لال مسجد اور ہمارا طرزِ عمل

ظفری

لائبریرین
لال مسجد کے سانحہ نے ہم پر جہاں کئی غور و فکر کے دروازے کھولے ہیں وہیں ایک بار پھر ہمیں خود اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا ایک اور موقع دیا ہے ۔ لال مسجد کے واقعے کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو مگر ایک بات طے ہے کہ ہم سب اپنے اپنے نظریات اور عقائد کی بناء پر اس واقعے کو اپنے اپنے اختلافات کی سطح پر رکھ کر موازنہ کر رہے ہیں ۔ جو بھی داستان یہ لکھی جا رہی ہے اس میں ہمارا ہی خون نظر آرہا ہے اور ستم یہ ہے کہ یہ داستان ہم خود لکھ رہے ہیں ۔ اور سب سے کمال کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی ان کوتاہیوں ، غلطیوں ، بدعنوانیوں ، قتل وغارت اور اختلافات کو صہیونی سازش کا ایک حصہ قرار دے رہے ہیں ۔ بالفرض ایک مان بھی لیا جائے کہ یہ سازش کہیں تیار بھی ہوئی ہے تو اس کا سب سے بڑا کردار بننے کے لیئے ہم خود تیار ہوتے ہیں ۔ اس سازش کی نوعیت گروہی ، لسانی ، فقہی وغیرہ کسی بھی شکل میں ہو مگر ہم اس کی ترغیب میں اس قدر تیزی، تندی اور مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ سازش کرنے والوں کو بھی اس رویئے پر حیرت ہوتی ہوگی ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان نظریات ، سوچوں اور جذبات کی نوعیت اور ان کا رخ کیسا بھی ہو مگر اس کا اختیام صرف ملک اور قوم کی بربادی کی صورت میں نکلنا ہے ۔ اس شدت پسندی ، روشن خیالی اور اعتدال پسندی میں کس کی جیت ہوگی ۔شاید ہی کسی کے پاس اس کا جواب ہو ۔

لال مسجد کاسانحہ رونما ہونے کے بعد میں نے اس محفل پر مختلف نظریات ، عقائد اور سوچوں کی جو جنگ دیکھی ہے ۔ اس نے ماضی میں مسلمانوں کی تباہی کی یاد ایک پھر میرے ذہن میں تازہ کردی ہے ۔ چنگیز خاں کا لشکر جب ایران کے شہر کُم پر حملہ اورہوا تو وہاں موجود شیعہ اور سنیوں نے چنگیز خاں سے خفیہ معاہدہ کیا کہ شہر میں موجود ایک گروہ کا خاتمہ کر دیا جائے تو اس کے شہر میں داخلے کے لیئے آسانیاں پیدا کر دی جائیں گی اور جب ایسا ہوا تو سب نے دیکھا کہ ان دونوں گروہوں کا ہی خاتمہ کر دیا گیا ۔
” رے ” شہر میں بھی ایسی کچھ صورتحال رہی تھی کہ شافعی اور حنفی تنازعے میں ایک مسجد کے نظرآتش کیئے جانے پر چنگیز خاں کو شہر میں اندر آنے کا موقع دیا گیا کہ ایک گروہ کا خاتمہ کیا جائے ۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ دونوں ہی گرہوں کا بیدری سے خاتمہ کیا گیا ۔
خوارزم میں بھی ایک لاکھ فوج ہونے کے باوجود علماء نے سازباز کرکے چنگیز خاں کے لیئے شہر کے دروازے کھول دیئے اور پھر پچاس ہزار سے زائد مسلمان بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کر دیئے گئے ۔ اور آج صدیوں بعد بھی سانحہ لال مسجد میں اس روایت کو زندہ کیا گیا ۔ تبصرات ، تجزیات ، عملیات اور بیانات میں وہی گروہی ، فقہی اختلافات کے ساتھ آج روشن خیالی اوراعتدال پسندی کا عنصر بھی زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے ۔ اور سب اس بحث میں الجھے ہیں کہ کس کو جاں بحق ، ہلاک اور شہید کہا جائے ۔

آج لال مسجد کا سانحہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے توکچھ مختلف نظر نہیں آتا ۔ بے شک لال مسجد والوں کا طرزِ عمل صیح نہیں تھا ۔ عوام الناس کے ساتھ اور بھی مکتبہ فکر کے لوگ نالاں تھے ۔ مگر کیا حکومت کو یہ طرزِ عمل زیب دیتا تھا کہ وہ اپنے ہی قوم پر ایسے مہلک ہتھیار کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کرتی ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ جامعہ حٍفضہ اور لال مسجد میں طلبہ و طالبات اور انتظامیہ جاہل ، گنوار ، فہم وفراست سے دور ، بھٹکے ہوئے اور غلط تھے ۔ مگر کیا وہ اس سلوک کے مستحق تھے جو ان کے ساتھ روا کیا گیا ۔ شہریوں کو بچانے کے لیئے کئی قسم کی حکمتِ عملی تیار کرنی پڑتی ہے ۔ جھوٹ بھی بولے جاتے ہیں اور انڈیا نے تو اپنے تیس چالیس شہریوں کو بچانے لیئے مولانا اظہر مسعود کو بھی آزاد کر دیا تھا ۔ لال مسجد میں ایسی کون سی قیامت آگئی تھی کہ معصوم طلباء و طالبات کو وائٹ فاسفورس جیسے مہلک ہتھیار میں جلا کر بھسم کر دیا گیا ۔

قانون کسی کو بھی ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے ۔ صحیح بات ہے مگر جو آج اس قانون کی افادیت سب کے سامنے بیان کر رہا ہے وہ خود نیب کے مقدمے میں ملوث ہے ۔اعجاز الحق اپنے والد کا مشن آگے بڑھانے کا نعرہ لگا کر قومی اسمبلی میں داخل ہوئے تھے ۔ اب وہی شخص لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں طلباء و طالبات کی برین واشنگ کا ذمہ دار غازی برادرن کو ٹہرا رہا ہے ۔ کیا اعجازالحق یہ بتائیں گے کہ خود ان دونوں بھائیوں کی برین واشنگ کب ، کہاں ، کیسے اور " کس دور " میں ہوئی ۔ ؟

ذکر اگر طرزِ عمل کا ہے تو صدام حیسن اور طالبان کا بھی طرزِ حکومت سب کے سامنے ہے ۔ مگر کیا ان کو ہٹانے کے لیئے جو طرزِ عمل اپنایا گیا جو حکمت ِ عملی منتخب کی گئی کیا وہ صحیح تھی ۔ کیا آج عراق اور افغانستان میں امن قائم ہے ۔ کیا وہاں کی عوام صدام اور طالبان دور سے بھی زیادہ محفوظ اور خوشحال ہے ۔ ؟

آج ہم اپنے مفادات کی اسیری میں جو بیانات دے رہے ہیں وہ صریحاً اختلافی نوعیت کے ہیں جن سے گروہی اور فقہی چپقلش کی بُو آرہی ہے ۔ ورنہ میں ، جو سوالات مسلسل کئی دنوں سے اٹھا رہا ہوں ۔ کوئی اس کے بارے میں بھی ضرور سوچتا اور جواب بھی دیتا ۔ مگر سب لال مسجد کے ذمہ داروں کو ہی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کے سوالات کا محل وقوع صرف غازی برادرن کے ہی گرد گھوم رہا ہے ۔ کیا کسی کے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں ۔
۔ لال مسجد میں کتنے غیر ملکی تھے ۔ کیا کسی تعلیمی ادارے میں کسی غیر ملکی کا ہونا جرم ہے ۔ ؟
۔ حکومت بار بار غیر ملکیوں کا حوالہ دیکر کس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔؟
۔ اگر وہ غیر ملکی تھے تو ان کی لاشیں کہاں ہیں ۔؟
۔ ان کی لاشیں شناخت کس نے کی ۔؟
۔ ابوذر اور القائدہ تنظیم جن کا نام لیا گیا ہے وہ کہاں گئیں اور ان کے اراکین کدھر غائب ہوگئے ۔ َ؟
۔ اگر وہ گرفتار ہوگئے ہیں تو ان کو اب تک پیش کیوں نہیں کیا گیا ۔ ؟
۔ سرنگیں کہاں گئیں اور میڈیا کی رسائی صرف مخصوص جگہوں پر ہی کیوں کی گئی ۔ ؟
۔حکومت نے جو رٹ لال مسجد کے خلاف لگائی وہی رٹ افغانستان سے متعصل پاکستانی سرحدوں پر نیٹو کی بمباری سے شہید ہونے والے پاکستانی بے گناہوں کے لیئے نیٹو کے خلاف عائد کیوں نہیں کی ۔ ؟
۔ لال مسجد کے غیر قانونی قبضہ کو بنیاد بنا کر جو قدم اٹھا گیا وہ قدم ملک بھر میں موجود لینڈ مافیا کے خلاف کیوں نہیں اٹھایا جاتا ۔ ؟
۔ حقوقِ نسواں کی علمبرداروں کو جامعہ حفصہ میں موجود حجابوں میں لپٹی ، سسکتی دم توڑتی ہوئی طالبات کیوں نظر نہیں آئیں ۔ ؟

۔ ملٹری ایکشن اور خاص کر ایسا ایکشن ہمیشہ کم مدت پر محیط ہوتا ہے کہ کم سے کم جانی نقصان ہو مگر یہ آپریشن کیوں 36 گھنٹوں تک کیا گیا ۔؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صفائی اور حقائق کو چھپانے کے لیئے اتنا وقت لیا گیا ۔ !

ایسے بہت سے سوالات ہیں شاید جن کے جوابات شاید ہی منظرِ عام پر آئیں اور حکومت کو جو طرزِ عمل اپنانا تھا وہ بخیروخوبی اپنا بھی رہی ہے ۔ صدام نے بھی کچھ ایسے ہی اقدام اٹھائے تھے مگر آج اس کا انجام سب کے سامنے ہے ۔ اور ہم سب بھی چنگیز دور کے علماء اور شہریوں کا رول اس اُمید پر ایک بار پھر ادا کر رہے ہیں کہ شاید دوسرا گروہ برباد ہوجائے گا ۔ مگر بربادی کی یہ آگ کسی ایک گھر میں نہیں ٹہر ے گی ۔ اس بات کی تاریخ شاہد ہے ۔
 

ساجداقبال

محفلین
ظفری بھائی یہ سوالات شاید تاقیامت تشنہ رہیں۔ ملٹری جمبہوریہ غائبستان دنیاوی احتساب کے تمام معیارات سے مبرا ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
جنرل اسلم بیگ بھی اس موضوع پر روشنی ڈالتی ہیں۔
op1a.gif
op1b.gif
 

سیما علی

لائبریرین
ایسے بہت سے سوالات ہیں شاید جن کے جوابات شاید ہی منظرِ عام پر آئیں اور حکومت کو جو طرزِ عمل اپنانا تھا وہ بخیروخوبی اپنا بھی رہی ہے ۔ صدام نے بھی کچھ ایسے ہی اقدام اٹھائے تھے مگر آج اس کا انجام سب کے سامنے ہے ۔ اور ہم سب بھی چنگیز دور کے علماء اور شہریوں کا رول اس اُمید پر ایک بار پھر ادا کر رہے ہیں کہ شاید دوسرا گروہ برباد ہوجائے گا ۔ مگر بربادی کی یہ آگ کسی ایک گھر میں نہیں ٹہر ے گی ۔ اس بات کی تاریخ شاہد ہے ۔

ظفری یہ بڑا حساس موضوع ۔۔ان سوالات کے کبھی جواب نہ ملیں گے؟؟؟؟؟؟اور وقت نے ثابت کیا آگ ایک جگہ نہیں ٹہری۔۔۔۔جس کا بھگتان ہم روز بھگتے ہیں۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
ظفری یہ بڑا حساس موضوع ۔۔ان سوالات کے کبھی جواب نہ ملیں گے؟؟؟؟؟؟اور وقت نے ثابت کیا آگ ایک جگہ نہیں ٹہری۔۔۔۔جس کا بھگتان ہم روز بھگتے ہیں۔۔۔
آپی ! میں نے دیکھا کہ آپ نے بہت پرانے سیاسی اور مذہبی دھاگوں کی ورق گردانی کی ہے ۔ آپ خود ہی دیکھیں کہ کیا کیا ابحاث ہوئیں ہیں ۔ اب آپ ہی کہیں کہ میں اب کیا لکھوں کہ ہر دفعہ یہ موضوعات کوئی اور یہ وہی کسی اور نام سے لیکر یہاں آجاتے ہیں ۔ یعنی کہ ضد اورانانیت کا وہ عالم ہے کہ ایک سیدھی اور صحیح بات بھی لوگ کس طرح نظرانداز کردیتے ہیں ۔ اور پھر اپنا راگ الاپتے رہتے ہیں ۔ شرمناک حد تک ضد یہی ہوتی ہے کہ ان کی بات صحیح اور سچی سمجھی جائے ۔ اور مذید بے شرمی یہ ہوتی ہے کہ اپنے دلائل اور ثبوت بھی دے نہیں پاتے مگر مجال ہو کہ اپنی بات سے پیچھے ہٹ جائیں کہ یہ دیکھنے کے بعد بھی ان کی بات دوسرے کے دلائل اور استدلال کے سامنے رد ہوچکی ہے ۔ بلکہ بعض اوقات تو جواب بھی نہیں دیتے اور کسی اور کسی ساتھ دوسری بحث شروع کردیتے ہیں ۔ اس کامظاہرہ آپ ابھی موجود دھاگے "اپنے شوہر کو دوسری شادی سے روکنے ۔۔۔۔۔" پر دیکھ چکیں ہیں ۔
 
Top