غزل برائے اصلاح

محمل ابراہیم

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین
محمد احسن سمیع:راحل
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی و دیگر اساتذہ کرام

آداب

آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے۔۔۔۔

کیا ہے آخر اسے پریشانی؟
میرے پہلو میں کیوں ہے ویرانی؟

چاہتی ہُوں کہ خوش رہوں لیکن
مجھ سے خوشیاں ہوئیں ہیں بیگانی

خون روئی تھیں میری آنکھیں پر
تم سمجھتے رہے اُسے پانی

جس کی بنتی نہیں وضاحت کچھ
مجھ کو وہ بات بھی ہے سمجھانی

میں تمہاری طبع سے واقف ہوں
مجھ کو سمجھو نہ اتنی انجانی

خواب بنتی ہیں شیش محلوں کے
میری آنکھوں کی اف یہ نادانی

آپ کی مانتی میں کیوں کر، جب
میں نے خود کی کبھی نہیں مانی

جبر نے میرے ہوش چھین لیے
اب میں ہنستی ہنسی ہوں ہذیانی

کچھ تو نظرِ کرم اِدھر کیجے
یہ سحؔر آپ کی ہے دیوانی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کیا ہے آخر اسے پریشانی؟
میرے پہلو میں کیوں ہے ویرانی؟
.... پہلو کی بہ نسبت دل تو بہتر ہے لیکن اس مصرع میں 'کیوں' لفظ سے مجھے پریشانی ہے! اس سے شعر دو لخت ہی رہتا ہے
چاہتی ہُوں کہ خوش رہوں لیکن، ہاں۔ 'نو' سے تعلق بن سکتا ہے
یعنی
میرے دل میں جو ہے یہ ویرانی

چاہتی ہُوں کہ خوش رہوں لیکن
مجھ سے خوشیاں ہوئیں ہیں بیگانی
.. درست

خون روئی تھیں میری آنکھیں پر
تم سمجھتے رہے اُسے پانی
.. پر بجائے 'مگر' اچھا نہیں لگتا، مگر سے بھی بحر میں درست رہتا ہے مصرع اگرچہ آنکھیں کی 'یں' کا اسقاط ہو جاتا ہے۔ یا الفاظ بدل کر دیکھو
جس کی بنتی نہیں وضاحت کچھ
مجھ کو وہ بات بھی ہے سمجھانی
.. ٹھیک

میں تمہاری طبع سے واقف ہوں
مجھ کو سمجھو نہ اتنی انجانی
.. طبع کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے
طبع سے میں تمہاری واقف ہوں

خواب بنتی ہیں شیش محلوں کے
میری آنکھوں کی اف یہ نادانی
.. درست

آپ کی مانتی میں کیوں کر، جب
میں نے خود کی کبھی نہیں مانی
.. درست

جبر نے میرے ہوش چھین لیے
اب میں ہنستی ہنسی ہوں ہذیانی
... دوسرے مصرعے کی بندش بہت مجہول ہو گئی ہے، شعر نکال ہی دو

کچھ تو نظرِ کرم اِدھر کیجے
یہ سحؔر آپ کی ہے دیوانی
نظر کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے
اب تو اک لطف کی نطر کیجے
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اصلاح کے بعد______

کیا ہے آخر اسے پریشانی؟
میرے دل میں جو ہے یہ ویرانی

چاہتی ہُوں کہ خوش رہوں لیکن
مجھ سے خوشیاں ہوئیں ہیں بیگانی

خوں کا دریا رواں تھا آنکھوں سے
تم سمجھتے رہے جسے پانی

جس کی بنتی نہیں وضاحت کچھ
مجھ کو وہ بات بھی ہے سمجھانی

طبع سے میں تمہاری واقف ہوں
مجھ کو سمجھو نہ اتنی انجانی

خواب بنتی ہیں شیش محلوں کے
میری آنکھوں کی اف یہ نادانی

آپ کی مانتی میں کیوں کر، جب
میں نے خود کی کبھی نہیں مانی

اب تو اک لطف کی نظر کیجے
یہ سحؔر آپ کی ہے دیوانی
 
Top