے نشاط سے سرشار تھا، مخمور تھا۔ رنج و محن جسے کہتے ہیں وہ ایک ادنیٰ ادنیٰ مزدور سے منزلوں دور تھا۔ چار سو طائفے عمدہ عمدہ رنڈیوں کے موجود تھے، مگر وہ بھی کانی نہ ہوئے اور ملکوں سے رنڈیاں آئیں۔ لکھنؤ میں ڈھونڈو تو رنڈی کہیں گھس کر لگانے کو نہیں ملتی۔ تماش بین کوٹھوں پر جاتے، محجوب ہو پھر کر چلے آتئے۔ محل سے باہر دیوان خاص تک، اور وہاں سے تمام شہر میں، اور در شہر پناہ سے پانچ کوس نخاس تک دو راستہ ٹھاٹھر بند ہے، جا بجا نقار خانے بنے، روشنی کے ٹھاٹھ ہوئےئ۔ صندلی لکڑی کے ٹھاٹھر، بہ جائے بندھن طلائی گل میخیں، ان پر نقرئی چراغ رکھے ہوئے۔ ٹھاٹھر کے قریب برابر بلوری لالٹینیں؛ شام ہوتے ہی ان میں شمع مومی اور کافوری روشن ہوئیں۔ سب کا گل بندھ گیا۔ گل گیر کا توٖغم نہ تھا، غیرت گلشن ہوئیں۔ بادشاہ نے چراغوں میں بہ جائے روغن سہاگ کا عطر جلوایا۔ قصے کہانیوں میں سنا کرتے تھے، مگر اس شاہ گردوں بارگاہ نے نقل کو اصل کر دکھایا : آتش

اللہ رے ہمارے تکلف شب وصال
روغن کے بدلے عطر جلایا گلاب کا

جا بہ با حوض بنے ہوئے، چہ بچے کھدے ہوئے، اُس میں صدھا من عطر بھرا ہوا۔ اچھے اچھے سفید پوشوں نے ٹھاٹھروں پر روشنی کی۔ خوش ہو کے لالچ سے یہ جبر اختیار کیا، ذرا نہ انکار کیا۔ روشنی کرتے وقت دو ایک چراغ اپنے اوپر گرالیے۔ کسی


ریختہ صفحہ 286

نے جو کہا کہ یہ کیا کیا؟ تو وہیں پھر گئے، ہنس کر کہنے لگے "بھائی واللہ بھولے سے گر گئے۔"نقار خانوں میں جب شام کی نوبت بجی ہر دکاندار نے اپنی اپنی دکان سجی۔ نیچے سے اوپر تک، اندر سے باہر تک قد آدم آئینے لگا دیے، جھاڑ کنول جلا دیے۔ آئینہ بندی سے روشنی اور دو چند ہوئی، عالم پسند ہوئی۔ اُس روشنی کی کیفیت میں دکانوں کا سجنا اور غضب تھا؛ غور کر کے جو دیکھا تو عطر کی مہک سے شہر رشک ختن تھا، آئینہ بندی سے غیرت حلب تھا۔ ہر دکان کے آگے ایک ایک رنڈی کا طائفہ، نقار خانوں کے چار چار دروازے، ہر دروازے پر ایک ایک کتھک کو لونڈا۔ آدمیوں کی تو یہ کثرت کہ تمام شہر اُمڈا، سارا لکھنؤ بھرا ہوا، مگر عجب طرح کا اہتمام اور کچھ طرفہ انتظام تھا کہ نہ کہیں شور تھا، نہ غل تھا، یہ ہی اہتمام بالکل تھا۔

یہاں تو یہ کیفیت تھی، وہاں موتی محل میں الماسی جھاڑ کنول روشن ہوئے، مکان جنت نشان پر عجب جوبن ہوئے۔ آرام دل کے آنے کے روز پانچ لاکھ بتی چڑھی تھی، اُس روز پچاس لاکھ گلاس عطر اور گلاب کا چڑھایا گیا۔ شہر میں سہاگ کا عطر پھک رہا تھا، یہاں عنبر کا عطر جلایا گیا۔ اُدھر سے ساچق کا اہتمام ہوا، ادھر سے اُسی تاریخ مہندی کا سر انجام ہوا۔ اگر ساچق کی آرایش میں سے ایک تختے کی آرائش لکھوں، باغ حیات بخش کہ رشک گلزار ارم ہے، حسرت سے خار کھائے، اور اگر مہندی کی زیبائش اور شوخی تحریر کروں، لکھنا کیسا اگر اس کا تصور بھی آئے، قلم شاخ مرجان اور پنجۂ خیال رنگین ہو جائے۔ اور بھی خیال کیا کہ طوالت کے سبب ناظرین کے دل اُچٹ جاتے ہیں۔ ایسے ایسے مقاموں پر ورق کے ورق اُلٹ جاتے ہیں:


ریختہ صفحہ 28۷

ہجر اور وصال کا مزا جانتے ہیں، تمام دفتر اسی کے لیے چھانتے ہیں، ہزار کہو کب مانتے ہیں۔

قصہ مختصر جب برات کا روز آیا، چھوٹا بڑا پھولوں نہ سمایا۔ شام کو شہ زادۂ آرام دل حمام میں داخل ہوا، جلوہ افروز برج آتشیں وہ مہ کامل ہوا : میر حسن

ہوا جب کہ داخل وہ حمام میں
عرق آ گیا اُس کے اندام میں
تن نازنیں نم ہوا اُس کا کل
کہ جس طرح شبنم میں ڈوبے ہے گل
خواصیں وہ باندھے ہوئے لنگیاں
مہ و مہر سے طاس لے کر وہاں
لگیں ملنے اُس گل بدن کا بدن

ہوا آب سے ڈھڈھا وہ چمن
نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک
برسنے میں بجلی کی جیسے چمک
ہوا قطرۂ آب یوں چشم بوس
کہے تو پڑے جیسے نرگس پہ اوس
لگے ہونے ظاہر جو اعجاز حسن
ٹپکنے لگا اُس سے انداز حسن
وہ گورا بدن اور وہ بال اُس کے تر
کہے تو کہ ساون کی شام و سحر
زمیں پر تھا اک موجۂ نور خیز
ہوا جب کہ فوارہ ساں آب ریز
نہا دھو کے نکلا وہ گل اس طرح
کہ بدلی سے نکلے ہے مہ جس طرح


ریختہ صفحہ 288

غرض شاہ زادے کو نہلا دھلا
دیا خلعتِ خسروانہ پنہا
جواہر سراسر پنہایا اُسے
جواہر کا دریا بنایا اُسے

جب اس سج دہج کا بسنا بنا، فلک نے ستاروں کو نثار کیا۔

ادھر ملکۂ حسن افروز کو بھی دلہن بنایا، دلوں کا ارمان نکالا۔ ادھر دلہن کی آرائش، اُدھر دولہا کی زیبائش تھی : نسیم لکھنوی

یاں مہندی نے چومے پائے خورشید
واں سبز ہوا نہال اُمید
واں جم گیا منہ پہ رنگ اُمید
یاں غازے سے رخ شفق میں خورشید
یہ یاں جو گلاب سے نہائی
واں تازگی آبرو نے پائی
افشاں ہوئی یاں ستارہ افشاں
واں جیغے سے روشنی دو چنداں
یاں مانگ سے رنگ کہکشاں ماند
واں شملۂ سر سے ہالے میں چاند
یاں زلف نے کھائے پیچ پر پیچ
طرہ کلغی پہ وان تھا سر پیچ
آنچل ہوئے یاں نقاب عارض
سہرا ہوا واں حجاب عارض
زیبا ہوا یاں بدن پہ گہنا
واں جامہ وفا کا اُس نے پہنا


ریختہ صفحہ 289

محرم کے کسے گئے اُدھر بند
ہمت کا بندھا ادھر کمر بند
یاں گل سے بہار بوستاں ہے
آرائش تخت گل وہاں ہے
مہتاب سے چاندنی کا یاں فرش
واں چرخی سے چرخ میں سر عرش
یاں جلوے حنائی اُنگلیوں کے
واں روشنی کے تھے پنج شاخے
بادل جو یہاں گرج رہے تھے
واں دھوم سے باجے بج رہے تھےئ

پہر بجے بارات تیار ہوئی۔ سواری خیبر سنتے ہی توپ خانہ داغا، برابر کئی فیر ہوئےئ۔ پھر تمام فوج میں کمر بندی ہوئی۔ آتش بازی سے زمین آسمان کرۂ نور ہوا۔ رسالوں کے طنبور بجنے سے شور نشور ہوا۔ مہتابیاں جو چھوٹیں چاند کے منہ پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ انار کے پھولوں پر فلک نےستاروں کا گنج نثار کیا۔ ہتھ پھول کا تماشا دیکھ چرخ گرداں چکر میں آیا۔ پلٹنوں میں جا بہ جا باجا بجا۔ ہر ایک نے اپنے تئیں سجا۔

اتنے میں دولہا فیل خوش خرام پر سوار، گرد و پیش شاہ و شہر یار، نام خدا ظل ہما سر پر، بخٹ یاور، اقبال اس کا ایک ادنی فرماں بردار۔ ہم راہ رکاب ظفر انتساب عالم کا ہجوم، خلقت کی دھوم، ہزاروں اُمراء ساتھ۔سب پیادہ، کوئ کی ہاتھی کی جھول پکڑے، رسا تھامے ہوئے۔ وزیر اعظم مورچھل بردار۔

اس سامان و شوکت کے ساتھ دیوان خاص سے دیوان عام میں برآمد ہوا۔ پھر ہزارہا پنچ شاخہ روشن ہو گیا۔ افراط نور


ریختہ صفحہ 290

اور روشنی کے وفور سے جنگل وادیٔ ایمن ہو گیا۔ علم ظفر پیکر ہاتھیوں پر بلند ہوئے۔ نشانوں کے پھریرے کھول دیئے۔ آگے آگے ماہی مراتب اور اشتر سوار، زنبوروں کے سر ہونے سے آسمان و زمین دھواں دار۔ پیچھے رسالوں کے پرے؛ کچھ ہندوستانی، کچھ ترک سوار۔ ڈنکے کی صدا، وجد میں ہر شاہ و گدا، آرائش تخت رشک تختۂ گلستان۔ تخت رواں پر کسبیوں کے رقص سے اتنا رستہ غیرت پرستان۔ خاصہ گھوڑوں کی قطار، پھر پلٹنیں۔ اُن کے بعد ہزار ہا خاص بردار اور نیزہ برداز دو مبر تزک عربی گھوڑوں پر سوار اہتمام کرتے۔ چوب دار سونے کا عصا ہاتھوں میں لیے برابر قدم پڑتا، شانے سے شانہ رگڑتا، جا بہ جا نشان کے جھنڈےگڑتے، فیل سبک رو کے پیچھے دوڑے پڑتے۔ آگے آگے روشن چوکی بجتی۔ اُس کے سروں میں بھاگ اور سورٹھ کی دھن۔ وہ دھیمے سر کہ تمام عاشق سن۔ پیچھے سب کے ہاتھی پر نقارہ کٹتا، زر و جواہر لٹتا۔ آہستہ آہستہ قدم بہ قدم چوک سے گشت کرتے، خاص بازار اور نخاس بازار کو طے کر کے پھر خاص محل میں پہنچے۔ دولہا کو ہاتھی پر سے اُتارا، گھوڑے پر سوار کیا۔ محل کی ڈیوڑھی پر لائے۔ خواصوں نے طشت پُر از آب گھوڑے کے سموں پر ڈالا۔ زر و جواہر نثار کیا، دلوں کا ارمان نکالا۔ جب دولہا محفل میں تشریف لایا دو ہزار رنڈیوں نے برابر کھڑے ہو کر ایک سر میں یہ سہرا گایا : مصنف

اے شہ حسن بندھا جب کہ ترے سر سہرا
پائے بوسی کو جھکا فخر سے بڑھ کر سہرا
باغ فردوس سے رضواں نے جو گل بھیجے ہیں
جب بنا ہے کہیں اے گل ترا گز بھر سہرا


ریختہ صفحہ 291

اس لیے بطن میں رکھے تھے صدف نے گوہر
آبرو پائیں گے اک دن ترا بن کر سہرا
مارے شادی کے شگفتہ ہوئے جاتے ہیں پھول
کیسا بکھرا ہے ترے چہرے پہ کھل کر سہرا
صاف ہیں اے فلک حسن شفق میں تارے
رخ پہ مقنع ہے ترے مقنع کے اندر سہرا
عکس رخسارۂ روشن سے ترے رشک قمر
چاندنی بن کے پڑا فرش کے اوپر سہرا
اے قمر مستحق گوہر تحسین ہوا
ترا لایا ہے سخن آج جو کہہ کر سہرا

نماز کے وقت قاضی صاحب تشریف لائے۔ ناچ رنگ، گانا بجانا سب موقوف ہوا۔ جھنڈی برداروں نے پیچوان اور حقے جلدی جلدی محفل سے اُٹھائے۔ نکاح پڑھایا گیا۔ ہفت اقلیم کے خراج پر مہر بندھا۔

جب عقد سے فراغت ہوئی، قاضی صاحب تشریف لے گئے۔ ناچ شروع ہوا، پھر وہی کیفیت ہوئی، نامرادوں کی مراد بر آئی۔ رنڈیوں نے بہار بھیرویں میں یہ مبارک باد گائی : مصنف

بلبلان موسم گلزار مبارک باشد
عاشقان جلوۂ دال دار مبار باشد
ابر بر دور فلک جلوہ نما شد ساقی
مجمع خانۂ خمار مبارک باشد
تا ابد باد وصال گل و بلبل قائم
دشمنان را ہمہ تن خار مبارک باشد


ریختہ صفحہ 292

جلؤء عیش بماند بہ طرب خانۂ دل
حسن یوسف بہ خریدار مبارک باشد
در جہاں باد طرب ہا ز قران السعدین
بہ سخن ایں چنین اخیار مبارک باشد

پھر دولہا کو محل میں بلایا۔ قمر النسا نے آنچل ڈالا۔ لوگوں نے اور بہت سے ٹوٹکے کیے۔ مسند پر بٹھایا۔ دلہن کو گود میں لائے، دولہا کے برابر بٹھایا۔ ریت رسم ہونے لگی۔ پرستش صنم ہونے لگی۔ پہلے ایک خواص آئی، دلہن کا پائے جامہ لائے اور کہنے لگی "لو میاں! اس ایک ہاتھ سے ازار بند ڈالو، ادھر اُدھر نہ دیکھو بھالو۔" پھر ایک لڑکی بہت خوبصورت آئی، دولہا کا کان زور سے مل گئی۔ چٹکیوں میں دل مسل گئی۔ یہ بے ادبی اور گستاخی آرام دل کو ناگوار خاطر ہوئی۔ رنجش باطنی چہرے سے ظاہر ہوئی۔ قمر النسا نے کہا "حضور! دلہن لے جانا کیا آسان ہے؟ خفا نہ ہو جیے، گھبرائیے نہیں ابھی تو دلوں میں بہت سا ارمان ہے۔" پھر ڈومنیوں نے نبات چنوائی۔ مصری ڈھکا ڈھکا کر کھلائی۔ اب ستر پان کا بیڑا کھلایا۔ وہ گلے میں پھنسا، یہ کھل کھلا کر ہنسا، گھبرا کر تھوکنے لگا۔ ‘نہیں ہاں‘ کہہ کر سبہوں نے غل مچایا۔ جب تو شہ زادہ وہ بد مزاج ہوا، بہت غصے میں آیا۔ لوگو نے قہقہہ مارا، ٹھٹھوں میں اُڑایا۔ سبحان اللہ! یہ وقت قابل دید ہوتا ہے۔ عاشق کم بخت اسی دن کے لیے روتا ہے۔ ان باتوں کے مشتاق عالم میں خاک چھانتے ہیں، جہان کی نعمت کو اس مزے کے آگے خاک جانتے ہیں۔

قصہ مختصر دولہا دلہن کو دوشالہ اڑھایا، پردہ کیا، آرسی مصحف رو بہ رو آیا، یہ دن خدا نے دکھایا۔


ریختہ صفحہ 293

عنایت جامع المتفرقین سے قمر اوور مشتری میں قران السعدین ہوا، دل بے قرار کو چین ہوا۔ آتوجی نے سورۃ اخلاص پڑھ کے دم کی۔ ڈومنیوں نے اور ریت و رسم کی۔ چشم بد دور! آئینہ رو بہ رو، ماشاء اللہ صورت خوب، دل خواہ محبوب دو بدو، کوکب برسر یاری، محویت کا عالم طاری۔ شہ زادے نے ملکہ کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بی بی میں تمہارا غلام ہوں، بندۂ بے دام ہوں۔ ذرا آنکھیں کھولو، کچھ منہ سے بولو۔ یہ سن کر ہم جولیوں نے قہقہہ مارا۔ یہ کلام دولہا کے عجز و نیاز کا سب کے دلوں کو بھایا۔ ملکہ بھی در پردہ مسکراتی تھی، دل ہی دل میں گھلی جاتی تھی۔

غرض یہ سب رسمیں ہو چکیں، دلہن وداع ہونے لگی، زار زار رونے لگی۔ ہر چند دل شاد تھا اور بشاش تھا، مگر اس وقت ڈومنیوں کا پاؤہنی گانا، لوگوں کا رو رو دھوم مچانا، دلہن سے ایک ایک کا ملنا اور رونا، بیگم صاحب کا بلک بلک کر جان کھونا، بڑے بوڑھوں کا گلے لگانا، تسکین خاطر حزین کرنا، رو رو کے بلائیں لینا، ہاتھ پھیلائے دعائیں دینا، بادشاہ کا محل میں آنا، بیٹی کو گلے لگانا، بار بار سورتیں اور دعائیں پڑھ پڑھ کے دم کرنا، یہ سب باتیں دیکھ کر دلہن کیا سب کی چھاتی بھر آئی۔ غم کی گھٹا کشت زار دل پر چھائی۔

سواری دروازے پر تیار تھی، دولہا نے دلہن کو گود میں اُٹھایا۔ سب کے دل بیٹھ گئے، رو رو کے کہرام مچایا۔ پھر سب نے بسم اللہ بسم اللہ کہہ کر دلہن کو دروازے تک پہنچایا۔ دولہا نے دلہن کو پالکی میں سوار کیا، قمر النسا ہم راہ بیٹھیں۔ ماں باپ کو چھوڑا، مگر اپنی شہ زادی کا ساتھ اختیار کیا۔ کہاروں نے پالکی اُٹھائی، باراتیوں کا ہجوم ہوا، "بسم اللہ الرحمان


ریختہ صفحہ 294

الرحیم" کی آواز لگائی، بارات رخصت ہوئی۔ سب کی بری حالت ہوئی۔ اندر محل میں تو ہجوم غم و الم سے ماتم تھا، باہر کچھ عجب عالم تھا۔ آسمان و زمین، در و دیوار، مکان و مکیں، جھاڑ کنول، فرش فروش، طیور و حوش سب پر عجب طرح کی اُداسی تھی۔ نوکر چاکر، شاگرد پیشہ، از رئیس تاسئیس ہزاری، بزاری سب کو بے خودی تھی۔ کس کا فرش کہاں کا اسباب اور سامان سب اسی طرح جہاں پڑا تھا وہ پڑا رہ گیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر سب کو حیرت ہوئی۔ جو جہاں کھڑا تھا کھڑا رہ گیا۔ اس کار گاہ بے ثبات میں کچھ عجب کارخانے ہیں۔ کوئی روتا ہے، کوئی ہنستا ہے۔ کوئی رہا ہوتا ہے، کوئی پھنستا ہے۔ کوئی گھر اُجڑتا ہے، کوئی بستا ہے۔ اس سرائے فانی میں کوئی رو رو کمر کھولتا ہے، کوئی کستا ہے، یعنی ایک پیدا ہوتا ہے، دوسرا مرتا ہے۔ آدمی کبھی شاد ہوتا ہے، کبھی نوحہ اور واویلا کرتا ہے، مگر جب شادی و غم دونوں توام ہیں تو لوگ ناحق مبتلائے اندوہ و غم ہیں :

صبا یہ اُس کا ہے موجد وہ اس کا موجد ہے
بشر ہے غم کے لیے اور غم بشر کے لیے

سامان بارات اگر مکرر لکھوں تو قند مکرر کا مزا آ جاے، مگر اسی سیر میں کہانی ناتمام رہ جائے۔

غرض اُسی تجمل اور شان و شوکت سے بارات دن کو موتی محل میں آئی، نامرادوں نے مراد پائی۔ شہ زادے نے یہ کہہ کر پالکی کا پردہ اُٹھایا : لا اعلم

لائے اُس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

جب دولہا نے دلہن کو گود میں لے کر اُتارا، شہ زادے کو


ریختہ صفحہ 295

عید قربان تھی، ہر ادا پر صدقے جان تھی۔ بکرا ذبح کر کے دلہن کے انگوٹھے میں لہو لگایا۔ ملکہء جہاں گرچہ ظالم تھیں، مگر وہ بھی اُس وقت آرام دل کی ایک ایک ادا پر بسمل ہوئیں۔ عشق کا توڑ تھا، مہاجرت کا نچوڑ تھا، ذرا سا لہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں داخل ہوئیں۔ غرض دلہن محل میں آئی، سب نے مل کر کھیر کھلائی۔ جب یہ سب رسمیں ہو چکیں، شہ زادے نے بے قرار ہو کر دعا مانگی کہ الٰہی جلد اب شام ہو اور دور غم و آلام ہو!

اُدھر ملکہ کا بہ ایں عشق و محبت تقاضائے سن سے عجیب حال تھا کہ دم بہ دم جی نڈھال تھا۔ آنکھیں نیچی کیے شرمائے سر جھکائے بیٹھی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ او کم بخت خانہ خراب! دل تو پہلے لگا بیٹھی، جگر آتش عشق سے جلا بیٹھی، مگر یہ نہ سمجھی کہ جب وصال ہو گا تو اُس وقت کیا حال ہو گا۔ اُس دم تو جو کچھ بنے گی اپنے ہی دم پر بنے گی۔ کسی کا کیا جائے گا، صدمے اور اذیت اپنا ہی دل اُٹھائے گا۔ اس وقت مصیبت میں کون اپنا ساتھ دے گا، پھٹی میں کون ہاتھ دے گا۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے، کیسا حشر برپا ہوتا ہے۔ بہ خدا اگر زبردستی کریں گے تو ہم پہلے سمجھائیں گے، اگر اس پر بھی وہ نہ مانیں گے تو کوئی اور تدبیر نکالیں گے، باتوں میں لگا کے وہ وقت ٹالیں گے۔ گالیاں دیں گے، چٹکیاں لیں گے، ہنسی ہنسی میں رولائیں گے۔

یہاں تو یہ اُدھیڑ بن تھی، شہ زادے کو وصل کی دُھن تھی۔ جب وقت شام ہوا، وصل کا سر انجام ہوا، دولہا دلہن چھپر کھٹ میں ہم آغوش ہوئے، مارے مستی کے بے ہوش ہوئے : نسیم لکھنوی


ریختہ صفحہ 296

پیارا تھا بنی بنے کا جوڑا
خلوت میں دولہا دلہن کو چھوڑا
بے پردگی ہوتی تھی جو ان میں
دروازے نے بند کر لیں آنکھیں

سہاگ کا عطر، پھولوں کی مہک، اُبٹنے اور حنا کے تیل کی لہک، ریت کا جوڑا، سالو کی خوش بو معطر کن مشام جان، دافع خفقان، مقوی روح و روان دالم شباب، فرط شوق سے دل بے تاب، نیند کا خمار، مستیوں کے اُتار۔ ادھر گرم جوشی اُدھر خوف سے ٹھنڈی ٹھنڈی سانس، کبھی حیا سے خاموشی۔ ادھر سے چھیڑ چھاڑ، اُدھر بناوٹ سے بگاڑ۔ دولہا میاں کا موقع پر ہاتھ لگانا، دلہن کا حیا سے بدن چرانا، شرمانا۔ شہ زادے نے کہا : رند

وصل کی شب یوں ہی اے قاضیٔ حاجات رہے!
حشر کے روز تلک صبح نہ ہو، رات رہے!

یہ باتیں جن پر گزر گئی ہیں، وہی لوگ خوب واقف ہیں یا جو عاشق مزاج ہیں اُن پر منعکس ہیں۔ پھر شہ زادے نے ملکہ کا گھونگھٹ اُتھا کر کہا : سید محمد خاں رند

گلے لگائیں، بلائیں لیں، تم کو پیار کریں
جو بات مانو تو منت ہزار بار کریں

ملکہ نے مطلب کی سمجھ کر حیا سے سر جھکا لیا۔ زانوں پر جو شہ زادے کا ہاتھ گیا تھا، آہستہ سے زانو سرکا لیا۔ آرام دل نے ہاتھ جوڑے، بلائیں لیں، پاؤں دبائے، لاکھوں منتیں کیں، مگر وہان کب دعا قبول ہرتی تھی، تمنائے دلی کب حصول ہوتی تھی۔ جب منت سماجت سے کام نہ نکلا تو شہ زادے نے کہا : صبا


ریختہ صفحہ 297

بندہ اب ناصبور ہوتا ہے
عفو کیجے قصور ہوتا ہے

ملکہ نے آہستہ سے جواب دی اکہ معاف تو ایک کوڑی بھی نہیں ہوتی۔ قصور کرو گے تو سزا پاؤ گے۔ زیادہ بڑھ چلو گے منہ کے بل گرو گے، زک اُٹھاؤ گے۔

شہ زادے نے کہا : رند

برا نہ مانیے ہم عرض حال کرتے ہیں
فقیر لوگ سخی سے سوال کرتے ہیں

ملکہ نے جواب دی اکہ صاحب! اگر دشمن محتاج ہیں تو دروازے پر جا کر سوال کرو، یہاں کیا رکھا ہے؟ اس سے کیا فائدہ ہے؟

آرام دال نے کہا واہ سبحان اللہ : صبا

خوب عاشق کا پاس کرتے ہو
ہر گھڑی "دور دور" ہوتا ہے

یہ کہہ کر سوال وصال کیا۔ ملکہ نے بہ خیال دور اندیشی ٹال دیا۔ پھر بہ ہزار ناز و انداز فرمایا : ع

ایسی باتیں زبان سے نہ کہو

آرام دل نے موقع پا کر بہ کمال منت و سماجت عرض کیا اور فرمایا : صبا

اس گھڑی ٹالیے نہ باتوں پر
اس سے کیا اے حضور ہوتا ہے

ملکہ نے کہا "اجی دیکھو، تمہیں خدا کی قسم، یہ کیا کرتے ہو! واہ کسی کی جان جائے یا رہے، مگر تم انہیں باتوں پر مرتے ہو : صفیر


ریختہ صفحہ 298

آج سڑپن تمہیں زیادہ ہے
دیکھو دیکھو یہ کیا ارادہ ہے

آخر کار بہ صد تکرار شہ زادے نے دست گستاخ بڑھایا، بڑی گھاتوں سے دم دلاسے کی باتوں سے اس گل کو داؤں پر چڑھایا : لا اعلم

وصل کی شب کو صنم سے ہمیں موقع یہ ملا
دور اغیار ہوئے عیش کا سامان ہوا
نازک اندامی سے اُس شوخ کا کچھ بس نہ چلا
چاہتا تھا وہ بہت پر نہ ہوا مجھ سے جدا
غنچۂ خاطر ناشاد کھلا آخر کار
بعد مدت کے خزاں دور ہوئی، آئی بہار

جب دل سے دل ملا، غنچۂ یاسمین کھلا، دشمن کم بخت کا پردہ فاش ہوا، آخر پاش پاش ہوا۔ دامن سرو گل عذار ہوا، وہ خنداں اور یہ اشک بار ہوا۔ ملکہ کو غش آ گیا۔ جب ذرا ہوش آیا تو فرمایا :

مثنوی
آپ کا سارا پیار دیکھ لیا
خوب حیران مجھ کو تم نے کیا
آبرو آپ کی مزید ہوئی
خوں بہا میرا، تم کو عید ہوئی
خوب کی مجھ سے واہ وا صاحب
اجی شاباش مرحبا صاحب

نسیم لکھنوی

جب اوڑھی عروس مہ نے چادر
نکلا پردے سے شاہ خاور


ریختہ صفحہ 299

ثابت جو وہ شب کو تھے ستارے
خورشید نکلتے ہی سدھارے
یعنی آرام گہ سے دل خواہ
نکلے دولہا دلہن سحر گاہ

ایک سرخ رو، دوسرا زرد رو، دونوں آنکھیں ملتے اُتھے۔ ایک دوسرے کو حیرت سے تکتا تھا؛ ادھر حیا سے بری حالت تھی، اُدھر اسے سکتا تھا۔

جب شہ زادہ حمام میں داخل ہوا، ہم نشینیں جو رات کو تاکتی، پردوں کو پھاڑ پھاڑ جھانکتی تھیں، ملکہ کے پاس آئیں۔ رات کی باتیں ایما اور اشارے میں زبان پر لائیں۔ قمر النسا نے کہا "بیگم! تمہیں میری جان کی قسم، سچ کہنا رات شہ زادے کو کے جوتیاں لگائیں؟" ملکہ پتے کی سن کر شرم سے اوپر سر نہ اُتھاتی تھی، بحر خجالت میں ڈوبی جاتی تھی۔ وہاں شہ زادہ نہا دھو کے پاک صاف ہو کے دربار میں گیا، یہاں دلہن کو خواصوں نے نہلایا، پوشاک عروسی اور زیور پُر تکلف سے آراستہ کیا۔ چوتھی کا جوڑا پہنایا۔ دربار برخاست ہوا، دولہا محل میں آیا، دلہن کے ساتھ خاصہ نوش فرمایا۔

جب شام ہو چکی، چوتھی کی تیاری ہوئی۔ صدھا من ترکاری ہر قسم کی اور منوں میواہ سب طرھ کا طلائی خوان اور جڑاؤ کشتیوں میں بھرا ہوا۔ خوانوں پر گنگا جمنی تیلیوں کے کھانچے، کشتیوں پر کاشانی مخمل کے کارچوبی خوان پوش پڑے۔ بڑے تجمل اور دھوم سے چوتھی شہ زادے کی طرف سے محل میں آئی۔ پھر دولہا طلب ہوا، چھپنے والیاں چھپ گئیں، دولہا دلہن چوتھی کھیلنے لگے۔ پہلے کھیر کھائی، پھر گل بازی ہوئی، قدرت حق کی کارسازی ہوئی۔ دولہا نے دلہن گل بدن کی طرف پھول پھینکے۔ لوگوں نے


ریختہ صفحہ 300

دلہن کے ہاتھ وہی پھول بہ آہستگی دولہا کی گود میں رکھ دیے :

قطعہ
گلبن اُس طرف گل افشاں ہو اور اس طرف کو تو
پھول چن چن کے مجھے زور سے مارے تک تک
اور کبھی میں بھی کوئی پھول تفنن کے لیے
پھینکوں دانستہ خود اتنا کہ نہ پہنچے تجھ تک

پھر آہستہ سے دولہا نے پھولوں کی چھڑی دلہن کو ماری۔ قمر النسا نے دلہن کے ہاتھ سے دولہا کو زور زور سے چھڑیاں لگائیں۔

اب کہاں تک شرح کروں، طول دوں، خلاصہ یہ کہ سب رسمیں عمل میں آئیں۔ جب دولہا دلہن چوتھی کھیل چکے، دلہن کو لوگوں نے چھپر کھٹ میں پہنچایا، رنڈیوں نے حشر مچایا۔ دولہا پر چاروں طرف سے چھڑیوں کی مار، اخروٹ اور باداموں کی بوچھاڑ پڑنے لگی۔ کسی کم بخت نے سیب اس زور سے کھینچ کر مارا کہ دولہا کے لگتے ہی پاش پاش ہو گیا۔ کسی بے درد نے بیگن پھینکا، کسی خام پارا نے چھوارا کھینچ کر مارا، کسی نے پٹتے وات باجی کو پکارا۔ شہ زادے نے بھی کمر کسی، جس سجیلی، نکیلی، مست، سرشار، صورت دار، رنڈی پر تاک کر انگور کا خوشہ مارا، وہ آنکھ کے گوشے میں لگا، آہ کر کے بیٹھ گئی، سب نشہ ہرن ہوا (1)۔ انار جب پھینکا چہرے پر جس کے لگا کھل گیا۔ دانوں کے ساتھ دو ایک دانت بھی جھڑ گئے، پانچ چار اُکھڑ گئے۔ ایسی چوتھی کھیلی وہ مار دھاڑ کی کہ تین پانچ بھول گئے، سب ششدر رہ گئے، خوشی کی بات تھی
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) یہاں سے کچھ عبارت کثافت کی وجہ سے حذف کر دی گئی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ 301

اس لیے سب سہہ گئے۔

جب چوتھی کھیل چکے، سب ہنگامہ موقوف ہوا۔ شہ زادہ خواب گاہ میں تشریف لایا۔ پھر وہی عیش کا سامان تمام ہوا، وصل کا سر انجام ہوا۔ اُس رات نے عجب لفط دکھائے۔ دونوں طرف گل کھلے ہوئے۔ حیا و شرم کا نام نہیں۔ کسی کو کسی طرح کا رنج و آلام نہیں۔ دلوں کو سو سو طرح کے مزے آئے۔ ہر روز اسی طرح با عیش و نشاط ساغر تمنا مئۓ وصال سے معمور ہوتا، دل بادۂ سرور سے مسرور ہوتا۔ شہ زادے کو دن عید، رات شب برات تھی، وصل جاناں ایام گزشتہ کی مکافات تھی۔ صبح و شام بادۂ نشاط سے سرشار، عیش و نشاط مدام۔ نہ ہجر سے کچھ مطلب نہ فراق سے کچھ کام تھا، نہ بیم فلک کینہ ور نہ خوف گردش ایام تھا۔

*************************************************************************


ریختہ صفحہ 302

عزم آرام دل سوے وطن؛ رخصت ہونا شاہ سے؛ بیان جلوس سواری اور بہ خدم و حشم روانہ ہونا

چل اے توسن خامہ فرخندہ گام
کہ سامان شادی ہوا سب تمام
بر آیا مرے دل کا سب مدعا
جو کچھ چاہتا تھا وہ حاصل ہوا
مگر اب ذرا حال رخصت لکھوں
بہار خزاں، سیر غربت لکھوں

سیاحان دشت پیما، و رہ نوردان آبلہ پا احوال رخصت شہ زادۂ آرام دل مہر سیما یوں لکھتے ہیں کہ ایک شب شہ زادے نے چھپر کھٹ میں لیٹے لیٹے ملکہ سے کچھ اشتیاق ملازمت والدین کا اپنے ظاہر کیا۔ اُس رضا جو کو تو خوشی خاطر اپنے محبوب کی بہ دل منظور تھی، فی الفور جواب دیا : نسیم لکھنوی

چلیے گا تو ساتھ ہیں بلا عذر
رہیے گا تو بندگی میں کیا عذر

شہ زادے کی تو یہی آرزو تھی، صبح دم آتے ہی شاہ سے اپنا عرض حال کیا : نسیم لکھنوی

دعویٰ نہیں کچھ دیے ہوئے پر
قائم رہیے کیے ہوئے پر


ریختہ صفحہ 303

لازم جو ہو اُس میں کد نہ کیجے

سائل کا سوال رد نہ کیجے

بادشاہ یہ سنتے ہی گھبرائے، فرمانے لگے کہ ملک، حکومت، فوج، سلطنت سب کچھ موجود ہے، پھر رخصت چہ معنی دارد؟ بسم اللہ! حکم رانی کرو۔ میں ایک اولد سے سوا دوسرا فرزند نہیں رکھتا، جو بعد میرے وارث تاج و تخت ہو، پھر کیا سبب جو ایسا کلمہ زبان پر لاتے ہو؟ ناحق بیٹھے بٹھائے مصائبات سفر اُٹھاتے ہو؟

شہ زادے نے دست بستہ عرض کی کہ قبلۂ عالم! منصفی شرط ہے، حضور کی سلطنت سے کم ترین کو کچھ کام نہیں، مگر حضور اپنے اوپر ہی قیاس فرمائیں کہ آپ کو جب مفارقت اپنے فرزند کی ایل لحظہ گوارا نہیں تو واے بر حال میرے والدین کے کہ ایک مدت دراز سے مجھ نالائق کی تمنائے دیدار میں مضطر اور بے تاب ہوں گےئ۔ لوگ بے چارے میری تلاش اور جستجو میں خراب ہوں گے۔

بادشاہ نے فرمایا "اچھا ایک برس اور توقف کرو، پھر رخصت کروں گا۔" شہ زادے نے عرض کی "حضرت! اب تو ایک ایک ساعت ایک سال کے برابر ہے۔ میرے حال پر رحم فرمائیے، رخصت کیجیے اگر میری خوشی ہے۔"

غرض بادشاہ نے ہر چند سمجھایا، بہلایا، راہوں کا نشیب و فراز سنایا، مگر وہ کب سنتا تھا : نسیم لکھنوی

دو دل جو ہوں چاہنے پہ راضی

یہ جان لے کیا کرے گا قاضی

ناچار بادشاہ کو سوائے رخصت اور کچھ بن نہ ایا۔ وزیر اعظم


ریختہ صفحہ 304

سے واسطے تیاری سامان سفر کے ارشاد فرمایا؛ تاریخ ٹھہری، دن مقرر ہوا۔ جبراً قہراً مہینہ بھر اور رکھا۔ جب مہینہ گزر گیا بہ موجب حکم بارک اللہ یوم السبت و الخمیس جمعرات کے دن آدھی رات رہے سے کوچ کی تیاری ہوئی۔ اس شب لوگوں کو نیند نہ آئی۔ پہر رات رہے سے زن و مرد، لڑکے بوڑھے، جوانوں کا ہجوم ہوا۔ ہر شخص سواری کا جلوس دیکھنے چلا : میر حسن

یہ خالق کی تھی قدرت کاملہ
تماسے کو نکلی زن حاملہ

پانچ کوس تک دو راستہ آدمیوں کی بڑی کثرت تھی، کوٹھوں اور برآمدوں پر بھی یہی کیفیت تھی۔

شہ زادہ رخصت ہونے لگا۔ بادشا نے رو کر آرام دل کو گلے لگایا، پیشانی پر بوسہ دیا، بازو پکڑ کے سورۂ فاتحہ پڑھی اور یہ کہہ کر رخصت فرمایا : مولانا نظامی

سپر دم بہ تو مایۂ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را

جب شہ زادہ سوار ہوا، توپ خانہ سر ہوا۔ باداہ ثریا جاہ اسد برج میں تشریف لے گئے اور وہاں سے سواری کا جلوس دیکھنے لگے۔ پہلے دو لاکھ سوار زرق برق، دریائے آہن میں غرق، نوجوان گھوڑے وہ کہ جس پر ابلق لیل و نہار نثار۔ پاؤں میں موزے، کتان کے پائے جامے، حریر کی قبائیں، اُس پر زرہ، سر پر خود، ہاتھوں میں دستانے، پشت پر گینڈے کی ڈھال بے مثال، کمر میں بوندی کی کٹاری آب دار، ڈاب میں تلوار، قبور میں تپنچے کی جوڑی، بندوق چقماق کندھے پر، برچھا ہاتھ میں۔ ہر جوان کی تیکھی چتون، نوک جھوک بات بات میں، طرق کے طرق، پرے کے پرے، گھوڑے کڑکاتے، لوگوں کو بھڑکاتے، کنوتیاں ملائے، باگیں اُٹھائے دریائے فوج میں سے موج کی طرح نکل گئے۔


ریختہ صفحہ 305

پھر آگے دتیل ہاتھی پر علم ظفر پیکر، پیچھے مکنے پر چھتر، بعد اس کے ماہی مراتب سورج مکھی، شیر دہاں۔

اب سواری کا سامان شروع ہوا، ہر شخص دیکھنے کو رجوع ہوا۔ ہزار بارہ سو سانڈنی جن کی شان میں فرماتا ہے رب العزت "افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت" بغدادی ، دکھنی، مارواڑی، دو دو سو کوس کے دھاوے کی۔ مقیش کی باگیں، طلائی مہاریں، گلے میں سونے گھنگرو، صندل کی کاٹھی، کم خواب کی جھولیں، ان پر پندرہ پندرہ برس کے جوان سوار۔ بناتی پائے جامے، سرخ کرتے، چنپئی پیٹی، پشت پر سپر، ترکش میں تیر، پرتلے میں تلوار، دوش پر کمان۔ کم سن و خوب صورت نوجوان ہاتھ میں کوڑا، مہاریں کھینچے، مہرے کاٹھی سے ملائے، طاؤس کا جوین دکھائے اور دو ہزار پچھیرہ ناکند، ناپ کا پورا، جن کی تعریف خالق کونین نے فرمائی ہے، "والعادیات ضبحاً" کہہ کر قسم کھائی ہے۔ اس میں دو سو دریائی باقی سب عراقی، ترکی، ارابی، ایرانی، کابلی، کچھی، خراسنی، ختائی، دکھنی۔ کاٹھیاوار کامدانی کی گردنیاں، گرد موتیوں کی جھالر، مقیش کی چوٹیاں، مخملی کارچوبی گدے لیس کے، فراخی قائزہ کھنچا؛ کلیل کرتے، باجے کی آواز سے ڈرتے۔ اور سات سو خاصہ کوتل، باناتی چار جامے، کارچوبی زین پوش، اُس پر کوتل کش، سونے کی رکابیں، کم خواب کے تنگ پر زرد دشالوں کے زیر بند، طلائی کلغی، جواہر نگار پوزی دمچی، گردنوں میں یاقوت کے اکے، سونے کے توڑے، گلے میں ہیکل، پاؤں میں جھانجھنیں، پٹھوں پر موتیوں کی پاکھر، رنگین دم، دو دو اُنگل پر نالے پڑے ہوے۔ بڑی تیاری سے دم سم، سائیسوں کے ہاتھوں پر، اُڑ جانے کی گھاتوں پر، معشوقوں کی طرح پھڑکتے، توپ کی آواز سے بھڑکتے۔ سائیسوں کے ہاتھوں میں سونے کے موٹے


ریختہ صفحہ 306

موٹے کڑے، کانوں میں سونے کی مرکیاں، سر پر گل نار پگڑی، گلے میں اطلس کی مرزئی، پاؤں میں بنارسی دھوتی، پگڑی پر داڑھی باندھنے کے رومال کی گرہ لگی ہوئی، ایک ایک لیپٹ۔ خرد نو کا جوتا پاؤں میں جیسے لکھنؤ کے جوہری یا متھرا کے سیٹھ۔ مقیش کی باگ ڈوریں کندھوں پر، گنگا جمنی ڈنڈیوں کی چوڑیاں ہاتھوں میں، پھر پلٹنیں اکبری، حسینی، اختری، نادری۔ اُ ن کے پیچھے پچھیرا پلٹن، اُس پر عجب جوین۔ بارہ بارہ برس کے جوان، رشک غلمان، لکھنؤ کے بوٹ پاؤں میں، چوڑی دار پاے جامے، سرخ اطلس کے انگرکھے، سیلی کمر سے بندھی، گل نار مندیل کی بتیاں، کرن کے طرے، چھوٹے چھوٹے نیمچے اور گپتیاں، پیچک کے جوڑیاں کمر میں، ہلکے ہلکے رفل کندھوں پر، ساز و سینگڑے سے درست، انتہا کے چالاک و چست۔ باجا بجاتے، برابر قدم اُٹھاتے، زنبور کی صدا، قرنا کی ادا، دف کی آواز، گھنگور بانسلی کی دھن، جھانجھ کا شور۔

خلقت یہی کیفیت دیکھ رہی تھی کہ نقیب اور چوب داروں کی آواز کانوں میں آئی۔ انہوں آواز لگائی کہ مجرا شہ زادۂ عالم پناہ سلامت! پھر ایک غول نمودار ہوا، سواری قریب پہنچی، ہر شخص بے قرار ہوا۔ دیکھا دس بارہ ہزار خاص بردار، خاصیاں کندھوں پر، اُن کے غلاف کاشانی مخمل کے، گرد پوش صاف صاف ململ کے، پاے جامے اطلس کے، چپکنیں، زربفت کی، شالے پٹکے، سر پر باندھنو کا چیرہ بیش قیمت مندیل نما۔ پیچھے آرام دل عماری دار ہاتھی پر سوار، خوصی میں محمود وفادار۔ ہاتھی فلک شکوہ ، پر تمکین، باعظمت و شان، سب ہاتھیوں سے دونا، لاکھ دو لاکھ میں ایک، رنگا رنگایا، وضع دار، خرطوم سے تابہ مستک رشک گلزار۔ دہنے بائیں دو دو برچھے والے ہاتھوں میں برچھے


ریختہ صفحہ 307

سنبھالے، دانتوں پر سونے کے جڑاؤ مہالے، مستک پر فولادی سپر، اُس پر کلغی، گلے میں طلائی ہیکل، کانوں میں بالیاں، اُن میں موتیوں کے مالے، ناظرین کے جی بے چین کرنے والے، سلطانی بانات کی جھول، تخمیناً دس گز کا عرض، پندرہ گز کا طول، کارچوبی بہت سنگین کام، سلمے ستارے سے مغرق، تمام سرخ ریشم کا رسا، جواہر نگار عماری جواہرات میں جڑی ہوئی ساری۔ فوج دار خاں خوش رو جوان بہ جائے فیل بان۔ دہنے ہاتھ میں جواہر نگار گجیاگ، بائیں ہاتھ میں پیچ وان مستک پر رکھے ہوئے، آسن دبائے مہرہ اُٹھائے۔ ہاتھی کے خرطوم میں چنور دم بہ دم ناز و ادا سے شہ زادے پر ہلاتا، معشوقانہ جوبن دکھاتا۔

آرام دل کے برابر ذرا ایک قدم پیچھے ہٹ کر ملکۂ حسن افروز پردہ دار عماری میں فیل خوش خرام پر سوار؛ مصاحبت میں قمر النسا پری پیکر، حور کردار۔ اُس کے پیچھے پندرہ ہزار ہاتھی ہودج اور عماری کا خاص شہ زادہ کی سواری کا۔ ان کے بعد کئی سو رتوں میں مامائیں، اصیلیں، مگلانیاں، خواصیں، پیش خدمتیں سوار، ملکہ کے ہاتھی پر خواجہ سرا فیل بان۔ ہاتھی کی وہی شوکت وہی شان۔ عماری تیاری میں اُسی عماری کے برابر، بلکہ اس سے بہتر۔ اندر گنگا جمنی چلمنیں، باہر کارچوبی پردے، مخملی فرش، اس پر مسند تکیہ لگا، دیوار گیریوں پر چھوٹے چھوٹے دو الماسی کنول روشن، عماری میں موتی محل کا جوبن۔

ملکہ والدین کی مفارقت، عزیز و اقربا کی مہاجرت میں فرط آلام سے خاموش سرنگوں۔ دل میں ہزاروں وسواس، مگر راضی بہ رضائے ایزد بے چوں۔ قمر النسا دل بہلانے کی باتوں میں، سیر و تماشے کے حرف و حکایاتوں میں مصرور۔ ان دونوں ہاتھیوں کے گرد ہزاروں غلام سیم بر، زریں کمر، بے انتہا خواجہ سرا الماس، فیروز، بسنت۔


ریختہ صفحہ 308

یہ ان کے افسروں کا پتا۔ جھرمٹ مارے ہوئے، (کذا) لال سبز تو غین ہاتھوں میں لیے ہوئے، لالٹین بلوری روشن کیے ہوئے۔ سواری جو اسد برج کے نیچے پہنچی شہ زادے نے جلدی سے پیچوان الگ کیا اور ہاتھی پر کھڑے ہو کر شاہ کو آخری مجرا کیا۔ بادشاہ کی آنکھوں سے آنسو گر پڑے، منہ پھیر لیا۔ وزراء امراء زار زار رونے لگے، رومال آنسوؤں سے بھگونے لگے۔ اس وقت سقوں کی گلاب پاشی، صبا کی ضاں خراشی، خوش بو کا لہکنا، دشت کا مہکنا، صبح کا جھٹ پٹا وقت، نسیم سحر کا فر فر چلنا، شمعوں اور مشعلوں کا جھلملا جھلما کے جلنا، سورج کی کرن کا پھوٹنا، شہ زادے اور شہ زادی سے خلقت کا چھوٹنا، تمام عالم کی گریہ و زاری، ہر صغیر و کبیر پر بے قراری کا عالم طاری۔ یہ کیفیت جو نظر آئی، مہر منور چرخ چہارم پر مضطر ہو کر بہ نظر حیرت تماشا دیکھنے نکلا۔ فلک ستم شعار کہ اس سیر کو بہ چشم انجم نگراں تھا، اُس سے بھی نہ دیکھا گیا، گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں۔ چاند کی رنگت فق ہو گئی، منہ پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ آخر مہتاب نے اسی غم میں گھلا گھلا کے آپ کو ہلاک کیا۔ سحر نے اپنا گریبان چاک کیا۔ سبزے کے دل میں غم کی برچھی لگی، بے اختیار شبنم کے آنسو ٹپک پڑے، درخت حیرت سے کف افسوس ملتے تھے کھڑے۔ پہاڑ میں شبر نے اللہ ہو کا نعرہ مارا، مرغ سحر اللہ اکبر پکارا۔ ہر جانور خدا کی یاد کرنے لگا، ہو الباقی کا دم بھرنے لگا۔ شہ زادے کی فرقت میں در و دیوار، چرند و پرند، انسان حیوان سب کو رقت، دشت کو وحشت، آسمان کو حیرت، صحرا، جنگل، کوہ سنسان، بیابان ہو کا مکان، عجب عالم نظر آیا؛ سنگ دلوں کا بھی دل بھر آیا۔ روتے روتے لوگوں کی ہچکی بندھ گئی، کلیجے تھرا گئے،


ریختہ صفحہ 309

ہزاروں کو غش آ گئے۔ سیل اشک آنکھوں سے جاری تھا، بے خودی کا عالم طاری تھا۔ آخری دیدار تھا، لوگ بار بار حسرت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے، زار زار روتے تھے اور یہ کہتے تھے : رند

مژدہ اے گردوں بر آیا تیرے دل کا مدعا
شہر سے آباد آتا ہے نظر ویرانہ آج

سواری جب دور نکل گئی لوگ ناچار بادلِ داغ دار و جگر فگار اپنے اپنے گھر آئے، مگر کہاں کی بھوک کہاں کی پیاس، سب کا جی بے چین، چہرہ اُداس، شہر اُجاڑ، مکان پہاڑ، ویران بازار، گل و گل زار بدتر از خار نظر آنے لگا، سب کا دم گھبرانے لگا۔ بادشاہ خلقت کی بے قراری، زن و مرد کی آہ و زاری دیکھتے تھے اور بھی صدمہ دل پر ہوتا تھا۔

قصہ کوتاہ جب سواری دور پہنچی اور خزانہ، توپ خانہ، میگزین اُردوئے معلی، خیمہ ڈیرہ جا چکا بادشاہ با چشم اشک بار محل میں تشریف لائے۔ وہاں دیکھا تو سبھوں کی روتے روتے بری حالت، بیگم صاحب کو غشی کی نوبت، گھبر کر جہ بہلانے کے لیے باغ حیات بخش میں تشریف لائے۔ وہاں عجب رنگ نظر آئے۔ روش پڑتی بگڑی ہوئی، سبزہ پامال، تمام باغ میں پت جھڑ، درخوں کا برا حال، سرو میں بل، شمشاد میں خم، لالہ داغ بر دل، نرگس چشم پرنم، گلاب کے درخت میں پھول کیسا، کہیں پتے نام کو نہیں، سوکھا ہوا کانٹا، موتیا بے آب، چنبیلی کی مٹی خراب، بنفشہ پژمردہ، ریحان بے جان، سوسن خاموش، سنبل پریشان، نہر خشک، بے آب، مچھلیاں زبان نکالے ہوئے بے تاب۔ انگور مثل دل عاشقاں مرجھائے، زعفران کے تختے کی طرف دیکھو تو بے اختیار رونا آئے۔ نہ وہ باغ، نہ وہ بہار، نہ وہ گل، نہ


ریختہ صفحہ 310

وہ خار، نہ بلبل کے چہچہے، نہ وہ درخت سرسبز لہلہے، نہ قمری کی کو کو، نہ کوئل کی تو تو، نہ مور کا شور، نہ ساون کی گھٹا گھنگھور، نہ نسیم، نہ صبا، نہ کہیں صیاد کا نام، نہ گل چیں کا پتا، نہ سبزہ و صحرا، نہ کیفیت گل زار، نہ موسم خزاں، نہ فصل بہار۔ جب آندھی کا جھونکا آتا درختوں کے ہوش بگڑ جاتے، ہر جھونکے کے ساتھ دو چار جڑ پیڑ سے اُکھڑ جاتے۔ بادِ صر صر کے زور سے ٹہنے پھٹے ہوئے، پتوں سے نہر لب ریز، کنویں پٹے ہوئے۔ بہ جائے بلبل زاغ زیب گلشن، قمری کی جگہ بوم شوم کا مسکن۔ موتی محل ویران، نہ فرش، نہ وہ تکلف، نہ وہ زیبائش، نہ وہ سامان۔ جا بہ جا جانوروں کے گھونسلے، آشیانے، کوؤں کی بیٹ، خس و خاشاک کے ڈھیر، کہیں کنکر، کہیں پتھر، کہیں اینٹ۔

یہ سیر دیکھ کر حضرت ظل سبحانی عالم سکوت میں ششدر و حیران تھے "ہو الغفور الودود ذی العرش المجید فعال لما یرید" کہتے تھے اور گریاں تھے۔ سبحان اللہ جہاں گزران سرائے فانی کچھ عجب مقام ہے، جسے دیکھو با درد و آلام ہے۔ آیند و روند کا تماشا ہے، ہر ایک سے رشتہ ناتا ہے، مگر ثبات بجز ذات پروردگار نہیں۔ مصرع

یکے ہمی رعس و دیگرے ہمی آید

کسی کو اس دھر ناپائدار میں قرار نہیں۔ جو لوگ فنا فی اللہ ہیں ان کے تو کیا کہنے، نہیں تو وہاں سے شوق دیدار میں آتے ہیں، آب سرد، نان گرم، سایہ دیوار، شاہد گل عذار، باغ و بہار جہان کی نعمتوں کے مزے اُٹھاتے ہیں، جب وطن یاد آتا ہے : شعر

حب وطن از ملک سلیماں خوش تر
خار وطن از سنبل و ریحان خوش تر


ریختہ صفحہ 311

کہتے ہوئے اعمال نیک یا بد ساتھ لے کر چپکے چلے جاتے ہیں، رشتۂ الفت ہر ایک سے توڑ جاتے ہیں، سب کو روتا چھوڑ جاتے ہیں : سید محد خاں رند

کیے ہیں خوب سے نظارے باغ ہستی کے
جہاں کو بس مرے پروردگار دیکھ چکے
ہوئے سفید و سیاہ جہاں سے واقف
بہت سی گردش لیل و نہار دیکھ چکے

القصہ آرام دل بایں جاہ و حشم فارس سے سوے وطن روانہ ہوا، یہ قصہ زباں زد انام ہوا اور ہر ملک و دیار میں ان باتوں کا فسانہ ہوا۔ ہر روز کوچ در کوچ، مقام در مقام یونہی منزل طے کرتے چلے۔

********************************************************************
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ 312

تھوڑا حال اس رنجور، دور از سرور عاشق صادق، ھدف ناوک غم، مجروح سنان الم، بے یار غم گسار، یعنی صنوبر عاشق زار کا۔ پھر شہ زادۂ سیاہ فام کا آنا، فتنۂ خوابیدہ جگانا، صنوبر کا گھبرانا، پھر آرام دل کو نامہ لکھ کر طلب فرمانا

پلا ساقیا ساغر لالہ فام
کوئی دم تو دل ہو مرا شاد کام
لکھی اب تلک عیش کی واردات
مگر ختم پائی نہ وہ غم کی بات
خوشی کا رہا ہر طرح نغمہ سنج
نہ لکھا مگر تو نے انجام رنج
نظر دل فگاروں پہ اصلا نہ کی
جلا دل مرا، تو نے پروا نہ کی
وہ ساغر پلا پر ز رنج و الم
کہ اک غم زدی کا لکھوں میں بھی غم
وہ فقرے جو دل میں کھٹکنے لگیں
جسے سن کے عاشق بلکنے لگیں
لگے پنجۂ غم کا دل پر خراش
ہر اک بات پر ہووے دل پاش پاش
ہر اک فقرے میں ہوے اک نوک جھوک
ہر اک قافیہ جیسے برچھی کی نوک


ریختہ صفحہ 313

دکھاؤں غم آباد کی کیفیت
لکھو ایک ناشاد کی کیفیت

غم کشان الم دوست، بیماران استخوان و پوست، نوحہ گران برشتہ دل، روے راحت نادیدہ و تفتہ جگران نیم بسمل، شب ہا نا آرمیدہ حال خراب اس جگر کباب، خستہ و بیتاب، صورت سیماب، زاویہ نشین کلبۂ رنج و محن، ہم دوش شام غریبی، روے نادیدہ صبح وطن، خونیں جگر، چراغ سحر، یعنی صنوبر بے بال و پر کا یوں رقم کرتے ہیں کہ فراق شہ زادۂ بے وفا، نا آشنا، بانیٔ صؤد جور و جفا، یعنی شہ زادۂ آرام دل مہر شیم اور یورش فوج غ، و الم سے کچھ عجیب حال ہو گیا کہ گل سا بدن سوکھا ہوا کانٹا، آنکھوں میں حلقے، سنبل زلف پریشان، صورت آئینہ حیراں۔ سرو قد بار غم سے سرنگوں، بالکل پوست و استخواں، رگیں نمودار، الگ الگ تار تار، غیر مجنوں۔ رنگ محل میں اسی پلنگ پر جہاں آرام دل سے ملاقات ہوئی تھی، منہ لپیٹے ناکام با درد و آلام لیٹی ہوئی۔ سینہ ناوک غم سے فگار، سینے میں دل بے قرار، لب خشک، چہرہ زعفرانی، ہر دم آہ سرد، دل میں سوز نہانی، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے، کلیجے میں درد، آنکھیں نیم باز، آنسو رواں، عشق کی طرف سے ناز ادھر سے نیاز، لب پر جان پرارمان، اور بہ صد حسرت و یاس بہ مطلع ورد زبان : رند

زیست کے دن اپنے پورے کر چلے
تکتے تکتے راہ تیری مر چلے

ہر دم فراق کا زور، نالوں کا شور، جوش جنوں میں دل خون، چشم گریاں، صدمۂ فرقت، وصل کا ارمان، نہ چپ رہنے کا مقام، نہ کچھ کہنے کا ہنگام۔ اس حال میں جو دل بے قرار ستاتا تو بے اختیار یہ شعر لب پر آتا : جرأت


ریختہ صفحہ 314

اس کو جانا تھا تو کیوں موت نہ آئی اللہ
ایسی رسوائی کا جینا ہمیں درکار نہ تھا

الٰہی یہ پہاڑ سی رات کیوں کر کٹے گی، ہائے کیا کروں یہ بھاری سل چھاتی سے کب ہٹے گی : ذوق

مجھ کو ہر شب ہجر کی ہونے لگی جوں روز حشر

مجھ سے یہ کس دن کے بدلے آسماں لینے لگا

خواصیں، مغلانیاں، سہیلیاں سب کہتیں کہ بیگم خدا کو یاد کرو، امید وصل سے دل شاد کرو۔ رنج و الم کی بھی انتہا ہوتی ہے۔ ذرا گل و گل زار کی سیر سے جی بہلاؤ کہ دل کو تقویت ہو، جسم میں توانائی آئے، تو ان کو جواب دیتی : جرأت

آرام ہو چکا مرے جسم نزار کو
رکھے خدا جہاں میں دل بے قرار کو

صبا
شور جس کا ہے وہ ہے عشق جنوں زا دل میں
بڑھ گیا ہے نمکیں حسن کا سودا دل میں
کون سی شب نہیں رہتا ہے خیال گیسو
یہ وہ طائر ہے کہ لیتا ہے بسیرا دل میں

جلوۂ عشق بنا گوش صنم دیکھو تو
اتر آیا ہے عجب عرش کا تارا دل میں
کس طرح آ کے خوشی گرد پھٹکنے پائے

فوج اندوہ کا پھرتا ہے طلایا دل میں
اے صبا جس کے لیے ہوں میں پریشاں خاطر
چاہتا ہے مجھے وہ گیسوؤں والا دل میں

شومیٔ قسمت اور گردش گردون دوں پرست تو دیکھو کہ بعد مدت کشش محبت سے اگر آئے بھی تو باہر ہی باہر رہے، پھر چلے گئے،


ریختہ صفحہ 315

اور ہمیں صورت نہ دکھائی۔ ہمارے دم پر بنی، جان پر کیا کیا آفت نہ آئی۔ وہ کہتیں "بیگم! گھبراؤ نہیں، ان شاء اللہ تعالٰی پھر آئیں گے۔ خدا نے چاہا تو تھوڑے دنوں میں یہ غم و الم دور ہو جائیں گے۔" تو کہتی : صبا

لاکھ قربان کوئی جانج کرے
بہ خدا وہ جو بت کسی کا ہو

صاحبو ایک دفعہ آنے کا وعدہ تھا، وہ انہوں نے وفا کیا، اب بھلا کیوں آنے لگے؟ ایک بے چاری مجھ غریب مصیبت زدہ کے واسطے مصائبات سفر کیوں اٹھانے لگے؟ ذوق

لبوں پر جان عبث ہے منتظر وہ شوخ کب آیا
اگر چہلم کو بھی آیا تو جانیں گے کہ اب آیا

دل رُبا جب شہ زادے کی بے اعتنائی اور بے پروائی کا خیال کرتی تو کہتی کہ ہے ہے لوگو! خدا کی قسم سچ ہے، ایسے بے دید جورو کے مرید دنیا میں کم ہوں گے! صنوبر جواب دیتی : جرأت

آہ کیوں کر نہ جدا ہم سے وہ پیار اہوتا
وہ نہیں ہم میں کہ وہ جس سے ہمار ہوتا

یہاں تو شب و روز سوز عشق میں جلنا، شمع ساں پکھلنا، رات دن آہ و زاری، ترقیوں پر بے قراری تھی، وہاں فلک ستم شعار درپۓ آزار تھا، اپنی گھات میں لیل و نہار تھا۔ یعنی شہ زادۂ سیاہ فام جو فرار ہو گیا تھا، جس کا باپ فی النار ہو گیا تھا، چند روز میں دو لاکھ سوار ساتھ لے کر چڑھ دوڑا اور ارادہ کیا کہ یکایک شہر میں جا پڑے، جو مقابل آئے، اس سے لڑ ے، پھر محل میں گھس کر بادشاہ زادی بانیٔ فساد کو گرفتار کیجیے اور


ریختہ صفحہ 316

بادشاہ کو بھی سزا دیجیے۔

یہاں تو ایک دفعہ دھوکا کھا چکے تھے، بڑی زک اُٹھا چکے تھے؛ وزیر باتدبیر پہلے سے ہوشیار تھا، ہر طرف سے خبردار تھا۔ جا بہ جا گڑھوں، پہاڑوں اور ٹیکروں پر مورچے لگائے تھے، سلامت کوچے کھدوائے تھے، قلعۂ فنک شکوہ کے برجوں پر توپیں چڑھائی تھیں، کمند کی حفاظت کے لیے فصیل کے کنگرؤں پر فولادی میخیں جڑوائی تھیں۔ فوج نہایت آراستہ، ہر طرح کی حرب و ضرب سے پیراستہ تھی، شب کو تین چار کوس تک روند گشت کرتی تھی۔ طلایا پھرتا تھا۔ جو اکیلا دو کیلا آدمی رات پچھلے پہرے روند والوں کو مل جاتا، بے اجازت کے جانے نہ پاتا۔

غرض کمال بند و بست تھا، کسی کو کسی طرح کھٹکا نہ تھا، ہر ایک مست تھا۔ وہ ملعون جو باگیں اتھائے ہوئے آیا، آگے نہ بڑھنے پایا۔ شہر سے سات کوس پر مورچہ تھا، فوج نے وہیں روکا، گولہ انداز نے گولہ مار کے وہیں ٹوکا۔

بادشاہ کو خبر ہوئی، تمام شہر میں مشتہر ہوئی۔ وزیر پچاس ہزار پیدل اور ساٹھ ہزار سوار لے کر لپکا۔ آتے ہی میدان میں فوج کو جمایا۔ دس پلٹیں یمین اور دس یسار، آگے توپ خانہ پشت پر سوار۔ پانچ چار پلٹنیں سلامت کوچے میں لٹا دیں، دس بارہ پیچے مدد کے واسطے رکھیں۔ پھر تو وہ جم کے لڑائی ہوئی کہ گاو زمین کے پاؤں اکھڑ گئے، آسمان کے کنگرے جھڑ گئے، زمین ہل گئی، اذا زلزلت الارض زلزالہا کا نقشہ ہو گیا۔ دھوئیں کے بادل بن کے روئی کی طرح اڑنے لگے، حشر برپا ہو گیا۔

یہاں تو یہ جنگ عظیم ہونے لگی، وہاں اس آفت رسیدۂ روزگار، یعنی صنوبر بے قرار کےکان میں جو دفعۃً توپ کی آواز آئی


ریختہ صفحہ 317

وہیں دل دھڑکا کہ شاید آرام دل کے آنے کی سلامی دغی۔ طبل جنگ کی صدا پر دھوکا ہوا کہ یہ وردی بجی۔ جب لوگوں کو سراسیمہ دیکھا اور شہ زادۂ سیاہ فام کے آنے کا حال سنا چہرے پر مردنی چھا گئی، جان سینے میں تلملا گئی۔ بہ قول شخصے ‘موے پر سو درے‘ سکتا ہو گیا، چھت سے آنکھیں لگ گئیں، دیر تک ٹکٹکی بندھی رہی، پھر غش آ گیا، آنکھیں بند کر لیں۔ لوگ ایک تو پریشان ہو رہے تھے، اور بھی بے حواس ہو گئے۔ جلدی جلدی گلاب چھڑکا، لخلخہ سونگھایا۔ بارے خدا خدا کر کے بڑی دیر میں ہوش آیا۔ آہستہ آہستہ بہ زبان فصیح فرمایا یہ ہاے اے فلک! یہ کیا کیا؟ بیٹھے بٹھائے پر فتنہ اٹھایا؟ یہ کیسا حشر برپا کیا؟ ارے ظالم ہم تو بے موت مر رہے ہیں، زندگی کے دن بھر رہے ہیں : میر وزیر علی صبا

کس دن شب غم جان کو آفت نہیں ہوتی
کس شام سے یاں صبح قیامت نہیں ہوتی

اب یہ اور آفت اٹھائی؟ اچھا جو تیری رضا۔ یہ کہہ کر خاموش ہو گئی، روتے روتےپھر بے ہوش ہو گئی۔

اب جاے غور ہے کہ ادھر تو فراق کا زور، ادھر اس قوم ساق کا شور، ہجر کے غم، فلک کے جور و ستم، عزت کا خیال، آبرو کا دھیان، جن باتوں سے تنفر، جن کے نام سے ننگ و عار، سب بر روے کار۔ اس پر مزہ یہ کہ فراق جاناں۔ جو ایسی مصیبتوں میں پھنسا ہے، وہی کچھ خوب جانتا ہے۔ صنوبر کو جو غش سے افاقہ ہوا اور انہیں باتوں کا تصور بندھا تو ہنس کر کہا : لا اعلم

غم صیاد و خوف باغ باں ہے
دو عملے میں ہمارا آشیاں ہے

پھر رو کر دعا مانگی کہ الٰہی میں سخت مصیبت میں گرفتار ہوں،


ریختہ صفحہ 318

پابد آلام، بے مونس و بے یار ہوں۔ آج کل ہم پر فلک ستم شعار کی بڑی عنایت ہے کہ ایک موا بے تقصیر درپۓ آزار و اذیت ہے۔ شکر ہے شکایت نہیں۔ اب نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، سخت ناچارہوں، کروں تو کیا کروں۔ تو مجیب الدعوات، تو قاضی الحاجات، سواے تیرے اور کس سے کہوں؟ صدقہ اپنے عز و جلال کا مجھ ناکام کو اس سیاہ فام موذی پلید سے بچا، اور بہ تصدق اپنے حبیب کے مجھ مہجور دور از سرور کو میرے محبوب سے ملا! یہ کہہ کر دل جو بھر آیا، خوب روئی۔ پھر قلم دان طلب فرمایا اور باچشم خوں بار شہ زادۂ فراموش کار، بادۂ انبساط کے سرشار کو نامہ لکھا اور کبوتر کے گلے میں باندھ کر ملک فارس کی طرف روانہ کیا، یہاں دل میں طائر غم نے آشیانہ کیا۔
 

مومن فرحین

لائبریرین
148
درخواست اپنی شادی کی کرتے ؛ مگر اپنا جی ھے ، اس پر حکومت نہیں چلتی ؛ یہ عاشقی ہے یہاں کسی کی دال نہیں گلتی۔ اب میں تمھارے رو کے کب رکتا هوں ، کہو میں کب سنتا هوں ۔ مجھے اپنے معشوق کو یہاں بلوانا منظور نہیں ، معاف کیجیے آپ کو اس قدر تکلیف کرنا کچھ ضرور نہیں ۔"
سیم تن پری نے دیکھا کہ شه زاده بگڑ بیٹھا، اب کسی طرح نہ مانے گا ؛ منع کروں گی تو خوب چھنے گی ، زیادہ بولوں گی تو دشمنوں کی جان پر آبنے گی : مصنف
مثنوی
lings
سے ربط
کے ز بس اس کو عشق کا آزار
تپ فرقت نے کر دیا ھے نزار
اب نه تم کچھ زبان سے کہنا
دکھ جو هوں هجر کے وہ سب سهنا
عقل زائل ہے هو گیا ہے خبط
آج کل ہے اسے جنون سے ربط
جیب و دامن کہیں نہ چاک کرے
نہ کہیں آپ کو ہلاک کرے
فدا تو ہو ہی رہی تھی ، عاشق تھی ، علاوہ اس کے اپنے قول میں بھی صادق تھی ، کہنے لگی اچها ہم آپ کو اس شرط سے جانے دیتے هیں ! ایک بات کی قسم کھاؤ تو یہاں سے قدم اٹھانے دیتے هیں کہ جب آپ اپنے ملک کی طرف مع الخير و العافیت مراجعت
فرمائیں تو پھر هم سے اسی باغ میں ملاقات کریں اور اوروں کی طرح مجھے بھی اپنی سلک زوجیت میں لائیں ۔ آرام دل نے کہا ہاں یہ بات مجھے بہ دل و جان منظور ہے؛ اس امر میں آپ کا اتما مبالغه محض فضول ہے ۔ میں قسم کھاتا هوں کہ جب میرا


149
مقصد حاصل ہوا تو ان شاء الله تعالی تم بھی فائز المرام ہوگی ۔ اگر میرے جی کی آرزو بر آئے گی تو خدا نے چاہا یہ بات بھی بہ خوبی انجام هوگی ۔،
سیم تن نے کہا دیکھو تم قسم کھاتے ہو ، خدا کو شاهد درمیان لاتے ہو ، ذرا اپنے قول پر ثابت قدم رہنا ورنه وعدہ خلافی کی سزا خوب پاؤ گئے، میرے هاتھ سے بچ کر کہاں جاؤ گے،
اچھا : سيد محل خان رند
بس اب آپ تشریف لے جائیے
گزرنی ہے جو کچھ گزر جائے گی
طبیعت کو هوگا قلق چند روز
ٹھرتے ٹھرتے ٹھر جائے گی
مگر محمود کو میرے پاس چھوڑ جائیے کہ یہی شخص ملکہ حسن افروز پر عاشق ہونے کا باعث ہے اور اس وقت بھی آپ کو ترغیب دے کر لے چلا ہے ۔ اس کی یہی سزا هے کہ یہاں باغ کے ایک کونے میں بیٹها رہا کرے ، اپنی جورو کے غم فراق میں
جلا کرے، تا کہ اس کو بھی معلوم ہو کہ فراق محبوب کسے کہتے ہیں اور عاشق اپنے معشوقوں کے دکھ اس طرح سہتے هیں ، یوں بے قرار رهتے هیں : قطعه
معلوم تو ہو ہجر کے صدموں کی حقیقت
گزری هے بہت عیش سے اب یاد کریں گے
تم جاؤ بس اب هم سے نہ اس میں کرو اصرار
چھوڑا ہے تمھیں ، ان کو نہ آزاد کریں گے
محمود یہ غضب ناک گفتگو پری کی سن کر لزر گیا ؛ جی کڑا کر کے کہنے لگا کہ حضور اگر فدوی کو پہلے سے آپ کے تعشق کا حال اپنے شه زادے کے ساتھ معلوم هوتا تو اپنے آقا کو آپ ہی کی ملاقات کی ترغیب دیتا اس خدمت کے صلے میں

150
حضور سے انعام ليتا ، مگر افسوس ! میں بڑا بدنصیب هوں که اس مضمون سے نہ خبر دار هوا؛ آج اپنے آقا کا ساتھ کر کے حضور کے نزدیک دشمن ٹھهرا ، تعزیر کا سزا وار هوا - سم تن نے کہا کہ جو کچھ ہو سو هو، مگر تجھے اب نہ جانے دوں گی؛ تو جتنا جی چاہے غل مچا ، لیکن میں ایک نہ مانوں گی۔ محمود نے کہا "حضور زہے نصیب اور خوشا طالع میرے کہ آپ مجھ کو اسی التجا اور تمنا سے اپنے پاس رکھیں ، اور زہے تقدير میری کہ حضور مجھے اس باغ میں رہنے کی اجازت دیں . اس محبت پر بھی اگر میں درخواست جانے کی کروں تو بڑا بد نصیب هوں ، معاف کیجیے ، بہ قول شخصے : لا اعلم
جب کہ هم تیرے آستاں سے گئے
ہم نے جانا کہ دو جہاں سے گئے
ملکہ سیم تن محمود کی ان حرکتوں اور تمسخر کی باتوں سے دل میں مارے هنسی کے لوٹی جاتی تھی، مگر هنسی کو ضبط کر کے کہنے لگی کہ" لو صاحبو اور سنو، چونچلے کی خوبی دیکھو ، انهیں شیریں باتوں نے کوچہ عشق میں آپ کا بھی فرہاد نام هوا ۔
منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت، حضرت بھی ہماری محبت کا دم بھرتے هیں : شوق
تا کہ مشهور ہوں هزاروں میں
هم بھی هيں پانچویں سواروں میں

ارے لوگو !ع
مینڈکی کو بھی لو زکام هوا
یہاں کوئی ہے کہ اس نامعقول کو اس بے ادبی کی سزا دے ؟ یہ سنتے ہی دس بیس دیو محمود کی طرف جھپٹے . پری نے

151
اشارے سے منع اور نظر کرم سے دیکھ کر دفع کیا ۔ آرام دل نے کہا "صاحب ہم سنا کرتے تھے کہ لیلیٰ کا کتا بھی پیارا هوتا ہے ، عاشق کو اسی کے دیکھ لینے کا سہارا ھوتا ھے ، مگر یہاں تو نئی رسم دیکھتے هیں کہ اس غربت میں ایک ہمارا آدمی ہے ، اس کے بھی سب دشمن ہیں ؛ یہاں تک کہ جب آپ کا ارشاد پاتے ہیں تو دیو بھی لپک لپک کر آتے ہیں ۔ سیم تن نے
کہا ’’صاحب! بہ خدا یہ تمهاری خاطر ہے کہ میں نے ان کو چھوڑ دیا ، ورنہ یہ اس بے حیائی اور گستاخی کا خوب مزا چکھتا ، پھر کبھی ایسا نہ هکتا۔ یہ کہہ کر انگشتری حضرت سلیمان عليه السلام کی آرام دل کی انگلی میں پہنا دی اور کہنے لگی " کہ لو اب تم پر
کسی طرح کا جادو اثر نہ کرے گا۔ پھر مفيد د يو کہ سردار سب دیوؤں کا رو بہ رو دست بستہ کھڑا تھا ، اس کے سر میں سے پانچ چار بال توڑ کر شه زادے کو دیے اور کہا کہ جس وقت تم کو کوئی کار مشکل یا کوئی امر ایسا در پیش هو کہ جس کے انجام کے
لیے پس و پیش ہو، اس وقت تم ایک بال کو اس میں سے دونوں سرے پکڑ کر کھینچنا، یہ ديو تمھارے پاس حاضر ہوگا؛ جو حکم دوگئے بجا لائے گا : اگر کچھ عذر کرے گا ، خوب سزا پائے گا ۔
القصه آرام دل کو یہ سب مراتب سمجھا کر پری نے دیو سے فرمایا ’’جہاں سے اس باغ کو لایا ھے ، پھر وہاں پہنچا دے اوریہ غزل پڑھی : مصنف
اے مرے دل ربا ! خدا حافظ
چھوڑ کر مجھ کو جا، خدا حافظ
تیرا ضامن ہے ضامن ثامن
سایہء مصطفیٰ ، خدا حافظ
پیٹھ جیسے دکھاتا هے مجھ کو
يول هي منہ بھی دکھا خدا حافظ
مجھ کو بے تاب چھوڑے جاتا هے
اے مرے مہ لقا ! خدا حافظ
تیری فرقت میں دیکھیے کیا هو
آئے کیا کیا بلا، خدا حافظ


152

تو نے مجھ سے تو بے وفائی کی
خیر اے بے وفا! خدا حافظ
جس جگہ جائے تو معین الله
گھر میں، بر میں، سدا خدا حافظ
اے سخن اب گلے لگا کے مجھے
تو بھی کہہ لے ذرا خدا حافظ
شه زادے نے بھی کہا کہ خدا حافظ اور دیوؤں نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے آواز دی کہ سارا مکان هل گيا ؛ پھر وہی تاریکی اور طوفان، هوا کا زور شور، وھی سامان نظر آیا ، مگر جہاں پری اور آرام دل اور محمود تھے وہاں یہ سب آثار نہ موجود تھے۔ تھوڑی دیر میں وہ باغ اور مکان جہاں پہلے نصب تھا قائم کیا گیا اور شور و غل موقوف هوا - سيم تن پری نے شه زادے سے کہا " حضور اب بسم الله کیجیے، دير نہ لگائیے، جس طرف سے آپ آئے
تھے وہی راه موجود هے ، پھر بلانے والا وہ معبود ھے : صفير
جیسے جاتا ھے تمجھے یار خدا پھر لائے
تجھ کو الله بت ماه لقا پھر لائے!،،
پھر پری نے شہ زادے کو گلے لگا کر رخصت کیا اور محمود سے کہا کہ تم بھی جاؤ ، مگر شاه زادے کا ساتھ نہ چھوڑنا ورنہ خوب مزا چکھو گے! ذرا اس کو خوب سمجھ لینا ۔ محمود نے دونوں ہاتھوں سے سلام کر کے عرض کی کہ حضور کیا مقدور جو کبھی اپنے آقا سے جدا ہوں ، اگر اس میں ذرا خلاف هو تو
بے شک لائق سزا ہوں ۔ یہ کہہ کر گھوڑے حاضر لایا ۔ آرام دل سوار ہوا ، ہم راه وہی محمود وفادار هوا . سيم تن پري تا در باغ پہچانے آئي - جوں ہی شہ زادے نے پیٹھ موڑی ، پری آنکھوں میں آنسو بھر لائی ، مگر کیا کرے مجبور تھی ، خاطر محبوب بہر نوع منظور تھی ۔
غرض آرام دل پری سے رخصت ہو کر ملک فارس کو روانہ


153


هوا ، یہاں محفل کا تمام برہم کارخانہ ہوا - سيم تن اسی وقت با چشم گریاں و دل بریاں تخت پر سوار ہو کر کوہ قاف میں داخل هوئی ، شب و روز غم کھا کھا کے بسر کرنے لگی ، شہ زادے کے عشق میں مثل هلال کاھیده وه بدر کامل هوئی ۔ تمام باغ سنسان هو گیا، مسکن زاغ و بوم وه مكان هو گیا ۔ یا تو وصال طالب و مطلوب سے هر جن و انس پھولوں نہیں سما تا تھا ، نہال تھا ، پھر غور کر کے جو دیکھا تو گویا خواب و خیال تھا ۔ دنیا جائے دید ہے ؛ کبھی وصال یار کبھی فراق دل دار ، دونوں توام؛ مگر شب وصال گویا عاشقوں کی صبح عید ہے ۔ فراق کے نام سے صدمہ هوتا ہے، دل پر الم ہیں . هجر یار اگرچہ بہت جاں گزا ہے، مگر سچ پوچھیے تو کچھ اسی میں مزا ھے : لا اعلم
جو مزا انتظار میں دیکھا
نہ کبهی وصل یار میں دیکھا
وزیر
صد چاک ہو وہ دل کہ جو درد آشنا نہ ہو
پھوٹے وہ آنکھ جس سے کہ آنسو گرا نہ ہو


154

داستان بے قراری ، صنوبر شه زادی ، اس شاه بد باطن کی ستم گاری ، پھر چند سوال صنوبر سوختہ جگر کے شہ زاده سیاہ فام سے اور لاجواب هونا اس کلام سے اور آشکارا هونا حال آرام دل کا
اٹھا ساقیا ساغر مے کشاں
کہ پھر چھیڑوں گزری ہوئی داستاں
پلا دے پھر اک ایک کو جام شراب
ک بے خود ہوں سب اور نہ دیں کچھ جواب
وه کیسی تھی شادی ، کہاں کا وصال
نہ حاصل هوا کچھ بہ جز انفعال
مصنف خاک سار اور خامہ جگر فگار حال صنوبر عاشق زار یوں رقم کرتا ہے کہ جب صنوبر پری پیکر شہ زادہ آرام دل سے رخصت ہو کر دل ربا کے ساتھ محل میں تشریف لائی ، وہ آنا کیا تھا گویا اس کے سر پر بلا آئی ۔ آتے منہ لپیٹ کر چھپر کھٹ میں لیٹ
رہی، مگر چپکے چپکے روتی رہی، آنسوؤں سے منہ دھوتی رھی۔ دلربا کہ محرم راز تھی ، خیر خواه جاں باز تھی ، چھپر کھٹ کے پردے گرا کے پاس بیٹھ گئی اور پنکھا جھلنے لگی ۔ جو کوئی پوچھتی کہ دلربا دلھن کہاں ہے؟ تو اسے کہتی کہ ارے چپ رہو، بیگم صاحب تمام رات جاگی ہیں، جی اچھا نہیں ھے، رات بھر راحت نہیں ملی ھے،


155

ابھی آنکھ لگی ہے ، دو گھڑی سو رہنے دو ۔ آنکھ لگنے کا نام جب صنوبر کے گوش زد هوتا بے اختیار کلیجے میں درد هوتا ۔ اپنے حال کو خیال کر کے چیخیں مار مار کے رونے کو جی چاهتا ، مگر کیا کرے افشاے راز کے سبب ضبط کرتی تھی ، بے چین ہوتی تھی تو در پرده آہوں سے ربط کرتی تھی : فرد کافی
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ هو
یہ داغ وه ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ هو؟
یہاں تو اس کو اتنی يہ بات غنیمت تھی کہ سونے کا بہانہ تھا ، وہاں لوگوں کو ریت رسم کی پڑی تھی اور وهی کارخانہ تها ، یعنی ثانی مجلس محل میں آراسته هوئی ، سمدھنیں آ کر مجلس میں بیٹھیں ، ڈومنیاں گانے لگیں ۔ اتنے میں غل هوا کہ دولها محل میں آتا ہے - یہ سن کے جتنی چھپنے والیاں تھیں چاروں طرف کوٹھوں پر چڑھ گئیں - کچھ پردے میں چھپ چھپ کے دیکھنے لگیں ۔ جو ذرا بے حیا تھیں وہ اڑ گئیں ۔ دیکھتی کیا هیں کہ ایک لڑکا حبشی کی صورت ، سنیچر کی مورت ، سر گنجا ، هاتھ ٹنڈا ، پاؤں سے لنگڑا ، سر میں بڑے بڑے گڑھے عمیق ، انسان تھا یا بچہ شیطان ، غرض نطفہ بے تحقیق : شعر

شتر لب ، غول منظر ، خو ک دندان ، خرس پیشانی
تصدق می شود هر دم بر او غول بیابانی

نسیم لکھنوی
دانت اس کے تھے گور کن قضا کے
دو نتھنے ره عدم کے ناکے
زنبور سياه خال اس کے
برگد کی چٹائیں بال اس کے


156

دو چار خواصوں کے بیچ میں کہ خاص اس کی طرف کی تھیں جريب کے سہارے سے زمین پر پاؤں سے اتر کرتا ہوا ، اس لنگڑے پن پر لمبے لمبے قدم دھرتا هوا آکر مسند پر اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا ۔ اس ماجراے حیرت افزا اور سانحہ هوش ربا سے سارے محل میں ایک تہلکہ عظيم واقع ہوا ۔ کسی نے زانو پیٹ کر کہا کہ ہے ہے لوگو! یہ ہماری شہ زادی کا دولھا ہے ؟ کوئی بولی نہیں ری، دیوانہ معلوم هوتا ہے ، راستہ بھولا ہے۔ کوئی رو کر کہنے لگی کہ ہائے یہی کم بخت ہماری بیگم کے نصیب میں لکھا تھا ۔ کسی نے کہا کہ اس میں کس کا اجاره ہے، ان کی تقدیر میں یونہی ہونا تھا ۔ ایک نے کہا بہن! هم تو سنتے تھے کہ حضرت جہاں پناه برات کے روز دولھا کے ہاں تشریف لے گئے اور دولھا کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے مگر ماشاء الله وه تو برعکس اس کے ظہور میں آیا ۔ سب لوگوں کو کیا خیال تھا اور
کیا ہو گیا ۔ ادھر تو یہ غوغا تھا ، اُد هر یہ سانحہ برپا تھا کہ بیگم صاحبہ نے جو داماد کی شکل دیکھی پہلے تو خوف سے ڈریں ، پھر سمدھن سے پوچھنے لگیں کہ کیوں بی بی یہی آپ کے صاحب زادے ہیں ؛ جن کے ساتھ میری لڑکی کی شادی ہوئی ہے ، وه یہی شه زادے هیں ؟ پھر کہا کہ لوگو! بتاؤ میری بچی کہاں ہے ؟ دل ربا نے کہا کہ حضور يہاں چھپر کھٹ میں آرام کرتی ہیں ۔ بادشاہ بیگم نے کہا ’’حضور مجھے ہرگز اعتبار نہیں، تم لڑکی کو کمرے میں لے جاؤ، دالان میں قفل لگاؤ - دل ربا شہ زادی کو
دوسرے کمرے میں لے گئی ؛ دو چار خواصوں کو حفاظت کے واسطے اپنے پاس رکھا اور مکان کو مقفل کر دیا ۔
صنوبر جب تک با ہر رہی جان دینے پر مستعد برابر رهی - اپنے جی میں سمجھی هوئی تھی کہ اگر ذرا بھی اس مردود کی
 

محمد عمر

لائبریرین
259

کمر ہمت چست کی۔ کاسۂ سر ہاتھ میں لیا۔ ضعف اور ناتوانی کو عصائے پیری سمجھا۔ حضرت عشق کو ہادی اور رہنما کیا، محبوب سے لو لگائی، مجذوب ہو کر دل شاد ہوا۔ راہ عشق میں سالک ہوا، غم دنیا سے آزاد ہوا، اور دربار کی خاک بدن میں ملی، آتش عشق کی جلی ہوئی ہڈیوں کو ہاتھ میں پیس کر چہرۂ انور پر بھبھوت رمائی۔ عشق صنم میں جوگی ہوئے، کسی جوگے نہ رہے۔ اشکوں کی سیلی گلے میں ڈالی، اپنے غزال رعنا کی یاد میں مرگ چھالے کا پشتارہ باندہا، زلف رسا کی بٹا کمر تک لٹکائی۔ سوزش درونی کی دھونی رمائی اور نماز کے وقت جنگل کی راہ لی۔

فقرات چند در صنعت عاطلہ

حاصل کار آرام دل سوگ وار گرم رو راہ الم اور صرصر وار آوارۂ عالم ہوا: اسد اللہ

ہوس طرۂ طرار او را

حرص وصل دل دار او را

اس کا طالع کم رسا محروم رہا، مدعائے وصال معدوم رہا۔ گو کہ آس دم آرام دل کا سہو محو کا عالم اور دگر حال ہوا، مگر سہل ہوا اُس کو وہ کہ ہر کس کو محال ہوا۔ دل والہ اُس گم کردۂ حواس کو صحرا کوہ اور کوہ صحرا محسوس ہوا۔ سر وصال دل دار مرہم درد دل رہا۔ دل وداد محل کو اس مُل کا سرور حاصل رہا۔ آرام دل مرحلہ گرد مسلک الم رہ رو راہ عدم کو ہم طرح رمح ہم دم گل کا سروکار ہوا کہ روح کو صدمہ ہوا دل درد آلود کراھا، مگر سلسلۂ اہل کو محکم کہا اور

260

رو کر کہا کلام :

لو عصا آہ کا دل اور سہارا کر لو

صدمۂ و درد و الم گو ہو گوارا کر لو

ہر گاہ ملک ملک کردار کو احوال آرام دل صحرا گرد کا معلوم ہوا، روح کو صدمہ کمال ہوا، دل کو دوسرا ملال ہوا۔ حاسد کا مدعا حاصل ہوا۔ سرور صد ھا کوس دور ملول ہر دل ہوا۔ مہر و ماہ گم ہو کر عالم سودا آمود ہوا۔ در ہر گھر کا مسدود ہوا۔ ہر اک گم صم، ہر دم ملول اور اداس رہا۔ دل کو سو سو طرح کا وسواس رہا۔ کل مردم کو آکل ما کول حرام ہوا۔ وہ الم ہوا کہ وہ ماہ محرم الحرام ہوا۔ گل کدۂ سرور کا الم گل کھلا، اس دوحۂ ارم کو الم کا گل ملا۔ ہر اک کا دو طور کا احوال ہوا، کمال صدمہ ہوا، ملال ہوا۔ اک ادھر سر ہلا ہلا رو رہا۔ دوسرا ادھر آہ آہ کر کر دم کھو رہا۔ محل آرام آلام گاہ ہوا۔ ملک ملک اس کا حال معلوم ہوا۔ ہر اک آگاہ ہوا۔ کلک عطارد کردار اس دس سطر کو لکھ کر سر گھس گھس کر ہلاک ہوا۔ مداد سراسر سواد کو امساک ہوا۔ سردار کو درکار والا کا حکم ہوا کہ ملکہ اور آرام دل کو ہر طرح لاؤ، و اِلّا دم صمصام کا سم کھاؤ۔ وہ آگاہ ہو کر آمادہ ہوا، سوار ہوا اور اک سو رہ رو وہ ملک کا دلدادہ ہوا۔

261

باب 16
پھر مذکور اس رنجور، دور از سرور یعنی ملکہ حسن افروز سراپا گداز، ہمہ تن سوز، رشک حور کا؛ دیو کرناس کا لے جانا، کوہ البرز پر پہنچانا اور اس گرفتار پنجۂ الم کا بے قرار ہونا اور تلملانا


اُٹھا ساقیا جام مینائے زرد

پلا دے وہ مے جس میں ہوں دور درد

پلا دے اگر ایسی مے ہو کہیں

وگرنہ کچھ اس کی بھی خواہش نہیں

محبت میں خون جگر پیتے ہیں

گزک لخت دل کھا کے ہم جیتے ہیں

قلم بریدہ سر، و کلک چاک جگر احوال ملکۂ حسن افروز، سراپا گداز، ہمہ تن سوز کا یوں تحریر کرتا ہے کہ ملکہ جگر افکار کو وہ دیو ستم گارشہ زادے کے پہلو جدا کر کے، اور اُس گل بدن کو پھول کی طرح اُٹھا کر لے چلا، ملکہ نے ایسی صورت منحوس تو کبھی دیکھی نہ تھی، بہ یک نگاہ بے ہوش ہو گئی، سروپا کی مطلق خبر نہ رہی، شراب غفلت سے مدہوش ہو گئی: نسیم لکھنوی

حیرت چھائی تو کھو گئی وہ

غفلت آئی تو سو گئی وہ

262

کرناس نسناس نے ملکہ کے آس، سراپا یاس، بے چین اور اداس کو کوہ البرز پر لے جا کر دالان میں لٹا دیا اور آپ پاس بیٹھ کر ملکہ سے باتیں کرنے لگا۔ وہ گدھا بے ہوشی اور ہوشیاری کیا جانے، بہ قول شخصے: ؏

چہ داند بوزنہ لذات ادرک

ملکہ نے جو کچھ جواب نہ دیا تو ہاتھ پکڑ کے اٹھایا۔ جب آنکھ کھولی تو پھر لٹا دیا اور سوچا کہ بہ تازہ گرفتار ہے، اپنے ماں باپ کی مفارقت سے بے قرار ہے، ابھی نہ ستانا چاہیے۔ ملکہ کو تنہا چھوڑ آپ حسب معمول سیر و شکار کو روانہ ہوا۔

یہاں بلبل زار کا گل سے چھوٹ کر گلستان سراسر خار، صد آزار میں شجر الم پر آشیانہ ہوا۔ ملکہ کو جو ہوش آیا آپ کو کنج فرار میں پایا۔ سوزش درونی سے کلیجا جلنے لگا، گھبراہٹ سے دم نکلنے لگا۔ ابر غم کشت زار عیش و نشاط گھر آیا۔ دل نے برق کی تڑپ دکھائی، رعد کی طرح شور مچایا۔ خوف کے مارے دل کھول کے رو نہ سکی۔ نالہ ہائے دل نالاں گلے میں پھنس گئے۔ گرفتار پنجۂ دیو کرناس ہوئی، دل بر کے وصال سے یاس ہوئی۔ دیواروں سے سر ٹکرایا، ماہی بے آب کی طرح تڑپی ، بے قرار ہوئی۔ عندلیب روح قفس تن میں پھڑکنے لگی، خوف سے چھاتی دھڑکنے لگی۔ اپنے گل بدن، رشک مسیحا سے جدا ہو کر بیمار ہوئی، وقف صد آزار ہوئی۔ اپنی بے کسی اور بربادی پر زار زار رونے لگی۔ زندگی سے ہاتھ اٹھایا۔ تڑپ تڑپ کے جان کھونے لگی۔ کبھی گھبرا کر اٹھی، ٹھوکر جو لگی منہ کی کھائی۔ کلیجے پر ہاتھ رکھ کر بے قرار ہوئی، ایسے اشعار زبان پر لائی :

263

حضرت اسد اللہ خان غالب

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہیں یہ اگر شرار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

آرام دل راحت جان کو یاد کیا۔ اس کی ویرانی اور سرگردانی کا تصور کر کے سر پر خاک ڈالی، آپ کو برباد کیا۔ کبھی تنہائی اور بے کسی سے ہراساں ہوئی، کبھی گھبرائی، کبھی اشک بار ہو کر فراق یار میں یہ غزل ارشاد فرمائی : نواب محمد خان رند

یاں نالہ سرد و آہ میں اپنے اثر نہیں

او بے خبر تجھے بھی ہماری خبر نہیں

حیرت کا ہے مقام تعجب کی جائے ہے

اس دہر میں کسی کو کسی کی خبر نہیں

ایام التیام پذیری کیے جا چکے

ناسور اب تو ہو گیا داغ جگر نہیں

پہنچاوے اس کو کون خبر میرے حال کی

ہم دم نہیں، شفیق نہیں، نامہ بر نہیں

دانستہ عارفانہ تجاہل ہے یار کو

کیوں کر کہوں کہ حال کی میرے خبر نہیں

264

کبھی درد جدائی سے بے قرار ہوتی۔ یہ کہتی اور زار زار روتی :

رند

کہاں سے لائیں اب اُس کو جو ہم کنار کریں

تسلی کیا تری او جان بے قرار کریں

الہٰی کیا کروں، کہاں آن پڑی، اس موذی کے ہاتھ سے کیوں کر نجات پاؤں گی؟ خدایا کس مصیبت میں جان پڑی۔ ملک چھوٹا، ماں باپ سے جدائی، فراق محبوب، وصال نا مرغوب سے دم نکلا جاتا ہے۔ دیو کی صورت دیکھ کے خوف آتا ہے۔ ملعون کے پھندے میں گرفتار ہیں۔ موت بھی نہیں آتی، جان سے بیزار ہیں۔ کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ پروردگار یہ کیا کبریائی ہوئی:

میر حسن

فلک نے تو اتنا ہنسایا نہ تھا

کہ جس کے عوض یوں رلانے لگا

آہ مجھ سا بھی بد نصیب کوئی بشر نہ ہو گا اور جیسا میرا دل ہے ویسا ہی کسی کا جگر نہ ہو گا : حضرت غالب

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے !

غرض اسی طرح روتے روتے جان سے بیزار ہوئی؛ تپ غم نے آ دبایا، رشک مسیحا کے الم میں بیمار ہوئی۔ اس عرصے میں وہ سفاک نا پا ک آیا، ملکہ نے جو دیکھا پھر غش آیا۔ وہ بد ذات، ابلیسی صفات ملکہ کے قریب آیا اور زبردستی ہوش میں لایا۔ جو ہوشیار ہوئی حضرت عزرائیل کو بالین پر موجود پایا، راضی بہ رضا پروردگار ہوئی۔ دل میں سوچی کہ ہماری تقدیر میں یہی لکھا تھا، یہی ہونا تھا، مدام رنج و الم میں رہنا تھا، تمام عمر

265

رونا تھا۔ خیر شکر ہے، لیکن اب وہ تدبیر کرو، اس موذی کے ہاتھ سے جان بچے اور آبرو بھی رہے۔ یہ سوچ سمجھ کر دیو سے کہنے لگی کہ تم ہمیں تنہا چھوڑ صبح سے کہاں گئے تھے، اور جو ہمیں کوئی اور لے جاتا تو تم کیا کرتے؟ آخر یہی ہوتا کہ میرے فراق اور اس کے آتش رشک میں جل مرتے۔

دیو مرغی کا یہ میٹھی میٹھی باتیں سن کر شہد کی چھری سے مذبوح ہوا، بسمل ہوا، خنجر عشق کا گھائل ہوا۔ بولا ”کسی کا کیا مقدور! جو تم کو نظر بھر دیکھے تو اسی دم قلم اپنا سر دیکھے۔ اس بات سے تو اطمینان رکھو، طبیعت اپنی نہ پریشان رکھو، مگر بغیر وصال اب حال غیر ہے۔ شراب عشق سے مخمور ہیں، شیشۂ دل چور تمہارے بغیر ہے۔“ ملکہ حسن افروز نے کہا۔ ”پانچ چار روز سے ہم بیمار ہیں، اس سبب سے ناچار ہیں۔ ایک مہینہ توقف کرو۔ ایسے کیوں گھبراتے ہو، تمہیں کیا خیال ہے۔ ہم تو تمہارے پاس موجود ہیں، پھر وصال کیا امر محال ہے، اور ہم تو مدت سے تمہارے عاشق زار تھے، جدائی سے بے قرار تھے۔“

دیو عشق کا نام سن کر اور بھی شاد ہوا۔ کہنے لگا کہ اچھا ہم تا صحت آپ سے نہ بولیں گے۔ یہ سنا اور الگ مکان میں جا درگور ہوا۔ یہاں پھر وہی گریہ و زاری، تڑپ اور بے قراری، پہر وہی نالوں کا شور ہوا۔ تمام رات اسی طرح بسر ہوئی، خدا خدا کر کے سحر ہوئی۔ دیو تو صبح اٹھتے ہی روانہ ہوا، غم و الم نے ملکہ کو پھر آڑے ہاتھوں لیا۔ مرغ سحر نے اذان دی، صور کی طرح آواز لگائی۔ صبح کیا ہوئی گویا قیامت آئی۔ داغ جنوں کا حساب ہونے لگا، دفتر حدیث دل کھلنے لگے، نامہ اعمال دل نے قرار اور چشم اشک بار میزان امتحان میں تلنے لگے۔ عشق کے گناہ گار بندوں پر

266

عذاب ہونے لگا۔

القصہ کبھی دیو نا بکار آتا، دو ایک ساعت ملکہ پاس ٹھہرتا، پھر چلا جاتا۔ ملکہ حسن افروز رو رو کے دن بسر کرتی، رات کو تارے گن گن کر سحر کرتی۔ آرام دل کے آنے کی منتظر رہتی، فراق کے صدمے سہتی، اس کے انتظار میں ہر وقت دروازے کو تکتی۔ جب راہ دیکھتے دیکھتے دم گھبرا جاتا، جوش جنوں سے کلیجا منہ کو آتا، دیوانوں کی طرح بکتی. اسی طرح چند روز گزر گئے، مہینہ قریب الاختتام ہوا۔ اس عرصے میں آلام ہوا۔ شب و روز بہ درگاہ مجیب الدعوات اپنے حفظ آبرو کی التجا کرتی۔ اپنی بے کسی اور بے نصیبی پر زار زار روتی، لیل و نہار آہ و بکا کرتی: ذوق

گر شرح جنوں کیجے رقم اور زیادہ

ہو چاک ابھی جیب قلم اور زیادہ

267

باب 17

معلوم ہونا احوال دستبردی کرنا اس دیو بد نظر کا، اور فوج کشی کرنا پدر ملکۂ حسن افروز حور منظر کا، پھر آوارگی آرام دل مصیبت زدۂ روزگار، اور ملاقات پیر مرد خجستہ خصائل سے، پہر بہ عنایات جامع المتفرقین اور توجہ باطنی درویش کامل ملاقات ملکۂ حسن افروز حور شمائل کی، پھر دیو کی لڑائی، اُس کو جہنّم میں پہنچانا اور ملکۂ حسن افروز کو فارس میں لانا

پلا ساقیا ساغر غم زدا

کہ فرقت سے ہے حال ابتر مرا

پھنسا پنجۂ دیو غم میں ہے دل

شب و روز رہتا ہوں میں مضمحل

مدد کر مری ساغر عیش سے

رہائی ہو تا دام غم سے مجھے

نہ کیوں کر ہو دل شاد اور با سرور

کہ ہر بعد محنت کے راحت ضرور

268

سیاحان ملک معانی، و رہ نوردان صحرائے خوش بیانی احوال آوارگان دشت ادبار، روئے نادیدہ شاہد مدعا اور ستم رسیدگان روزگار کا یوں لکھتے ہیں کہ جب ملکۂ حسن افروز اور شہ زادۂ آرام دل دونوں غائب ہوئے شاہ فارس کو رنج و تعب ہوئے۔ ان کے غائب ہونے میں عقلاً ذہن لڑاتے تھے، مگر مدعا کی طرف اصلاً نہیں جاتے تھے کہ صورت خوب جہاں کو مرغوب ہے۔ حسین عالم کا محبوب ہے۔ دیو تو کیا پری بھی دیوانی ہے، اگرچہ حسن میں لاثانی ہے۔ طلسم جہاں میں یہی کارخانہ ہے۔ جن و بشر پر موقوف نہیں، یہ طبیعت کا آ جانا ہے۔

غرض بادشاہ اپنی فکر میں حیران تھے، عقلاء، وزراء پریشان کہ ایک خواص نے شاہ کے حضور میں عرض کی کہ غلام عمل علم رمل اور نجوم میں خوب ماہر ہے۔ حال ماضی اور استقبال اور اب جو مرشد زادی پر گزرا ہے، وہ سب تابعدار پر ظاہر ہے۔ ایک دیو کرناس نام کوہ البرز پر کہ وہ پہاڑ جہاں سے دس منزل جانب مشرق ہے، شہ زادی کو لے گیا ہے۔ ہم سب کو رنج و الم دے گیا ہے۔ اُس پہاڑ پر اس کا ایک مکان، عیش و نشاط کا سامان ہے۔

یہ سنتے ہی شاہ نے اسی دم وزیر اعظم کو با فوج جرّار کوہ البرز کی طرف روانہ کیا اور آپ بے قرار ہو کر بار بار بہ درگاہ قاضی الحاجات دعا کرتا۔ فقیر اہل اللہ صاحب دل لوگوں سے اپنی التجا کرتا۔

سطرے چند در صنعت منقطع الحروف

آرام دل دل دادۂ وارث داد رس (1)، رہ رو راہ ذوق، دور روز دود آرام،

رم از دردم آزردہ دل، رخ زرد، راز دار درد دل، داغ آزردۂ آواز

----

1۔ وارث داد رس مراد از ملکۂ حسن افروز دختر شا۔.

269

راغ زادئ دل، آرۂ آرزوئے دل ذرہ ذرۂ دورئ دل آرام دل آزار، دل آرام دل داغ دار وزن(1) : شعر

راہ رو در وادئ ذوق و داد داد داد از درد دوری داد داد

ورائے دل روح در آزار، آوارۂ وادئ درد روان(۲)، و رواں دار آہ

دل دوز، آب (3) زرد روزی روزہ (4) روز فقیرانہ بھیس کیے تن تنہا

آہ و بکا کرتا چلا جاتا تھا۔ ایک روز على الصبح ایک صحرائے وسیع میں گزر ہوا۔ شہ زادہ سخت متحیر ہوا۔ دیکھا کہ بیابان فراخ جون صفحۂ آسمان ہے، مگر کہیں کسی انسان یا درخت کا پتا نہیں، صاف میدان ہے۔ جاڑے کی یہ شدت ہے کہ کھیت کے کھیت اُجڑے پڑے ہیں۔ کہیں لب جُو جو دو چار جانور آبی ہیں، ہمارے سردی کے اینٹھ رہے ہیں، اکڑے پڑے ہیں۔ جو ایک آدھ ارنڈ کا درخت ہے اسے جاڑے سے جو پالا پڑا ہے اوپر سے نیچے تک گلا ہے، اندر سے باہر تک سڑا ہے۔ رات کو آسان سے برف گری ہے۔ زمین پر طبقہ زمہریر ہے۔ اس جنگل میں لطف صحرائے کشمیر ہے۔ کھیت کی جو کیاری دیکھی، کھتے کی کیاری پائی ہے۔ کنوئیں کو جو بہ غور دیکھا تو ثابت ہوا کہ کسی دہقانی برف والے نے اتنی بڑی قفلی میں پانی کی برف جمائی ہے۔ صبح کا وقت، سرد سرد ہوا، جاڑے کی یہ شدت، اس پر طرہ یہ کہ شاہ صاحب کے تن پر کپڑا نہ پاؤں میں جوتا؛ فقط ایک لنگی، اُس پر لنگوٹ؛ ایام سردی میں خصوصاً صحرا نوردی میں بھلا اُس کی کیا اوٹ۔ شہ زادہ مارے سردی کے بے چین ہوا، قدم بڑھایا، سردی سے کانپنے لگا۔ آگے بڑھتے ہی قدم لڑکھڑایا۔ سرائے کی

---

1- وزن : یعنی شعر کہ مصنف موزوں کرد۔

۲۔ روان : اے جان۔

3- آب زرد : مراد از اشک 12

4۔ روزہ روز: یعنی فاقہ مست .

270

ہوا تیر سی لگنے لگی، آتش غم دونی سلگنے لگی۔ شکم میں فارالتنور کا عالم ہوا۔ دل کیا ہر ہر استخوان ھیزم کی طرح جلنے لگا۔ آہ کے ہمراہ پیچ و تاب کھا کھا کے دھواں نکلنے لگا۔ دانت کڑ کڑ بجنے لگے۔ لب یاقوت سے نیلم ہوئے۔ عارض انور کہ ہم رنگ بہ رنگ گل تر تھے، سردی کے گزند سے برگ سوسن ہوئے۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے تھے۔ انگلیاں ٹھٹھری جاتی تھیں، جو خانۂ سنبل سے باہر نکلتی تھیں۔ اس کڑکڑاتے جاڑے میں تڑاقے کی گرمی کا مزا تھا۔ لطف تو تھا ولے جاں گزا تھا کہ جو قدم آگے پڑتا تھا، آبلۂ پا کی صراحیاں ریگ بیاباں کے شورے میں جھلتی تھیں۔ جب محمر فلک میں آفتاب کا انگارہ روشن ہوا، آرام دل کے جسم کو گرمی پہنچی، سردی کے گزند سے ایمن ہوان۔ قدم تو بڑی گرما گرمی سے اُٹھایا، مگر ناتوانی سے بڑھا نہ گیا۔ چکرا کر گرا، بے قرار ہو کر بہ اشعار زبان پر لایا : ناسخ

شوق ہے راہ طلب میں جب سے دامن گیر پا

آتی ہیں رگ ہائے پا مجھ کو نظر زنجیر پا

لے چلے ہیں کوئے جاناں سے یہ وحشت میں مجھے

وادی پُر خار پر موقوف ہے تعزیر پا

گرتے ہی ناتوانی سے غش آنے لگا۔ نالہ ہائے دل زار ستانے لگے۔ بے چین ہو کر گھبرایا۔ پاؤں جستجوئے دل دار میں تھک گئے۔ وصال یار کی طرف سے یاس ہوئی۔ رو رو کر یہ ارشاد فرمایا :

میر تقی

آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا

اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ

پانی کے بلبلے کی طرح سے بٹھا دیا

271

بسوئے کباب سوختہ آئی دماغ میں

شاید جگر کو آتش غم نے جلا دیا

اسی طرح تین شبانہ روز گزر گئے۔ حضرت عشق اپنا کام کر گئے۔ دن کی دھوپ، رات کی اوس، بے کسی اور ناتوانی پر صد ہزار افسوس! ایسے ناتوان ہوئے کہ ہل نہ سکے : میر

سر اُٹھاتے ہی ہو گئے پامال

سبزۂ نو دمیدہ کے مانند

آرام دل اپنی جان سے بیزار ہواے یار میں اس ذلت و خواری کی زیست سے شرمسار ہوا۔ ارادہ کیا کہ اب کسی کنوئیں میں آپ کو گرائے۔ دیدار یار حشر تک نہ نصیب ہو گا۔ فلک ستم شعار درپئے کین و جفا ہے۔ پھر اس جینے کو کیا کہتے ہیں ! پس اب اپنے تئیں ہلاک کیجیے، مر جائیے: محمد ابراہیم ذوق

کیوں جی کے ہجر میں ہوئے شرمندہ یار سے

اب مر رہے ہیں اس کی پشیمانیوں میں ہم

یہ سوچ کر جبراً قہراً اُٹھا۔ سامنے ایک چھپر اور کنواں نظر پڑا۔ دیکھا اُس جھونپڑی کے آگے آگ روشن ہے۔ خیال کیا شاید کسی زمیندار کا مسکن ہے۔

غرض وہ یوسف عہد چاہ سے گھبرا کر گرنے کی چاہ میں چاہ کی طرف چلا۔ لب چاہ آتے ہی جونہی چاہ میں گرنے کو چاہا، ایک آواز سنی کہ دیکھ کیا کرتا ہے؟ خدا کو بھول گیا، کیوں بے موت مرتا ہے؟ آرام دل نے یہ سن کر جان دینے سے ہاتھ اُٹھایا اور اس جھونپڑے کی طرف آیا۔ دیکھا کہ ایک عبارت منقوط : شیخ جی چپ تخت نشین نے حق حق نے بق بق جنت میں بے چین چین غضب نقش جبین فیض بخش، غیب ہیں

272

شب خیز، ذی فن، چشتی پشت، جنتی، بخشش پنج تن : بیت

ز زیب بینش جشنش بہت غش

نہ بینی تیزی جن پیش جذبش

سو سوا سو برس کا سن و سال، بھوؤں پلکوں کے سب سفید بال، تلاوت قرآن مجید میں مصروف ہیں۔ ضیا انوار سے حجرۂ تنگ و تار روشن ہے۔ صندلی رنگ ہے، گیروا پیرہن ہے، چہرۂ مبارک سے آثار بد مزاحی نمایاں ہیں۔ کسی کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہیں، ملول ہیں۔

آرام دل نے بہ کمال ادب سلام کیا۔ اُس ولی اللہ نے منہ پھیر لیا۔ پھر شہ زادے نے السّلام علیکم کہا۔ جب بھی جواب نہ دیا۔ شہ زادہ فقیر کے غضب سے ڈرا اور قدموں پر گر پڑا۔ اُس رہ بر کامل نے شہ زادے کا پاؤں پر سے سر اُٹھایا، گلے لگایا، پاس بٹھایا اور فرمایا کہ اے فرزند! بس اتنی ہی تکلیف میں تم نے کریم کار ساز کو بھلا دیا؟ مرنے پر مستعد ہوئے، ذرا صبر نہ کیا۔ ”ان اللہ مع الصابرین“ کا بھی اعتقاد دل سے اٹھا دیا۔ پر آج توقف کر، ان شا اللہ تعالیٰ على الصبح رخصت کروں گا۔

یہ سن کر شہ زادے کو گونہ تقویت ہوئی۔ رنگ زعفرانی ارغوانی ہو گیا۔ بشاش طبیعت ہوئی۔ پیر روشن ضمیر پایا، اظہار مطلب سے کچھ مطلب نہ رہا۔ سر نیاز جھکا دیا۔ دو بار قدم چومے، نعلینوں کو آنکھوں سے لگا دیا۔

دن تو یاد اللہ اور تلاوت قرآن مجید میں بسر ہوا، شام ہوتے شاہ صاحب نے کھانے کے بدلے ایک چیز ایسی آرام دل کو کھلائی کہ کھلاتے ہی شہ زادے کے جسم میں فوراً اصلی تاب و توانائی آئی۔ شہ زادے نے اس درویش کامل سے رخصت

273

چاہی۔ فقیر نے ایک قمچی ہرے بانس کی دے کر کہا کہ بابا یہ چھڑی لو اور اس کے خواص سن رکھو۔ جس دشمن پر وار کرو گے، تیغ دو پیکر کا کام کرے گی۔ رزم گاہ میں عدو کو مارے گی، تمہارا نام کرے گی۔ مقید زنجیر میں چھوا دو گے، زنجیر ٹوٹ پڑے گی۔ یہ رہا وہ گرفتار ہو جائے گا۔ جس جانور کی تسخیر کا ارادہ کرو گے، جب اس قمچی کا اشارہ کرو گے، وہ جانور مطیع اور فرماں بردار ہو جائے گا۔ کمر سے لپیٹ لو گے، طاقت پرواز ہو جاوے گی۔ جہاں چاہو جاؤ، اختیار ہے؛ ٹوٹنا جانتی نہیں۔ بے تمہارے کسی سے ہل نہ سکے گی اگرچہ سبک سار ہے۔ دشمن کی گرفتاری کو حلقہ کمند ہے۔ مریض کے بدن میں بہ نظر شفا چھوا دو گے، اکسیر کا کام کرے گی۔ دوائے دل درد مند ہے۔ جس شخص کی طرف تبدیل شکل کا قصد کر کے اس چھڑی کا اشارہ کرو گے، اس کی صورت فی الفور بدل جائے گی۔ آسیب زدہ کو دکھا دو گے، آسیب دفع ہو گا، آئی ہوئی بلا ٹل جائے گی۔ مگر خبردار اس کو اپنے پاس سے جدا نہ کرنا، نہیں تو بہت پچھتاؤ گے، پھر ایسی چیز کہیں نہ پاؤ گے ۔ اب بسم اللہ کر کے اسے کمر میں باندھو اور ملک کے پاس جانے کا ارادہ کرو۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کرناس دیو پر مظفر و منصور ہو گے۔ ملکہ کے وصال سے کام یاب اور مسرور ہو گے۔

شہ زادہ یہ سب باتیں اپنے ذھن نشیں کر کے درویش طریقت کیش کا قدم بوس ہوا اور بہت شکر ادا کیا۔ پھر شاہ صاحب نے اپنے دست مبارک سے قمچی شہ زادے کی کمر میں باندھی۔ شہ زادے نے ملکہ کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔ دل تو ادھر ہی رجوع تھا، مگر اور آمادہ کیا۔ بہ مجرد عزم کوہ البرز پر جس مکان میں وہ دل دار، دور از یار، بے یار مدد گار محبوس تھی، جا پہنچا۔ دیو کو پیام اجل آ پہنچا۔ آرام دل نے جو آنکھ اٹھائی :

274

نسیم لکھنوی :

دیکھا تو در قبول وا تھا

بے تکلف دروازے میں قدم رکھا۔ ناگاہ ایک صدائے دردناک با نالہ و آہ جان کاہ کان میں آئی کہ اے ظالم! شب ہاے فراق تو رو رو کے بسر ہوئیں، اب صبح قیامت آئی مگر افسوس تو نے خبر نہ لی۔ جان پر کیا کیا آفت نہ آئی : رند

صدمۂ ہجر سے چھوٹوں مجھے راحت ہو جائے

دم نکل جاوے کہیں جلد فراغت ہو جائے

جو میسر رہ الفت میں شہادت ہو جائے

فخر کونین ہو عاشق کی سعادت ہو جائے

آرام دل نے آواز اپنی جان کی پہچانی، گوش دل سے سنا۔ دل بر کی بے کسی اور بے بسی پر رو دیا۔ پھر یہ شعر پڑھتا ہوا شوق دیدار میں چلا : ناسخ

مردے کو جلاتی ہے تری ناز کی آواز

اعجاز کا اعجاز ہے آواز کی آواز

اندر جا کر دیکھا کہ ملکہ دالان میں بیٹھی رو رہی ہے۔ گلستان حسن میں خزاں ہے۔ سنبل سی زلف پریشان ہے۔ عارض گل برگ طمانچوں کے داغ سے رشک سوسن ہے۔ تار تار پیرہن ہے۔ نہال قد بار غم سے سرنگوں ہے۔ ضعف ہے، درد ہے، جنوں ہے۔ نرگسی چشم شبنم وار گریاں ہے۔ کسی کے انتظار میں وا ہے۔ کسی کو نگران ہے : نسیم لکھنوی :

بال اس کے وبال سے بڑھے ہیں

ناخن ہلال سے بڑھے ہیں

آرام دل دوڑ کر ہم آغوش ہوا۔ خوب چلا چلا کر رویا۔

275

ایسا رویا کہ بے ہوش ہوا۔

ملکۂ حسن افروز پہلے تو ایک فقیر برہنہ کونے تکلف اپنے پاس آتے دیکھ کر ڈری، مگر پھر بہ غور جو ملاحظہ فرمایا، اپنا آرام دل، اپنا محبوب و مائل پایا۔ دیکھتے ہی کلیجا پھڑکا۔ دل نے شاہدی دی، وہیں دھڑکا۔ پھر تو دونوں عاشق و معشوق ہم آغوش ہو کر خوب روئے۔ دفتر غم و الم مدت ہائے مدید کے دھوئے۔ روتے روتے ہچکی بندھ گئی، غش آنے لگے۔ پھر دامنوں سے آنسو پونچھ کر باہم سمجھانے لگے : مصنف

عشق نے دونوں کو جدا کر کے

پھر ملایا خدا خدا کر کے

جب بے قراری سے تسکین ہوئی، طمانیت اضطرار کی جگہ جانشین ہوئی، ملکہ نے اپنی بے کسی اور بے قراری، دیو لعین کی زبردستی اور ستم گاری، پھر اپنا حفظ جان کرنا اور اپنی آبرو اس ظالم سے بچانا، پھر اس کا گاہ گاہ آنا جانا سب حقیقت کہ سنائی اور آنسو پونچھ کر کہنے لگی کہ دیکھیے خداوند کریم مجھ گناہ گار کی کب خبر لیتا ہے؟ کس دن اس موذی بد ذات کے ہاتھ سے جان اور آبرو کے ساتھ نجات دیتا ہے؟

یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک پہاڑ کالا سامنے نظر آیا اور مانند باد تند کے دھواں دھار فلک پر چھا گیا۔ رفتہ رفتہ زمین پر اتر آیا۔ دیکھا تو عفریت پلید تھا۔ ملکہ خود تو ڈر کے مارے کوٹھری میں چلی گئی، آرام دل بہ استقلال تمام وہی بانس کی چھڑی لے کر ہوشیار ہوا۔ دیو کرناس نے آتے ہی جھنجھلا کر شہ زادے پر خنجر مارا۔ انگشتری سلیمانی سپر ہو گئی، ذرا نہ کارگر ہوا۔ پھر اس موذی نے منتر پڑھ کے پھونکے۔ ان کا بھی
 
آخری تدوین:

محمل ابراہیم

لائبریرین
ریختہ صفحہ 276

کچھ اثر نہ ہوا۔جب دیو اپنا کام کر چکا،شہزادے نے پینترا بدل کر اور کئی ہاتھ زمین سے اُچھل کر دیو کی گردن میں قمچی ماری : نسیم لکھنوی

غش کھا کے گرا زمیں پر دیو
موجود ہوئے ہزار ہا دیو
بدلی کی طرح جو اُمڈے دشمن
لاٹھی سے ہوا یہ برق خرمن
موسیٰ کا عصا تھا لٹھ جواں کا
ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکا
سرمہ کیا کوہ پیکروں کا
جی چھوٹ گیا دلاوروں کا

غرض شہزادے نے سب کو بھگایا،مار مار خوب ہنکایا۔جب سب بھاگ گئے تو دیو کرناس کی لاش پر آیا۔سر اور جسم اُس کا ایک جا کیا۔پِھر خدا کا شکر ادا کیا۔مدعاے دل بر آیا۔ملکہ کے پاس آیا اور کہا "ذرا باہر نکل کے دیکھو وہ دیو لعین اور مکار،تمہارا محرم اسرار پڑا ہے۔"ملکہ نے کہا"کیا خوب! میرے دشمنوں کا محرم اسرار ہوگا۔تمہیں کچھ سودا تو نہیں ہوا ہے جو بر رو گالیاں دیتے ہو۔خدا جانے کب کا بدلہ لیتے ہو۔واہ واہ ! تم تو خوب اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہو ۔ نئے رشتے جوڑتے ہو۔" شہزادے نے کہا "صاحب خفا کیوں ہوتی ہو،دل تودد منزل ہنسی ہنسی میں کیوں رنجور ہوا۔ہم نے تو تفریح کی ایک بات کہی تھی،اگر سچ پوچھو تو راست کی تھی۔اچّھا معاف کیجئے ،قصور ہوا۔" ملکہ نے کہا "دیکھو پھر تم وہی کہے جاتے ہو۔اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے ہو خدا کی قسم میں اپنا منہ پیٹ لوں گی۔مجھے نہ ستاؤ میں ہزاروں گالیاں دوں گی۔" شہزادے نے وہی قمچی


ریختہ صفحہ 277



اپنی کمر سے لپیٹ کر ملکہ کو آغوش میں دبا لیا اور دل میں ملک فارس جانے کا ارادہ کیا۔
ملکہ نے گود میں مچل کر کہا "وﷲ ! ہم سے نہ بولو ہمیں نہ ستاؤ۔ہم کچھ کہہ بیٹھیں گے،ہمارا زیادہ منہ نہ کھلواؤ۔ یہ فقرہ تمام نہ ہونے پایا تھا کہ دونوں موتی محل میں داخل ہوئے۔آرام دل نے کہا"صاحب بے وجہ طبع نازک پر ملال ہے۔بھلا یہ کیا موقعہ ہے،کیا محل ہے،ذرا تمہیں میرے سر کی قسم آنکھ کھول کر دیکھو تو یہ کس کا باغ ہے،کون سا محل ہے۔"
ملکہ حسن افروز غصے میں بھری بیٹھی تھی،کچھ نہ بولی،مگر موتی محل اور باغ حیات بخش کو دیکھ حیران ہوئی،دل میں کہنے لگی "کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں جو اپنا باغ اور محل اور وہی نہر اور وہی تالاب دیکھ رہی ہوں !"
یہ تو اُسی فکر میں غلطاں پیچاں رہی،وہاں کسی خواجہ سرا نے یہ خبر مسرت اثر بادشاہ کے حضور میں پہنچائی۔بادشاہ یہ خبر سنتے ہی گھبرائے ہوئے موتی محل میں آئے۔شہزادہ قدم بوس ہوا۔بادشاہ نے سر اٹھایا، دست و بازو چومے،پیشانی پر بوسہ دیا۔پِھر ملکہ کو گلے لگایا،خوب روئے،شہزادہ یہ کیفیت دیکھ کر دیوانِ عام میں تشریف لایا۔خاص محل میں جو یہ خبر معلوم ہوئی،مبارک سلامت کی ہر طرف دھوم ہوئی۔بیگم صاحبہ نے ماتمی لباس اُتارا۔خواصوں میں غوغا ہوا۔موتی محل میں جانے کے لئے شور و غل سے عجب ہنگامہ ہوا۔کوئی گھبرا کر پائنچے اٹھا کر چلنے کو تیار ہوئی،کوئی سوتے سوتے چونک پڑی،شور و غل سن کر بیدار ہوئی۔کوئی ننگے سر ، دوپٹے کا آنچل انگیا


ریختہ صفحہ 278


میں کھونس کر چڑیا کی طرح اُڑی ہوئی آئی۔کوئی انگنائی میں ننگے سر ہو کے سجدے کرنے لگی۔کوئی کوٹھے پر سے اترنے لگی۔کسی دل سوز نے گھی کے چراغ جلائے۔کسی نے اللہ پبر منائے۔کسی نے پُکارا " اری چینا !"
اُس نے جو کہا " جی آئی" تو برہم ہو کر للکارا کہ او قطامہ اِدھر آ ۔ کسی نے بلک کر کہا کہ الٰہی تیرا شکر ! کہ تونے چھوٹی بیگم کو ہم سے ملایا ۔ کوئی بولی " اری چلو بیگم صاحبہ کہتی ہوں گی کہ ﷲ ہم اتنے دنوں کے بعد آئے ، گویا ہماری دوبارہ زندگی ہوئی، مگر کوئی اب تک ہمارے دیکھنے کو بھی نہ آیا ۔" کوئی جھٹ پٹ پاندان کھولنے لگی کہ میری بیگم نے مدت سے گلوری نہ کھائی ہوگی ، ہے ہے ! کسی نے کھلائی ہوگی؟ میں تو ایک گلوری بنا کے لیے چلتی ہوں۔
غرض بیگم صاحبہ موتی محل میں تشریف لائیں ۔ قمر النساء اور ملکہ کی مانی اور خواصیں ، سہیلیاں سب آئیں ۔ ماں اپنے نورِ بسر لختِ جگر کے گلے لگ کر خوب رہی۔ ملکہ ایسی بے قرار ہوئی ، و اشک بار ہوئی کہ روتے روتے غش آیا ۔ یہ حال دیکھ کر سب کو ایک سکتہ ہو گیا ۔ عجیب ماجرائے حیرت افزا ہو گیا ۔ جب رونے دھونے سے افاقہ ہوا ملکہ کو خاص محل میں لائی ۔ جلدی جلدی صدقے اترنے لگے ۔ شہزادی کے زندہ اور سلامت آنے کی تمام شہر میں خبر مشہور ہوئی ، بلکہ تمام قلم رو میں دور دور ہوئی۔
جب سے یہ حادثہ ہوا تھا ، بادشاہ نے دربار نہیں کیا تھا ۔ تمام شہر میں ماتم تھا ۔ ہے ایک عجیب عالم تھا ۔ اُس روز صبح ہوتے ہی بادشاہ نے تخت پر جلوس فرمایا ، شہزادے کو برابر بٹھایا ۔
____________________________________________
۱۔ یہاں سے کچھ عبارت کثافت کی وجہ سے حذف کر دی گئی ہے۔




ریختہ صفحہ 279

سب وزراء ، امراء ، چھوٹے بڑے شاد ہوئے ۔ توپ خانوں میں خوشی کی ہزار ہا شلکیں دغیں ۔ محبسوں کے دروازے کھل گئے ۔ ہزاروں قیدی دائم الحبس رہا ہوئے ۔ لاکھوں بردے آزاد ہوئے ۔ خزانوں میں توڑوں کے منہ کھول دیے ۔ جنہوں نے پیسہ کبھی نہ دیکھا تھا کہ کیسا ہوتا ہے اُنہیں روپے نے گنتی دیے ۔ شہر میں ہر فرد بشر نے اپنے گھر میں جشن کیا اور ساری دولت اپنے باپ دادا کی جمع کی ہوئی ذرا سی خوشی میں لٹا دی ۔ خزانچی نے شاہ کے حکم سے پچاس لاکھ اشرفیاں بات کی بات میں اڑا دیں ۔ دوپہر تک عام دربار رہا ۔ ہے شخص آرام دل کو دیکھ کر اُس کے حسن خدا داد اور جوہر ذاتی پر دل سے نثار رہا ۔ شاہ نے دوپہر جشن جمشیدی کر کے دربار برخواست کیا اور وزیر اعظم کو انتظام شادی کا حکم دیا۔
اب سنیے کہ وزیر جو بہ موجب حکم شاہ کوہ البرز کے پتے پر بہ تلاش ملکہ حسن افروز روانہ ہوا تھا ، دس روز کی راہ چار روز میں طے کر کے اُس پہاڑ کے نیچے پہنچا ۔ ہر روز اُس مکان کے گرد پھرتا ، اندر جانے کی گھات لگاتا ، مگر کہیں دروازے کا نشان نہ پاتا : نسیم لکھنوی

اُس برج میں تھا طلسم کا ڈر
ششدر ہوا چار سمت پھر کر

آخر دیوار توڑ کر اندر گیا ۔ دیکھا کہ دیو کا سر تن سے جدا ہے ۔ شہزادی کا پتہ نہیں ۔ رومال پڑا ہے ۔ وزیر نے ملکہ کا عرق چین پہچانا اور سمجھا کہ شہزادہ آرام دل آیا ۔ اُس ملعون کو جہنم میں پہنچایا ۔ ملکہ کو لے گیا ۔ اُس نابکار کو قرار واقعی سزا دے گیا ۔ پِھر نعش کو ہاتھیوں پر بر کر کے شاہ کو

ریختہ صفحہ 280

دکھانے کے لئے لئے آیا ۔ یہاں پہنچ کر ملازمت شاہ اور شہزادۂ جہاں پناہ سے مشرف ہوا ۔ دیو کی لاش جو آئی ، تمام شہر امڈا ، چھوٹا بڑا دیکھنے چلا ۔ ہے خورد و کلاں ، پیر و جواں نے دیو پر نفرین کی ، شہزادے کی شجاعت اور کی دلیری پر تحسین کی ۔ غرض شہزادے کی قوت کا غلغلہ از ماہی تا بہ ماہ ہوا ۔ شور تھا کہ کیسا جواں مرد داماد شاہ ہوا ۔







____________________________________________
۱۔ نُسخہ مطبوعہ ۱۹۱۸ میں "خود" ہے ۔
 
Top