برائے اصلاح :کبھی ہماری جو بستا تھا یار آنکھوں میں

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:


کبھی ہماری جو بستا تھا یار آنکھوں میں
اسی کا آج بھی ہے انتظار آنکھوں میں

میں اس کو خواب میں اک بار پیار سے دیکھوں
تو لوٹ آتی ہے پھر سے بہار آنکھوں میں

شبابِ حسن مرے سامنے اگر آئے
قرار آتا ہے پھر بے قرار آنکھوں میں

اگر وہ خواب میں آنکھوں پہ ڈال دے زلفیں
تو چھوڑ پیار کا جائے دیار آنکھوں میں

اگر وہ میری نظر سے نظر ملائے ،تو پھر
دھلے غبار اور آئے نکھار آنکھوں میں

ہماری عرضِ تمنا ہے زندگی میں کبھی
ذرا سی دیر تو پھر سے گزار آنکھوں میں

تمھارے بن مجھے کچھ بھی نظر نہیں آتا
کہ چھا گیا ہے، تمھارا ہی پیار آنکھوں میں
یا
سما گیا ہے، تمھارا ہی پیار آنکھوں میں

دوا کر ے گا مسیحا بھی درد کس کس کی
ہمارے درد ہیں میثم ہزار آنکھوں میں

یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
کبھی ہماری جو بستا تھا یار آنکھوں میں
اسی کا آج بھی ہے انتظار آنکھوں میں
... پہلے مصرع کا انداز بیان بہت عجیب ہو گیا، مطلع بدل ہی دو

میں اس کو خواب میں اک بار پیار سے دیکھوں
تو لوٹ آتی ہے پھر سے بہار آنکھوں میں
.. یہ خواہش ہے تو دوسرے مصرعے میں ماضی کا صیعہ کیسے آ گیا۔ اس کو مجمفعول بنا کر یوں کہو تو دیکھو کتنا بہتر یو جاتا مجھے جو اس نے بس اک بار خواب میں دیکھا

شبابِ حسن مرے سامنے اگر آئے
قرار آتا ہے پھر بے قرار آنکھوں میں
... 'اگر' سے تو شرط پیدا یو جاتی ہے۔ 'جو آ جائے' کہو

اگر وہ خواب میں آنکھوں پہ ڈال دے زلفیں
تو چھوڑ پیار کا جائے دیار آنکھوں میں
... یہ خواہ مخواہ کی قافیہ بندی ہے، شعر نکال دو

اگر وہ میری نظر سے نظر ملائے ،تو پھر
دھلے غبار اور آئے نکھار آنکھوں میں
.. درست

ہماری عرضِ تمنا ہے زندگی میں کبھی
ذرا سی دیر تو پھر سے گزار آنکھوں میں
.. پھر سے کی بات علط لگ رہی ہے
دو ایک پل ہی سہی، تُو گزار آنکھوں میں

تمھارے بن مجھے کچھ بھی نظر نہیں آتا
کہ چھا گیا ہے، تمھارا ہی پیار آنکھوں میں
یا
سما گیا ہے، تمھارا ہی پیار آنکھوں میں
.. تمہارے بن یا تمہارے سوا! یہاں سوا بہتر ہے
سوا تمہارے مجھے کچھ نظر..
سما گیا....

دوا کر ے گا مسیحا بھی درد کس کس کی
ہمارے درد ہیں میثم ہزار آنکھوں میں
.. کس کس درد کی دوا کو اس طرح کہنا درست نہیں، پہلا مصرع بدل دو
 

یاسر علی

محفلین
اصلاح کے بعد دوبارہ
الف عین


اداس، تشنہ، شکستہ ،فگار آنکھوں میں
کبھی تو پیار ذرا سا اتار آنکھوں میں

کبھی ہماری نگاہوں میں بستا تھا ،جو شخص
اسی کا آج بھی ہے انتظار آنکھوں میں

مجھے جو اس نے بس اک بار پیار سے دیکھا
تو لوٹ آئی ہے پھر سے بہار آنکھوں میں

شبابِ حسن مرے سامنے جو آ جائے
قرار آتا ہے پھر بے قرار آنکھوں میں


اگر وہ میری نظر سے نظر ملائے تو پھر
دھلے غبار اور آئے نکھار آنکھوں میں

ہماری عرضِ تمنا ہے زندگی میں کبھی
دو ایک پل ہی سہی تو گزار آنکھوں میں

سوا تمھارے مجھے کچھ نظر نہیں آتا
سما گیا ہے تمھارا ہی پیار آنکھوں میں

طبیب کون سے، کس درد کا علاج کرے
یا
طبیب کون سے،کس درد کی دوا کرے
یا
علاج کر نہیں سکتا ، کبھی طبیب مرا
مرے جو درد ہیں میثم ہزار آنکھوں میں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع درست ہو گیا
نیا شعر
کبھی ہماری نگاہوں میں بستا تھا ،جو شخص
بستا تھا کے پہلے الف کا اسقاط برا لگ رہا ہے 'بس رہا. تھا' باندھو کسی طرح
آخری شعر یوں ہو تو؟
کرے طبیب تو کس درد کا علاج کرے
 
Top